ایک مثال ہمارے سامنے ہے کہ مشرف نے رکن پارلیمنٹ بننے کے لئے گریجوایٹ ہونے کی شرط لگائی لیکن بعد میں اپنی کتاب میں اقرار کیا کہ یہ شرط اس نے اپنے ناپسندیدہ سیاستدانوں کو اسمبلی سے باہر رکھنے کے لئے لگائی تھی۔ لیکن اس مثال کے باوجود اگر غیر جانبدارانہ چھانٹی ہو تو چھانٹی کا عمل صرف مخالفین کو باہر رکھنے کے کام نہیں آسکے گا۔اگر آپ یہ assume کرتے ہیں کہ سسٹم ہی کرپٹ ہے تو یہ چھانٹی اپنے مخالفین کو نکالنے کے کام آئے گی نہ کہ کرپٹ لوگوں سے بچنے کے۔
اس کا بہتر حل عوام اور فوج کی سوچ بدلنا ہےایک مثال ہمارے سامنے ہے کہ مشرف نے رکن پارلیمنٹ بننے کے لئے گریجوایٹ ہونے کی شرط لگائی لیکن بعد میں اپنی کتاب میں اقرار کیا کہ یہ شرط اس نے اپنے ناپسندیدہ سیاستدانوں کو اسمبلی سے باہر رکھنے کے لئے لگائی تھی۔ لیکن اس مثال کے باوجود اگر غیر جانبدارانہ چھانٹی ہو تو چھانٹی کا عمل صرف مخالفین کو باہر رکھنے کے کام نہیں آسکے گا۔
جب تک عوامی سطح پر جمہوریت مستحکم نہیں ہوتی تب تک اس طرح کی چھانٹیوں کا عمل کرنا پڑے گا۔
ہمارے ہاں ہوتا یہ ہے کہ عوام نا اہل اور کرپٹ لوگوں کو ووٹ دے کر اسمبلیوں میں پہنچا دیتے ہیں۔ اور جب یہ لوگ اچھی کارکردگی دکھانے کی بجائے کرپشن میں مبتلاء ہوجاتے ہیں تو عوام بیزار ہوکر فوج کی طرف دیکھنے لگتے ہیں کہ فوجی حکمران ان کو سیاستدانوں کی کرپشن سے نجات دے۔
اس کا بہتر حل یہی ہے کہ نا اہل لوگوں کو پارلیمان تک پہنچنے ہی نا دیا جائے۔
درست۔ مگر سوچ ایک دم تو نہیں بدلے گی کچھ وقت لگے گا۔ جب تک عوام اور فوج کا مزاج جمہوری نہیں ہوجاتا تب تک چھانٹیوں سے کام چلایا جائے۔اس کا بہتر حل عوام اور فوج کی سوچ بدلنا ہے
چھانٹیوں کی تاریخ جانتے ہیں؟ ایبڈو کا ذکر سنا ہے؟درست۔ مگر سوچ ایک دم تو نہیں بدلے گی کچھ وقت لگے گا۔ جب تک عوام اور فوج کا مزاج جمہوری نہیں ہوجاتا تب تک چھانٹیوں سے کام چلایا جائے۔
جی معلوم ہے۔ لیکن میں بدنیتی کی بنا ہونے والی چھانٹیوں کے حق میں نہیں، صرف جرائم اور کرپشن میں ملوث لوگوں کو روکنے کے حق میں ہوں۔چھانٹیوں کی تاریخ جانتے ہیں؟ ایبڈو کا ذکر سنا ہے؟