مصطفیٰ زیدی ”اعتراف“

سیما علی

لائبریرین
مصطفیٰ زیدی کی نظم ”اعتراف“ ان کی اہلیہ کی محبت، وفا کیشی، خلوص اور ایثار کا اعتراف ہے جس میں وہ اپنے شب و روز کے مشاغل کی طرف بھی اشارہ کرتے ہیں۔ اس کے چند اشعار دیکھئے :
کس قدر قابلِ تحسین کردار ہے ویرا زیدی کا !!طرۂ امتیاز یہ ایک فارینر ہیں اور کسقدر وفا شعار ہیں !!!!!!
اعتراف
ترے کرم نے مجھے کر لیا قبول مگر
مرے جنوں سے محبت کا حق ادا نہ ہوا
ترے غموں نے مرے ہر نشاط کو سمجھا
مرا نشاط ترے غم سے آشنا نہ ہوا
کہاں کہاں نہ مرے پاؤں لڑکھڑائے مگر
ترا ثبات عجب تھا کہ حادثہ نہ ہوا
ترے دکھوں نے پکارا تو میں قریب نہ تھا
مرے غموں نے صدا دی تو فاصلہ نہ ہوا
ہزار دشنہ و خنجرتھے میرے لہجے میں
تری زباں پہ کبھی حرف ناروا نہ ہوا
ہزار شمعوں کا بنتا رہا میں پروانہ
کسی کا گھر ترے دل میں مرے سوا نہ ہوا
مری سیاہی دامن کو دیکھنے پر بھی
ترے سفید دوپٹوں کا دل برا نہ ہوا
 
آخری تدوین:

محمداحمد

لائبریرین
کس قدر قابلِ تحسین کردار ہے ویرا زیدی کا !!طرۂ امتیاز یہ ایک فارینر ہیں اور کسقدر وفا شعار ہیں !!!!!!

بلاشبہ!

یہ بہت بڑی بات ہے کہ آپ کسی ایسے کے بن کر رہیں جو کہ ٹھیک طرح سے آپ کا نہ ہو۔
 
آخری تدوین:

صابرہ امین

لائبریرین
بہت معصومیت سے اپنی تمام زیادتیوں کا اعتراف کیا اگرچہ انہوں نے اپنی محبوبہ کو جتنا خراج تحسین اپنی نظموں میں پیش کیا اس کے آگے یہ کچھ بھی نہیں۔ مصطفی زیدی کی شاعری عمدگی، روانی، سلاست اور تخیل کا بے بہا خزانہ ہے۔ ۔ لفظوں کے بڑے بڑے جن ان کے قابو میں تھے جن کو وہ نہایت آسانی سے استعمال کرتے تھے۔ شراکت کا شکریہ آپا ۔
 

سیما علی

لائبریرین
مصطفی زیدی کی شاعری عمدگی، روانی، سلاست اور تخیل کا بے بہا خزانہ ہے۔ ۔
ساری بات یہی ہے اُنکو پسند کرنے کی ۔۔۔۔اعتراف میں بھی اپنی تمام تر کوتاہیوں کا اعتراف کرنا بھی بڑی بات ہے ۔۔۔ورنہ ہم نے اپنے معاشرے میں اکثر کو بڑی سے بڑی غلطی کرکے اُترتے دیکھا ہے ۔۔۔جو کچھ نہ ہوکے بھی اس قدر اتراتے ہیں صرف اپنے مرد ہونے پر اور مزے کی بات یہ ہے کہ نان نفقہ کی جو ذمہ داری اُن پر عائد ہوتی ہے اُسکو بھی پورا نہیں کر رہے ہوتے وہ بھی بیچاری اُٹھا رہی ہوتی ہے ا وپر سے اُنکی بیوفائی کا عذاب بھی سہہ رہی ہوتی ہے اور اگر شکایت کرے تو سننے کو ملتا وہ تو مرد ہے ایسا کرے گا ہی 😢😢😢😢😢
 

محمداحمد

لائبریرین
بہت معصومیت سے اپنی تمام زیادتیوں کا اعتراف کیا اگرچہ انہوں نے اپنی محبوبہ کو جتنا خراج تحسین اپنی نظموں میں پیش کیا اس کے آگے یہ کچھ بھی نہیں۔
دراصل شاعر لوگ کافی زیادہ حساس ہوتے ہیں اور مصطفیٰ زیدی بھی کافی زیادہ حساس سے تھے۔ اُن کی شاعری سے اس بات کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔

سو یہ حساسیت کبھی کبھی ایسے لوگوں کو ضرورت سے زیادہ گلٹ یعنی احساسِ تقصیر میں مبتلا کر دیتی ہے۔ پھر یہ کہ شعراء مبالغے کے بھی عادی ہوتے ہیں۔ سو ممکن ہے کہ اسی احساسِ تقصیر کے تحت اُنہوں نے خود کو کچھ زیادہ ہی مجرم بنا کر پیش کر دیا ہو اور اُن کے معاملات ویسے نہ ہوں جیسا کہ اس نظم سے تاثر بن رہا ہے۔ واللہ عالم

تاہم یہ میرا ذاتی خیال ہے ممکن ہے کہ ایسا نہ ہو۔

مصطفی زیدی کی شاعری عمدگی، روانی، سلاست اور تخیل کا بے بہا خزانہ ہے۔ ۔ لفظوں کے بڑے بڑے جن ان کے قابو میں تھے جن کو وہ نہایت آسانی سے استعمال کرتے تھے۔

بلاشبہ! مصطفیٰ زیدی میرے بھی پسندیدہ شاعروں میں سے ایک ہیں۔
 

سیما علی

لائبریرین
سو ممکن ہے کہ اسی احساسِ تقصیر کے تحت اُنہوں نے خود کو کچھ زیادہ ہی مجرم بنا کر پیش کر دیا ہو اور اُن کے معاملات ویسے نہ ہوں جیسا کہ اس نظم سے تاثر بن رہا ہے۔ واللہ عالم

تاہم یہ میرا ذاتی خیال ہے ممکن ہے کہ ایسا نہ ہو۔
سچ کہا آپ نے یہ شعر دیکھیے ؀
میں نے تو دیدہ و دانستہ پیا ہے وہ زہر
جس کی جراؑت صفِ تسلیم و رضا میں بھی نہ تھی
پتہ نہیں کسقدر معنی پنہاں ہیں اس شعر میں جسکو صرف ایک حساس دل ہی محسوس کرسکتا ہے ۔۔۔ہماری ایک دوست کی ان سے رشتہ داری بھی ہے ۔۔۔۔ہمارے یہاں ایک ایسا طبقہ بھی ہے جو سول سرونٹس کو اس طرح کی سرگرمیوں میں الجھا کے رکھ دیتا ہے ۔۔اور پھر وہ ہر گذرتے دن کے ساتھ اس دلدل میں پھنستے جاتے ہیں کراچی کا یہ وہ زمانہ ہے جب یہاں Casinos تھے اور
Bars ہوا کرتے تھے ۔۔۔جب ہم اپنے بچوں کو بتاتے ہیں تو وہ بڑی حیرت کرتے ہیں ۔۔۔
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
شعراء مبالغے کے بھی عادی ہوتے ہیں۔
یہ بات تو صد فی صد درست ہے۔ لیکن میں نے کچھ غیر شعراء جو کہ انتہائی سلجھے ہوئے بھی دیکھے ہیں جب وہ کسی کا ذکر جذب کی کیفیت میں کرتے ہیں تو ان کی محبت کی شدت انہیں نا دانستہ طور پر شدید مبالغہ آمیزی پر مجبور کر دیتی ہے۔
 

صابرہ امین

لائبریرین
دراصل شاعر لوگ کافی زیادہ حساس ہوتے ہیں اور مصطفیٰ زیدی بھی کافی زیادہ حساس سے تھے۔ اُن کی شاعری سے اس بات کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔
متفق ہوں آپ کی اس بات سے ۔ حساس شخص ہی تو شاعری کر سکتا ہے یا سمجھ سکتا ہے۔
پھر یہ کہ شعراء مبالغے کے بھی عادی ہوتے ہیں۔
ہاہاہا۔ جی صحیح کہا؎

آنکھ کو جھیل تو ہونٹوں کو کنول کہتے ہیں
یہ تو شاعر ہیں یونہی روز غزل کہتے ہیں
سو یہ حساسیت کبھی کبھی ایسے لوگوں کو ضرورت سے زیادہ گلٹ یعنی احساسِ تقصیر میں مبتلا کر دیتی ہے۔سو ممکن ہے کہ اسی احساسِ تقصیر کے تحت اُنہوں نے خود کو کچھ زیادہ ہی مجرم بنا کر پیش کر دیا ہو اور اُن کے معاملات ویسے نہ ہوں جیسا کہ اس نظم سے تاثر بن رہا ہے۔ واللہ عالم
واقعی اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ کیا سچ ہے یا نہیں۔ یہ بات کسی کی دل آزاری کے لیے نہیں کہی تھی اگر ہوئی ہو تو معذرت ۔ بس کبھی کبھی یہ سوچتی ہوں کہ رشتوں کی خوبصورتی محض سراہنے میں ہی نہیں بلکہ نبھانے میں بھی ہے۔ ان کی اس نظم سے ان کی شریک حیات کو کیا فائدہ ہوا۔۔ ایسے ہی ذہن میں یہ سوالات آ جاتے ہیں۔
بلاشبہ! مصطفیٰ زیدی میرے بھی پسندیدہ شاعروں میں سے ایک ہیں۔
جی، بالکل۔ ایسی شاعری کرنا کسی کا بھی خواب ہو سکتا ہے۔ :)
 

محمداحمد

لائبریرین
لیکن میں نے کچھ غیر شعراء جو کہ انتہائی سلجھے ہوئے بھی دیکھے ہیں جب وہ کسی کا ذکر جذب کی کیفیت میں کرتے ہیں تو ان کی محبت کی شدت انہیں نا دانستہ طور پر شدید مبالغہ آمیزی پر مجبور کر دیتی ہے۔

شاعروں کی مبالغہ آرائی تو پھر بھی کسی حد تک جائز ہے۔
کیونکہ کوئی انہیں سنجیدگی سے نہیں لیتا۔ :)

لیکن غیر شعراء کو مبالغے سے ہر ممکن بچنا چاہیے۔ اور انصاف کی بات کرنا چاہیے۔
 

محمداحمد

لائبریرین
ہاہاہا۔ جی صحیح کہا؎

آنکھ کو جھیل تو ہونٹوں کو کنول کہتے ہیں
یہ تو شاعر ہیں یونہی روز غزل کہتے ہیں
ہاہاہاہا۔۔!

درست!

واقعی اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ کیا سچ ہے یا نہیں۔ یہ بات کسی کی دل آزاری کے لیے نہیں کہی تھی اگر ہوئی ہو تو معذرت ۔
نہیں دل آزاری ہرگز نہیں ہوئی۔ لیکن میں نے یہ سوچا کہ دوسرا ممکنہ پہلو بھی کچھ اجاگر ہو جائے۔ :)

بس کبھی کبھی یہ سوچتی ہوں کہ رشتوں کی خوبصورتی محض سراہنے میں ہی نہیں بلکہ نبھانے میں بھی ہے۔
بلاشبہ! سب سے اہم بات یہی ہے۔

بقول امجد اسلام امجد:

ہے تعلق تو ایک سادہ لفظ
پھیر جو بھی ہے وہ نباہ میں ہے

ان کی اس نظم سے ان کی شریک حیات کو کیا فائدہ ہوا۔۔ ایسے ہی ذہن میں یہ سوالات آ جاتے ہیں۔

اگر وہ واقعی اپنی شریکِ حیات سے مخاطب ہیں تو "اعتراف" سے انہیں کافی "شانتی " ملی ہوگی۔ بشرط یہ کہ نظم اُن کی نظر سے گزری ہو اور وہ اسے بحوالہ پس منظر سمجھ سکی ہوں۔ :)

یہ بات یوہی مذاق میں کہہ رہا ہوں۔ :)

جی، بالکل۔ ایسی شاعری کرنا کسی کا بھی خواب ہو سکتا ہے۔ :)

بلا شبہ!
 

محمداحمد

لائبریرین
میں نے تو دیدہ و دانستہ پیا ہے وہ زہر
جس کی جراؑت صفِ تسلیم و رضا میں بھی نہ تھی
کیا بات ہے
پتہ نہیں کسقدر معنی پنہاں ہیں اس شعر میں جسکو صرف ایک حساس دل ہی محسوس کرسکتا ہے ۔۔۔
بالکل!
ہماری ایک دوست کی ان سے رشتہ داری بھی ہے ۔۔۔۔ہمارے یہاں ایک ایسا طبقہ بھی ہے جو سول سرونٹس کو اس طرح کی سرگرمیوں میں الجھا کے رکھ دیتا ہے ۔۔اور پھر وہ ہر گذرتے دن کے ساتھ اس دلدل میں پھنستے جاتے ہیں کراچی کا یہ وہ زمانہ ہے جب یہاں Casinos تھے اور
Bars ہوا کرتے تھے ۔۔۔جب ہم اپنے بچوں کو بتاتے ہیں تو وہ بڑی حیرت کرتے ہیں ۔۔۔
اچھی بات ہے۔ :)
 
مصطفیٰ زیدی کی نظم ”اعتراف“ ان کی اہلیہ کی محبت، وفا کیشی، خلوص اور ایثار کا اعتراف ہے جس میں وہ اپنے شب و روز کے مشاغل کی طرف بھی اشارہ کرتے ہیں۔ اس کے چند اشعار دیکھئے :
کس قدر قابلِ تحسین کردار ہے ویرا زیدی کا !!طرۂ امتیاز یہ ایک فارینر ہیں اور کسقدر وفا شعار ہیں !!!!!!
اعتراف
ترے کرم نے مجھے کر لیا قبول مگر
مرے جنوں سے محبت کا حق ادا نہ ہوا
ترے غموں نے مرے ہر نشاط کو سمجھا
مرا نشاط ترے غم سے آشنا نہ ہوا
کہاں کہاں نہ مرے پاؤں لڑکھڑائے مگر
ترا ثبات عجب تھا کہ حادثہ نہ ہوا
ترے دکھوں نے پکارا تو میں قریب نہ تھا
مرے غموں نے صدا دی تو فاصلہ نہ ہوا
ہزار دشنہ و خنجرتھے میرے لہجے میں
تری زباں پہ کبھی حرف ناروا نہ ہوا
ہزار شمعوں کا بنتا رہا میں پروانہ
کسی کا گھر ترے دل میں مرے سوا نہ ہوا
مری سیاہی دامن کو دیکھنے پر بھی
ترے سفید دوپٹوں کا دل برا نہ ہوا
بہت خوبصورت کلام!
آپا جی !اگر یہ واقعی ایک شوہر کی طرف سے اپنی اہلیہ کی محبت اور وفاداری کا اعتراف ہے تو اس خاتون کی عظمت کو سلام
 

سیما علی

لائبریرین
بہت خوبصورت کلام!
آپا جی !اگر یہ واقعی ایک شوہر کی طرف سے اپنی اہلیہ کی محبت اور وفاداری کا اعتراف ہے تو اس خاتون کی عظمت کو سلام
واقعی !!! بھیا یہ مصطفیٰ زیدی صاحب کا اعتراف ہے
ہے اب کہاں وہ وفا اور وہ وفا کیشی
وہ اور وقت تھا ہم دیکھ کو بہ کو آئے
 
Top