“سحر ہونے تک” ڈاکٹرعبدالقدیر خان کا کالم

بےباک

محفلین
ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا ایک اور کالم

ڈاکٹر عبدالقدیر خان
انجان ہو تو اس سے کوئی درد دل کہے

پاکستان کی سیاست آج کل بہت گرما گرم ہے۔ ممبائی (ممبئی) میں دہشت گردوں کی شرارت اور قتل عام کی وجہ سے حسب معمول ہندوستان نے فوراً ہی پاکستان پر الزام لگا کر بین الاقوامی سطح پر ہمارے خلاف گھیرا تنگ کرنے کی مہم شروع کر دی ہے۔ پاکستان کو ثبوت دیئے بغیر پاکستان پر سخت دباؤ ڈال دیا ہے۔ بیچارے عوام مہنگائی، بیروزگاری اور لوڈشیڈنگ کو بھول کر اس سیاسی کھیل کے شکار ہو گئے ہیں۔

پہلے امریکہ میں اور پھر دوسرے ممالک میں معاشی بحران کا اثر ہمارے ملک تک بھی پہنچ گیا۔ روپے کی قیمت گر گئی، افراط زر میں سخت اضافہ ہو گیا اور افواہیں پھیل گئیں کہ شاید کچھ بنک دیوالیہ ہو جائیں۔ گورنر اسٹیٹ بنک ڈاکٹر شمشاد اختر نے کچھ حفاظتی اقدامات کئے ہیں لیکن ہمارا پچھلا تجربہ ہمیں محتاط رہنے پر مجبور کر رہا ہے کیونکہ پہلے بھی ڈاکٹر یعقوب، ڈاکٹر عشرت حسین، شوکت عزیز، ڈاکٹر سلیمان شاہ اور عمر ایوب خان ایسی ہی خوشخبری سنایا کرتے تھے۔ شوکت عزیز جو اس ملک کو ایشین ٹائیگر بنانے کا بھنگڑا مارا کرتے تھے، اس ملک کی کمر توڑ کر باہر چلے گئے کہ اب حلوہ پوری کہیں اور ہے یہ وہی شوکت عزیز ہیں جو مشرف کے دست راست تھے، مسٹر کلین تھے، ارب پتی تھے، اس ملک کی خدمت کر کے اتنے مفلس ہو گئے تھے کہ کسی پوش علاقہ میں نہیں پولیس فاؤنڈیشن کی ہاؤسنگ اسکیم میں دو پلاٹ مار گئے۔

آپ سے ہم کو شکایت ہی کیا
مسکرا دیجئے، صفائی سے

بنکوں میں عید پر رقم کی کمی، لوڈشیڈنگ اور مہنگائی نے ہماری کمر توڑی ہی تھی کہ عید کی آمد نے غریبوں پر ” آخری تنکا “ رکھ کر کمر توڑ دی۔ عید کارڈوں کا اور پوسٹ کا خرچ تو انہوں نے بچا لیا کہ موبائل فون استعمال کر کے عید مبارک پیغامات بھیج دیئے مگر قربانی کا شوق بھی تو پورا کرنا تھا۔ ایک نہایت ہی مناسب کارٹون نے حالات کی صحیح عکاسی اس طرح کی کہ ایک شخص چاروں ہاتھ پیر پرکھڑا تھا، گردن میں رسی تھی اور وہ کھونٹی سے بندھا ہوا تھا، سامنے ایک بکرا اپنے پچھلے دھڑ پر بیٹھا تھا، دونوں اگلی ٹانگوں میں چھریاں تھیں اور منہ سے رال ٹپک رہی تھی، شکار اب شکاری کا رول ادا کر رہا ہے۔

موبائل فون کی آمد سے ہم امیر تو نہیں کم از کم غریب ضرور ہوئے ہیں۔ لوگ بچوں کے لئے دودھ اور گھر کے لئے آٹا اور گھی تو نہیں لے جاتے مگر دو سو روپے کا کارڈ ڈال کر گپیں ضرور لگاتے ہیں۔ پچھلی عید پر لوگوں نے عید کی مبارک باد نہایت سستے طریقے سے پہنچا دی۔ بس ایک ہی طرح کی ایس ایم ایس لکھی اور سب کو روانہ کر دی، نہ عید کارڈ کا خرچ اور نہ ہی پوسٹ کا خرچ اور نہ ہی بار بار لکھنے کی زحمت۔ اس طرح کچھ کفایت شعاری ہو گئی۔ میں تو جواب دیتے دیتے تھک گیا تھا، یقین کریں کہ ایس ایم ایس کرتے کرتے میری انگلیوں میں خاصا درد ہو گیا تھا۔

ہمارا معاشی و مالی نظام بھی دنیا کے لئے قابل تقلید ہے۔ یہاں بنکرز ماہر معاشیات بن جاتے ہیں حالانکہ آپ کو بھی اور مجھے بھی علم ہے کہ بنک میں رقم جمع کرنا، زیادہ سود کمانا اور گاہکوں کو کم سود دینا، یہ ماہرین یہ نہیں دیکھ سکتے کہ عید، بقر عید پر لوگ زیادہ رقم نکلوا لیتے ہیں اور بنکوں میں رقم نہیں رہتی۔ دعویٰ کرتے ہیں کہ بنکوں کے نظام پر بڑا سخت کنٹرول ہے مگر ایک شخص جس کی اپنی تنخواہ بمشکل ایک ہزار ڈالر ماہانہ ہوتی ہے، قلم کی ایک جنبش سے آٹھ سو، نو سو ملین ڈالر اس طرح معاف کر دیتا ہے جس طرح ایک بچہ تختی پر چاک سے بنائی ہوئی ایک تصویر کو مٹا دیتا ہے۔ اسی قسم کے ماہرین نے ایٹمی دھماکوں کے بعد وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کو غلط مشورے دے کر پوری دنیا میں ان کی ساکھ ختم کر دی تھی۔ غیر ملکی کرنسی کے اکاؤنٹ منجمد کر کے اور ان کے بدلے پاکستانی روپیہ دنیا کا ایک ناقابل معافی جرم تھا اس نے پوری دنیا میں پاکستانیوں کا حکومت پر بھروسہ ختم کر دیا۔ جن حکمرانوں نے عقل و فہم کا استعمال کر کے اچھے مشیر کا چناؤ کیا، وہ تاریخ میں سرخرو رہے اور جن حکمرانوں نے احمق اور خود غرض مشیر چنے وہ تاریخ میں ذلت کا باب بن گئے۔

میں دراصل ابتدا میں بات ہمارے عقل کل مالی کی کر رہا تھا۔ 15 برس یورپ کے کئی ممالک میں رہا اور ہمیشہ یہ دیکھا کہ وزیر خزانہ یا مالیات ایک نہایت قابل، مشہور شخصیت ہوتی ہے۔ جرمنی میں پروفیسر ایئر ہارڈ کا نام آج بھی سب کو یاد ہے۔ بیلجیئم میں پروفیسر آئس کنس کو پورا ملک جانتا ہے، اسی طرح ہالینڈ میں مشہور پروفیسر ٹن برگن کی پالیسیوں پر عمل ہوتا تھا۔ ہمارے پڑوسی ملک کے موجودہ وزیراعظم اور سابق وزیر خزانہ من موہن سنگھ کو اسناد اور تجربہ دیکھ لیں اور اس کے مقابلے میں اپنے پچھلے تمام وزرائے خزانہ کو دیکھ لیں، سوائے غلام اسحاق خان کے، کسی نے ہمارے ملک کو ٹھیک نہ رکھا۔

یہاں ایک صحیح واقعہ قابل بیان ہے۔ غلام اسحاق خان اور میرے تعلقات بہت اچھے تھے۔ میں ان کی عزت اپنے مرحوم والد کی طرح کرتا تھا اور میرا دل بھی کہتا تھا کہ وہ بھی مجھے اپنی اولاد کی طرح سمجھتے تھے۔ میں ان سے مذاق بھی کر لیا کرتا تھا۔ غلام اسحاق خان انسٹیٹیوٹ کی تعمیر کے دوران ہم بہت قریب تھے چونکہ میں اس ادارے کا پروجیکٹ ڈائریکٹر اور تمام تیاری وغیرہ میں نے ہی کی تھی۔ ہماری میٹنگ ہمارے گھر سے منسلک گیسٹ ہاؤس میں ہوتی تھی۔ یہ ان کی شفقت کا اعلیٰ ثبوت تھا کہ جب بھی وہ میٹنگ کے لئے تشریف لاتے تو ضرور چند منٹ کے لئے میرے گھر آتے اور میری بیگم کی خیریت پوچھتے اور اس کا شکریہ ادا کرتے کہ اس کی وجہ سے میں اپنا کام خوش اسلوبی سے کر پایا ہوں۔ ایک روز لنچ کے دوران میں نے مزاحاً عرض کیا، سر کیا وجہ ہے کہ جبکہ دنیا میں خاص طور پر مغربی ممالک میں تو معاشی قد آور شخصیات یعنی Financial Wizards ہوتے ہیں۔ قدرت نے ہمیں زیادہ تر معاشی بونے Financial Lizards ہی دیئے ہیں یعنی چھپکلیاں جو سست، کاہل، بہری، گونگی ہوتی ہیں، وہ بہت ہنسے اور کہا کہ بیگ ( ایچ یو بیگ ) دیکھو، ڈاکٹر صاحب نے کس قدر صحیح بات کہی ہے پھر مسکرا کر کہا کہ جیسے عوام ہوتے ہیں قدرت ایسے ہی رہنما عطا کرتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ غلام اسحاق خان اور ایچ یو بیگ کی ٹیم اس ملک کی بہترین ٹیم تھی، مجھے ان کے ساتھ دس سال کام کرنے کا موقع ملا تھا۔ ان دونوں کی غیر مشروط مدد نے ہمیں ایٹمی قوت بنانے میں نمایاں کردار ادا کیا تھا۔

آج کل دنیا میں کہیں بھی دہشت گردی کا واقعہ ہوتا ہے، نزلہ ہم پر گرتا ہے حقیقت یہ ہے کہ مغربی دنیا اب تک یہ چیز ہضم نہ کر سکی ہے کہ انکی توقعات کے قطعی برعکس ہم ایک ایٹمی اور میزائل قوت بن گئے ہیں۔ کاش ہم ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری کیساتھ ساتھ ایٹمی پاور پلانٹ بنانے میں بھی ایسی ہی ترقی کر پاتے ایٹمی پاور پلانٹ بنانے کی ٹیکنالوجی 50 سال پرانی ہے۔ 1974ء تک یعنی جب ہندوستان نے ایٹمی دھماکہ کیا، یہ ٹیکنالوجی بآسانی دوسرے ممالک سے خریدی جا سکتی تھی اور کم قیمت پر بھی مل سکتی تھی مگر افسران کی نا اہلی اور کوتاہ بینی کی وجہ سے ہم اس میدان میں بہت پیچھے رہ گئے ورنہ آج ہمارے پاس کم از کم 10 ایٹمی پاور پلانٹ ضرور ہونے چاہئے تھے۔ ہندوستان میں 22 ری ایکٹر کام کر رہے ہیں اور جنوبی کوریا میں بھی لاتعداد ری ایکٹر کام کر رہے ہیں اور دونوں ملک یہ پلانٹ خود بناتے ہیں۔ ہم بھی بآسانی بنا سکتے ہیں اور پہلے بھی بنا سکتے تھے لیکن اللہ تعالیٰ نے سورة الانفال میں صاف صاف ارشاد فرمایا ہے کہ ” جو قومیں خود اپنا حال نہیں بدلتی ہیں انکی حالت اللہ تعالیٰ بھی نہیں بدلتے “۔

خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا

اس سال میں نے عیدالاضحیٰ کی نماز اپنی تعمیر کردہ ای سیون کی مسجد میں ادا کی، اس کے لئے جناب صدر زرداری، مشیر داخلہ رحمن ملک کا مرہون منت ہوں۔ بہت سے پرانے دوستوں، ہمدردوں سے مل کر بہت خوشی ہوئی مگر یہ جان کر بہت دکھ بھی ہوا کہ اس غیر قانونی اسیری کے دوران چند نہایت مخلص دوست اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ ان میں سب سے نمایاں میرے مہربان، محترم دوست محمد افضل چیمہ تھے، ان کی نماز جنازہ میں شرکت نہ کرنے کا زندگی بھر دکھ رہے گا۔

موجودہ حالات میں سب سے تکلیف دہ بات لیڈروں کی غلط بیانی ہے، بار بار آ کر غلط بیانات دیتے ہیں۔ وزیر پانی اور بجلی راجہ پرویز اشرف بار بار ” لوڈشیڈنگ ختم ہو گئی ہے “ کے نعرے لگاتے ہیں اور میں دن میں کئی بار اس کا شکار ہوتا ہوں۔ اگر آپ بھوکے سے کہہ دیں کہ کھانا کل ملے گا یا بیمار سے کہہ دیں کہ ہفتہ بعد ٹھیک ہو جاؤ گے تو اللہ تعالیٰ قوت، برداشت اور صبر دے دیتا ہے لیکن کہا جائے کہ گھنٹہ بھر بعدٹھیک ہوجاؤ گے اس طرح آپ غلط بیانی کر کے شاید دل میں خود کو دھوکہ دے لیں کہ عوام کو بیوقوف بنا دیا ہے مگر حقیقتاً آپ خود کو نقصان پہنچا رہے ہیں اور عوام کی نگاہ میں آپ کی عزت گر جاتی ہے اور نتیجہ وہی نکلتا ہے جو 18 فروری کو ” کیو لیگ “ کے حصہ میں آیا۔ غلط بیانی سے نہ صرف عوام میں عزت و احترام کم ہوتا ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کو بھی یہ بات سخت بری لگتی ہے اور نا پسند ہے۔ ہم سچ بول کر عوام کو ساتھ لے کر چلیں تو ان کی حمایت سے ملک کی لا تعداد پریشانیاں اور مشکلات دور ہو سکتی ہیں۔

ایک سادی مگر اہم نصیحت اہل اقتدار کی خدمت میں، عوام کو کبھی بیوقوف یا کم عقل نہ سمجھیں۔ آج سے ڈھائی ہزار سال پیشتر ایک عقلمند چینی Lao Tzu نے یہ نصیحت کی تھی ” عوام پر حکومت کرنا بہت مشکل کام ہے، وہ بہت عقل و فہم اور معلومات کے حامل ہوتے ہیں “۔ مقصد یہ کہ آپ ان کو بیوقوف نہیں بنا سکتے۔ حالات کی مجبوری سے وہ خاموشی اختیار کر لیتے ہیں۔
پیش کنندہ:بےباک
 

بےباک

محفلین
ڈرتا ہوں حال کہتے کہ ہو گا تمہیں بھی غم : ڈاکٹر عبدالقدیر خان

محسن پاکستان کا ایک اور مضمون

ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا تازہ مضمون

آج کل حالات اس قدر تیزی سے بدل رہے ہیں کہ پوری دنیا سنسنی خیز خبروں سے بھری پڑی ہے۔ پہلے امریکی صدارتی انتخاب، انگلستان میں ضمنی الیکشن میں لیبر پارٹی کے امیدوار کی غیر متوقع کامیابی، پوری دنیا میں مالی بحران اورامریکی معاشی حالت کا تنزل، روس کا قوت کا اظہار اور وینزویلا کے ساتھ بحری مشقیں جاپانی وزیراعظم کی شبانہ پارٹیاں، شمالی کوریا کا ایٹمی پروگرام دوبارہ شروع کرنا، ایران کا اعلان کہ پانچ ہزار سنٹری فیوج مشینیں کام کر رہی ہیں، میریٹ ہوٹل کے خودکش حملے کے متعلق قیاس آرائیاں، تفتیش، وزیراعظم اور صدر مملکت کے بیرونی دورے، آئی ایم ایف سے قرضے کی وصولیاں، مگر سب سے ہولناک اور پوری دنیا کی توجہ کا مرکز ممبئی میں دہشت گردوں کا بیک وقت نہایت ہی ماہرانہ طریقہ سے حملے اور لاتعداد بے گناہ لوگوں کی ہلاکت اور ہندوستان کا فوراً ہی ہمارے اوپر الزام لگا دینا۔

میریٹ ہوٹل پر خودکش حملہ بہت افسوس ناک اور قابل مذمت حادثہ تھا۔ رمضان کے مقدس مہینہ میں لا تعداد روزہ داروں کی ہلاکت، ٹی وی پر سیکورٹی کے ملازمین کی دلیرانہ کارکردگی دیکھ کر سب ہی نے داد تحسین پیش کی۔ ان لوگوں کی حاضر دماغی اور بہادری کی وجہ سے اور بہت بڑا اور بھیانک حادثہ ظہور پذیر نہیں ہوا۔ آپ شاید اس حقیقت سے واقف نہ ہوں کہ میریٹ کے مالک جناب صدر الدین ہاشوانی نسلاً بلوچ ہیں، بہادر ہیں۔ یہ اور ان کی بیگم اور بچے عام دکھاوے کی شہرت اور نظروں سے بچ کر بے حد فلاحی کاموں میں دل کھول کر حصہ لیتے ہیں۔ مجھے ان کی دوستی کا شرف حاصل ہے اور کبھی کبھی وہ ازراہ محبت مجھے دفتر سے واپسی کے وقت ہوٹل آنے کی دعوت دے دیتے تھے اور میں ان کے دفتر میں بیٹھ کر ان کی باتوں اور لذیز چاٹ، کافی سے لطف اندوز ہوتا تھا۔ یہ نہایت نرم دل، محبت سے پُر اور محب وطن ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی نیکیوں اور غریبوں کی بے لوث خدمت کے نتیجہ میں ان کو اور ان کے اہل و عیال کو اور لاتعداد دوسرے لوگوں کو نقصان و ہلاکت سے محفوظ رکھا۔ اللہ تعالیٰ نیک کاموں کا اجر ضرور دیتا ہے اور وہ ضائع نہیں جاتے۔

ممبئی میں ان دہشت ناک حملوں نے پوری دنیا کے حفاظتی اداروں کو لرزا دیا ہے۔ ان حملوں سے یہ ظاہر ہوگیا ہے کہ اگر کوئی مصمم ارادہ کر لے اوراس کے پاس پہل کرنے کا اختیار بھی ہو تو پھر کوئی طاقت ان کو نہیں روک سکتی، خواہ کتنے ہی حفاظتی اقدامات کر لئے جائیں، لیکن پھر وہی سوال اٹھتا ہے کہ وہ کونسی وجوہات ہیں جو ان لوگوں کو اپنی جانیں دینے اور دوسرے بے گناہ لوگوں کی جانیں لینے پر آمادہ کر لیتی ہیں۔ آئندہ ایسے اعمال کو روکنے کے لئے ان وجوہات کو جاننے کی کوشش ضروری ہے۔ لوگ اپنی جانیں بغیر کسی وجہ اور مقصد کے نہیں دیدیتے۔ اگرچہ دہشت گردوں کے یہ حملے نہایت نفرت انگیز اور قابل مذمت ہیں، اس سے زیادہ ہندوستانی افسران اور ذرائع ابلاغ کا یہ عمل قابل مذمت ہے کہ وہ فوراً ہی بغیر ثبوت کے پاکستان کو ملزم ٹھہرا رہے ہیں۔ آپ ذرا فرق دیکھئے ہمارے یہاں اگر کوئی دہشت ناک حملہ ہوتا ہے تو ہم فوراً ہی اپنے ہی عوام پر الزام تراشی شروع کر دیتے ہیں۔ ہم فوراً طالبان، بیت اللہ محسود وغیرہ کو ملزم قرار دینے لگتے ہیں اور یہ بات، حقیقت قطعی نظر انداز کر دیتے ہیں کہ اس کام میں افغان، ہندوستانی اور دوسرے غیر ملکی خفیہ ادارے بھی شامل ہو سکتے ہیں۔ اگر ہم ہندوستان کی یہ احمقانہ منطق قبول کر لیں کہ چند گمراہ دہشت گردوں کی ذمہ داری پاکستان پر عائد ہوتی ہے تو پھر امریکہ کو چاہئے کہ انگلستان، سعودی عرب، مصر، امارات اور کئی دوسرے ممالک کو بمباری کر کے "پتھر کے دور" میں بھیج دے کیونکہ ان ممالک کے باشندوں نے امریکہ کے خلاف سخت دہشت ناک اقدام کئے ہیں اور لاتعداد ہلاکتوں کے ذمہ دار ہیں۔

جب ہم دوبارہ ان دہشت انگیزی کے واقعات کی وجوہات کو تلاش کرتے ہیں تو ہمیں اپنے قبائلی علاقہ کے لوگوں کی عادات، اطوار اور نفسیات کے بارے میں یہ ضرور جان لینا چاہئے کہ یہ لوگ اپنے دشمن کو کبھی نہیں بھولتے اور نہ ہی معاف کرتے ہیں۔ ہمارے بہت سے ذی فہم تجزیہ نگاروں اور قبائلی نمائندوں نے بار بار مفید مشورہ دیا ہے کہ ان قبائلیوں کے ساتھ افہام اور تفہیم سے صلح کی جائے اور جلد از جلد خونریزی ختم کی جائے۔ چند دن پیشتر ہمارے نہایت قابل عزت اور ماہر جناب رحیم اللہ یوسف زئی نے فرمایا تھا کہ جنگ بندی ہوتے ہی فوراً امن قائم ہو جائے گا۔ یہ کیا قابل کوشش نہیں ہے؟ آپ کو علم ہے کہ پٹھان آپ کے لئے جان دیدے گا اگر آپ اس کے دوست ہیں، لیکن اگر آپ اس کے دشمن ہیں تو ایک نہ ایک دن وہ یا اس کا کوئی عزیز آپ کو نمٹا دے گا۔ جنگ ان کے لئے روزمرہ کا کھیل ہے۔ ایک قبائلی کبھی اپنے ہتھیار نہیں ڈالے گا اور صدیوں سے یہ ان کا مشغلہ ہے۔ وہ جنگ بندی اور امن کے لئے تو تیار ہوجائے گا، مگر ہتھیار نہیں ڈالے گا۔ قبائلی علاقوں میں فوجی کارروائی جاری ہے اور لاتعداد بیگناہ لوگ ہلاک ہو رہے ہیں۔ بیگناہ راہ گیر ہلاک ہوتے ہیں تو وہ شہید کہلاتے ہیں۔ کیا وہ بیگناہ جو فوجی کارروائی میں ہلاک ہوتے ہیں، شہید نہیں ہیں؟ کیا ہم ان کو غیر مسلم اور کافر تصور کریں؟

اگر ہم دوسری اقوام کی تاریخ سے سبق حاصل نہیں کرنا چاہتے، تو کم از کم اپنی ہی تاریخ سے کچھ سیکھنے کی کوشش کریں۔ مشرقی پاکستان میں ہمارا مقابلہ ایک نہایت نرم، امن پسند قوم سے تھا، جب ہندوستان نے ہمارے خلاف ان کی مدد کی تو ہمیں تاریخ کے نہایت افسوس ناک اور شرمناک نتیجہ کا سامنا کرنا پڑا۔ یہاں اب ایک بہادر جنگجو قوم سے ہے جو اس شاخ کی طرح ہیں جن کو موڑا تو جا سکتا ہے مگر توڑا نہیں جا سکتا۔ ہمارے لا تعداد دشمن ہیں اور ان کے مذموم ارادے ہیں اور وہ کوشش کر رہے ہیں کہ ہمیں نقصان پہنچائیں بلکہ ملک کے ٹکڑے کردیں۔ ابھی کئی معاملات میں ہمارے صدر مملکت، وزیراعظم اور مشیر برائے داخلہ امور نے لاتعداد مشکل معاملات نہایت بردباری اور افہام و تفہیم سے طے کر لئے ہیں اور بلا ضرورت لڑائی جھگڑوں سے اجتناب کیا ہے۔ قوم کو یہی امید ہے کہ وہ یہ معاملہ بھی جلد خوش اسلوبی سے حل کر لیں گے۔ خاص طور پر اس وقت جبکہ ہندوستان شرارت کر رہا ہے۔

اسلامی تاریخ ایسے واقعات سے بھرپور ہے کہ جہاں اپنوں نے ہی دشمنوں سے مل کر اپنی ہی قوم کو سخت نقصان پہنچایا۔ مغربی شاطر سیدھے سادے لوگوں کو لالچ، مدد، ہمدردی اور دوستی کے دھوکے میں پھنسا لیتے ہیں اور پھر ان کو تباہ کر دیتے ہیں۔ ہمیں علم ہے کہ انگریزوں نے کس طرح غدار میر جعفر کی مدد سے نواب سراج الدولہ کا خاتمہ کر کے بنگال پر قبضہ کیا تھا۔ مسلمانوں کی آنکھیں نہ کھلیں اور کوئی سبق حاصل نہ کیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ انگریزوں نے ایک اور غدار میر صادق کی مدد سے ٹیپو سلطان اور سلطنت میسور کا خاتمہ کر دیا اور پھر تمام ہندوستان پر قبضہ کر لیا اور نظام و مرہٹہ بھی ان کی عیاریوں کے شکار ہو گئے۔ اسی طرح امریکن جہاں 50 سال پیشتر دوست بن کر گئے تھے، آج بھی وہاں موجود ہیں۔ اگر ہم ان کو اپنے قبائلی علاقہ میں داخل ہونے دیں گے تو ہمارا بھی یہی حشر ہو گا۔ وہ چند ملک دشمن بے ضمیر لوگوں کو ڈالر اور گرین کارڈ دے کر خرید لیں گے اور ہمارے خلاف استعمال کریں گے۔

بد قسمتی سے ہم نے امریکیوں کی جارحیت کو اپنی جنگ بنا لیا ہے اور بے گناہ لوگوں کا قتل عام جاری ہے۔ اگر ہم اس کو اب اپنی جنگ کہنے لگے ہیں تو پھر قبائلی بھی یہ نعرہ لگانے میں حق بجانب ہوں گے۔گر جنگ چاہتے ہو تو پھر جنگ ہی سہی ہمیں پھر یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ مقابلہ یہاں ایسے لوگوں سے جن کا مشغلہ جنگ رہا ہے اور جو خود اعلیٰ قسم کے اسلحہ جات بناتے ہیں اور یہ باآسانی ہماری قومی یکجہتی کو ہلا کر سکتے ہیں۔

مشہور انگریزی فلسفی بیکن نے کہا تھا کہ ” مگر مچھ اس وقت آنسو بہاتے ہیں جب وہ اپنے شکار کو چیر پھاڑ رہے ہوتے ہیں “۔ ہمارا یہی حال ہے ہے، ہم شہروں اور قبائلی علاقہ میں ہلاک ہونے والوں کے لئے آنسو بہا رہے ہیں، مگر یہ کام تو جاری ہے اور ہو چکا ہے۔ ہم اس سلسلہ میں بہت لمبی بحث کر سکتے ہیں مگر معاملہ نازک ہے مجبوراً قلم روکنا پڑتا ہے۔

ڈرتا ہوں حال کہتے کہ ہو گا تمہیں بھی غم
اور تم سے کچھ چھپانے کو جی چاہتا نہیں

ہندوستان کے لیڈروں کی خدمت میں یہ عرض کرنا ہے کہ یہ 1971ء نہیں ہے اور نہ ہی ملک کا سربراہ نا اہل ڈکٹیٹر ہے۔ یہ جمہوری حکومت ہے اور اس کی پشت پر پوری قوم ایک چٹان کی طرح کھڑی ہے۔ افواج پاکستان کی قیادت نہایت قابل، بہادر اور تربیت یافتہ افسران، جوانوں کے ہاتھ میں ہے۔ 1971ء کے المناک واقعہ اور 1974ء میں ہندوستان کی جانب سے ایٹمی دھماکہ کے جواب میں پاکستان کو مجبوراً اپنے آپ کو بھی ایٹمی ہتھیاروں اور نہایت اعلیٰ بیلسٹک اور کروز میزائل سے لیس کرنا پڑا تاکہ ملکی سلامتی کو لازمی بنایا جا سکے۔ مرحوم وزیراعظم جناب بھٹو، محترمہ بے نظیر بھٹو صاحبہ کی دور بینی اور وطن سے محبت کے نتیجہ میں اور جنرل ضیاء الحق، میاں نواز شریف، جناب غلام اسحاق خان، جنرل مرزا اسلم بیگ، جنرل عبدالوحید کاکڑ کی پوری مدد، ہمارے سائنسدانوں، انجینئروں کی انتھک کوششوں کی وجہ سے الحمد للہ پاکستان کا دفاع ناقابل تسخیر ہو گیا۔ پاکستان کے کوئی جارحانہ ارادے نہیں ہیں، پہلے بھی جنرل ضیاء الحق نے راجیو گاندھی کو ایک ساتھ این پی ٹی پر دستخط کرنے، جنوب مشرقی ایشیا کو نیوکلیئر فری زون اور پہلے جنگ نہ کرنے کے معاہدوں کی پیشکش کی تھی جس کو ہندوستان نے قبول نہیں کیا تھا۔ اب بھی ان معاہدوں پر دستخط ہو سکتے ہیں۔

دہشت گردوں کے حملوں یا سازشوں کا یہ مطلب نہیں کہ ہم آپس میں جھگڑا یا جنگ شروع کر دیں، ہندوستانی، ہم اور پوری دنیا جانتی ہے کہ ہم دونوں کے پاس مہلک ہتھیار ہیں اور جنگ کی حالت میں ہم دونوں تباہ ہو جائیں گے۔ ہندوستان یہ جنگ کبھی نہیں جیت سکتا۔ جنگ کے خاتمہ پر دونوں ممالک میں کھنڈرات اور لاشوں کے سوا کچھ نہ بچے گا۔ جو حالت سرد جنگ کے دوران امریکہ اور روس کی تھی یعنیMutually assured destruction-MAD یعنی ” یقینی باہمی تباہی “ وہی ہم دونوں کی ہو گی۔ سمجھداری اور بردباری کا تقاضا یہی ہے کہ ہم دہشت گردوں کے ہاتھوں میں نہ کھیلیں بلکہ آپس میں مل کر اس ناسور کو ختم کر دیں اور اپنے غریب و پسماندہ عوام کی فلاح و بہبود اور ترقی پر تمام ذرائع اور قوت خرچ کریں۔

پیش کنندہ: چھوٹا بھائی: بےباک
 
Top