’کیانی ہچکچاتے رہے، آپریشن کو ٹالتے رہے جس سے بہت نقصان اٹھایا‘

حاتم راجپوت

لائبریرین
111028042142_athar_abbas.jpg

ہم نے اس پر بہت وقت ضائع کر دیا ہے جس سے ہم سب کی مشکلات بڑھی ہیں: اطہر عباس

پاکستان کی فوج کے سابق ترجمان میجر جنرل ریٹائرڈ اطہر عباس نے کہا ہے کہ فوج نے تین برس قبل شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا تاہم اس وقت کے فوجی سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی کی ہچکچاہٹ کے باعث یہ کارروائی نہ کی جا سکی۔
بی بی سی کے ساتھ انٹرویو میں جنرل اطہر عباس نے کہا کہ فوجی قیادت نے 2010 میں اس آپریشن کے حق میں فیصلہ دے دیا تھا جس کے بعد ایک سال فوجی کارروائی کی تیاری کی گئی لیکن عین موقعے پر جنرل کیانی کی جانب سے فیصلہ کرنے میں تذبذب کے باعث یہ آپریشن نہیں ہو سکا۔

’شمالی وزیرستان کو جنگ سے دور رکھا‘
فوج میں یہ اصولی فیصلہ ہو چکا تھا کہ 2010 سے 2011 تک شمالی وزیرستان میں آپریشن کی تیاری کی جائے گی اور اسی سال یہ آپریشن کر لیا جائے گا اور اس علاقے کو شدت پسندوں سے صاف کر دیا جائے گا۔‘
اس سوال پر کہ جنرل کیانی نے آپریشن کے حق میں حتمی فیصلہ کیوں نہیں دیا، کیا اس میں ان کی ذاتی کمزوریوں کا دخل تھا، سابق فوجی ترجمان نے کہا کہ یہ تاثر عمومی طور پر درست ہے۔
’’ان میں شمالی وزیرستان میں آپریشن کرنے کے بارے میں ایک طرح کی ہچکچاہٹ پائی جاتی تھی۔ وہ یہ فیصلہ کرنے میں بہت تامل کر رہے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ یہ فیصلہ کرنے سے ان کی ذات کے بارے میں باتیں کی جائیں گی۔ کہا جائے گا کہ یہ جنرل کیانی کا ذاتی فیصلہ تھا۔ اس لیے وہ اس فیصلے کو ٹالتے رہے۔ جس کی وجہ سے ہم نے بہت وقت ضائع کیا اور نقصان اٹھایا۔‘‘


’’وہاں زمین پر موجود فوجی کمانڈروں کی متفقہ رائے تھی کہ
شمالی وزیرستان میں فوجی کارروائی کے بغیر ملک میں امن
قائم نہیں ہو سکتا کیونکہ ہر طرح کے شدت پسند اسی علاقے
میں جمع ہو چکے تھے"

اطہر عباس


جنرل اطہر عباس نے کہا کہ اس شش و پنج میں بدقسمتی سے بہت وقت ضائع ہو گیا جس کی بھاری قیمت اس ملک، عوام، حکومت اور فوج کو ادا کرنی پڑی۔
’’اس تاخیر کی وجہ سے شدت پسندوں کے قدم مضبوط ہو چکے ہیں، ان کی تعداد بڑھ گئی ہے، ان کے وسائل میں اضافہ ہو چکا ہے، ان کے آپس میں رابطے بڑھ چکے ہیں اور میرا خیال ہے کہ وہاں پر معاملات زیادہ پیچیدہ ہو گئے ہیں۔‘‘
سابق فوجی ترجمان کے مطابق فوج کی اعلیٰ قیادت نے شمالی وزیرستان میں فوجی کارروائی کا فیصلہ وہاں پر تعینات فوجی کمانڈروں کی رائے اور وہاں سے ملنے والی انٹیلی جنس رپورٹوں کی بنیاد پر کیا تھا۔
130813213840_general_kayani304.gif

’جنرل کیانی کا خیال تھا کہ یہ فیصلہ کرنے سے ان کی ذات بارے میں باتیں کی
جائیں گی‘

’’وہاں زمین پر موجود فوجی کمانڈروں کی متفقہ رائے تھی کہ شمالی وزیرستان میں فوجی کارروائی کے بغیر ملک میں امن قائم نہیں ہو سکتا کیونکہ ہر طرح کے شدت پسند اسی علاقے میں جمع ہو چکے تھے۔‘‘
جنرل اطہر عباس نے کہا کہ اس سے پہلے شمالی وزیرستان میں فوجی کارروائی کرنے کے بارے میں فوج کی اعلیٰ قیادت میں دو آرا پائی جاتی تھیں۔ ایک رائے اس کارروائی کے حق میں تھی جب کہ دوسرے گروہ کا خیال تھا کہ اس کارروائی کو ملتوی کیا جا سکتا ہے۔
’’اس کی بہت سی وجوہات تھیں جن میں حقانی نیٹ ورک بھی شامل تھا کہ انھیں کیسے ہینڈل کیا جائے۔ اس کے علاوہ فوجی کارروائی کے متاثرین کا مسئلہ بھی بہت اہم تھا۔‘‘
اطہر عباس نے کہا کہ فوجی قیادت کی رائے تھی کہ حکومت اور ملک کی سیاسی قیادت نے 2009 میں سوات سے نقل مکانی کرنے والوں کا ٹھیک طرح سے خیال نہیں رکھا تھا اور خدشہ تھا کہ شمالی وزیرستان سے بھی بڑی تعداد میں لوگ نقل مکانی کریں گے۔

’’ان عوامل کی وجہ سے شمالی وزیرستان میں فوجی کارروائی تاخیر کا شکار ہوتی رہی اور اس کی ہم سب نے بھاری قیمت ادا کی۔‘‘

131129094403_raheel_kayani_change_of_command_304x171_afp.jpg

29 نومبر 2013 میں پاکستانی فوج کے نئے سربراہ جنرل راحیل شریف نے باضابطہ
طور پر بری فوج کی کمان سنبھال لی تھی۔

اطہر عباس کے مطابق امریکہ نے بھی شمالی وزیرستان میں آپریشن کے معاملے پر فوج کے لیے مشکلات پیدا کیں:

’’امریکہ سے ہر روز ایسے بیانات آتے تھے جس سے ظاہر ہوتا تھا کہ امریکہ شمالی وزیرستان میں آپریشن کے لیے فوج پر دباؤ ڈال رہا ہے۔ ہم امریکیوں کو یہ بتاتے رہے کہ اس طرح کے بیانات ہماری مدد نہیں کر رہے بلکہ ہمارے لیے یہ فیصلہ کرنے میں مزید مشکل کا باعث بن رہے ہیں کیونکہ اگر ہم یہ فیصلہ کر لیتے تو اس سے یہی تاثر ملتا کہ یہ کارروائی امریکہ کی خواہش پر کی جا رہی ہے۔‘‘

میجر جنرل ریٹائرڈ اطہر عباس نے کہا کہ شمالی وزیرستان میں حالات آج بھی ویسے ہی ہیں جیسے 2010 میں تھے اس لیے اگر آج آپریشن کیا جا رہا ہے تو اس وقت بھی کیا جا سکتا تھا۔

’’میری ذاتی رائے میں یہ کارروائی 2011 میں ہو جانی چاہیے تھی۔ ہم نے اس پر بہت وقت ضائع کر دیا ہے جس سے ہم سب کی مشکلات بڑھی ہیں۔‘‘

بی بی سی اردو ۔
 
کل جب یہ خبر ٹی وی پر چلی تو میرے زہن میں فوراً یہ خیال آیا کہ کیا اطہر عباس کو اپنے سابقہ کمانڈر انچیف کے بارے ایسی باتیں کرنی چاہئے تھیں؟ جب کہ اس وقت فوج کو عمومی طور پر اخلاقی سپورٹ کی بھی ضرورت ہے؟
جب کیانی چیف بنا تو اس وقت ایک فوجی افسر نے بتایا کہ اس کی شہرت ایک اچھے پروفیشنل فوجی کی ہے۔
 

حاتم راجپوت

لائبریرین
میرا نہیں خیال کہ ایسے وقت میں فوج کی اخلاقی سپورٹ میں کوئی فرق پڑے گا۔ مثبت چیز یہ ہے کہ عوام کو حقیقت کا ادراک ہوا ہے اور فوج کو آئندہ شخصی فیصلوں سے زیادہ بحیثیت ادارہ فیصلے کرنے پڑیں گے ۔ خاص طور پر جب معاملہ قومی سلامتی کا ہو۔ اور آج کل دہشت گردی کے تمام مسائل کسی نہ کسی طرح قومی سلامتی سے جڑے ہیں۔
 
کل جب یہ خبر ٹی وی پر چلی تو میرے زہن میں فوراً یہ خیال آیا کہ کیا اطہر عباس کو اپنے سابقہ کمانڈر انچیف کے بارے ایسی باتیں کرنی چاہئے تھیں؟ جب کہ اس وقت فوج کو عمومی طور پر اخلاقی سپورٹ کی بھی ضرورت ہے؟
جب کیانی چیف بنا تو اس وقت ایک فوجی افسر نے بتایا کہ اس کی شہرت ایک اچھے پروفیشنل فوجی کی ہے۔
مشرف بھی اسی فوج کا سابقہ کمانڈر انچیف ہے۔۔۔۔تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
 
میرا نہیں خیال کہ ایسے وقت میں فوج کی اخلاقی سپورٹ میں کوئی فرق پڑے گا۔ مثبت چیز یہ ہے کہ عوام کو حقیقت کا ادراک ہوا ہے اور فوج کو آئندہ شخصی فیصلوں سے زیادہ بحیثیت ادارہ فیصلے کرنے پڑیں گے ۔ خاص طور پر جب معاملہ قومی سلامتی کا ہو۔ اور آج کل دہشت گردی کے تمام مسائل کسی نہ کسی طرح قومی سلامتی سے جڑے ہیں۔
فیصلے تو فوج کے اندرونی ڈھانچے اور چین آف کمانڈ کے مطابق ہی ہونگے اور ہونے بھی چاہئیں۔
البتہ یہ ہوسکتا ہے کہ موجودہ اور آئندہ آرمی چیف پچھلوں کی غلطیوں سے سبق سیکھیں۔
 

صائمہ شاہ

محفلین
مجھے آج تک یہ سمجھ نہیں آیا کہ ابتری کے اس دور میں جنرل کیانی نے کیا کردار ادا کیا ، اب تک کی تمام گورنمنٹس میں سے زرداری کا دور شائد فرعون کے دور سے خاصی مماثلت رکھتا ہے مگر اس کے باوجود بھی کیانی صاحب نے لو پروفائل رکھا باقی رہا یہ آپریشن تو یہ بھی غریب مکاو آپریشن بن گیا دہشت گردوں کو اتنا وقت دیا گیا کہ وہ اپنا سامان تک بیچتے رہے اپنی دوکان بڑھانے سے پہلے تو آخر آپریشن کا حاصل کیا تھا غریبوں کو بے گھر کرنا ؟
 

حاتم راجپوت

لائبریرین
مجھے آج تک یہ سمجھ نہیں آیا کہ ابتری کے اس دور میں جنرل کیانی نے کیا کردار ادا کیا ، اب تک کی تمام گورنمنٹس میں سے زرداری کا دور شائد فرعون کے دور سے خاصی مماثلت رکھتا ہے مگر اس کے باوجود بھی کیانی صاحب نے لو پروفائل رکھا باقی رہا یہ آپریشن تو یہ بھی غریب مکاو آپریشن بن گیا دہشت گردوں کو اتنا وقت دیا گیا کہ وہ اپنا سامان تک بیچتے رہے اپنی دوکان بڑھانے سے پہلے تو آخر آپریشن کا حاصل کیا تھا غریبوں کو بے گھر کرنا ؟
تو آپ کی رائے میں یہ آپریشن غیرمناسب ہے اور صرف دکھاوا ہے؟؟
 
جاری آپریشن تو ہونا چاہئے اور اچھے طریقے سے مکمل ہونا چاہئے مگر دہشت گردی کے خلاف جنگ اس آپریشن سے مکمل نہیں ہوگی۔
 

صائمہ شاہ

محفلین
تو آپ کی رائے میں یہ آپریشن غیرمناسب ہے اور صرف دکھاوا ہے؟؟
دہشت گردوں کے فرار کے بعد آپریشن کس بات کا اور کیا مقصد ؟ کیا فوج کو نہیں پتہ کہ لشکر جھنگوی اور دیگر طالبانی گروہوں کے ٹھکانے کہاں ہیں وزیرستان سے بھاگ کر کہاں پناہ لے رہے ہیں ؟ اور اگر نہیں پتہ تو ایسے تمام آپریشنز بیکار ہیں ایک ٹھکانہ تباہ کرنے سے دہشت گرد ختم نہیں ہوتے دوسرا ٹھکانہ ڈھونڈ لیتے ہیں ضرورت دہشت گردوں کو ختم کرنے کی ہے ٹھکانوں کو ختم کرنے کی نہیں ۔
 
آخری تدوین:
مقامی افراد کی نقل مکانی اور ان کو مناسب سہولتوں کی فراہمی میں بد ترین کوتاہیاں ،اپریشن میں تاخیر، دہشت گردوں کا فرار وغیرہ اپنی جگہ لیکن اپریشن کا فیصلہ درست ہے دیر اید درست اید
 

x boy

محفلین
آپریشن کراچی میں بھی ہونا چاہئے بتھہ خورو اور قبضہ مافیا نے ناک میں دم کیا ہوا ہے
 
آخری تدوین:
تو آپ کی رائے میں یہ آپریشن غیرمناسب ہے اور صرف دکھاوا ہے؟؟

17 فوجی جاں بحق ہوئے وہ کیا دکھاوا ہے؟

ایک فوجی جنرل ڈبل کھیل کھیل رہا تھا ۔ دوسرے فیصلے کرنے میں ہچکچارہا تھا۔ عجب کھیل ہے
جنگ جیسے سنجیدہ معاملات اور حکومت کبھی فوج کے ہاتھ میں نہیں دینی چاہیں۔
 

حاتم راجپوت

لائبریرین
دہشت گردوں کے فرار کے بعد آپریشن کس بات کا اور کیا مقصد ؟ کیا فوج کو نہیں پتہ کہ لشکر جھنگوی اور دیگر طالبانی گروہوں کے ٹھکانے کہاں ہیں وزیرستان سے بھاگ کر کہاں پناہ لے رہے ہیں ؟ اور اگر نہیں پتہ تو ایسے تمام آپریشنز بیکار ہیں ایک ٹھکانہ تباہ کرنے سے دہشت گرد ختم نہیں ہوتے دوسرا ٹھکانہ ڈھونڈ لیتے ہیں ضرورت دہشت گردوں کو ختم کرنے کی ہے ٹھکانوں کو ختم کرنے کی نہیں ۔
درست۔ تو اس بات کی ضمانت کیا ہے کہ فوج انٹیلی جنس کی اطلاعات کے مطابق دہشت گردوں پر حملہ کرے گی اور وہ وہاں سے بھی فرار نہیں ہو جائیں گے؟ آپ کی ہی بات کے مطابق اگر ٹھکانوں کو ختم کرنے کی ضرورت نہیں تو فوج کے علم میں آئے ہوئے لشکر جھنگوی اور طالبانی ٹھکانوں کا کیا مصرف؟ اور اگر دہشت گردوں کو ان کے ٹھکانوں سے ختم نہیں کرنا تو کہاں سے ختم کرنا ہے؟
طاقت کے زور پر طالبان و دیگر انتہا پسند عناصر کی فزیکل باڈی کو شکست دی جا سکتی ہے جس کی مدد سے وہ دہشت گردی کی مذموم کاروائیاں کرتے رہے ہیں۔
باقی یہ کہ انتہا پسند طالبانی سوچ کو طاقت سے ختم نہیں کیا جا سکتا صرف نظریے سے شکست دی جا سکتی ہے اور ایسے پر امن نظریے کے پرچار کیلئے حکومت کو علماء دین سے مدد طلب کرنی چاہئے۔ تا کہ عوامی شعور بیدار ہو سکے۔ میری نظر میں معاشرے کی انتہا پسندی آنکھ جھپکتے ہی مکمل تبدیل نہیں ہو سکتی اور اس کے لیے کچھ وقت تو درکار بہرحال ہو گا ۔ اس وقت میں عوام اور قوم کی سلامتی کیلئے دہشت گردوں کی کمر توڑنا بہرحال ضروری ہے جس کا اہتمام کیا جا رہا ہے۔ اس اہتمام پر تنقید ہونی چاہئے لیکن برائے تنقید کا کوئی مفید مصرف اگر کوئی ہے تو میری سمجھ میں نہیں آتا۔
 
Top