الف عین
لائبریرین
مرزا خلیل احمد بیگ کے قلم سے:
پروفیسر مرزا خلیل احمد بیگ
’’عرین ‘‘، اسٹریٹ ۔1، اقرا کالونی ،
نیو سر سید نگر،علی گڑھ (بھارت)
’ لغتِ مجتہدی ‘
یعقوب میراں مجتہدی کاایک عظیم علمی کارنامہ
یعقوب میراں مجتہدی ہمارے عہد کی ایک ایسی فعال اورسرگرمِ عمل شخصیت کا نام ہے جس نے اپنی پوری زندگی صرف ایک مقصد کے حصول کے لیے وقف کردی اور محض اپنے بل بوتے پر اور صرف اپنے محدود وسائل کی مدد سے نہایت خوش اسلوبی کے ساتھ ایک ایسا قابلِ قدر علمی کارنامہ انجام دیا جسے کوئی اکادمی ‘ انجمن یا ادارہ ہی انجام دے سکتا تھا۔ بیجا نام و نمود، جلسے جلوس اور میڈیا کی چمک دمک سے دور رہ کر حیدرآباد (دکن)کے ایک گمنام گوشے میں بیٹھ کر مجتہدی صاحب نے اردو ۔ انگریزی لغت جو ’ لغتِ مجتہدی‘ کے نام سے موسوم ہے،کی ترتیب و تدوین کا ایک ایسا مہتم بالشان اور عظیم علمی کارنامہ انجام دیا ہے جو قرنوں تک (جب تک اردو زبان زندہ ہے) ان کے نام کو زندہ و تا بندہ رکھے گا۔ سالہا سال کی محنتِ شاقہ کے بعد اب (۲۰۰۷ء) یہ لغت چھپ گیا ہے ۔
اردو۔انگریزی لغت کے پروجیکٹ کا یہ کام مجتہدی صاحب نے محض اپنی ذاتی دلچسپی کی بناپر آج سے تقریباً پچیس سال قبل شروع کیا تھا۔ رفتہ رفتہ اس کام میں تیزی آتی گئی اور سرکاری ملازمت سے سبکدوش ہوجانے کے بعد تو انھو ں نے اس کام کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنالیا تھا۔ وہ اس کام میں باقاعدہ مشن کے طور پر جی جان سے جُٹ گئے تھے اور اسے اپنی زندگی کا اولین مقصد قرار دے دیا تھا۔ انھیں اس کام کی ایسی دُھن سوار ہوگئی تھی کہ سوتے جاگتے، اٹھتے بیٹھتے ،چلتے پھرتے ہمہ وقت وہ اپنے اسی لغت کے بارے میں سوچتے رہتے تھے اور اپنی طویل العمری اور وسائل کی تنگی کے باوجود ہمہ تن اسی کام میں مصروف رہتے تھے۔ چنانچہ کامیابی نے ان کے قدم چومے اور عمرِ عزیز کی پون صدی گذارنے کے بعد ان کی زندگی میں وہ مبارک صبح طلوع ہوئی جب اس لغت کی تینوں جلدیں زیورِ طبع سے آراستہ ہوکر ان کے ہاتھوں کی زینت بنیں۔ تخلیق کوئی بھی ہو اس کا عمل کتنا تکلیف دہ (Painful) ہوتا ہے‘ لیکن تخلیق کے بعد جو بیکراں خوشی میسر آتی ہے اس کا اندازہ خالق کے سوا کوئی اور نہیں لگا سکتا۔ مجتہدی صاحب کئی دہوں کے صبر آزما تخلیقی عمل کے بعد اپنی اس تخلیق کو دیکھ کر کس بے پایاں مسرت سے ہم کنار ہوئے ہوں گے، اس کا اندازہ صرف انھیں کو ہوگا۔
یعقوب میراں مجتہدی صاحب سے ملاقات کا شرف آج سے تقریباً دس بارہ سال قبل مجھے اس وقت حاصل ہواتھا جب متذکرہ لغت کی تدوین کا کام اپنے عروج پر تھا۔ میں کسی سیمینارمیں شرکت کی غرض سے حیدرآباد گیا ہوا تھا۔ وقت نکال کر مجتہدی صاحب سے ملنے میں ان کے دولت کدے واقع چنچل گوڑہ پہنچا جو حیدرآباد کی گنجان آبادی والا ایک محلہ ہے ۔ مکان ڈھونڈنے میں مجھے کوئی دشواری پیش نہیںآئی کیوں کہ چلنے سے پہلے میں نے مجتہدی صاحب کو فون کرکے ان سے ملاقات کا وقت طے کرلیا تھا۔ انھوں نے مجھے یہ بتادیا تھا کہ چنچل گوڑہ میں ان کا مکان ’ذائقہ کیفے ‘کے روبرو ہے چنانچہ پہلے میں ’ذائقہ کیفے‘ ہی پہنچا اور جیسے ہی میں نے مجتہدی صاحب کا نام لیا میرے مخاطَب نے کیفے کے سامنے والے مکان کی جانب ہاتھ سے اشارہ کردیا۔میں اسی جانب مڑ گیا۔ دروازے پر جیسے ہی دستک دی مجتہدی صاحب جو میرے منتظر تھے بہ نفسِ نفیس باہر تشریف لائے اور نہایت گرم جوشی سے ملے اور مجھے اپنے ساتھ اندر کے ایک کمرے میں لے گئے جو کافی کشادہ تھا۔ اس میں فائلوں ‘ کتابوں‘ ڈکشنریوں اور چھوٹے چھوٹے Index کارڈز اور کاغذات کا انبار لگا ہوا تھا۔ اسٹیل کی کئی الماریاں بھی تھیں۔ بہت سے کارڈز شیلف میں لگے ہوئے تھے۔ ایک جانب ایک بڑی سی میز بھی تھی جس پر پڑھنے لکھنے کی بہت سی چیزیں بکھری ہوئی تھیں ۔ یہیں بیٹھ کر مجتہدی صاحب لغت کی تدوین کا کام کرتے تھے۔ میز کے سامنے چند کرسیاں بھی پڑی تھیں‘ لیکن ان پر بیٹھنے کی نوبت ہی نہیں آئی۔ کمرے میں داخل ہوتے ہی چند رسمی جملوں کے تبادلے کے بعد مجتہدی صاحب نے لغت کا اپنا ساراکام دکھانا شروع کردیا۔ اب تک تدوینِ لغت سے متعلق جو کچھ بھی کام انھوں نے کیا تھا اور جس نہج اور انداز سے کیا تھا اس کی پوری تفصیل انھوں نے بڑے شوق اور چاہت کے ساتھ بیان کی اور ایک ایک الماری کھول کر وہ تمام کارڈز دکھائے جن پر کام مکمل ہوچکا تھا۔ مجھے یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ وہ لغت کا سارا کام خود کرتے ہیں۔ وہاں مجھے نہ کوئی کلرک نظر آیا‘ نہ کوئی ٹائپسٹ اور نہ کوئی اٹنڈنٹ ۔ میں نے وہاں تقریباً ڈیڑھ دو گھنٹے گزارے۔ لغت نویسی کے مسائل سے لے کر اردو زبان و ادب کی موجودہ صورتِ حال اور حیدرآباد کی علمی و ادبی شخصیتیں زیرِ تذکرہ آئیں۔ اس دوران میں انھوں نے چائے اور دیگر لوازمات سے میری خوب تواضع کی۔
مجتہدی صاحب سے اگرچہ یہ میری پہلی ملاقات تھی‘ لیکن وہ مجھ سے اتنی خندہ پیشانی اور بے تکلفی سے ملے جیسے کہ ہم ایک دوسرے کو برسوں سے جانتے ہوں۔ مجتہدی صاحب کا ذکر سب سے پہلے میں نے علی گڑھ میں پروفیسر مسعود حسین خاں سے سنا تھا جو خود ایک بہت اچھے لغت نویس ہیں۔ اپنے حیدرآباد کے قیام کے دوران انھوں نے ’دکنی اردو لغت‘ کی ترتیب و تدوین کا کام بحسن و خوبی انجام دیا تھا۔ یہ لغت آندھرا پردیش ساہتیہ اکیڈیمی (حیدرآباد) کی جانب سے ۱۹۶۹ء میں شائع ہوا۔ علاوہ ازیں وہ ترقیِ اردو بورڈ (اب قومی کونسل برائے فروغِ اردو زبان) ‘ نئی دہلی کے اردو۔ اردو لغت کے کام سے بھی برسوں وابستہ رہے تھے۔ مسعود صاحب اور مجتہدی صاحب اسی قدرِ مشترک کی وجہ سے ایک دوسرے سے ذہنی طور پر بیحد قریب تھے۔ چنانچہ جب میں نے حیدرآباد جانے کا قصد کیا تو ایک شام مسعود صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا۔ دورانِ گفتگو مجتہدی صاحب کا ذکر آیا۔ مسعود صاحب نے فرمایا کہ جب آپ حیدرآباد جائیں تو مجتہدی صاحب سے ضرور ملیں۔ ملاقات کے دوران مجتہدی صاحب نے مجھے بتایا کہ مسعود صاحب بھی ’’ لغت گھر‘‘ میں تشریف لاچکے ہیں اور لغت کے کام کو دیکھ چکے ہیں۔ مجتہدی صاحب ملازمت سے سبکدوش ہونے کے بعد کل وقتی طور پر لغت کے کاموں میں مصروف ہوگئے تھے۔ انھوں نے چوبیس گھنٹوں کے لیے خود کو اس کام کے لیے وقف کردیا تھا اور اپنے گھر کا نام بھی ’’لغت گھر‘‘ / "Dictionary House" رکھ دیا تھا جو اس بات کا غماز ہے کہ وہ اس کام میں اس حد تک منہمک ہوگئے تھے کہ پورے گھر کو ہی لغت گھر میں تبدیل کردیا تھا۔
یعقوب میراں مجتہدی نے اپنے اردو ۔ انگریزی لغت کی تدوین کا خاکہ بہت بڑے پیمانے پر تیار کیا تھا۔ وہ اسے دنیا کا سب سے بڑا اور جامع اردو۔انگریزی لغت بنانا چاہتے تھے جس میں اب تک کے تمام اردو۔انگریزی لغات میں شامل اندراجات سے زیادہ اندراجات ہوں اور ہر لفظ کے بارے میں زیادہ سے زیادہ معلومات فراہم کی جاسکیں۔ علاوہ ازیں اردو محاورا ت و ضرب الامثال بھی کثیر تعداد میں دیے جائیں اور دیگر زبانوں کے وہ الفاظ و محاورات جو زمانۂ حال کی اردو میں رواج پاگئے ہیں انھیں بھی شامل کرلیا جائے۔ یہ تمام باتیں مجتہدی صاحب نے ہماری ڈیڑھ گھنٹے کی گفتگو میں مجھے بتائیں اور ان کے عملی نمونے بھی پیش کیے۔ انھوں نے یہ بھی بتایا کہ جب اس کام کا بیڑا اٹھایا گیا تھا تو ان کے پیشِ نظر ایک لاکھ اندراجات (Entries) کا نشانہ تھا۔ یہ سن کر مجھے انتہائی حیرت ہوئی تھی‘ کیوں کہ بڑے سے بڑے اردو۔انگریزی لغت میں بھی ایک لاکھ تو کیا پچاس ساٹھ ہزار اندراجات بھی نہیں ملتے۔ اب جب کہ مجتہدی صاحب کا یہ لغت چھپ گیا ہے تو اس میں کل اندراجات ( بشمولِ بنیادی الفاظ) کی تعداد نوے ہزار (۰۰۰٬۹۰) بتائی گئی ہے۔
یعقوب میراں مجتہدی سراپا حیدرآبادی ہیں ۔۔۔۔ وہ حیدرآباد جسے دکن کے فرماں روا محمد قلی قطب شاہ (م ۱۶۱۰ء) نے بسایا اور یہ دعا مانگی:
مرا شہر لوگاں سے معمور کر
رکھیا جوں توں دریا میں مِن یا سمیع!
وہ حیدرآباد جس نے سلاطینِ گولکنڈہ کاعروج و زوال دیکھا‘ اور وہ حیدرآباد جہاں سلطنتِ آصفیہ کا چراغ گل ہوا‘ جو کبھی دکنی زبان و ادب کا گہوارہ تھا اور جہاں کی خاک سے کتنے ہی عالم ‘ صوفی‘ ادیب‘ شاعر اور دانشور اٹھے۔ اسی حیدرآباد کے ایک معزز خانوادے میں یعقوب میراں مجتہدی نے ۱۹۳۱ ء میں آنکھیں کھولیں۔ حیدرآباد کے ہی چنچل گوڑہ ہائی اسکول سے انھوں نے اردو میڈیم سے ابتدائی تعلیم حاصل کی اور وہاں کی عثمانیہ یونیورسٹی سے ۱۹۵۴ء میں گریجویشن کیا۔ مجتہدی صاحب کو ۱۹۶۰ ء میں حکومتِ آندھرا پردیش کے شعبۂ ترجمہ میں اردو مترجم کی ملازمت مل گئی۔ اس شعبے سے ۲۹ سال تک منسلک رہنے کے بعد وہ ۱۹۸۹ء میں ڈپٹی ڈائرکٹر آف ٹرانسلیشن کے عہدے سے سبکدوش ہوئے۔ سرکاری ملازمت کے دوران ان کی کارکردگی لائقِ ستائش رہی۔ ایک اچھے مترجم ہونے کی حیثیت سے انھیں اردو میں ایک جدید اور جامع اردو۔انگریزی لغت کی کمی کا شدید احساس رہا۔ اسی وقت سے انھوں نے اس کام کا بیڑا اٹھا لیا اور رفتہ رفتہ اردو الفاظ و مرکبات ‘ محاورات و ضرب الامثال اور جدیدعلمی اصطلاحات جمع کرتے رہے اور انھیں انگریزی میں منتقل کرتے رہے۔ آگے چل کر ان کا یہی کام اردو۔انگریزی لغت بن گیا جس کی اشاعت ’ لغتِ مجتہدی‘ کے نام سے ۲۰۰۷ء کے اوائل میں عمل میں آئی۔ اس کام کو پاےۂ تکمیل تک پہنچانے میں مجتہدی صاحب نے اپنی عمرِ عزیز کے ۲۵ سال صرف کیے۔ یہ لغت تین جلدوں میں ہے اور اس کے صفحات کی کل تعداد ۲۸۱۲ ہے۔ مجتہدی صاحب کا یہ لغت یعنی ’لغتِ مجتہدی‘ اہلِ اردو کے لیے ایک بیش قیمت تحفہ ہے جس سے مترجم و صحافی‘ ادیب و دانشور اور اساتذہ و طلبہ سبھی استفادہ کرسکتے ہیں۔
اس لغت کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں ۰۰۰٬۹۰( نوے ہزار ) سے زائد اندراجات (Entries) موجود ہیں جو آج تک کسی اردو۔انگریزی لغت میں دیکھنے میں نہیں آئیں۔ ان میں ۰۰۰٬۲۶ سے زائد اردو کے بنیادی الفاظ ہیں۔ علاوہ ازیں ۰۰۰٬۷ سے زائد عربی کے اور ۰۰۰٬۴ سے زائد فارسی کے الفاظ اس لغت میں شامل ہیں۔ تقریبا ۴۰۰ سنسکرت اور ہندی ن۔ژاد الفاظ بھی ہیں۔ زیرتذکرہ لغت میں انگریزی اور دیگر یورپی زبانوں (مثلاً یونانی ‘ لاطینی‘ فرانسیسی ‘ وغیرہ) کے الفاظ بھی شامل کیے گئے ہیں جن کی تعداد ڈیڑھ ہزار سے زائد ہے۔ ان کے علاوہ اس لغت میں تقریباً سوادوسو ترکی اور دکنی کے الفاظ بھی شامل کرلیے گئے ہیں۔ الفاظ کے اندراجات سے قطع نظر جملوں اور فقروں کی تعداد جو مثالاً پیش کیے گئے ہیں ۳۷۰۰ سے زائد ہے۔ اردو ضرب الامثال کی تعداد ایک ہزار سے زائد ہے۔ علاوہ ازیں ۲۵۰ سے زائد فارسی ضرب الامثال اور ۲۵ سے زائد عربی ضرب الامثال بھی لغت کا حصہ ہیں۔
الفاظ و محاورات اور ضرب الامثال کے اندراجات سے قطع نظر ’ لغتِ مجتہدی‘ کی بعض دیگر خصوصیات بھی قابلِ ذکر ہیں‘ مثلاً تلفظ کی نشاندہی اعراب کے ذریعے کی گئی ہے۔ علاوہ ازیں ایک صوتیاتی ٹیبل بھی دیا گیا ہے جس سے الفاظ کے تلفظ کے بارے میں رہنمائی حاصل ہوتی ہے۔ الفاظ کی اصل اور مآخذِ لسانی کی بھی نشاندہی کی گئی ہے اور یہ بھی بتایا گیا ہے کہ ان کا تعلق کن اجزائے کلام (Parts of Speech) سے ہے۔ الفاظ کی قواعدی نوعیت (تعداد‘ جنس‘ وغیرہ) پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے۔ الفاظ کے مشتقات سے بھی بحث کی گئی ہے اور ان کی تصریفی شکلوں کی بھی نشاندہی کی گئی ہے۔ جہاں تک کہ معنیاتی وضاحت کا تعلق ہے‘ اردوالفاظ کے مترادفات انگریزی میں دیے گئے ہیں۔ علاوہ ازیں ہم معنی الفاظ اور ہم صوت و ہم حرف الفاظ کی بھی نشاندہی کی گئی ہے اور مثالیں بھی پیش کی گئی ہیں۔
’ لغتِ مجتہدی‘ محض گنجینۂ لفظ و معنی ہی نہیں بلکہ یہ اندراجات سے متعلق صوتی‘ صرفی‘ قواعدی‘ تاریخی ‘ ادبی اور اسلوبیاتی معلومات کا بہترین ذریعہ بھی ہے ‘ نیز اس میں فقروں اور جملوں کی مدد سے بیشمار الفاظ کے استعمال کے طریقے بتائے گئے ہیں اور ان کے Usage سے متعلق ادبی و علمی نگارشات سے اسناد پیش کی گئی ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ لغت لفظ و معنی کی جہات و ابعاد سے متعلق تمام تر ضروری معلومات فراہم کرتا ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ یہ ایک مکمل‘جامع اور مستند دو لسانی (Bilingual) لغت ہے تو بیجا نہ ہوگا۔ اردو بولنے والے خواہ دنیا میں کہیں بھی ہوں اور کسی بھی پیشے یا شعبے سے تعلق رکھتے ہوں‘ اگر وہ انگریزی زبان کے ساتھ دو لسانی (Bilingual) ہیں تو یہ لغت ان کا بہترین ساتھی (Companion) ثابت ہوگا۔ اردو اب دنیا کے گوشے گوشے میں پھیل چکی ہے اور بین الاقوامی سطح پر اس کی توسیع و ترقی میں روز بروز اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ انگریزی بھی ایک بین الاقوامی زبان ہے۔ لہذا یعقوب میراں مجتہدی کے تیار کردہ اس لغت کی بین الاقوامی سطح پر بھی اہمیت و افادیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ ’لغتِ مجتہدی‘ سابقہ تمام اردو۔انگریزی لغات پر نہ صرف ایک اضافہ ہے بلکہ آخری حد ہے۔ اپنی جداگانہ اور منفرد حیثیت کے باعث اس نے قدیم وجدید تمام اردو۔انگریزی لغات کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ ’ لغتِ مجتہدی ‘ کا موازنہ جب ہم بعض نہایت مشہور اور اہم اردو ۔اردو لغات،مثلاً ’ فرہنگِ آصفیہ‘( سید احمد دہلوی) ، ’امیر اللغات‘ (امیر مینائی)، ’سرماےۂ زبانِ اردو‘ (سید ضامن علی جلالؔ لکھنوی)، ’نور اللغات‘ (نور الحسن نیر کا کور وی)، ’مہذب اللغات‘ (مہذب لکھنوی)اور ’ لغتِ کبیر اردو‘ (بابائے اردو مولوی عبدالحق) سے کرتے ہیں تو ہمیں پتا چلتا ہے کہ ’ لغتِ مجتہدی‘ اپنی بعض خصوصیات کے اعتبار سے ان لغات سے کہیں زیادہ جدید اور جامع لغت ہے اور لغت نویسی کے اصولوں پر پوری طرح کھرا اترتا ہے۔
’ لغتِ مجتہدی‘ بڑے سائز کی تین ضخیم جلدوں پر مشتمل ہے جن کے صفحات کی مجموعی تعداد ۲۸۱۲ ہے ۔ اس کی پہلی جلد الف تا ج ، دوسری جلد چ تا ق اور تیسری اور آخری جلد س تا ی سے شروع ہونے والے الفاظ پر مشتمل ہے۔ اس کا پہلا ایڈیشن ۲۰۰۷ء کے اوائل میں یعقوب میراں مجتہدی کی نگرانی میں‘ جو اس کے مولف اور ناشر بھی ہیں‘ حیدرآباد سے شائع ہوا۔ اس کا پیش لفظ اردو کے جلیل القدر ادیب و انشا پرداز‘ محقق‘ لغت نویس اور ماہرِ لسانیات و دکنیات پروفیسر مسعود حسین خاں نے تحریر فرمایا ہے۔ اس کی اشاعت حیدرآباد کی مخیر شخصیت جناب سید عبدالقادر جیلانی کی مالی معاونت سے عمل میں آئی ہے جن کا شکریہ نہ صرف یعقوب میراں مجتہدی پر واجب ہے بلکہ تمام اہلِ اردو ان کے ممنون و منت پذیر رہیں گے۔
٭٭٭
پروفیسر مرزا خلیل احمد بیگ
’’عرین ‘‘، اسٹریٹ ۔1، اقرا کالونی ،
نیو سر سید نگر،علی گڑھ (بھارت)
’ لغتِ مجتہدی ‘
یعقوب میراں مجتہدی کاایک عظیم علمی کارنامہ
یعقوب میراں مجتہدی ہمارے عہد کی ایک ایسی فعال اورسرگرمِ عمل شخصیت کا نام ہے جس نے اپنی پوری زندگی صرف ایک مقصد کے حصول کے لیے وقف کردی اور محض اپنے بل بوتے پر اور صرف اپنے محدود وسائل کی مدد سے نہایت خوش اسلوبی کے ساتھ ایک ایسا قابلِ قدر علمی کارنامہ انجام دیا جسے کوئی اکادمی ‘ انجمن یا ادارہ ہی انجام دے سکتا تھا۔ بیجا نام و نمود، جلسے جلوس اور میڈیا کی چمک دمک سے دور رہ کر حیدرآباد (دکن)کے ایک گمنام گوشے میں بیٹھ کر مجتہدی صاحب نے اردو ۔ انگریزی لغت جو ’ لغتِ مجتہدی‘ کے نام سے موسوم ہے،کی ترتیب و تدوین کا ایک ایسا مہتم بالشان اور عظیم علمی کارنامہ انجام دیا ہے جو قرنوں تک (جب تک اردو زبان زندہ ہے) ان کے نام کو زندہ و تا بندہ رکھے گا۔ سالہا سال کی محنتِ شاقہ کے بعد اب (۲۰۰۷ء) یہ لغت چھپ گیا ہے ۔
اردو۔انگریزی لغت کے پروجیکٹ کا یہ کام مجتہدی صاحب نے محض اپنی ذاتی دلچسپی کی بناپر آج سے تقریباً پچیس سال قبل شروع کیا تھا۔ رفتہ رفتہ اس کام میں تیزی آتی گئی اور سرکاری ملازمت سے سبکدوش ہوجانے کے بعد تو انھو ں نے اس کام کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنالیا تھا۔ وہ اس کام میں باقاعدہ مشن کے طور پر جی جان سے جُٹ گئے تھے اور اسے اپنی زندگی کا اولین مقصد قرار دے دیا تھا۔ انھیں اس کام کی ایسی دُھن سوار ہوگئی تھی کہ سوتے جاگتے، اٹھتے بیٹھتے ،چلتے پھرتے ہمہ وقت وہ اپنے اسی لغت کے بارے میں سوچتے رہتے تھے اور اپنی طویل العمری اور وسائل کی تنگی کے باوجود ہمہ تن اسی کام میں مصروف رہتے تھے۔ چنانچہ کامیابی نے ان کے قدم چومے اور عمرِ عزیز کی پون صدی گذارنے کے بعد ان کی زندگی میں وہ مبارک صبح طلوع ہوئی جب اس لغت کی تینوں جلدیں زیورِ طبع سے آراستہ ہوکر ان کے ہاتھوں کی زینت بنیں۔ تخلیق کوئی بھی ہو اس کا عمل کتنا تکلیف دہ (Painful) ہوتا ہے‘ لیکن تخلیق کے بعد جو بیکراں خوشی میسر آتی ہے اس کا اندازہ خالق کے سوا کوئی اور نہیں لگا سکتا۔ مجتہدی صاحب کئی دہوں کے صبر آزما تخلیقی عمل کے بعد اپنی اس تخلیق کو دیکھ کر کس بے پایاں مسرت سے ہم کنار ہوئے ہوں گے، اس کا اندازہ صرف انھیں کو ہوگا۔
یعقوب میراں مجتہدی صاحب سے ملاقات کا شرف آج سے تقریباً دس بارہ سال قبل مجھے اس وقت حاصل ہواتھا جب متذکرہ لغت کی تدوین کا کام اپنے عروج پر تھا۔ میں کسی سیمینارمیں شرکت کی غرض سے حیدرآباد گیا ہوا تھا۔ وقت نکال کر مجتہدی صاحب سے ملنے میں ان کے دولت کدے واقع چنچل گوڑہ پہنچا جو حیدرآباد کی گنجان آبادی والا ایک محلہ ہے ۔ مکان ڈھونڈنے میں مجھے کوئی دشواری پیش نہیںآئی کیوں کہ چلنے سے پہلے میں نے مجتہدی صاحب کو فون کرکے ان سے ملاقات کا وقت طے کرلیا تھا۔ انھوں نے مجھے یہ بتادیا تھا کہ چنچل گوڑہ میں ان کا مکان ’ذائقہ کیفے ‘کے روبرو ہے چنانچہ پہلے میں ’ذائقہ کیفے‘ ہی پہنچا اور جیسے ہی میں نے مجتہدی صاحب کا نام لیا میرے مخاطَب نے کیفے کے سامنے والے مکان کی جانب ہاتھ سے اشارہ کردیا۔میں اسی جانب مڑ گیا۔ دروازے پر جیسے ہی دستک دی مجتہدی صاحب جو میرے منتظر تھے بہ نفسِ نفیس باہر تشریف لائے اور نہایت گرم جوشی سے ملے اور مجھے اپنے ساتھ اندر کے ایک کمرے میں لے گئے جو کافی کشادہ تھا۔ اس میں فائلوں ‘ کتابوں‘ ڈکشنریوں اور چھوٹے چھوٹے Index کارڈز اور کاغذات کا انبار لگا ہوا تھا۔ اسٹیل کی کئی الماریاں بھی تھیں۔ بہت سے کارڈز شیلف میں لگے ہوئے تھے۔ ایک جانب ایک بڑی سی میز بھی تھی جس پر پڑھنے لکھنے کی بہت سی چیزیں بکھری ہوئی تھیں ۔ یہیں بیٹھ کر مجتہدی صاحب لغت کی تدوین کا کام کرتے تھے۔ میز کے سامنے چند کرسیاں بھی پڑی تھیں‘ لیکن ان پر بیٹھنے کی نوبت ہی نہیں آئی۔ کمرے میں داخل ہوتے ہی چند رسمی جملوں کے تبادلے کے بعد مجتہدی صاحب نے لغت کا اپنا ساراکام دکھانا شروع کردیا۔ اب تک تدوینِ لغت سے متعلق جو کچھ بھی کام انھوں نے کیا تھا اور جس نہج اور انداز سے کیا تھا اس کی پوری تفصیل انھوں نے بڑے شوق اور چاہت کے ساتھ بیان کی اور ایک ایک الماری کھول کر وہ تمام کارڈز دکھائے جن پر کام مکمل ہوچکا تھا۔ مجھے یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ وہ لغت کا سارا کام خود کرتے ہیں۔ وہاں مجھے نہ کوئی کلرک نظر آیا‘ نہ کوئی ٹائپسٹ اور نہ کوئی اٹنڈنٹ ۔ میں نے وہاں تقریباً ڈیڑھ دو گھنٹے گزارے۔ لغت نویسی کے مسائل سے لے کر اردو زبان و ادب کی موجودہ صورتِ حال اور حیدرآباد کی علمی و ادبی شخصیتیں زیرِ تذکرہ آئیں۔ اس دوران میں انھوں نے چائے اور دیگر لوازمات سے میری خوب تواضع کی۔
مجتہدی صاحب سے اگرچہ یہ میری پہلی ملاقات تھی‘ لیکن وہ مجھ سے اتنی خندہ پیشانی اور بے تکلفی سے ملے جیسے کہ ہم ایک دوسرے کو برسوں سے جانتے ہوں۔ مجتہدی صاحب کا ذکر سب سے پہلے میں نے علی گڑھ میں پروفیسر مسعود حسین خاں سے سنا تھا جو خود ایک بہت اچھے لغت نویس ہیں۔ اپنے حیدرآباد کے قیام کے دوران انھوں نے ’دکنی اردو لغت‘ کی ترتیب و تدوین کا کام بحسن و خوبی انجام دیا تھا۔ یہ لغت آندھرا پردیش ساہتیہ اکیڈیمی (حیدرآباد) کی جانب سے ۱۹۶۹ء میں شائع ہوا۔ علاوہ ازیں وہ ترقیِ اردو بورڈ (اب قومی کونسل برائے فروغِ اردو زبان) ‘ نئی دہلی کے اردو۔ اردو لغت کے کام سے بھی برسوں وابستہ رہے تھے۔ مسعود صاحب اور مجتہدی صاحب اسی قدرِ مشترک کی وجہ سے ایک دوسرے سے ذہنی طور پر بیحد قریب تھے۔ چنانچہ جب میں نے حیدرآباد جانے کا قصد کیا تو ایک شام مسعود صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا۔ دورانِ گفتگو مجتہدی صاحب کا ذکر آیا۔ مسعود صاحب نے فرمایا کہ جب آپ حیدرآباد جائیں تو مجتہدی صاحب سے ضرور ملیں۔ ملاقات کے دوران مجتہدی صاحب نے مجھے بتایا کہ مسعود صاحب بھی ’’ لغت گھر‘‘ میں تشریف لاچکے ہیں اور لغت کے کام کو دیکھ چکے ہیں۔ مجتہدی صاحب ملازمت سے سبکدوش ہونے کے بعد کل وقتی طور پر لغت کے کاموں میں مصروف ہوگئے تھے۔ انھوں نے چوبیس گھنٹوں کے لیے خود کو اس کام کے لیے وقف کردیا تھا اور اپنے گھر کا نام بھی ’’لغت گھر‘‘ / "Dictionary House" رکھ دیا تھا جو اس بات کا غماز ہے کہ وہ اس کام میں اس حد تک منہمک ہوگئے تھے کہ پورے گھر کو ہی لغت گھر میں تبدیل کردیا تھا۔
یعقوب میراں مجتہدی نے اپنے اردو ۔ انگریزی لغت کی تدوین کا خاکہ بہت بڑے پیمانے پر تیار کیا تھا۔ وہ اسے دنیا کا سب سے بڑا اور جامع اردو۔انگریزی لغت بنانا چاہتے تھے جس میں اب تک کے تمام اردو۔انگریزی لغات میں شامل اندراجات سے زیادہ اندراجات ہوں اور ہر لفظ کے بارے میں زیادہ سے زیادہ معلومات فراہم کی جاسکیں۔ علاوہ ازیں اردو محاورا ت و ضرب الامثال بھی کثیر تعداد میں دیے جائیں اور دیگر زبانوں کے وہ الفاظ و محاورات جو زمانۂ حال کی اردو میں رواج پاگئے ہیں انھیں بھی شامل کرلیا جائے۔ یہ تمام باتیں مجتہدی صاحب نے ہماری ڈیڑھ گھنٹے کی گفتگو میں مجھے بتائیں اور ان کے عملی نمونے بھی پیش کیے۔ انھوں نے یہ بھی بتایا کہ جب اس کام کا بیڑا اٹھایا گیا تھا تو ان کے پیشِ نظر ایک لاکھ اندراجات (Entries) کا نشانہ تھا۔ یہ سن کر مجھے انتہائی حیرت ہوئی تھی‘ کیوں کہ بڑے سے بڑے اردو۔انگریزی لغت میں بھی ایک لاکھ تو کیا پچاس ساٹھ ہزار اندراجات بھی نہیں ملتے۔ اب جب کہ مجتہدی صاحب کا یہ لغت چھپ گیا ہے تو اس میں کل اندراجات ( بشمولِ بنیادی الفاظ) کی تعداد نوے ہزار (۰۰۰٬۹۰) بتائی گئی ہے۔
یعقوب میراں مجتہدی سراپا حیدرآبادی ہیں ۔۔۔۔ وہ حیدرآباد جسے دکن کے فرماں روا محمد قلی قطب شاہ (م ۱۶۱۰ء) نے بسایا اور یہ دعا مانگی:
مرا شہر لوگاں سے معمور کر
رکھیا جوں توں دریا میں مِن یا سمیع!
وہ حیدرآباد جس نے سلاطینِ گولکنڈہ کاعروج و زوال دیکھا‘ اور وہ حیدرآباد جہاں سلطنتِ آصفیہ کا چراغ گل ہوا‘ جو کبھی دکنی زبان و ادب کا گہوارہ تھا اور جہاں کی خاک سے کتنے ہی عالم ‘ صوفی‘ ادیب‘ شاعر اور دانشور اٹھے۔ اسی حیدرآباد کے ایک معزز خانوادے میں یعقوب میراں مجتہدی نے ۱۹۳۱ ء میں آنکھیں کھولیں۔ حیدرآباد کے ہی چنچل گوڑہ ہائی اسکول سے انھوں نے اردو میڈیم سے ابتدائی تعلیم حاصل کی اور وہاں کی عثمانیہ یونیورسٹی سے ۱۹۵۴ء میں گریجویشن کیا۔ مجتہدی صاحب کو ۱۹۶۰ ء میں حکومتِ آندھرا پردیش کے شعبۂ ترجمہ میں اردو مترجم کی ملازمت مل گئی۔ اس شعبے سے ۲۹ سال تک منسلک رہنے کے بعد وہ ۱۹۸۹ء میں ڈپٹی ڈائرکٹر آف ٹرانسلیشن کے عہدے سے سبکدوش ہوئے۔ سرکاری ملازمت کے دوران ان کی کارکردگی لائقِ ستائش رہی۔ ایک اچھے مترجم ہونے کی حیثیت سے انھیں اردو میں ایک جدید اور جامع اردو۔انگریزی لغت کی کمی کا شدید احساس رہا۔ اسی وقت سے انھوں نے اس کام کا بیڑا اٹھا لیا اور رفتہ رفتہ اردو الفاظ و مرکبات ‘ محاورات و ضرب الامثال اور جدیدعلمی اصطلاحات جمع کرتے رہے اور انھیں انگریزی میں منتقل کرتے رہے۔ آگے چل کر ان کا یہی کام اردو۔انگریزی لغت بن گیا جس کی اشاعت ’ لغتِ مجتہدی‘ کے نام سے ۲۰۰۷ء کے اوائل میں عمل میں آئی۔ اس کام کو پاےۂ تکمیل تک پہنچانے میں مجتہدی صاحب نے اپنی عمرِ عزیز کے ۲۵ سال صرف کیے۔ یہ لغت تین جلدوں میں ہے اور اس کے صفحات کی کل تعداد ۲۸۱۲ ہے۔ مجتہدی صاحب کا یہ لغت یعنی ’لغتِ مجتہدی‘ اہلِ اردو کے لیے ایک بیش قیمت تحفہ ہے جس سے مترجم و صحافی‘ ادیب و دانشور اور اساتذہ و طلبہ سبھی استفادہ کرسکتے ہیں۔
اس لغت کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں ۰۰۰٬۹۰( نوے ہزار ) سے زائد اندراجات (Entries) موجود ہیں جو آج تک کسی اردو۔انگریزی لغت میں دیکھنے میں نہیں آئیں۔ ان میں ۰۰۰٬۲۶ سے زائد اردو کے بنیادی الفاظ ہیں۔ علاوہ ازیں ۰۰۰٬۷ سے زائد عربی کے اور ۰۰۰٬۴ سے زائد فارسی کے الفاظ اس لغت میں شامل ہیں۔ تقریبا ۴۰۰ سنسکرت اور ہندی ن۔ژاد الفاظ بھی ہیں۔ زیرتذکرہ لغت میں انگریزی اور دیگر یورپی زبانوں (مثلاً یونانی ‘ لاطینی‘ فرانسیسی ‘ وغیرہ) کے الفاظ بھی شامل کیے گئے ہیں جن کی تعداد ڈیڑھ ہزار سے زائد ہے۔ ان کے علاوہ اس لغت میں تقریباً سوادوسو ترکی اور دکنی کے الفاظ بھی شامل کرلیے گئے ہیں۔ الفاظ کے اندراجات سے قطع نظر جملوں اور فقروں کی تعداد جو مثالاً پیش کیے گئے ہیں ۳۷۰۰ سے زائد ہے۔ اردو ضرب الامثال کی تعداد ایک ہزار سے زائد ہے۔ علاوہ ازیں ۲۵۰ سے زائد فارسی ضرب الامثال اور ۲۵ سے زائد عربی ضرب الامثال بھی لغت کا حصہ ہیں۔
الفاظ و محاورات اور ضرب الامثال کے اندراجات سے قطع نظر ’ لغتِ مجتہدی‘ کی بعض دیگر خصوصیات بھی قابلِ ذکر ہیں‘ مثلاً تلفظ کی نشاندہی اعراب کے ذریعے کی گئی ہے۔ علاوہ ازیں ایک صوتیاتی ٹیبل بھی دیا گیا ہے جس سے الفاظ کے تلفظ کے بارے میں رہنمائی حاصل ہوتی ہے۔ الفاظ کی اصل اور مآخذِ لسانی کی بھی نشاندہی کی گئی ہے اور یہ بھی بتایا گیا ہے کہ ان کا تعلق کن اجزائے کلام (Parts of Speech) سے ہے۔ الفاظ کی قواعدی نوعیت (تعداد‘ جنس‘ وغیرہ) پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے۔ الفاظ کے مشتقات سے بھی بحث کی گئی ہے اور ان کی تصریفی شکلوں کی بھی نشاندہی کی گئی ہے۔ جہاں تک کہ معنیاتی وضاحت کا تعلق ہے‘ اردوالفاظ کے مترادفات انگریزی میں دیے گئے ہیں۔ علاوہ ازیں ہم معنی الفاظ اور ہم صوت و ہم حرف الفاظ کی بھی نشاندہی کی گئی ہے اور مثالیں بھی پیش کی گئی ہیں۔
’ لغتِ مجتہدی‘ محض گنجینۂ لفظ و معنی ہی نہیں بلکہ یہ اندراجات سے متعلق صوتی‘ صرفی‘ قواعدی‘ تاریخی ‘ ادبی اور اسلوبیاتی معلومات کا بہترین ذریعہ بھی ہے ‘ نیز اس میں فقروں اور جملوں کی مدد سے بیشمار الفاظ کے استعمال کے طریقے بتائے گئے ہیں اور ان کے Usage سے متعلق ادبی و علمی نگارشات سے اسناد پیش کی گئی ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ لغت لفظ و معنی کی جہات و ابعاد سے متعلق تمام تر ضروری معلومات فراہم کرتا ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ یہ ایک مکمل‘جامع اور مستند دو لسانی (Bilingual) لغت ہے تو بیجا نہ ہوگا۔ اردو بولنے والے خواہ دنیا میں کہیں بھی ہوں اور کسی بھی پیشے یا شعبے سے تعلق رکھتے ہوں‘ اگر وہ انگریزی زبان کے ساتھ دو لسانی (Bilingual) ہیں تو یہ لغت ان کا بہترین ساتھی (Companion) ثابت ہوگا۔ اردو اب دنیا کے گوشے گوشے میں پھیل چکی ہے اور بین الاقوامی سطح پر اس کی توسیع و ترقی میں روز بروز اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ انگریزی بھی ایک بین الاقوامی زبان ہے۔ لہذا یعقوب میراں مجتہدی کے تیار کردہ اس لغت کی بین الاقوامی سطح پر بھی اہمیت و افادیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ ’لغتِ مجتہدی‘ سابقہ تمام اردو۔انگریزی لغات پر نہ صرف ایک اضافہ ہے بلکہ آخری حد ہے۔ اپنی جداگانہ اور منفرد حیثیت کے باعث اس نے قدیم وجدید تمام اردو۔انگریزی لغات کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ ’ لغتِ مجتہدی ‘ کا موازنہ جب ہم بعض نہایت مشہور اور اہم اردو ۔اردو لغات،مثلاً ’ فرہنگِ آصفیہ‘( سید احمد دہلوی) ، ’امیر اللغات‘ (امیر مینائی)، ’سرماےۂ زبانِ اردو‘ (سید ضامن علی جلالؔ لکھنوی)، ’نور اللغات‘ (نور الحسن نیر کا کور وی)، ’مہذب اللغات‘ (مہذب لکھنوی)اور ’ لغتِ کبیر اردو‘ (بابائے اردو مولوی عبدالحق) سے کرتے ہیں تو ہمیں پتا چلتا ہے کہ ’ لغتِ مجتہدی‘ اپنی بعض خصوصیات کے اعتبار سے ان لغات سے کہیں زیادہ جدید اور جامع لغت ہے اور لغت نویسی کے اصولوں پر پوری طرح کھرا اترتا ہے۔
’ لغتِ مجتہدی‘ بڑے سائز کی تین ضخیم جلدوں پر مشتمل ہے جن کے صفحات کی مجموعی تعداد ۲۸۱۲ ہے ۔ اس کی پہلی جلد الف تا ج ، دوسری جلد چ تا ق اور تیسری اور آخری جلد س تا ی سے شروع ہونے والے الفاظ پر مشتمل ہے۔ اس کا پہلا ایڈیشن ۲۰۰۷ء کے اوائل میں یعقوب میراں مجتہدی کی نگرانی میں‘ جو اس کے مولف اور ناشر بھی ہیں‘ حیدرآباد سے شائع ہوا۔ اس کا پیش لفظ اردو کے جلیل القدر ادیب و انشا پرداز‘ محقق‘ لغت نویس اور ماہرِ لسانیات و دکنیات پروفیسر مسعود حسین خاں نے تحریر فرمایا ہے۔ اس کی اشاعت حیدرآباد کی مخیر شخصیت جناب سید عبدالقادر جیلانی کی مالی معاونت سے عمل میں آئی ہے جن کا شکریہ نہ صرف یعقوب میراں مجتہدی پر واجب ہے بلکہ تمام اہلِ اردو ان کے ممنون و منت پذیر رہیں گے۔
٭٭٭