سیما علی
لائبریرین
مصطفیٰ زیدی کی نظم ”اعتراف“ ان کی اہلیہ کی محبت، وفا کیشی، خلوص اور ایثار کا اعتراف ہے جس میں وہ اپنے شب و روز کے مشاغل کی طرف بھی اشارہ کرتے ہیں۔ اس کے چند اشعار دیکھئے :
کس قدر قابلِ تحسین کردار ہے ویرا زیدی کا !!طرۂ امتیاز یہ ایک فارینر ہیں اور کسقدر وفا شعار ہیں !!!!!!
اعتراف
ترے کرم نے مجھے کر لیا قبول مگر
مرے جنوں سے محبت کا حق ادا نہ ہوا
ترے غموں نے مرے ہر نشاط کو سمجھا
مرا نشاط ترے غم سے آشنا نہ ہوا
کہاں کہاں نہ مرے پاؤں لڑکھڑائے مگر
ترا ثبات عجب تھا کہ حادثہ نہ ہوا
ترے دکھوں نے پکارا تو میں قریب نہ تھا
مرے غموں نے صدا دی تو فاصلہ نہ ہوا
ہزار دشنہ و خنجرتھے میرے لہجے میں
تری زباں پہ کبھی حرف ناروا نہ ہوا
ہزار شمعوں کا بنتا رہا میں پروانہ
کسی کا گھر ترے دل میں مرے سوا نہ ہوا
مری سیاہی دامن کو دیکھنے پر بھی
ترے سفید دوپٹوں کا دل برا نہ ہوا
کس قدر قابلِ تحسین کردار ہے ویرا زیدی کا !!طرۂ امتیاز یہ ایک فارینر ہیں اور کسقدر وفا شعار ہیں !!!!!!
اعتراف
ترے کرم نے مجھے کر لیا قبول مگر
مرے جنوں سے محبت کا حق ادا نہ ہوا
ترے غموں نے مرے ہر نشاط کو سمجھا
مرا نشاط ترے غم سے آشنا نہ ہوا
کہاں کہاں نہ مرے پاؤں لڑکھڑائے مگر
ترا ثبات عجب تھا کہ حادثہ نہ ہوا
ترے دکھوں نے پکارا تو میں قریب نہ تھا
مرے غموں نے صدا دی تو فاصلہ نہ ہوا
ہزار دشنہ و خنجرتھے میرے لہجے میں
تری زباں پہ کبھی حرف ناروا نہ ہوا
ہزار شمعوں کا بنتا رہا میں پروانہ
کسی کا گھر ترے دل میں مرے سوا نہ ہوا
مری سیاہی دامن کو دیکھنے پر بھی
ترے سفید دوپٹوں کا دل برا نہ ہوا
آخری تدوین: