30 سال تک ہار نہ ماننے والا جاپانی فوجی انتقال کر گیا

فلک شیر

محفلین
جنگِ عظیم دوئم کے بعد 29 سال تک ہتھیار نہ ڈالنے والے جاپانی فوجی 91 سال کی عمر میں ٹوکیو میں انتقال کر گئے ہیں۔

ہیرو اونادا فلپائن میں لوزون کے قریب لوبانگ جزیرے پر 1974 تک رہے کیونکہ ان کا ماننا تھا کہ جنگ ابھی تک ختم نہیں ہوئی ہے۔
آخرکار انہیں واپس آنے پر رضامند کرنے کے لیے ان کے سابق کمانڈنگ افسر کو ان سے ملنے کے لیے لے جایا گیا۔ نامہ نگار بتاتے ہیں کہ جب وہ جاپان لوٹے تھے تو ان کا پرتپاک استقبال کیا گیا تھا۔

دوسری جنگِ عظیم کے اختتام کے قریب امریکی فوج کی شمال کی جانب پیش رفت کے بعد لفٹیننٹ اونادا کا رابطہ اپنی سینیئر کمانڈ سے ختم ہو گیا تھا۔ ہیرو اونادا کے پاس آخری حکم یہ تھا کہ وہ کسی صورت بھی اپنے ہتھیار نہ ڈالیں اور اس حکم پر وہ تین دہائیوں تک عمل کرتے رہے۔

2010 میں ایک انٹرویو میں انہوں نے بتایا تھا کہ ’ہر جاپانی فوجی مرنے کے لیے تیار تھا مگر ایک انٹیلیجنس افسر ہونے کے ناتے مجھے کہا گیا تھا کہ گوریلا جنگ لڑوں اور ہلاک ہونے سے بچوں۔

’میں ایک افسر تھا اور مجھے ایک حکم دیا گیا تھا۔ اگر میں اسے پورا نہ کرتا تو مجھے بہت شرم آتی۔‘

لوبانگ جزیرے پر پیرو اونادا فوجی اڈّوں کے بارے میں معلومات جمع کرتے رہے اور کبھی کبھار ان کی مقامی لوگوں سے جھڑپیں بھی ہوئیں۔

دوسری جنگِ عظیم کے اختتام پر ان کے ہمراہ مزید تین فوجی تھے۔ ان میں سے ایک 1950 میں جنگل سے باہر آگئے تھے اور باقی دو ہلاک ہوگئے تھے۔ ان میں سے ایک کی ہلاکت 1972 میں مقامی فوجیوں سے جھڑپ میں ہوئی۔

140117090339_onoda_japan_304x171_bbc.jpg

جاپان واپس آنے کے بعد ہیرو اونادا نے برازیل جا کر ایک رانچ کھول لی تھی اور جنگل میں زندہ رہنے کی تربیت دینے والے متعدد سکول کھولے

ہیرو اونادا کے ہتھیار ڈالنے کے لیے متعدد بار کوششیں کی گئیں تاہم انہوں نے ان کا کوئی خیال نہیں کیا۔

انہوں نے بتایا کہ ان کی تلاش کے لیے بھیجی جانے والی پارٹیوں اور جاپانی حکومت کی جانب سے جنگل میں گرائے جانے والے پرچوں کو انہوں نے دشمن کی سازش سمجھ کر نظر انداز کر دیا تھا۔

اے بی سی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جو پیغام کاغذی جنگل میں پھینکے گئے تھے ان میں بہت سی غلطیاں تھیں اسی لیے وہ سمجھتے رہے کہ یہ امریکیوں کی سازش ہے۔

آخرکار مارچ سنہ 1974 میں ان کے سابق کمانڈر کو فلپائن بھیجا گیا تاکہ وہ اپنا دیا ہوا حکم تبدیل کر سکیں۔

ہیرو اونادا نے جاپانی جھنڈے کو سلام کیا اور اپنی تلوار واپس کی۔ وہ فوج کے ایک بوسیدہ یونیفارم میں ملبوس تھے۔

ٹوکیو سے بی بی سی کے نامہ نگار کا کہنا تھا کہ اگرچہ فلپائن کی حکومت نے انہیں مکمل معافی دے رکھی تھی تاہم لوبانگ جزیرے پر بہت سے لوگوں نے انھیں جزیرے پر30 افراد کو قتل کرنے کے لیے معاف نہیں کیا تھا۔

جاپان واپس آنے کے بعد ہیرو اونادا نے برازیل جا کر ایک برانچ کھول لی تھی اور جنگل میں زندہ رہنے کی تربیت دینے والے متعدد سکول کھولے۔

ہیرو اونادا شاید وہ آخری جاپانی فوجی ہیں جنھوں نے دوسری جنگِ عظیم میں ہتھیار ڈالے۔
ماخذ
 

x boy

محفلین
بہت زبردست خبر ہے
خاص طور پر میرے لئے کیونکہ ایک ایسا شخص ایسا محب وطن جو اپنی دنیا داری میں ایک حکم پر ذندگی بھر ہتھیار نہیں ڈالتا ہے اور میں مسلمان ہوکر دنیا میں کتنے ہی کام جانے انجانے میں ایسا کر جاتا ہوں جو اسلام مخالف ہے اور حکم رب العالمین کا ہوتا ہے۔
 

زیک

مسافر
میرے خیال میں تو وہ پاگل تھا

یاد رہے کہ اس نے کوئی 30 مقامی لوگ محض اس وجہ سے مارے کہ اس کے خیال میں جنگ جاری تھی
 

ساقی۔

محفلین
میرے خیال میں تو وہ پاگل تھا

یاد رہے کہ اس نے کوئی 30 مقامی لوگ محض اس وجہ سے مارے کہ اس کے خیال میں جنگ جاری تھی

کیا جنگ میں دشمن کو قتل کرنا پاگل پن ہے؟ جب اسے یقین ہو گیا کہ جنگ ختم ہو چکی ہے تب بھی اس نے کسی کو قتل کیا ہے تو پھر وہ واقعی مجرم ہے اور پاگل بھی۔
 
یاد رہے کہ اس نے کوئی 30 مقامی لوگ محض اس وجہ سے مارے کہ اس کے خیال میں جنگ جاری تھی
30 مقامی افراد جنگ کے دوران مارے یا جنگ ختم ہونے کے بعد؟
نیز آپ کی دی ہوئی معلومات کا ماخذ کیا ہے؟
کچھ وضاحت کر سکیں تو ممنون ہوں گا
 

زیک

مسافر
Top