کافی دنوں بعد جب اس طرف آیا تو دیکھا کہ میں میں ۔ ۔ لگی ہوئی ہے ۔ ۔ ۔ ادھر سے کچھ عرصہ غائب ہونے کی وجہ بھی “میں“ ہی تھی ۔ ۔
“میں“ ۔ ۔ ۔ اصل میں یہ لفظ ایک سچائی کو بیان کرتا ہے ، ایک اکائی کو بیان کرتا ہے ، جسے ہم منفرد کہتے ہیں ، انسان جب “میں“ کا مصدر استعمال کر رہا ہوتا ہے تو اسکا مطلب اسکی اکائی یا بزبان فرنگی Uniqeness کو ظاہر کر رہا ہوتا ہے ، یہ منفرد ہونے کا احساس ہی انسان کو میں کا استعمال کرنے پر مجبور کرتا ہے ، یہ الگ بات ہے کہ وہ اس میں کو تفاخر سے یا پھر عاجزی سے استعمال کرتا ہے ۔ ۔ ۔
ایک دوست نے اسے حکمران اور تاجروں کے لئے بتایا ہے جبکہ حکمران اور تاجر دونوں ہم کا مصدر استعمال کرتے ہیں ۔ ۔ کیونکہ اس میں فخر کا عنصر ہوتا ہے ، اور گروہ کا (جو ان کی دسترس اور رعیت میں ہوتا ہے)
مذہبی نقطہ نگاہ بہت واضح ہے ، اللہ کو فخر نہیں عاجزی پسند ہے اور میں عاجزی کو بھی ظاہر کرتا ہے اور میں ایک شکر کا طریقہ بھی ہے کہ اے اللہ تو نے مجھے اکائی بنایا اور پھر بھی ایک معاشرہ کا حصہ بنایا ۔ ۔۔ تو یہ میں ایک شکر کا طریقہ بھی ہے
معاشرہ بہت ساری اکائیوں سے مل کر بنتا ہے ، یعنی بہت ساری “میں“ سے ، مگر اس میں ہر “میں“ کو اپنا کردار ادا کرنا پڑتا ہے ، کہ اسی کردار ادا کرنے کے طریقے کو مختلف نظاموں نے مختلف نظر سے دیکھا ہے ۔ ۔۔ ۔ اشتراکیت کو لے لیں وہ اکائیوں کو اکھٹا کرتے ہیں اور پھر انہیں “میں“ نہی رہنے دیتے “ہم“ کر دیتے ہیں ۔ ۔ ۔ جس وجہ سے ۔ ۔ ۔ معاشرہ ۔ ۔ جبر کا شکار ہوتا ہے ۔ ۔ ۔ سوشلزم کو دیکھیں یا پھر کیمونزم کو ہر جگہ میں کو ہم کر دیا جاتا ہے جس سے فرد اپنی شناخت کھو دیتا ہے اور وہ معاشرے میں اپنا کردار ادا نہیں کر پاتا ۔ ۔ ۔ جو فساد کا بعث بنتا ہے ۔ ۔ ۔
مذہب میں کو اچھی طرح سمجھتا ہے ، وہ انفرادی حالت کو سدھارتے ہوئے اور اسکی اہمیت کو قائم رکھتے ہوئے ایک ایک اکائی کو اپنی جگہ پر رکھتا ہے ۔ ۔ ۔اور پھر جو معاشرہ تشکیل پاتا ہے وہ برداشت اور تحمل کی مثال بنتا ہے ، کہ میں کا ادراک رکھنے والی اکائی اپنی انفرادیت جانتی ہے اور اپنی حدود بھی اسلئے دوسری اکائی کو موقعہ ملتا ہے اور اس طرح اکائیاں (یا میں ) آپس میں مل جاتی ہیں ۔ ۔
صوفیا نے اس میں پر بہت کچھ کہا ہے جیسے شاہ لطیف کہتے ہیں کہ میں تو میں نہیں وہ ہی ہوں ، یعنی مجھ میں تو موجود ۔۔ ۔بھلے شاہ بھی اپنے اندر رب کو بیان کرتے ہیں ، رحمان بابا بھی کہتے ہیں کہ میں ہی سب کچھ ہوں اور میں میں نہی تو ہے ۔ ۔ ۔
الف اللہ چنبے دی بوٹی ، مرشد من وچ لائی ہو
نفی اثبات کا پانی چڑھیا ، ہر جگہے ہر جائی ہو
یہ نفی اثبات ہی ۔ ۔۔ میں ہے ۔ ۔ ۔
ایک کتاب ہے “عرفان“ کے نام سے اس میں ایسے بہت ساری باتیں ہیں جو “میں“ کو بیان کرتی ہیں اسکے علاوہ ۔ ۔ ۔ فرائیڈ جیسے فلسفی بھی “میں“ میں الجھتے رہے ، اور خود کو ہی محور بنا کر سب باتیں کہ ڈالیں ، موپاساں بھی میں کے چکر میں اپنی بات کہتا ہے ، دوستوسکی نے اپنے ناول “ایڈیٹ“ میں ، پرنس میشکن کا کردار اس میں کو ہی ختم کر کہ بنایا تھا ۔ ۔ ۔ ۔جو اکائی تھا اکیلا بھی تھا مگر سوسائیٹی کا حصہ بھی بنا مگر اسکی میں کو کوئی نہ سمجھا ۔ ۔ ۔
اور جب بندہ اصل “میں“ کو سمجھتا ہے تبھی کہتا ہے
رانجھا رانجھا کردی نی میں آپے رانجھا ہوئی
سدو نی میں کہ کہ رانجھا ، ہیر نہ آکھو کوئی
میرے خیال میں میں نے کافی “میں میں“ کر لی ہے ۔ ۔ ۔ ۔ امید ہے آپکو میری “میں میں “ میں کچھ تو سمجھ آیا ہو گا