اسی تناظر میں ملاحظہ فرمایئے آج کے جنگ کا اداریہ اور خبر۔
ایٹمی پاکستان کی افواج کا پہلا شایان شان بیان!....روزن دیوار سے … عطاء الحق قاسمی
ہماری عظیم افواج پاکستان کی رسوائی کا اہتمام کسی اور نے نہیں خود اس کے ان جرنیلوں نے کیا جو منتخب حکومتوں پر شب خون مارتے تھے ۔ کمزوروں پر رعب ڈالتے تھے، طاقتوروں کے سامنے سرنڈ ر کرلیتے تھے اور عوامی مینڈیٹ کی توہین کرکے پاکستانی عوام کے دلوں میں اس ادارے کے لئے منفی جذبات پیدا کرتے تھے جو ادارہ ہمیں سب سے زیادہ عزیز ہونا چاہئے تھا کہ اس سے وابستہ لوگ ہماری آزادی کو برقرار رکھنے کے لئے اپنی جانوں کی قربانی پیش کرتے تھے۔ خدا کا شکر ہے کہ بہت عرصے کے بعد پاکستانی فوج کی قیادت ایک ایسا جرنیل کر رہا ہے جس کے اقدامات کے علاوہ جس کی باڈی لینگویج بھی یہ بتاتی ہے کہ وہ ایک سچا کھرا سپاہی ہے اور اس کا کام صرف سرحدوں کی حفاظت ہے۔ وہ نرم خو، کم گو ہے، کتابیں پڑھتا ہے،انگریزی بھی بولتا ہے مگر اپنی قومی زبانوں اور اپنی ثقافت سے بھی جڑا ہوا ہے، پینے والی چیزوں میں سے اسے صرف سگریٹ پسند ہے، وہ سگریٹ ایسے پیتا ہے جیسے یہ پینے کا حق ہے اور اس شخص کو پسند کرنے کی ایک وجہ اس کی یہ ”بلانوشی“ بھی ہے کہ خود میں بھی ”بلانوش“ واقع ہوا ہوں۔ اس شخص کا نام جنرل اشفاق پرویز کیانی ہے جس نے بہت کم وقت میں پاک فوج کے امیج کو بہتر بنانے میں بھرپور کردار ادا کیا ہے۔
گزشتہ روز جب امریکی فوج کے سربراہ ایڈمرل مائیک مولن کا یہ بیان سامنے آیا کہ امریکہ پاکستان کی حدود کے اندر بھی کارروائی کرے گا۔ یہ بیان تو بعد میں آیا اس پر عمل تین چار روز پہلے ہی شروع ہو گیا تھا۔ ان کارروائیوں اور بیان سے میرے سمیت پاکستانی قوم کا ہر فرد خود کو کسی یتیم اور لاوارث قوم کا فرد سمجھ رہا تھا۔ اسے ایسے محسوس ہوتا تھا جیسے وہ غریب کی جورو ہے جس سے ہر بدقماش شخص لبرٹی لینے کی کوشش کرتا ہے۔اس مایوسی اور ڈپریشن کی کیفیت میں ہماری افواج کے سپہ سالار جنرل کیانی نے وقت ضائع کئے بغیر اور اپنی کم گوئی کو پس پشت ڈالتے ہوئے افواج پاکستان کے Behalf پر جس ردعمل کا اظہار کیا اس سے کلیجے میں ٹھنڈ سی پڑ گئی ہے۔ جنرل نے کہا کہ سرحدوں اور ملکی سالمیت کا دفاع ہر قیمت پر کیاجائے گا، افواج پاکستان ملکی حدود میں دہشت گردوں کے خلاف کارروائیاں کررہی ہے جو جاری رہیں گی لیکن کسی غیرملکی طاقت کو یہاں سرگرمی دکھانے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
جنرل کے اس بیان پرایک مبصر کا تبصرہ بھی بہت جامع تھا۔ ن کا کہنا تھا کہ ری پبلکن گورنمنٹ کو عراق کے بعد اب افغانستان میں بھی شکست ہوتی نظر آ رہی ہے چنانچہ بش کے دو رِ صدارت کے خاتمہ سے پہلے وہ پاکستان کو قربانی کا بکرا بناتے ہوئے کوئی ایسی کامیابی حاصل کرنا چاہتی ہے جس سے اس کی ساکھ برقرار رہ سکے۔ اس تبصرے کی حقانیت اپنی جگہ لیکن صدر بش کی جسارت بھی ملاحظہ فرمائیں کہ انہوں نے ہمارے نئے صدر آصف علی زرداری کو ان کے منصب پر مبارکباد دیتے ہوئے انہیں مشورہ دیا کہ وہ ”دہشت گردی کے خلاف جنگ“ کے حوالے سے پاکستانی رائے عامہ کی پرواہ نہ کریں بلکہ صرف ملک کے مفاد کو مدنظر رکھیں۔ یہاں ”ملک“ سے ان کی مراد یقینا امریکہ ہوگا کیونکہ اس نام نہاد جنگ کے آغاز میں صدر بش نے ’گر بہ کشتن روز ِ اول“ کی پالیسی پرعمل کرتے ہوئے ہماری ”بلی“ سے سب کچھ منوا لیا تھا۔ امریکہ کی اس بلی کو تو پاکستانی قوم نے فارغ کردیا ہے مگر بش نے یہی حربہ اب ہمارے نئے صدر پر بھی آزمانے کی کوشش کی ہے۔ میرا خیال تھا کہ بش کے اس عوام دشمن بیان پر ہمارے عوام دوست صدر کا فوری ردعمل سامنے آئے گا لیکن ادھر سے ابھی تک خاموشی ہے۔ ہمارے ہاں خاموشی کو نیم رضامندی سمجھا جاتا ہے، امید ہے صدر ِ مملکت یہ تاثر دور کرنے کی کوشش کریں گے کیونکہ ہماری افواج نے اس نازک موقع پر جس قومی غیرت کا مظاہرہ کیا ہے اس حوالے سے انہیں پوری قوم اپنی پشت پر کھڑی نظر آئے گی لیکن سیاسی قیادت کا سامنے آنا ضروری ہے۔ یہ پاکستان کے علاوہ اس کی اپنی بقا کا مسئلہ بھی ہے۔ اللہ کرے کسی قسم کا کوئی وعدہ وعید ان کے رستے کی رکاوٹ نہ بنے!
میں جانتا ہوں کہ میرے کچھ ”حقیقت پسند“ دوست اس موقع پر یہ تاثر دینے کی ضرور کوشش کریں گے کہ پاکستان امریکہ کا مقابلہ کرے گا؟ کیا پدّی کیا پدّی کا شوربہ؟ ان کی یہ حقیقت پسندی اتنی غلط بھی نہیں لیکن مجھے یقین ہے کہ امریکہ ہمارے عزم کو دیکھتے ہوئے ہم پر حملہ آور ہونے کی کبھی کوشش نہیں کرے گا کیونکہ پاکستان اس کی مجبوری ہے۔ اس وقت اگر ہم اپنے تعاون سے ہاتھ کھینچ لیں تو ایک غاصب فوج کے خلاف جنگ لڑنے والے افغان چند دنوں میں افغانستان میں پھنسی ہوئی نیٹو کی افواج کا آملیٹ بنا کر رکھ دیں گے۔ اس کے علاوہ بھی پاکستان کی جغرافیائی پوزیشن ایسی ہے کہ امریکہ اس کی ناراضگی مو ل نہیں لے سکتا اورفرض کریں اگر امریکہ ہم سے ناراض ہو بھی جاتا ہے تو بھی وہ پاکستان کی سلامتی کے خلاف اس سے زیادہ اور کیا کرسکتا ہے جو وہ ہمارے سابق آرمی چیف اور اس کے سیاسی چیلوں کے ساتھ مل کرکرتا رہا ہے۔ موجودہ صورت زیادہ خطرناک ہے کہ ہمیں ایک دوسرے کے مدمقابل لا کر اندر سے توڑا جارہا ہے۔ امریکی حملے کی صورت میں ہم کم از کم ایک تو ہوں گے لیکن یہ بات میں نے محض ایک موازنہ کے طور پر کہی ہے۔
اگر ہماری فوجی اور سیاسی قیادت پوری مستقل مزاجی اور حکمت عملی کے ساتھ امریکہ کو یہ باور کرانے میں کامیاب ہوجائے کہ دہشت گردی کے خلاف یہ جنگ ہماری نہیں آپ کی ہے اور یوں اس جنگ میں آپ کے ساتھ ہماری پارٹنر شپ پاکستان کی سلامتی، اس کے وقار اور اس کی خودمختاری سے مشروط ہے، تو امریکہ ایک سمجھدار ملک ہے چنانچہ بقول جنرل کیانی وہ ایک وقتی اور محدود فائدے کے لئے خطے میں اپنے لانگ ٹرم مفادات کو خطرے میں ڈالنا پسند نہیں کرے گا!
ویسے تو مجھے آج تک یہ سمجھ نہیں آئی کہ ”دہشت گردی کے خلاف“ یہ ”جنگ“ ہے کیا بلا؟ 9/11 والی دہشت گردی کس نے کی ہے؟غاروں میں رہنے والے بے سر و سامان افغانیوں نے یا اپنے مسائل میں گھرے ہوئے پاکستانیوں نے؟ القاعدہ کے جن رہنماؤں کی آپ کو تلاش ہے وہ سب کے سب عرب ہیں اور ”ملّا ٹائپ“ ہیں 9/11 کی ”ایف آئی آر“ میں الزام بھی انہی کو دیا گیا ہے لیکن چڑھائی آپ نے افغانستان اور پاکستان پر کر رکھی ہے ؟ اگر یہ ”دہشت گرد“ اتنے بڑے سائنسدان تھے اور اتنے قابل اور منظم تھے کہ انہوں نے 9/11 جیسا آپریشن امریکہ جیسے ترقی یافتہ ملک میں اتنی سہولت سے کرلیا تو آپ دشمن کے عیبوں پر اتنا پردہ ڈالنے والے کب سے ہوگئے کہ آج تک اس کی تحقیقاتی رپورٹ سامنے نہیں آنے دی۔
پاکستان اور افغانستان میں بم دھماکے ہو رہے ہیں، خودکش حملے ہو رہے ہیں، جن میں اب تک ہزاروں بیگناہ شہری شہید ہوچکے ہیں۔ یہ لوگ ہماری پولیس اور ہماری فوج پر بھی حملے کرتے ہیں لیکن کیا وجہ ہے کہ پاکستان کے اردگرد کی ریاستوں میں آج تک کسی کی نکسیر بھی نہیں پھوٹی۔ حالانکہ وہاں گورے آزادی سے گھومتے پھرتے ہیں اور وہاں جگہ جگہ امریکی اڈے ہیں، خود امریکہ اور یورپین ممالک میں ان ”مجاہدوں“ نے 9/11 کے بعد آج تک کوئی قابل ذکر کارروائی نہیں کی، جبکہ یہ لوگ ہماری مسجدوں پر بھی حملہ آور ہوتے ہیں۔ کیا یہ ساری پلاننگ اس لئے تو نہیں کہ ”دہشت گردی کے خلاف جنگ“ کو ہم اپنی جنگ سمجھنے پر مجبور ہوجائیں؟ صدر بش نے تو میرے اور پاکستانی قوم کے اس خدشے کی بالواسطہ طور پرتصدیق بھی کر دی ہے۔ انہوں نے اپنے ایک حالیہ بیان میں کہا ہے کہ دہشت گرد کراچی اور اسلام آباد میں بیگناہوں کو مار رہے ہیں چنانچہ اب یہ جنگ صرف امریکہ کی نہیں پاکستان کی بھی ہے۔ آپ صحیح فرماتے ہیں مگر سوال یہ ہے کہ
سوال تو بہت سے ہیں تاہم ایک سوال کی الجھن زیادہ ہے اور وہ یہ کہ جب کبھی پاکستان دہشت گردی پرقابو پانے کے لئے قبائلیوں کے ساتھ کوئی امن معاہدہ کرتا ہے تو آپ اس سے اگلے روز ہی اس علاقے پر بمباری کرکے اس امن معاہدے کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کیوں کرتے ہیں۔
کہیں پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی کی کارروائیوں کا ایک مقصد پاکستان کی فوج اور حکومت کو عوامی حمایت سے محروم کرکے اس کے ایٹمی اثاثوں پر قبضہ کرنا بھی تو نہیں؟ لیکن یاد رکھیں ایسا کبھی نہیں ہوگا۔ وہ جنرل چلا گیا جو آپ کے اشاروں پر ناچتا تھا۔ اب آپ کا سامنا ایک آزاد پاکستان اور اس کے آزادی پسند عوام سے ہے لہٰذا اب آپ نے جو بھی کرنا ہو وہ ذرا سوچ سمجھ کرکیجئے گا!
سرحدوں کی خلاف ورزی پر فوج کو جوابی کارروائی کے احکام دیدیئے گئے
سلام آباد(ٹی وی رپورٹ)افواج پاکستان کے ترجمان نے کہا ہے کہ غیر ملکی افواج کی پاکستانی سرحدوں کی خلاف ورزی کی صورت میں پاک فوج کو جوابی کاروائی کے احکامات دے دیے گئے ہیں،امریکہ پر واضح کردیا کہ عسکریت پسندوں کے خلاف خود ایکشن لیں گے۔برطانوی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے میجر جنرل اطہر عباس نے کہا کہ امریکی فوج پر واضح کردیاگیا ہے کہ اس کے ساتھ تعاون کے معاہدے میں سرحد پار مداخلت کی کوئی گنجائش نہیں ہے،ہم نے اتحادی فوج کو بتادیا ہے اب اگر ایسا کوئی واقعہ ہوا تو دفاع کا حق محفوظ رکھتے ہیں۔جب ان سے سوال کیا گیا کہ کیا امریکی حملے کا باضابطہ جواب دیا جائے گا تو انہوں نے کہا کہ ہاں یہی احکامات ہیں کہ اگر اب پاکستانی علاقوں میں مداخلت ہوئی تو سرحدی فوجیں جوابی کاروائی کریں گی۔نیٹو فوج کو تیل کی فراہمی روکنے کے سوال پر ترجمان نے موٴقف اختیارکیا کہ اس کا فیصلہ حکومت کرے گی،ہم یہ دیکھیں گے کہ اتحادی فوج کی طرف سے خلاف ورزی کب اور کس نوعیت کی ہوتی ہے۔اس سوال پر کہ کیا پاکستان آئندہ امریکہ کے ساتھ حالت جنگ میں ہوگا ترجمان نے کہا کہ وہ اس بارے میں کچھ کہنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں اسکا فیصلہ فوج نہیں حکومت کرے گی۔انہوں نے کہاکہ ہم نے امریکہ پر واضح کردیاکہ عسکریت پسندوں کے خلاف خود ایکشن لیں گے کیونکہ ہم نے پچھلے دنوں کی گئی کاروائیوں میں بڑی کامیابیاں حاصل کی ہیں۔
پاکستان میں امریکی حملوں کی پالیسی، برطانیہ حامی،نیٹو مخالف
لندن، برسلز (جنگ نیوز) برطانیہ اور افغانستان نے پاکستان میں امریکی حملوں کی پالیسی کی حمایت کی ہے جبکہ نیٹو نے دہشت گردی کیخلاف اس نئی امریکی حکمت عملی کا حصہ بننے سے صاف انکار کردیا ہے۔ لندن میں امریکی صدر جارج ڈبلیو بش کے ساتھ مشترکہ ویڈیو کانفرنس سے خطاب سے قبل 10 ڈاؤننگ اسٹریٹ میں صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے برطانوی وزیر اعظم گورڈن براؤن نے کہا کہ پاک افغان سرحد پر طالبان کی سرگرمیوں کو روکنے کیلئے نئی حکمت عملی اپنانے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان پر دباؤ ڈالا جائیگا کہ وہ قبائلی علاقوں میں کارروائی کی اجازت دے، دہشت گردی پاکستان اور امریکا کا مشترکہ مسئلہ ہے اور ہمیں اس سے نمٹنے کیلئے بھی مشترکہ حکمت عملی اختیار کرنا ہوگی۔ انہوں نے بتایا کہ پاکستان کے نئے صدر آصف زرداری کو انہوں نے فون پر مبارکباد دی ہے اور انہیں آئندہ ہفتے برطانیہ دورے کی دعوت دی ہے، جب وہ برطانیہ آئیں گے تو ان سے کہا جائیگا کہ وہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ساتھ دیں۔ دوسری جانب افغان صدر حامد کرزئی نے بھی پاکستان میں کارروائی کیلئے امریکی حکمت عملی کی حمایت کی ہے۔ کابل میں صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے افغان صدر نے کہا کہ ہم نے تقریباً ساڑھے تین سال قبل امریکا کو یہی تجویز دی تھی اور ان سے کہا تھا کہ وہ دہشت گردی کیخلاف جنگ سے متعلق اپنی توجہ پاکستان پر مرکوز رکھیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم اس نئی امریکی حکمت عملی کی حمایت کرتے ہیں، ہمارا موقف صاف اور واضع ہے، ہمیں مشترکہ طور پر دہشت گردوں کے تربیتی مراکز اور محفوظ ٹھکانوں کو تباہ کرنا ہوگا۔ دوسری جانب برسلز میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے نیٹو افواج کے ترجمان جیمس اپاتھورائی نے نئی امریکی حکمت عملی کی مخالفت کرتے ہوئے کہا ہے کہ نیٹو پاکستان میں حملوں سے متعلق امریکی تجویز میں شامل نہیں ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ ہماری پالیسی واضح ہے، ہم مینڈیٹ کے مطابق کام کرتے ہیں اور یہ مینڈیٹ افغان سرحد پر ختم ہوجاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ 18 اور 19 ستمبر کو لندن میں نیٹو کے وزرائے دفاع کا اجلاس ہو رہا ہے جس میں امریکا کی پاک افغان سرحد سے متعلق نئی حکمت عملی پر بحث کی جائے گی لیکن جو بات ہم واضح کرنا چاہتے ہیں وہ یہ ہے کہ ہم اپنی فوج پاکستان نہیں بھیجیں گے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کو بین الاقوامی برادری اور افغانستان کے ساتھ مل کر اس خطرے سے نمٹنے کیلئے موثر اقدامات کرنا چاہئیں جس کا اسے سامنا ہے۔ دوسری جانب امریکی اخبار نیو یارک ٹائمز نے ایک رپورٹ میں اعلیٰ ترین امریکی عہدیدار کے حوالے سے بتایا ہے کہ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں صورتحال نا قابل برداشت ہو چکی ہے اور اس سلسلے میں امریکی صدر جارج ڈبلیو بش نے جولائی میں امریکی کمانڈوز کو پاکستان میں زمینی کارروائی کی اجازت دی تھی۔ نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر امریکی عہدیدار نے بتایا کہ احکامات جاری ہونے کے بعد ہمیں جارحانہ رویہ اختیار کرنا پڑ رہا ہے، اس سلسلے میں جب بھی پاکستان میں کوئی کارروائی کی جائے گی اس کے بارے میں پاکستان کو آگاہ کردیا جائیگا اور اجازت طلب نہیں کی جائے گی۔ سینئر امریکی عہدیدار کا کہنا ہے کہ پاکستانی حکومت نے خفیہ طور پر امریکا کی اسپیشل آپریشن فورسز کو محدود زمینی کارروائی کی اجازت دی ہے تاہم یہ اجازت ہر کارروائی کیلئے نہیں ہے۔ انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ پاکستانی حکومت کے کس عہدیدار نے اس طرح کی اجازت دی۔ انہوں نے کہا کہ صورتحال نازک ہے کیونکہ پاکستان خود دہشت گردوں کی نرسریاں تباہ نہیں کر پا رہا۔ نیو یارک ٹائمز کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں امریکی فوج کی جانب سے کسی بھی نئی زمینی کارروائی سے امریکی فوجیوں کو قتل کئے جانے یا ان کی اغوا کے امکانات بڑھ جائیں گے۔ پاکستان کے صدر آصف زرداری چاہتے ہیں کہ پاک فوج قبائل میں عسکریت پسندوں کیخلاف جارحانہ کارروائی کرتے لیکن وہ اس بات کا خطرہ مول نہیں لے سکتے کہ انہیں بھی پرویز مشرف کی طرح امریکا کے خاص آدمی کی طرح دیکھا جائے۔