حاتم راجپوت
لائبریرین
ہم نے اس پر بہت وقت ضائع کر دیا ہے جس سے ہم سب کی مشکلات بڑھی ہیں: اطہر عباس
پاکستان کی فوج کے سابق ترجمان میجر جنرل ریٹائرڈ اطہر عباس نے کہا ہے کہ فوج نے تین برس قبل شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا تاہم اس وقت کے فوجی سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی کی ہچکچاہٹ کے باعث یہ کارروائی نہ کی جا سکی۔
بی بی سی کے ساتھ انٹرویو میں جنرل اطہر عباس نے کہا کہ فوجی قیادت نے 2010 میں اس آپریشن کے حق میں فیصلہ دے دیا تھا جس کے بعد ایک سال فوجی کارروائی کی تیاری کی گئی لیکن عین موقعے پر جنرل کیانی کی جانب سے فیصلہ کرنے میں تذبذب کے باعث یہ آپریشن نہیں ہو سکا۔
’شمالی وزیرستان کو جنگ سے دور رکھا‘
فوج میں یہ اصولی فیصلہ ہو چکا تھا کہ 2010 سے 2011 تک شمالی وزیرستان میں آپریشن کی تیاری کی جائے گی اور اسی سال یہ آپریشن کر لیا جائے گا اور اس علاقے کو شدت پسندوں سے صاف کر دیا جائے گا۔‘
اس سوال پر کہ جنرل کیانی نے آپریشن کے حق میں حتمی فیصلہ کیوں نہیں دیا، کیا اس میں ان کی ذاتی کمزوریوں کا دخل تھا، سابق فوجی ترجمان نے کہا کہ یہ تاثر عمومی طور پر درست ہے۔
’’ان میں شمالی وزیرستان میں آپریشن کرنے کے بارے میں ایک طرح کی ہچکچاہٹ پائی جاتی تھی۔ وہ یہ فیصلہ کرنے میں بہت تامل کر رہے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ یہ فیصلہ کرنے سے ان کی ذات کے بارے میں باتیں کی جائیں گی۔ کہا جائے گا کہ یہ جنرل کیانی کا ذاتی فیصلہ تھا۔ اس لیے وہ اس فیصلے کو ٹالتے رہے۔ جس کی وجہ سے ہم نے بہت وقت ضائع کیا اور نقصان اٹھایا۔‘‘’’وہاں زمین پر موجود فوجی کمانڈروں کی متفقہ رائے تھی کہ
شمالی وزیرستان میں فوجی کارروائی کے بغیر ملک میں امن
قائم نہیں ہو سکتا کیونکہ ہر طرح کے شدت پسند اسی علاقے
میں جمع ہو چکے تھے"
اطہر عباس
شمالی وزیرستان میں فوجی کارروائی کے بغیر ملک میں امن
قائم نہیں ہو سکتا کیونکہ ہر طرح کے شدت پسند اسی علاقے
میں جمع ہو چکے تھے"
اطہر عباس
جنرل اطہر عباس نے کہا کہ اس شش و پنج میں بدقسمتی سے بہت وقت ضائع ہو گیا جس کی بھاری قیمت اس ملک، عوام، حکومت اور فوج کو ادا کرنی پڑی۔
’’اس تاخیر کی وجہ سے شدت پسندوں کے قدم مضبوط ہو چکے ہیں، ان کی تعداد بڑھ گئی ہے، ان کے وسائل میں اضافہ ہو چکا ہے، ان کے آپس میں رابطے بڑھ چکے ہیں اور میرا خیال ہے کہ وہاں پر معاملات زیادہ پیچیدہ ہو گئے ہیں۔‘‘
سابق فوجی ترجمان کے مطابق فوج کی اعلیٰ قیادت نے شمالی وزیرستان میں فوجی کارروائی کا فیصلہ وہاں پر تعینات فوجی کمانڈروں کی رائے اور وہاں سے ملنے والی انٹیلی جنس رپورٹوں کی بنیاد پر کیا تھا۔
’جنرل کیانی کا خیال تھا کہ یہ فیصلہ کرنے سے ان کی ذات بارے میں باتیں کی
جائیں گی‘
’’وہاں زمین پر موجود فوجی کمانڈروں کی متفقہ رائے تھی کہ شمالی وزیرستان میں فوجی کارروائی کے بغیر ملک میں امن قائم نہیں ہو سکتا کیونکہ ہر طرح کے شدت پسند اسی علاقے میں جمع ہو چکے تھے۔‘‘
جنرل اطہر عباس نے کہا کہ اس سے پہلے شمالی وزیرستان میں فوجی کارروائی کرنے کے بارے میں فوج کی اعلیٰ قیادت میں دو آرا پائی جاتی تھیں۔ ایک رائے اس کارروائی کے حق میں تھی جب کہ دوسرے گروہ کا خیال تھا کہ اس کارروائی کو ملتوی کیا جا سکتا ہے۔
’’اس کی بہت سی وجوہات تھیں جن میں حقانی نیٹ ورک بھی شامل تھا کہ انھیں کیسے ہینڈل کیا جائے۔ اس کے علاوہ فوجی کارروائی کے متاثرین کا مسئلہ بھی بہت اہم تھا۔‘‘
اطہر عباس نے کہا کہ فوجی قیادت کی رائے تھی کہ حکومت اور ملک کی سیاسی قیادت نے 2009 میں سوات سے نقل مکانی کرنے والوں کا ٹھیک طرح سے خیال نہیں رکھا تھا اور خدشہ تھا کہ شمالی وزیرستان سے بھی بڑی تعداد میں لوگ نقل مکانی کریں گے۔
’’ان عوامل کی وجہ سے شمالی وزیرستان میں فوجی کارروائی تاخیر کا شکار ہوتی رہی اور اس کی ہم سب نے بھاری قیمت ادا کی۔‘‘
29 نومبر 2013 میں پاکستانی فوج کے نئے سربراہ جنرل راحیل شریف نے باضابطہ
طور پر بری فوج کی کمان سنبھال لی تھی۔
اطہر عباس کے مطابق امریکہ نے بھی شمالی وزیرستان میں آپریشن کے معاملے پر فوج کے لیے مشکلات پیدا کیں:
’’امریکہ سے ہر روز ایسے بیانات آتے تھے جس سے ظاہر ہوتا تھا کہ امریکہ شمالی وزیرستان میں آپریشن کے لیے فوج پر دباؤ ڈال رہا ہے۔ ہم امریکیوں کو یہ بتاتے رہے کہ اس طرح کے بیانات ہماری مدد نہیں کر رہے بلکہ ہمارے لیے یہ فیصلہ کرنے میں مزید مشکل کا باعث بن رہے ہیں کیونکہ اگر ہم یہ فیصلہ کر لیتے تو اس سے یہی تاثر ملتا کہ یہ کارروائی امریکہ کی خواہش پر کی جا رہی ہے۔‘‘
میجر جنرل ریٹائرڈ اطہر عباس نے کہا کہ شمالی وزیرستان میں حالات آج بھی ویسے ہی ہیں جیسے 2010 میں تھے اس لیے اگر آج آپریشن کیا جا رہا ہے تو اس وقت بھی کیا جا سکتا تھا۔
’’میری ذاتی رائے میں یہ کارروائی 2011 میں ہو جانی چاہیے تھی۔ ہم نے اس پر بہت وقت ضائع کر دیا ہے جس سے ہم سب کی مشکلات بڑھی ہیں۔‘‘
بی بی سی اردو ۔