”اجازت مل سکے گی کیا“ عربی زبان کی ایک انقلابی نظم کا منظوم اردو ترجمہ

نزار توفیق قبانی کی اس نظم کا تخلیقی ترجمہ حارث خلیق نے کیا ہے

جہاں سب سوچنے اور لکھنے والوں کا مقدر
ارضِ مقتل ہے
جہاں لب قید ہیں
اور جُبّہ و خرقہ نے تازہ لفظ پہ پہرے بٹھائے ہیں
جہاں کچھ پوچھ لینا لائق تعزیر ٹھہرا ہے
وہاں مجھ کو
اجازت مل سکے گی کیا

اجازت مل سکے گی اپنے بچوں کو
میں پالوں جس طرح سے پالنا چاہوں
بتا پاﺅں کے مذہب فرد اور اس کے خدا کے
باہمی رشتے کو کہتے ہیں
کوئی بھی تیسرا
عالم ، مبلغ درمیاں آہی نہیں سکتا

اجازت مل سکے گی کیا
میں پہلے یہ بتا پاﺅں کے مذہب نام ہے
اخلاق کا، سچائی کا ، ایمانداری کا
پھر اس کے بعد جی چاہے تو سوچیں
مستحب کیا ہے
وضو کیسے کریں، کیسے نہائیں
داہنے ہاتھ سے لقمہ بنائیں

اجازت مل سکے گی کیا، اپنی بیٹی پر یہ وَا کردوں
خدائے عزوجل کو پیار ہے اس سے
وہ جب چاہے ، جہاں چاہے دعا مانگے
خدا سے علم و حکمت اور جزا مانگے
بس اس کی ہی رضا مانگے

اجازت مل سکے گی اپنے بچوں کو
بڑے جب تک نہ ہو جائیں
عذابِ قبر سے ہرگز ڈراﺅں میں نہیں تب تک
کہ بچے موت سے پوری طرح واقف نہیں اب تک

اجازت مل سکے گی
پیاری بیٹی کو میں پہلے رکھ رکھاﺅ
اپنی تہذیب و تمدّن سے مکمل آشنا کر دوں
یہ بہتر ہے کہ وہ انسانیت کے دین کو دل میں بسائے
پھر جو چاہے تو اپنا سر ڈھکے ، زینت چھپائے

اجازت مل سکے گی اپنے بیٹے کو یہ سمجھاﺅں
تعصب بر بنائے رنگ و نسل و جنس و مذہب
آدمی کو اپنے رب سے دور کرتا ہے
کسی کو دکھ نہ دے اور معاف بھی کردے
کہ بس احسان ہی انسان کو پُر نور کرتا ہے

اجازت مل سکے گی اپنی بیٹی کو بتا پاﺅں
کہ بس آیات کو یوں منہ زبانی یاد کرلینا نہیں کافی
جو وہ اسکول میں پڑھتی ہے وہ سب کچھ بھی ضروری ہے
حصولِ علم سے اس دین کو اک خاص نسبت ہے
سمجھ کر پڑھنے والوں سے خدا کی خاص قربت ہے
 

نایاب

لائبریرین
بہت خوب گہرائی کی حامل نظم کا بہت خوب ترجمہ
بہت شکریہ شراکت پر شرقی بھائی
 
برادران حسیب، مزمل ، نایاب اور محمد احمد شکریہ آپ کی پسندیدگی کا۔ اصل میں مسلم امہ کو اپنے اندر مثبت تبدیلی لانے کی ضرورت ہے ۔ اور مجھے یہ نظم اسی لئے پسند آئی کہ اس میں اسی تبدیلی کی جانب اشارہ کیا گیا ہے۔
گزشتہ دنوں ناران کے قریب ہونے والے انسانیت سوز واقعے کے بعد تو اس مثبت سوچ کی ضرورت مزید شدت سے محسوس کر رہا ہوں اور کئی دن سے سو بھی نہیں سکا۔ میرے خیال میں مسلمان ہونے کے لئے پہلے انسانیت کو سمجھنا ہوگا۔ وہ شخص تو مسلمان کہلا ہی نہیں سکتا جس میں انسانیت نہیں
 
Top