شرقی احمد ٹیپو
محفلین
نہ بچ سکیں گے کبھی زیست کے عذاب سے ہم
طلسمِ وہم سے، امید کے سراب سے ہم
طلسمِ وہم سے، امید کے سراب سے ہم
ڈرے کچھ ایسے حقیقت کے دشت سے کہ کبھی
چمکتے دن میں بھی نہ نکلے شہرِ خواب سے ہم
چمکتے دن میں بھی نہ نکلے شہرِ خواب سے ہم
ہوا نے گرد میں تحلیل کر دیا ورنہ
غرورِ نغمہ تھے نکلے تھے جب رباب سے ہم
غرورِ نغمہ تھے نکلے تھے جب رباب سے ہم
وہ اپنی ضد میں اٹل ہیں ہم اپنی فطرت میں
وہ برف زار سے ہیں اور آفتاب سے ہم
وہ برف زار سے ہیں اور آفتاب سے ہم
جو دل میں ہے وہ نگاہوں سے پڑھ لیا اُس نے
ہوس چھپاتے تھے الفاظ کے نقاب سے ہم
ہوس چھپاتے تھے الفاظ کے نقاب سے ہم
سلگ رہی ہے ابھی دل میں درد کی پرچھائیں
پٹخ رہے ہیں ابھی سر کو اضطراب سے ہم
پٹخ رہے ہیں ابھی سر کو اضطراب سے ہم
کھلی کتاب تھی دنیا نہ پڑھ سکے ہم ہی
نظر چُراتے رہے ہیں ہر ایک باب سے ہم
نظر چُراتے رہے ہیں ہر ایک باب سے ہم