سارہ خان
محفلین
اچھا۔۔۔ایک تصحیح: اس وقت بھی دنیا کے نو بڑے ممالک کی آبادی دنیا کی نصف آبادی سے زیادہ (تقریباََ 56 فیصد) ہے۔
ویسے بڑے ممالک لکھا ہے یہاں اور پاکستان ایک چھوٹا ملک ہے۔۔ لیکن آبادی کے لحاظ سے بڑا ۔۔
اچھا۔۔۔ایک تصحیح: اس وقت بھی دنیا کے نو بڑے ممالک کی آبادی دنیا کی نصف آبادی سے زیادہ (تقریباََ 56 فیصد) ہے۔
یہ ایک پروجیکشن ہے موجودہ ٹرینڈز کو دیکھتے ہوئے۔ ضروری نہیں کہ یہ صحیح ثابت ہو۔ حالات و واقعات بدل بھی سکتے ہیں۔ اسی لئے اکثر ایسی پروجیکشنز ایک کی بجائے کئی بنائی جاتی ہیں۔ اگر آپ رپورٹ کی پی ڈی ایف دیکھیں تو اس میں بھی چار مختلف احوال ہیں۔ بنیادی طور پر سب ملتے جلتے ہی ہیں۔آخری میں یہ کہیں لکھا نظر نہیں آیا کہ
"یہ ساری کہانیاں من گھڑت ہیں، یہ صرف آپ کے منورنجن کے لیے پیش کی جارہی ہیں اور ان کا حقیقت سے کوئی سروکار نہیں ہے"
نئے شہر آباد کرنا آسان نہیں ہوتا کہ شہری آبادی کے گنجان ہونے کے بہت فوائد ہوتے ہیں۔پاکستان کو نئے شہر آباد کرنے کی ضرورت ہے
بغیر ایک اچھے پبلک ٹرانسپورٹیشن سسٹم کے ٹریفک تباہ کن ہو گی۔ٹرافک کاکیا حال ہوگا.
اس کا سب سے زیادہ چانس برِ صغیر ہی میں ہے۔سوچو اگر تیسری عالمی جنگ چھڑ جائے اور 2 سے 4 ہائیڈروجن بم اِدھر اُدھر مار دیئے جائیں تو آبادی کا کیا حال ہونا ہے۔
اس کے لئے پاکستان کا صرف ترقی کرنا ضروری نہیں بلکہ اتنی ترقی کرنا کہ ممالک کا مقابلہ الٹ ہو جائے۔اگر سوچنا ہی ہے تو ایسے سوچیں کہ اگر پاکستان بہت زیادہ ترقی کر لیتا ہے بہت سے بھی زیادہ۔ تب ادھر ادھر بالخصوص امریکا اور ناروے سے لاکھوں تارکین وطن ہجرت کر کے پاکستان آنا چاہیں گے اس وقت کیا حال ہوگا آبادی کا؟
یہ گنجان آباد شہر ہی ہیں جو آج ہماری ترقی کا راز ہیں۔انسانوں کو لوٹنے کا سرمایہ داروں نے یہ بہترین طریقہ ایجاد کیا کہ انہیں گنجان آبادیوں میں دھکیل دیا جائے۔ یوں چھوٹے سے چھوٹے زمین کے ٹکرے، اپارٹمنٹ کی قیمت آسمان کو چھونے لگتی ہے۔ اور صحت و تعلیم کے مسائل الگ۔
یہ مسئلہ شہروں کی آبادی کا آپس میں موازنہ کرنے کے راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ مختلف مملک اور علاقے یہ حدیں مختلف اصولوں پر سیٹ کرتے ہیں۔اہم چیز یہ ہے کہ شہر کی آبادی کا پیمانہ کیا ہے۔ سٹی پراپر یا اربن ایریا یا گریٹر میٹروپولیٹن ایریا۔
ایک پیمانے کے لحاظ سے کراچی دنیا کا چند بڑے شہروں میں سے ایک بن چکا ہے۔ اس کی آبادی دو کروڑ چالیس لاکھ کو تجاوز کئے ہوئے بھی کافی وقت ہو چکا۔ اب تو اس سے بڑھ چکی ہو گی۔
ایک تصحیح: اس وقت بھی دنیا کے نو بڑے ممالک کی آبادی دنیا کی نصف آبادی سے زیادہ (تقریباََ 56 فیصد) ہے۔
اور ماحولیاتی آلودگی و تباہی کا باعث بھییہ گنجان آباد شہر ہی ہیں جو آج ہماری ترقی کا راز ہیں۔
اور ماحولیاتی آلودگی و تباہی کا باعث بھی
یہ درست نہیں ہے۔ میں نے کئی سال ناروے کے قصبوں اور دیہات میں گزارے ہیں۔ اور یہاں کا معیار زندگی شہروں سے برا نہیں پایا۔ شہروں میں ایک پلس پوائنٹ ضرور ہے کہ کام کے مواقع زیادہ ہیں لیکن اس زیادہ کمائی کا خمزیادہ خراب صحت اور رہائش کے بڑھتے اخراجات کی صورت میں ادا کرنا پڑتا ہے۔بڑے شہروں کا سب سے بڑا فائدہ یہ سامنے آیا کہ معیارِ زندگی بہتر کرنے والی جدید ترین سہولیات کو زیادہ سے زیادہ انسانوں تک پہنچانا آسان ہو گیا۔
بہتر علاج یا ہسپتالوں تک رسائی
بہتر تعلیمی اداروں تک آسان رسائی
تیز تر انٹرنیٹ اور موبائل فون کنیکٹیویٹی
ترقی اور روزگار کے بہتر مواقع
وغیرہ وغیرہ
یہ کافی اہم بات ہے۔شہروں میں ایک پلس پوائنٹ ضرور ہے کہ کام کے مواقع زیادہ ہیں
یہ درست نہیں ہے۔ میں نے کئی سال ناروے کے قصبوں اور دیہات میں گزارے ہیں۔ اور یہاں کا معیار زندگی شہروں سے برا نہیں پایا۔ شہروں میں ایک پلس پوائنٹ ضرور ہے کہ کام کے مواقع زیادہ ہیں لیکن اس زیادہ کمائی کا خمزیادہ خراب صحت اور رہائش کے بڑھتے اخراجات کی صورت میں ادا کرنا پڑتا ہے۔
جی آپکی بات درست ہے۔ مغرب میں گنجان آبادی یکدم نہیں ہوئی تھی۔ کئی سو سال کے ارتقا کے بعد ہوا تھا۔ البتہ تھرڈ ورلڈ میں جس طرح چند دہائیوں میں شہر بن رہے ہیں، یہ کافی تشویش ناک ہے۔عارف بھائی! ناروے یا ایسے ممالک جو ترقی یافتہ ملکوں میں بھی بہترین گردانے جاتے ہیں، ان کی بابت تو آپ کی بات درست ہے۔ وہ تو قطبِ شمالی پہ بھی اپنے لوگوں کو سہولیات دے دیں۔
لیکن دنیا کی زیادہ تر آبادی تو ترقی پذیر یا غریب یا پھر نیم ترقی یافتہ ملکوں میں پائی جاتی ہے۔ وہاں بڑے شہروں میں جو معیارِ زندگی میسر ہے، وہ شہروں سے باہر بعید از امکان ہے۔
یقینی طور پہ بڑے شہروں کے پھیلنے سے نقصانات بھی ہوئے ہیں جیسے ماحولیاتی آلودگی، منظم جرائم، گینگ وارز۔ لیکن بحیثیتِ مجموعی فوائد کوزیادہ ہی گردانا جا سکتا ہے۔
دنیا کے حالات کو دیکھتے ہوئے تو مڈل ایسٹ اور یورپ سائیڈ پر زیادہ امکانات ہیں۔اس کا سب سے زیادہ چانس برِ صغیر ہی میں ہے۔
پاکستان اور مغربی دنیا میں ان باتوں کو لے موازنہ اگلی کئی دہائیوں تک تو ممکن دکھائی نہیں دیتا۔ترقی سے مراد اگر صرف معاشی ترقی ہے تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ہاں اگر معاشی، صنعتی، علمی، سیاسی، لبرل ترقی کی بات ہے تو بھی بات موازنے پر آئے گی کہ مغربی ممالک کے مقابلے میں کیسا ہے۔