’’جنگ‘‘ 11جنوری میں ڈاکٹر عطاء الرحمن صاحب کا مضمون’’صدر مشرف.کیا ہم بھول گئے؟ کا جواب : رئوف طاہر

صدر مشرف۔ہم نہیں بھول سکتے...جمہور نامہ۔۔۔۔۔رئوف طاہر
’’جنگ‘‘ 11جنوری میں ڈاکٹر عطاء الرحمن صاحب کا مضمون’’صدر مشرف.....کیا ہم بھول گئے؟‘‘ نظر نواز ہوا، ڈاکٹر صاحب سیاسیات اور اقتصادیات کے نہیں، سائنس کے آدمی ہیں جس میں ان کی علمی و تحقیقی خدمات کا ایک زمانہ معترف ہے۔ نواز شریف کے گزشتہ دور میں انہیں پاکستان کے اعلیٰ سول اعزاز سے نوازا گیا۔ فاران کلب کراچی میں ان کے اعزاز میں منعقدہ تقریب میں صدر پاکستان رفیق تارڑ بھی شریک ہوئے۔ وہ احسن اقبال کے زیر قیادت’’وزیر اعظم کے وژن 2010ء والی ٹیم کا بھی حصہ تھے۔ پرویز مشرف کے دور میں وہ سائنس اور ٹیکنالوجی کے وزیر بنے، تب انفارمیشن ٹیکنالوجی کے فروغ میں انہوں نے خصوصی دلچسپی لی۔ ان کا اس دور کا ایک انٹرویو ہمیں یاد ہے جس میں انہوں نے آئی ٹی کے برق رفتار فروغ کا کریڈٹ نواز شریف دور میں لائے گئے فائبر سسٹم کو دیا تھا۔ ہائر ایجوکیشن کمیشن کے سربراہ کی حیثیت سے ڈاکٹر صاحب کی کارکردگی سے بھی کس کافر کو انکار ہوگا؟
’’جنگ‘‘ میں اپنے تازہ مضمون میں انہوں نے قومی اقتصادیات ،سیاسیات اور مشرف غداری کیس کے حوالے سے آئینی و قانونی امور کو موضوع بنایا ہے جن سے ان کا تعلق اتنا ہی ہے جتنا سیاسیات یا آئینی و قانونی امور کے کسی ماہر کا ڈاکٹر صاحب کے سائنس سبجیکٹ سے ہوسکتا ہے۔ اقتصادیات ہمارا موضوع نہیں لیکن اتنی سی بات تو ہمیں یاد ہے کہ ڈاکٹر صاحب کے ممدوح کے دور میں ڈالر کی ریل پیل نائن الیون کے بعد شروع ہوئی جب موصوف نے’’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘‘ میں پاکستان کو امریکی مفادات کا آلۂ کار بنادیا تھا۔ کولن پاول کی ایک ٹیلی فون کال پر وہ یوں ڈھیر ہوا کہ امریکی وزیر خارجہ کے پیش کردہ تمام مطالبات من و عن تسلیم کرلئے جس کی خود کولن پاول اور صدر بش کو بھی امید نہیں تھی۔ ان کا خیال تھا کہ پاکستان کا کمانڈو صدر ان میں سے دو تین مطالبات مان لے گا، دو تین پر کابینہ میں غور کرنے کی بات کرے گا اور باقی دو تین کو پاکستان کی خود مختاری اور قومی وقار کے منافی قرار دے کر مسترد کردے گا۔ یہ دلچسپ(لیکن پاکستان کے خودار عوام کے لئے المناک داستان) وائٹ ہائوس کے محرم راز ہائے درون خانہ باب وڈ ورڈز نے اپنی کتاب ’’بش ایٹ وار‘‘ میں بیان کردی ہے۔ جنرل شاہد عزیز کی کتاب میں بھی تفصیلات موجود ہیں۔ خود کمانڈو نے اپنی کتا’’ان دی لائن آف فائر‘‘ میں بردہ فروشی کا بڑے فخر سے ذکر کیا ہے۔ پہلے ایڈیشن کے بیک ٹائٹل پر دئیے گئے اقتباس کے مطابق نائن الیون کے بعد انہوں نے القاعدہ کے ساتھ بلی چوہے کا کھیل کھیلتے ہوئے اس کے672لوگ پکڑے ۔ ان میں سے369کو امریکہ کے سپرد کیا اور اس کے عوض’’ملینز آف ڈالر‘‘ وصول کئے۔ دلچسپ بات یہ کہ اس کتاب کی پروموشن کے لئے امریکی دورے کے دوران جب کمانڈو سے استفسار کیا گیا کہ امریکیوں سے حاصل کردہ یہ کروڑوں ڈالر کہاں گے؟ کس کے حصے میں کتنے آئے؟ تو کتاب کے اگلے ایڈیشن میں یہ عبارت حذف کردی گئی۔ قوم کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو امریکیوں کے سپرد کرنے کا کتنا معاوضہ وصول پایا اور پاکستان میں افغانستان کے سفیر ملاُ عبدالسلام ضعیف کو جس شرمناک سلوک کا نشانہ بنانے کے بعد امریکیوں کے سپرد کیا گیا، اس کا عوضانہ کیا تھا؟ وہ ایک الگ کہانی ہے جس کا ذکر کتاب میں موجود نہیں۔
نواز شریف کو گزشتہ دونوں ادوار میں(اور اب تیسری بار بھی) قومی معیشت جس زبوں حالی میں ملی اور گزشتہ دونوں(نامکمل) ادوار میں یہ کس طرح اپنے پائوں پر کھڑی ہورہی تھی، تب خطے میں پاکستانی کرنسی کی جو مضبوط ترین حیثیت تھی، ایٹمی دھماکوں کے بعد عائد ہونے والی اقتصادی پابندیوں کے باوجود12اکتوبر1999ء کے غیر آئینی شب خون کے وقت ملک بھر میں’’اپنا گھر سکیم‘‘ کے تحت5لاکھ گھروں کی تعمیر اور لاہور کے نئے ہوائی اڈے سمیت جن میگا پراجیکٹس پر کام ہورہا تھا اور حکومت کے باقی ماندہ اڑھائی سال کے لئے جو منصوبے پائپ لائن میں تھے ،اس کی تفصیل ایک الگ کالم کا تقاضا کرتی ہے۔نائن الیون کے بعد پاکستان کو دہشت گردی کی جنگ ہی فرنٹ لائن سٹیٹ ،(بش کے الفاظ میں امریکہ کا نان نیٹو اتحادی اور عملاً اس کا نہایت فرمانبردار اطاعت گزار) بنادینے کے بعد ڈالروں کی بارش سے شوکت عزیز اور ا س کی اقتصادی ٹیم نے مصنوعی معیشت کا جو غبارہ تیار کیا وہ ان کی رخصتی کے ساتھ ہی پھٹ گیا تھا۔ڈاکٹر صاحب اپنے ممدوح کی وکالت کرتے ہوئے رقم طراز ہیں کہ پاکستان کے آئین میں صدر کی حیثیت محض رسمی ہوتی ہے۔ اصل چیف ایگزیکٹو وزیر اعظم ہوتا ہے۔ صدر تو صرف وزیر اعظم کے مشوروں پر، اپنی کابینہ کے سا تھیوں اور ساتھی کور کمانڈروں کے مشوروں کے بعد عمل کرتا ہے۔
جی ہاں! حقیقی پارلیمانی نظام میں وزیر اعظم ہی چیف ایگزیکٹو ہوتا ہے لیکن کیا مشرف دور میں بھی معاملہ یہی تھا؟ وہ12اکتوبر1999ء کے شب خون کے بعد بلا شرکت غیرے پاکستان کا مالک و خود مختار تھا۔ اکتوبر 2002ء کے الیکشن کے بعد بھی(17ویں ترمیم کے ذریعے) یہ پوزیشن برقرار رہی۔ قاف لیگ کی حیثیت ایوان اقتدار میں اس کی باندی سے زیادہ کیا تھی؟ خود’’ان دی لائن آف فائر‘‘ میں اس نے لکھا کہ قاف لیگ اس کی سیاسی ضرورت کے تحت تخلیق کی گئی تھی۔ وزیر اعظم جمالی کو اسے اپنا’’باس‘‘ کہنے میں کوئی عارنہ تھی۔ عبوری وزیر اعظم چوہدری شجاعت حسین(جنہیں بعض ستم ظریف حلالہ وزیر اعظم بھی کہتے) کے بعد شوکت عزیز بھی’’یس پرائم منسٹر ‘‘ سے ز یادہ کیا تھی؟12اکتوبر 1999ء اور اس کے بعد3نومبر2007ء ،دونوں بار اس نے کسی’’وسیع تر قومی مفاد‘‘ اور’’ناگزیر قومی مصلحت‘‘ کے تحت نہیں، صرف اپنے ذاتی مفاد کے لئے آئین شکنی کی۔ پہلی بار اپنی ملازمت کا تحفظ اور دوسری بار غیر آئینی باوردی صدارت کا تسلسل مطلوب تھا۔3نومبر کا معاملہ عدالت میں زیر سماعت ہے اور وہ ایک بار پھر اپنے’’ادارے‘‘ کا نام استعمال کرنے کی کوشش کررہا ہے۔ اس کے فیض یافتہ بعض ریٹائرڈ حضرات خاکی وردی کی تقدیس کی دہائی دے رہے ہیں لیکن ان کے باس نے خاکی وردی کے وقار کو کس سطح پر پہنچا دیا تھا؟ جب فوج عملاً چھائونیوں اور عسکری رہائش گاہوں تک محدود ہو کر رہ گئی تھی اور فوجیوں کے لئے حکم تھا کہ کسی ناگزیر ضرورت کے تحت شہری آبادیوں میں جانا ہو تو اس طرح جائیں کہ پہچانے نہ جائیں۔جہاں تک کرپشن کے خاتمے کا دعویٰ ہے اس نے احتساب کو بھی اپنے سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کیا۔ پیر پگاڑا (مرحوم) نے کیا دلچسپ بات کہی تھی، پیسٹریاں کھانے والے پکڑے گئے اور بیکریاں ہضم کرجانے والے بچ نکلے بلکہ اقتدار کے ایوانوں میں عزت مآب ہوگئے کہ انہوں نے سر تسلیم خم کردیا تھا۔خاکی وردی کا تقدس مانع نہ ہو تو ہم پاک دامن کمانڈو کے رفقاء کے خلاف این ایل سی کیس اور لاہو رکے ایک ’’کلب‘‘ کی لیز کی یاد دہانی کرادیں اور وہ چین سے ریلوے انجنوں اور بوگیوں کی خریداری کا معاملہ بھی، جس کا ذکر کرنے پر بے چارے صدیق الفاروق خفیہ والوں کے بدترین تشدد کا نشانہ بنے تھے۔ خودکمانڈو کا چک شہزاد والا کروڑوں روپے کا فارم ہائوس، لندن کے ایجور روڈ پر50کروڑ روپے کا فلیٹ ،دبئی سمیت دنیا کے مختلف شہروں میں قیمتی اثاثے اور اب مہنگے ترین وکلاء کی کروڑوں کی فیسیں، یہ سب کچھ جادو کی کس چھڑی یا الہٰ دین کے کس چراغ کا کرشمہ ہے؟ ہمارا سائنسدان مضمون نگار این آر او کے بارے میں کیا کہے گا جو کمانڈو کی باوردی صدارت کے لئے سودے بازی کا نتیجہ تھا۔
بات لمبی ہورہی ہے اکبر بگٹی کے قتل کے بعد بلوچستان میں عسکریت کی آگ بھڑکانے سے لے کر لال مسجد اور جامعہ حفصہ آپریشن کے نتیجے میں دہشت گردی کی فصل اگانے تک ڈاکٹر صاحب کے ممدوح کے کارنامے ایک پوری کتاب کا تقاضا کرتے ہیں جو صرف ہمیں نہیں، ہماری آئندہ نسلوں کو بھی کمانڈو صدر کی یاد دلاتے رہیں گے، ہم انہیں کیسے بھول سکتے ہیں؟
http://beta.jang.com.pk/NewsDetail.aspx?ID=163566
 

ظفری

لائبریرین
چلیں ایک بات تو طےہوگئی کہ اس قسم کی حرکات صرف پرویز مشرف ہی سے گذشتہ 64 سالوں میں سرزد ہوئیں ہیں ۔ :thinking:
 
اچھے برے کام تو سب ادوار میں ہوئے ہیں۔مگر خود کش حملوں اور ڈرون حملوں جیسے خوفناک مسائل کا سامنا پاکستان کو پہلے نہیں کرنا پڑا۔
 
اچھے برے کام تو سب ادوار میں ہوئے ہیں۔مگر خود کش حملوں اور ڈرون حملوں جیسے خوفناک مسائل کا سامنا پاکستان کو پہلے نہیں کرنا پڑا۔

نوے ہزار فوجی قیدی انڈیامیں ذلت کے تین سال نہیں بلکہ ہنی مون منانے گئے تھے
 

ظفری

لائبریرین
اچھے برے کام تو سب ادوار میں ہوئے ہیں۔مگر خود کش حملوں اور ڈرون حملوں جیسے خوفناک مسائل کا سامنا پاکستان کو پہلے نہیں کرنا پڑا۔
یہ مشرف کی بدقسمتی ہے کہ ڈورن پہلے ایجاد نہ ہوئے تھے۔ اور خودکش حملوں کا رحجان اس سے قبل اتنا بھی نہیں تھا ۔
 
نوے ہزار فوجی نہیں 53 ہزار فوجی اور تین سال نہیں سوا دو سال

لاکھوں ریپز جو پاکستانی فوجیوں نے کیے مشرقی پاکستان میں پاکستانیوں کے اس کا کوئی ذمہ دار ہے؟
لاکھوں پاکستانیوں کے گھروں کو پھونکنے والوں کو کچھ شرم نہیں اتی بلکہ ان کو تو نشان حیدر عطا کیے جاتے ہیں۔
بے چارہ مشرف ہی اس کا بھی ذمہ دار ہے
بلکہ ابھی حال ہی میں امریکی فوج پاکستان کے شہر ایبٹ اباد میں قتل و غارت گری کرکے جاچکے ۔ مگر کسی کے سر پر جوں بھی نہیں رینگی۔ کیا اس کا بھی مشرف ذمہ دار ہے؟
 

ظفری

لائبریرین
جنرل ضیا کی دین ایم کیو ایم اور ن لیگ
جنرل مشرف کی دین خود کش حملے، طالبان اور ڈرون
جنرل ضیا ء کی دین = کلاشنکوف کلچر ، ہیروئن ، مذہبی انتہا پسندی، مجاہدین ( اب طالبان ) ،
جنرل مشرف کی دین = چوہدری افتخار جسٹس ، صدر زردار ی ، الیکڑونک میڈیا
دونوں کی دین کو ، منفی اور مثبت پہلوؤں سے دیکھنے میں کوئی پابندی نہیں ۔ ;)
 
یہ مشرف کی بدقسمتی ہے کہ ڈورن پہلے ایجاد نہ ہوئے تھے۔ اور خودکش حملوں کا رحجان اس سے قبل اتنا بھی نہیں تھا ۔
1965 کی جنگ میں پاکستانی فوجی بم لیکر بھارتی ٹینکوں کے نیچے گھس گئے۔ مشرف کی مہربانیوں کے نتیجے میں پاکستان کے اپنے قبائیلی شہری پاکستان کو اپنا دشمن سمجھ کر بم باندھ کر پاکستانیوں کو شہید کر رہے ہیں۔
 
جنرل ضیا ء کی دین = کلاشنکوف کلچر ، ہیروئن ، مذہبی انتہا پسندی، مجاہدین ( اب طالبان ) ،
جنرل مشرف کی دین = چوہدری افتخار جسٹس ، صدر زردار ی ، الیکڑونک میڈیا
دونوں کی دین کو ، منفی اور مثبت پہلوؤں سے دیکھنے میں کوئی پابندی نہیں ۔ ;)

ٹھیک کہہ رہا ہے یار۔ کبھی کبھار ترنگ سے باہر بھی آجاتے ہوتم تو۔

ایوب خان کی دین - کالے قانون - یحییٰ خان
یحییٰ خان کی دین: بنگلہ دیش اور ٹکا خان
 
نوے ہزار فوجی قیدی انڈیامیں ذلت کے تین سال نہیں بلکہ ہنی مون منانے گئے تھے
وہ دشمن کے ساتھ جنگ تھی، ڈرون حملوں کا معاہدہ مشرف نے خود امریکہ کے ساتھ کیا امریکہ کو اپنے شہریوں پر بم برسانے کا لائسنس دیا
 
1965 کی جنگ میں پاکستانی فوجی بم لیکر بھارتی ٹینکوں کے نیچے گھس گئے۔
میں نے بھی یہ بات سنی ہے کئی مرتبہ ۔ لیکن اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ اس میں کیا صداقت ہے۔۔۔۔کیونکہ بم باندھ کر ٹینک کے نیچے گھسنے کی بجائے براہِ راست بھی بم اس ٹینک کے نیچے پھینکا جاسکتا تھا۔۔۔واللہ اعلم
 

ظفری

لائبریرین
1965 کی جنگ میں پاکستانی فوجی بم لیکر بھارتی ٹینکوں کے نیچے گھس گئے۔ مشرف کی مہربانیوں کے نتیجے میں پاکستان کے اپنے قبائیلی شہری پاکستان کو اپنا دشمن سمجھ کر بم باندھ کر پاکستانیوں کو شہید کر رہے ہیں۔
آپ تاریخ صحیح کرلیں ۔ وہ چند دیہاتی تھے ۔ جنہوں نے یہ کام انجام دیا ۔ کیونکہ ان کو بتایا گیا تھا کہ انڈیا نے ہم پر حملہ کردیا ہے ۔ جبکہ حقیقت یہ تھی کہ پاکستان نے اپنے تخریب کار 1965 میں انڈیا میں بھیجے ۔ جس کے جواب میں انڈیا نے کاروائی کی ۔ آپ صرف اخباری تراشوں پر کام نہ چلائیں ۔ تاریخی حقائق کے لیئے محققین ، مورخ اور دانشوورں کی تصانیف کا بھی مطالعہ کیجیئے ۔ دوم یہ کہ پاکستانی شہری کس قانون کے تحت غیر ملکیوں کو اپنے گھروں میں پناہ دیئے ہیں ۔ انہیں افغانستان کی طرف کیوں نہیں دھکیلتے تاکہ ڈورن حملوں سے بچیں ۔
 
میں رؤوف طاہر اور عرفان صدیقی کے کالمز نہیں پڑھتا (الرجی ہوتی ہے)۔۔۔ ۔البتہ عطاء الحق قاسمی کے کبھی کبھی پڑھ لیتا ہوں۔۔۔ :)
میرے خیال میں صحیح بات جاننے کیلئے دونوں اطراف کا مؤقف جاننا چاہئے، صرف ایک فریق کا نکتہ نظر جان کر فیصلہ کرنا مناسب نہیں۔ ڈاکٹر عطاءالرحمان نے مشرف کی مدح میں کالم لکھا اب اس کے جواب والا کالم بھی پڑھنا چاہئے۔ میں نے دونوں کالم پڑھے ہیں۔ :):)
 
میرے خیال میں صحیح بات جاننے کیلئے دونوں اطراف کا مؤقف جاننا چاہئے، صرف ایک فریق کا نکتہ نظر جان کر فیصلہ کرنا مناسب نہیں۔ ڈاکٹر عطاءالرحمان نے مشرف کی مدح میں کالم لکھا اب اس کے جواب والا کالم بھی پڑھنا چاہئے۔ میں نے دونوں کالم پڑھے ہیں۔ :):)

تو ڈاکٹر صاحب کا کالم بھی لگانا تھا
جب دونوں ہی پڑھے ہیں تو مان کیوں نہیں لیتے کہ ڈاکٹر درست کہتا ہے
 
Top