نظام الدین
محفلین
کوئی شخص ایسا نظر آجائے جو حلیے اور چال ڈھال سے ذرا بھی گاہک معلوم ہو تو لکڑ منڈی کے دکاندار اس پر ٹوٹ پڑتے۔ بیشتر گاہک گرد و نواح کے دیہاتی ہوتے جو زندگی میں پہلی اور آخری بار لکڑی خریدنے کانپور آتے تھے۔ ان بیچاروں کا لکڑی سے دو ہی مرتبہ سابقہ پڑتا تھا۔ ایک اپنا گھر بناتے وقت دوسرے اپنا کریا کرم کرواتے سمے۔
قیام پاکستان سے پہلے جن پڑھنے والوں نے دلی یا لاہور کے ریلوے اسٹیشن کا نقشہ دیکھا ہے وہ اس چھینا جھپٹی کا بخوبی اندازہ کرسکتے ہیں۔ 1945 میں ہم نے دیکھا کہ دلی سے لاہور آنے والی ٹرین کے رکتے ہی جیسے ہی مسافر نے اپنے جسم کا کوئی حصہ دروازے یا کھڑکی سے باہر نکالا، قلی نے اسی کو مضبوطی سے پکڑ کے سالم مسافر کو اپنی ہتھیلی پر رکھا اور ہوا میں ادھر اٹھالیا اور اٹھا کر پلیٹ فارم پر کسی صراحی یا حقے کی چلم پر بٹھادیا لیکن جو مسافر دوسرے مسافروں کے دھکے سے خودبخود ڈبے سے باہر نکل پڑے، ان کا حشر ویسا ہی ہوا جیسا اردو کی کسی نئی نویلی کتاب کا نقادوں کے ہاتھ ہوتا ہے۔ جو چیز جتنی بھی جس کے ہاتھ لگی، سر پر رکھ کر ہوا ہوگیا، دوسرے مرحلے میں مسافر پر ہوٹلوں کے دلال اور ایجنٹ ٹوٹ پڑتے۔ سفید ڈرل کا کوٹ پتلون، سفید قمیض، سفید رومال، سفید کینوس کے جوتے، سفید موزے، سفید دانت۔ اس کے باوجود محمد حسین آزاد کے الفاظ میں ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ چنبیلی کا ڈھیر پڑا ہنس رہا ہے۔ ان کی ہر چیز سفید اور اجلی ہوتی، سوائے چہرے کے۔ ہنستے تو معلوم ہوتا توا ہنس رہا ہے۔
یہ مسافر پر اس طرح گرتے جیسے انگلستان میں رگبی کی گیند اور ایک دوسرے پر کھلاڑی گرتے ہیں۔ ان کی ساری تگ و دو کا مقصد خود کچھ حاصل کرنا نہیں بلکہ دوسروں کو حاصل کرنے سے باز رکھنا ہوتا تھا۔
مسلمان دلال ترکی ٹوپی سے پہچانے جاتے۔ وہ دلی اور یوپی سے آنے والے مسلمان مسافروں کو ٹونٹی دار لوٹے، مستورات، کثرتِ اطفال اور قیمے والے پراٹھے کے بھبکے سے فوراً پہچان لیتے اور ’’برادر ان اسلام السلام علیکم‘‘ کہہ کر لپٹ جاتے۔
مسلمان مسافروں کے ساتھ صرف مسلمان دلال ہی دھینگا مشتی کرسکتے تھے۔ جس دلال کا ہاتھ مسافر کے کپڑوں کے مضبوط ترین حصے پر پڑتا وہی اسے گھسیٹتا ہوا باہر لے آتا۔ جن کا ہاتھ لباس کے کمزور یا بوسیدہ حصوں پر پڑتا، وہ بعد میں ان کو بطور دستی رومال استعمال کرتے۔ نیم ملبوس مسافر قدم قدم پر اپنی ستر کشائی کرواتا۔ اسٹیشن کے باہر قدم رکھتا تو لاتعداد پہلوان جنہوں نے اکھاڑے کو ناکافی محسوس کرکے تانگہ چلانے کا پیشہ اختیار کرلیا تھا خود کو اس پر چھوڑ دیتے۔ اگر مسافر کے تن پر کوئی چیتھڑا اتفاقاً بچ رہا تو اسے بھی نوچ کر تانگے کی پچھلی سیٹ پر رامچندر جی کی کھڑاؤں کی طرح سجادیتے۔ اگر کسی کے چوڑی دار کے کمربند کا سرا تانگے والے کے ہاتھ لگ جاتا تو وہ غریب گرہ پر ہاتھ رکھے اسی میں بندھا چلا آتا۔ کوئی مسافر کا دامن آگے سے کھینچتا، کوئی پیچھے سے زلیخائی کرتا۔ آخری راؤنڈ میں ایک تگڑا سا tug of war تانگے والا سواری کا دایاں ہاتھ اور دوسرا مسٹنڈا اس کا بایاں ہاتھ پکڑ کے کھیلنے لگتے۔ لیکن قبل اس کے کہ ہر دو فریقین اپنے اپنے حصے کی ران اور دست اکھیڑ کر لے جائیں، ایک تیسرا پھرتیلا تانگے والا ٹانگے کے چرے ہوئے چمٹے کے نیچے بیٹھ کر مسافر کو یکلخت اپنے کندھوں پر اٹھا لیتا اور تانگے میں جوت کر ہوا ہوجاتا۔
(’’آب گم‘‘ از مشتاق احمد یوسفی سے اقتباس)
قیام پاکستان سے پہلے جن پڑھنے والوں نے دلی یا لاہور کے ریلوے اسٹیشن کا نقشہ دیکھا ہے وہ اس چھینا جھپٹی کا بخوبی اندازہ کرسکتے ہیں۔ 1945 میں ہم نے دیکھا کہ دلی سے لاہور آنے والی ٹرین کے رکتے ہی جیسے ہی مسافر نے اپنے جسم کا کوئی حصہ دروازے یا کھڑکی سے باہر نکالا، قلی نے اسی کو مضبوطی سے پکڑ کے سالم مسافر کو اپنی ہتھیلی پر رکھا اور ہوا میں ادھر اٹھالیا اور اٹھا کر پلیٹ فارم پر کسی صراحی یا حقے کی چلم پر بٹھادیا لیکن جو مسافر دوسرے مسافروں کے دھکے سے خودبخود ڈبے سے باہر نکل پڑے، ان کا حشر ویسا ہی ہوا جیسا اردو کی کسی نئی نویلی کتاب کا نقادوں کے ہاتھ ہوتا ہے۔ جو چیز جتنی بھی جس کے ہاتھ لگی، سر پر رکھ کر ہوا ہوگیا، دوسرے مرحلے میں مسافر پر ہوٹلوں کے دلال اور ایجنٹ ٹوٹ پڑتے۔ سفید ڈرل کا کوٹ پتلون، سفید قمیض، سفید رومال، سفید کینوس کے جوتے، سفید موزے، سفید دانت۔ اس کے باوجود محمد حسین آزاد کے الفاظ میں ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ چنبیلی کا ڈھیر پڑا ہنس رہا ہے۔ ان کی ہر چیز سفید اور اجلی ہوتی، سوائے چہرے کے۔ ہنستے تو معلوم ہوتا توا ہنس رہا ہے۔
یہ مسافر پر اس طرح گرتے جیسے انگلستان میں رگبی کی گیند اور ایک دوسرے پر کھلاڑی گرتے ہیں۔ ان کی ساری تگ و دو کا مقصد خود کچھ حاصل کرنا نہیں بلکہ دوسروں کو حاصل کرنے سے باز رکھنا ہوتا تھا۔
مسلمان دلال ترکی ٹوپی سے پہچانے جاتے۔ وہ دلی اور یوپی سے آنے والے مسلمان مسافروں کو ٹونٹی دار لوٹے، مستورات، کثرتِ اطفال اور قیمے والے پراٹھے کے بھبکے سے فوراً پہچان لیتے اور ’’برادر ان اسلام السلام علیکم‘‘ کہہ کر لپٹ جاتے۔
مسلمان مسافروں کے ساتھ صرف مسلمان دلال ہی دھینگا مشتی کرسکتے تھے۔ جس دلال کا ہاتھ مسافر کے کپڑوں کے مضبوط ترین حصے پر پڑتا وہی اسے گھسیٹتا ہوا باہر لے آتا۔ جن کا ہاتھ لباس کے کمزور یا بوسیدہ حصوں پر پڑتا، وہ بعد میں ان کو بطور دستی رومال استعمال کرتے۔ نیم ملبوس مسافر قدم قدم پر اپنی ستر کشائی کرواتا۔ اسٹیشن کے باہر قدم رکھتا تو لاتعداد پہلوان جنہوں نے اکھاڑے کو ناکافی محسوس کرکے تانگہ چلانے کا پیشہ اختیار کرلیا تھا خود کو اس پر چھوڑ دیتے۔ اگر مسافر کے تن پر کوئی چیتھڑا اتفاقاً بچ رہا تو اسے بھی نوچ کر تانگے کی پچھلی سیٹ پر رامچندر جی کی کھڑاؤں کی طرح سجادیتے۔ اگر کسی کے چوڑی دار کے کمربند کا سرا تانگے والے کے ہاتھ لگ جاتا تو وہ غریب گرہ پر ہاتھ رکھے اسی میں بندھا چلا آتا۔ کوئی مسافر کا دامن آگے سے کھینچتا، کوئی پیچھے سے زلیخائی کرتا۔ آخری راؤنڈ میں ایک تگڑا سا tug of war تانگے والا سواری کا دایاں ہاتھ اور دوسرا مسٹنڈا اس کا بایاں ہاتھ پکڑ کے کھیلنے لگتے۔ لیکن قبل اس کے کہ ہر دو فریقین اپنے اپنے حصے کی ران اور دست اکھیڑ کر لے جائیں، ایک تیسرا پھرتیلا تانگے والا ٹانگے کے چرے ہوئے چمٹے کے نیچے بیٹھ کر مسافر کو یکلخت اپنے کندھوں پر اٹھا لیتا اور تانگے میں جوت کر ہوا ہوجاتا۔
(’’آب گم‘‘ از مشتاق احمد یوسفی سے اقتباس)