قمراحمد
محفلین
امریکی صدر اوباماکو امن کا نوبل انعام دیدیا گیا
2009 کا سب سے بڑا مذاق
روزنامہ جنگ
2009 کا سب سے بڑا مذاق
روزنامہ جنگ
اوسلو…افغانستان میں جنگی کارروائیوں کیلئے مزید 30ہزار فوج بھیجنے والے امریکی صدر بارک اوباما کو امن کا نوبل انعام دے دیا گیا، چیئر مین نوبل امن کمیٹی نے اپنے خطاب میں کہا کہ امریکی صدر بارک اوباما نے دنیا میں قیام امن کیلئے گراں قدر کوششیں سرانجام دیں۔ صدر اوباما نے ایوارڈ وصول کرنے کے بعداسے اپنے لئے اعزاز قرار دیتے ہوئے کہا کہ امریکا حالت جنگ میں ہے، جس کی قیمت چکا نا پڑتی ہے ۔ بعض اوقات طاقت کا استعمال ضروری ہوتاہے۔ تاہم جنگ کے دوران اصولوں کی پاسداری کرنی چاہئے، جنگ اور تشدد مسائل کا مستقل حل نہیں ہوتے۔ انہوں نے کہا کہ جنگ چاہے دو افواج میں ہو نقصان صرف اقوام کا ہوتاہے۔ دنیا میں ایٹمی ہتھیاروں کی موجودگی عالمی امن کیلئے خطرہ ہے۔القاعدہ کو مذاکرات کے ذریعے ہتھیار ڈالنے پر قائل نہیں کیا جاسکتا، دہشت گرد جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کررہے ہیں۔ناکام ریاستوں میں خانہ جنگی کے باعث فوجیوں سے زیادہ شہری ہلاک ہوئے۔ امن کے قیام کیلئے میری جدوجہد شروع ہوگئی۔
انہوں نے کہا کہ دنیا کو ایسا ادارہ قائم کرنا ہوگا جو تیسری جنگ عظیم سے متعلق خدشات دور کرے۔اس سے قبل ناروے کے وزیر اعظم کے ساتھ اوسلو میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ امریکی صدر بارک اوباما نے کہا ہے کہ وہ جولائی دو ہزار گیارہ میں افغانستان سے فوجی انخلا کے آغاز کی ڈیڈ لائن پر قائم ہیں ۔اس معاملے پر کوئی بحث نہیں ہونی چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان سے امریکی فوجیوں کی واپسی کا آغاز جولائی دو ہزار گیارہ سے ہوجائے گا ۔واپسی کی رفتار اور دیگر تفصیلات کا انحصار اُس وقت کے حالات پر ہوگا۔انہوں نے کہا کہ امریکی فورسز افغان شہریوں کے تحفظ اور طالبان کی جنگی صلاحیت کو ختم کرنے کیلئے افغان فورسز کی تربیت میں مدد کریں گی۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ دوسروں کو ساتھ لے کر چلنے کی خارجہ پالیسی پر عمل درآمد کیلئے کام کریں گے جس میں عالمی سطح پر امن و سلامتی کا قیام ، افغانستان میں استحکام ، ماحولیاتی تبدیلیوں کے مسئلے پر قابو پانا اور ایٹمی ہتھیاروں میں کمی بھی شامل ہے ۔ پاکستان میں پانچ امریکی باشندوں کی گرفتاری سے متعلق سوال پر صدر اوباما نے کہا کہ اس معاملے پر تحقیقات جاری ہیں اور وہ کوئی تبصرہ نہیں کریں گے ۔ امن کے نوبل انعام سے متعلق بارک اوباما نے کہا کہ جب انہیں اکتوبر میں نوبل انعام کیلئے نامزد کیا گیا تو وہ حیران رہ گئے ۔ انہیں اس بات میں کوئی شبہ نہیں کہ دوسرے لوگ امن کے نوبل انعام کے زیادہ حق دار ہوسکتے ہیں ۔