الف نظامی
لائبریرین
یقین کیجیے، اس سال جنوری کے مہینے میں 14 تاریخ نہیں آئے گی، تیرہ کے بعد کیلنڈروں اور ڈائریوں پر خود بخود پندرہ کا ہندسہ نمودار ہو جائے گا۔ چودہ تاریخ کو کھرچنے کے لیے بہت بڑا سیاسی اتحاد تشکیل پا چکا ہے، حکومت میں ایک اتحاد تو پہلے سے موجود ہے جو مفاہمت کے ٹرک کی بتی کا پیچھا کرتا کرتا عملی طور پر ایوب خان کی کنونشن لیگ کا روپ دھار چکا ہے، پنجاب میں پیپلز پارٹی پر ایک ایسا صدر نازل ہو گیا ہے جس کو جیالے قبول کرنے کو تیار نہیں، مجھے کتنے ہی پی پی پی لیڈروں نے کہا ہے کہ میں ان کا نام لے کر اس نامزدگی کے خلاف لکھوں مگر یہ اس پارٹی کا گھر کا مسئلہ ہے، پارٹی جانے اور جیالے جانیں مگر اب پنجاب میں گورنر کے منصب پر جو صاحب بھی آئے ہیں وہ ن لیگ کے اس قدر اعتماد کے آدمی ہیں کہ انھیں وفاقی حکومت کا کسی طور پر نمایندہ نہیں کہا جا سکتا۔
منظور وٹو اور احمد محمود نے ن لیگ کو پنجاب میں کلین سویپ کا موقع فراہم کر دیا ہے، اب ملک کے اس سب سے بڑے صوبے میں الیکشن کے تکلف کی ضرورت باقی نہیں رہی، اس لیے چودہ تاریخ کو کیلنڈر سے کھرچنے کے لیے ایسا گرینڈ الائنس وجود میں آ رہا ہے جس کی ملک میں پہلے کوئی نظیر نہیں ملتی۔ بھٹو نے جس کنونشن لیگ کے خلاف بغاوت کر کے ایک انقلابی پارٹی تشکیل دی تھی، اب وہ محدب عدسے کی مدد سے بھی ڈھونڈے کو نہیں ملتی، چودہ تاریخ کو ملکی سیاسی تاریخ سے معدوم کرنے کے لیے کئی ایک قوتیں سرگرم عمل ہیں، امریکی سفیر نے کہہ دیا ہے کہ وہ قادری کے پیچھے نہیں، آئی ایس پی آر کے ترجمان نے بھی کہہ دیا ہے کہ فوج کا قادری سے کوئی لینا دینا نہیں، میڈیا نے چیف جسٹس آف پاکستان کا ایک بیان (فیصلہ نہیں) شایع کر دیا ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ عوام انتشار پھیلانے والی بیرونی قوتوں کا ساتھ نہ دیں، قاضی حسین احمد کی وفات کے روز ایک اخبار کے سنڈے ایڈیشن میں ان کا بظاہر آخری انٹرویو شایع ہوا ہے جس میں قاضی صاحب نے فرمایا کہ انھیں قادری کے ایجنڈے کی سمجھ نہیں آئی۔
عمران خان نے شروع میں تو قادری کے فلسفے کی حمایت کی مگر پھر وہ محتاط ہو گئے اور بروقت انتخابات کے مطالبہ پر اڑ گئے۔ پنجاب اسمبلی میں پی پی پی اور ن لیگ نے ایک قرارداد منظور کی ہے کہ قادری کے خلاف غداری کا مقدمہ چلایا جائے۔ علامہ ابتسام الہی ظہیر نے تو قادری کو مناظرے کا چیلنج دیا ہے اور ساجد میر بھی قادری کے مطالبات کی مذمت کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ سنی کونسل نے بھی قادری کے خلاف مزاحمت کا اعلان کیا ہے، طالبان بھی پیچھے نہیں رہے، انھوں نے قادری کے خلاف اپنی دھمکیوں کا اعادہ کیا ہے۔
اے این پی تو پی پی پی کی اتحادی ہے، اسے قادری کیونکر قبول ہو گا۔ اس طرح ملک کے اندر اور باہر کی قوتوں نے قادری کے خلاف جو محاذ کھڑا کیا ہے، اس کے سامنے قادری کے تار عنکبوت کی کیا حیثیت رہ جاتی ہے، لے دے کے ایم کیو ایم اور ق لیگ ان کے ساتھ ہیں، مگر ق لیگ کا کہنا ہے کہ وہ لانگ مارچ میں شامل نہیں ہو گی جب کہ ایم کیو ایم کراچی سے لاکھوں بندے اسلام آباد کے تحریر چوک میں لانے سے رہی۔ قادری کی چودہ تاریخ کو حرف غلط کی طرح مٹانے میں ان کی دوہری شہریت کا مسئلہ بھی کھڑا کر دیا گیا ہے۔
اس مسئلے نے درجنوں ارکان پارلیمنٹ کی سیٹیں چھین لی ہیں، اب قادری بھی اسی وجہ سے متنازع بنا دیے گئے ہیں کہ وہ تو ملکہ برطانیہ کے وفادار ہیں۔ ویسے مجھے سمجھ نہیں آتی کہ لگ بھگ ستر لاکھ پاکستانی بیرونی ملکوں میں محنت مزدوری کر کے پاکستان کو قیمتی زر مبادلہ فراہم کر رہے ہیں، ان ستر لاکھ میں سے ایک قادری ہی کو کیوں مطعون کیا جا رہا ہے جب کہ وہ کہتا ہے کہ میں الیکشن نہیں لڑنا چاہتا، لڑنا ہو گا تو دوہری شہریت چھوڑ دوں گا۔ مگر ہر کوئی اس کو بیرونی قوت ہی کہہ رہا ہے، ایسا نہ کہا جائے تو قادری کو عوام کی نظروں میں گرایا نہیں جا سکتا، میڈیا کا نناوے اعشاریہ نناوے فیصد طبقہ قادری کے خلاف لکھ رہا ہے یا بول رہا ہے، ملک کی ساری سیاسی جماعتیں بھی قادری کی مخالفت میں ایڑی چوٹی کا زور لگا رہی ہیں، اس پس منظر میں جب میں یہ کہتا ہوں کہ جنوری کے مہینے میں چودہ تاریخ نہیں آئے گی تو کوئی غلط نہیں کہتا۔
آخر تجزیہ بھی کسی قیافے پر ہی کیا جا سکتا ہے۔ یہاں تو اشارے بڑے واضح ہیں۔ قادری نے کچھ ایسی بات کہہ دی ہے کہ ہر کوئی انگاروں پر لوٹ رہا ہے اور قادری پر لوٹ پوٹ ہونے والے خال خال ہیں، میری طرح کے چند بے مایہ کالم کار مگر ایک بھی اینکر پرسن نہیں۔ اس نقار خانے میں ہم طوطیوں کی کون سنتا ہے۔ صدر، وزیر اعظم، بلاول بھٹو، نواز شریف، شہباز شریف، چیف جسٹس، فوج کے ترجمان اور امریکا تک ایک طرف ظاہر کھڑے نظر آتے ہیں تو پھر قادری کی دال کیسے گلے گی اور ہنڈیا کس چولھے پر چڑھے گی۔
مگر میری اطلاع یہ ہے کہ چودہ تاریخ کے بجائے لانگ مارچ کا آغاز بارہ جنوری ہی کو ہو جائے گا، آخر اسے اسلام آباد تک پہنچنے میں چند روز تو درکار ہوں گے، درمیان میں پنجاب حکومت بھی ہے جو راستے بلاک کرنے کے لیے ہر چوک میں کنٹینر اور ٹریکٹر، ٹرالیاں کھڑی کر سکتی ہے، ان رکاوٹوں کو ایک روز میں تو عبور نہیں کیا جا سکتا، مائوزے تنگ کا لانگ مارچ بھی ایک روز میں بیجنگ تو نہیں پہنچ پایا تھا۔ ایران میں آیت اللہ روح اللہ خمینی نے بھی پلک جھپکنے میں انقلاب برپا نہیں کر دیا تھا۔جن کارکنوں نے مینار پاکستان کے جلسے کو عظیم الشان بنایا تھا، وہ پچھلے دس روز سے فیلڈ میں ہیں، ان کے ٹیلی فون بند مل رہے ہیں، ہو سکتا ہے وہ رانا ثنا اللہ کی پکڑ دھکڑ سے بچنے کے لیے زیر زمین چلے گئے ہوں مگر شیخ زاہد فیاض قریہ قریہ رابطے کر رہے ہیں، لانگ مارچ میں شرکت کے لیے لوگوں کی بڑی تعداد کو متحرک کر رہے ہیں، میاں زاہد اسلام اور دیگر جن مخیر حضرات نے مینار پاکستان کے لیے بینر بنائے، ہورڈنگ کھڑے کیے، وہ بھی بدستور متحرک ہیں اور پیسہ پانی کی طرح بہا رہے ہیں، یہ پیسہ ان کی جیبوں سے جا رہا ہے اور اس قدر پیسہ خرچنے کی وہ استطاعت بھی رکھتے ہیں، آخر جس شخص کے پاس ڈیفنس کے مسجد چوک میں دو بڑے گھر ہوں گے، اس کے پاس اپنے لیڈر کے لیے وافر پیسہ کیوں نہیں ہو گا۔
اسے کسی دوسرے سے چندہ مانگنے کی ضرورت کیوں ہو گی۔ چودہ جنوری کا کریا کرم کرنے کے لیے سب سے بڑا سوال یہ داغا گیا ہے کہ قادری کیا لینے آئے ہیں، ان کا ایجنڈہ کیا ہے۔ لگتا ہے کسی نے ان کی سوا دو گھنٹے کی تقریر سنی ان سنی کر دی اور ان سوالوں کا جواب دینے کی ذمے داری ن لیگ نے اپنے سر لے لی ہے، اس کا کہنا ہے کہ قادری الیکشن کو سبو تاژ کرنے آئے ہیں اور ہم ایسا ہر گز نہیں کرنے دیں گے۔ بالکل ٹھیک کہا، ن لیگ نے، اسے اب اقتدار ملنے ہی والا ہے اور وہ کسی رکاوٹ کو کیوں برداشت کرے گی۔ اور قادری نے بھی ڈرون یا اسکائی لیب کی طرح اچانک اسی لیے لینڈ کیا ہے تا کہ مک مکا کے کھیل کا پردہ چاک کر سکے اور باری باری کا کھیل نہ کھیلنے دے۔ ہماری عدلیہ نے این آر او کو وائنڈ اپ ایشو قرار دے دیا، مگر اس میں جو لکھا ہے، اس پر عمل تو ہو رہا ہے، محترمہ کو شہید کر دیا گیا، محترمہ کی آڑ میں شریف برادران بھی جلا وطنی سے واپس آ گئے اور پنجاب ان کو پلیٹ میں رکھ کر پیش کر دیا گیا، وفاق اور باقی صوبے پی پی پی اور اس کے اتحادیوں کے حصے میں آئے، اب نئے الیکشن کے بعد اسی این آر او کے مطابق ن لیگ کو ملک کا کنٹرول ملنا ہے۔ قادری کی کوشش ہے کہ جب عدلیہ نے این آ را ور کو وائنڈ اپ ایشو کر دیا تو پھر اس پر عمل کیوں۔ ایک شفاف، غیر جانبدار اور آزادانہ الیکشن میں عوام اپنی مرضی کے نمایندے کیوں نہ چنیں، ایسے نمایندے جو دستور پاکستان کی شق باسٹھ اور تریسٹھ پر پورے اترتے ہوں، شق تین کے مطابق استحصال اور جور و جبر نہ کرتے ہوں، پورا ٹیکس دیتے ہوں، کم نہ تولتے ہوں، ذخیرہ اندوزی نہ کرتے ہوں، اب قادری کا مقابلہ ہے ان عناصر سے جو چام کے دام چلانے کے ماہر ہیں، دیکھیے چودہ جنوری آتی ہے یا نہیں۔ ابھی تک خود نہیں بولے تو وہ آرمی چیف ہیں اور بہتر ہو گا کہ وہ خاموش ہی رہیں۔
منظور وٹو اور احمد محمود نے ن لیگ کو پنجاب میں کلین سویپ کا موقع فراہم کر دیا ہے، اب ملک کے اس سب سے بڑے صوبے میں الیکشن کے تکلف کی ضرورت باقی نہیں رہی، اس لیے چودہ تاریخ کو کیلنڈر سے کھرچنے کے لیے ایسا گرینڈ الائنس وجود میں آ رہا ہے جس کی ملک میں پہلے کوئی نظیر نہیں ملتی۔ بھٹو نے جس کنونشن لیگ کے خلاف بغاوت کر کے ایک انقلابی پارٹی تشکیل دی تھی، اب وہ محدب عدسے کی مدد سے بھی ڈھونڈے کو نہیں ملتی، چودہ تاریخ کو ملکی سیاسی تاریخ سے معدوم کرنے کے لیے کئی ایک قوتیں سرگرم عمل ہیں، امریکی سفیر نے کہہ دیا ہے کہ وہ قادری کے پیچھے نہیں، آئی ایس پی آر کے ترجمان نے بھی کہہ دیا ہے کہ فوج کا قادری سے کوئی لینا دینا نہیں، میڈیا نے چیف جسٹس آف پاکستان کا ایک بیان (فیصلہ نہیں) شایع کر دیا ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ عوام انتشار پھیلانے والی بیرونی قوتوں کا ساتھ نہ دیں، قاضی حسین احمد کی وفات کے روز ایک اخبار کے سنڈے ایڈیشن میں ان کا بظاہر آخری انٹرویو شایع ہوا ہے جس میں قاضی صاحب نے فرمایا کہ انھیں قادری کے ایجنڈے کی سمجھ نہیں آئی۔
عمران خان نے شروع میں تو قادری کے فلسفے کی حمایت کی مگر پھر وہ محتاط ہو گئے اور بروقت انتخابات کے مطالبہ پر اڑ گئے۔ پنجاب اسمبلی میں پی پی پی اور ن لیگ نے ایک قرارداد منظور کی ہے کہ قادری کے خلاف غداری کا مقدمہ چلایا جائے۔ علامہ ابتسام الہی ظہیر نے تو قادری کو مناظرے کا چیلنج دیا ہے اور ساجد میر بھی قادری کے مطالبات کی مذمت کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ سنی کونسل نے بھی قادری کے خلاف مزاحمت کا اعلان کیا ہے، طالبان بھی پیچھے نہیں رہے، انھوں نے قادری کے خلاف اپنی دھمکیوں کا اعادہ کیا ہے۔
اے این پی تو پی پی پی کی اتحادی ہے، اسے قادری کیونکر قبول ہو گا۔ اس طرح ملک کے اندر اور باہر کی قوتوں نے قادری کے خلاف جو محاذ کھڑا کیا ہے، اس کے سامنے قادری کے تار عنکبوت کی کیا حیثیت رہ جاتی ہے، لے دے کے ایم کیو ایم اور ق لیگ ان کے ساتھ ہیں، مگر ق لیگ کا کہنا ہے کہ وہ لانگ مارچ میں شامل نہیں ہو گی جب کہ ایم کیو ایم کراچی سے لاکھوں بندے اسلام آباد کے تحریر چوک میں لانے سے رہی۔ قادری کی چودہ تاریخ کو حرف غلط کی طرح مٹانے میں ان کی دوہری شہریت کا مسئلہ بھی کھڑا کر دیا گیا ہے۔
اس مسئلے نے درجنوں ارکان پارلیمنٹ کی سیٹیں چھین لی ہیں، اب قادری بھی اسی وجہ سے متنازع بنا دیے گئے ہیں کہ وہ تو ملکہ برطانیہ کے وفادار ہیں۔ ویسے مجھے سمجھ نہیں آتی کہ لگ بھگ ستر لاکھ پاکستانی بیرونی ملکوں میں محنت مزدوری کر کے پاکستان کو قیمتی زر مبادلہ فراہم کر رہے ہیں، ان ستر لاکھ میں سے ایک قادری ہی کو کیوں مطعون کیا جا رہا ہے جب کہ وہ کہتا ہے کہ میں الیکشن نہیں لڑنا چاہتا، لڑنا ہو گا تو دوہری شہریت چھوڑ دوں گا۔ مگر ہر کوئی اس کو بیرونی قوت ہی کہہ رہا ہے، ایسا نہ کہا جائے تو قادری کو عوام کی نظروں میں گرایا نہیں جا سکتا، میڈیا کا نناوے اعشاریہ نناوے فیصد طبقہ قادری کے خلاف لکھ رہا ہے یا بول رہا ہے، ملک کی ساری سیاسی جماعتیں بھی قادری کی مخالفت میں ایڑی چوٹی کا زور لگا رہی ہیں، اس پس منظر میں جب میں یہ کہتا ہوں کہ جنوری کے مہینے میں چودہ تاریخ نہیں آئے گی تو کوئی غلط نہیں کہتا۔
آخر تجزیہ بھی کسی قیافے پر ہی کیا جا سکتا ہے۔ یہاں تو اشارے بڑے واضح ہیں۔ قادری نے کچھ ایسی بات کہہ دی ہے کہ ہر کوئی انگاروں پر لوٹ رہا ہے اور قادری پر لوٹ پوٹ ہونے والے خال خال ہیں، میری طرح کے چند بے مایہ کالم کار مگر ایک بھی اینکر پرسن نہیں۔ اس نقار خانے میں ہم طوطیوں کی کون سنتا ہے۔ صدر، وزیر اعظم، بلاول بھٹو، نواز شریف، شہباز شریف، چیف جسٹس، فوج کے ترجمان اور امریکا تک ایک طرف ظاہر کھڑے نظر آتے ہیں تو پھر قادری کی دال کیسے گلے گی اور ہنڈیا کس چولھے پر چڑھے گی۔
مگر میری اطلاع یہ ہے کہ چودہ تاریخ کے بجائے لانگ مارچ کا آغاز بارہ جنوری ہی کو ہو جائے گا، آخر اسے اسلام آباد تک پہنچنے میں چند روز تو درکار ہوں گے، درمیان میں پنجاب حکومت بھی ہے جو راستے بلاک کرنے کے لیے ہر چوک میں کنٹینر اور ٹریکٹر، ٹرالیاں کھڑی کر سکتی ہے، ان رکاوٹوں کو ایک روز میں تو عبور نہیں کیا جا سکتا، مائوزے تنگ کا لانگ مارچ بھی ایک روز میں بیجنگ تو نہیں پہنچ پایا تھا۔ ایران میں آیت اللہ روح اللہ خمینی نے بھی پلک جھپکنے میں انقلاب برپا نہیں کر دیا تھا۔جن کارکنوں نے مینار پاکستان کے جلسے کو عظیم الشان بنایا تھا، وہ پچھلے دس روز سے فیلڈ میں ہیں، ان کے ٹیلی فون بند مل رہے ہیں، ہو سکتا ہے وہ رانا ثنا اللہ کی پکڑ دھکڑ سے بچنے کے لیے زیر زمین چلے گئے ہوں مگر شیخ زاہد فیاض قریہ قریہ رابطے کر رہے ہیں، لانگ مارچ میں شرکت کے لیے لوگوں کی بڑی تعداد کو متحرک کر رہے ہیں، میاں زاہد اسلام اور دیگر جن مخیر حضرات نے مینار پاکستان کے لیے بینر بنائے، ہورڈنگ کھڑے کیے، وہ بھی بدستور متحرک ہیں اور پیسہ پانی کی طرح بہا رہے ہیں، یہ پیسہ ان کی جیبوں سے جا رہا ہے اور اس قدر پیسہ خرچنے کی وہ استطاعت بھی رکھتے ہیں، آخر جس شخص کے پاس ڈیفنس کے مسجد چوک میں دو بڑے گھر ہوں گے، اس کے پاس اپنے لیڈر کے لیے وافر پیسہ کیوں نہیں ہو گا۔
اسے کسی دوسرے سے چندہ مانگنے کی ضرورت کیوں ہو گی۔ چودہ جنوری کا کریا کرم کرنے کے لیے سب سے بڑا سوال یہ داغا گیا ہے کہ قادری کیا لینے آئے ہیں، ان کا ایجنڈہ کیا ہے۔ لگتا ہے کسی نے ان کی سوا دو گھنٹے کی تقریر سنی ان سنی کر دی اور ان سوالوں کا جواب دینے کی ذمے داری ن لیگ نے اپنے سر لے لی ہے، اس کا کہنا ہے کہ قادری الیکشن کو سبو تاژ کرنے آئے ہیں اور ہم ایسا ہر گز نہیں کرنے دیں گے۔ بالکل ٹھیک کہا، ن لیگ نے، اسے اب اقتدار ملنے ہی والا ہے اور وہ کسی رکاوٹ کو کیوں برداشت کرے گی۔ اور قادری نے بھی ڈرون یا اسکائی لیب کی طرح اچانک اسی لیے لینڈ کیا ہے تا کہ مک مکا کے کھیل کا پردہ چاک کر سکے اور باری باری کا کھیل نہ کھیلنے دے۔ ہماری عدلیہ نے این آر او کو وائنڈ اپ ایشو قرار دے دیا، مگر اس میں جو لکھا ہے، اس پر عمل تو ہو رہا ہے، محترمہ کو شہید کر دیا گیا، محترمہ کی آڑ میں شریف برادران بھی جلا وطنی سے واپس آ گئے اور پنجاب ان کو پلیٹ میں رکھ کر پیش کر دیا گیا، وفاق اور باقی صوبے پی پی پی اور اس کے اتحادیوں کے حصے میں آئے، اب نئے الیکشن کے بعد اسی این آر او کے مطابق ن لیگ کو ملک کا کنٹرول ملنا ہے۔ قادری کی کوشش ہے کہ جب عدلیہ نے این آ را ور کو وائنڈ اپ ایشو کر دیا تو پھر اس پر عمل کیوں۔ ایک شفاف، غیر جانبدار اور آزادانہ الیکشن میں عوام اپنی مرضی کے نمایندے کیوں نہ چنیں، ایسے نمایندے جو دستور پاکستان کی شق باسٹھ اور تریسٹھ پر پورے اترتے ہوں، شق تین کے مطابق استحصال اور جور و جبر نہ کرتے ہوں، پورا ٹیکس دیتے ہوں، کم نہ تولتے ہوں، ذخیرہ اندوزی نہ کرتے ہوں، اب قادری کا مقابلہ ہے ان عناصر سے جو چام کے دام چلانے کے ماہر ہیں، دیکھیے چودہ جنوری آتی ہے یا نہیں۔ ابھی تک خود نہیں بولے تو وہ آرمی چیف ہیں اور بہتر ہو گا کہ وہ خاموش ہی رہیں۔