مثال میں میر کا شعر تقطیع کیا ہے:
عشق کیا سر، دین گیا، ایمان گیا، اسلام گیا
دل نے ایسا کام کیا، کچھ جس سے میں ناکام گیا
پہلے مصرعے کا وزن:
فعل فعولن فعل فعولن فعل فعولن فعلُ فعَل
دوسرا مصرع:
فعلن فعلن فعل فعولن فعلن فعلن فعلُ فعَل
ان مثالوں کے بعداب تک آپ اتنا تو جان چکے ہونگے کہ بحر ہندی در اصل ہندی پنگل نہیں بلکہ علمِ عروض ہے۔
ان اشعار کی تقطیع صوتی نظام کے تحت یوں ہوگی
عشقک، یاسر،دی نگ ،یا اے ، نگ یا، اسلا، مگ یا
فعلن ، فعلن، فعلن،فعلن، فعلن، فعلن ،فعلن
دوسرا مصرع
دل نے، سا کا،مک یا ، کچ جس، سے میں، نا کا، مگ یا
فعلن، فعلن، فعلن، فعلن فعلن فعلن فعلن
دوسرے مصرعے میں " نے " کی "ے" گر رہی ہے اور " ایسا" کی الف۔ یوں اس کی صوت " نیسا " پر برقرار رہتی ہے
یعنی فعلن کی سات بار تکرار سے دونوں مصرعوں کا آہنگ برقرار ہے
اس مثال سے آپ جان سکتے ہیں کہ ہندی بحر دراصل ہندی یا پنجابی آہنگ پر ہے نہ کہ علمِ عروض پر۔
بھلا بتائیں ایک عام سا دیہاتی جو نہ تو شاعر ہے نہ اسے علم عروض کی شد بد ہے وہ عام حالات میں یا شادی بیاہ کے موقع پر ڈھولے ماہیے ،ٹپے جوڑ جوڑ کر محفل کو گرماتا ہے اپنی آواز سے اس کا پڑھا ہوا ماہیا فعلن کے اوزان پر پورا اترتا ہے تو مان لیں کہ " فعلن " کا آہنگ دراصل قدرتی ہے جسے ایک عام سا شخص بھی بغیر کسی علم کے ڈھولے ماہیے گاسکتاہے۔
بھلا یہ بتائیں ایک شاعر جب کسی ایسی بحر میں کوئی شعر لکھتا ہے یا غزل کہتا ہے وہ کیا فعلن کی عین کو متحرک ذہن میں رکھ کر مصرع موزوں کرتا ہے وہ تو سیدھا سادہ اسے فعلن کے آہنگ پر کہتا چلا جاتا ہے۔ بعد میں عروض دان ایسی صورت حال میں جب کوئی لفظ کے آخر میں دو ساکن آجائیں اور اگلا لفظ وتد مجموع ہوتو اس کی تقطیع 211 پر کرے اور اسے خواہ مخواہ اردو کی بحر کہنے پر اصرار کرے زحافات کا بھرمار لگا دے اور کسی طرح اس کا عروضی وزن پورا کرے میرا خیال ہے کہ اس عوامی آواز کو مارنے کے مترادف ہوگا۔
یہی وجہ ہے کہ عروض دانوں نے اس بحر پر جتنا سر گھپایا ہے اس کی گتھی کو سلجھا نہیں سکے کہیں فعل فعول کے چکر میں کوئِ مصرع تقطیع میں بڑھ جاتا ہے کوئی کم ہو جاتا ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ اردو ماہیے پر جب کام شروع ہوا تو اس کے اصل آہنگ سے ہٹ کر اردو ماہیے کے لیے اوازن ترتیتب دیتے وقت الجھ کر رہ گئے نتیجتا کئی اوزان پر ماہیے کہنے کی کوشش کی گئی جس سے اس کا صوتی نظام بگڑ گیا اور وہ کسی طرح پنجابی ماہیے کی آہنگ پر پورا نہ اترسکا۔البتہ اردو ماہیے کا ایک آہنگ مفعول مفاعیلن، فعْل مفاعیلن، مفعول مفاعیلن ایک ایسا آہنگ ہے جو عین پنجابی ماہیے کا آہنگ ہے۔اگر اردو ماہیا پنجابی کے آہنگ یعنی فعلن فعلن فعلن،فعلن فعلن فع، فعلن فعلن فعلن پر لکھا جاتا تو آج اردو ماہیا ایک توانا صنف کا درجہ حاصل کر چکا ہوتا۔
اردو کے جو ماہیے پنجابی کے آہنگ پر لکھے گئے جس کے لیے اردو کی یہ بحر تجویز کی گئی، مفعول مفاعیلن، فعل مفاعیلن، مفعول مفاعیلن ان ماہیے کو گا کر اور ایک پنجابی ماہیے کو گا کر محسوس کریں تو دونوں کے آہنگ میں کہیں کجی محسوس نہیں ہوگی۔
لہذا ساحر لدھیانوی قمر جلال آبادی نے درست پنجابی ماہیے لکھتے وقت پنجابی ماہیے کو کسی عروضی حوالے سے سمجھنے کی بجائے اسے اسکی دھن کے ذریعے سمجھنے کی کوشش کی اور کامیاب رہے۔ دیگر میں بشیر منذر، عبدالمجید بھٹی، منیر عشرت اور ثاقب زیروی نے تین ہم وزن مصرعوں کے ثلاثی پیش کئے جو کہ کامیاب نہ ہوسکے۔علی محمد فرشی کے تین ہم وزن مصرعوں کے ثلاثی ماہیوں کے نام سے منظر عام پر آئے اور پی ٹی وی پر ٹیلی کاسٹ کیے گئے ان کی گائیگی سے ہی اندازہ ہو رہا تھا کہ ماہیے کا درست آہنگ نہ ہونے کی وجہ سے گانے والا مشکل میں دکھائی دے رہا تھا اور گائیکی کا انداز بھی پنجابی کی کسی دھن سے میل نہیں کھا رہا تھا۔ اسی کے دہائی میں چونکہ ہائیکو تین ہم وزن مصرعوں پر لکھی جانے والی صنف میں کام ہو رہا تھا چنانچہ ہائیکو لکھنے والوں نے اردو ماہیے کی طرف رخ کیا اور تین ہم وزن ثلاثی کو ماہیے کے نام سے منظر عام پر لائے۔
چنانچہ ماہیے کا ٹھیک آہنگ نہ سمجھنے کی وجہ سے اردو ماہیا زیادہ عرصہ زندہ نہ رہ سکا۔
اگر اردو ماہیے کو پنجابی کے آہنگ پر لکھا جائے تو یہ صنف تیزی سے مقبول ہوسکتی ہے۔اردو ماہیے کے لیے مفعول مفاعیلن، فعْل مفاعیلن، مفعول مفاعیلن، پنجابی وزن فعلن فعلن فعلن، فعلن فعلن فع، فعلن فعلن فعلن پر ہے اور دونوں کے صوتی نظام میں کہیں رکاوٹ محسوس نہیں ہوتی۔ لیکن اگر اردو ماہیا کو عروض کی پیچیدگیوں میں ڈال دیا جائے اور اس کو
2221122، 222112۔2221122 پررکھ کر مصرعے گھڑنے کی کوشش کی جائے گی تو یقینآ کسی جگہ اس کے صوتی نظام میں بگاڑ پیدا ہوسکتا ہے۔
سو معذرت چاہتا ہوں بسمل صاحب سے کہ اس ہندی یا پنجابی یا میرے لفظوں کے مطابق عوامی آہنگ کو کسی طور قبول نہیں کروں گا کہ اس کو عروض کی پیچیدگیوں میں ڈالا جائے۔۔۔ تاہم بسمل نے ایک کوشش کی اس کے لیے بھرپور داد ۔۔۔۔
نیز بسمل کے ایک مضمون رباعی کے دو اوزان پر کسی حد تک متفق ہوں۔