F@rzana
محفلین
“میں“
اشیاء کی اصلیت ان اشیاء کے وجود یا ذات میں نہیں بلکہ ان کے “آفاقی تصورات“ میں ہے جو ایک وضاحت یاDefinition کی مانند ہیں۔
یہ افلاطون کی تھیوری آف آئیڈیاز کا بنیادی اصول کہتا ہے۔
افلاطون نے ہر چیز کے بارے میں اپنا نکتہء نظر فلسفے کے ماتحت پیش کیا حتی کہ اس نے فنون لطیفہ کو بھی اخلاقیات اور سنجیدگی کے پہلو سے دیکھا۔۔۔۔۔
اس کے نزدیک ان فنون کا مقصد صرف تفریح طبع نہیں بلکہ لوگوں کے ذہن کی نشو و نما تھی، وہ لچر ، لغویات یا بعید از قیاس خیالات پیش کرنے والے کو نہیں مانتا تھا۔
یہاں کچھ خیالات پڑھ کر میرا جی چاہا کہ آپ کے سامنے یہ موضوع پیش کروں، آپ کیا کہتے ہیں اس بارے میں؟ (سنجیدگی سے)
تصورات ہمیں کہاں لے جاتے ہیں؟
ان ہی خیالات اور تصورات کی بدولت ہم اپنے آپ کو بہت بلند و بالاتر ہستی کیوں سمجھنے لگتے ہیں؟
جس مقام پر حقیقت اور فلسفہ اپنے آپ کو منوانے لگے، وہاں مذہب کو سہارا بنا کر تالا لگانے کی کوشش کیوں کی جاتی ہے؟
انسان اللہ تعالی کی ایک ایسی تخلیق ہے جس کی دو قسمیں ہیں“مرد اور عورت“ جسمانی ساخت میں کچھ تبدیلیاں ہونے کے باعث ذہنی صلاحیتوں یا قابلیت کی کمی بیشی کا تعین کیسے ہوگیا؟ اور کس نے کیا؟
ہم اپنے موقف سے ہٹنے میں سبکی کیوں محسوس کرتے ہیں؟
ایڑی چوٹی کا زاور لگا دتے ہیں برتری ثابت کرنے میں،
اس کی مثال زندگی کے ہر شعبے میں ملتی ہے، دیکھنا ہو تو پاکستان کے سیاستدانوں، علماء، ادیبوں اور شاعروں کے بحث و مباحثے ٹی وی پر ملاحظہ ہوں۔
زندگی تو خالق کی دی ہوئی ہے، آپ اس جتنے طاقتور نہیں لیکن پھر بھی دوسرے کو دبانے میں اپنی قوت صرف کر دیتے ہیں۔۔۔۔!
ارد گرد، ہر طرف اسی نظریئے کا اطلاق ہوتا رہتا ہے،
چاہے وہ مذہب ہو یا سیاست،
گھر،رشتہ داری ہو یا دوستی۔
اپنی برتری اور حاکمیت تسلیم کروانے میں بڑے سے بڑا نقصان کر لیتے ہیں، کیوں کیوں کیوں؟
یہ پیمانہ ہر ایک کا برابر نہیں ہوتا، اسی لیئے تو شاعر کو بھی اس نظریئے کا اعلان کرنا پڑا کہ ۔ ۔ ۔
“ہر حسن سادہ لوح نہ دل میں اتر سکا
کچھ تو مزاج یار میں گہرائیاں بھی ہوں
ذہنی یا جسمانی صلاحیت کی برتری میں کسی کا کوئی ذاتی کمال نہیں ہوتا بلکہ یہ قدرتی ہوتی ہے،
ایک طرف اگر کوئی انسان ذہنی ، فطری یا قدرتی طور پر کم ہے تو اس میں اس کا قصور نہیں وہ تو معصوم ہے، ہر انسان کی بنیادی ضرورت بلکل برابر ہوتی ہے ، چاہے عورت ہو یا مرد،
البتہ محنت کی بنیاد پر آپ اس صلاحیت کو بڑھا کر برتری کی دوڑ میں شامل ہوسکتے ہیں۔
جو صحیح معنوں میں ان خصوصیات کے حامل ہوتے ہیں وہ کبھی
“ میں “ کے تصور میں بھٹکتے بھی نہیں،
دنیا خود ان کے نام کا ڈنکا بجاتی ہے۔
ہم میں سے بیشتر کو ذرا سی توجہ کی کمی بیشی ہی بغض و عناد کا شکار کر دیتی ہے تو آفاقی گہرائیوں میں کیسے اتریں گے!!!
صوفی ازم نے اسی بنیاد پر جنم لیا تھا، کہ ان لوگوں نے اپنی “میں“ کا تصور ہی مٹادیا۔
اپنے اندر سے اور خآص طور پر پاکستانی معاشرے سے “میں“ کو مٹانے کے لیئے تجاویز کا، اس دھاگے پر خیر مقدم ہے۔
اشیاء کی اصلیت ان اشیاء کے وجود یا ذات میں نہیں بلکہ ان کے “آفاقی تصورات“ میں ہے جو ایک وضاحت یاDefinition کی مانند ہیں۔
یہ افلاطون کی تھیوری آف آئیڈیاز کا بنیادی اصول کہتا ہے۔
افلاطون نے ہر چیز کے بارے میں اپنا نکتہء نظر فلسفے کے ماتحت پیش کیا حتی کہ اس نے فنون لطیفہ کو بھی اخلاقیات اور سنجیدگی کے پہلو سے دیکھا۔۔۔۔۔
اس کے نزدیک ان فنون کا مقصد صرف تفریح طبع نہیں بلکہ لوگوں کے ذہن کی نشو و نما تھی، وہ لچر ، لغویات یا بعید از قیاس خیالات پیش کرنے والے کو نہیں مانتا تھا۔
یہاں کچھ خیالات پڑھ کر میرا جی چاہا کہ آپ کے سامنے یہ موضوع پیش کروں، آپ کیا کہتے ہیں اس بارے میں؟ (سنجیدگی سے)
تصورات ہمیں کہاں لے جاتے ہیں؟
ان ہی خیالات اور تصورات کی بدولت ہم اپنے آپ کو بہت بلند و بالاتر ہستی کیوں سمجھنے لگتے ہیں؟
جس مقام پر حقیقت اور فلسفہ اپنے آپ کو منوانے لگے، وہاں مذہب کو سہارا بنا کر تالا لگانے کی کوشش کیوں کی جاتی ہے؟
انسان اللہ تعالی کی ایک ایسی تخلیق ہے جس کی دو قسمیں ہیں“مرد اور عورت“ جسمانی ساخت میں کچھ تبدیلیاں ہونے کے باعث ذہنی صلاحیتوں یا قابلیت کی کمی بیشی کا تعین کیسے ہوگیا؟ اور کس نے کیا؟
ہم اپنے موقف سے ہٹنے میں سبکی کیوں محسوس کرتے ہیں؟
ایڑی چوٹی کا زاور لگا دتے ہیں برتری ثابت کرنے میں،
اس کی مثال زندگی کے ہر شعبے میں ملتی ہے، دیکھنا ہو تو پاکستان کے سیاستدانوں، علماء، ادیبوں اور شاعروں کے بحث و مباحثے ٹی وی پر ملاحظہ ہوں۔
زندگی تو خالق کی دی ہوئی ہے، آپ اس جتنے طاقتور نہیں لیکن پھر بھی دوسرے کو دبانے میں اپنی قوت صرف کر دیتے ہیں۔۔۔۔!
ارد گرد، ہر طرف اسی نظریئے کا اطلاق ہوتا رہتا ہے،
چاہے وہ مذہب ہو یا سیاست،
گھر،رشتہ داری ہو یا دوستی۔
اپنی برتری اور حاکمیت تسلیم کروانے میں بڑے سے بڑا نقصان کر لیتے ہیں، کیوں کیوں کیوں؟
یہ پیمانہ ہر ایک کا برابر نہیں ہوتا، اسی لیئے تو شاعر کو بھی اس نظریئے کا اعلان کرنا پڑا کہ ۔ ۔ ۔
“ہر حسن سادہ لوح نہ دل میں اتر سکا
کچھ تو مزاج یار میں گہرائیاں بھی ہوں
ذہنی یا جسمانی صلاحیت کی برتری میں کسی کا کوئی ذاتی کمال نہیں ہوتا بلکہ یہ قدرتی ہوتی ہے،
ایک طرف اگر کوئی انسان ذہنی ، فطری یا قدرتی طور پر کم ہے تو اس میں اس کا قصور نہیں وہ تو معصوم ہے، ہر انسان کی بنیادی ضرورت بلکل برابر ہوتی ہے ، چاہے عورت ہو یا مرد،
البتہ محنت کی بنیاد پر آپ اس صلاحیت کو بڑھا کر برتری کی دوڑ میں شامل ہوسکتے ہیں۔
جو صحیح معنوں میں ان خصوصیات کے حامل ہوتے ہیں وہ کبھی
“ میں “ کے تصور میں بھٹکتے بھی نہیں،
دنیا خود ان کے نام کا ڈنکا بجاتی ہے۔
ہم میں سے بیشتر کو ذرا سی توجہ کی کمی بیشی ہی بغض و عناد کا شکار کر دیتی ہے تو آفاقی گہرائیوں میں کیسے اتریں گے!!!
صوفی ازم نے اسی بنیاد پر جنم لیا تھا، کہ ان لوگوں نے اپنی “میں“ کا تصور ہی مٹادیا۔
اپنے اندر سے اور خآص طور پر پاکستانی معاشرے سے “میں“ کو مٹانے کے لیئے تجاویز کا، اس دھاگے پر خیر مقدم ہے۔