فرخ منظور
لائبریرین
اسیرِ جسم ہوں، معیادِ قید لا معلوم
یہ کس گناہ کی پاداش ہے خدا معلوم
تری گلی بھی مجھے یوں تو کھینچتی ہے بہت
دراصل ہے مری مٹی کہاں کی کیا معلوم
تعلقات کا الجھاؤ ہر طرح ظاہر
گرہ کشائیِ تقدیرِ نارسا معلوم
سفر ضرور ہے اور عذر کی مجال نہیں
مزا تو یہ ہے نہ منزل، نہ راستا معلوم
دعا کروں نہ کروں سوچ ہے یہی کہ تجھے
دعا کے قبل مرے دل کا مُدّعا معلوم
سنی حکایتِ ہستی تو درمیاں سے سنی
نہ ابتدا کی خبر ہے، نہ انتہا معلوم
کچھ اپنے پاؤں کی ہمت بھی چاہیے اے پیر
یہی نہیں تو مددگاریِ عصا معلوم
طلب کریں بھی تو کیا شے طلب کریں اے شادؔ
ہمیں کو آپ نہیں اپنا مُدّعا معلوم
(شادؔ عظیم آبادی)
یہ کس گناہ کی پاداش ہے خدا معلوم
تری گلی بھی مجھے یوں تو کھینچتی ہے بہت
دراصل ہے مری مٹی کہاں کی کیا معلوم
تعلقات کا الجھاؤ ہر طرح ظاہر
گرہ کشائیِ تقدیرِ نارسا معلوم
سفر ضرور ہے اور عذر کی مجال نہیں
مزا تو یہ ہے نہ منزل، نہ راستا معلوم
دعا کروں نہ کروں سوچ ہے یہی کہ تجھے
دعا کے قبل مرے دل کا مُدّعا معلوم
سنی حکایتِ ہستی تو درمیاں سے سنی
نہ ابتدا کی خبر ہے، نہ انتہا معلوم
کچھ اپنے پاؤں کی ہمت بھی چاہیے اے پیر
یہی نہیں تو مددگاریِ عصا معلوم
طلب کریں بھی تو کیا شے طلب کریں اے شادؔ
ہمیں کو آپ نہیں اپنا مُدّعا معلوم
(شادؔ عظیم آبادی)