“شیعہ پر حملے، نائین الیون کا ردّعمل نہیں” - صبا اعتزاز (ڈان اردو)

حسان خان

لائبریرین
دو ماہ کے دوران شیعہ مسلک کے لوگوں پر ہونے والے دو حملوں میں 200 سے زیادہ افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔​
صرف چالیس دنوں کے درمیان بلوچستان میں تقریبا دو سو شیعہ ہزارہ کے قتل سے ملک بھر میں بے چینی پائی جاتی ہے۔​
انگریزی اخبار ڈیلی ٹائمز کے مدیر راشد رحمان کہتے ہیں کہ ہزارہ برادری کے خلاف دہشت گردی کے پیچھے ایک خوفناک مقصد ہے۔​
وہ کہتے ہیں، “اس ظلم کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ وہ شیعہ ہیں اور جتنے حملے ہو رہے ہیں وہ فرقہ ہیں۔ دوسری یہ کہ کم تعداد میں ہونے کی وجہ سے ہزارہ برادری کو آسانی نے نشانہ بنایا جا سکتا ہے.”​
ہیومن رائٹس واچ کی حال ہی میں سامنے آئی ایک رپورٹ کے مطابق صرف سال 2012 ء میں ہی سوا سو سے زیادہ شیعہ افراد شدت پسندوں کا نشانہ بن چکے ہیں۔​
مرکزی وزیر داخلہ رحمان ملک نے پارلیمنٹ میں اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ بلوچستان حکومت کو کیرانی روڈ دھماکے کی پیشگی اطلاع دے دی گئی تھی۔ سوال یہ ہے کہ اس کے بعد بھی اس حملے کو کیوں نہیں روکا جا سکا؟​
بی بی سی کے نامہ نگار اور مصنف محمد حنیف کے خیال میں یہی غفلت ہی پاکستان کی قومی خصوصیت ہے۔​
اُن کا کہنا ہے کہ”بہت سے دانشور اس تمام معاملے کو نائین الیون سے جوڑتے ہیں، لیکن وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ سپاه صحابہ نامی عسکریت پسند تنظیم کا قیام 1984ء میں میں عمل میں آیا تھا اور تب سے اب تک اُن کا ایک ہی نعرہ ہے کہ شیعہ کافر ہیں اور حکومت ان کو کافر قرار دے۔ جب حکومت نے ایسا نہیں کیا تو وہ ان کو چُن کر چُن کر مار رہے ہیں۔ “​
وہ کہتے ہیں، “مجھے لگتا نہیں کہ اب اسے روکا جا سکتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر صرف ایک تنظیم کا قصور ہوتا تو اور بات تھی لیکن اب تمام اداروں اور معاشرے کی اکثریت میں یہ احساس پیدا ہوچکا ہے کہ جو ہلاک ہو رہے ہیں ان کا ہم سے کوئی تعلق نہیں۔”​
دس جنوری کو کوئٹہ میں ہونے والے دو دھماکوں میں ایک سو پندرہ افراد ہلاک ہوئے تھے۔ ان میں سے زیادہ تر ہزارہ شیعہ تھے۔ ایک ماہ سے کم کے عرصے میں کیرانی روڈ کے دھماکے میں پھر نواسی افراد ہلاک ہو گئے۔​
کالعدم تنظیم لشکر جھنگوی نے دونوں واقعات کی ذمہ داری قبول کی، لیکن بہت سے لوگ ہیں جو حکومت کی ان کے خلاف کارروائی سے مطمئن نہیں ہیں، راشد رحمان بھی انہی میں سے ایک ہیں۔​
ان کا کہنا ہے، “جب وہ خود ہی ذمہ داری قبول کر رہے ہیں، تو انہیں اور ان کے لیڈروں کو پكڑا جائے۔ جب یہ واقعہ ہوا تو ان کے خلاف سخت کارروائی کیوں نہیں ہوئی؟ اس سے قبل سیکورٹی ایجنسیاں کیا کر رہی تھیں؟”​
پاکستان علماء کونسل کے سربراہ حافظ طاہر اشرفی کی نظر میں اس کی وجہ انتظامیہ کی بنیادی کمزوریاں ہیں۔ ان کے خیال میں اگر عدالتی نظام مضبوط ہو تو اس قسم کے دہشت گردی کے واقعات کو روکا جاسکتا ہے۔​
ان کا کہنا تھا کہ”مجرموں کو پھانسی دی جائے، قانون کی عملداری قائم ہو، اگر جج اپنی ہمت پیدا کریں اور قانون پر عمل کرنے والی ایجنسیوں کو اپنا کام کرنے دیا جائے۔ جب ہمارے نظام میں اتنی کمزوریاں ہوں گی کہ مجرم کو اس کے انجام تک نہیں پہنچایا جا سکے گا تو لوگوں کے حوصلے ٹوٹ جائیں گے۔”​
محمد حنیف کے خیال میں بہتر یہ ہوگا کہ پہلے اپنے گھر میں جھانک لیا جائے۔ ان کے خیال میں نفرتوں کی یہ جنگ پاکستان کی اپنی ہے اور اس حقیقت سے منہ نہیں پھیرا جا سکتا ہے۔​
محمد حنیف کا کہنا ہے کہ سماج میں انتہا پسندی بڑھتی جارہی ہے اور اس کے ساتھ شدت پسند تنظیموں کا کام آسان ہو رہا ہے۔​
وہ کہتے ہیں، “بار بار ان پر پابندیاں لگائی جاتی ہیں لیکن یہ نام بدل کر پھر اپنا کام شروع کر دیتے ہیں۔ کئی محلوں میں آپ کو ایسی مسجدیں مل جائیں گی جہاں پر “کافر کافر شیعہ کافر” کے نعرے لگائے جاتے ہیں۔ لوگوں کو اس طرح اُكسانا جرم ہے۔ لیکن میں یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ کوئی ایسا تھانےدار نہیں جو جا کر کسی مسجد میں گھس کر یہ بات کہہ سکے یا کسی ایسے جلسے کو روک سکے۔”​
 

شہزی مشک

محفلین
اس ملک میں نائن الیون کے بعد جتنا خون سنی مسلم کا بہا ہے شاید ہی کسی کا بہا ہوگا۔ دشمن ہمارا ایک ہے، بس دعا ہے کہ ہم سب ایک ہوجائیں تو یہ مسئلہ ختم اور دشمن کی موت اُس وقت سے شروع ہوجائے گی۔۔۔۔
 

arifkarim

معطل
بہت سے دانشور اس تمام معاملے کو نائین الیون سے جوڑتے ہیں، لیکن وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ سپاه صحابہ نامی عسکریت پسند تنظیم کا قیام 1984ء میں میں عمل میں آیا تھا اور تب سے اب تک اُن کا ایک ہی نعرہ ہے کہ شیعہ کافر ہیں اور حکومت ان کو کافر قرار دے۔ جب حکومت نے ایسا نہیں کیا تو وہ ان کو چُن کر چُن کر مار رہے ہیں۔​
حکومت نے تو ان شدت پسندوں کے دباؤ میں آکر قادیانیوں کو بھی 1974 میں کافر قرار دےدیا تھا لیکن کیا اسکے بعد مذہبی انتہاء پسندی کا ملک سے خاتمہ ہوگیا؟ ہرگز نہیں! قادیانیوں کو کافر قرار دینے کے بعد یہ شدت پسند شیعوں کے پیچھے پڑ گئے۔ حال ہی میں ختم نبوت کی آڑ میں کئی معصوم پاکستانی عیسائی گھرانے نظر آتش کئے جا چکے ہیں۔ آخر کیوں؟ کیوں کیا حکومت پاکستان یہ ظلم 1974 میں؟ اگر اسوقت بجائے قادیانیوں کو کافر کہنے کے ان شدت پسندوں کو کافر قرار دے دیتے تو شاید آج ملک کا یہ حال نہ ہوتا۔ خیر اب پچھتائے کیا ہوت ، جب چڑیاں چگ گئی کھیت!
 

arifkarim

معطل
اس ملک میں نائن الیون کے بعد جتنا خون سنی مسلم کا بہا ہے شاید ہی کسی کا بہا ہوگا۔ دشمن ہمارا ایک ہے، بس دعا ہے کہ ہم سب ایک ہوجائیں تو یہ مسئلہ ختم اور دشمن کی موت اُس وقت سے شروع ہوجائے گی۔۔۔ ۔
9 2 11 سے پہلے بھی اس ملک میں 420 بڑی بڑی تخریب کاریاں کر جایا کرتے تھے۔ محرم کے موقع پر شیعوں کیخلاف ٹارگٹ کلنگ اور بم دھماکے مجھے اچھی طرح سے یاد ہیں۔ اس زمانہ میں ان شدت پسندوں کو دہشت گرد نہیں بلکہ تخریب کار کہا جاتا تھا۔ 90 کی دہائی کا کوئی سا اخبار اٹھا کر دیکھ لیں۔ آپکو کہیں دہشت گرد کا لفظ نظر نہیں آئے گا۔ ہر جگہ تخریب کار لکھا ہوتا تھا۔
 

یوسف-2

محفلین
پاکستان میں دہشت گردی ہو یا تخریب کاری، کل ہو یا آج ہو۔۔۔ ان میں عموماً بے گناہ انسان مارے جاتے ہیں۔ اور مارے جانے والوں میں ہر مذہب اور مکتبہ فکر کے لوگ ہوتے ہیں۔ لیکن ملک میں جاری دہشت گردی کو بعض مخصوص مقاصد کے حصول کے لئے فرقہ وارانہ رنگ دیا جاتا ہے کہ اس حادثہ میں اتنے شیعہ ہلاک ہوئے وغیرہ وغیرہ۔ اب اسی تازہ ترین اور نام نہاد سانحہ ٹاؤن کو لے لیجئے۔
  1. دو بم دھماکے ابو الاصفہانی روڈ پر رابعہ فلاور اپارٹمنٹس اور اقراء سٹی اپارٹمنٹس کی درمیانی اسٹریٹ پر ہوئے۔ دھماکہ کی جگہ عباس ٹاؤن سے خاصی دور ہے۔
  2. لیکن نام نہاد میڈیا، لسانی اور فرقہ پرست گروپ نے مسلسل اس دھماکہ کو شیعہ برادری کے خلاف ٹارگٹڈ حملہ قرار دیا جو سراسر جھوٹ ہے۔ اس حملہ میں عام لوگ مارے گئے۔ کل 50 کے قریب اموات ہوئیں، جن میں سے شیعہ 15 کے لگ بھگ تھے۔ اور میڈیا نے صرف انہی 15 شیعہ جنازوں کی کوریج کی۔ باقی جنازوں کی نہیں۔
  3. شیعہ تنظیم وحدت المسلمین کو ”ریکارڈ“ کے لئے یہ بیان دینا پڑا کہشہیدوں کا ذکر زبان یا مکتبہ فکر سے نہ کیا جائے ۔
  4. اس حادثہ سمیت جب بھی کسی حادثہ میں کسی شیعہ کی ہلاکت ہوتی ہے تو اک شور مثادیا جاتا ہے کہ شیعہ کی کلنگ ہورہی ہے اور فی شیعہ لاش دس پندرہ لاکھ حکومت سے وصول کرلئے جاتے ہیں۔ حکومت خواہ زرداری کی ہو، نواز کی ہو، یا ضیاء الحق کی۔ ہر مارے جانے والے شیعہ لاش کی قیمت وصول کرنا ایک ”معمول“ رہا ہے۔ آپ اخبارات کی فائل اٹھا کر دیکھ لیں۔ شیعہ خواہ نجی پکنک پارٹی میں کشتی ڈوبنے سے ہلاک ہوں، یا رات کی تاریکی میں صندوق میں بند ہوکر سمندر کی لہروں کے ذریعہ ”زیارات کے لئے جاتے ہوئے“ مارے جائیں، ذاتی دشمنی میں ٹارگٹ کلنگ میں مارے جائیں یا تخریب کاری اور قدرتی حادثات میں مارے جائیں، ہر شیعہ لاش کی قیمت حکومت وقت سے ضرور لی جاتی ہے اور وصولی کے بغیر تدفین سے علی الاعلان انکار کیا جاتا ہے، مظاہرہ و دھرنا دیا جاتا ہے۔ ایسی کوئی مثال سنی لاشوں والے نہیں کرتے۔
  5. دہشت گرد اور کلر گروپ شدت پسند سنی تحریک میں بھی ہیں اور شیعہ تنظیم میں بھی۔ ایم کیو ایم میں بھی ہیں اور امن کمیٹی کے نام پر بننے والے پی پی پی کے جیالوں میں بھی۔ یہ سب کے سب ”مخالفین“ کو قتل کرتے ہی رہتے ہیں۔ کراچی میں ایک سیریز ”سنی علماء“ کے قتل کی بھی چلی تھی۔ درجنوں نامور اور بین الاقوامی سطح کے سنی علماء صرف کراچی میں قتل ہوچکے ہیں۔ ظاہر ہے ان سب کو ان کے مخالف مسلک نے ہی قتل کیا ہوگا۔
  6. قرآن کہتا ہے کہ جس نے کسی بھی ایک بے گناہ کو قتل کیا، گویا اس نے پوری انسانیت کو قتل کیا۔ بے گناہ قتل خواہ کسی کا بھی ہو، اس کی مذمت کی جانی چاہئے، خواہ مرنے والے بے گناہ کا تعلق کس بھی زبان یا فرقہ سے کیوں نہ ہو۔ لیکن فرقہ پرست لوگ شیعہ سنی کی آڑ میں اپنے اپنے مخصوص مقاصد کے حصول میں لگ جاتے ہیں۔ ایران میں سنییوں کی تعداد پاکستانی شیعہ سے کئی گنا زیادہ ہے۔ وہاں ان پر ظلم و ستم بھی ہوتے ہیں۔ لیکن انہوں نے کبھی ”پاکستانی سنیوں“ سے اس طرح ”امداد“ طلب نہیں کی جس طرح پاکستانی شیعہ کے قتل کو پروجیکٹ کرکے متشدد شیعہ تنظیمیں ایران سے بے دریغ اسلحہ اور پیسہ وصول کرتی ہیں۔ یہ بات مجھ سے خود ایک شیعہ دوست نے بتلائی جو قتل و غارت گری کی فرقہ وارانی سیاست سے سخت نالاں ہے۔
  7. خدارا عقل کے ناخن لو اور اپنے اصل دشمن کو پہچانو جو پاکستان میں قتل و گارت گری کے ذریعہ اسے تباہ و برباد کرنے کے درپے پے۔
 

حسان خان

لائبریرین
  1. دو بم دھماکے ابو الاصفہانی روڈ پر رابعہ فلاور اپارٹمنٹس اور اقراء سٹی اپارٹمنٹس کی درمیانی اسٹریٹ پر ہوئے۔ دھماکہ کی جگہ عباس ٹاؤن سے خاصی دور ہے۔
  2. لیکن نام نہاد میڈیا، لسانی اور فرقہ پرست گروپ نے مسلسل اس دھماکہ کو شیعہ برادری کے خلاف ٹارگٹڈ حملہ قرار دیا جو سراسر جھوٹ ہے۔ اس حملہ میں عام لوگ مارے گئے۔ کل 50 کے قریب اموات ہوئیں، جن میں سے شیعہ 15 کے لگ بھگ تھے۔ اور میڈیا نے صرف انہی 15 شیعہ جنازوں کی کوریج کی۔ باقی جنازوں کی نہیں۔

ان دو فضول اعتراضوں کا مفصل جواب وہیں کے سابق رہائشی ادھر دے چکے ہیں۔ ملاحظہ ہو۔
 

حسان خان

لائبریرین
اس حادثہ سمیت جب بھی کسی حادثہ میں کسی شیعہ کی ہلاکت ہوتی ہے تو اک شور مثادیا جاتا ہے کہ شیعہ کی کلنگ ہورہی ہے

کل آپ کے بھائیوں اور جیالوں نے جو عیسائیوں پر قہر ڈھایا ہے، آپ اُس پر یہ بھی اعتراض کر دیجیے کہ مرنے والے تو پاکستانی انسان تھے، پاکستان کا یہودی میڈیا عیسائی عیسائی کیوں چلا رہا ہے۔۔ یہ کیوں کہہ رہا ہے کہ عیسائیوں پر ظلم ہو رہا ہے، یہ کیوں نہیں کہتا کہ پاکستانیوں پر ظلم ہو رہا ہے۔۔ سالی یہودی میڈیا!

بات صرف اتنی سی ہے کہ اُن عیسائیوں کے گھر اُن کے عیسائی ہونے کی وجہ سے جلے ہیں اُن کے پاکستانی یا انسان ہونے کی وجہ سے نہیں، لہذا میڈیا یہی کہے گا کہ عیسائیوں پر جبر ہو رہا ہے۔ یونہیں جو شیعہ دہشت گرد حملوں میں مارے جاتے ہیں وہ اپنے فرقے کی بنیاد پر مارے جاتے ہیں، لہذا اگر ملکی و غیر ملکی میڈیا اُن کی شیعوں پر حملہ کہہ کر تشہیر کرتا ہے تو آپ کو کیا اعتراض ہے؟
 

سید ذیشان

محفلین
شیعہ دشمنی میں چند عمر رسیدہ حضرات کیا کیا پھلجڑیاں اڑا سکتے ہیں یہ آج بڑے اچھے طریقے سے معلوم ہو گیا۔ :D

یعنی ہمارے چند لوگ دانتوں تک فرقہ واریت میں ڈوبے ہوئے ہیں اور اس پر نادم ہونا تو دور کی بات، فخر کرتے ہیں۔
 
پاکستان میں جاری اس دہشت گردی اور مذہبی انتہا پسندی سے آنکھیں چرانے والے دوست ، کبھی بھی اس مکتبہ فکر کی طرف اشارہ نہیں کریں گے جسکی کوکھ سے اس سارے فساد نے جنم لیا۔۔۔بقول غالب
نظر لگے نہ کہیں "اُسکے" دست و بازو کو۔۔
یہ لوگ کیوں میرے زخمِ جگر کو دیکھتے ہیں
 

حسان خان

لائبریرین
شیعہ دشمنی میں چند عمر رسیدہ حضرات کیا کیا پھلجڑیاں اڑا سکتے ہیں یہ آج بڑے اچھے طریقے سے معلوم ہو گیا۔ :D

نہ صرف پھلجڑیاں اڑاتے ہیں بلکہ ایک شیعہ دوست بھی ڈھونڈ لاتے ہیں جو شیعوں کی حرکات سے نالاں ہو کر اُنہیں شیعوں کے سیاہ کرتوتوں سے آگاہ کرتا ہے۔ :p
 
Top