شیر یا دیگر گوشت خور درندے محض گوشت ہی ہضم کر سکتے ہیں۔ اس لئے گوشت چاہے کسی جانور کا ہو یا انسان کا، درندے کے لئے کوئی فرق نہیں رکھتا۔ البتہ انسان چونکہ درندوں کی فطری خوراک نہیں، اس لئے یہ کہنا غلط ہے کہ انسان جانوروں کی پسندیدہ خوراک ہے کہ ہر درندے کی جسامت، طاقت اور جسمانی ساخت کے مطابق اس کی خوراک قدرتی طور پر پائی جاتی ہے۔ البتہ ببر شیر ایسا جانور ہے جو اکثر کسی وجہ کے بغیر بھی انسان کو کھانے پر آمادہ ہو جاتا ہے
صرف خون چوستا ہے یا گوشت بھی کھاتا ہے ۔کلیلہ دمنہ میں غالبا پڑھا تھا کہ شیر صرف خون چوستا ہے ۔شیر یا دیگر گوشت خور درندے محض گوشت ہی ہضم کر سکتے ہیں۔ اس لئے گوشت چاہے کسی جانور کا ہو یا انسان کا، درندے کے لئے کوئی فرق نہیں رکھتا۔ البتہ انسان چونکہ درندوں کی فطری خوراک نہیں، اس لئے یہ کہنا غلط ہے کہ انسان جانوروں کی پسندیدہ خوراک ہے کہ ہر درندے کی جسامت، طاقت اور جسمانی ساخت کے مطابق اس کی خوراک قدرتی طور پر پائی جاتی ہے۔ البتہ ببر شیر ایسا جانور ہے جو اکثر کسی وجہ کے بغیر بھی انسان کو کھانے پر آمادہ ہو جاتا ہے
خون چوسنا ایک محاورہ ہے شاید۔ درندوں میں شاید چیتا اور تیندوا ہی ایسے جانور ہیں جو اپنے شکار کا خون پیتے ہیں۔ ویسے زیادہ تر درندے اپنے شکار کو گلے سے پکڑتے ہیں تو ان کا مقصد سانس کی نالی یا ونڈ پائپ کو دبانا ہوتا ہے۔ ان کے نوکیلے دانت عموماً جب گلے میں گڑتے ہیں تو شہ رگ یا کیروٹڈ آرٹری میں سوراخ کر سکتے ہیں۔ یہ دونوں رگیں دماغ کو خون لے جاتی ہیں اور سانس کی نالی کے دونوں طرف موجود ہوتی ہیں۔ جب وہاں سے خون بہتا ہے تو ظاہر ہے کہ درندوں کا منہ اسی زخم پر ہی ہوتا ہے۔ شاید اسی وجہ سے ایسا مشہور ہوا ہو؟صرف خون چوستا ہے یا گوشت بھی کھاتا ہے ۔کلیلہ دمنہ میں غالبا پڑھا تھا کہ شیر صرف خون چوستا ہے ۔
یہ اصل میں اپنی خالہ بلی کی غیرت میں آکر ایسا کرتا ہے۔ اسنے شیر کو درخت پر چڑھنا نہیں سکھایا اور جنگل سے بھاگ کر انسانوں کی آبادیوں میں پناہ گزین ہو گئی۔ بلی وہ واحد جانور ہے جسے انسان نے جنگل سے نہیں اٹھایا۔ یہ خود ہمارے پاس چل کر آئی ہے۔البتہ ببر شیر ایسا جانور ہے جو اکثر کسی وجہ کے بغیر بھی انسان کو کھانے پر آمادہ ہو جاتا ہے
شیر یا دیگر گوشت خور درندے محض گوشت ہی ہضم کر سکتے ہیں۔ اس لئے گوشت چاہے کسی جانور کا ہو یا انسان کا، درندے کے لئے کوئی فرق نہیں رکھتا۔ البتہ انسان چونکہ درندوں کی فطری خوراک نہیں، اس لئے یہ کہنا غلط ہے کہ انسان جانوروں کی پسندیدہ خوراک ہے کہ ہر درندے کی جسامت، طاقت اور جسمانی ساخت کے مطابق اس کی خوراک قدرتی طور پر پائی جاتی ہے۔ البتہ ببر شیر ایسا جانور ہے جو اکثر کسی وجہ کے بغیر بھی انسان کو کھانے پر آمادہ ہو جاتا ہے
گوشت خور درندے ایک دوسرے کو جب بھی موقع ملے، ہڑپ کر جاتے ہیں۔ جنگلی کتے اس کی بہترین مثال ہیں کہ وہ شیر، چیتا، تیندوا، لگڑبگھا وغیرہ، کسی بھی جاندار کو نہیں چھوڑتے۔ جم کاربٹ اور شاید کینتھ اینڈرسن کی کتب میں شیروں کے ہاتھوں چیتوں کی ہلاکت یا ان کو کھایا جانا لکھا ہوا ہے۔ افریقی سوانا میں بھی یہ مناظر اکثر دیکھنے کو مل جاتے ہیںکیا شیر کو ریچھ یا بھیڑیے کا گوشت کھاتے عام دیکھا گیا ہے یا وہ اکثر سبزی خور جانوروں ہی کا شکار کرتا ہے۔
اکثر شیر جو آدمخور ہوتے ہیں وہ اپنے کمزور دانتوں یا کسی دوسری جسمانی معذوری کے باعث ہی آدمخوری پر مجبور ہوتے ہیں۔
اس کے علاوہ ایک اور کتاب میں پڑھا ہے کہ ایک بنگال ٹائیگر کی عادت تھی کہ وہ دیگر مادہ بنگال ٹائیگرز کو مار کر کھا جاتا تھاگوشت خور درندے ایک دوسرے کو جب بھی موقع ملے، ہڑپ کر جاتے ہیں۔ جنگلی کتے اس کی بہترین مثال ہیں کہ وہ شیر، چیتا، تیندوا، لگڑبگھا وغیرہ، کسی بھی جاندار کو نہیں چھوڑتے۔ جم کاربٹ اور شاید کینتھ اینڈرسن کی کتب میں شیروں کے ہاتھوں چیتوں کی ہلاکت یا ان کو کھایا جانا لکھا ہوا ہے۔ افریقی سوانا میں بھی یہ مناظر اکثر دیکھنے کو مل جاتے ہیں
آدم خور شیر یعنی بنگال ٹائیگر تقریباً ہمیشہ ہی کسی زخم، بیماری یا معذوری کی وجہ سے آدم خور بنتا ہے جبکہ افریقی ببر شیر موقع پرست ہوتا ہے۔ اگر انسان مل جائے تو اسے ہڑپ کر سکتا ہے