عین عین
لائبریرین
”ہم تمہارے ساتھ ہیں!“
مصنف: عارف عزیز
اُس گاﺅں کا نام تو امیر پور تھا، لیکن وہاں رہنے والے زیادہ تر لوگ غریب اور محنت کش تھے، جو گاﺅں سے تھوڑے فاصلے پر موجود ایک بڑی سڑک کے ذریعے روزی کمانے کے لیے شہر جاتے تھے۔ اسی سڑک کے قریب ایک بڑے سے مکان میں نیک دل اور مہمان نواز میاں بیوی بھی رہتے تھے۔ پورا گاﺅں انہیں حاجی صاحب اور اماں بی کے نام سے جانتا تھا۔
حاجی صاحب کا ایک ہی بیٹا تھا، جو نہایت بدتمیز اور خود سر تھا۔ وہ ننّھے کے نام سے مشہور تھا۔ بوڑھے ماں باپ اِسے سمجھاتے اور دوسروں سے اچھا برتاؤ کرنے کی تلقین کرتے، لیکن اُس پر کوئی اثر نہ ہوتا۔ حاجی صاحب اور اماں بی روزانہ فجر کی نماز کے بعد اپنے گھر کے باہر بنے ہوئے چبوترے پر بیٹھا کرتے تھے۔ اس دوران انہیں وہاں سے گزرنے والے دیہاتیوں سے سلام دعا کرنے اور ان کی خیریت دریافت کرنے کا موقع ملتا تھا۔ اسی طرح شام کے وقت گھروں کو لوٹنے والے دیہاتیوں کی ان سے دوبارہ ملاقات ہوجاتی تھی۔
خوش اخلاق اور ملن سار میاں بیوی کی گزر بسر دو مکانات اور تین دکانوں کے کرایے کی رقم سے ہورہی تھی۔ غریب دیہاتی اپنے مسائل حل کروانے اور مالی مدد حاصل کرنے کے لیے حاجی صاحب کے گھر بھی آتے جاتے تھے اور یہ بات ننّھے کو بالکل پسند نہ تھی۔ وہ حاجی صاحب کی غیرموجودگی میں آنے والے دیہاتیوں سے بدتمیزی کرتا اور انہیں جھڑک دیتا۔ گاؤں والے حاجی صاحب کی محبت اور خلوص کی وجہ سے ان باتوں کو اہمیت نہیں دیتے تھے۔ ایک دن بوڑھے میاں بیوی کسی کام سے شہر گئے، جہاں ان کی گاڑی کو حادثہ پیش آگیا اور ان کی موت واقع ہو گئی۔
اس سانحے پر گاؤں کے ہر فرد کی آنکھ اشک بار تھی۔ رشتے دار ننّھے کو صبر کی تلقین کررہے تھے جب کہ دیہاتی بھی تدفین کے بعد کافی دیر تک ننّھے کے ساتھ بیٹھے رہے۔ ننّھا اُس دن بہت رویا اور پھر اسے صبر آہی گیا۔ اگلے دن گاﺅں کے چند بڑے اُس کی خیریت معلوم کرنے کے لیے آئے تو ننّھے نے ان سے کہا، ”تم لوگ اب یہاں کا رُخ مت کرنا۔ مجھے تم جیسے جاہل اور گنوار لوگوں کی ضرورت نہیں ہے۔“ گاﺅں والے خاموشی سے اپنے گھروں کو لوٹ گئے۔
حاجی صاحب اور اماں بی کے انتقال کو تین ماہ کا عرصہ گزرا تھاکہ ننّھے کی غلطی کی وجہ سے گھر کے ایک حصے میں آگ لگ گئی۔ شاید قدرت اُسے سزا دے رہی تھی۔ گاﺅں والوں نے کسی طرح آگ پر قابو تو پالیا، لیکن اس وقت تک کافی مالی نقصان ہو چکا تھا۔ ننّھا شدتِ غم سے نڈھال تھا۔ آگ بجھانے کے بعد گاؤں کے بڑے گامو، رستم اور شیر خان ننّھے کے پاس گئے اور کہا، ”بیٹا، ہم جانتے ہیں کہ یہ بہت بڑا نقصان ہے، مگر تم فکر نہ کرو، ہم ہیں تمہارے ساتھ۔“ شیر خان نے بات کرنے میں پہل کی۔ وہ ایک معمولی ٹھیکے دار تھا۔ ”ہاں، ہم سب مل کر تمہارا مکان دوبارہ تعمیر کریں گے۔“ گامو نے کہا، جو شہر جاکر مزدوری کرتا تھا۔ ننّھے نے خالی خالی نظروں سے اِسے دیکھا۔ اس دوران دُور کھڑے دیہاتی بھی اس کے قریب آگئے اور اس کی ہمّت بندھائی۔ ننّھا سوچ رہا تھا کہ یہ غریب لوگ اس کے لیے کیا کرسکتے ہیں؟
اگلی صبح ننّھا گھر سے باہر نکلا تو دیکھا کہ گاؤں والے بیلچے اور پھاؤڑے لے کر جلے ہوئے مکان کا ملبا ہٹانے کا کام کررہے ہیں۔ اتنے میں گامو اور شیر خان اس کے قریب آگئے۔
”ننّھے میاں! گاﺅں کا ہر ہنرمند اور مزدور مکان کی تعمیر میں حصّہ لے گا اور تم سے کوئی اُجرت نہیں لی جائے گی۔“ گامو نے کہا۔ ”اور ہاں، رنگ و روغن کا کام دو، چار دن میں نمٹا دوں گا، تم فکر نہ کرنا۔“ یہ رستم نامی رنگ ریز کی آواز تھی۔ شیر خان الیکٹریشن تھا۔ اس نے پورے گھر کا بجلی کا کام اپنے ذمے لے لیا۔ اسی طرح گاؤں میں رہنے والے بڑھئی نے بھی دروازے اور کھڑکیاں وغیرہ تیار کرنے کے لیے اپنی خدمات پیش کر دیں۔ گاؤں کا ہر فرد ننّھے کے ساتھ تھا۔
اُس دن شہر کو جانے والی اس بڑی سی سڑک سے گزرنے والی گاڑیوں میں بیٹھے مسافروں نے دیکھاکہ بہت سے مزدور، جن میں عورتیں بھی شامل ہیں، ایک عمارت کی تعمیر میں مصروف ہیں۔ ننّھا جان گیا تھاکہ انسان کا امیر یا غریب ہونا کوئی معنی نہیں رکھتا، اصل چیز انسانیت ہے۔ اس نے گاؤں والوں سے معافی مانگی اور پھر ان کے کھانے پینے کا انتظام کرنے میں مصروف ہو گیا۔
مصنف: عارف عزیز
اُس گاﺅں کا نام تو امیر پور تھا، لیکن وہاں رہنے والے زیادہ تر لوگ غریب اور محنت کش تھے، جو گاﺅں سے تھوڑے فاصلے پر موجود ایک بڑی سڑک کے ذریعے روزی کمانے کے لیے شہر جاتے تھے۔ اسی سڑک کے قریب ایک بڑے سے مکان میں نیک دل اور مہمان نواز میاں بیوی بھی رہتے تھے۔ پورا گاﺅں انہیں حاجی صاحب اور اماں بی کے نام سے جانتا تھا۔
حاجی صاحب کا ایک ہی بیٹا تھا، جو نہایت بدتمیز اور خود سر تھا۔ وہ ننّھے کے نام سے مشہور تھا۔ بوڑھے ماں باپ اِسے سمجھاتے اور دوسروں سے اچھا برتاؤ کرنے کی تلقین کرتے، لیکن اُس پر کوئی اثر نہ ہوتا۔ حاجی صاحب اور اماں بی روزانہ فجر کی نماز کے بعد اپنے گھر کے باہر بنے ہوئے چبوترے پر بیٹھا کرتے تھے۔ اس دوران انہیں وہاں سے گزرنے والے دیہاتیوں سے سلام دعا کرنے اور ان کی خیریت دریافت کرنے کا موقع ملتا تھا۔ اسی طرح شام کے وقت گھروں کو لوٹنے والے دیہاتیوں کی ان سے دوبارہ ملاقات ہوجاتی تھی۔
خوش اخلاق اور ملن سار میاں بیوی کی گزر بسر دو مکانات اور تین دکانوں کے کرایے کی رقم سے ہورہی تھی۔ غریب دیہاتی اپنے مسائل حل کروانے اور مالی مدد حاصل کرنے کے لیے حاجی صاحب کے گھر بھی آتے جاتے تھے اور یہ بات ننّھے کو بالکل پسند نہ تھی۔ وہ حاجی صاحب کی غیرموجودگی میں آنے والے دیہاتیوں سے بدتمیزی کرتا اور انہیں جھڑک دیتا۔ گاؤں والے حاجی صاحب کی محبت اور خلوص کی وجہ سے ان باتوں کو اہمیت نہیں دیتے تھے۔ ایک دن بوڑھے میاں بیوی کسی کام سے شہر گئے، جہاں ان کی گاڑی کو حادثہ پیش آگیا اور ان کی موت واقع ہو گئی۔
اس سانحے پر گاؤں کے ہر فرد کی آنکھ اشک بار تھی۔ رشتے دار ننّھے کو صبر کی تلقین کررہے تھے جب کہ دیہاتی بھی تدفین کے بعد کافی دیر تک ننّھے کے ساتھ بیٹھے رہے۔ ننّھا اُس دن بہت رویا اور پھر اسے صبر آہی گیا۔ اگلے دن گاﺅں کے چند بڑے اُس کی خیریت معلوم کرنے کے لیے آئے تو ننّھے نے ان سے کہا، ”تم لوگ اب یہاں کا رُخ مت کرنا۔ مجھے تم جیسے جاہل اور گنوار لوگوں کی ضرورت نہیں ہے۔“ گاﺅں والے خاموشی سے اپنے گھروں کو لوٹ گئے۔
حاجی صاحب اور اماں بی کے انتقال کو تین ماہ کا عرصہ گزرا تھاکہ ننّھے کی غلطی کی وجہ سے گھر کے ایک حصے میں آگ لگ گئی۔ شاید قدرت اُسے سزا دے رہی تھی۔ گاﺅں والوں نے کسی طرح آگ پر قابو تو پالیا، لیکن اس وقت تک کافی مالی نقصان ہو چکا تھا۔ ننّھا شدتِ غم سے نڈھال تھا۔ آگ بجھانے کے بعد گاؤں کے بڑے گامو، رستم اور شیر خان ننّھے کے پاس گئے اور کہا، ”بیٹا، ہم جانتے ہیں کہ یہ بہت بڑا نقصان ہے، مگر تم فکر نہ کرو، ہم ہیں تمہارے ساتھ۔“ شیر خان نے بات کرنے میں پہل کی۔ وہ ایک معمولی ٹھیکے دار تھا۔ ”ہاں، ہم سب مل کر تمہارا مکان دوبارہ تعمیر کریں گے۔“ گامو نے کہا، جو شہر جاکر مزدوری کرتا تھا۔ ننّھے نے خالی خالی نظروں سے اِسے دیکھا۔ اس دوران دُور کھڑے دیہاتی بھی اس کے قریب آگئے اور اس کی ہمّت بندھائی۔ ننّھا سوچ رہا تھا کہ یہ غریب لوگ اس کے لیے کیا کرسکتے ہیں؟
اگلی صبح ننّھا گھر سے باہر نکلا تو دیکھا کہ گاؤں والے بیلچے اور پھاؤڑے لے کر جلے ہوئے مکان کا ملبا ہٹانے کا کام کررہے ہیں۔ اتنے میں گامو اور شیر خان اس کے قریب آگئے۔
”ننّھے میاں! گاﺅں کا ہر ہنرمند اور مزدور مکان کی تعمیر میں حصّہ لے گا اور تم سے کوئی اُجرت نہیں لی جائے گی۔“ گامو نے کہا۔ ”اور ہاں، رنگ و روغن کا کام دو، چار دن میں نمٹا دوں گا، تم فکر نہ کرنا۔“ یہ رستم نامی رنگ ریز کی آواز تھی۔ شیر خان الیکٹریشن تھا۔ اس نے پورے گھر کا بجلی کا کام اپنے ذمے لے لیا۔ اسی طرح گاؤں میں رہنے والے بڑھئی نے بھی دروازے اور کھڑکیاں وغیرہ تیار کرنے کے لیے اپنی خدمات پیش کر دیں۔ گاؤں کا ہر فرد ننّھے کے ساتھ تھا۔
اُس دن شہر کو جانے والی اس بڑی سی سڑک سے گزرنے والی گاڑیوں میں بیٹھے مسافروں نے دیکھاکہ بہت سے مزدور، جن میں عورتیں بھی شامل ہیں، ایک عمارت کی تعمیر میں مصروف ہیں۔ ننّھا جان گیا تھاکہ انسان کا امیر یا غریب ہونا کوئی معنی نہیں رکھتا، اصل چیز انسانیت ہے۔ اس نے گاؤں والوں سے معافی مانگی اور پھر ان کے کھانے پینے کا انتظام کرنے میں مصروف ہو گیا۔