16 دسمبر 1971

زیک

مسافر
سقوط ڈھاکہ پر 6 سال پہلے یہ تحریر اپنے بلاگ پر لکھی تھی۔ آج کے دن کی مناسبت سے اس کے لنک روٹ درست کر کے یہاں پیش کر رہا ہوں۔

آج 16 دسمبر ہے۔ آج سے 42 سال پہلے پاکستانی فوج نے مشرقی پاکستان میں ہتھیار ڈالے اور بنگلہ‌دیش دنیا میں نمودار ہوا۔

چلیں اس تاریخ کو کچھ کھنگالیں کہ شاید ہم کچھ سیکھ سکیں۔

گیارہ سال پہلے جارج واشنگٹن یونیورسٹی میں نیشنل سیکورٹی آرکائیوز نے 1971 میں مشرقی پاکستان اور بنگلہ‌دیش سے متعلق کچھ امریکی دستاویزات ویب پر شائع کی تھیں۔ ان دستاویزات سے کچھ اقتباسات کے ترجمے پیشِ خدمت ہیں۔

دستاویز 1 مورخہ 28 مارچ جو ڈھاکہ میں امریکی قونصلخانے سے بھیجی گئی:
یہاں ڈھاکہ میں ہم پاکستانی فوج کے دہشت کے راج کے گونگے اور پریشان شاہد ہیں۔ شواہد سامنے آ رہے ہیں کہ پاکستانی حکام کے پاس عوامی لیگ کے حمایتیوں کی فہرستیں ہیں جنہیں وہ باقاعدہ طور پر ان کے گھروں میں ڈھونڈ کر گولی مار رہے ہیں۔ عوامی لیگ کے لیڈروں کے علاوہ سٹوڈنٹ لیڈر اور یونیورسٹی کے اساتذہ بھی ان کے نشانے پر ہیں۔

دستاویز 4 جو 30 مارچ کو ڈھاکہ قونصلخانے سے ڈھاکہ یونیورسٹی میں قتل و غارت کے متعلق ہے۔
ایف‌اے‌او کے ساتھ کام کرنے والے ایک امریکی نے ڈھاکہ یونیورسٹی کے اقبال ہال میں 25 طلباء کی لاشیں دیکھیں۔ اسے رقیہ گرلز ہال کے بارے میں بتایا گیا جہاں فوج نے عمارت کو آگ لگائی اور پھر بھاگتی لڑکیوں کو مشین‌گن سے مار دیا۔ اندازہ ہے کہ ڈھاکہ یونیورسٹی میں کل 1000 لوگوں کو مار دیا گیا۔

دستاویز 5 31 مارچ کو بھیجی گئی:
آرمی اپریشن کے نتجے میں مرنوں والوں کی تعداد کا اندازہ لگانا ابھی مشکل ہے۔ ڈھاکہ یونیورسٹی میں مرنے والے سٹوڈنٹس کی تعداد کا سب سے محتاط اندازہ 500 ہے اور 1000 تک جاتا ہے۔ پولیس کے ذرائع کے مطابق 25 مارچ کی رات کی شدید لڑائی میں 600 سے 800 پاکستانی پولیس والے مارے گئے۔ پرانا شہر جہاں فوج نے ہندو اور بنگالی علاقوں کو آگ لگائی اور پھر مکینوں کو گولیاں ماریں وہاں مرنے والوں کی تعداد کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔ عینی شاہد ان مرنے والوں کی تعداد 2000 سے 4000 تک بتاتے ہیں۔ ہمارا خیال ہے کہ اس وقت تک فوجی ایکشن کے نتیجے میں مرنے والوں کی تعداد شاید 4000 سے 6000 تک ہے۔ ہمیں علم نہیں کہ کتنے فوجی مر چکے ہیں۔

دستاویز 6 بھی پڑھیں جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہندو خاص طور پر پاکستانی فوج کا نشانہ تھے اور کیسے خواتین ریپ کا شکار ہوئیں۔
کچھ بنگالی بزنسمین جو عوامی لیگ کے حامی نہیں ہیں انہوں نے ڈھاکہ یونیورسٹی میں رقیہ ہال میں 6 لڑکیوں کی ننگی لاشیں دیکھیں جنہیں زنا بالجبر اور گولی مارنے کے بعد پنکھوں سے لٹکا دیا گیا تھا۔ یونیورسٹی میں دو اجتماعی قبریں بھی ہیں جن میں سے ایک میں 140 لاشیں پائی گئیں۔

امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے ویب سائٹ پر آپ 1971 سے متعلق بہت سی امریکی دستاویزات پڑھ سکتے ہیں۔

جنگ کے اختتام کے بعد پاکستانی حکومت نے حمود الرحمان کمیشن قائم کیا جس کا مقصد اس ساری صورتحال کے بارے میں تفتیش کرنا تھا۔ اس کمیشن کی رپورٹ سالہا سال تک پاکستانی حکمرانوں نے چھپائے رکھی۔ پھر اگست 2000 میں اس رپورٹ کا ایک حصہ انڈیا ٹوڈے نے چھاپ دیا۔ اس کے بعد پاکستانی حکومت نے رپورٹ کے کچھ حصے حذف کر کے باقی کی رپرٹ شائع کر دی جسے آپ یہاں پڑھ سکتے ہیں۔ اس وقت اس کا اردو ترجمہ جنگ اخبار میں چھپا جس کا کچھ حصہ آپ اردو محفل پر پڑھ سکتے ہیں۔

حمود الرحمان کمیشن رپورٹ پڑھتے ہوئے حیرت ہوتی ہے کہ پاکستانی حکمرانوں نے اسے کیوں 28 سال تک چھپائے رکھا۔ ویسے تو رپورٹ اچھی ہے اور کئیفوجی کمانڈرز کو موردِ الزام ٹھہراتی ہے مگر کچھ لطیفے بھی ہیں۔

مثال کے طور پر پاکستانی فوج کے مظالم کا ذکر کرتے ہوئے رپورٹ حیرانی کا اظہار کرتی ہے کہ پاکستانی فوج 9 ماہ میں 3 ملین لوگوں کو کیسے مار سکتی تھی اور جی‌ایچ‌کیو کی بات ماننے میں عار محسوس نہیں کرتی کہ فوج نے صرف 26 ہزار بنگالی مارے۔ مگر ساتھ ہی یہ دعوٰی بھی کرتی ہے کہ فوجی ایکشن سے پہلے مارچ کے 24 دنوں میں عوامی لیگ نے ایک سے پانچ لاکھ لوگوں کو مار دیا۔ اگر 24 دن میں ایک لاکھ لوگوں کو مارنا ممکن تھا تو پھر فوج جس کے پاس بڑے ہتھیار تھے وہ 8، 9 ماہ میں 3 ملین کیوں نہیں مار سکتی تھی؟ تین ملین کی تعداد کو مبالغہ کہنا اور صحیح نہ ماننا ایک بات ہے اور اسے اس طرح ناممکن قرار دینا بالکل دوسری۔ خیال رہے کہ میں یہ نہیں کہہ رہا کہ 3 ملین کی تعداد صحیح ہے۔ جتنا اس سال کے واقعات کے بارے میں میں نے پڑھا ہے کوئی غیرجانبدار تحقیق اس معاملے میں نہیں ہوئی۔ بہرحال شواہد کے مطابق مغربی پاکستانی فوج نے یقیناً 26 ہزار سے زیادہ اور 3 ملین سے کم لوگ مارے۔

اب آتے ہیں بنگلہ‌دیشی بلاگز کی طرف کہ وہ اس دن کے بارے میں کیا کہتے ہیں۔

کچھ بنگالی بلاگز سے مجھے ڈھاکہ میں جنگِ آزادی میوزیم کے ویب سائٹ کا پتہ چلا۔ اس سائٹ پر فی‌الحال صرف چند بنیادی معلومات ہی ہیں۔

درشتی‌پت بلاگ پر 1971 میں بنگالی دانشوروں کے قتل سے متعلق دو پوسٹس موجود ہیں۔

یا کیسے میں نے پریشان نہ ہونا سیکھا بلاگ کے معشوق الرحمان نے تو بہت سے مضامین 1971 کے واقعات پر لکھے ہیں۔ ان میں سے قابلِ ذکر اس وقت کی اخباری رپورٹس کو سکین کر کے آن‌لائن لانا ہے: بنگلہ‌دیش آبزرور ، ڈان اور بین الاقوامی اخبارات ۔ اس کے علاوہ اس کا ایک مضمون جو ایک بنگالی اخبار میں بھی چھپا ہے وہ شرمیلہ بوس کے اس دعوے کی تردید میں ہے کہ 1971 میں مشرقی پاکستان میں پاکستانی فوج نے لاکھوں خواتین کی عزت نہیں لوٹی تھی۔ بلاگر کین یونیورسٹی نیو جرسی میں بنگلہ‌دیش میں ہونے والی نسل‌کشی پر ایک سیمینار کی رپورٹ بھی پیش کرتا ہے جس میں وہاں کے نسل‌کشی سٹڈیز کے پروگرام میں 1971 کے بنگلہ‌دیش کے واقعات پر ایک کورس آفر کرنے کی کوشش ہو رہی ہے۔ اس سیمینار میں 1971 میں مارے جانے والوں کی فیملی کے افراد بھی اپنے اور اپنی فیملی کے ساتھ ہونے والے واقعات بیان کرتے ہیں جو آپ بلاگ پر پڑھ سکتے ہیں۔ معشوق کے بلاگ پر بنگلہ‌دیش کی جنگِ آزادی کے متعلق بہت زیادہ مواد ہے اور میرا مشورہ ہے کہ آپ اسے ضرور پڑھیں۔
 

اسد

محفلین
میں سیاست اور اب بہت عرصے سے حالاتِ حاضرہ سے دور بھاگتا ہوں، اس لئے ہو سکتا ہے کہ بعض معلومات حاصل کرنے میں اس لئے ناکام رہا ہوں کہ درست ذرائع سے واقف نہیں ہوں۔ میں ان چیزوں کے بارے میں جاننا چاہتا ہوں، اگر کسی کو اس بارے میں documented sources یعنی کتابوں اور ویب سائٹس کا علم ہے تو شیئر کریں۔

ایک چیز جس کا بے شمار افراد کو علم ہے مگر وہ اس کا ذکر نہیں کرتے، صاحبزادہ یعقوب علی خان کا کردار ہے۔ موصوف کیریر فوجی تھے، میجر یا لیفٹیننٹ جنرل اور اس دور کے آغاز، 1970 یا 1971 میں مشرقی پاکستان میں افواج کے کمانڈر تھے۔ انہوں نے پاکستانی کمان کا شہریوں پر فائرنگ کا حکم ماننے سے انکار کر دیا تھا اور اس کے نتیجے میں فوج سے نکال دیے گئے تھے۔ اس بارے میں اگر کچھ معلومات حاصل ہو جائیں تو اچھا ہو گا۔ پاکستانی فوج اور حکومت تو ان کے فوجی کیریئر کے بارے میں ایم ایم عالم مرحوم سے بھی زیادہ خاموش ہے۔ میڈیا پر ان کے فوجی کیریئر کے بارے میں ان کی وزارتِ خارجہ کے دور میں دورۂ ہندوستان کے واقعے کا ذکر آیا تھا جب انہیں لیفٹیننٹ کہہ کر مخاطب کیا گیا تھا، لیکن میں یہ ذکر کہیں نہیں دیکھ سکا تھا کہ وہ اپنے نام کے ساتھ ریٹائرڈ فوجیوں ولا سابقہ کیوں استعمال نہیں کرتے۔ یہ واقعہ بھی شاید ہندوستانی میڈیا کی وجہ سے سامنے آیا تھا۔

بنگلہ دیش میں 1971 کے واقعات پر چھپنے والی 20 سے زیادہ کتابیں پاکستان میں ممنوع ہیں، ان کے نام اگر کسی کو معلوم ہوں۔

BBC نے 1971 کے واقعات پر ایک ڈوکیومنٹری میں پاکستانی فوج کے رویے کے بارے میں کسی پہاڑی مقام پر فوجی کلب کی تصاویر دکھائی تھیں جس میں کلب کے باہر ایک بورڈ پر لکھا تھا:
"Dogs and Bengalis not allowed.", اس جگہ اور ڈوکیومنٹری کا نام اگر کسی کو معلوم ہو۔
 

ابن جمال

محفلین
۔ بہرحال شواہد کے مطابق مغربی پاکستانی فوج نے یقیناً 26 ہزار سے زیادہ اور 3 ملین سے کم لوگ مارے۔
ہنسی آرہی ہےبے تحاشہ!
کہاں 26ہزار کی حقیر تعداد اورکہاں تیس لاکھ کی بڑی تعداد!
پاکستانی فوج کے مظالم ایک طرف!
لیکن خود بنگالیوں نے بہار اوریوپی کے مہاجرمسلمانوں کے ساتھ درندوں کو شرمادینے والاجوسلوک کیاہے ۔کیاکبھی اس پر بنگالیوں کو شرم آئی ہے؟
میں پاکستانی فوج کے مظالم کو درست نہیں کہتا
لیکن بنگالیوں کی منافقت کو بھی اچھانہیں سمجھتا

اپنے اوپر ظلم ہواتومظلومیت کا ڈھنڈوراپیٹیں لیکن اپنے اوراپنی عوام کےذریعہ کئے گئے ظلم پراندھے بہرے اورگونگے بن جائیں۔
 
بی بی سی پر متعدد مرتبہ یہ خبر شایع ہو چکی ہے کہ تحقیقات کے مطابق مرنے والوں کی تعداد 30 لاکھ نہیں 3 سے پانچ لاکھ تھی۔ اور جتنے باغی مارے گئے اتنے ہی باغیوں نے بھی مارے۔
30 لاکھ کی تعداد بنگالی حکومت کی دروغ گوئی ہے۔
بہرحال جس نے بھی جو بھی ظلم کیا غلط کیا اور قابل مذمت ہے۔
 
Top