سید شہزاد ناصر
محفلین
زبان کسی بھی قوم کے لئے نہایت اہمیت کی حامل ہے۔یہ ناصرف جذبات کے اظہار و خیال کا ذریعہ ہے بلکہ اقوام کی شناخت بھی زبان سے ہی ہوتی ہے۔ پاکستان، ہندوستان، امریکہ، افریکہ، چین، روس، فرانس، جرمنی، ایران، اٹلی و دیگر ممالک کی اقوام کی اپنی علیحدہ زبانیں ہیں، جو کہ اقوام کے افراد کی نشاندہی کرتی ہیں۔ اسی طرح ہر ملک کی ایک قومی زبان ہوتی ہے جس سے ہر ملک کے افراد کی نشاندہی ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر پاکستان کی قومی زبان اردو جبکہ ہندوستان کی قومی زبان ہندی ہے۔ ان دونوں ممالک کے افراد اپنی زبانوں سے پہچانے جاتے ہیں جبکہ دونوں ممالک کی قومی زبان کے علاوہ کچھ اور زبانیں بھی ہیں جیسے پاکستان میں بولی جانے والی زبانوں میں سندھی، بلوچی، پنابی، پشتو و دیگر اور ہندوستان میں بولی جانے والی زبانوں میںتامل، تیلوگ،کنادا، ملایالم، سنسکرت ودیگر۔
دنیا بھر میں ہر سال 21 فروری کو زبانوں کی پہچان اور ان کی اہمیت سے آگاہی کے لئے مادری زبانوں کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ نومبر 1999ء کو یونیسکو کی انسانی ثقافتی میراث کے تحفظ کی جنرل کانفرنس کے اعلامیہ میں 21 فروری کو مادری زبانوں کا عالمی دن منانے کا اعلان کیا گیا تھا۔ رواں سال بھی بھی ان دن کی مناسبت سے دنیا بھر کے ممالک میںمحفلوں کا انعقاد کیا جا رہا ہے۔ پاکستان کے متعدد شہروں کی یونیورسٹیز، کولجز اور اسکولز و دیگر سیاسی و سماجھی اداروں میں زبانوں سے متعلق آگاہی کے لئے سیمینارز کا انعقاد کیا جائے گا۔ پاکستان میں سب سے زیادہ بولی جانے والی زبان پنجابی ہے جسے 48 فیصد افراد بولتے ہیں جبکہ 12 فیصد سندھی، 10 فیصد سرائیکی، انگریزی، اردو، پشتو 8 فیصد، بلوچی 3 فیصد، ہندکو 2 فیصد اور ایک فیصد براہوی زبان کا استعمال کرتے ہیں۔
زبان ایک ایسا سماجی عطیہ ہے جو زمانے کے ساتھ ساتھ ایک نسل سے دوسری نسل کو ملتا رہتا ہے۔ انسان کی یاداشت بدل جاتی ہے لیکن زبان نہیں بدلتی، وہ یاداشت کھو سکتا ہے لیکن اپنی زبان نہیں بھول سکتا۔ بلاشبہ زبان کسی بھی انسان کی ذات اور شناخت کا اہم ترین جزو ہے اسی لیئے اسے بنیادی انسانی حقوق میں شمار کیا جاتا ہے۔ اقتصادی، سماجی اور ثقافتی حقوق پر بین الاقوامی معاہدے کے مشمولات کے علاوہ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے تعلیم، سائنس اور ثقافت کی قرار دادوں کی صورت میں اس حق کی ضمانت دی گئی ہے۔ قومیتی شناخت او ر بیش قیمت تہذیبی و ثقافتی میراث کے طور پر مادری زبانوں کی حیثیت مسلمہ ہے چنانچہ مادری زبانوں کے فروغ اور تحفظ کی تمام کوششیں نہ صرف لسانی رنگارنگی اور کثیر اللسانی تعلیم کی حوصلہ افزائی کرتی ہیں بلکہ یہ دنیا بھر میں پائی جانے والی لسانی اور ثقافتی روایات کے بارے میں بہتر آگہی بھی پیدا کرتی ہیں اور عالمی برادری میں افہام و تفہیم،رواداری اور مکالمے کی روایات کی بنیاد بنتی ہے۔
مقامی یا مادری زبانوں کوانسان کی دوسری جلدبھی کہا جاتا ہے۔ مادری زبانوں کے ہر ہرلفظ اور جملے میں قومی روایات، تہذیب وتمدن، ذہنی و روحانی تجربے پیوست ہوتے ہیں اسی لیے انہیں ہمارے مادی اور ثقافتی ورثے کی بقاءاور اس کے فروغ کا سب سے موئثر آلہ سمجھا جاتا ہے چنانچہ کسی قوم کو مٹانا ہو تو اس کی زبان مٹا دو تو قوم کی روایات اس کی تہذیب، اس کی تاریخ، اس کی قومیت سب کچھ مٹ جائے گا۔
آکسفورڈ یونیورسٹی کی ایک تحقیق کے مطابق دنیا بھر میں تقریبا 6912 زبانیں بولی جاتی ہیں جن میں سے 516 ناپید ہوچکی ہیں۔ زمانے کی جدت اور سرکاری زبانوں کے بڑھتے ہوئے استعمال سے مادری زبانوں کی اہمیت ماند پڑ رہی ہے۔ دنیا میں سب سے زیادہ زبانیں پاپوانیوگنی میں بولی جاتی ہیں جہاں کل زبانوں کا 12 فیصد یعنی 860 زبانیں بولی جاتی ہیں جبکہ 742 زبانوں کے ساتھ انڈونیشیاءدوسرے، 516 کے ساتھ نائیجیریا تیسرے، 425 کے ساتھ بھارت چوتھے اور 311 کے ساتھ امریکا پانچویں نمبر پر ہے۔ آسٹریلیا میں 275 اور چین میں 241 زبانیں بولی جاتی ہیں۔ مختلف اعدادو شمار کے مطابق دنیا میں سب سے زیادہ بولی جانے والی مادری زبان چینی ہے جسے 87 کروڑ 30 لاکھ افراد بولتے ہیں جبکہ 37 کروڑ ہندی، 35 کروڑ ہسپانوی، 34 کروڑ انگریزی اور 20 کروڑ افراد عربی بولتے ہیں۔ پنجابی 11 اور اردو بولی جانے والی زبانوں میں 19 ویں نمبر پر ہے۔
آج کے جدید دور میں مادری زبان میں تعلیم بنیادی انسانی حق ہے۔ دنیا بھر میں ابتدائی تعلیم مادری زبان میں دیے جانے کا انتظام ہوتا ہے کیونکہ بچے کے ذہن میں راسخ الفاظ اسکے اورنظام تعلیم کے درمیان ایک آسان فہم اور زوداثر تفہیم کا تعلق پیدا کر دیتے ہیں۔مادری زبان میں تعلیم سے بچے بہت جلدی نئی باتوں کو سمجھ جاتے ہیں انہیں ہضم کر لیتے ہیں اور پوچھنے پر بہت روانی سے انہیں دھراکر سنا دیتے ہیں۔ مادری زبان میں دی جانے والی تعلیم بچوں کی تعلیمی صحت پر خوشگوار اثرات مرتب کرتی ہے جس کے نتیجے میں وہ خوشی خوشی تعلیمی ادارے میں بھاگتے ہوئے آتے ہیں اور چھٹی کے بعد اگلے دن کا بے چینی سے انتظارکرتے ہیں۔معلم کے لیے بھی بہت آسان ہوتا ہے کہ مادری زبان میں بچوں کو تعلیم دے اسکے لیے اسے اضافی محنت نہیں کرنی پڑتی اور مہینوں کاکام دنوں یا ہفتوں میں مکمل ہوجاتا ہے۔
مادری زبان کی تعلیم سے خود زبان کی ترویج واشاعت میں مددملتی ہے ،زبان کی آبیاری ہوتی ہے ،نیاخون داخل ہوتا ہے اورپرانا خون جلتارہتاہے جس سے صحت بخش اثرات اس زبان پر مرتب ہوتے ہیں۔انسانی معاشرہ ہمیشہ سے ارتقاءپزیر رہا ہے چنانچہ مادری زبان اگر ذریعہ تعلیم ہو تو انسانی ارتقاءکے ساتھ ساتھ اس علاقے کی مادری زبان بھی ارتقاءپزیر رہتی ہے،نئے نئے محاورے اور روزمرے متعارف ہوتے ہیں ،نیا ادب تخلیق ہوتا ہے،استعمال میں آنے والی چیزوں کے نئے نئے نام اس زبان کا حصہ بنتے رہتے ہیں۔
مگرنہایت افسوس کی بات ہے کہ ہمارا تعلیمی نظام، عدالتی نظام اور دفتری نظام سب کا سب انگریزی زبان میں ہے۔ ہم کب تک انگریزوں کی بنائی ہوئی انگریزی کا پیچھا کریں گے؟ ہمیں اردو زبان کے فروغ کے لئے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ اردو کا مواد انٹرنیٹ پر برائے نام موجود ہے، اس کو فروغ دینے کے لئے بلوگنگ کے رجحان کو بڑھانے کی ضرورت ہے۔
قوم پوری شدت سے چاہتی ہے کہ مقابلے کے امتحانات قومی زبان میں منعقد کیے جائیں،ابتدائی تعلیم مادری و علاقائی زبان میں اور ثانوی و اعلی تعلیم قومی زبان میں دی جائے۔مادری وعلاقائی اور قومی زبانوں کے ادباء و شعرا و محققین کو سرکاری سرپرستی دی جائے انکی تخلیقات کو سرکاری سطح پر شائع کیاجائے اور انکے لیے بھی سرکاری خزانے کے دروازے کھولے جائیں ،دیگرعالمی زبانوں کی کتب کو تیزی سے قومی و علاقائی زبانوں میںترجمہ کیاجائے تاکہ ہماری قوم اندھیروں سے نکل کر وقت کے ساتھ ساتھ دنیامیں اپنا آپ منوا سکے۔
عالمی سطح پر زبانوں کی تعداد اور ان کو بولنے والوں کا تناسب انتہائی غیر متوازن ہے۔ صرف 75 زبانیں ایسی ہیں جن کو بولنے والوں کی تعداد ایک کروڑ سے زائد ہے اور صرف 8 زبانیں ایسی ہیں جن کو بولنے والے افراد کی تعداد 10 کروڑ سے زائد ہے جو کل عالمی آبادی کا 40 فیصد بنتا ہے۔ عالمی سطح پر صرف 100 زبانوں کا استعمال تحریری شکل میں کیا جاتا ہے۔ مادری زبان انسان کی شناخت، ابلاغ، تعلیم اور ترقی کا بنیادی ذریعہ ہے لیکن جب زبان ناپید ہوتی ہے تو اس کے ساتھ مختلف النوع کی ثقافت کا بھی خاتمہ ہو جاتا ہے اور ان میں شامل مختلف روایات، منفرد انداز فکر اور ان کا اظہار بہتر مستقبل کے بیش قیمتی ذرائع بھی ختم ہو جاتے ہیں۔
مضمون بشکریہ
سید محمد عابد
ربط