ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا ایک اور کالم
ڈاکٹر عبدالقدیر خان
انجان ہو تو اس سے کوئی درد دل کہے
پاکستان کی سیاست آج کل بہت گرما گرم ہے۔ ممبائی (ممبئی) میں دہشت گردوں کی شرارت اور قتل عام کی وجہ سے حسب معمول ہندوستان نے فوراً ہی پاکستان پر الزام لگا کر بین الاقوامی سطح پر ہمارے خلاف گھیرا تنگ کرنے کی مہم شروع کر دی ہے۔ پاکستان کو ثبوت دیئے بغیر پاکستان پر سخت دباؤ ڈال دیا ہے۔ بیچارے عوام مہنگائی، بیروزگاری اور لوڈشیڈنگ کو بھول کر اس سیاسی کھیل کے شکار ہو گئے ہیں۔
پہلے امریکہ میں اور پھر دوسرے ممالک میں معاشی بحران کا اثر ہمارے ملک تک بھی پہنچ گیا۔ روپے کی قیمت گر گئی، افراط زر میں سخت اضافہ ہو گیا اور افواہیں پھیل گئیں کہ شاید کچھ بنک دیوالیہ ہو جائیں۔ گورنر اسٹیٹ بنک ڈاکٹر شمشاد اختر نے کچھ حفاظتی اقدامات کئے ہیں لیکن ہمارا پچھلا تجربہ ہمیں محتاط رہنے پر مجبور کر رہا ہے کیونکہ پہلے بھی ڈاکٹر یعقوب، ڈاکٹر عشرت حسین، شوکت عزیز، ڈاکٹر سلیمان شاہ اور عمر ایوب خان ایسی ہی خوشخبری سنایا کرتے تھے۔ شوکت عزیز جو اس ملک کو ایشین ٹائیگر بنانے کا بھنگڑا مارا کرتے تھے، اس ملک کی کمر توڑ کر باہر چلے گئے کہ اب حلوہ پوری کہیں اور ہے یہ وہی شوکت عزیز ہیں جو مشرف کے دست راست تھے، مسٹر کلین تھے، ارب پتی تھے، اس ملک کی خدمت کر کے اتنے مفلس ہو گئے تھے کہ کسی پوش علاقہ میں نہیں پولیس فاؤنڈیشن کی ہاؤسنگ اسکیم میں دو پلاٹ مار گئے۔
آپ سے ہم کو شکایت ہی کیا
مسکرا دیجئے، صفائی سے
بنکوں میں عید پر رقم کی کمی، لوڈشیڈنگ اور مہنگائی نے ہماری کمر توڑی ہی تھی کہ عید کی آمد نے غریبوں پر ” آخری تنکا “ رکھ کر کمر توڑ دی۔ عید کارڈوں کا اور پوسٹ کا خرچ تو انہوں نے بچا لیا کہ موبائل فون استعمال کر کے عید مبارک پیغامات بھیج دیئے مگر قربانی کا شوق بھی تو پورا کرنا تھا۔ ایک نہایت ہی مناسب کارٹون نے حالات کی صحیح عکاسی اس طرح کی کہ ایک شخص چاروں ہاتھ پیر پرکھڑا تھا، گردن میں رسی تھی اور وہ کھونٹی سے بندھا ہوا تھا، سامنے ایک بکرا اپنے پچھلے دھڑ پر بیٹھا تھا، دونوں اگلی ٹانگوں میں چھریاں تھیں اور منہ سے رال ٹپک رہی تھی، شکار اب شکاری کا رول ادا کر رہا ہے۔
موبائل فون کی آمد سے ہم امیر تو نہیں کم از کم غریب ضرور ہوئے ہیں۔ لوگ بچوں کے لئے دودھ اور گھر کے لئے آٹا اور گھی تو نہیں لے جاتے مگر دو سو روپے کا کارڈ ڈال کر گپیں ضرور لگاتے ہیں۔ پچھلی عید پر لوگوں نے عید کی مبارک باد نہایت سستے طریقے سے پہنچا دی۔ بس ایک ہی طرح کی ایس ایم ایس لکھی اور سب کو روانہ کر دی، نہ عید کارڈ کا خرچ اور نہ ہی پوسٹ کا خرچ اور نہ ہی بار بار لکھنے کی زحمت۔ اس طرح کچھ کفایت شعاری ہو گئی۔ میں تو جواب دیتے دیتے تھک گیا تھا، یقین کریں کہ ایس ایم ایس کرتے کرتے میری انگلیوں میں خاصا درد ہو گیا تھا۔
ہمارا معاشی و مالی نظام بھی دنیا کے لئے قابل تقلید ہے۔ یہاں بنکرز ماہر معاشیات بن جاتے ہیں حالانکہ آپ کو بھی اور مجھے بھی علم ہے کہ بنک میں رقم جمع کرنا، زیادہ سود کمانا اور گاہکوں کو کم سود دینا، یہ ماہرین یہ نہیں دیکھ سکتے کہ عید، بقر عید پر لوگ زیادہ رقم نکلوا لیتے ہیں اور بنکوں میں رقم نہیں رہتی۔ دعویٰ کرتے ہیں کہ بنکوں کے نظام پر بڑا سخت کنٹرول ہے مگر ایک شخص جس کی اپنی تنخواہ بمشکل ایک ہزار ڈالر ماہانہ ہوتی ہے، قلم کی ایک جنبش سے آٹھ سو، نو سو ملین ڈالر اس طرح معاف کر دیتا ہے جس طرح ایک بچہ تختی پر چاک سے بنائی ہوئی ایک تصویر کو مٹا دیتا ہے۔ اسی قسم کے ماہرین نے ایٹمی دھماکوں کے بعد وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کو غلط مشورے دے کر پوری دنیا میں ان کی ساکھ ختم کر دی تھی۔ غیر ملکی کرنسی کے اکاؤنٹ منجمد کر کے اور ان کے بدلے پاکستانی روپیہ دنیا کا ایک ناقابل معافی جرم تھا اس نے پوری دنیا میں پاکستانیوں کا حکومت پر بھروسہ ختم کر دیا۔ جن حکمرانوں نے عقل و فہم کا استعمال کر کے اچھے مشیر کا چناؤ کیا، وہ تاریخ میں سرخرو رہے اور جن حکمرانوں نے احمق اور خود غرض مشیر چنے وہ تاریخ میں ذلت کا باب بن گئے۔
میں دراصل ابتدا میں بات ہمارے عقل کل مالی کی کر رہا تھا۔ 15 برس یورپ کے کئی ممالک میں رہا اور ہمیشہ یہ دیکھا کہ وزیر خزانہ یا مالیات ایک نہایت قابل، مشہور شخصیت ہوتی ہے۔ جرمنی میں پروفیسر ایئر ہارڈ کا نام آج بھی سب کو یاد ہے۔ بیلجیئم میں پروفیسر آئس کنس کو پورا ملک جانتا ہے، اسی طرح ہالینڈ میں مشہور پروفیسر ٹن برگن کی پالیسیوں پر عمل ہوتا تھا۔ ہمارے پڑوسی ملک کے موجودہ وزیراعظم اور سابق وزیر خزانہ من موہن سنگھ کو اسناد اور تجربہ دیکھ لیں اور اس کے مقابلے میں اپنے پچھلے تمام وزرائے خزانہ کو دیکھ لیں، سوائے غلام اسحاق خان کے، کسی نے ہمارے ملک کو ٹھیک نہ رکھا۔
یہاں ایک صحیح واقعہ قابل بیان ہے۔ غلام اسحاق خان اور میرے تعلقات بہت اچھے تھے۔ میں ان کی عزت اپنے مرحوم والد کی طرح کرتا تھا اور میرا دل بھی کہتا تھا کہ وہ بھی مجھے اپنی اولاد کی طرح سمجھتے تھے۔ میں ان سے مذاق بھی کر لیا کرتا تھا۔ غلام اسحاق خان انسٹیٹیوٹ کی تعمیر کے دوران ہم بہت قریب تھے چونکہ میں اس ادارے کا پروجیکٹ ڈائریکٹر اور تمام تیاری وغیرہ میں نے ہی کی تھی۔ ہماری میٹنگ ہمارے گھر سے منسلک گیسٹ ہاؤس میں ہوتی تھی۔ یہ ان کی شفقت کا اعلیٰ ثبوت تھا کہ جب بھی وہ میٹنگ کے لئے تشریف لاتے تو ضرور چند منٹ کے لئے میرے گھر آتے اور میری بیگم کی خیریت پوچھتے اور اس کا شکریہ ادا کرتے کہ اس کی وجہ سے میں اپنا کام خوش اسلوبی سے کر پایا ہوں۔ ایک روز لنچ کے دوران میں نے مزاحاً عرض کیا، سر کیا وجہ ہے کہ جبکہ دنیا میں خاص طور پر مغربی ممالک میں تو معاشی قد آور شخصیات یعنی Financial Wizards ہوتے ہیں۔ قدرت نے ہمیں زیادہ تر معاشی بونے Financial Lizards ہی دیئے ہیں یعنی چھپکلیاں جو سست، کاہل، بہری، گونگی ہوتی ہیں، وہ بہت ہنسے اور کہا کہ بیگ ( ایچ یو بیگ ) دیکھو، ڈاکٹر صاحب نے کس قدر صحیح بات کہی ہے پھر مسکرا کر کہا کہ جیسے عوام ہوتے ہیں قدرت ایسے ہی رہنما عطا کرتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ غلام اسحاق خان اور ایچ یو بیگ کی ٹیم اس ملک کی بہترین ٹیم تھی، مجھے ان کے ساتھ دس سال کام کرنے کا موقع ملا تھا۔ ان دونوں کی غیر مشروط مدد نے ہمیں ایٹمی قوت بنانے میں نمایاں کردار ادا کیا تھا۔
آج کل دنیا میں کہیں بھی دہشت گردی کا واقعہ ہوتا ہے، نزلہ ہم پر گرتا ہے حقیقت یہ ہے کہ مغربی دنیا اب تک یہ چیز ہضم نہ کر سکی ہے کہ انکی توقعات کے قطعی برعکس ہم ایک ایٹمی اور میزائل قوت بن گئے ہیں۔ کاش ہم ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری کیساتھ ساتھ ایٹمی پاور پلانٹ بنانے میں بھی ایسی ہی ترقی کر پاتے ایٹمی پاور پلانٹ بنانے کی ٹیکنالوجی 50 سال پرانی ہے۔ 1974ء تک یعنی جب ہندوستان نے ایٹمی دھماکہ کیا، یہ ٹیکنالوجی بآسانی دوسرے ممالک سے خریدی جا سکتی تھی اور کم قیمت پر بھی مل سکتی تھی مگر افسران کی نا اہلی اور کوتاہ بینی کی وجہ سے ہم اس میدان میں بہت پیچھے رہ گئے ورنہ آج ہمارے پاس کم از کم 10 ایٹمی پاور پلانٹ ضرور ہونے چاہئے تھے۔ ہندوستان میں 22 ری ایکٹر کام کر رہے ہیں اور جنوبی کوریا میں بھی لاتعداد ری ایکٹر کام کر رہے ہیں اور دونوں ملک یہ پلانٹ خود بناتے ہیں۔ ہم بھی بآسانی بنا سکتے ہیں اور پہلے بھی بنا سکتے تھے لیکن اللہ تعالیٰ نے سورة الانفال میں صاف صاف ارشاد فرمایا ہے کہ ” جو قومیں خود اپنا حال نہیں بدلتی ہیں انکی حالت اللہ تعالیٰ بھی نہیں بدلتے “۔
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا
اس سال میں نے عیدالاضحیٰ کی نماز اپنی تعمیر کردہ ای سیون کی مسجد میں ادا کی، اس کے لئے جناب صدر زرداری، مشیر داخلہ رحمن ملک کا مرہون منت ہوں۔ بہت سے پرانے دوستوں، ہمدردوں سے مل کر بہت خوشی ہوئی مگر یہ جان کر بہت دکھ بھی ہوا کہ اس غیر قانونی اسیری کے دوران چند نہایت مخلص دوست اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ ان میں سب سے نمایاں میرے مہربان، محترم دوست محمد افضل چیمہ تھے، ان کی نماز جنازہ میں شرکت نہ کرنے کا زندگی بھر دکھ رہے گا۔
موجودہ حالات میں سب سے تکلیف دہ بات لیڈروں کی غلط بیانی ہے، بار بار آ کر غلط بیانات دیتے ہیں۔ وزیر پانی اور بجلی راجہ پرویز اشرف بار بار ” لوڈشیڈنگ ختم ہو گئی ہے “ کے نعرے لگاتے ہیں اور میں دن میں کئی بار اس کا شکار ہوتا ہوں۔ اگر آپ بھوکے سے کہہ دیں کہ کھانا کل ملے گا یا بیمار سے کہہ دیں کہ ہفتہ بعد ٹھیک ہو جاؤ گے تو اللہ تعالیٰ قوت، برداشت اور صبر دے دیتا ہے لیکن کہا جائے کہ گھنٹہ بھر بعدٹھیک ہوجاؤ گے اس طرح آپ غلط بیانی کر کے شاید دل میں خود کو دھوکہ دے لیں کہ عوام کو بیوقوف بنا دیا ہے مگر حقیقتاً آپ خود کو نقصان پہنچا رہے ہیں اور عوام کی نگاہ میں آپ کی عزت گر جاتی ہے اور نتیجہ وہی نکلتا ہے جو 18 فروری کو ” کیو لیگ “ کے حصہ میں آیا۔ غلط بیانی سے نہ صرف عوام میں عزت و احترام کم ہوتا ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کو بھی یہ بات سخت بری لگتی ہے اور نا پسند ہے۔ ہم سچ بول کر عوام کو ساتھ لے کر چلیں تو ان کی حمایت سے ملک کی لا تعداد پریشانیاں اور مشکلات دور ہو سکتی ہیں۔
ایک سادی مگر اہم نصیحت اہل اقتدار کی خدمت میں، عوام کو کبھی بیوقوف یا کم عقل نہ سمجھیں۔ آج سے ڈھائی ہزار سال پیشتر ایک عقلمند چینی Lao Tzu نے یہ نصیحت کی تھی ” عوام پر حکومت کرنا بہت مشکل کام ہے، وہ بہت عقل و فہم اور معلومات کے حامل ہوتے ہیں “۔ مقصد یہ کہ آپ ان کو بیوقوف نہیں بنا سکتے۔ حالات کی مجبوری سے وہ خاموشی اختیار کر لیتے ہیں۔
پیش کنندہ:بےباک