عمران اسلم
محفلین
پاپائیت کی گنگا میلی ہو گئی!
یہ ایک ایسے غیر معمولی واقعہ کا ظہورہےجس کی نظیر پچھلی چھ صدیوں میں نہیں ملتی ۔ اس پر عالمی ،ملکی اور مقامی میڈیا کا جانتے بوجھتے نظر انداز کیے رکھنا اسے مشکوک بھی کرتا ہے اور سوالوں کوبھی جنم دیتا ہے۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ایک باقاعدہ سازش کے تحت اس معاملے کو نظر انداز کیا گیاتاکہ ساری دنیا اور بالخصوص عیسائی اس کی طرف متوجہ نہ ہو سکیں اور نہ ہی ان کے درمیان اس کی وجوہات اور اسباب پر بحث ہو سکے۔
2005ءمیں کرسی سنبھالنے والے پوپ بینیڈکٹ 16 نے کسی ٹھوس وجہ کے بعد اچانک ہی اپنے منصب سے علیحدگی اختیار کر لی ہے۔کرسی سنبھالنے کے آٹھ سال بعدبھی پادریوں اور راہبوں کے جنسی اور مالی سکینڈلز پر قابو نہیں پایا جا سکا ہے۔ الگ ہوتے ہوئےپوپ کا بیان اندر کی کہانی کہتا نظر آتا ہے اور اس بات کا غماز ہے کہ یہ استعفی ٰ کس سنجیدہ صورتحال میں دیا جا رہاہے۔پوپ کا کہنا ہے کہ یہ فیصلہ اچانک نہیں ہوا، بلکہ یہ ضمیر کا امتحان تھا " میرا ضمیر بار بار اللہ کے سامنے پیش ہوا ، اور مجھے اس بات کا یقین ہو گیا کہ عمر کے زیادہ ہونے کی بنا پر میرے اعضاءاس قابل نہیں رہے کہ کلیساکی مزید خدمت کر سکیں۔" اگرپوپ بینیڈکٹ کی عمر اور حالت کا موازنہ جان پال دوئم سے کیا جائے ہمیں کافی مماثلت نظر آتی ہے۔ جان بیمار اورذمہ داریوں سے تھک چکا تھا، اس کے باوجود وہ اس بات پر قائم تھا کہ کتنی بھی وجوہات ہوں اور کیسا بھی دباؤ کیوں نہ ہولیکن پوپ کے منصب سے دستبرداری جائز نہیں ہے۔اس لیے کہ اس کی اس منصب سے علیحدگی پورے کیتھولک چرچ اور پاپائیت کےپورے ادارے پر اثر انداز ہو گی، اور تاریخ و تجربہ دونوں اس پر گواہ ہیں ۔چنانچہ "پوپ"کا لفظ یونانی زبان سے ماخود ہے جس کا مطلب باپ ہے، اور کلیسا کے تصور کے مطابق یہ غلطی سے پاک ہوتاہے۔اسی طرح اسے عیسی علیہ السلام کا نائب اور پطرس حواری کا خلیفہ ماناجاتا ہے ،وہ ویٹی کن کا پوپ ، خدا کے خادموں کا خادم، پیٹر آرک آف ویسٹ اورپاپائے روم ہوتا ہے ۔۔۔۔ اس کا منصب مسیح علیہ السلام کی طرف سے تاریخی طور پر مقرر کردہ ہے۔جان کا اس بابت خیال تھا کہ پوپ کے اپنی زندگی میں ہی منصب چھوڑنے سے ان سارے عقائد کی جڑ کٹ جاتی ہے۔
ایسےواقعات کلیسا کی پندرہ صدیوں پر محیط تاریخ میں محض چاردفعہ پیش آئےہیں کہ پوپ نے خود منصب چھوڑ دیا، یا اسے زبردستی معزول کر دیا گیا۔ اس سے جڑی حقیقت یہ ہے کہ ایسے ہر واقعے کے بعد کیتھولک چرچ بڑے پیمانے پر اندرونی شکست و ریخت کا شکار ہوا۔ چنانچہ بینیڈکٹ نہم جو پیدائشی طور پر روم کا باشندہ تھا،1045ء میں 33 سال کی عمر اپنے منصب کو چھوڑنے کا اعلان کرتا ہے تاکہ اس کے لیے شادی کرنا ممکن ہو سکے۔آنے والےپوپ گریگوری ششم نے بینیڈکٹ نہم کے مال واسباب اپنے قبضے میں کر کے اس کے بدلے اس کو علیحدگی کا پروانہ دے دیا۔اس پر پادریوں اور راہبوں کی بڑی تعداد برہم ہو کر فلسطین کے مشرقی کلیسا کی صورت میں الگ ہو گئی جن کا موقف یہ ہے کہ پاپائے اعظم کا منصب عورتوں اور خواہشات کے سبب چھوڑ دینا بھی ایسا ہی ناقابل معافی جرم ہے جیسا کہ مال کے بدلے چھوڑ دینا! اس عہدے کے غلط استعمال کرنے والے کیلئے معافی کی کوئی گنجائش ہی نہیں ہے۔
دوسری دفعہ اسی پوپ گریگوری ششم کو اپنا عہدہ چھوڑنا پڑاجس نے بینیڈکٹ نہم کا مال لے کر اس کے بعد اس کی جگہ لی تھی۔ اس پوپ کی معزولی محض ایک سال بعد 1046ء میں ہوئی۔ ہوا یوں کہ سابقہ پوپ صاحب اپنی زوجہ محترمہ (جن کی خاطر انہوں نے پوپ کا عہدہ چھوڑ دیا تھا !)کے ساتھ نباہ کرنے میں ناکام ہو گئے!چنانچہ سابقہ پوپ کی واپسی ہوئی اور کئی مہینے تک دونوں ہی روم میں اپنی اپنی گدیوں کے "اصلی" اور "شرعی" ہونے کے دعوے دار بنے رہے!اس سال کے موسم خزاں میں روم کے مذہبی پیشواوں نے "مقدس سلطنت روم" کے بادشاہ ہنری سوم سے درخواست کی کہ چرچ کے پیروکارؤں کو ان دونوں پوپ حضرات کی سر پھٹول سے نجات دلائی جائے۔نتیجتا َگریگوری ششم کو مجبورا اپنا عہدہ چھوڑنا پڑا اور اسی کے ساتھ ساتھ اطالوی پادریوں کو بھی جرمن پادریوں کے حق میں جگہ خالی کرنی پڑی۔
تیسری بار 1249ء کے سال پوپ سیلسٹائن پنجم نے اپنے انتخاب کے محض پانچ ہی ماہ بعد استعفیٰ دے دیا۔ اس معاملے میں خاص بات یہ ہے کہ اس پوپ کا تعلق سسلی سے تھا اور اسی نے یہ پاپائی فرمان جاری کیا تھا کہ اب سے اسے اور پوپ کے منصب پرآئندہ آنےوالوں کو استعفیٰ دینے کا حق حاصل ہو گا۔ اس حکم کی پہلی مثال فوری طور پرخود قائم کرتے ہوئے اس نے سب سے پہلے خود استعفیٰ دے دیا اور لکھا کہ اس نے کچھ ناگزیر اسباب کی بنا پر یہ منصب چھوڑ اہے، الفاظ کچھ یوں ہیں :" تواضع اور انکساری کی طرف میلان کی وجہ سے ، زندگی اور خود اپنے ضمیر کے تزکیہ کے لیے اور اسی طرح جسمانی اعضاء کی کمزوری،اپنی کم علمی، لوگوں کے انحرافات اور اپنی سابقہ ہدایت یافتہ زندگی کی طرف پلٹ جانے کی تڑپ اس استعفیٰ کا موجب بنی۔"اس کے بعد وہ ایک خانقاہ میں گوشہ نشین ہو گیا۔ ہمارے نزدیک اس کی یہ وضاحتیں پادریوں کے اندرونی طور پر معاملات اور پوشیدہ سکینڈلز کا چھوٹا سا حصہ ہیں جو ظاہر ہو گیا۔ ان پادریوں کی زندگی درست ڈگر پر نہیں تھی، اسی لیے اس کے بعدآنے والے پوپ نے اس کو عزلت نشینی سے نکال کر روم کے ایک محل میں ڈال دیا جہاں کچھ ہفتے بعدلکڑی کے ایک بڑے ٹکڑے سے اس کا سر کچل دیا گیا اور اس کی وفات ہوگئی۔عجیب بات یہ ہے کہ یورپ کے عیسائی ماضی قریب تک سیلسٹائن کے استعفیٰ پر شدید رد عمل کااظہار کرتے رہے ہیں ، یہاں تک کہ اطالوی شاعردانتے اپنی مشہور نظم (Divine Comedy) میں اس کے لیے جہنم میں باقاعدہ ایک جگہ مخصوص دکھاتا ہے، اور اس دن کے بعد آج تک کسی بھی پوپ کو سیلسٹائن کا لقب نہیں دیا گیا! جس طریقے سے سیلسٹائن کا استعفیٰ عمل میں آیا وہ خاصے سارے سوالات کو جنم دیتا ہے، کیا سیلسٹائن نے یکبارگی میں ہی یہ فیصلہ ہنسی خوشی کر لیا تھا؟ اس کے استعفیٰ کے بیان پرغور کرنے والےکو یہ بات بھی مد نظر رکھنی چاہیے کہ سیلسٹائن کا تعلق اس سسلی سے تھا جہاں اسلام کافی عرصہ پہلے آ چکا تھا! اس طرح سےاس شدت معاملہ اور ظلم کی اور بھی سمجھ آتی ہے جو اس کی 86 سالہ پیرانہ سالی کے باوجود اس کے ساتھ روا رکھا گیا۔
چوتھا معاملہ پوپ گریگری دواز دہم کا ہے جس نے 1415ء میں سیاسی وجوہات کی بنا پر استعفی دیا۔ جیسا کہ یورپ عشروں سے دو حصوں میں تقسیم تھا،ایک کا پوپ روم میں جب کہ دوسرا پوپ فرانس کے شہر افیجنون میں تھا۔ اس مذہبی سے زیادہ سیاسی تقسیم کی وجہ سے گریگری کے مستعفی ہونے کے حالات پیدا ہوئے۔ خصوصی شوری نے افیجنون کے پوپ کو تسلیم کرنے سے انکار کیا اور دوبارہ سے کیتھولک چرچ کے ایک پوپ کی سربراہی میں اکھٹے ہونے کو ترجیح دی۔ پانچوں معاملہ بینڈیکیٹ16 کا ہے۔ اور یہ اپنی نوعیت کا حیران کن اور انوکھا واقعہ ہے۔۔
بینیدکٹ کے استعفی کی وجوہات بہت سے ماہرین و ناقدین کے ہاں قبولیت نہیں پا سکیں۔اطاوی شہر پیسا/ڈی مینوسٹا کی جامعہ میں تاریخ کا پروفیسر تجزیہ کرتے ہوئے کہتا ہے۔"بہت سی مشکلات اور مسائل جو پوپ کے استعفی کا باعث بنے ان میں سے مالی بےضابطگیوں کا الزام، جنسی تشدد کے واقعات اور اقتدار کی لڑائی، مذہب کے نفاذ پر اختلاف جیسی اٹکلیں اور الجھنیں مل کر پوپ بینڈیکٹ کو اس موڑ پر لے آئی تھیں جہاں وہ اپنا سیاسی و مذہی کردار ادا کرنے سے قاصر تھا۔ بہت سے اس تجزیے میں یہ بھی شامل کرتے ہیں کہ جنسی تشدد کے واقعات اور مالی بےضابطگیوں کے الزامات کے علاوہ ایک اہم عنصر جو پوپ کی اعصاب شکنی کا باعث بنا وہ اسلامی مبلغین کی یورپ پر یلغار جو ویٹی کن سٹی کے اندر تک جا پہنچی تھی اور مسلمانوں کی تعداد میں ہوشربا اضافہ جو بار بار یہ تنبیہ کرتا ہے کہ اسلام چالیس سال میں دنیا کا آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑا مذہب ہو گا۔
یہ تمام معاملات مل کر قطرہ قطرہ اس کا لبادہ بھگوتے گئے جس کی وجہ سے وہ اپنا مذہبی چولا اتارنے پر مجبور ہوا۔ لیکن ان کے علاوہ بھی کچھ حقائق ہیں جن سے مجبور ہو کر بینڈیکیٹ نے اپنا اثر و رسوخ تیاگ دیا اور اپنی طاقت و قوت سے دستبرداری کا فیصلہ کیا۔ جنسی تشدد کے واقعات کی بازگشت اس کے پیش رو جان پال دوم کے زمانے میں بھی سنی جاتی رہی۔اسی طرح مالی چوریوں کا معاملہ بھی پہلے سے چل رہا ہے۔ اسلام کا بول بالا اس صدی کے شروع میں زیادہ فکر مندی والا تھا، بہ نسبت آج کے جب نائن الیون کے بعد مسلمان ممالک پر جارحیت نے اسلام کی طرف رجحان میں بےپناہ اضافہ کیا تھا۔
بینیڈکٹ16 کے اپنا منصب چھوڑنے کی اصل وجوہات کیا ہیں؟
ہماری رائے میں بینیڈکٹ 16 کی جارحانہ اور آمرانہ سوچ اس سارے قضیے کے انوکھے خاتمے پر منتہج ہوئی۔ بینیڈکٹ جس دھواں دھار طریقے سے کھیتولک چرچ کے معاملات چلا رہا تھا، وہ سیاسی پنڈتوں کے لئے ناقابل قبول تھے۔بینیڈکٹ پاپائیت کو سراغرسانی اور جاسوسی کے محکمے کے طور پر چلا رہا تھا۔اب یہ ایک ایسا عہدہ ہے جو لوگوں کی نظر میں بے پناہ اختیار کا حامل ہونے کے ساتھ ساتھ خطرناک بھی ہے۔ پوپ مذہبی معاملات کی دیکھ بھال کا ذمہ دار بھی ہوتا ہے۔ ایک ایسا عہدہ جو اپنی نوعیت میں سقوط اندلس میں ہسپانوی انکوائیزیشن (محکمہ تفتیش)جیسا کردار ادا کرتا ہے۔ بینیڈکٹ جدیدیت اور سائنسی ارتقاء میں روڑے اٹکانے میں مشہور تھا۔ یہاں تک کہ وہ زوجین کے مابین غیر فطری فعل، اور مانع حمل طریقے استعمال کرنے کا شدید مخالف سمجھا جاتا ہے۔ اسی واسطے کچھ یورپین اسے پوپ الکنڈم بھی کہتے ہیں۔ پادریوں کے واسطے اصول و ضوابط میں اسے بہت سخت سمجھا جاتا ہے۔ 2005 میں جب اس نے اپنا منصب سنبھالا، چرچ کے معاملات مزید بے لچک اور سخت ہوتے گئے ۔خصوصا ان نظریات کے متعلق جنہیں آفاقی سچائیوں کے طور پر قبول کیا جا رہا ہے، بینیڈکٹ کا رویہ جارحانہ اور برداشت سے متصادم تھاجس کی وجہ سے "چرچ" والوں کو دنیا والوں کی سننا پڑتیں۔ یہاں تک کہ پوپ نے اسلامی دنیا سے سیدھی سیدھی ٹکر لے لی جب اس نے اپنے مشہور زمانہ تقریر میں (نعوذ باللہ) حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے متعلق انتہائی نازیبا کلمات استعمال کیے، سرِ عام اسلام اور مسلمانوں پر پھبتیاں کسیں۔ یہاں تک کہ ان مضحکہ خیز اور بچگانہ حرکات نے جامعہ الازہر کو ویٹی کن سے اپنے تعلقات منقطع کرنے پر مجبور کر دیا اور انہوں نے بین المذہبی مذاکرات کو معلق قرار دے دیا۔ پوپ بینیڈکٹ نے مختلف عیسائی گروہوں کے ساتھ بھی مخاصمانہ رویہ اپنائے رکھا۔ اس بات کا پرچار کیا گیا کہ عیسائی مذہب کیتھولک فرقے کے باہر کچھ نہیں۔ جس کی وجہ سے پوری دنیا میں مختلف فرقوں میں بےچینی اور سراسیمگی پھیلی۔یہی نہیں بلکہ اس نے آرتھوڈکس کے آنجہانی پوپ شنودا پر تنقید کی۔ یعنی جو بھی مذہبی گروہ اس کے خیالات سے متفق نہ تھا وہ ہدف تنقید رہا۔ جبکہ یہود کے ساتھ اس کے تعلقات اپنے پیش روؤں کی طرح قریبی اور دوستانہ رہے۔
خلاصہ کلام کہ بینیڈکٹ کی شہرت متنازعہ رہی۔ کیتھولک چرچ کی اسلامائیزیشن کو روکنے میں ناکامی نے اس پر مہر تصدیق ثبت کر دی۔ حقیقت یہی ہے کہ کیتھولک چرچ مغربی یورپ میں بری طرح شکست خوردہ ہے۔ کیتھولک چرچ کے زیرسایہ عیسائیت اس تیزی سے سکڑ رہی ہے کہ 2040ء تک یورپ مسلمان براعظم بن سکتا ہے۔کیتھولک چرچ زمانہ قدیم سے سائنسی ارتقاء کے معاملے میں تنگ نظری کا مظاہرہ کرتا رہا ہے۔ پوپ کے لئے ضرورت اس امر کی ہے کہ تیزی سے وقوع پذیر تبدیلیوں کے ساتھ ساتھ چلا جائے، اپنے دل و دماغ کو تعصب سے پاک رکھا جائےاور مزید ہوشمندی کے ساتھ مسائل کا حل تلاش کیا جائے جس کی وجہ سے عیسائیت دنیا کے نقشوں میں سکڑ رہی ہے۔
اصل لنک: http://www.islammemo.cc/Tkarer/Tkareer/2013/02/18/165125.html
http://www.eeqaz.org/index.php/ahwal/analysis/239-pop-resignatioon
یہ ایک ایسے غیر معمولی واقعہ کا ظہورہےجس کی نظیر پچھلی چھ صدیوں میں نہیں ملتی ۔ اس پر عالمی ،ملکی اور مقامی میڈیا کا جانتے بوجھتے نظر انداز کیے رکھنا اسے مشکوک بھی کرتا ہے اور سوالوں کوبھی جنم دیتا ہے۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ایک باقاعدہ سازش کے تحت اس معاملے کو نظر انداز کیا گیاتاکہ ساری دنیا اور بالخصوص عیسائی اس کی طرف متوجہ نہ ہو سکیں اور نہ ہی ان کے درمیان اس کی وجوہات اور اسباب پر بحث ہو سکے۔
2005ءمیں کرسی سنبھالنے والے پوپ بینیڈکٹ 16 نے کسی ٹھوس وجہ کے بعد اچانک ہی اپنے منصب سے علیحدگی اختیار کر لی ہے۔کرسی سنبھالنے کے آٹھ سال بعدبھی پادریوں اور راہبوں کے جنسی اور مالی سکینڈلز پر قابو نہیں پایا جا سکا ہے۔ الگ ہوتے ہوئےپوپ کا بیان اندر کی کہانی کہتا نظر آتا ہے اور اس بات کا غماز ہے کہ یہ استعفی ٰ کس سنجیدہ صورتحال میں دیا جا رہاہے۔پوپ کا کہنا ہے کہ یہ فیصلہ اچانک نہیں ہوا، بلکہ یہ ضمیر کا امتحان تھا " میرا ضمیر بار بار اللہ کے سامنے پیش ہوا ، اور مجھے اس بات کا یقین ہو گیا کہ عمر کے زیادہ ہونے کی بنا پر میرے اعضاءاس قابل نہیں رہے کہ کلیساکی مزید خدمت کر سکیں۔" اگرپوپ بینیڈکٹ کی عمر اور حالت کا موازنہ جان پال دوئم سے کیا جائے ہمیں کافی مماثلت نظر آتی ہے۔ جان بیمار اورذمہ داریوں سے تھک چکا تھا، اس کے باوجود وہ اس بات پر قائم تھا کہ کتنی بھی وجوہات ہوں اور کیسا بھی دباؤ کیوں نہ ہولیکن پوپ کے منصب سے دستبرداری جائز نہیں ہے۔اس لیے کہ اس کی اس منصب سے علیحدگی پورے کیتھولک چرچ اور پاپائیت کےپورے ادارے پر اثر انداز ہو گی، اور تاریخ و تجربہ دونوں اس پر گواہ ہیں ۔چنانچہ "پوپ"کا لفظ یونانی زبان سے ماخود ہے جس کا مطلب باپ ہے، اور کلیسا کے تصور کے مطابق یہ غلطی سے پاک ہوتاہے۔اسی طرح اسے عیسی علیہ السلام کا نائب اور پطرس حواری کا خلیفہ ماناجاتا ہے ،وہ ویٹی کن کا پوپ ، خدا کے خادموں کا خادم، پیٹر آرک آف ویسٹ اورپاپائے روم ہوتا ہے ۔۔۔۔ اس کا منصب مسیح علیہ السلام کی طرف سے تاریخی طور پر مقرر کردہ ہے۔جان کا اس بابت خیال تھا کہ پوپ کے اپنی زندگی میں ہی منصب چھوڑنے سے ان سارے عقائد کی جڑ کٹ جاتی ہے۔
ایسےواقعات کلیسا کی پندرہ صدیوں پر محیط تاریخ میں محض چاردفعہ پیش آئےہیں کہ پوپ نے خود منصب چھوڑ دیا، یا اسے زبردستی معزول کر دیا گیا۔ اس سے جڑی حقیقت یہ ہے کہ ایسے ہر واقعے کے بعد کیتھولک چرچ بڑے پیمانے پر اندرونی شکست و ریخت کا شکار ہوا۔ چنانچہ بینیڈکٹ نہم جو پیدائشی طور پر روم کا باشندہ تھا،1045ء میں 33 سال کی عمر اپنے منصب کو چھوڑنے کا اعلان کرتا ہے تاکہ اس کے لیے شادی کرنا ممکن ہو سکے۔آنے والےپوپ گریگوری ششم نے بینیڈکٹ نہم کے مال واسباب اپنے قبضے میں کر کے اس کے بدلے اس کو علیحدگی کا پروانہ دے دیا۔اس پر پادریوں اور راہبوں کی بڑی تعداد برہم ہو کر فلسطین کے مشرقی کلیسا کی صورت میں الگ ہو گئی جن کا موقف یہ ہے کہ پاپائے اعظم کا منصب عورتوں اور خواہشات کے سبب چھوڑ دینا بھی ایسا ہی ناقابل معافی جرم ہے جیسا کہ مال کے بدلے چھوڑ دینا! اس عہدے کے غلط استعمال کرنے والے کیلئے معافی کی کوئی گنجائش ہی نہیں ہے۔
دوسری دفعہ اسی پوپ گریگوری ششم کو اپنا عہدہ چھوڑنا پڑاجس نے بینیڈکٹ نہم کا مال لے کر اس کے بعد اس کی جگہ لی تھی۔ اس پوپ کی معزولی محض ایک سال بعد 1046ء میں ہوئی۔ ہوا یوں کہ سابقہ پوپ صاحب اپنی زوجہ محترمہ (جن کی خاطر انہوں نے پوپ کا عہدہ چھوڑ دیا تھا !)کے ساتھ نباہ کرنے میں ناکام ہو گئے!چنانچہ سابقہ پوپ کی واپسی ہوئی اور کئی مہینے تک دونوں ہی روم میں اپنی اپنی گدیوں کے "اصلی" اور "شرعی" ہونے کے دعوے دار بنے رہے!اس سال کے موسم خزاں میں روم کے مذہبی پیشواوں نے "مقدس سلطنت روم" کے بادشاہ ہنری سوم سے درخواست کی کہ چرچ کے پیروکارؤں کو ان دونوں پوپ حضرات کی سر پھٹول سے نجات دلائی جائے۔نتیجتا َگریگوری ششم کو مجبورا اپنا عہدہ چھوڑنا پڑا اور اسی کے ساتھ ساتھ اطالوی پادریوں کو بھی جرمن پادریوں کے حق میں جگہ خالی کرنی پڑی۔
تیسری بار 1249ء کے سال پوپ سیلسٹائن پنجم نے اپنے انتخاب کے محض پانچ ہی ماہ بعد استعفیٰ دے دیا۔ اس معاملے میں خاص بات یہ ہے کہ اس پوپ کا تعلق سسلی سے تھا اور اسی نے یہ پاپائی فرمان جاری کیا تھا کہ اب سے اسے اور پوپ کے منصب پرآئندہ آنےوالوں کو استعفیٰ دینے کا حق حاصل ہو گا۔ اس حکم کی پہلی مثال فوری طور پرخود قائم کرتے ہوئے اس نے سب سے پہلے خود استعفیٰ دے دیا اور لکھا کہ اس نے کچھ ناگزیر اسباب کی بنا پر یہ منصب چھوڑ اہے، الفاظ کچھ یوں ہیں :" تواضع اور انکساری کی طرف میلان کی وجہ سے ، زندگی اور خود اپنے ضمیر کے تزکیہ کے لیے اور اسی طرح جسمانی اعضاء کی کمزوری،اپنی کم علمی، لوگوں کے انحرافات اور اپنی سابقہ ہدایت یافتہ زندگی کی طرف پلٹ جانے کی تڑپ اس استعفیٰ کا موجب بنی۔"اس کے بعد وہ ایک خانقاہ میں گوشہ نشین ہو گیا۔ ہمارے نزدیک اس کی یہ وضاحتیں پادریوں کے اندرونی طور پر معاملات اور پوشیدہ سکینڈلز کا چھوٹا سا حصہ ہیں جو ظاہر ہو گیا۔ ان پادریوں کی زندگی درست ڈگر پر نہیں تھی، اسی لیے اس کے بعدآنے والے پوپ نے اس کو عزلت نشینی سے نکال کر روم کے ایک محل میں ڈال دیا جہاں کچھ ہفتے بعدلکڑی کے ایک بڑے ٹکڑے سے اس کا سر کچل دیا گیا اور اس کی وفات ہوگئی۔عجیب بات یہ ہے کہ یورپ کے عیسائی ماضی قریب تک سیلسٹائن کے استعفیٰ پر شدید رد عمل کااظہار کرتے رہے ہیں ، یہاں تک کہ اطالوی شاعردانتے اپنی مشہور نظم (Divine Comedy) میں اس کے لیے جہنم میں باقاعدہ ایک جگہ مخصوص دکھاتا ہے، اور اس دن کے بعد آج تک کسی بھی پوپ کو سیلسٹائن کا لقب نہیں دیا گیا! جس طریقے سے سیلسٹائن کا استعفیٰ عمل میں آیا وہ خاصے سارے سوالات کو جنم دیتا ہے، کیا سیلسٹائن نے یکبارگی میں ہی یہ فیصلہ ہنسی خوشی کر لیا تھا؟ اس کے استعفیٰ کے بیان پرغور کرنے والےکو یہ بات بھی مد نظر رکھنی چاہیے کہ سیلسٹائن کا تعلق اس سسلی سے تھا جہاں اسلام کافی عرصہ پہلے آ چکا تھا! اس طرح سےاس شدت معاملہ اور ظلم کی اور بھی سمجھ آتی ہے جو اس کی 86 سالہ پیرانہ سالی کے باوجود اس کے ساتھ روا رکھا گیا۔
چوتھا معاملہ پوپ گریگری دواز دہم کا ہے جس نے 1415ء میں سیاسی وجوہات کی بنا پر استعفی دیا۔ جیسا کہ یورپ عشروں سے دو حصوں میں تقسیم تھا،ایک کا پوپ روم میں جب کہ دوسرا پوپ فرانس کے شہر افیجنون میں تھا۔ اس مذہبی سے زیادہ سیاسی تقسیم کی وجہ سے گریگری کے مستعفی ہونے کے حالات پیدا ہوئے۔ خصوصی شوری نے افیجنون کے پوپ کو تسلیم کرنے سے انکار کیا اور دوبارہ سے کیتھولک چرچ کے ایک پوپ کی سربراہی میں اکھٹے ہونے کو ترجیح دی۔ پانچوں معاملہ بینڈیکیٹ16 کا ہے۔ اور یہ اپنی نوعیت کا حیران کن اور انوکھا واقعہ ہے۔۔
بینیدکٹ کے استعفی کی وجوہات بہت سے ماہرین و ناقدین کے ہاں قبولیت نہیں پا سکیں۔اطاوی شہر پیسا/ڈی مینوسٹا کی جامعہ میں تاریخ کا پروفیسر تجزیہ کرتے ہوئے کہتا ہے۔"بہت سی مشکلات اور مسائل جو پوپ کے استعفی کا باعث بنے ان میں سے مالی بےضابطگیوں کا الزام، جنسی تشدد کے واقعات اور اقتدار کی لڑائی، مذہب کے نفاذ پر اختلاف جیسی اٹکلیں اور الجھنیں مل کر پوپ بینڈیکٹ کو اس موڑ پر لے آئی تھیں جہاں وہ اپنا سیاسی و مذہی کردار ادا کرنے سے قاصر تھا۔ بہت سے اس تجزیے میں یہ بھی شامل کرتے ہیں کہ جنسی تشدد کے واقعات اور مالی بےضابطگیوں کے الزامات کے علاوہ ایک اہم عنصر جو پوپ کی اعصاب شکنی کا باعث بنا وہ اسلامی مبلغین کی یورپ پر یلغار جو ویٹی کن سٹی کے اندر تک جا پہنچی تھی اور مسلمانوں کی تعداد میں ہوشربا اضافہ جو بار بار یہ تنبیہ کرتا ہے کہ اسلام چالیس سال میں دنیا کا آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑا مذہب ہو گا۔
یہ تمام معاملات مل کر قطرہ قطرہ اس کا لبادہ بھگوتے گئے جس کی وجہ سے وہ اپنا مذہبی چولا اتارنے پر مجبور ہوا۔ لیکن ان کے علاوہ بھی کچھ حقائق ہیں جن سے مجبور ہو کر بینڈیکیٹ نے اپنا اثر و رسوخ تیاگ دیا اور اپنی طاقت و قوت سے دستبرداری کا فیصلہ کیا۔ جنسی تشدد کے واقعات کی بازگشت اس کے پیش رو جان پال دوم کے زمانے میں بھی سنی جاتی رہی۔اسی طرح مالی چوریوں کا معاملہ بھی پہلے سے چل رہا ہے۔ اسلام کا بول بالا اس صدی کے شروع میں زیادہ فکر مندی والا تھا، بہ نسبت آج کے جب نائن الیون کے بعد مسلمان ممالک پر جارحیت نے اسلام کی طرف رجحان میں بےپناہ اضافہ کیا تھا۔
بینیڈکٹ16 کے اپنا منصب چھوڑنے کی اصل وجوہات کیا ہیں؟
ہماری رائے میں بینیڈکٹ 16 کی جارحانہ اور آمرانہ سوچ اس سارے قضیے کے انوکھے خاتمے پر منتہج ہوئی۔ بینیڈکٹ جس دھواں دھار طریقے سے کھیتولک چرچ کے معاملات چلا رہا تھا، وہ سیاسی پنڈتوں کے لئے ناقابل قبول تھے۔بینیڈکٹ پاپائیت کو سراغرسانی اور جاسوسی کے محکمے کے طور پر چلا رہا تھا۔اب یہ ایک ایسا عہدہ ہے جو لوگوں کی نظر میں بے پناہ اختیار کا حامل ہونے کے ساتھ ساتھ خطرناک بھی ہے۔ پوپ مذہبی معاملات کی دیکھ بھال کا ذمہ دار بھی ہوتا ہے۔ ایک ایسا عہدہ جو اپنی نوعیت میں سقوط اندلس میں ہسپانوی انکوائیزیشن (محکمہ تفتیش)جیسا کردار ادا کرتا ہے۔ بینیڈکٹ جدیدیت اور سائنسی ارتقاء میں روڑے اٹکانے میں مشہور تھا۔ یہاں تک کہ وہ زوجین کے مابین غیر فطری فعل، اور مانع حمل طریقے استعمال کرنے کا شدید مخالف سمجھا جاتا ہے۔ اسی واسطے کچھ یورپین اسے پوپ الکنڈم بھی کہتے ہیں۔ پادریوں کے واسطے اصول و ضوابط میں اسے بہت سخت سمجھا جاتا ہے۔ 2005 میں جب اس نے اپنا منصب سنبھالا، چرچ کے معاملات مزید بے لچک اور سخت ہوتے گئے ۔خصوصا ان نظریات کے متعلق جنہیں آفاقی سچائیوں کے طور پر قبول کیا جا رہا ہے، بینیڈکٹ کا رویہ جارحانہ اور برداشت سے متصادم تھاجس کی وجہ سے "چرچ" والوں کو دنیا والوں کی سننا پڑتیں۔ یہاں تک کہ پوپ نے اسلامی دنیا سے سیدھی سیدھی ٹکر لے لی جب اس نے اپنے مشہور زمانہ تقریر میں (نعوذ باللہ) حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے متعلق انتہائی نازیبا کلمات استعمال کیے، سرِ عام اسلام اور مسلمانوں پر پھبتیاں کسیں۔ یہاں تک کہ ان مضحکہ خیز اور بچگانہ حرکات نے جامعہ الازہر کو ویٹی کن سے اپنے تعلقات منقطع کرنے پر مجبور کر دیا اور انہوں نے بین المذہبی مذاکرات کو معلق قرار دے دیا۔ پوپ بینیڈکٹ نے مختلف عیسائی گروہوں کے ساتھ بھی مخاصمانہ رویہ اپنائے رکھا۔ اس بات کا پرچار کیا گیا کہ عیسائی مذہب کیتھولک فرقے کے باہر کچھ نہیں۔ جس کی وجہ سے پوری دنیا میں مختلف فرقوں میں بےچینی اور سراسیمگی پھیلی۔یہی نہیں بلکہ اس نے آرتھوڈکس کے آنجہانی پوپ شنودا پر تنقید کی۔ یعنی جو بھی مذہبی گروہ اس کے خیالات سے متفق نہ تھا وہ ہدف تنقید رہا۔ جبکہ یہود کے ساتھ اس کے تعلقات اپنے پیش روؤں کی طرح قریبی اور دوستانہ رہے۔
خلاصہ کلام کہ بینیڈکٹ کی شہرت متنازعہ رہی۔ کیتھولک چرچ کی اسلامائیزیشن کو روکنے میں ناکامی نے اس پر مہر تصدیق ثبت کر دی۔ حقیقت یہی ہے کہ کیتھولک چرچ مغربی یورپ میں بری طرح شکست خوردہ ہے۔ کیتھولک چرچ کے زیرسایہ عیسائیت اس تیزی سے سکڑ رہی ہے کہ 2040ء تک یورپ مسلمان براعظم بن سکتا ہے۔کیتھولک چرچ زمانہ قدیم سے سائنسی ارتقاء کے معاملے میں تنگ نظری کا مظاہرہ کرتا رہا ہے۔ پوپ کے لئے ضرورت اس امر کی ہے کہ تیزی سے وقوع پذیر تبدیلیوں کے ساتھ ساتھ چلا جائے، اپنے دل و دماغ کو تعصب سے پاک رکھا جائےاور مزید ہوشمندی کے ساتھ مسائل کا حل تلاش کیا جائے جس کی وجہ سے عیسائیت دنیا کے نقشوں میں سکڑ رہی ہے۔
اصل لنک: http://www.islammemo.cc/Tkarer/Tkareer/2013/02/18/165125.html
http://www.eeqaz.org/index.php/ahwal/analysis/239-pop-resignatioon