2012ء میں قیامت؟ ایک ٹی وی چینل کی قیامت خیزی

کعنان

محفلین
2012ء میں قیامت؟ ایک ٹی وی چینل کی قیامت خیزی


سید علی:

ہندوستان کا بعض ٹی وی چینل عوام میں اضطراب کی لہر دوڑانے اور دہشت پھیلانے نیز سنسنی خیزی کے لئے بڑا بدنام ہے۔ اس کو جنگ و جدال ، جھوٹے پروپیگنڈے اور ہیجان پھیلانے میں بڑی مہارت ہے۔ آئے دن کبھی وہ اپنے اسکرین پر پاکستان سے اور کبھی چین سے سے ہندوستان کو بھڑاتا رہتا ہے اور جنگی ماحول بنائے رکھتا ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ اپنی مقبولیت بڑھانے کے لئے ایسی خبریں گڑھتا رہتا ہے جس کی کوئی ٹھوس بنیاد نہیں ہوتی۔ اس کا تازہ انکشاف یہ ہے کہ قیامت 2012ء میں واقع ہونے والی ہے جس سے بعض لوگوں میں گھبراہٹ اور بے چینی پھیل گئی ہے۔

قیامت تو بعد میں آئے گی اس نے خبریں نشر کرکے پہلے ہی قیامت برپا کردی ہے۔ بعض لوگ تو گھبراہٹ میں موت سے پہلے ہی مرتے دکھائی دینے لگے ہیں، ان کا دل ڈوبنے لگا ہے ، کسی کام میں جی نہیں لگتا، ہر وقت ان کو موت کی آہٹ سنائی دیتی ہے۔ قیامت کا یہ تصور تو عام ہے کہ وہ آئے گی تو بڑی تباہی آئے گی۔ دنیا کا نظام اُلٹ پلٹ ہوجائے گا اور دنیا تباہ ہوجائے گی۔ چینل نے نجومیوں اور جھوٹے غےب دانوں کے حوالے سے انسانوں اور دنیا کی مہلت حیات 2012ء طے کردی ہے۔ یہ تصور تو صحیح ہے کہ قیامت آئے گی تو دنیا کا سارا نظام درہم برہم ہوجائے گا، کوئی نفس زندہ نہیں بچے گا لیکن اس کا تصور کم ہی لوگوں کو ہے کہ مرنے کے بعد اس کو زندہ اُٹھاےا جائے گا، اس کے اچھے اور برے اعمال کا حساب کتاب لیا جائے گا اور اس کے مطابق اسے جزا یا سزا ملے گی۔ البتہ جن لوگوں کو آخرت پر یقین ہے وہ مانتے ہیں کہ جس طرح موت اور قیامت برحق ہے اسی طرح تمام انسانوں کو دوبارہ زندہ کیا جانا اور اپنے عمل کے اعتبار سے جزا یا سزا پانا برحق ہے۔ آخرت کے اسی تصور سے عملی زندگی میں بڑا فرق واقع ہوجاتا ہے۔ ایک کے سامنے آخرت میں جوابدہی کا احساس ہوتا ہے اور وہ ذمہ دارانہ زندگی گزارنے کی کوشش کرتا ہے اور جس کی نگاہ میں اس زندگی کی حیثیت اسی دنیا تک محدود ہے مرنے کے بعد نہ کوئی زندہ کیا جائے گا نہ حساب کتاب ہوگا اس کی زندگی کی راہ عمل مختلف دنیادارانہ ہوتی ہے۔

قیامت کے تعلق سے اسلامی تصور یہ ہے کہ قیامت ضرور آئے گی اور اچانک آئے گی، اس وقت کا علم سوائے اللہ تعالیٰ کے کسی کو نہیں ہے۔ نہ کسی کاہن اور نجومی کو ، نہ میڈیا کو اور نہ ہی سائنسدانوں اور مذہبی پیشواؤں کو ۔ جو اس کے تعلق سے تاریخ متعین کررہے ہیں وہ جھوٹے ، مکار اور خداکے باغی ہیں۔ قیامت کا دن بڑا ہولناک ہوگا۔ اس دن لوگوں کے دیدے پتھرا جائیں گے، چاند اور سورج بے نور ہوجائے گا اور وہ دونوں ملا کر ایک کردیئے جائیں گے، ستارے ماند پڑجائیں گے، آسمان پھاڑ دیا جائے گا، پہاڑ دھنک دیئے جائیں گے، زمین یکبارگی ہلاڈالی جائے گی، سمندر پھٹ جائیں گے ۔ غرضیکہ دنیا کا موجودہ نظام تلپٹ ہو جائے گا کسی کو کسی چیز کا ہوش نہیں رہے گا کوئی کسی کی مدد نہیں کرسکے گا۔ نفسا نفسی کا عالم ہوگا۔ اس دن دولت، طاقت، حکومت اور سرداری کچھ کام نہیں آئے گی۔ اس کے ساتھ اسلامی تصور یہ بھی ہے کہ جب حشر برپا ہوگا تو اگلے پچھلے سارے انسانوں کو زندہ کیا جائے گا۔ ان سے زندگی بھر کے اعمال کا حساب کتاب لیا جائے گا اور جس نے ذرہ برابر نیکی کی ہو گی اس کو اس کا اجر ملے گا اور جس نے ذرہ برابر برائی کی ہوگی اس کو اس کی سزا ملے گی۔ گویا قیامت سے اس دنیاوی زندگی کا خاتمہ ضرور ہوجائے گا اور مہلت عمل ختم ہوجائے گی لیکن انسان یونہی چھوڑ نہیں دیا جائے گا بلکہ انصاف کیا جائے گا اور اس کو اپنے عمل کا پورا پورا صلہ ملے گا۔ اس دن کسی کی سفارش کام نہیں آئے گی ہر شخص اپنے عمل کا بدلہ پائے گا۔

آخرت کا یہی وہ تصور ہے جو مسلمان کو ایک ذمہ دار انسان بناتا ہے اور اس کا ہر قدم آخرت میں جواب دہی کے احساس کے ساتھ اُٹھتا ہے۔ اس کو یقین ہوتا ہے کہ دنیا کی زندگی تو ایک سفر ہے اصل منزل تو آخرت ہے اور یہ دنیا اسی آخرت کی گزرگاہ ہے۔ اس عقیدہ و یقین کے نتےجہ میں مسلمان موت سے گھبراتا نہیں بلکہ ذمہ دارانہ زندگی گزارنے کی کوشش کرتا ہے اور وہ کام کرتا ہے جس سے اللہ تعالیٰ راضی ہو۔ اس کو یقین کامل ہے کہ قیامت برپا ہوگی لیکن اس کا علم صرف اللہ تعالیٰ ہی کو ہے۔ یہی وہ عقیدہ ہے جو مسلمانوں کو یہاں مسافر کی طرح رہنے اور اللہ تعالیٰ کی ہدایت کے مطابق زندگی گزارنے کا داعیہ پیدا کرتا ہے اور یہی وہ تصور ہے جس کے سبب مسلمان کسی کاہن، نجومی یا میڈیا کی گمراہ کن خبروں پر یقین نہیں کرتا۔

قیامت کب آئے گی اس کا علم کسی کو نہیں لیکن قرب قیامت کے سلسلے میں کچھ علامتیں ضرور بتا دی گئی ہیں جس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ قیامت قریب آ چکی ہے۔ بتایا گیا ہے کہ جب دنیا میں خدا سے سرکشی اور بغاوت بڑھ جائے گی ، زناکاری عام ہوجائے گی ، لونڈیاں آقاؤں کو جنم دیں گی، بدکردار حاکم بن بٰٹھیں گے، عورتیں ایسا لباس پہننے لگیں گی جس سے جسم ننگا معلوم ہوگا، بے حیائی و فحاشی بڑھ جائے گی غرضیکہ آیات الٰہی کو جھٹلانے کے نتیجہ میں تمام اخلاقی بندھن ٹوٹنے لگیں گے تو یہ قرب قیامت کی علامت ہوگی۔ احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ جب زمین میں کوئی نیکی کا حکم دینے والا اور برائی سے روکنے والا باقی نہیں رہے گا اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ ادا کرنا چھوڑ دیا جائے گا تو قیامت قائم ہونے سے پہلے اللہ تعالیٰ ایک جانور کے ذریعہ سے آخری حجت قائم کرے گا۔ وہ جانور کہے گا کہ لوگ اللہ تعالیٰ کی ان آیات پر یقین نہیں کرتے تھے جن میں قیامت کے آنے کا اور آخرت برپا ہونے کی خبر دی گئی تھےں تو اب اس کا وقت آن پہنچا ہے اور جان لو کہ اللہ کی آیات سچی تھیں۔ اس جانور کے نکلنے کا وقت کون سا ہوگا اس کے متعلق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ ”آفتاب مغرب سے طلوع ہوگا اور ایک روز دن دہاڑے یہ جانور نکل آئے گا (مسلم)“ ۔

دوسری روایات میں ہے جو مسلم، ابن ماجہ، ترمذی اور مسند احمد وغےرہ میں آئی ہیں اُن میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قیامت کے قریب زمانے میں دجّال کا خروج ، دابة الارض کا ظہور، دُخان (دھواں) اور آفتاب کا مغرب سے طلوع ہونا وہ نشانیاں ہیں جو یکے بعد دیگرے ظاہر ہوں گی۔ ایک اور روایت میں ہے جس کے راوی حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں کہ قیامت قائم نہ ہوگی جب تک نازل نہ ہولیں عیسیٰؑ ابن مریم۔ روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ، ضرور اُتریں گے تمہارے درمیان ابن مریمؑ حاکم عادل بن کر پھر وہ صلیب توڑ ڈالیں گے اور خنزیر کو ہلاک کردیں گے اور جنگ کا خاتمہ کردیں گے اور مال کی وہ کثرت ہوگی کہ اس کا قبول کرنے والا کوئی نہ رہے گا اور ایک سجدہ کرلینا دنیا و مافیہا سے بہتر ہوگا۔

دوسری حدیث میں ہے جو ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ دجال کے خروج کا ذکر کرنے کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عیسیٰؑ ابن مریم نازل ہوں گے پھر وہ خنزیر کو قتل کریں گے اور صلیب کو مٹا دیں گے اس اثناء میں مسلمان اس سے (دجال سے) لڑنے کی تیاری کررہے ہوں گے، صفیں باندھ رہے ہوں گے اور نماز کے لئے تکبیر اقامت کہی جا چکی ہوگی کہ عیسیٰؑ ابن مریم نازل ہو جائیں گے اور نماز میں مسلمانوں کی امامت کریں گے اور اللہ کا دشمن (دجال)ان کو دیکھتے ہی اس طرح گھلنے لگے گا جیسے پانی میں نمک گھلتا ہے اگر عیسیٰؑ اس کو اس کے حال پر چھوڑ دیں گے تو وہ آپ ہی گھل کر مرجائے مگر اللہ اس کو ان کے ہاتھوں سے قتل کرائے گا اور وہ اپنے نیزے میں اس کا خون مسلمانوں کو دکھائیں گے۔

قرب قیامت کے تعلق سے بہت ساری حدیثیں ہیں۔ ایک حدیث میں ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک مجلس میں تشریف لائے اور لوگ آپس میں بات چیت کر رہے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کیا بات ہورہی ہے؟

لوگوں نے عرض کیا ہم قیامت کا ذکر کر رہے تھے۔ فرمایا وہ ہرگز قائم نہیں ہوگی جب تک اس سے پہلے دس نشانیاں ظاہر نہ ہوجائیں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ نشانیاں بتائیں (۱)دھواں (۲)دجّال (۳)دابةالارض (۴)سورج کا مغرب سے طلوع (۵)عیسیٰؑ ابن مریم کا نزول (۶)یاجوج و ماجوج (۷)تےن بڑے خسف زمین کا دھنس جانا ایک مشرق میں (۸)دوسرا مغرب میں (۹)تےسرا جزیرة العرب میں (۱۰) سب سے آخر میں ایک زبردست آگ جو یمن سے اُٹھے گی اور لوگوں کو ہانکتی ہوئی محشر کی طرف لے جائے گی۔

ایک دوسری حدیث میں مجمع بن جاریہ انصاری کہتے ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا کہ ابن مریم دجال کو لد کے دروازے پر قتل کریں گے۔ ایک اور حدیث میں ہے سُمرہ بن جندب حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں ”پھر صبح کے وقت مسلمانوں کے درمیان عیسیٰؑ ابن مریم آجائیں گے اور اللہ دجال اور اس کے لشکروں کو شکست دے گا یہاں تک کہ دیواریں اور درختوں کی جڑیں پکار اُٹھےں گی کہ اے مومن ! یہ کافر میرے پیچھے چھپا ہوا ہے، آ اور اسے قتل کر۔ ایک روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ دجال کو ہلاک کرنے کے بعد حضرت مسیحؑ زمین میں چالیس سال ٹھہریں گے۔

قیامت سے پہلے ان واقعات کا پیش آنا یقینی ہے اور یہ گمراہ کن پروپیگنڈہ اور پیش گوئی کہ قیامت 2012ء میں ہونے والی ہے اسلامی عقیدہ کے خلاف ہے جس پر مسلمان ایک سیکنڈ کے لئے یقین نہیں کرسکتا ۔ بہت ممکن ہے کہ یہ ہوائی قرآن اور حدیث کی پیشن گوئی کو غلط ثابت کرنے اور اسلامی تصور کو مشکوک بنانے کے لئے صہیونی مکاروں نے اُڑائی ہو۔ یہ سمجھ لینا چاہئے کہ قیامت چاہے جب بھی آئے ہر شخص کی موت ہی اس کے لئے قیامت ہے۔ عقلمند آدمی وہ ہے جو مرنے سے پہلے مہلت زندگی کو غنیمت جانے اور نیک عمل کرتا رہے۔
 

dxbgraphics

محفلین
2012ء میں قیامت؟ ایک ٹی وی چینل کی قیامت خیزی


سید علی:





دوسری حدیث میں ہے جو ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ دجال کے خروج کا ذکر کرنے کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عیسیٰؑ ابن مریم نازل ہوں گے پھر وہ خنزیر کو قتل کریں گے اور صلیب کو مٹا دیں گے اس اثناء میں مسلمان اس سے (دجال سے) لڑنے کی تیاری کررہے ہوں گے، صفیں باندھ رہے ہوں گے اور نماز کے لئے تکبیر اقامت کہی جا چکی ہوگی کہ عیسیٰؑ ابن مریم نازل ہو جائیں گے اور نماز میں مسلمانوں کی امامت کریں گے اور اللہ کا دشمن (دجال)ان کو دیکھتے ہی اس طرح گھلنے لگے گا جیسے پانی میں نمک گھلتا ہے اگر عیسیٰؑ اس کو اس کے حال پر چھوڑ دیں گے تو وہ آپ ہی گھل کر مرجائے مگر اللہ اس کو ان کے ہاتھوں سے قتل کرائے گا اور وہ اپنے نیزے میں اس کا خون مسلمانوں کو دکھائیں گے۔



جہاں تک میری ناقص معلومات ہیں امامت حضرت مہدی ہی کریں گے حضرت عیسیٰ علیہ سلام ان سے فرمائیں گے کہ نہیں امیر تم میں سے ہی ہوگا۔علمائے کرام کے مطابق یہاں عیسائیوں پر بھی یہ واضح ہوجائے گا کہ حضرت عیسیٰ بھی اسی آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی امتی کی حیثیت سے آئے ہیں۔

وللہ اعلم۔
 

arifkarim

معطل
بتایا گیا ہے کہ جب دنیا میں خدا سے سرکشی اور بغاوت بڑھ جائے گی ، زناکاری عام ہوجائے گی ، لونڈیاں آقاؤں کو جنم دیں گی، بدکردار حاکم بن بٰٹھیں گے، عورتیں ایسا لباس پہننے لگیں گی جس سے جسم ننگا معلوم ہوگا، بے حیائی و فحاشی بڑھ جائے گی غرضیکہ آیات الٰہی کو جھٹلانے کے نتیجہ میں تمام اخلاقی بندھن ٹوٹنے لگیں گے تو یہ قرب قیامت کی علامت ہوگی۔
کیا آپ زمین پر کوئی ایسا مقام بتا سکتے ہیں‌جہاں مندرجہ بالا نہ ہو رہا ہو؟
 

کعنان

محفلین
أَنزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَسَالَتْ أَوْدِيَةٌ بِقَدَرِهَا فَاحْتَمَلَ السَّيْلُ زَبَدًا رَّابِيًا وَمِمَّا يُوقِدُونَ عَلَيْهِ فِي النَّارِ ابْتِغَاءِ حِلْيَةٍ أَوْ مَتَاعٍ زَبَدٌ مِّثْلُهُ كَذَلِكَ يَضْرِبُ اللّهُ الْحَقَّ وَالْبَاطِلَ فَأَمَّا الزَّبَدُ فَيَذْهَبُ جُفَاءً وَأَمَّا مَا يَنفَعُ النَّاسَ فَيَمْكُثُ فِي الْأَرْضِ كَذَلِكَ يَضْرِبُ اللّهُ الْأَمْثَالَ
اس نے آسمان کی جانب سے پانی اتارا
تو وادیاں اپنی (اپنی) گنجائش کے مطابق بہہ نکلیں،
پھر سیلاب کی رَو نے ابھرا ہوا جھاگ اٹھا لیا،
اور جن چیزوں کو آگ میں تپاتے ہیں، زیور یا دوسرا سامان بنانے کے لئے اس پر بھی ویسا ہی جھاگ اٹھتا ہے،
اس طرح ﷲ حق اور باطل کی مثالیں بیان فرماتا ہے،
سو جھاگ تو (پانی والا ہو یا آگ والا سب) بے کار ہو کر رہ جاتا ہے
اور البتہ جو کچھ لوگوں کے لئے نفع بخش ہوتا ہے
وہ زمین میں باقی رہتا ہے،
ﷲ اس طرح مثالیں بیان فرماتا ہے

13:17
 

ساجد

محفلین
ہاہاہاہا ۔ ہندوستانی میڈیا تو خود قیامت ہے۔ ایسی ایسی بے پرکیاں اڑاتا ہے کہ خدا کی پناہ۔
 

راشد احمد

محفلین
2010 میں قیامت ضرور آئے گی لیکن صرف بھارت کے لئے
مقبوضہ کشمیر، آسام، بنگال، آندھرا پردیش، تامل ناڈو، اترپردیش، اروناچل پردیش ۔بھارتی پنجاب، ہریانہ وغیرہ میں نکسلائیٹ ، مجاہدین، خالصہ فورسز بھارت کے لئے قیامت لیکر آئیں گے اور بھارت کئی حصوں میں بٹ‌جائے گا۔
 

شمشاد

لائبریرین
یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ 2012 کے آخر میں عالمی ایٹمی جنگ شروع ہو جائے جو کسی قیامت سے کم نہ ہو گی۔ اور اگلی جنگ کے لیے کوئی بھی مہلک ہتھیار نہیں بچے گا سوائے ڈنڈے سوٹے کے یا پھر لوگ تلوار اور نیزے بنا لیں گے۔
 
Top