اوشو
لائبریرین
اردو کی مشہور افسانہ نگار اختر جمال کا کوئی بڑا بھائی نہ تھا جس کا انھیں غم تھا ۔ کرشن جی کے افسانے پڑھ کر کسی سکھی سہیلی نے مشورہ دیاکہ تم ان کو اپنا بھائی بنالو ۔ ایسی خوبصورت کہانیاں لکھنے والا خود کتنا حسین دل رکھتا ہوگا ۔ اختر آپا نے جھٹ ایک راکھی خریدی، کرشن جی کے نام ایک خط لکھا اور اس کے ساتھ راکھی انھیں بھیجی جو انھوں نے اپنی بہن سرلادیوی سے بندھوائی اور جب پہلی ملاقات ہوئی تو کرشن جی نے اختر جمال کو دس روپے راکھی کی تہواری دی ۔
یہ بٹوارے سے پہلے کے اس زمانے کی بات ہے جب دس روپے کی تہواری رئیس ابن رئیس دیتے تھے ۔ تقسیم کے برسوں بعد اختر آپا جب بمبئی گئیں اور کرشن جی کے گھر پر ٹھہریں تو وہ خود برآمدے میں سوئے اور اختر آپا کے لیے اپنی مسہری خالی کردی ۔ اس مسہری کے بارے میں اختر آپا کا ایک جملہ مجھے آج بھی یاد ہے کہ وہ اتنی لمبی چوڑی مسہری تھی کہ جب میں اس پر لیٹتی تو میرے ذہن میں بے ساختہ خیال آتا کہ یہ کرشن جی کی مسہری ہے یا اردو افسانہ نگاری کا میدان ۔
وہ ایک ایسے روادار اور وسیع المشرب انسان تھے جس کے لیے ذات پات، سماجی اونچ نیچ اور مذہبی تفریق کوئی اہمیت نہیں رکھتی تھی ۔ وہ اپنی تحریروں اور تقریروں میں بھی مسلمانوں کے لیے اپنی آواز بڑے موثر انداز میں بلند کرتے رہے ۔ انھوں نے کشمیر کے ایک خوشحال گھرانے میں آنکھ کھولی ، لیکن اپنے اردگرد غربت دیکھی ، ایسی غربت کہ جس کا تصور محال ۔ نمک کے ایک ڈھیلے کے لیے مرجانے والے ایک گوجر کو انھوں نے 13 برس کی عمر میں دیکھا جس کے بارے میں ان کے والد کے کمپاؤنڈ ر نے بتایا تھا کہ موسم سرما میں جب پہاڑی راستے بند ہوجاتے ہیں تو ریاست کشمیر میں پنجاب سے نمک کی درآمد رک جاتی ہے ۔ نمک نہ صرف کمیاب ہوجاتا ہے بلکہ بہت مہنگا بھی ۔
غریب کسانوں کی زندگی میں نمک بہت اہمیت رکھتا ہے وہ نہ صرف اسے خود کھاتے ہیں بلکہ اپنے مویشیوں کو بھی چٹاتے ہیں ۔ اس لیے وہ موسم سرما کی آمد سے پہلے ہی اڑی، کوہالہ، مری، راولپنڈی وغیرہ جہاں بھی سستا نمک ملے دشوار گزار، طویل راستے پیدل طے کر کے اسے سر یا پیٹھ پر لادکر لے آتے ہیں ۔ کرشن چندر کو یہ سن کر حیرت ہوئی تھی کہ نمک جیسی حقیر شے کے لیے بھی کوئی جان سے ہاتھ دھو سکتا ہے ۔ اس دل خراش واقعے سے کرشن چندر کے سادہ، معصوم مگر انتہائی حساس ذہن پر گہرا اثر پڑا ۔
شہر لاہور سے انھیں عشق تھا ۔ وہاں ان کی جوانی گزری تھی ، ان کا سیاسی شعور پختہ ہوا تھا ۔
کیا کوئی اپنی محبوبہ کو یاد کرے گا جس تڑپ سے وہ لاہور کو یاد کرتے تھے ۔ لاہور اور مری کی مال روڈ کا ذکر وہ کس حسرت سے کرتے ۔ یہ وہی لاہور تھا جس کے شاہی قلعے میں انھوں نے 2 مہینے کی قید کاٹی تھی ۔ یہ سزا انھیں بھگت سنگھ اور ان کے ساتھیوں کا ساتھ دینے کے سبب دی گئی تھی ۔ ستمبر 65 میں پاکستان اور ہندوستان کے درمیان لڑائی چھڑی تو بقول سلمیٰ آپا وہ بن جل کی مچھلی کی طرح تڑپتے تھے ۔ جب پہلے روز خبر آئی کہ ہندوستانی طیاروں نے لاہور پر بم گرائے ہیں تو انھوں نے سارا دن نہ کچھ کھایا نہ پیا ، بس دل تھامے فرش پر لیٹے ہوئے ’’ہائے میرا لاہور… ہائے میرا لاہور‘‘ کرتے رہے ۔
تب ہی سلمیٰ آپا کہتی تھیں کہ ’’تم تو پاکستانی ہو تمہاری سی آئی ڈی میں رپورٹ کردینی چاہیے ۔‘‘ یہی تھے جنھوں نے 65 اور 71 میں پاکستانی جنگی قیدیوں کی رہائی کے لیے بیانات دیے تھے ۔ وہ اردو کے بڑے ادیب تھے اور اس سے کہیں بڑے انسان تھے ۔ ایک ایسے بالاقامت انسان جس کا ایک قدم ہندوستان کی دھرتی میں اور دوسرا پاکستان کی سرزمین پر گڑا ہوا تھا ۔ ہندوستانی اور ہندو ہونے کے باوجود پاکستان سے ایسا عشق کرنے والے آپ نے کہاں دیکھے ہوں گے ۔ ان جیسے لوگ اب صرف قصے کہانیوں میں ملتے ہیں ۔
وہ جانتے تھے کہ ظلم ایک ایسی بیماری ہے جو انسان کو قدیم زمانوں سے لاحق ہے، اسی بیماری کے بارے میں کرشن چندر نے ایک ناول ’’الٹا درخت‘‘ لکھا، کہنے کو یہ انھوں نے بچوں کے لیے لکھا تھا لیکن درحقیقت یہ بڑوں کے لیے ہے۔ بارہ برس کا یوسف یتیم ہوجاتا ہے تو ماں کہتی ہے کہ تم بادشاہ کی فوج میں ملازم ہوجاؤ۔ بیٹا انکار کرتا ہے اور اس کا انکار بادشاہ کے کانوں تک پہنچ جاتا ہے ۔ ’’کیونکہ ظالم بادشاہ نے ملک میں مخبروں کا جال بچھا رکھا ہے‘‘۔ کہانی کی ابتدا میں ہی یوسف اور بادشاہ کا مکالمہ اس بات کی خبر دیتا ہے کہ یہ سادہ سی کہانی کیسے پر پرزے نکالنے والی ہے ۔
بادشاہ ہکلا ہے اور جب یوسف پوچھتا ہے کہ کیا سارے بادشاہ ہکلے ہوتے ہیں تو بادشاہ کو غصہ آجاتا ہے اور وہ یوسف کو ڈانٹ کر بتاتا ہے کہ اسے ہکلاہٹ کی نہیں، ظلم کرنے کی بیماری ہے ۔ وہ یوسف کو مجبورکرتا ہے کہ وہ اس کی فوج میں شامل ہوجائے لیکن یوسف کو جب معلوم ہوتا ہے کہ اسے تنخواہ نہیں ملے گی بلکہ دوسرے ملکوں پر حملہ کر کے لوٹ مارکرنی ہوگی اور یہی اس کی آمدنی کا ذریعہ ہوگا تو وہ دوسرے ملکوں پر حملہ کرنے، انسانوں کو قتل کرنے اور مال غنیمت سمیٹنے سے انکار کردیتا ہے ۔ وہ فاقہ کرنے کے لیے تیار ہے لیکن فوج میں نہیں جانا چاہتا کیونکہ اس طرح اسے بھی ظلم کی بیماری ہوجائے گی ۔ بارہ برس کا یوسف ایک موچی کا بیٹا ہے لیکن اس کے انسانی شعور کو کرشن جی اس طرح سامنے لائے ہیں کہ آنکھیں روشن ہوجاتی ہیں ۔
نفرت کا طاعون ہمارے یہاں 40 کی دہائی سے پھیلا اور پھیلتا چلا گیا ۔ پہلے اس طاعون نے مسلمانوں اور ہندوؤں کا گھر دیکھا اب یہ شیعہ ، سنی ، احمدی اور بریلوی کے گھروں میں رہتا ہے ۔ وہ جو میرے مسلک سے تعلق نہیں رکھتا قابل نفرت ہے اور اگر جوش ذرا زیادہ ہوتو واجب القتل ہے ۔
پاکستان بنا کر ہم نے ہندوؤں سے نجات حاصل کرلی تو اپنی نفرت کا بوجھ بنگلہ، اردو، سندھی، پنجابی، بلوچی اور پشتو بولنے والوں کے شانوںپر ڈال دیا ۔ ہمیں اپنی نفرت کا نشانہ چاہیے ۔ اگر ہمارے درمیان کوئی اور موجود نہ ہو تو ہم اپنے بھائی سے حسد کرتے ہیں ۔ اس کی زندگی ہماری نسبت پرآسائش کیوں ہے؟ یہ نفرت ، یہ حسد ہم سب کو کھا رہا ہے اور اس کا انت صرف یہی نظر آتا ہے کہ ہماری بستیاں شمشان اور ہمارے شہر قبرستان میں بدل جائیں گے ۔
آج اپنے شہر کی زبوں حالی اور ربودگی مجھے 47‘48 کا وہ زمانہ یاد دلاتی ہے، جب لکھنے والوں میں حوصلہ تھا اور وہ فرقہ واریت کی گھپ اندھیری رات میں لفظوں کے چراغ جلاتے تھے ۔ فرقہ واریت کے خلاف لڑائی اپنے قلم سے لڑنے والوں میں سب سے آگے کرشن چندر تھے جنھوں نے اس موضوع پر متعدد افسانے اور ناول لکھے ۔ ان کے چھ افسانوں کے مجموعے ’’ہم وحشی ہیں‘‘ میں ہمارے درندے چہرے نظر آتے ہیں ۔ ان کا ناول ’’غدار‘‘ کتنے نازک موضوع پر کیسی ہمت سے لکھا گیا ہے ۔ ان کی یہی وہ تحریریں ہیں جن کے سبب ان کے کچھ دوست انھیں پچھلے جنم میں مسلمان ہونے کے طعنے دیتے تھے ۔
کرشن جیسے لوگ اب ہمارے درمیان موجود نہیں جو اپنی طرف کے ظالم کو ظالم کہہ سکیں اور دوسرے گروہ کے مظلوم کے ساتھ کھڑے ہوسکیں ۔ اب ’’پشاور ایکسپریس‘‘ جیسی تیکھی تحریر نہیں لکھی جائے گی ۔ یہ کرشن چندر تھے جنہوں نے جواہر لعل نہرو اور محمد علی جناح کے نام ایک طوائف کی طرف سے خط لکھے اور انھیں بتایا کہ اس کے کوٹھے پر فسادات کا نوالہ بننے والی دو مختلف گروہوں کی لڑکیاں موجود ہیں ۔ دونوں آئیں اور ان کے سر پر ہاتھ رکھیں ۔ انھیں اپنی بیٹیاں سمجھ کر قبول کریں اور ان کے سینے کے گھاؤ سی دیں ۔ ان کے ناول ’’غدار‘‘ کے بارے میں کچھ ادیبوں نے لکھا کہ یہ کرشن چندر کی ایک غیر متوازن اور جذباتی تحریر ہے لیکن یہی ’’غدار‘‘ ہے جسے عام پڑھنے والوں نے کس کس طرح داد نہ دی ۔
پاکستان جانے والے ایک قافلے پر حملہ ہوتا ہے، سیکڑوں مسلمانوں کی لاشیں میدان میں بکھری ہوئی ہیں ۔ لاشوں کے درمیان بیج ناتھ کو ایک بچہ روتا ہوا اور اپنے بابا کو پکارتا ہوا ملتا ہے ۔ بیج ناتھ کا اپنا بچہ مسلمان بلوائیوں کے ہاتھوں مارا جا چکا ہے ۔ وہ روتا ہوا بچہ جب بیج ناتھ کی طرف دیکھتا ہے تو سات سمندروں، سات تہذیبوں، سات فصیلوں اور سات نفرتوں کو روندتی پھلانگتی ہوئی اس بچے کی روتی بلکتی بیدار روح بیج ناتھ کے دل سے لپٹ جاتی ہے ۔ وہ اسے لاشوں کے ڈھیر سے اٹھاتا ہے اور سینے سے چمٹا لیتا ہے ۔
یہیں سے انسانیت کا وہ اکھوا پھوٹتا ہے جس کو کرشن جی نے اپنی کہانیوں میں خونِ دل سے سینچا ۔ ایسے ہی ایک بچے کے لیے انھوں نے لکھا ’’یہ ممکن ہے کہ میں اس کا کوئی نام نہ رکھوں۔ اسے کسی قوم سے منسوب نہ کروں ۔ اس سے صرف اتنا کہہ دوں کہ بیٹا تو انسان ہے ۔ انسان اپنے ضمیر کا ، اپنی تقدیر کا ، اپنی زمین کا خود خالق ہے ۔ انسان قوم سے، ملک سے، مذہب سے بڑا ہے ۔‘‘ کرشن چندر نے نسل، مذہب، زبان اور مذہب سے بالاتر جس انسان کا خواب دیکھا تھا، وہی خواب آج ہم سب کا ہے اور آیندہ بھی رہے گا ۔
(کرشن چندر صدی سیمینار میں پڑھا گیا)
نرم گرم :زاہدہ حنا۔ روزنامہ ایکسپریس
یہ بٹوارے سے پہلے کے اس زمانے کی بات ہے جب دس روپے کی تہواری رئیس ابن رئیس دیتے تھے ۔ تقسیم کے برسوں بعد اختر آپا جب بمبئی گئیں اور کرشن جی کے گھر پر ٹھہریں تو وہ خود برآمدے میں سوئے اور اختر آپا کے لیے اپنی مسہری خالی کردی ۔ اس مسہری کے بارے میں اختر آپا کا ایک جملہ مجھے آج بھی یاد ہے کہ وہ اتنی لمبی چوڑی مسہری تھی کہ جب میں اس پر لیٹتی تو میرے ذہن میں بے ساختہ خیال آتا کہ یہ کرشن جی کی مسہری ہے یا اردو افسانہ نگاری کا میدان ۔
وہ ایک ایسے روادار اور وسیع المشرب انسان تھے جس کے لیے ذات پات، سماجی اونچ نیچ اور مذہبی تفریق کوئی اہمیت نہیں رکھتی تھی ۔ وہ اپنی تحریروں اور تقریروں میں بھی مسلمانوں کے لیے اپنی آواز بڑے موثر انداز میں بلند کرتے رہے ۔ انھوں نے کشمیر کے ایک خوشحال گھرانے میں آنکھ کھولی ، لیکن اپنے اردگرد غربت دیکھی ، ایسی غربت کہ جس کا تصور محال ۔ نمک کے ایک ڈھیلے کے لیے مرجانے والے ایک گوجر کو انھوں نے 13 برس کی عمر میں دیکھا جس کے بارے میں ان کے والد کے کمپاؤنڈ ر نے بتایا تھا کہ موسم سرما میں جب پہاڑی راستے بند ہوجاتے ہیں تو ریاست کشمیر میں پنجاب سے نمک کی درآمد رک جاتی ہے ۔ نمک نہ صرف کمیاب ہوجاتا ہے بلکہ بہت مہنگا بھی ۔
غریب کسانوں کی زندگی میں نمک بہت اہمیت رکھتا ہے وہ نہ صرف اسے خود کھاتے ہیں بلکہ اپنے مویشیوں کو بھی چٹاتے ہیں ۔ اس لیے وہ موسم سرما کی آمد سے پہلے ہی اڑی، کوہالہ، مری، راولپنڈی وغیرہ جہاں بھی سستا نمک ملے دشوار گزار، طویل راستے پیدل طے کر کے اسے سر یا پیٹھ پر لادکر لے آتے ہیں ۔ کرشن چندر کو یہ سن کر حیرت ہوئی تھی کہ نمک جیسی حقیر شے کے لیے بھی کوئی جان سے ہاتھ دھو سکتا ہے ۔ اس دل خراش واقعے سے کرشن چندر کے سادہ، معصوم مگر انتہائی حساس ذہن پر گہرا اثر پڑا ۔
شہر لاہور سے انھیں عشق تھا ۔ وہاں ان کی جوانی گزری تھی ، ان کا سیاسی شعور پختہ ہوا تھا ۔
کیا کوئی اپنی محبوبہ کو یاد کرے گا جس تڑپ سے وہ لاہور کو یاد کرتے تھے ۔ لاہور اور مری کی مال روڈ کا ذکر وہ کس حسرت سے کرتے ۔ یہ وہی لاہور تھا جس کے شاہی قلعے میں انھوں نے 2 مہینے کی قید کاٹی تھی ۔ یہ سزا انھیں بھگت سنگھ اور ان کے ساتھیوں کا ساتھ دینے کے سبب دی گئی تھی ۔ ستمبر 65 میں پاکستان اور ہندوستان کے درمیان لڑائی چھڑی تو بقول سلمیٰ آپا وہ بن جل کی مچھلی کی طرح تڑپتے تھے ۔ جب پہلے روز خبر آئی کہ ہندوستانی طیاروں نے لاہور پر بم گرائے ہیں تو انھوں نے سارا دن نہ کچھ کھایا نہ پیا ، بس دل تھامے فرش پر لیٹے ہوئے ’’ہائے میرا لاہور… ہائے میرا لاہور‘‘ کرتے رہے ۔
تب ہی سلمیٰ آپا کہتی تھیں کہ ’’تم تو پاکستانی ہو تمہاری سی آئی ڈی میں رپورٹ کردینی چاہیے ۔‘‘ یہی تھے جنھوں نے 65 اور 71 میں پاکستانی جنگی قیدیوں کی رہائی کے لیے بیانات دیے تھے ۔ وہ اردو کے بڑے ادیب تھے اور اس سے کہیں بڑے انسان تھے ۔ ایک ایسے بالاقامت انسان جس کا ایک قدم ہندوستان کی دھرتی میں اور دوسرا پاکستان کی سرزمین پر گڑا ہوا تھا ۔ ہندوستانی اور ہندو ہونے کے باوجود پاکستان سے ایسا عشق کرنے والے آپ نے کہاں دیکھے ہوں گے ۔ ان جیسے لوگ اب صرف قصے کہانیوں میں ملتے ہیں ۔
وہ جانتے تھے کہ ظلم ایک ایسی بیماری ہے جو انسان کو قدیم زمانوں سے لاحق ہے، اسی بیماری کے بارے میں کرشن چندر نے ایک ناول ’’الٹا درخت‘‘ لکھا، کہنے کو یہ انھوں نے بچوں کے لیے لکھا تھا لیکن درحقیقت یہ بڑوں کے لیے ہے۔ بارہ برس کا یوسف یتیم ہوجاتا ہے تو ماں کہتی ہے کہ تم بادشاہ کی فوج میں ملازم ہوجاؤ۔ بیٹا انکار کرتا ہے اور اس کا انکار بادشاہ کے کانوں تک پہنچ جاتا ہے ۔ ’’کیونکہ ظالم بادشاہ نے ملک میں مخبروں کا جال بچھا رکھا ہے‘‘۔ کہانی کی ابتدا میں ہی یوسف اور بادشاہ کا مکالمہ اس بات کی خبر دیتا ہے کہ یہ سادہ سی کہانی کیسے پر پرزے نکالنے والی ہے ۔
بادشاہ ہکلا ہے اور جب یوسف پوچھتا ہے کہ کیا سارے بادشاہ ہکلے ہوتے ہیں تو بادشاہ کو غصہ آجاتا ہے اور وہ یوسف کو ڈانٹ کر بتاتا ہے کہ اسے ہکلاہٹ کی نہیں، ظلم کرنے کی بیماری ہے ۔ وہ یوسف کو مجبورکرتا ہے کہ وہ اس کی فوج میں شامل ہوجائے لیکن یوسف کو جب معلوم ہوتا ہے کہ اسے تنخواہ نہیں ملے گی بلکہ دوسرے ملکوں پر حملہ کر کے لوٹ مارکرنی ہوگی اور یہی اس کی آمدنی کا ذریعہ ہوگا تو وہ دوسرے ملکوں پر حملہ کرنے، انسانوں کو قتل کرنے اور مال غنیمت سمیٹنے سے انکار کردیتا ہے ۔ وہ فاقہ کرنے کے لیے تیار ہے لیکن فوج میں نہیں جانا چاہتا کیونکہ اس طرح اسے بھی ظلم کی بیماری ہوجائے گی ۔ بارہ برس کا یوسف ایک موچی کا بیٹا ہے لیکن اس کے انسانی شعور کو کرشن جی اس طرح سامنے لائے ہیں کہ آنکھیں روشن ہوجاتی ہیں ۔
نفرت کا طاعون ہمارے یہاں 40 کی دہائی سے پھیلا اور پھیلتا چلا گیا ۔ پہلے اس طاعون نے مسلمانوں اور ہندوؤں کا گھر دیکھا اب یہ شیعہ ، سنی ، احمدی اور بریلوی کے گھروں میں رہتا ہے ۔ وہ جو میرے مسلک سے تعلق نہیں رکھتا قابل نفرت ہے اور اگر جوش ذرا زیادہ ہوتو واجب القتل ہے ۔
پاکستان بنا کر ہم نے ہندوؤں سے نجات حاصل کرلی تو اپنی نفرت کا بوجھ بنگلہ، اردو، سندھی، پنجابی، بلوچی اور پشتو بولنے والوں کے شانوںپر ڈال دیا ۔ ہمیں اپنی نفرت کا نشانہ چاہیے ۔ اگر ہمارے درمیان کوئی اور موجود نہ ہو تو ہم اپنے بھائی سے حسد کرتے ہیں ۔ اس کی زندگی ہماری نسبت پرآسائش کیوں ہے؟ یہ نفرت ، یہ حسد ہم سب کو کھا رہا ہے اور اس کا انت صرف یہی نظر آتا ہے کہ ہماری بستیاں شمشان اور ہمارے شہر قبرستان میں بدل جائیں گے ۔
آج اپنے شہر کی زبوں حالی اور ربودگی مجھے 47‘48 کا وہ زمانہ یاد دلاتی ہے، جب لکھنے والوں میں حوصلہ تھا اور وہ فرقہ واریت کی گھپ اندھیری رات میں لفظوں کے چراغ جلاتے تھے ۔ فرقہ واریت کے خلاف لڑائی اپنے قلم سے لڑنے والوں میں سب سے آگے کرشن چندر تھے جنھوں نے اس موضوع پر متعدد افسانے اور ناول لکھے ۔ ان کے چھ افسانوں کے مجموعے ’’ہم وحشی ہیں‘‘ میں ہمارے درندے چہرے نظر آتے ہیں ۔ ان کا ناول ’’غدار‘‘ کتنے نازک موضوع پر کیسی ہمت سے لکھا گیا ہے ۔ ان کی یہی وہ تحریریں ہیں جن کے سبب ان کے کچھ دوست انھیں پچھلے جنم میں مسلمان ہونے کے طعنے دیتے تھے ۔
کرشن جیسے لوگ اب ہمارے درمیان موجود نہیں جو اپنی طرف کے ظالم کو ظالم کہہ سکیں اور دوسرے گروہ کے مظلوم کے ساتھ کھڑے ہوسکیں ۔ اب ’’پشاور ایکسپریس‘‘ جیسی تیکھی تحریر نہیں لکھی جائے گی ۔ یہ کرشن چندر تھے جنہوں نے جواہر لعل نہرو اور محمد علی جناح کے نام ایک طوائف کی طرف سے خط لکھے اور انھیں بتایا کہ اس کے کوٹھے پر فسادات کا نوالہ بننے والی دو مختلف گروہوں کی لڑکیاں موجود ہیں ۔ دونوں آئیں اور ان کے سر پر ہاتھ رکھیں ۔ انھیں اپنی بیٹیاں سمجھ کر قبول کریں اور ان کے سینے کے گھاؤ سی دیں ۔ ان کے ناول ’’غدار‘‘ کے بارے میں کچھ ادیبوں نے لکھا کہ یہ کرشن چندر کی ایک غیر متوازن اور جذباتی تحریر ہے لیکن یہی ’’غدار‘‘ ہے جسے عام پڑھنے والوں نے کس کس طرح داد نہ دی ۔
پاکستان جانے والے ایک قافلے پر حملہ ہوتا ہے، سیکڑوں مسلمانوں کی لاشیں میدان میں بکھری ہوئی ہیں ۔ لاشوں کے درمیان بیج ناتھ کو ایک بچہ روتا ہوا اور اپنے بابا کو پکارتا ہوا ملتا ہے ۔ بیج ناتھ کا اپنا بچہ مسلمان بلوائیوں کے ہاتھوں مارا جا چکا ہے ۔ وہ روتا ہوا بچہ جب بیج ناتھ کی طرف دیکھتا ہے تو سات سمندروں، سات تہذیبوں، سات فصیلوں اور سات نفرتوں کو روندتی پھلانگتی ہوئی اس بچے کی روتی بلکتی بیدار روح بیج ناتھ کے دل سے لپٹ جاتی ہے ۔ وہ اسے لاشوں کے ڈھیر سے اٹھاتا ہے اور سینے سے چمٹا لیتا ہے ۔
یہیں سے انسانیت کا وہ اکھوا پھوٹتا ہے جس کو کرشن جی نے اپنی کہانیوں میں خونِ دل سے سینچا ۔ ایسے ہی ایک بچے کے لیے انھوں نے لکھا ’’یہ ممکن ہے کہ میں اس کا کوئی نام نہ رکھوں۔ اسے کسی قوم سے منسوب نہ کروں ۔ اس سے صرف اتنا کہہ دوں کہ بیٹا تو انسان ہے ۔ انسان اپنے ضمیر کا ، اپنی تقدیر کا ، اپنی زمین کا خود خالق ہے ۔ انسان قوم سے، ملک سے، مذہب سے بڑا ہے ۔‘‘ کرشن چندر نے نسل، مذہب، زبان اور مذہب سے بالاتر جس انسان کا خواب دیکھا تھا، وہی خواب آج ہم سب کا ہے اور آیندہ بھی رہے گا ۔
(کرشن چندر صدی سیمینار میں پڑھا گیا)
نرم گرم :زاہدہ حنا۔ روزنامہ ایکسپریس