یقین کرو میں ایک محب وطن ملک سے بے حد پیار کرنے والا شہری ہوں پر میں پوری زندگی کراچی نہیں جانا چاہتا میں جب بھی پاکستان آیا لاہور یا اسلام آباد ائیر پورٹ پر اتروں گا اور وہیں سے واپس جاؤں گا کراچی کی زیارت اللہ نا کرائے
آپ دوسروں کے متعلق اپنے قیاسی گھوڑے دوڑانے کی بجائے بہہتر یہ نہیں ہے کہ اگر آپ کو بات سمجھنے میں غلط فہمی ہو رہی ہے تو انہی لوگوں سے پوچھ کر معاملہ کلیئر کر لیں؟ثمینہ معیز صاحبہ کی خدمت میں:
صوبہ سرحد کے لوگوں کے بارے میں سٹیریوٹائپس جو بنے ہیں ان میں سے کچھ کا ذکر آپ نے کیا، مثلا منشیات کا حوالہ دیا، صوبہ کی کم آمدنی کا حوالہ دیا ، میرا خیل ہے اس سے آپ ہر فرد کی آمدنی یعنی پر کیپیٹل انکم کا ذکر کر رہی ہوں گی اور پھر آپ نے خصوصی طور پر ٹرانسپورٹ کا حوالہ دیا۔
آپ دوسروں کی نیت کے بارے میں فتوے جاری کرنے میں بہت جلدی کرتے ہیں۔میری قارئین سے درخوست ہے کہ نشان زد جملوں کو غور سے پڑھیں، حال آنکہ یہ جملے مبینہ طور پر ایک رپورٹ کا اقتباس ہیں، مگر جس انداز سے ان جملوں کا متن پیش کیا گیا ہے کیا اس سے نیک نیتی جھلکتی ہے؟
ان میں سے کون سے بات غلط ہے جو آپ بنا کسی دلیل و ثبوت کے نیت پر حملہ کر رہے ہیں۔از ثمینہ:
صوبہ سرحد کی بات کرتے ہیں۔ وہاں آج کیا ہورہا ہے ؟ کیا دنیا کی تاریخ کے بد ترین جرائم کا وہاں ارتکاب نہیں ہو رہا ہے۔ اور اگر ہو رہا ہے تو کیا وہاں کے مقامی لوگ شامل نہیں ہیں ؟ اور اگر ہیں تو ان سے بڑا اس ملک کی تاریخ کا مجرم کون ہے ؟ سب کو پتہ ہے کہ قبائلی علاقے کے لوگوں کا ذریعہ معاش کیا ہے، ہیروئن اور اسلحہ کی اسمگلنگ کے سوا دوسرا کوئی راستہ نہیں ہے۔ اگر کسی کے پاس آمدنی سے متعلق گوشوارے اور تحقیقی مواد ہے تو ضرور شیئر کرے ۔ آکسفورڈ یونیورسٹی کی اسٹوڈنٹ نے 1988 میں ضیاءالحق کے طیارے کے حادثے کے بعد پاکستانی صوبوں سے متعلق ایک رپورٹ مرتب کی تھی۔ اور انتہائی باریک بینی سے اس میں جائزہ لیا تھا۔
پورے پاکستان کا پتا نہیں، مگر کراچی میں ڈرگز کا پورا کاروبار انہیں کے ہاتھوں میں ہے [اور جب "ان" کی بات ہوتی ہے تو اس سے مراد ان میں جرائم پیشہ افراد ہیں نہ کہ پوری قوم۔از گرائیں:
ان جملوں سے لگتا ہے کہ صوبے کے لوگ باقاعدہ طور پر ایک منصوبے کے تحت پورے ملک میں پھیلے ہوئے ہیں، یعنی ان کا کو ئی غلط مقصد ہے۔ کیا پاکستان کے شہری ہونے کے ناتے سے یہ لوگ کہیں نہیں جا سکتے؟ اور اگر چلے بھی گئے ہیں تو اس میں حیران ہونے کی کیا بات ہے؟
از گرائیں:
میں آپ کو بتاتا ہوں یہ لوگ پورے ملک میں کیا کرتے ہیں:
پورے ملک میں جب آپ کو تعمیراتی کام کے لئے دیہاڑی پر مزدوروں کی ضرورت پڑے گی تو یہ لوگ اکثریت میں دستیاب ہوں گے۔
گلی محلوں ، گھروں کی چوکیداری کے فرائض میں ان کو ترجیح دی جاتی ہے۔
گلی کے نکڑ پر بیٹھے ہوئے موچی سے اپ پوچھیں کہاں کا رہنے والا ہے، تو اس کا تعلق صوبہ سرحد یا قبائلی علاقے سے نکلے گا۔
بہت کم آپ کو ایسے ملیں گے جو کوئی " اچھی" نوکری یا کام کرتے ہوں گے۔
ٹرانسپورٹ کا کام بھی محنت والا کام ہے، جو اس کام سے متعلق ہیں ان سے پوچھئے کتنی خواری ہوتی ہے اس کام میں۔
یہی پٹھان جب بیرون ملک جاتے ہیں تو ٹرانسپورٹ کا کام اس لئے سنبھالتے ہیں کہ یہ لوگ اور کوئی کام کر نہیں سکتے، خلیجی ممالک میں ڈرائیوروں کی اکثریت کا تعلق صوبہ سرحد سے ہے، کیا اس کا یہ مطلب لیا جائے کہ یہ لوگ ایک سازش کے تحت وہاں یہ کام سنبھالے ہوئے ہیں، اور کیا اس کا یہ مطلب لیا جائے کہ کہ انھوں نے منظم طور پر کسی اور کو یہ کام سنبھالنے کی اجازت نہیں دی ہے؟ اور میں سمجھتا ہوں اس کی بنیادی وجہ ان کا کلچر ہے جس میں تعلیم پر شائد اب تک اتنا زور نہیں دیا گیا۔
عجیب بے تکا استدلال ہے۔ اگر BLA کے دہشتگرد پاکستان میں دھماکے کر کے دہشتگردیاں کرتے ہیں مگر انکا سردار افغانستان یا ایران میں روپوش ہے تو کیا BLA تمام گناہوں سے پاک معصوم ہو گئی؟از گرائیں:
میں مانتا ہوں کہ منشیات کی پیداوار صوبہ سرحد میں ہوتی ہے، مگر اس کے بڑے سمگلر کہاں بیٹھے ہوئے ہیں؟ بڑے شہروں میں۔
یہ لولے لنگڑے بہانے جانے دیجئے محترم۔ آپ کا اور میرا کیا لینا دینا۔ میں نے ہمیشہ اسلحہ کی مخالفت کی ہے چاہے وہ متحدہ کے ہاتھ میں ہی کیوں نہ ہو، اور میں ہر کسی کے ہاتھ سے غیر قانونی اسلحہ لے لینا چاہتی ہوں اور ہرگز ہرگز آپ کی طرح نہیں ہوں جو خاندانی یا قبائلی روایات کے نام پر ہر قسم کا مہلک جان لیوا اسلحہ اور دھماکہ خیز بارود وغیرہ رکھنے کی حمایت کرتا ہو۔از گرائیں:
رہ گئی اسلحہ کی بات تو شائد آپ کبھی صوبہ سرحد نہیں آئیں۔ یہاں کے کلچر میں انفرادیت پر بہت زور دیا جتا ہے، یہ انفرادیت غیرت یا پختونولی کے نام سے ہر پہلو میں ظاہر ہوتی ہے، اور اس کے دفاع کے لئے کبھی متشدد ہونا پڑتا ہے، بالکل اسی طرح جس طریقے کی وکالت ایک محترم ممبر نے کی ہے۔ اور اس کے لئے اسلحہ ضروری ہے۔
یقین کرو میں ایک محب وطن ملک سے بے حد پیار کرنے والا شہری ہوں پر میں پوری زندگی کراچی نہیں جانا چاہتا میں جب بھی پاکستان آیا لاہور یا اسلام آباد ائیر پورٹ پر اتروں گا اور وہیں سے واپس جاؤں گا کراچی کی زیارت اللہ نا کرائے
آپ دوسروں کے متعلق اپنے قیاسی گھوڑے دوڑانے کی بجائے بہہتر یہ نہیں ہے کہ اگر آپ کو بات سمجھنے میں غلط فہمی ہو رہی ہے تو انہی لوگوں سے پوچھ کر معاملہ کلیئر کر لیں؟
آپ دوسروں کی نیت کے بارے میں فتوے جاری کرنے میں بہت جلدی کرتے ہیں۔
آپ سے درخواست ہے کہ اس معاملے میں احتراز کریں کیونکہ آپ کی عادت کچھ ایسی ہے کہ آپ کو دوسروں کی باتوں میں کیڑے ہی کیڑے نظر آتے ہیں۔
پتا نہیں آپ کو سسٹر ثمینہ کے ان جملوں میں کہاں سے نیت کا فتور نظر آ گیا:
ان میں سے کون سے بات غلط ہے جو آپ بنا کسی دلیل و ثبوت کے نیت پر حملہ کر رہے ہیں۔
یہ سب کے سب حقیقتیں ہیں اور بہت تلخ حقیقتیں ہیں۔ مگر جب کوئی ان تلخ حقیقتوں کی طرف اشارہ کرے تو اُس کی نیت پر حملے شروع ہو جاتے ہیں۔
پورے پاکستان کا پتا نہیں، مگر کراچی میں ڈرگز کا پورا کاروبار انہیں کے ہاتھوں میں ہے [اور جب "ان" کی بات ہوتی ہے تو اس سے مراد ان میں جرائم پیشہ افراد ہیں نہ کہ پوری قوم۔
۔ اور ڈرگز کے ساتھ ساتھ ناجائز و غیر قانونی مہلک ترین بارود و اسلحے کا پورا کاروبار انہیں کے ہاتھوں میں ہے اور یہ کاروبار کرنے والے امیر ترین لوگ ہیں۔
۔ سمگلنگ کے ناجائز مال کا پورا کاروبار بھی انہی کے ہاتھوں میں ہے اور اس سے یہ بے انتہا پیسا بناتے ہیں۔
۔ مافیاز بنا کر زمینوں پر غیر قانونی حملے کرنا ان کا ایک اور کاروبار ہے جو بہت ہی منفعت بخش ہے۔
میں نے آج تک اُن غریب پشتون بھائیوں پر کسی کو اعتراض کرتے نہیں دیکھا جو واقعی حق حلال کی روٹی کمانے کے لیے دن رات مزدوری کرتے ہیں، چوکیداریاں کرتے ہیں اور اپنے بال بچوں کا پیٹ حق حلال طریقوں سے بھرتے ہیں۔
اور پاکستان کے پشتون بھائی تو ایک طرف، مجھے تو اُن لوگوں پر اعتراض ہوتا ہے جو غریب افغان مہاجرین برادران میں سے یوں حق حلال کی روٹی کمانے والوں پر بھی اعتراض کر رہے ہوتے ہیں۔
مگر یہاں گفتگو ان لوگوں کی نہیں ہو رہی، بلکہ اُن جرائم پیشہ لوگوں کی ہو رہی ہے جن کا ذکر اوپر کیا گیا ہے۔
ایک پشتون بھائی اگر آ کر ٹیکسی چلاتا ہے تو اس پر کسی کو اعتراض کا حق میں نہیں دے سکتی۔ مگر آپ دوسروں کو اتنا بے وقوف تو نہ بنائیں کہ ایک غریب پشتون ٹیکسی یا رکشہ ڈرائیور کو کراچی کی 90 فیصد ٹرانسپورٹ کا مالک بنا دیں۔
یہ بات غریب محنتی پشتون ڈرائیور کی نہیں، بلکہ اُس طاقتور جرائم پیشہ "ٹرانسپورٹ مافیا" کی ہو رہی ہے کہ جس کے ہاتھ اتنے لمبے ہیں کہ کوئی انکی ٹرانسپورٹ monopoly سے ٹکرانے کی سوچ بھی نہیں سکتا، ورنہ پولیس سے لیکر ہر بڑا بدمعاش آپکے پیچھے پڑ ہو گا۔ یہ سب ٹرانسپورٹ مافیا، غیر قانونی تجاوزات مافیا، ڈرگ مافیا، اور مہلک اسلحہ مافیا سب کے سب ایک ہی تھیلی کی چٹے بٹے ہیں اور ان کے آپس میں رابطے ہیں۔
عجیب بے تکا استدلال ہے۔ اگر bla کے دہشتگرد پاکستان میں دھماکے کر کے دہشتگردیاں کرتے ہیں مگر انکا سردار افغانستان یا ایران میں روپوش ہے تو کیا bla تمام گناہوں سے پاک معصوم ہو گئی؟
جہاں منشیات پیدا ہوتی ہیں اُس جگہ کے لوگ قصوروار ہیں چاہے انکے سردار سمگلر دنیا کے کسی کونے میں بھی رہیں۔ یہ بات ثابت کرتی ہے کہ آپ کا دل اپنے محبوبوں کے لیے کیسے فراغ ہو جاتا ہے اور انکے گناہ گناہ نہیں رہتے۔ یہی وہ جگہ آتی ہے جہاں آپ کو دوسرے کی آنکھ کا تنکا نظر آ رہا ہوتا ہے مگر اپنے آنکھ کا شہتیر نہیں۔
یہ لولے لنگڑے بہانے جانے دیجئے محترم۔ آپ کا اور میرا کیا لینا دینا۔ میں نے ہمیشہ اسلحہ کی مخالفت کی ہے چاہے وہ متحدہ کے ہاتھ میں ہی کیوں نہ ہو، اور میں ہر کسی کے ہاتھ سے غیر قانونی اسلحہ لے لینا چاہتی ہوں اور ہرگز ہرگز آپ کی طرح نہیں ہوں جو خاندانی یا قبائلی روایات کے نام پر ہر قسم کا مہلک جان لیوا اسلحہ اور دھماکہ خیز بارود وغیرہ رکھنے کی حمایت کرتا ہو۔
میں ایسے ہر طبقے کے خلاف آپریشن کے حق میں ہوں جو اسلحے کے فتنے میں ملوث ہے، مگر آپ کا رویہ صرف اور صرف انتہا درجے کا دوغلا رویہ ہے۔
آپ کو صرف اور صرف متحدہ کا اسلحہ نظر آتا ہے اور اسی پر آپ کی تمام چیخ و پکار ختم ہو جاتی ہے۔ آج تک آپ کو سہراب گوٹھ میں اسلحہ نظر آیا نہ ڈرگز کا کاروبار، اور نہ ہی آج تک سہراب گوٹھ کے اسلحے کی آپ نے مذمت کی اور نہ اس کے خلاف آپریشن کا مطالبہ۔
عمران خان کو میں نے قانون اسلحہ لائسنسوں کے اجرا پر چیختے چلاتے دیکھا۔ مگر آج تک اس کے لبوں ان تمام سالوں میں سہراب گوٹھ کے اُس سے کہیں زیادہ مہلک، دہشتگردی میں استعمال ہونے والے خود کار آٹومیٹک ہتھیاروں کے بڑے پیمانے پر کھلے عام ہونے والے کاروبار پر ایک لفظ آتے نہیں دیکھا۔
یہ اکیسویں صدی چل رہی ہے۔ خدا کے لیے ان پرانی فرسودہ اور جاہلانہ قبائلی روایات کے سحر سے آزاد ہوں۔ آج ہمارے ملک میں لاکھوں لوگ اس فتنے کا شکار ہو کر خون میں لپٹ چکے ہیں، مگر آپ کو ابھی تک اپنی فرسودہ جان لیوا روایات کا پاس ہے۔ خدا کے لیے ہوش کے ناخن لیں اور پاکستان کو بنانے سنوارنے میں ہمارے ساتھ مل کر کام کریں اور اس اسلحے کی لعنت کو معاشرے سے دور کریں۔ اس اسلحے کی وجہ سے پشتون نے خود اپنے پشتون بھائی کا خون بہایا ہے اسکا عشر عشییر بھی کراچی میں پشتون کمیونٹی کا کبھی نہ بہا ہو گا۔ ہماری نئی نسلوں کو اسی پاکستان میں مل کر ایک ساتھ بڑا ہونا ہے۔ اس ملک کے قانون کی خود بھی پیروی کیجِیَے اور دوسروں کو بھی تلقین کیجِیے اور خدارا سہراب گوٹھ کی طرح علاقہ غیر بنا کر نہ بیٹھ جائیں۔
باتیں تلخ ہیں، مگر وہ حقیقتیں ہیں جن سے انکار ممکن نہیں۔ اپنا پرانا طرز عمل چھوڑیئے کہ جو ان تلخ حقیقتوں پر انگلی اٹھائے اسی کے پیچھے ڈنڈے لیکر پڑ جائیں۔ اصلاح کو وقت ہمیشہ رہنے والا نہیں۔ ان بری عادتوں سے جان چھڑائیے کہ ابھی وقت ہے ورنہ دیر ہو گئی تو سب کچھ تباہ و برباد ہو جائے گا۔
تمہاری مضحکیہ خیز پوسٹ پڑھ کر بہت سے لطیفے یاد آگئے ۔۔۔ خیر ۔پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ جہموریت نہیں جمہوریت ہوتا ہے!
دوئم : میں صرف پاکستان کی جمہوری کرپشن نہیں بلکہ پوری دنیا کی نام نہاد " جمہوری" پارٹیوں کیخلاف ہوں۔ اگر آپکو ناروے کی مثال چاہئے تو دوسری جنگ عظیم کے بعد سے یہاں پر اکثریت کیساتھ حکومت کرنے والی لیبر پارٹی کے پرانے "خفیہ" معاہدے جو اسکے سابق سیاست دانوں نے اسوقت کی "باقی" پارٹیوں کئے تھے، کی کاپیاں بھیج سکتا ہوں۔ ان معاہدوں کے تحت لیبر پارٹی کے ممبران بری از زمہ ہوں گے اگر وہ ناروے کے قومی آئین کی خلاف ورزی کریں!
یہ معاہدے پارلیمنٹ میں تمام دروازے بن کر کے گئے اور آج تک نارویجن عوام کی اکثریت ان سے بے خبر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر الیکشن میں یہاں سے سیاست دان بڑے بڑےوعدوں کیساتھ حکومت بناتے ہیں اور حکومت میں جاتے ہی انکو یہ پرانی ڈیلز جکڑ دیتی ہیں۔ احتجاج کی صورت میں "قدرتی" موت ایک یقینی عمل ہے اور کئی نارویجن خود مختار سیاست دان پچھلے پچاس سالوں میں ہارٹ اٹیکس اور برین ہیمرجز کا شکار ہوچکے ہیں۔ بعضکو سیدھا زہر دے کر مروایا گیا۔ یہ معاہدے 1970 کی دہائی میں نارویجن بینک ڈائرکٹر اور IMF کے سربراہ Erik Brofoss نے بحری جہاز رانی کرنے والے انتہائی امیر مالکان اور لیبر پارٹی کے درمیان کروائے تھے۔ جسکے نتیجہ میں ان سے حاصل ہونے والا منافہ ملکی ریکارڈ میں نہیں آتا بلکہ سیدھا سؤٹزلینڈ کے بنکوں میں جاتا ہے۔ ایک اندازہ کے مطابق اسوقت کئی سو بلین ڈالرز کا غیر قانونی منافع وہاں دفن ہے لیکن نارویجن حکومت یہ سب جانتے ہوئے بھی کچھ نہیں کر سکتی: جسکی لاٹھی اسکی بھینس! یاد رہے کہ ناروے کی تاریخ میں سب سے بڑی اس کرپشن کو Norway Scheme کا نام دیا گیا ہے!
اب آتے ہیں آپکے ہمدرد اور درد دل امریکہ کی ’’جمہوریت‘‘ کی جانب:
سنہ ۲۰۰۰ کے الیکشن میں Bush کے مد مقابل پر Al Gore نے زیادہ ووٹس حاصل کئے تھے۔ اسکے باوجود سب سے پہلے فاکس ٹی وی اور پھر باقی میڈیا نے بش کو صدر ثابت کر دیا۔ اب چونکہ حقیقت میں زیادہ ووٹس الگور کو ہی ملے تھے اس طرح بش نے اپنا الیکشن کانگریس میں جیت لیا۔ تفصیل کیلئے دیکھو مائکل مور کی فلم: fahrenheit 9/11 نیز یہ ذیل کا لنک بھی کار آمد ثابت ہوگا:
http://answers.yahoo.com/question/index?qid=20080925125227AA1tsTU
مزید اب یہ بات بھی کئی بار ثابت ہو چکی ہے کہ تمام سیاسی پارٹیز کو مختلف سرمایہ کارانہ انڈسٹری سے تعلق رکھنے والے افراد یا کوورپریشنز فائنسس کرتی ہیں۔ یوں درحقیقت الیکشن امریکی عوام کیلئے نہیں بلکہ امرا کے انٹرسٹ کے فیور میں ہوتا ہے۔ امریکہ کے سابق وائس صدر Dick Cheney کا تعلق بش کی آئل کمپنی Halliburton سے تھا نیز انکے پاس اسلحہ بنانے والی کمپنیوں کے وافر شئیرز بھی موجود تھے۔ یوں جنگ افغانستان و عراق کے ذریعہ جتنا منافع بش اور چینی نے بنایا ہے، اتنا شاید ہی کسی اور نے کیا ہو۔ ساتھ میں NWO کے ایجنٹس کیلئے مشرق وسطیٰ آپریشنز کی راہ بھی ہموار کر دی گئی۔
پس ثابت ہوا کہ جمہوریت چاہے وہ کسی بھی ملک کی ہو، اسکا اصل مقصد سرمایہ دار برادری اور بینکینگ توپوں کیلئے کام کرنا ہے۔ ۹/11 کے جعلی واقعہ کو بنیاد بنا کر امریکیوں کے تمام تر آزادانہ حقوق پامال کرنے کا پلین صرف جمہوری نظام ہی میں ممکن ہے۔ اور حال میں سوائن فلو کا ڈرامہ اور پھر اسکے ذریعہ خطرناک ویکسین لوگوں کو زبردستی دینا، یہ بھی صرف اور صرف جمہوری بیروکرسی میں ممکن ہے!
آپ دوسروں کے متعلق اپنے قیاسی گھوڑے دوڑانے کی بجائے بہہتر یہ نہیں ہے کہ اگر آپ کو بات سمجھنے میں غلط فہمی ہو رہی ہے تو انہی لوگوں سے پوچھ کر معاملہ کلیئر کر لیں؟
آپ دوسروں کی نیت کے بارے میں فتوے جاری کرنے میں بہت جلدی کرتے ہیں۔
آپ سے درخواست ہے کہ اس معاملے میں احتراز کریں کیونکہ آپ کی عادت کچھ ایسی ہے کہ آپ کو دوسروں کی باتوں میں کیڑے ہی کیڑے نظر آتے ہیں۔
پتا نہیں آپ کو سسٹر ثمینہ کے ان جملوں میں کہاں سے نیت کا فتور نظر آ گیا:
ان میں سے کون سے بات غلط ہے جو آپ بنا کسی دلیل و ثبوت کے نیت پر حملہ کر رہے ہیں۔
یہ سب کے سب حقیقتیں ہیں اور بہت تلخ حقیقتیں ہیں۔ مگر جب کوئی ان تلخ حقیقتوں کی طرف اشارہ کرے تو اُس کی نیت پر حملے شروع ہو جاتے ہیں۔
پورے پاکستان کا پتا نہیں، مگر کراچی میں ڈرگز کا پورا کاروبار انہیں کے ہاتھوں میں ہے [اور جب "ان" کی بات ہوتی ہے تو اس سے مراد ان میں جرائم پیشہ افراد ہیں نہ کہ پوری قوم۔
۔ اور ڈرگز کے ساتھ ساتھ ناجائز و غیر قانونی مہلک ترین بارود و اسلحے کا پورا کاروبار انہیں کے ہاتھوں میں ہے اور یہ کاروبار کرنے والے امیر ترین لوگ ہیں۔
۔ سمگلنگ کے ناجائز مال کا پورا کاروبار بھی انہی کے ہاتھوں میں ہے اور اس سے یہ بے انتہا پیسا بناتے ہیں۔
۔ مافیاز بنا کر زمینوں پر غیر قانونی حملے کرنا ان کا ایک اور کاروبار ہے جو بہت ہی منفعت بخش ہے۔
میں نے آج تک اُن غریب پشتون بھائیوں پر کسی کو اعتراض کرتے نہیں دیکھا جو واقعی حق حلال کی روٹی کمانے کے لیے دن رات مزدوری کرتے ہیں، چوکیداریاں کرتے ہیں اور اپنے بال بچوں کا پیٹ حق حلال طریقوں سے بھرتے ہیں۔
اور پاکستان کے پشتون بھائی تو ایک طرف، مجھے تو اُن لوگوں پر اعتراض ہوتا ہے جو غریب افغان مہاجرین برادران میں سے یوں حق حلال کی روٹی کمانے والوں پر بھی اعتراض کر رہے ہوتے ہیں۔
مگر یہاں گفتگو ان لوگوں کی نہیں ہو رہی، بلکہ اُن جرائم پیشہ لوگوں کی ہو رہی ہے جن کا ذکر اوپر کیا گیا ہے۔
ایک پشتون بھائی اگر آ کر ٹیکسی چلاتا ہے تو اس پر کسی کو اعتراض کا حق میں نہیں دے سکتی۔ مگر آپ دوسروں کو اتنا بے وقوف تو نہ بنائیں کہ ایک غریب پشتون ٹیکسی یا رکشہ ڈرائیور کو کراچی کی 90 فیصد ٹرانسپورٹ کا مالک بنا دیں۔
یہ بات غریب محنتی پشتون ڈرائیور کی نہیں، بلکہ اُس طاقتور جرائم پیشہ "ٹرانسپورٹ مافیا" کی ہو رہی ہے کہ جس کے ہاتھ اتنے لمبے ہیں کہ کوئی انکی ٹرانسپورٹ monopoly سے ٹکرانے کی سوچ بھی نہیں سکتا، ورنہ پولیس سے لیکر ہر بڑا بدمعاش آپکے پیچھے پڑ ہو گا۔ یہ سب ٹرانسپورٹ مافیا، غیر قانونی تجاوزات مافیا، ڈرگ مافیا، اور مہلک اسلحہ مافیا سب کے سب ایک ہی تھیلی کی چٹے بٹے ہیں اور ان کے آپس میں رابطے ہیں۔
عجیب بے تکا استدلال ہے۔ اگر bla کے دہشتگرد پاکستان میں دھماکے کر کے دہشتگردیاں کرتے ہیں مگر انکا سردار افغانستان یا ایران میں روپوش ہے تو کیا bla تمام گناہوں سے پاک معصوم ہو گئی؟
جہاں منشیات پیدا ہوتی ہیں اُس جگہ کے لوگ قصوروار ہیں چاہے انکے سردار سمگلر دنیا کے کسی کونے میں بھی رہیں۔ یہ بات ثابت کرتی ہے کہ آپ کا دل اپنے محبوبوں کے لیے کیسے فراغ ہو جاتا ہے اور انکے گناہ گناہ نہیں رہتے۔ یہی وہ جگہ آتی ہے جہاں آپ کو دوسرے کی آنکھ کا تنکا نظر آ رہا ہوتا ہے مگر اپنے آنکھ کا شہتیر نہیں۔
یہ لولے لنگڑے بہانے جانے دیجئے محترم۔ آپ کا اور میرا کیا لینا دینا۔ میں نے ہمیشہ اسلحہ کی مخالفت کی ہے چاہے وہ متحدہ کے ہاتھ میں ہی کیوں نہ ہو، اور میں ہر کسی کے ہاتھ سے غیر قانونی اسلحہ لے لینا چاہتی ہوں اور ہرگز ہرگز آپ کی طرح نہیں ہوں جو خاندانی یا قبائلی روایات کے نام پر ہر قسم کا مہلک جان لیوا اسلحہ اور دھماکہ خیز بارود وغیرہ رکھنے کی حمایت کرتا ہو۔
میں ایسے ہر طبقے کے خلاف آپریشن کے حق میں ہوں جو اسلحے کے فتنے میں ملوث ہے، مگر آپ کا رویہ صرف اور صرف انتہا درجے کا دوغلا رویہ ہے۔
آپ کو صرف اور صرف متحدہ کا اسلحہ نظر آتا ہے اور اسی پر آپ کی تمام چیخ و پکار ختم ہو جاتی ہے۔ آج تک آپ کو سہراب گوٹھ میں اسلحہ نظر آیا نہ ڈرگز کا کاروبار، اور نہ ہی آج تک سہراب گوٹھ کے اسلحے کی آپ نے مذمت کی اور نہ اس کے خلاف آپریشن کا مطالبہ۔
عمران خان کو میں نے قانون اسلحہ لائسنسوں کے اجرا پر چیختے چلاتے دیکھا۔ مگر آج تک اس کے لبوں ان تمام سالوں میں سہراب گوٹھ کے اُس سے کہیں زیادہ مہلک، دہشتگردی میں استعمال ہونے والے خود کار آٹومیٹک ہتھیاروں کے بڑے پیمانے پر کھلے عام ہونے والے کاروبار پر ایک لفظ آتے نہیں دیکھا۔
یہ اکیسویں صدی چل رہی ہے۔ خدا کے لیے ان پرانی فرسودہ اور جاہلانہ قبائلی روایات کے سحر سے آزاد ہوں۔ آج ہمارے ملک میں لاکھوں لوگ اس فتنے کا شکار ہو کر خون میں لپٹ چکے ہیں، مگر آپ کو ابھی تک اپنی فرسودہ جان لیوا روایات کا پاس ہے۔ خدا کے لیے ہوش کے ناخن لیں اور پاکستان کو بنانے سنوارنے میں ہمارے ساتھ مل کر کام کریں اور اس اسلحے کی لعنت کو معاشرے سے دور کریں۔ اس اسلحے کی وجہ سے پشتون نے خود اپنے پشتون بھائی کا خون بہایا ہے اسکا عشر عشییر بھی کراچی میں پشتون کمیونٹی کا کبھی نہ بہا ہو گا۔ ہماری نئی نسلوں کو اسی پاکستان میں مل کر ایک ساتھ بڑا ہونا ہے۔ اس ملک کے قانون کی خود بھی پیروی کیجِیَے اور دوسروں کو بھی تلقین کیجِیے اور خدارا سہراب گوٹھ کی طرح علاقہ غیر بنا کر نہ بیٹھ جائیں۔
باتیں تلخ ہیں، مگر وہ حقیقتیں ہیں جن سے انکار ممکن نہیں۔ اپنا پرانا طرز عمل چھوڑیئے کہ جو ان تلخ حقیقتوں پر انگلی اٹھائے اسی کے پیچھے ڈنڈے لیکر پڑ جائیں۔ اصلاح کو وقت ہمیشہ رہنے والا نہیں۔ ان بری عادتوں سے جان چھڑائیے کہ ابھی وقت ہے ورنہ دیر ہو گئی تو سب کچھ تباہ و برباد ہو جائے گا۔
عبداللہ بھائی آپ کی بات عجب ہے ۔۔ پاکستان کا ہر شہر آپ کا میرا شہر ہے ۔۔ آپ کو ہم سب کو کراچی آنا چاہیے ۔
خیر یہاں اتنی لمبی بحث چھڑ گئی
اس ویڈیو کو ٤ منٹ سے دیکھیں ۔۔ ایم کیو ایم کے وزیر بتا رہے ہیں کنٹینرز کس نے رکھے ۔۔ اب یہ یا تو جھوٹ بول رہے ہیں یا سچ بول رہے ہیں ۔
[youtube]http://www.youtube.com/watch?v=gt4dpf-a9ok[/youtube]
حکومت میرے چچا جان کی تھی اس دور میں انہوں نے رکھوائے ہیں ، متحدہ والے تو اعتکاف میں تھے ، 12 مئی کو، حکومت میں ایم کیو ایم نہ تھی ، اور کے پی ٹی یا این ایل سی سے کنٹیر ہر عام آدمی بھی لے کر سڑکوں پر رکھ سکتا ہے ، شکریہ ۔
پہلی بات میں آپ سے بات نہیں کر رہا تھا۔ یہ گلے سڑے دلائل اپنے پاس رکھئے۔ میں نے عمران خان کی کوئی بات نہیں کی آپ پھر اس کا قصہ لے کر بیٹھ گئیں۔ شائد آپ کو شک ہے کہ میری عمران سے کوئی ہمدردی ہے۔
میں نے جو کہنا تھا کہہ دیا۔ مجھے آپ کی نصیحتوں کی کوئی ضرورت نہیں۔ ہم پشتون خوب جانتے ہیں کس بات میں ہمارے کلچر کا فائدہ ہے اور کس بات میں نقصان۔ سمجھ میں آ گئی بات؟
میں نے تو جو کہا میں ڈنکے کی چوٹ پر ثابت کر سکتا ہوں۔ کیا آپ اپنی بات ثابت کر سکتی ہیں؟
سر دوسرے تھوڑے جزباتی ہو کر پتا نہیں کیا کیا لکھتے ہیں ۔۔ پر آپ تو ایسے نہیں نا لکھیں ۔۔ کہ آپ پشتون ہیں ۔
ہم سب پہلے پاکستانی ہیں ۔ سب پاکستانی اچھے ہیں ۔۔ سبھی ۔۔ ایم کیو ایم بھی تحریک انصاف بھی ن بھی ق بھی ۔۔ بھیا کالی بھیڑییں کہاں کہاں نہیں ہوتی !!
پر الطاف بھائی نے پاکستان کے بن نے کو بلنڈر چاہے ایک اچھی نیت کہا ہو ۔۔ مگر جزباتی پاکستانی پھر جزباتی ہوتے ہیں
شکریہ ریحان۔
میری زندگی اس بات کی گواہ ہے کہ میں نے کبھی بھی اپنے آپ کو بحیثیت پٹھان متعارف کروانا ضروری نہیں سمجھا۔ میں پہلے مسلمان، پھر پاکستانی ہوں۔ مگر یہ صاحبہ مسلسل ایک لسانی گروہ یعنی پٹھانوں کے خلاف الا بلا بکے جا رہی ہیں۔ اور افسوس کی بات یہ ہے کہ کوئی ان کو روکتا بھی نہیں۔ اور اگر میں درخواست کروں کہ یہاں آ کر صورت حال کا زمینی جائزہ لے کر بت کی جائے تو یہ صاحبہ اسے بھی نظر انداز کر دیتی ہیں۔ ہے نا ڈھٹائی کی حد۔ اور جب جواب دے نہیں سکتیں تو اپنے آپ کو کراچی تک محدود کر لیتی ہیں ، حال آنکہ اگر یہ میرے جواب کو غور سے پڑھتیں تو انھیں علم ہوتا کہ میں بات کچھ اور کی تھی۔ پتہ نہیں ان کو کیا وہم ہو گیا ہے کہ ان کی باتیں ہمارے لئے اہم ہیں۔
یہ صاحبہ اپنی نصیحتیں اپنے منہ کے اندر ہی رکھیں تو بہتر ہوگا۔
وہ کیا کہتے ہیں کیتلی توے کو کہے تیرا منہ کالا؟