عاطف بٹ
محفلین
”لفظوں“ کے انتخاب نے رسوا کیا مجھے
شاہد ملک
جن لوگوں نے بچپن میں اردو بولی، سنی اور لکھی، وہ خلیل خاں کی فاختہ اور گل محمد دونوں سے واقف ہوں گے۔ خلیل خاں کا نام تو خیر زور کلام کی خاطر لے لیا ہے، ورنہ متاثر تو مجھے صرف گل محمد نے کیا، جو زمین کے جنبش کرنے پہ بھی اپنی جگہ سے نہیں ہلتا۔ سچ پوچھیں تو میں ہر اس شخص میں ایک چھوٹا موٹا گل محمد دریافت کرنے کی کوشش کرتا ہوں جو پبلک کے پر زور اصرار پر اپنی روش تبدیل کرنے کا عادی نہ ہو۔ اس روش کا تعلق زندگی کے کسی بھی شعبے سے ہو سکتا ہے۔ جیسے میرے دادا نے ڈاکٹروں کے زور لگانے کے باوجود دنیا چھوڑنے سے ٹھیک دس منٹ پہلے تک سگریٹ نوشی ترک نہ کی۔ ہمارے استاد بشیر احمد صمصام کو شیروانی اور ٹوپی کے بغیر گھر سے باہر کسی نے نہ دیکھا۔ خود میں ملازمت کے دوران مناسب پارکنگ کی سہولت کو اچھی تنخواہ پہ ترجیح دیتا رہا ہوں۔اسی ضد یا مستقل مزاجی کی جھلک بسا اوقات ہمارے لسانی رویوں میں بھی دکھائی دے جاتی ہے۔ ایک پرانے فیشن کے بزرگ ہمارے سکول کالج کے زمانے تک فاؤنٹین پین کو انڈی پنڈنٹ کے نام سے پکارتے رہے۔ لاہور کے لاکھوں شہری آج بھی قرطبہ چوک کو مزنگ چونگی، شاہراہ سلطان آغا خان سوئم کو ڈیوس روڈ اور جیلانی پارک کو ریس کورس کے طور پر جانتے ہیں۔ اس کے برعکس راولپنڈی میں ایوب پارک کو ’ٹوپی رکھ‘ اور لیاقت باغ کو ’کمپنی باغ‘ کہنے والے اب ’ٹاویں ٹاویں‘ ہی رہ گئے ہیں۔ ہاں، جڑواں شہر اسلام آباد میں شاہراہیں، گلی کوچے اور محلے چونکہ ناپ تول کے اعشاری نظام کے مطابق نمبروں سے موسوم ہیں، اس لئے یہ خدشہ سرے سے نہیں کہ کسی مرحلے پر نام بدل دینے سے عوامی تخیل پہ ضرب لگے گی یا لوگوں کے جذبات مجروح ہو ں گے۔
اس سے یہ مراد نہیں کہ وقت گزرنے کے ساتھ زبان کے پیرایوں میں آنے والی تبدیلیاں کسی عمارت، سڑک یا بستی کے نام تک محدود ہوا کرتی ہیں۔ تبدیلی کا یہ مسلسل مگر نا محسوس عمل کتنا ہمہ گیر ہے، اس کا اندازہ اب سے چونسٹھ برس پہلے کا وہ اردو روزنامہ دیکھ کر لگایا جا سکتا ہے جس میں ’قائد اعظم محمد علی جناح رحلت فرما گئے‘ کی شہ سرخی شائع ہوئی تھی۔ ساتھ ہی ایک ذیلی خبر جس میں تعزیتی قرار داد کے بجائے ’ریزولیوشن‘ اور مسلم لیگ کے صدر کے لئے ’پریذیڈنٹ‘ کے الفاظ درج ہیں۔ ’رحلت فرمانا‘ آج بھی اردو روزمرہ کا حصہ ہے، مگر ہمارے دور میں یہ پیرایہء اظہار روحانی شخصیات سے مخصوص ہو کر رہ گیا ہے، وگرنہ ہر خاص و عام آج کل ’انتقال کرتا‘ ہے۔ اسی طرح زیر نظر خبروں میں قائد کے لئے ’وہ ‘ کی بجائے تعظیماً ’آپ‘ کا لفظ بھی ہے، جو اب قریب قریب متروک ہو چکا ہے۔
اردو میں جملوں کی ساخت پہ غور کریں تو یہ ڈھانچے سنسکرت پر مبنی دیگر زبانوں کے عین مشابہہ ہیں۔ یہی معاملہ چلنا پھرنا، اٹھنا بیٹھنا، کھانا پینا اور جینا مرنا جیسے سادہ افعال کا ہے۔ اسی سبب آزادی سے پہلے کی فلمی کہانیاں، مکالمے اور گیت بلا لحاظ مذہب شمالی ہندوستان میں سب کی سمجھ میں آجایا کرتے۔ اب سے کوئی تیس سال پہلے لندن میں بی بی سی ہندی سروس کے عمر رسیدہ سا تھیوں سے تعارف ہوا تو ان سے گفتگو میں ایک مزا تھا، اور مزا کیوں نہ ہوتا کہ ان میں تقابلی لسانیات کے ماہر ڈاکٹر گوتم سچدیو، عظیم آرٹسٹ بلراج ساہنی کے جانشین کیلاش بدھوار، دیوان سنگھ مفتون کی ’ناقابل فراموش‘ والے ڈاکٹر متھرا داس کے صاحب زادے شوتو پاوا اور اونکار ناتھ سری واستو جیسے براڈکاسٹر تھے جنہیں اردو نواز کائست برہمن کی حیثیت سے آپ فراق گورکھپوری کا پاکٹ ایڈیشن سمجھ لیں۔
بے تکلفی کے اس ماحول میں گڑ بڑ اس وقت ہوتی جب ہندی سروس کے یہ سینئر رکن پہلے تو قبل از تقسیم کی ملی جلی زبان کی تعریف کرتے اور پھر کبھی کبھار ہماری نشریات کو جناتی زبان کہہ کراس کا مذاق اڑانے کی کوشش کرتے۔ اس پر اردو والوں کی جوابی کارروائی بھی خاصی زوردار ہوتی۔ مجھے یاد ہے کہ ہمارے سیکشن کے سید یاور عباس نے ہندی پروگراموں میں حصہ لینے والے میرے دوست شفیع نقی جامعی کو دونوں اطراف کے اہل زبان کی بھری محفل میں یہ فی البدیہہ شعر سنا کر تمسخر کا نشانہ بنایا تھا کہ:
شفیع چھوڑ دو انداز ہندی والوں کے
اٹھو گے حشر میں ورنہ تتا تتا کرتے
دراصل پاکستان کے وجود میں آنے سے جہاں جداگانہ قومیت کی بدولت ہماری لسانی پہچان کی خواہش میں تیزی آئی، وہیں اعلیٰ سطح پر اردو ذریعہءتعلیم بنانے کی گنجائش سے فلسفہ، تاریخ، صحافت، سیاسیات، اقتصادی اور سماجی علوم کی اصطلاحات میں ایک انقلاب بھی برپا ہوا، جس کے پھیلاؤ کا سطحیت کے بہاؤ میں بہنے والے ہمارے انگریزی خواں دوستوں کو پورا اندازہ نہیں۔ آپ اس نصابی مواد کو جناتی زبان کہہ لیں یا کوئی اور لیبل لگا دیں، لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ مغربی تصورات کے نظری اور تخئیلی مترادفات تلاش کرنے کے لئے ہم نے شوق سے ایران اور دنیائے عرب ہی کا رخ کیا۔ کیا ایک روزمرہ کی بولی ٹھولی کو، جس کا سب سے بڑا دشمن مشتاق یوسفی کے بقول، غزل کا اسلوب رہا، ’لینگویج آف آئیڈیاز‘ میں بدلنے کے لئے ہمارے پاس یہی فطری راستہ تھا، جس پہ معذرت درکار نہیں۔
کیا اس طویل عمل میں ہم نے انگریزی سے تعصب برتتے ہوئے اس کے خلاف بند باندھنے کی کوشش کی؟ پیشہ ور ترجمہ نگاروں کو معیار بنائیں تو شاید اس کا جواب ’ہاں‘ میں ملے، لیکن عمومی رویہ دیکھیں تو کم پڑھے لکھے لوگوں سے لے کر بالادست ایلیٹ تک ہماری ’کوڈ سوچنگ‘ یا اپنی زبانوں میں انگریزی ٹوٹے لگانے کی عادات نے جن لطائف کو جنم دیا وہ اپنی مثال آپ ہیں۔ ابتدا تو اسی دن ہوگئی تھی جب اردو میں دلچسپی رکھنے والے ایک انگریز افسر نے نیم ہندوستانی لہجہ میں ’کھولٹا پانی‘ اور ’ابلٹا پانی‘ کا فرق پوچھا اور مقامی اردلی نے اسے یہ کہہ کر چپ کرادیا کہ صاحب، ہمیں یہ تو پتا نہیں، ہم تو اسے ’بوائلنگ واٹر‘ کہتے ہیں۔ اردو کے ان الفاظ کی فہرست جن پہ ’دوہری شہریت‘ کا شبہ ہی نہیں پڑتا، طوالت کے خوف سے حذف کر رہا ہوں، مگر ایک قصہ ایسا ہے کہ سنا نہ سکا تو چین نہیں آئے گا۔اس کے مر کزی کردار ہیں بی بی سی لندن ، وائس آف امریکہ اور پاکستان ٹیلی ویژن کے نامور پروڈیوسر عارف وقار جنہیں اردو یا پنجابی میں بات کرتے ہوئے انگریزی کا لفظ بولنا ایک معذوری کا احساس دلاتا ہے۔ چند برس پہلے کا یہ واقعہ یوں ہے کہ عارف صاحب، جو نئے نئے ولائت سے واپس آئے تھے، نیشنل کالج آف آرٹس میں ایک لیکچر دینے کے لئے اپر مال سے روانہ ہوئے اور رکشا والے کی آسانی کی خاطر کہہ دیا کہ عجائب گھر کے پاس اتار دینا۔ منزل مقصود پر پہنچ کر ڈرائیور کو کرایہ ادا کر رہے تھے کہ اس نے ڈرتے ڈرتے کہا ’لگتا ہے آپ کہیں باہر رہ کر آئے ہیں۔‘ ’کیسے پتا چلا؟‘ عارف وقار نے چونک کر پوچھا۔ ’وہ اس لئے کہ آپ نے جسے عجائب گھر کہا، اسے اب میوزیم کہتے ہیں۔‘
رہی سہی کسر پچھلے سمسٹر میں میرے پنجاب یونیورسٹی کے شاگردوں نے پوری کردی ہے۔ ایسا نہیں کہ تدریسی منظر سے پانچ چھ سال غائب رہنے کے بعد اپنے دونوں بچوں جیسے نوجوانوں سے گفتگو کرنا اب میرے لئے ممکن ہی نہیں رہا۔ نہیں یہ بات نہیں بلکہ میں نے تو اپنے مطالعے، مشاہدے اور تجربے کی روشنی میں نشری صحافت کے چیدہ چیدہ نکات ذہن نشین کرانے کی پوری کوشش کی، کسی نہ کسی ممتاز براڈکاسٹر کی ساؤنڈ بائیٹ بھی پیش کرتا رہا اور عمر کے واضح فرق کے باوجود چند ایک لطائف بھی کامیابی سے سنا کر داد بٹوری۔ یہ تو کلاس روم میں ہوتا ہی آیا ہے۔ اہم نکتہ یہ ہے کہ اس دوران جہاں طلبہ و طالبات نے مجھ سے کچھ نئی باتیں سیکھیں، وہاں ان کی بدولت میری اپنی لفظیات میں بھی دلچسپ نوعیت کا اضافہ ہوا۔
مثال کے طور پر کالج یا یونیورسٹی کی تعلیم کے دوران اپنے سے اگلی جماعت والوں کو ہم بھی سینئر سمجھا کرتے تھے۔ پھر یہ بھی سن رکھا تھا کہ فلاں صاحب عہدے کے لحاظ سے سینئر ہیں، پھر یہ کہ ہماری تقرری تو ایک ساتھ ہوئی لیکن میرٹ کی وجہ سے وہ اوپر ہو گئے یا یکساں گریڈ کے باوجود میں جس پوسٹنگ پہ ہوں وہ ذرا اونچی خیال کی جاتی ہے۔ یہ سب تو ہمیں معلوم تھا۔ جو انکشاف اب ہوا وہ یہ ہے اگر کوئی سٹوڈنٹ دوسرے سے ایک سال آگے ہے تو وہ ہوا ’سینئر‘ اور اگر دو سال آگے ہے تو وہ کہلاتا ہے ’سپر سینئر‘۔ گویا آدمی نہ ہوا، صابن ہو گیا جس کی قیمت بڑھا کر سائز چھوٹا کردیا گیا اور شاعر کو کہنا پڑا:
اس کو میں کھاؤں کہ اب اس سے نہاؤں، انور
فیصلہ ہو نہ سکا جسم کے تر ہونے تک
کتنا رقبہ تھا، جو اب رہ گیا ٹافی جتنا
جانے کیا گزری ہے صابن پہ سپر ہونے تک
اسی طرح ہمارے زمانہء طالب علمی میں استاد کلاس لیتے تھے اور پڑھنے والے کلاس میں حاضر ہوتے تھے۔ اس کے مقابلے میں اگر موجودہ دور کا کوئی لڑکا یا لڑکی یہ کہے کہ ’سر، میں نے آج کلاس لی ہے‘ تو مطلب ہوگا کہ اس نے بطور طالبعلم کمرہء جماعت میں آپ کے ہوتے ہوئے قدم رنجہ فرمایا۔ ہو سکتا ہے اس کے پیچھے اسی روزمرہ کو دخل ہو جس کے تحت انگریزی بولنے والا ممتحن امتحان ’دیتا‘ ہے اور امیدوار امتحان ’لیتا‘ ہے ۔ بہر حال، پہلی بار جب کسی نے میری کلاس لی تو پہلا تاثر تھا کہ شائد یہ سٹوڈنٹ یکلخت پروفیسر مقرر ہو گیا ہے۔ آئندہ کے لئے وعدہ ہے کہ زندگی میں میرا عمومی روّیہ جو بھی ہو، میں زبان کے معاملے میں اپنے اندر کے گل محمد کو نئے رجحانات کی زنجیریں پہنا کر چھوڑوں گا۔ بس یہ ضرور ہو کہ میرے ہونہار شاگرد کلاس پڑھنے اور کلاس لینے کے عمل میں روزمرہ اور محاورے کے فرق کو کبھی نہ بھولیں۔