’’اٹھو مرنے کا حق استعمال کرو‘‘

La Alma

لائبریرین
اپنے اپنے آئین میں اقلیتوں کے خلاف کی گئی ہر قانون سازی کو خلاف قانون قرار دے کر معطل کریں۔ اور آئندہ سے یقینی بنائیں کہ اقلیتوں کو نشانہ بنانے والا کوئی قانون پاس نہیں ہو سکے گا۔ اور اگر ہوگا تو اسے عدالت عظمیٰ معطل کرنے کا اختیار رکھے گی۔
یوں تو اقلیت اکثریت پر راج کرے گی۔
ٹھیک ہے قادیانی بنی گالہ چلے جائیں۔
ہم وائٹ ہاؤس چلے جاتے ہیں۔ :)
 

La Alma

لائبریرین
کیا کشمیر کے ایشو کو ہندوستان کا اندرونی معاملہ قرار دے کر مصلحت پسندی کی نذر کر دینا چاہیے یا کوئی عملی اقدامات بھی کرنے چاہیے؟
کیا یٰسین ملک کو بھی برہان وانی کی طرح ایک قصہء پارینہ بننے کے لیے چھوڑ دینا چاہیے؟
تراشنے کو تو ہمارے پاس عذر ہزار ہیں۔ ابھی ہم تاریخ کے اوراق پلٹیں گے اور مختلف محاذوں پر اپنی ناکامیوں کی ایک لمبی داستان سنانا شروع کر دیں گے_ شکست سے پہلے ہی شکست تسلیم کر لیں گے۔ لیکن یاد رہے، ماضی کی غلطیوں سے صرف سبق سیکھا جاتا ہے۔ ان کو جواز بنا کر مستقبل کی حکمتِ عملی طے نہیں کی جاتی۔
مصلحت کا لبادہ اوڑھ کر ظلم کے خلاف آواز نہ اٹھانا اور طاقتور کے آگے ہتھیار ڈال دینے کا یہی مطلب ہے کہ ذہنی طور پر ہم جنگل کے قانون کو تسلیم کر چکے ہیں۔ جہاں مائٹ از رائٹ اور سروائیول آف دا فٹسٹ کا اصول چلتا ہے۔
 

فاخر رضا

محفلین
ابھی تک کی گفتگو میں جو محسوس ہوتا ہے وہ یہ کہ ملک یاسین بھی وانی کی طرح جان سے جائے گا. ہم چند کلمات کہ دیں گے اور پھر اپنے کاموں میں مصروف
جب تک کشمیری جان خود بڑھ کر نہیں دیں گے تب تک اسی طرح ذلت کی موت مرتے رہیں گے.
آج اگر دس ہزار کشمیری ایک ساتھ جان دے دیں تو کشمیر آزاد ہوسکتا ہے. یہ ذلیل ہو کر، ایک ایک کرکے، عورتوں کے پیچھے چھپ کے، جان بچانے کی کوشش میں مررہے ہیں. اس طرح آزادی نہیں ملے گی. جب تمام لوگ یک آواز، پاکستان کی پالیسی کی پرواہ کئے بغیر گھر سے جان دینے نکلے گی تو آزادی کا سورج طلوع ہوگا. ورنہ کم از کم وانی جیسی موت تو ملے گی
 

سید رافع

محفلین
آج ہندوستانی حکومت کا جو رویہ مسلمانوں کے ساتھ ہے، وہ دیکھ کراندازہ ہو جانا چاہیے کہ دو قومی نظریہ درست تھا۔

یہ بات صحیح بھی ہے اور غلط بھی۔

صحیح اس لیے کہ مسلمان کے علاوہ جو انسان اس دنیا میں بچتا ہے وہ الگ قوم ہے یعنی کافر۔ سو بالعموم، سابقہ مسلمان امتیں یہود و نصاری ہوں یا ہنود و آتش پرست ہوں ایک قوم ہیں اور ان کے مقابل مسلمان ایک الگ قوم ہیں۔ البتہ اگر مسلمان حکمران ہوں تو تمام غیر مسلم قومیں ذمی کے شرعی اصولوں کے تحت ایک ہی علاقے پر مسلمانوں کے ساتھ رہتیں ہیں۔

غلط اس لیے کہ محض مسلمان ایک الگ قوم ہیں سو ان کو زمین کا ایک ٹکڑا بھی ملنا چاہیے یہ غیر فطری بھی ہے اور غیر شرعی بھی۔ غیر فطری اس لیے کہ مسلمانوں میں بنگالی، بہاری، پنجابی اور ہزارہا طرح کی قومیں ہیں سو کیا آپ سب قوموں کے لیے زمین کا ایک الگ ٹکڑا چاہیں گے؟ یہ انسانیت ہی کے خلاف بات ہے کہ لوگ مل جل کر نہ رہے سکیں۔ شرعی طور پر اس لیے غلط ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے زمین کا ٹکڑا مانگ کر حکومت حق قائم نہ کی بلکہ حق کو پھیلا کر لوگوں کے دلوں کو منور کر کے ایک مستحکم حکومت قائم کی۔
 

جاسم محمد

محفلین
یہ انسانیت ہی کے خلاف بات ہے کہ لوگ مل جل کر نہ رہے سکیں۔
اگر انسانیت کے لئے آپس میں مل جل کر رہنا لازم ہے تو انسانوں کو مسلم اور کافر میں اس طرح تقسیم کرنے کا مقصد؟
صحیح اس لیے کہ مسلمان کے علاوہ جو انسان اس دنیا میں بچتا ہے وہ الگ قوم ہے یعنی کافر۔
 

سید رافع

محفلین
اگر انسانیت کے لئے آپس میں مل جل کر رہنا لازم ہے تو انسانوں کو مسلم اور کافر میں اس طرح تقسیم کرنے کا مقصد؟

اسلام بنیادی انسانیت سے بڑھ کر اعلی طریقہ ہے۔ تقسیم سے نکاح، زکوة،مقدمے کے فیصلوں،عبادات،اسلام سے مطلقہ شعبوں میں بھرتی کے قانونی فیصلے ہوتے ہیں۔
 
Top