محمد ندیم پشاوری
محفلین
عام طور پر تمام والدین بچپن ہی سے اپنی اولاد سے انتہائی حد تک اُمیدیں وابستہ رکھتے ہیں۔ اولاد کو خود کا اورتمام بڑوں کا بھرپور عزت و احترام کرتا ہوا دیکھنا چاہتے ہیں اعلیٰ اور ذمہ دار عہدوں پر براجمان ہونا اُن کی اپنے اولاد کے لیے شدید خواہش ہوتی ہے ۔ گھر ،سکول ، کالج، علاقے، محلے، رشتہ دار، اپنے پرائے یہاں تک کہ ہر جگہ اور ہر کسی سے اپنی اولاد کو اچھے الفاظ سے یاد کرتے ہوئے سننے کے خواہاں ہوتے ہیں۔ اپنی اولاد کے روشن مستقبل کے خواب اپنی آنکھوں میں سجائے ہوئے ہوتے ہیں یہاں تک کہ اولاد کی کامیابی کے لئےاپنی جان کو جوکھوں میں ڈالنے اور ہر جائز و ناجائز کام کرنے سے دریغ نہیں کرتے۔اپنی طاقت سے زیادہ بوجھ اٹھائے ہوئے ہوتے ہیں صرف اس لئے کہ اُن کی اولاد کو کامیابی ملے یہاں تک کہ ایک اچھی نوکری مل جانے کی صورت میں کامیابی کے ساتھ سمجھوتہ کر لیتے ہیں لیکن جو کام والدین کے کرنے کا ہوتا ہے وہ اکثر والدین کی بے رُخی اور بے توجہی کی نذر ہو جاتا ہے اور وہ ہے اولاد کی تربیت۔
والدین سمجھتے ہیں کہ دو وقت کی روٹی کھلا کر ،اولاد کو اچھے سکول میں تعلیم دلوا کر،کسی مسجد یا مدرسہ سے قاعدہ ، ناظرہ یا زیادہ سے زیادہ حفظ کروا کر اور کسی خاص موقع پر اولاد کی جائز و ناجائز خواہش پوری کرنے کے لئے ہر وہ چیز جس کی اِنہیں ضد ہوتی ہے دلوا کروالدین کی ذمہ داری پوری ہو گئی ہے نہیں بلکل بھی نہیں!ان تمام کاموں میں اولاد کو مصروف رکھ کر آپ اپنی ذمہ داری سے راہِ فرار اختیار کرنا چاہتے ہیں اس کا نتیجہ بد آپ کو اِس دنیا میں بھی بھگتنا پڑے گا اور اللہ کے ہاں بھی آپ مسئول ٹھہریں گے۔
والدین تمام ہفتہ صبح سے لے کر شام تک اور شام سے لے کر صبح تک دنیا کی دوڑ میں مصروف رہتے ہیں اور اگر اتوار کو اولاد کی تربیت کا اچھا خاصا موقع مل بھی جاتا ہے تو اُسے بھی دادا دادی، نانا نانی، ماموںممانی، شادی، تیجہ، دسواں، چلّہ یا کسی رشتہ دار کے گھر وزٹ کر کے ضائع کر دیا جاتا ہے۔ ہمارا مقصد ہر گز یہ نہیں کہ رشتہ داروں کی پوچھ گچھ نہیں کرنی چاہیے بلکہ ہمارا مقصد بس صرف یہی ہے کہ بروقت ترجیحات کے تعین سے تمام کام احسن طریقے سے سرانجام دئیے جا سکتے ہیں۔ اولاد کی تربیت جہاں ایک انتہائی مشکل کام اور کٹھن مرحلہ ہے وہاں ہم انتہائی حد تک بے رُخی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔اولاد کی تربیت کے لئے ہفتے میں سات دن، ہر دن میں چوبیس گھنٹے، ہر گھنٹہ میں ساٹھ منٹ، ہر منٹ میں ساٹھ سیکنڈ اور ہر سیکنڈ میں تمام لمحات کا وقت درکار ہوتا ہے۔
اکثر والدین یہ کہتے ہوئے سنائی دیتے ہیں کہ ہم اولاد کا پورا پورا حق ادا کرتے ہیں اُن کے ٹائم ٹیبل کا خیال رکھتے ہیں،سونے جاگنے کا خیال رکھتے ہیں ، کلاس ورک ہوم ورک کا خیال رکھتے ہیں، ٹیوشن ٹیچر کے بجائے ہم خود اُن سے کام کرواتے ہیں، اجتماعی کھانے کے لئے اُن کی حاضری کو یقینی بناتے ہیں، انتہائی غصے کے باوجود بھی مار پیٹ سے گریز کرتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ایسے والدین بھی دیکھنے میں آئے ہیں جو اولاد کی تربیت کے لئے اِنہیں ماہانہ تنخواہ کے طور پر کسی کیرئیرکونسلر کے حوالے کر دیتے ہیں یا گھر کی خالہ کے رحم و کرم پر چھوڑ دیتے ہیں۔
حیف صد حیف! والدین اتنے ہٹ دھرم اور خود غرض کب سے بن گئے جو اولاد کو وقت دینے کے بہانے اُن کا سارا دن مصروف رکھے ہوئے ہیں اپنی خواہشوں، اُمیدوں اور خیالات کو عملی جامہ پہنانے کے لیے اُس قیمتی سرمایہ کا استعمال کیا جا رہا ہے جو والدین کے اس دنیا سے چلے جانے کے بعد اُن کے لئے ذریعہ مغفرت ہے۔
والدین سے کچھ خصوصی گزارشات یہ ہیں کہ کیا آپ نے اپنی مصروف زندگی اور اپنے ٹائم ٹیبل میں اپنی اولاد کے لئے کچھ وقت مخصوص کیا ہے جو آپ صرف اور صرف اپنی اولاد کو دیتے ہیں، آپ کا موبائل آپ کے ہاتھ میں نہیں ہوتا، آپ کسی دوسرے سے بات نہیں کر رہے ہوتے، آپ فیس بک پر نئی نئی پوسٹ سے لطف اندوز نہیں ہو رہے ہوتے، آپ اپنے دفتر کا کام نہیں کر رہے ہوتے، آپ کانوں میں ہینڈ فری لگائے ہوئے دوسرا کوئی کام نہیں کر رہے ہوتے بلکہ صرف اور صرف اپنی اولاد کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔ کیا آپ نے کبھی اکیلے میں اپنی اولاد کے ساتھ بیٹھ کر گپ شپ لگائی ہے۔ کیا آپ کو اپنی اولاد کی پسند نا پسند کا علم ہے ،کیا آپ جانتے ہیں کہ آپ کی اولاد کے بات چیت کرنے کا انداز کیا ہے، کیا آپ معاشرے میں اپنی اولاد کے رویے سے مطمئن ہیں، کیا آپ کو اپنی اولاد کے سوشل نیٹ ورک کا اندازہ ہے کہ کس کے ساتھ اُن کا اٹھنا،بیٹھنا، کھیلنا، کھودنا لگا رہتا ہے وہ کلاس میں کیسے لوگوں سے دوستی نبھاتے ہیں، کیسے لوگ اُن سے رابطہ رکھنے کی کوشش کرتے ہیں، کیا آپ کو اپنی اولاد کے سوچنے کا زاویہ معلوم ہے کہ وہ کس وقت کیسے اور کیا سوچ رہے ہیں، کیا وہ تمام چیزیں جو آپ کی اولاد کے پاس موجود ہیں آپ کی دی ہوئی ہیں یا کوئی ایسی چیز بھی موجود ہے جو آپ کی طرف سے نہیں دی گئی اور اگر ایسی چیزیں موجود ہیں تو یہ کس کی بخشش ہے اور کیوں، کیا آپ کو اس بات کا علم ہے کہ صبح سے لے کر شام تک اور شام سے لے کر صبح تک آپ کے اولاد کی سرگرمیاں کیا ہیں، اگر اولاد کے پاس موبائل فون موجود ہے تو کیا آپ جانتے ہیں کہ موبائل پر کس سے باتیں کی جارہی ہیں، کونسے رابطے موبائل میں محفوظ ہیں، میسجز کا انداز کیا ہے اور اگر بد قسمتی سے اولاد کے پاس ’’لمبا والا موبائل فون‘‘ موجود ہے تو اُس کا استعمال کیسے کیا جا رہا ہے، اگر آپ یہ تمام کام احسن طریقے سے سرانجام دے رہے ہیں تو آپ تمام والدین مبارکباد کے مستحق ہیں، آپ ہی وہ والدین ہیں جن کو اولاد کی صحیح پرورش و تربیت پر جنت کی بشارتیں دی گئی ہے اور اگر ایسا نہیں ہے توخدارا ہمارے پیغمبرﷺ کا مقصد صرف امت کی تعداد میں اضافہ کرنا ہر گز نہیں تھا ایسے غیر تربیت شدہ اولاد معاشرے میں ناسور بن کر جی رہے ہوتے ہیں، اپنے والدین کے لئے مستقبل میں گلے کا طوق اور وطن پر بوج بنے رہتے ہیں۔ یہ تمام والدین کے لئے ایک لمحہ فکریہ ہے۔!
والدین سمجھتے ہیں کہ دو وقت کی روٹی کھلا کر ،اولاد کو اچھے سکول میں تعلیم دلوا کر،کسی مسجد یا مدرسہ سے قاعدہ ، ناظرہ یا زیادہ سے زیادہ حفظ کروا کر اور کسی خاص موقع پر اولاد کی جائز و ناجائز خواہش پوری کرنے کے لئے ہر وہ چیز جس کی اِنہیں ضد ہوتی ہے دلوا کروالدین کی ذمہ داری پوری ہو گئی ہے نہیں بلکل بھی نہیں!ان تمام کاموں میں اولاد کو مصروف رکھ کر آپ اپنی ذمہ داری سے راہِ فرار اختیار کرنا چاہتے ہیں اس کا نتیجہ بد آپ کو اِس دنیا میں بھی بھگتنا پڑے گا اور اللہ کے ہاں بھی آپ مسئول ٹھہریں گے۔
والدین تمام ہفتہ صبح سے لے کر شام تک اور شام سے لے کر صبح تک دنیا کی دوڑ میں مصروف رہتے ہیں اور اگر اتوار کو اولاد کی تربیت کا اچھا خاصا موقع مل بھی جاتا ہے تو اُسے بھی دادا دادی، نانا نانی، ماموںممانی، شادی، تیجہ، دسواں، چلّہ یا کسی رشتہ دار کے گھر وزٹ کر کے ضائع کر دیا جاتا ہے۔ ہمارا مقصد ہر گز یہ نہیں کہ رشتہ داروں کی پوچھ گچھ نہیں کرنی چاہیے بلکہ ہمارا مقصد بس صرف یہی ہے کہ بروقت ترجیحات کے تعین سے تمام کام احسن طریقے سے سرانجام دئیے جا سکتے ہیں۔ اولاد کی تربیت جہاں ایک انتہائی مشکل کام اور کٹھن مرحلہ ہے وہاں ہم انتہائی حد تک بے رُخی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔اولاد کی تربیت کے لئے ہفتے میں سات دن، ہر دن میں چوبیس گھنٹے، ہر گھنٹہ میں ساٹھ منٹ، ہر منٹ میں ساٹھ سیکنڈ اور ہر سیکنڈ میں تمام لمحات کا وقت درکار ہوتا ہے۔
اکثر والدین یہ کہتے ہوئے سنائی دیتے ہیں کہ ہم اولاد کا پورا پورا حق ادا کرتے ہیں اُن کے ٹائم ٹیبل کا خیال رکھتے ہیں،سونے جاگنے کا خیال رکھتے ہیں ، کلاس ورک ہوم ورک کا خیال رکھتے ہیں، ٹیوشن ٹیچر کے بجائے ہم خود اُن سے کام کرواتے ہیں، اجتماعی کھانے کے لئے اُن کی حاضری کو یقینی بناتے ہیں، انتہائی غصے کے باوجود بھی مار پیٹ سے گریز کرتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ایسے والدین بھی دیکھنے میں آئے ہیں جو اولاد کی تربیت کے لئے اِنہیں ماہانہ تنخواہ کے طور پر کسی کیرئیرکونسلر کے حوالے کر دیتے ہیں یا گھر کی خالہ کے رحم و کرم پر چھوڑ دیتے ہیں۔
حیف صد حیف! والدین اتنے ہٹ دھرم اور خود غرض کب سے بن گئے جو اولاد کو وقت دینے کے بہانے اُن کا سارا دن مصروف رکھے ہوئے ہیں اپنی خواہشوں، اُمیدوں اور خیالات کو عملی جامہ پہنانے کے لیے اُس قیمتی سرمایہ کا استعمال کیا جا رہا ہے جو والدین کے اس دنیا سے چلے جانے کے بعد اُن کے لئے ذریعہ مغفرت ہے۔
والدین سے کچھ خصوصی گزارشات یہ ہیں کہ کیا آپ نے اپنی مصروف زندگی اور اپنے ٹائم ٹیبل میں اپنی اولاد کے لئے کچھ وقت مخصوص کیا ہے جو آپ صرف اور صرف اپنی اولاد کو دیتے ہیں، آپ کا موبائل آپ کے ہاتھ میں نہیں ہوتا، آپ کسی دوسرے سے بات نہیں کر رہے ہوتے، آپ فیس بک پر نئی نئی پوسٹ سے لطف اندوز نہیں ہو رہے ہوتے، آپ اپنے دفتر کا کام نہیں کر رہے ہوتے، آپ کانوں میں ہینڈ فری لگائے ہوئے دوسرا کوئی کام نہیں کر رہے ہوتے بلکہ صرف اور صرف اپنی اولاد کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔ کیا آپ نے کبھی اکیلے میں اپنی اولاد کے ساتھ بیٹھ کر گپ شپ لگائی ہے۔ کیا آپ کو اپنی اولاد کی پسند نا پسند کا علم ہے ،کیا آپ جانتے ہیں کہ آپ کی اولاد کے بات چیت کرنے کا انداز کیا ہے، کیا آپ معاشرے میں اپنی اولاد کے رویے سے مطمئن ہیں، کیا آپ کو اپنی اولاد کے سوشل نیٹ ورک کا اندازہ ہے کہ کس کے ساتھ اُن کا اٹھنا،بیٹھنا، کھیلنا، کھودنا لگا رہتا ہے وہ کلاس میں کیسے لوگوں سے دوستی نبھاتے ہیں، کیسے لوگ اُن سے رابطہ رکھنے کی کوشش کرتے ہیں، کیا آپ کو اپنی اولاد کے سوچنے کا زاویہ معلوم ہے کہ وہ کس وقت کیسے اور کیا سوچ رہے ہیں، کیا وہ تمام چیزیں جو آپ کی اولاد کے پاس موجود ہیں آپ کی دی ہوئی ہیں یا کوئی ایسی چیز بھی موجود ہے جو آپ کی طرف سے نہیں دی گئی اور اگر ایسی چیزیں موجود ہیں تو یہ کس کی بخشش ہے اور کیوں، کیا آپ کو اس بات کا علم ہے کہ صبح سے لے کر شام تک اور شام سے لے کر صبح تک آپ کے اولاد کی سرگرمیاں کیا ہیں، اگر اولاد کے پاس موبائل فون موجود ہے تو کیا آپ جانتے ہیں کہ موبائل پر کس سے باتیں کی جارہی ہیں، کونسے رابطے موبائل میں محفوظ ہیں، میسجز کا انداز کیا ہے اور اگر بد قسمتی سے اولاد کے پاس ’’لمبا والا موبائل فون‘‘ موجود ہے تو اُس کا استعمال کیسے کیا جا رہا ہے، اگر آپ یہ تمام کام احسن طریقے سے سرانجام دے رہے ہیں تو آپ تمام والدین مبارکباد کے مستحق ہیں، آپ ہی وہ والدین ہیں جن کو اولاد کی صحیح پرورش و تربیت پر جنت کی بشارتیں دی گئی ہے اور اگر ایسا نہیں ہے توخدارا ہمارے پیغمبرﷺ کا مقصد صرف امت کی تعداد میں اضافہ کرنا ہر گز نہیں تھا ایسے غیر تربیت شدہ اولاد معاشرے میں ناسور بن کر جی رہے ہوتے ہیں، اپنے والدین کے لئے مستقبل میں گلے کا طوق اور وطن پر بوج بنے رہتے ہیں۔ یہ تمام والدین کے لئے ایک لمحہ فکریہ ہے۔!