سویدا
محفلین
خدا بخشے قدرت اللہ شہاب بڑی خوبیوں کے آدمی تھے ، تین سربراہان مملکت کے سیکرٹری کی حیثیت سے وہ ہمارے قومی زوال کے قریب ترین تماشائی ہی نہیں ، جزو تماشا بھی تھے ، ان کے مزاج میں بے حد لچک تھی ، غلام محمد جیسا معذور اور نیم دیوانہ ہو یا اسکندر مرزا جیسا عیش پسند یا ایوب خاں جیسا خود پسند ، وہ سب کے اعتماد پر پورے اترے ۔ان آمروں اور جمہوریت کے دشمنوں کو پوری سول سروس میں قدرت اللہ شہاب ہی قابل التفات نظر آئے کہ وہ یکے بعد دیگرے انہیں اپنے قرب سے نوازتے رہے ، بس ایک یحیی خان سے ان کی نہ نبھ سکی ، جس کا سبب یحیی خان تھے نہ خود قدرت اللہ شہاب، بلکہ ایک تیسرے صاحب جنرل پیرزادہ نہیں چاہتے تھے کہ ان کے علاوہ کوئی اور یحیی خان کے مزاج میں دخیل ہو ، یحیی خان کے دور حکومت کا مختصر عرصہ شہاب صاحب نے خود اختیاری جلاوطنی میں بسر کیا ، لیکن جب عنان اقتدار ذوالفقار علی بھٹو کے ہاتھ آئی تو شہاب صاحب دوبارہ ’’بندہ بارگاہ سلطان‘‘ بن گئے ۔ اب کے وہ صرف تماشائی تھے ، جزو تماشا نہ تھے ، جنرل ضیاء الحق راج سنگھاسن پر بیٹھے تو انہوں نے بھی قدرت اللہ شہاب کو کاروبار حکومت میں شریک کرنا چاہا لیکن یہ وہ زمانہ تھا کہ موصوف دنیا کی محفلوں سے اکتا چکے تھے ، اس لیے انہوں نے گوشہ نشینی میں عافیت دیکھی،آخر شہاب صاحب میں کوئی تو خاص الخاص قسم کی خوبی ہوگی جس کی بناء پر وہ ایک دو نہیں ، اکٹھے پانچ سربراہان مملکت کے منظور نظر رہے اور یہ سربراہ وہ تھے جن میں سے ہر ایک نے اپنے سے پہلے سربراہ کا تختہ الٹاتھا۔
شہاب صاحب کے کردار کا یہ پہلو قابل ستائش ہے کہ وہ ان معدودے چند اعلی سرکاری عہدیداروں میں سے تھے جنہوں نے اپنے اختیارات سے کوئی مادی فائدہ نہ اٹھایا ، غیر قانونی تو کیا ’’قانونی بدعنوانیاں‘‘ سے بھی ان کا دامن پاک ہے (حالانکہ ’’قانونی بدعنوانیاں‘‘ ہمارے ملک میں سرکاری ملازمت کا لازمی جزو ہیں ، مثلا زمین سستی حاصل کرکے مہنگے داموں بیچ دینا ، اپنے نااہل عزیزوں کو اچھی ملازمتیں دلوانا وغیرہ) انہوں نے ہمیشہ چادر دیکھ کر پاوں پھیلائے ، یعنی صرف اپنی تنخواہ پر گزارا کیا ، یہی وجہ ہے کہ ان کے انتقال کے وقت انہی کے نہیں ،ان کے پس ماندگان کے بھی دونوں ہاتھ خالی تھے۔
اگر کوئی سرکاری عہدیدار ادب کا معمولی سا ذوق بھی رکتا ہو تو اس کے ادیب بن جانا کچھ مشکل نہیں ، اس کے عہدے کی مناسبت سے اس کی ادبی حیثیت متعین ہوتی ہے ، جتنا بڑا عہدیدار ہوگا ، اتنا ہی بلند اس کا ادبی مقام ہوگا ، یہی وجہ ہے کہ بہت سے عہدیدار ملازمت اور ادب سے بیک وقت ریٹائر ہوجاتے ہیں اور انتقال سے بہت پہلے ان کی ادبی موت واقع ہوجاتی ہے ، ہم نے بہت سے ایسے ادیبوں کو دیکھا ہے جو اپنے سرکاری عہدوں کی وجہ سے اپنی معمولی قسم کی کتابوں پر درجنوں اہل قلم سے تعریفی وتوصیفی مضامین لکھواتے ہیں اور سرکار ذرائع ابلاغ کو اپنی تشہیر کے لیے استعمال کرتے ہیں ، لیکن یہ ادیب جب اپنے عہدوں سے محروم ہوجاتے ہیں تو ان کی بے کسی پر کوئی آنسو بہانے والا بھی نہیں ملتا ، شہاب صاحب اس معاملے میں بے حد محتاط تھے ، انہوں نے اپنی ادبی حیثیت منوانے کے لیے کبھی اپنے عہدے سے فائدہ نہیں اٹھایا ،بلکہ حقیقت یہ ہے کہ سرکاری حیثیت کی وجہ سے ان کی ادبی حیثیت کو نقصان پہنچا اور ’’ترقی پسندوں‘‘ نے تو ان کے خلاف محاذ آرائی بھی کی ، کسی کتاب کی رونمائی تو بڑی بات ہے ،انہوں نے کبھی کسی کو اپنی کوئی کتاب تبصرےے کے لیے بھی نہیں دی ، انکساری کا یہ عالم تھا کہ اگر کوئی ان کے سامنے ’’یاخدا‘‘ یا ’’ماں جی!‘‘ کی تعریف کرتا تو وہ شرماجاتے ، ایسی اعلی ظرفی بہت کم لوگوں میں ہوتی ہے ۔
شہاب صاحب کی ادبی فتوحات کی تعداد کچھ زیادہ نہیں ہے ، چند افسانے ، چند ڈرامے اور ایک ناولٹ ،لیکن جہاں تک معیار کا تعلق ہے ، شہاب صاحب ان لکھنے والوں میں سے ہیں جنہیں کس طور پر نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ، اور کچھ نہیں تو ’’یا خدا‘ُ‘ کے مصنف کے طور پر ان کا نام زندہ رہے گا ، اور اب ’’شہاب نامہ‘‘ کی اشاعت کے بعد مرحوم کے ادبی قدوقامت میں مزید اضافہ ہوگا۔ (جاری ہے)
شہاب صاحب کے کردار کا یہ پہلو قابل ستائش ہے کہ وہ ان معدودے چند اعلی سرکاری عہدیداروں میں سے تھے جنہوں نے اپنے اختیارات سے کوئی مادی فائدہ نہ اٹھایا ، غیر قانونی تو کیا ’’قانونی بدعنوانیاں‘‘ سے بھی ان کا دامن پاک ہے (حالانکہ ’’قانونی بدعنوانیاں‘‘ ہمارے ملک میں سرکاری ملازمت کا لازمی جزو ہیں ، مثلا زمین سستی حاصل کرکے مہنگے داموں بیچ دینا ، اپنے نااہل عزیزوں کو اچھی ملازمتیں دلوانا وغیرہ) انہوں نے ہمیشہ چادر دیکھ کر پاوں پھیلائے ، یعنی صرف اپنی تنخواہ پر گزارا کیا ، یہی وجہ ہے کہ ان کے انتقال کے وقت انہی کے نہیں ،ان کے پس ماندگان کے بھی دونوں ہاتھ خالی تھے۔
اگر کوئی سرکاری عہدیدار ادب کا معمولی سا ذوق بھی رکتا ہو تو اس کے ادیب بن جانا کچھ مشکل نہیں ، اس کے عہدے کی مناسبت سے اس کی ادبی حیثیت متعین ہوتی ہے ، جتنا بڑا عہدیدار ہوگا ، اتنا ہی بلند اس کا ادبی مقام ہوگا ، یہی وجہ ہے کہ بہت سے عہدیدار ملازمت اور ادب سے بیک وقت ریٹائر ہوجاتے ہیں اور انتقال سے بہت پہلے ان کی ادبی موت واقع ہوجاتی ہے ، ہم نے بہت سے ایسے ادیبوں کو دیکھا ہے جو اپنے سرکاری عہدوں کی وجہ سے اپنی معمولی قسم کی کتابوں پر درجنوں اہل قلم سے تعریفی وتوصیفی مضامین لکھواتے ہیں اور سرکار ذرائع ابلاغ کو اپنی تشہیر کے لیے استعمال کرتے ہیں ، لیکن یہ ادیب جب اپنے عہدوں سے محروم ہوجاتے ہیں تو ان کی بے کسی پر کوئی آنسو بہانے والا بھی نہیں ملتا ، شہاب صاحب اس معاملے میں بے حد محتاط تھے ، انہوں نے اپنی ادبی حیثیت منوانے کے لیے کبھی اپنے عہدے سے فائدہ نہیں اٹھایا ،بلکہ حقیقت یہ ہے کہ سرکاری حیثیت کی وجہ سے ان کی ادبی حیثیت کو نقصان پہنچا اور ’’ترقی پسندوں‘‘ نے تو ان کے خلاف محاذ آرائی بھی کی ، کسی کتاب کی رونمائی تو بڑی بات ہے ،انہوں نے کبھی کسی کو اپنی کوئی کتاب تبصرےے کے لیے بھی نہیں دی ، انکساری کا یہ عالم تھا کہ اگر کوئی ان کے سامنے ’’یاخدا‘‘ یا ’’ماں جی!‘‘ کی تعریف کرتا تو وہ شرماجاتے ، ایسی اعلی ظرفی بہت کم لوگوں میں ہوتی ہے ۔
شہاب صاحب کی ادبی فتوحات کی تعداد کچھ زیادہ نہیں ہے ، چند افسانے ، چند ڈرامے اور ایک ناولٹ ،لیکن جہاں تک معیار کا تعلق ہے ، شہاب صاحب ان لکھنے والوں میں سے ہیں جنہیں کس طور پر نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ، اور کچھ نہیں تو ’’یا خدا‘ُ‘ کے مصنف کے طور پر ان کا نام زندہ رہے گا ، اور اب ’’شہاب نامہ‘‘ کی اشاعت کے بعد مرحوم کے ادبی قدوقامت میں مزید اضافہ ہوگا۔ (جاری ہے)