یوسف-2
محفلین
http://jang.com.pk/jang/aug2013-daily/07-08-2013/u4726.htm
پس نوشت: فرض کرلیں کہ یہی تعلیمی کارنامہ کسی ”مولوی“ نے انجام دیا ہوتا تو ۔ ۔ ۔
پس نوشت: فرض کرلیں کہ یہی تعلیمی کارنامہ کسی ”مولوی“ نے انجام دیا ہوتا تو ۔ ۔ ۔
فرض (ادا) کرنا گناہ نہیں ہےایسا فرض کرنا گناہ ہے جی۔ اس لئے فرض کرنے سے معذرت۔
ایسا کسی مولوی نے کیا ہوتا تو فوراً ڈگری اور اس کے طریقہء کار پر بحث شروع ہوجاتی، پھر ڈگری دینے والے ادارے پر بحث ہوتی، پھر اس ادارے کو کھولنے کا اجازت نامہ دینے والے محکمے پر بحث ہوتی، پھر تعلیم کے نظام پر بحث ہوتی، پھر حکومتی و سرکاری عہدیداروں کے اس حوالے سے رویوں پر بحث ہوتی اور بالآخر یہ ’ثابت‘ کردیا جاتا ہے کہ خبر بالکل بکواس اور لغو ہے، خبر دینے والا رپورٹر گھامڑ ہے، خبر کی تدوین کرنے والا سب ایڈیٹر بددیانت ہے اور خبر چھاپنے والا ادارہ اپنے ہونے کا جواز ہی کھوچکا ہے، لہٰذا خبر چھاپنے والے ادارے کو فوراً بند کیا جائے، سب ایڈیٹر کو اسّی کوڑے مارے جائیں، رپورٹر کو کم ازکم پانچ سال قیدِ بامشقت کی سزا دی جائے، اس تاریخ کو شائع ہونے والے اخبار کی تمام تر کاپیاں ادارے کے دفتر، پریس برانچ اور لائبریریوں کے آرکائیوز سے نکال کر جلادی جائیں، پھر اس سب کے بعد حکومتی و سرکاری عہدیداروں پر تاقیامت لعن طعن کی جائے، تعلیم کے نظام کو بودا اور فرسودہ قرار دیا جائے، ادارہ کھولنے والے محکمے کے تمام افسران و اہلکاران کو ژوب، لورا لائی یا لنڈی کوتل ٹرانسفر کردیا جائے، ڈگری دینے والے ادارے کو فی الفور بند کر کے اس کی جگہ اینٹیں بنانے کا بھٹہ لگادیا جائے، ڈگری کو نذرِ آتش کردیا جائے اور باقی بچے مولوی صاحب تو اس سب کے بعد وہ ویسے ہی نشانِ عبرت بن چکے ہوں گے، لہٰذا انہیں مزید کچھ کہنے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔
پر ہن معاملہ بچی دا ائے۔۔۔ایسا کسی مولوی نے کیا ہوتا تو فوراً ڈگری اور اس کے طریقہء کار پر بحث شروع ہوجاتی، پھر ڈگری دینے والے ادارے پر بحث ہوتی، پھر اس ادارے کو کھولنے کا اجازت نامہ دینے والے محکمے پر بحث ہوتی، پھر تعلیم کے نظام پر بحث ہوتی، پھر حکومتی و سرکاری عہدیداروں کے اس حوالے سے رویوں پر بحث ہوتی اور بالآخر یہ ’ثابت‘ کردیا جاتا ہے کہ خبر بالکل بکواس اور لغو ہے، خبر دینے والا رپورٹر گھامڑ ہے، خبر کی تدوین کرنے والا سب ایڈیٹر بددیانت ہے اور خبر چھاپنے والا ادارہ اپنے ہونے کا جواز ہی کھوچکا ہے، لہٰذا خبر چھاپنے والے ادارے کو فوراً بند کیا جائے، سب ایڈیٹر کو اسّی کوڑے مارے جائیں، رپورٹر کو کم ازکم پانچ سال قیدِ بامشقت کی سزا دی جائے، اس تاریخ کو شائع ہونے والے اخبار کی تمام تر کاپیاں ادارے کے دفتر، پریس برانچ اور لائبریریوں کے آرکائیوز سے نکال کر جلادی جائیں، پھر اس سب کے بعد حکومتی و سرکاری عہدیداروں پر تاقیامت لعن طعن کی جائے، تعلیم کے نظام کو بودا اور فرسودہ قرار دیا جائے، ادارہ کھولنے والے محکمے کے تمام افسران و اہلکاران کو ژوب، لورا لائی یا لنڈی کوتل ٹرانسفر کردیا جائے، ڈگری دینے والے ادارے کو فی الفور بند کر کے اس کی جگہ اینٹیں بنانے کا بھٹہ لگادیا جائے، ڈگری کو نذرِ آتش کردیا جائے اور باقی بچے مولوی صاحب تو اس سب کے بعد وہ ویسے ہی نشانِ عبرت بن چکے ہوں گے، لہٰذا انہیں مزید کچھ کہنے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔