”شہاب نامہ“ از خامہ بگوش (مشفق خواجہ)

سویدا

محفلین
خدا بخشے قدرت اللہ شہاب بڑی خوبیوں کے آدمی تھے ، تین سربراہان مملکت کے سیکرٹری کی حیثیت سے وہ ہمارے قومی زوال کے قریب ترین تماشائی ہی نہیں ، جزو تماشا بھی تھے ، ان کے مزاج میں بے حد لچک تھی ، غلام محمد جیسا معذور اور نیم دیوانہ ہو یا اسکندر مرزا جیسا عیش پسند یا ایوب خاں جیسا خود پسند ، وہ سب کے اعتماد پر پورے اترے ۔ان آمروں اور جمہوریت کے دشمنوں کو پوری سول سروس میں قدرت اللہ شہاب ہی قابل التفات نظر آئے کہ وہ یکے بعد دیگرے انہیں اپنے قرب سے نوازتے رہے ، بس ایک یحیی خان سے ان کی نہ نبھ سکی ، جس کا سبب یحیی خان تھے نہ خود قدرت اللہ شہاب، بلکہ ایک تیسرے صاحب جنرل پیرزادہ نہیں چاہتے تھے کہ ان کے علاوہ کوئی اور یحیی خان کے مزاج میں دخیل ہو ، یحیی خان کے دور حکومت کا مختصر عرصہ شہاب صاحب نے خود اختیاری جلاوطنی میں بسر کیا ، لیکن جب عنان اقتدار ذوالفقار علی بھٹو کے ہاتھ آئی تو شہاب صاحب دوبارہ ’’بندہ بارگاہ سلطان‘‘ بن گئے ۔ اب کے وہ صرف تماشائی تھے ، جزو تماشا نہ تھے ، جنرل ضیاء الحق راج سنگھاسن پر بیٹھے تو انہوں نے بھی قدرت اللہ شہاب کو کاروبار حکومت میں شریک کرنا چاہا لیکن یہ وہ زمانہ تھا کہ موصوف دنیا کی محفلوں سے اکتا چکے تھے ، اس لیے انہوں نے گوشہ نشینی میں عافیت دیکھی،آخر شہاب صاحب میں کوئی تو خاص الخاص قسم کی خوبی ہوگی جس کی بناء پر وہ ایک دو نہیں ، اکٹھے پانچ سربراہان مملکت کے منظور نظر رہے اور یہ سربراہ وہ تھے جن میں سے ہر ایک نے اپنے سے پہلے سربراہ کا تختہ الٹاتھا۔
شہاب صاحب کے کردار کا یہ پہلو قابل ستائش ہے کہ وہ ان معدودے چند اعلی سرکاری عہدیداروں میں سے تھے جنہوں نے اپنے اختیارات سے کوئی مادی فائدہ نہ اٹھایا ، غیر قانونی تو کیا ’’قانونی بدعنوانیاں‘‘ سے بھی ان کا دامن پاک ہے (حالانکہ ’’قانونی بدعنوانیاں‘‘ ہمارے ملک میں سرکاری ملازمت کا لازمی جزو ہیں ، مثلا زمین سستی حاصل کرکے مہنگے داموں بیچ دینا ، اپنے نااہل عزیزوں کو اچھی ملازمتیں دلوانا وغیرہ) انہوں نے ہمیشہ چادر دیکھ کر پاوں پھیلائے ، یعنی صرف اپنی تنخواہ پر گزارا کیا ، یہی وجہ ہے کہ ان کے انتقال کے وقت انہی کے نہیں ،ان کے پس ماندگان کے بھی دونوں ہاتھ خالی تھے۔
اگر کوئی سرکاری عہدیدار ادب کا معمولی سا ذوق بھی رکتا ہو تو اس کے ادیب بن جانا کچھ مشکل نہیں ، اس کے عہدے کی مناسبت سے اس کی ادبی حیثیت متعین ہوتی ہے ، جتنا بڑا عہدیدار ہوگا ، اتنا ہی بلند اس کا ادبی مقام ہوگا ، یہی وجہ ہے کہ بہت سے عہدیدار ملازمت اور ادب سے بیک وقت ریٹائر ہوجاتے ہیں اور انتقال سے بہت پہلے ان کی ادبی موت واقع ہوجاتی ہے ، ہم نے بہت سے ایسے ادیبوں کو دیکھا ہے جو اپنے سرکاری عہدوں کی وجہ سے اپنی معمولی قسم کی کتابوں پر درجنوں اہل قلم سے تعریفی وتوصیفی مضامین لکھواتے ہیں اور سرکار ذرائع ابلاغ کو اپنی تشہیر کے لیے استعمال کرتے ہیں ، لیکن یہ ادیب جب اپنے عہدوں سے محروم ہوجاتے ہیں تو ان کی بے کسی پر کوئی آنسو بہانے والا بھی نہیں ملتا ، شہاب صاحب اس معاملے میں بے حد محتاط تھے ، انہوں نے اپنی ادبی حیثیت منوانے کے لیے کبھی اپنے عہدے سے فائدہ نہیں اٹھایا ،بلکہ حقیقت یہ ہے کہ سرکاری حیثیت کی وجہ سے ان کی ادبی حیثیت کو نقصان پہنچا اور ’’ترقی پسندوں‘‘ نے تو ان کے خلاف محاذ آرائی بھی کی ، کسی کتاب کی رونمائی تو بڑی بات ہے ،انہوں نے کبھی کسی کو اپنی کوئی کتاب تبصرےے کے لیے بھی نہیں دی ، انکساری کا یہ عالم تھا کہ اگر کوئی ان کے سامنے ’’یاخدا‘‘ یا ’’ماں جی!‘‘ کی تعریف کرتا تو وہ شرماجاتے ، ایسی اعلی ظرفی بہت کم لوگوں میں ہوتی ہے ۔
شہاب صاحب کی ادبی فتوحات کی تعداد کچھ زیادہ نہیں ہے ، چند افسانے ، چند ڈرامے اور ایک ناولٹ ،لیکن جہاں تک معیار کا تعلق ہے ، شہاب صاحب ان لکھنے والوں میں سے ہیں جنہیں کس طور پر نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ، اور کچھ نہیں تو ’’یا خدا‘ُ‘ کے مصنف کے طور پر ان کا نام زندہ رہے گا ، اور اب ’’شہاب نامہ‘‘ کی اشاعت کے بعد مرحوم کے ادبی قدوقامت میں مزید اضافہ ہوگا۔ (جاری ہے)
 

سویدا

محفلین
شہاب نامہ مرحوم کی خود نوشت سوانح عمری ہے جو گیارہ سو اکیاسی صفحات پر پھیلی ہوئی ہے ، اس میں کوئی شبہ نہیں کہ یہ ایک انتہائی دلچسپ کتاب ہے لیکن اس میں شبہ ہے کہ یہ آپ بیتی ہے ، آپ بیتی انکشاف ذات کے لیے لکھی جاتی ہے لیکن ’’شہاب نامہ“ کا مقصد اخفائے ذات ہے ، اس کتاب میں بہت کچھ ہے لیکن وہ سب کچھ نہیں جس سے مصنف کی صحیح تصویر سامنے آتی ، یہی بات یوں بھی کہی جاسکتی ہے کہ صیغہ متکلم میں لکھی ہوئی اس کتاب میں خود متکلم ہی بڑی حد تک غائب ہے ، شہاب صاحب نے اپنے گرد وپیش پر زیادہ توجہ صرف کی ہے اور اپنے آپ کو پس منظر میں رکھا ہے اور وہ بھی اس طرح کہ منظر اور پس منظر میں کوئی مقام اتصال نظر نہیں آتا ، کتاب کے مطالعے کے دوران بیشتر جگہ قاری کو یہ یاد نہیں رہتا کہ وہ کوئی آپ بیتی پڑھ رہا ہے یا کوئی ایسی کتاب جس میں ایک خاص دور کے حالات یکجا کردیے گئے ہیں ، بیچ بیچ میں ذاتی حوالے ضرور آتے ہیں لیکن مصنف کے افسانوی انداز بیان کی وجہ سے یہ حوالے بھی افسانہ وافسوں کا درجہ اختیار کرلیتے ہیں ۔
دراصل بات یہ ہے کہ شہاب صاحب بنیادی طور پر افسانہ نگار تھے ، ان میں واقعہ تخلیق کرنے کی بے پناہ صلاحیت تھی اور پھر واقعے کو بیان کرنے کا ڈھنگ ایسا تھا کہ ان کا لکھا ہوا جھوٹ بھی سچ نظر آتا تھا ، زیر نظر کتاب میں معاملہ اس کے برعکس ہے ، یعنی افسانوی انداز بیان کی وجہ سے سچ بھی ”چیزے دیگر“ نظر آتا ہے ، خدا نخواستہ اس سے یہ مراد نہیں کہ شہاب صاحب نے جھوٹی باتیں لکھی ہیں ، عرض کرنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ سچ کو بھی ایسے افسانوی انداز سے بیان کرتے ہیں کہ قاری مسحور توہوجاتا ہے لیکن اس کا یقین متزلزل ہوجاتا ہے ، سچی بات یہ ہے کہ کسی افسانہ خواں کو وقائع نگاری نہیں کرنی چاہیے کیونکہ جس طرح وہ افسانوی واقعات میں تراش خراش کرکے انہیں بہتر سے بہتر صورت میں پیش کرنا ہے اسی طرح وہ اصلی واقعات میں بھی ”فنی ضروریات“ کے تحت کمی بیشی کرلیتا ہے ، یہ عمل شعوری نہیں ، لاشعوری ہوتا ہے ، لکھنے والے کو اس کا کامل یقین ہوتا ہے ، حقیقت صرف وہی ہے جو اس کے احاطہ بیان میں آئی ہے۔ (جاری ہے)
 

سویدا

محفلین
جو لوگ ”شہاب نامہ“ کو کتاب الواقعات سمجھ کر پڑھیں گے ، وہ کچھ زیادہ خوش نہیں ہوں گے کیونکہ انہیں بے شمار واقعات افسانوی نظرآئیں گے ، لیکن جو لوگ اسے ناول سمجھ کر پڑھیں گے وہ مصنف کو اس بات کی داد دیں گے کہ اس نے طلسم ہوش ربا جیسی داستان تخلیق کی ہے جو خیالی نہیں ہے ، جس کے کردار فرضی نہیں ہیں اور جس کا ماحول اجنبی نہیں ہے ۔
شہاب صاحب نے دیباچے میں اس کتاب کے لکھے جانے کی جو وجوہ بیان کی ہیں ، ان میں سے ایک یہ بھی ہے :
”بعض مفروضوں کی بناء پر میرے ماتھے پر کچھ ایسے کلنک کے ٹیکے لگ چکے ہیں ، جن کا حقیقت سے دور کا بھی واسطہ نہیں ، مثلا میرے محترم اور مہربان بزرگ ابو الاثر حفیظ جالندھری نے کسی شاعرانہ موڈ میں کہا تھا :
جب کہیں انقلاب ہوتا ہے
قدرت اللہ شہاب ہوتاہے​
اس شعر کا بہت چرچا ہوا اور یہ تاثر دیا گیا کہ وطن عزیز میں ”انقلاب“ کی آڑ میں جتنی غیر جمہوری کاروائیاں ہوتی رہی ہیں،ان سب میں میرا کچھ نہ کچھ ہاتھ تھا“
اس اقتباس کے پیش نظر کہا جاسکتا ہے کہ ”شہاب نامہ“ دراصل ایک بیان صفائی ہے جس میں ”ملزم“ نے اپنے آپ کو بے گناہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے ، یہ کوشش کہاں تک کامیاب رہی ہے ، اس پر ہم آئندہ گفتگو کریں گے۔
(27 اگست 1987)
 

سویدا

محفلین
(2)​
قدرت اللہ شہاب مرحوم پر جو الزامات عام طور پر عائد کیے جاتے ہیں ، ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ انہوں نے پاکستان رائٹرز گلڈ قائم کرکے ادیبوں کو ایوب خانی مارشل لاء کے قدموں میں لا بٹھایا ، ادبی انعامات اور تفریحی دوروں کے سبز باغ دکھا کر ادیبوں کو حکومت کی محاسن شماری کے کام پر لگادیا، اس سے بعض ادیبوں کو چھوٹے چھوٹے فوائد ضرور حاصل ہوئے لیکن اس کاروبار کا خالص منافع صرف قدرت اللہ شہاب کے حصے میں آیا، حکومت کی نظر میں ان کا وقار بڑھا ، سول سروس میں انہیں ایک امتیازی حیثیت حاصل ہوئی ، ان کی ایک جنبش ابرو پر سینکڑوں ادیبوں کا حکومت سے غیر مشروط وفاداری کا اعلان آخر کوئی معمولی کارنامہ تو نہیں تھا !
گلڈ کو پہلے ہی دن سے شک وشبہ کی نظر سے دیکھا گیا جس کی فوری وجہ یہ تھی کہ قدرت اللہ شہاب سمیت جن آٹھ ادیبوں کے دستخطوں سے ادیبوں کا کنونشن بلانے کا اعلان نامہ جاری ہواتھا، ان میں سے ایک (ضمیرالدین احمد) کے سوا باقی سب سرکاری ملازم تھے اور یہ ایک صاحب بھی اعلان نامے پر دستخط کرنے کے بعد غائب ہوگئے ، ایک ایسے زمانے میں جب انجمنوں اور اداروں پر طرح طرح کی پابندیاں عائد تھیں ، سرکاری ملازموں کی طرف سے کسی نئے ادارے کے قیام کی کوشش کا مطلب یہ تھا کہ ”گلڈ“ بھی ایک سرکاری منصوبہ ہے۔
شہاب صاحب نے ”شہاب نامہ“ میں اعتراف کیا ہے کہ گلڈ نے ادیبوں کی فلاح وبہبود کے لیے جو منصوبے بنائے تھے ، وہ سب ناکام ہوگئے ، لیکن گلڈ کا اصل اثاثہ عزت نفس کا وہ احساس ہے جو اس کے ذریعے ادیبوں میں پیدا ہوا، حالانکہ اصل صورت حال یہ ہے کہ گلڈ کی وجہ سے ادیبوں کی ایک بڑی تعداد عزت نفس کے احساس ہی محروم ہوگئی، ادیبوں کی خرید وفروخت کا کام جس بڑے پیمانے پر ہوا، اس کی پہلے سے کوئی مثال موجود تھی نہ بعد میں سامنے آئی ، لیکن شہاب صاحب اس کی ذمہ داری قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ، اس سلسلے میں نے لکھا ہے :
”ادھر گلڈ قائم ہوا، ادھر بریگیڈیئر ایف آر خان کی رال اس ادارے پر بری طرح ٹپکنے لگی ، یہ صاحب اس زمانے میں مارشل لاء کے روح رواں سمجھے جاتے تھے اور بزعم خود صدر ایوب کے لییے وہی خدمات سر انجام دینے کے لیےبے چین تھے جو ڈاکٹر گوئبلز نے ہٹلر کے لیے انجام دی تھی ، عہدے کے لحاظ سے وہ وزارت اطلاعات ونشریات کے سیکرٹری تھے ، لیکن اثر ورسوخ کے اعتبار سے وہ صدر ایوب کو چھوڑ کر باقی سب وزیروں ، گورنروں اور اعلی حکام پر دھونس جماکر انہیں اپنی ہاں میں ہاں ملانے پر مجبورکرنا، اپنے بائیں ہاتھ کا کھیل سمجھتے تھے ، وہ اپنے آپ کو برملا فوجی حکومت کا ”دماغ“ سمجھتے تھےاور کسی نہ کسی طریقے سے اس کا اعلان بھی فرماتے رہتے تھے، دماغ توخیران کا اتنا ہی بڑا تھا جتنا کہ ایک عام انسان کا ہوتا ہے ، لیکن ان کا ایک خاص ملکہ یہ تھا وہ دوسروں کے دماغ کرید کرید کر ان کے خیالات کو اپنے استعمال میں لانے کے بادشاہ تھے،وزارت اطلاعات ونشریات کا چارج لیتے ہی انہوں نے بیورو آف نیشنل ری کنسٹرکشن (ادارہ قومی تعمیرنو) کے نام سے ایک نیا ادارہ قائم کرلیا تھا جس کا مقصد قوم کی سوچ کو حکومت کی سوچ کے ساتھ ہم آہنگ کرنا تھا ، جب گلڈ قائم ہواتو بریگیڈیئر ایف آر خان سچ مچ یہی سمجھے کہ میں نے نہایت چالاکی سے ان کے نہلے پر دہلا ماردکھایا ہے اور گلڈ کے پردے میں ایک ایسا دھوبی گھاٹ بنا ڈالا ہے جہاں پاکستان بھر کے سارے چھوٹے بڑے ادیب حکومت کی تال پر چھو چھو کرکے قوم کے اجتماعی دماغ کو حسب فرمائش اور حسب خواہش سرکاری صابن سے دھونے کا فریضہ سر انجام دیا کریں گے ، میرے اس کارنے پر انہوں نے اپنی خوشنودی کا اظہار کیا اور اس ادارے کو اپنے طور پر کام میں لانے کے لیے پہلے تو ترغیب وتحریص کے روپہلی اور سنہری باغ دکھانے کی کوشش کی ، جب یہ موثر ثابت نہ ہوئے تو انہوں نے اپنے معمول کے مطابق زور آزمائی کا طریقہ اختیار کیا اور مختلف طور طریقوں سے میرا بازو توڑنے مروڑنے کا عمل شروع کیا، لیکن عرصہ بعد انہیں محسوس ہوا کہ میرا بازو بھی ربڑ کا بنا ہوا ہے جو نہ چٹختا ہے نہ کھٹکتا ہے نہ ٹوٹتا ہے ، اس کے بعد بریگیڈیئر ایف آر خان نے اپنا رویہ بدل لیا اور اس نے اب اسی بات پر قناعت کرلی کہ وہ ہمارے گلڈ کے دفاتر سے ممبروں کی فہرست حاصل کرتا رہتا اور بیورو آف نیشنل ری کنسٹرکشن کے نمائندے ایسے ادیبوں کی ٹوہ میں لگے رہتے تھے جو معاوضہ لے کر حکومت کی مرضی کے مطابق کچھ مضامین یا پمفلٹ اردو، بنگالی، انگریزی اور دوسری علاقائی زبانوں میں لکھنے پر آمادہ ہوجاتے تھے ، صدر ایوب کے آئین اور بنیادی جمہوری نظام کی تشہیر میں ان عناصر نے بریگیڈیئر ایف آر خان سے معاوضہ لے کر خاصا کام کیا ، یہ عناصر گلڈ نے پیدا کیے تھے نہ گلڈ کی وجہ سے پیدا ہوئے تھے ، ان ادیبوں کی برادری میں ایسا بکاو مال ہر دور میں موجود رہا ہے اور رہے گا ، گلڈ کی رکنیت ان کے لیے کوئی رکاوٹ ہے نہ اعانت“۔
(جاری ہے)​
 

سویدا

محفلین
اس اقتباس سے شہاب صاحب کے ایک ماہر افسانہ نگار ہونے کا ثبوت تو ملتا ہے ،لیکن جہاں تک حقیقت نگاری کا تعلق ہے ، خدا مغفرت کرے ، مرحوم نے اس کا حق ادا نہیں کیا ، سب سے پہلے تو یہی درست نہیں کہ بریگیڈیئر ایف آر خان اور شہاب صاحب میں اشتراک عمل نہیں تھا، ایک عرصے تک گلڈ کی حیثیت صرف اتنی تھی کہ وہ نیشنل ری کنسٹرکشن بیورو کا تابع مہمل تھا، یہ دونوں ادارے ایک ہی انداز سے سرگرم تھے ، فرق یہ تھا کہ بیورو اپنے مقصد کا کھل کھلا اعلان کرتا تھا اور گلڈ نے اپنے مقصد بر ادیبوں کی فلاح وبہبود کا پردہ ڈال رکھا تھا ، بریگیڈیئر ایف آر خان نے جب مشہور زمانہ ”پاک جمہوریت ٹرین“ چلائی تھی تو اس میں شہاب صاحب سمیت نہ صرف گلڈ کے عہدیدار بلکہ متعدد ایسے ادیب بھی شامل تھے جن کا شمار شہاب صاحب کے حواریوں میں ہوتا تھا۔
بریگیڈیئر ایف آر خان نے صدر ایوب کے آئین اور بنیادی جمہوریتوں کا نظام پر ”بکاو“ ادیبوں سے ضرور کام لیا ہوگا، لیکن اس سلسلے میں خود شہاب صاحب نے بھی کچھ کم مستعدی نہیں دکھائی ، انہوں نے نہ صرف ادیبوں سے بنیادی جمہوریتوں اور صدر ایوب کے آئین کے بارے میں مضامین لکھوائے بلکہ خالص ادبی رسالوں کے خصوصی نمبر بھی شائع کرائے ، ”ساقی“ ،”نقش“ اور ”افکار“ جیسے رسالوں میں صدر ایوب کی تعریف میں مضامین شائع ہوئے ، ان تمام رسالوں اور ادیبوں کو صدر کے خصوصی فنڈ سے معقول معاوضہ ادا کیا گیا، رقم کی ادائیگی ابن انشاء مرحوم کے ذریعے ہوئی ، ظاہر ہے ابن انشاء کو یہ رقم بریگیڈیئر ایف آر خان نے نہیں دی ہوگی اور اگر دی بھی ہوگی تو شہاب صاحب کے علم کے بغیر دی ہوگی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (10 ستمبر 1987)
 

سویدا

محفلین
(3)​
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ”شہاب نامہ“ ایک نہایت دلچسپ کتاب ہے ، اسے اگر ایک مرتبہ پڑھنا شروع کردیا جائے تو پھر ختم کیے بغیر کوئی دوسرا کام نہیں کیا جاسکتا، پہلی نظر میں اس کی ضخامت خوف زدہ کرتی ہے لیکن کتاب ختم کرتے وقت جی چاہتا ہے کہ یہ لذیذ داستان کچھ اور دراز ہوتی ، شہاب صاحب نے جن حالات میں اور جس انداز سے زندگی گزاری ہے ، ان حالات میں اور ایسے انداز سے زندگی بسر کرنے کا موقع کم لوگوں کو ملتا ہے ، انہوں نے پاکستان کی تاریخ کو نہایت قریب سے بنتے اور بگڑتے دیکھا ہے ، ان کے مشاہدات وتجربات کے آئینے میں ایک فرد کی ذات ہی کو نہیں ، ایک پورے دور کی روح کو بھی دیکھا جاسکتا ہے۔
”شہاب نامہ“ میں جو واقعات بیان کیے گئے ہیں ، ان کی صحت کے بارے میں دو رائیں ہوسکتی ہیں ،لیکن اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اس کتاب کے ذریعے شہاب صاحب ایک عظیم خاکہ نگار اور ایک عظیم تر افسانہ نگار کی صورت میں ہمارے سامنے آتے ہیں ۔
”شہاب نامہ“ کے صفحات پر بے شمار شخصیات ہمارے سامنے آتی ہیں ،اگر شخصیات کے تذکروں کو الگ کرلیا جائے تو شخصی خاکوں کا ایک نہایت عمدہ مجموعہ تیار ہوسکتا ہے ، شہاب صاحب کی خوبی یہ ہے کہ وہ کسی بھی شخصیت کے ظاہر ہی کو نہیں دیکھتے ،باطن میں بھی جھانکتے ہیں ، اور جہاں وہ طنز ومزاح سے کام لیتے ہیں یا ذاتی پسند اور ناپسند کو معیار بنا کرلکھتے ہیں ،تو متعلقہ شخصیت کا حسن کچھ اور نکھر جاتا ہے ، مثلا جنرل پیرزادہ کی قلمی تصویر انہوں نے اس طرح کھینچی ہے:
جاری ہے​
 

سویدا

محفلین
وقت نہیں مل پارہا
زیادہ تر مصروفیات اور کچھ سستی بھی آڑے آرہی ہے
جلد کوشش کرتا ہون آنشاءاللہ
 

تلمیذ

لائبریرین
وقت نہیں مل پارہا
زیادہ تر مصروفیات اور کچھ سستی بھی آڑے آرہی ہے
جلد کوشش کرتا ہون آنشاءاللہ

شہاب نامہ پر یہ دلچسپ تبصرہ نامکمل ہی رہا۔ اگر وقت اور دیگر مصروفیات اجازت دیں تو لگے ہاتھوں اسے مکمل کر ہی دیں گو عرصہ کافی گزر چکاہے۔
 

راشد اشرف

محفلین
میرے پاس مکمل کالم موجود ہے لیکن اردو محفل پر اسے امیج فائلز کی شکل میں شامل کرنے کے طریقے سے ناواقف ہوں
 

راشد اشرف

محفلین
photo.php

جناب ، اگر زحمت نہ ہو تو ہمیں ای میل ہی کر دیں۔
پیشگی شکریہ!!

ای میل دیکھ لیجیے
 
Top