سیما علی
لائبریرین
’’یاخدا ‘‘کا آغاز تقسیم ِ ہندسے کچھ عرصہ قبل مشرقی پنجاب میں سکھوں کے ایک گائوں چمکور سے ہوتا ہے جہاں ’’دلشاد‘‘ اپنے باپ ملا علی بخش کے ساتھ مسجد کے حجرے میں رہا کرتی تھی۔ملا علی بخش کی وجہ سے چمکور کی مسجد آباد تھی ۔وہ پانچ وقت اذان دیتا تھا لیکن امریک سنگھ کی بیوی اور اس کی بہن کو اذان سے بڑی کوفت ہوتی تھی کیوں کہ :
’’اس نے بڑے بزرگوں سے سن رکھا تھا کہ اذان میں کالے جادو کے بول ہوتے ہیں اور جوان عورتیں اسے سن کر ’’بانگی‘‘جاتی ہیں ۔اگر بن بیاہی نو خیز لڑکی بانگی جائے تو اس کے بانجھ ہونے کا ڈر تھا۔اگر بیاہی ہوئی بیوی بانگی جائے تو اس کے حمل گرنے لگتے تھے !چناچہ امریک سنگھ کے گھر میں پشت ہا پشت سے یہ رسم تھی کہ ادھر اذان کی آواز فضا میں لہرائی ادھر کسی نے کٹورے کو چمچے سے بجانا شروع کیا ۔کسی نے چمٹے سے لڑایا ۔کوئی کانوں میں انگلیا ں ٹھونس کر بیٹھ گئی ،کوئی بھاگ کر پچھلی کوٹھری میں جا گھسی۔۔۔اور اس طرح بہادر خاندان اپنی لاڈلیوں کی کوکھ کو کالے جادو کے اثر سے بچاکر ہرا بھرا رکھتا آیا تھا‘‘ ۲؎
تقسیم ہند کے وقت چوں کہ ہندستان کے مختلف صوبوں میں فرقہ وارانہ فسادات پھوٹ پڑے تھے تو اس کا اثر چمکورپر بھی پڑا جہاں سکھوں نے گائوں کے سبھی مسلمانوں کو بے دردی سے قتل کردیا ۔ملاعلی بخش کوسکھ خصوصاًاذان کی آواز سے ہمیشہ کے لیے چھٹکارا حاصل کرنے اوربقول قدرت اللہ شہاب’’ اپنی عورتوں کی کوکھ کو کالے جادو کے اثر سے بچا کر ہرا بھرا رکھنے کے لیے ‘‘جس وحشیانہ انداز میں قتل کرتے ہیں اس کا اندازہ اس اقتباس سے لگایا جاسکتا ہے :
’’جس روز وہ کنوئیں کی منڈیر پر بیٹھا وضو کررہا تھا امریک سنگھ نے خود اسے نیزے کی نوک پر اچھالا،ترلوک سنگھ نے اس کواپنی تلوار پر آزمایا،گیانی دربار سنگھ نے اس کے جھنجھناتے ہوئے خون آلود جسم کو تڑاخ سے کنوئیں میں پھینک ڈالا‘‘ ۳؎
چمکور سے مسلمانوں کو ناپید کرنے کے بعد سکھوں نے ’’دلشاد‘‘ کو اسی مسجد میں رکھاجس کے گنبد کبھی ملا علی بخش کی اذانوں سے گونج اٹھتے تھے لیکن اب یہاں کوئی اذان نہیں دیتا،کوئی تلاوت نہیں ہوتی اور نہ ہی نمازیں ادا کی جاتی ہیں ۔یہ مسجدپھر بھی ،گوردواروں کے مقابلے میں چمکور کے سکھوں کی توجہ کا مرکز بنی رہتی ہے لیکن اس کی حیثیت بدل جاتی ہے ۔یہاں پہلے نمازی اپنے معبودِ برحق کے سامنے سربسجود ہونے کے لیے دوڑے چلے آتے تھے اب لوگ جنسی بھوک مٹانے کے لیے باریاں باندھ باندھ کر آتے ہیں ۔باپ ،بیٹا ،بھائی سبھی باری باری آکر ’’ دلشاد‘‘ کو بے آبرو کرتے ہیں ۔اس کو جنسی تشدد کا نشانہ بناتے ہیں ۔ مسجد میں رات دن شراب و کباب کے دور چلتے ہیں ۔بھنگ کی بالٹیاں بٹتی ہیں ۔ جب ’’دلشاد‘‘ کوجنسی ،جسمانی اور ذہنی اذیتیں پہنچائی جاتی تھی تو بقول قدرت اللہ شہاب سکھوں کو:
’’یہ فخر ہوتاکہ وہ گن گن کر ساڑھے تیرہ سو برس کی اذانوں اور نمازوں کا بدلہ چکا رہے ہیں ‘‘۳؎
’’اس نے بڑے بزرگوں سے سن رکھا تھا کہ اذان میں کالے جادو کے بول ہوتے ہیں اور جوان عورتیں اسے سن کر ’’بانگی‘‘جاتی ہیں ۔اگر بن بیاہی نو خیز لڑکی بانگی جائے تو اس کے بانجھ ہونے کا ڈر تھا۔اگر بیاہی ہوئی بیوی بانگی جائے تو اس کے حمل گرنے لگتے تھے !چناچہ امریک سنگھ کے گھر میں پشت ہا پشت سے یہ رسم تھی کہ ادھر اذان کی آواز فضا میں لہرائی ادھر کسی نے کٹورے کو چمچے سے بجانا شروع کیا ۔کسی نے چمٹے سے لڑایا ۔کوئی کانوں میں انگلیا ں ٹھونس کر بیٹھ گئی ،کوئی بھاگ کر پچھلی کوٹھری میں جا گھسی۔۔۔اور اس طرح بہادر خاندان اپنی لاڈلیوں کی کوکھ کو کالے جادو کے اثر سے بچاکر ہرا بھرا رکھتا آیا تھا‘‘ ۲؎
تقسیم ہند کے وقت چوں کہ ہندستان کے مختلف صوبوں میں فرقہ وارانہ فسادات پھوٹ پڑے تھے تو اس کا اثر چمکورپر بھی پڑا جہاں سکھوں نے گائوں کے سبھی مسلمانوں کو بے دردی سے قتل کردیا ۔ملاعلی بخش کوسکھ خصوصاًاذان کی آواز سے ہمیشہ کے لیے چھٹکارا حاصل کرنے اوربقول قدرت اللہ شہاب’’ اپنی عورتوں کی کوکھ کو کالے جادو کے اثر سے بچا کر ہرا بھرا رکھنے کے لیے ‘‘جس وحشیانہ انداز میں قتل کرتے ہیں اس کا اندازہ اس اقتباس سے لگایا جاسکتا ہے :
’’جس روز وہ کنوئیں کی منڈیر پر بیٹھا وضو کررہا تھا امریک سنگھ نے خود اسے نیزے کی نوک پر اچھالا،ترلوک سنگھ نے اس کواپنی تلوار پر آزمایا،گیانی دربار سنگھ نے اس کے جھنجھناتے ہوئے خون آلود جسم کو تڑاخ سے کنوئیں میں پھینک ڈالا‘‘ ۳؎
چمکور سے مسلمانوں کو ناپید کرنے کے بعد سکھوں نے ’’دلشاد‘‘ کو اسی مسجد میں رکھاجس کے گنبد کبھی ملا علی بخش کی اذانوں سے گونج اٹھتے تھے لیکن اب یہاں کوئی اذان نہیں دیتا،کوئی تلاوت نہیں ہوتی اور نہ ہی نمازیں ادا کی جاتی ہیں ۔یہ مسجدپھر بھی ،گوردواروں کے مقابلے میں چمکور کے سکھوں کی توجہ کا مرکز بنی رہتی ہے لیکن اس کی حیثیت بدل جاتی ہے ۔یہاں پہلے نمازی اپنے معبودِ برحق کے سامنے سربسجود ہونے کے لیے دوڑے چلے آتے تھے اب لوگ جنسی بھوک مٹانے کے لیے باریاں باندھ باندھ کر آتے ہیں ۔باپ ،بیٹا ،بھائی سبھی باری باری آکر ’’ دلشاد‘‘ کو بے آبرو کرتے ہیں ۔اس کو جنسی تشدد کا نشانہ بناتے ہیں ۔ مسجد میں رات دن شراب و کباب کے دور چلتے ہیں ۔بھنگ کی بالٹیاں بٹتی ہیں ۔ جب ’’دلشاد‘‘ کوجنسی ،جسمانی اور ذہنی اذیتیں پہنچائی جاتی تھی تو بقول قدرت اللہ شہاب سکھوں کو:
’’یہ فخر ہوتاکہ وہ گن گن کر ساڑھے تیرہ سو برس کی اذانوں اور نمازوں کا بدلہ چکا رہے ہیں ‘‘۳؎