4 ستمبر ۔ عالمی یوم حجاب

یوسف-2

محفلین
پردہ قید نہیں، آزادی ہے

عائشہ نصرت / ترجمہ: عمران ظہور غازی


عائشہ نصرت کا تعلق دہلی سے ہے۔ وہ ۲۳سال کی ہیں۔ انھوں نے انسانی حقوق میں ایم اے اور نفسیات میں گریجویشن کیا ہے۔ عائشہ نے اپنی آزاد مرضی سے پردہ کرنا شروع کردیا۔ ان کا یہ مضمون ۱۳جولائی ۲۰۱۲ء کو نیویارک ٹائمز میں شائع ہوا۔ 4 ستمبر ’عالمی یومِ حجاب‘ کے موقع پر پیش خدمت ہے۔(ی ث)
دو ماہ سے زائد ہوگئے ہیں کہ میں نے پردہ کرنے اور مناسب لباس پہننے کا فیصلہ کیا۔ اس سے پہلے کہ آپ مجھ پر جلدی سے دنیا بھر کی مظلوم خواتین کی نمایندہ اشتہاری خاتون کا لیبل لگا دیں، میں ایک عورت کی حیثیت سے یہ واضح کرنا چاہتی ہوں کہ پردہ میرے لیے سب سے زیادہ آزادی دلانے کا تجربہ ثابت ہوا ہے۔
پردہ شروع کرنے سے پہلے میں نے اپنے آپ سے کبھی یہ توقع نہ کی تھی کہ میں یہ راستہ اختیار کروں گی۔ اگرچہ میں جانتی تھی کہ میرے ایمان اور تہذیب میں حیا کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے، میں نے کبھی اس کی ضرورت محسوس نہ کی اور نہ اس کے اسباب معلوم کرنے کا موقع ملا۔
ٹونی بلیئر فیتھ فاؤنڈیشن میں بطور فیتھزایکٹ فیلو کام کرنے اور سماجی سرگرمیوں کے لیے مختلف مذاہب کے افراد سے معاملہ کرنے سے مختلف مذاہب کے بارے میں میرے فہم میں اضافہ ہوا۔ مختلف بین المذاہب سرگرمیوں میں حصہ لینے سے میرے اپنے مذہب کے ذاتی فہم میں اضافہ ہوا۔ اس حوالے سے جو سوال اور چیلنج میرے سامنے آئے اس سے میرے اندر اسلام کے مختلف بنیادی پہلوؤں کے بارے میں تجسس اور کوشش میں اضافہ ہوا۔ اس طرح میں ’سلطنتِ حجاب‘ میں داخل ہوئی۔
میں بہت اچھی طرح جانتی تھی کہ عورت کے سر کو ڈھانکنے والے چند گز کپڑے، یعنی حجاب کو ہم کس طرح تشویش اور تنازعات کا موضوع بنا کر اُسے عورتوں کی تعلیم، تحفظ، انسانی حقوق، حتیٰ کہ ان کے مذہب کو عالمی خطرہ قرار دیا جارہا ہے۔ مجھے یہ معلوم تھا کہ دنیا بھر میں میڈیا پردہ کرنے والی خواتین کو مظلوم اور مجبور بناکر پیش کرنے کو ترجیح دیتا ہے اور یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ پردہ ان خواتین پرزن بیزار مُلّاؤں اور رشتہ دار مردوں کی طرف سے مسلط کیا گیا ہے جو انھیں گرمی سے بے حال کرنے والے کپڑوں میں زبردستی قید کردیتے ہیں۔
بہرحال میں سمجھتی ہوں کہ میرے حجاب نے مجھے آزادی (liberate) دی ہے۔ میں ایسے بہت سوں کو جانتی ہوں جو حجاب کو زبردستی کی خاموشی یا بنیاد پرست حکومتوں کا اشتہار سمجھتے ہیں لیکن ذاتی طور پر میں نے ان میں سے کوئی بات بھی نہ پائی۔ ایک ایسی خاتون کی حیثیت سے جس نے انسانی حقوق کا بہت شوق سے مطالعہ کیا ہو اور ان کے لیے خصوصاً خواتین کے اختیارات (empowerment) کے لیے کام کر رہی ہو، میں نے محسوس کیا کہ ان مقاصد کے لیے حجاب کرتے ہوئے کام کرنے سے یہ غلط تاثر ختم ہوگا کہ مسلم خواتین خود اپنی اصلاح اور اپنے حقوق کے حصول اور ان کے لیے کام کا جذبہ، حوصلہ اور احساس نہیں رکھتی ہیں۔ یہ احساس وہ آخری دھکا تھا جس کی مجھے ضرورت تھی، تاکہ میں دنیا کے سامنے اس سال اپنی سالگرہ پر اعلان کردوں کہ آج کے بعد میں ’پردہ دار خاتون‘ یا ’حجابی‘ ہوں۔ ایک ایسے معاشرے میں جہاں بے پردہ رہنا پسند کیا جاتا ہو، وہاں اگر میں حجاب اختیار کرتی ہوں تو اسے کیوں ظالمانہ و جابرانہ قرار دیا جاتا ہے؟ میں تو حجاب کو ’میرا جسم، میرا مسئلہ‘ قرار دینے کی آزادی سمجھتی ہوں اور ایک ایسی دنیا میں جہاں عورت کو ایک شے بنا کر پیش کیا جاتا ہے، اسے اپنی ذاتی آزادی کے تحفظ کا ذریعہ سمجھتی ہوں۔
میں کسی عورت کی اہمیت کو اس کے ظاہری حُسن اور پہنے جانے والے کپڑوں سے ناپے جانے کو مسترد کرتی ہوں۔ مجھے مکمل یقین ہے کہ عورت کی مساوات کا بگڑا ہوا تصور کہ اسے مجمعِ عام میں چھاتیاں عریاں کرنے کا حق حاصل ہے، خود آپ ہمیں ایک شے تصور کرنے میں حصہ ادا کرتا ہے۔ میں ایک ایسے نئے دن کے انتظار میں ہوں جب عورتوں کو حقیقی مساوات حاصل ہوگی، اور انھیں اس کی ضرورت نہ ہوگی کہ توجہ حاصل کرنے کے لیے اپنی نمایش کریں، نہ اس کی ضرورت ہوگی کہ اپنے جسم کو اپنے جسم تک رکھنے کے فیصلے کا دفاع کریں۔ ایک ایسی دنیا جس میں عورت کی آزادی، جسم کی نمایش اور اس کی جنس نے ہوش اُڑا رکھے ہوں، عورت کا حجاب اختیار کرنا عورت کی جانب سے اس کی منفرد نسائیت اور حقوق کا جارحانہ اظہار ہے۔ میرا حجاب دراصل یہ پیغام دیتا ہے کہ ’’تم کیا دیکھو گے، اس پر میرا کنٹرول ہے، کیا یہ عورت کو اختیار دینا نہیں؟‘‘ یہ اظہار بہت زیادہ اتھارٹی کے ساتھ ہوتا ہے جس کا سرچشمہ یہ دعویٰ ہے کہ ’’میرا جسم، میرا مسئلہ ہے‘‘۔
میں یقین رکھتی ہوں کہ میرا حجاب مجھ کو یہ حق دیتا ہے کہ اپنے جسم، اپنی نسائیت، اور روحانیت پر جو صرف میری ہے اور میری اتھارٹی میں ہے اس پر زور دوں۔ میں جانتی ہوں کہ بہت سے مجھ سے اتفاق کریں گے جب میں یہ کہتی ہوں کہ حجاب بنیادی طور پر روحانیت کا اظہار ہے اور اپنے خالق سے ایک ذاتی تعلق ہے ، ایک ایسی محسوس کی جانے والی مذہبی علامت جو روزمرہ زندگی میں رہنمائی کرتی ہے۔
حجاب میری ذاتی و اجتماعی زندگی میں دکھائی دینے والی واضح علامت ہے جس سے کسی بھی اجتماع اور ہجوم میں کوئی بھی ایک الگ وجود کی حیثیت سے مجھے پہچان سکتا ہے، ایک خاص مذہب سے وابستگی اور نمایندگی کے ساتھ۔ یہ اصل وجہ ہے کہ اجتماعی زندگی میں ’حجابی‘ بن جانا ایک ایسی طاقت بن جاتا ہے جو ان کاموں میں مجھے آگے بڑھاتا ہے جن کے ذریعے میں ان تعصبات اور رکاوٹوں کو دُور کرسکوں جن سے میرے مذہب اسلام کو مسلسل لیکن غیرمعقول انداز سے وابستہ کیا جاتا ہے۔ حجاب دراصل میری شخصیت کی توسیع اور شناخت ہے، اور یہ مجھے اُبھارتا ہے کہ اس غلط تصور کو چیلنج کروں کہ مسلمان عورت میں اُس بہادری، دانش اور استقامت کی کمی ہے جو اتھارٹی کو چیلنج کرے اور اپنے حقوق کے لیے لڑے۔
میں جب آئینے میں اپنا عکس دیکھتی ہوں تو ایک ایسی عورت کو دیکھتی ہوں جس نے حقوق کے لیے سرگرمِ عمل ہونے کا انتخاب کیا، جو اتفاقاً مسلمان ہے اور ضمناً اپنے سر کو ڈھانکتی ہے۔ میرا عکس مجھے یاد دلاتا ہے کہ میں نے کیا عہد کیے تھے جن کی وجہ سے حجاب اختیار کرنے کا سوچا؟ ایک ایسی دنیا کے لیے کام کروں جہاں عورت کے بارے میں فیصلہ اس بنیاد پر نہیں کیا جاتا کہ وہ کیسی دِکھتی ہے؟ کیا پہنتی ہے؟ایک ایسی دنیا جس میں اُسے اپنے جسم کے بارے میں فیصلہ کرنے کے حق کی لڑائی نہیں لڑنا پڑتی، جس میں وہ کچھ ہوسکے جو وہ چاہتی ہے، جہاں اُسے اپنے مذہب اور حقوق کے درمیان انتخاب نہ کرنا پڑے۔
 

نایاب

لائبریرین
"میرا جسم میرا مسلہ "
بہت وسیع منظر نامے کا حامل اک اچھا کالم ۔
بہت شکریہ شراکت پر محترم بھائی
 

رانا

محفلین
بہت عمدہ طریقے سے اپنے خیالات کا اظہار کیا گیا ہے۔
خاص کر ان کا یہ طرز استدلال "میں تو حجاب کو ’میرا جسم، میرا مسئلہ‘ قرار دینے کی آزادی سمجھتی ہوں"۔
بعض مغربی حکومتوں کی طرف سے زبردستی خواتین کو حجاب سے روکنے کے خلاف میرے خیال میں تو یہ ایک دلیل ہی اتنی وزنی ہے کہ جس کے آگے کوئی جواب نہ بن پڑے۔
 

مہ جبین

محفلین
بہت عمدہ اور بہترین
حجاب کے معاملے میں ایک مسلمان عورت کے بہت بہت خوبصورت خیالات

بے شک ہمیں اپنے مذہب کی اعلیٰ اقدار پر فخر ہے
 

سید عاطف علی

لائبریرین
بہت خوب مضمون ہے نفسیاتی تناظر پیرائے میں لکھا گیا ہے جو کہ وقت کی ضرورت کا ایک اہم پہلو ہے۔ اگر اور جینل مضمون کا ربط ساتھ چسپاں ہو تو مزید اچھا ہو ۔۔۔۔۔۔۔ یوسف ثانی بھائی بہت خوب
 

عثمان

محفلین
"میرا جسم میرا مسلہ "
بہت وسیع منظر نامے کا حامل اک اچھا کالم ۔
بہت شکریہ شراکت پر محترم بھائی
بہت عمدہ طریقے سے اپنے خیالات کا اظہار کیا گیا ہے۔
خاص کر ان کا یہ طرز استدلال "میں تو حجاب کو ’میرا جسم، میرا مسئلہ‘ قرار دینے کی آزادی سمجھتی ہوں"۔
بعض مغربی حکومتوں کی طرف سے زبردستی خواتین کو حجاب سے روکنے کے خلاف میرے خیال میں تو یہ ایک دلیل ہی اتنی وزنی ہے کہ جس کے آگے کوئی جواب نہ بن پڑے۔

مسلم ممالک کی خواتین کو بھی اسی استدلال کی رو سے یہی حق دینے کے بارے میں کیا خیال ہے ؟ ;)
میرا مطلب ہے کہ اسی دلیل کو لے کر جو حجاب اتارے وہ ؟
 

نایاب

لائبریرین
"میرا جسم میرا مسلہ "
بہت وسیع منظر نامے کا حامل اک اچھا کالم ۔
بہت شکریہ شراکت پر محترم بھائی
مسلم ممالک کی خواتین کو بھی اسی استدلال کی رو سے یہی حق دینے کے بارے میں کیا خیال ہے ؟ ;)
میرا مطلب ہے کہ اسی دلیل کو لے کر جو حجاب اتارے وہ ؟
محترم بھائی
پہلی بات کہ یہ دلیل " میرا جسم میرا مسلہ " بہت وسیع منظر نامے کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہے ۔
دوسری بات یہ صدا اک مسلم خاتون کی ہے ۔ جو کہ حجاب کو عورت کے لیئے محفوظ و مامون سمجھتی ہے ۔
تیسری بات اگر آپ مسلم ممالک کی خواتین کی جگہ غیر مسلم خواتین کو
مسلم معاشرے میں اپنے اس حق کی صدا " میرا جسم میرا مسلہ " لگانے پر
اگر اظہار خیال کی بات کرتے تو منطقی جواب یہی ہوتا کہ
" بلا شک وہ اپنی اس صدا میں حق بجانب ہیں "
آٌپ نے بات مسلم ممالک کی کی ہے تو میرے بھائی مسلم ممالک میں اسلام کی رو سے
عورت نام ہی اک ڈھکی چھپی چیز کا ہے ۔ اور کوئی مسلم عورت " میرا جسم میرا مسلہ " کی دلیل دیتے
کسی صورت برہنگی اختیار کرنے کا حق نہیں رکھتی ۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
مسلم ممالک کی خواتین کو بھی اسی استدلال کی رو سے یہی حق دینے کے بارے میں کیا خیال ہے ؟ ;)
میرا مطلب ہے کہ اسی دلیل کو لے کر جو حجاب اتارے وہ ؟
عثمان صاحب۔۔۔ کیا مسلم ممالک کی خواتین ۔ حجاب کی پابندی کر رہی ہیں؟ جو انہیں یہ حق دئیے جانے کا سوال پیدا ہوتا ہے۔۔۔ انہوں نے تو پہلے ہی حجاب کو طاق نسیاں کی زینت بنا کر خود بازار کی زینت بننے کی ٹھان رکھی ہے ۔
یہ تو صرف " نقطہ نظر " کی وضاحت کی بات ہے۔
 

عثمان

محفلین
محترم بھائی
پہلی بات کہ یہ دلیل " میرا جسم میرا مسلہ " بہت وسیع منظر نامے کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہے ۔
دوسری بات یہ صدا اک مسلم خاتون کی ہے ۔ جو کہ حجاب کو عورت کے لیئے محفوظ و مامون سمجھتی ہے ۔
تیسری بات اگر آپ مسلم ممالک کی خواتین کی جگہ غیر مسلم خواتین کو
مسلم معاشرے میں اپنے اس حق کی صدا " میرا جسم میرا مسلہ " لگانے پر
اگر اظہار خیال کی بات کرتے تو منطقی جواب یہی ہوتا کہ
" بلا شک وہ اپنی اس صدا میں حق بجانب ہیں "
آٌپ نے بات مسلم ممالک کی کی ہے تو میرے بھائی مسلم ممالک میں اسلام کی رو سے
عورت نام ہی اک ڈھکی چھپی چیز کا ہے ۔ اور کوئی مسلم عورت " میرا جسم میرا مسلہ " کی دلیل دیتے
کسی صورت برہنگی اختیار کرنے کا حق نہیں رکھتی ۔

عثمان صاحب۔۔۔ کیا مسلم ممالک کی خواتین ۔ حجاب کی پابندی کر رہی ہیں؟ جو انہیں یہ حق دئیے جانے کا سوال پیدا ہوتا ہے۔۔۔ انہوں نے تو پہلے ہی حجاب کو طاق نسیاں کی زینت بنا کر خود بازار کی زینت بننے کی ٹھان رکھی ہے ۔
یہ تو صرف " نقطہ نظر " کی وضاحت کی بات ہے۔

مسلم خاتون کو اس کے لباس کے معاملے میں مذہب اخلاقیات کے سبق مت پڑھائیں۔ اوپر دیے گئے استدلال پر جو آپ صاحبان نے واہ واہ کی ہے اسی کو مد نظر رکھتے ہوئے اگر کوئی خاتون اپنے لباس کا انتخاب اپنی مرضی اور آپ صاحبان کے مذہبی اقدار کی پروا نہ کرتے ہوئے کرے تو آپ کو معترض نہیں ہونا چاہیے ورنہ تسلیم کر لیں کہ اس معاملے میں خود آپ کا معیار دوغلا ہے جس کے طعنے آپ مغرب کو دیتے نہیں تھکتے۔
 

عثمان

محفلین
عثمان صاحب۔۔۔ کیا مسلم ممالک کی خواتین ۔ حجاب کی پابندی کر رہی ہیں؟ جو انہیں یہ حق دئیے جانے کا سوال پیدا ہوتا ہے۔۔۔ انہوں نے تو پہلے ہی حجاب کو طاق نسیاں کی زینت بنا کر خود بازار کی زینت بننے کی ٹھان رکھی ہے ۔
شرم آنی چاہیے خواتین کے متعلق اس قسم کی گفتگو کرتے ہوئے۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
شرم آنی چاہیے خواتین کے متعلق اس قسم کی گفتگو کرتے ہوئے۔
آپ جس سبب برا مانتے ہیں وہ یقینا" آپ پر واضح ہو گا ۔افسوس کہ آپ کے فہم کی وسعت یہ ادراک نہ کرسکی کہ یہ سب کے بارے میں نہیں کہا گیا اور مذکورہ نقطہ نظر کی حدود اربعہ کیا ہیں۔ اگر استعداد ہو تو فیصلہ فرمالیں گے شرم کسے کہتے ہیں اور کسے آنی چاہیے۔۔۔۔۔اللہ سب کی حفاظت فرمائے ۔اور صداقت قبول کرنے کا حوصلہ اور صداقت کا سالم استفہام عطا فرمائے۔
 

عثمان

محفلین
آپ جس سبب برا مانتے ہیں وہ یقینا" آپ پر واضح ہو گا ۔افسوس کہ آپ کے فہم کی وسعت یہ ادراک نہ کرسکی کہ یہ سب کے بارے میں نہیں کہا گیا اور مذکورہ نقطہ نظر کی حدود اربعہ کیا ہیں۔ اگر استعداد ہو تو فیصلہ فرمالیں گے شرم کسے کہتے ہیں اور کسے آنی چاہیے۔۔۔ ۔۔اللہ سب کی حفاظت فرمائے ۔اور صداقت قبول کرنے کا حوصلہ اور صداقت کا سالم استفہام عطا فرمائے۔

قبلہ آپ کا بیان عمومی نوعیت کا ہے۔ اب آپ الٹے قدم چلتے مودا دوسرے کی فہم پر نہیں ڈال سکتے۔ ;)
 

سید عاطف علی

لائبریرین
قبلہ آپ کا بیان عمومی نوعیت کا ہے۔ اب آپ الٹے قدم چلتے مودا دوسرے کی فہم پر نہیں ڈال سکتے۔ ;)
شکریہ محترم عثمان صاحب ۔۔۔۔ جب آپ تخصیص و تعمیم کےمذکورہ پہلووں میں امتیاز نہ کرسکیں تو اپنے بیانات میں کم از کم محتاط حد کا اعتدال رکھیں بلکہ رکھا کریں تا کہ قدموں کی سمت بھی روشن رہے ۔۔;) ۔۔ امید ہے مطلب کچھ واضح ہوا ہوگا ۔پھر شکریہ :)
 

رانا

محفلین
مسلم ممالک کی خواتین کو بھی اسی استدلال کی رو سے یہی حق دینے کے بارے میں کیا خیال ہے ؟ ;)
میرا مطلب ہے کہ اسی دلیل کو لے کر جو حجاب اتارے وہ ؟
نکتہ تو زبردست اٹھایا ہے آپ نے۔ آپ کی باتوں سے لگتا ہے آپ باڈی بلڈنگ کرتے ہیں لیکن آپ کے نکات سے لگتا ہے کہ یوگا سے بھی شغل فرماتے ہیں۔۔:)

بھائی بات یہ ہے کہ مسلم معاشرے میں بھی زبردستی حجاب کرانا تو حکومت کے دائرہ کار میں نہیں آتا۔ حکومت اس سلسلے میں قانون بنا ہی نہیں سکتی۔اس کی الگ وجوہات ہیں جن کو ڈسکس کرنا ایک الگ بحث ہے۔

باقی رہا یہ سوال کہ کوئی میرا جسم میرا مسئلہ کے نام پر وینا ملک بننے کوشش کرے تو یہ اس کے جسم کے ساتھ ساتھ ملک کے کروڑوں افراد کے لئے نقص امن کا بھی مسئلہ ہے۔ اب آپ کہیں گے کہ نقص امن اس میں کہاں سے آگیا تو ایک حد سے اگر لڑکی نکلے گی تو لڑکا بھی نکلے گا اور پھر دونوں خاندانوں میں جو لڑائی جھگڑے پیدا ہوں گے جن میں قتل ایک عام بات ہے۔ یہ صرف ایک عام مثال دی ہے۔ ورنہ بات صرف یہیں تک نہیں۔ یہ تمام جرائم اور امن وامان کی تباہی کس کھاتے میں جائے گی۔ اس لئے اس حد تک تو اس کی ماننی میں کوئی حرج نہیں کہ وہ حجاب نہیں کرتی لیکن اگر وہ اس سے آگے قدم بڑھاتی ہے تو حکومت کو پورا اختیار ہے اسے روکنے کا۔ کہ یہ آزادی میں نہیں بلکہ جرم میں آتا ہے۔ کل کو آپ کہیں گے کہ ہر شخص کو یہ کہنے کا پورا حق ہے کہ میں ٹریفک سگنل پر رکوں یا نا یہ میرا مسئلہ ہے یا میں اپنی بچی کو قتل کرتا ہوں تو یہ میرا مسئلہ ہے وغیرہ وغیرہ ۔ لیکن یہ بہت بعد کی باتیں ہیں پہلے تو ان چیزوں کے لئے قوانین بنانے ہوں گے جن کی وجہ سے وینا کا دل کیا وینا بننے کا۔

اصل میں "میرا جسم میرا مسئلہ" کو صرف اس نظر سے دیکھیں کہ میں اپنا جسم شو نہیں کرتی اس میں آپ کو کوئی تکلیف یا آپ کا کوئی حرج نہیں۔ اس لئے مجھے حق ہے اپنے آپ کو چھپانے کا۔ لیکن دوسری طرف اگر "میرا جسم مسئلہ" کے نام پر آپ اپنا جسم دکھاتی ہیں تو اس سے مجھے تکلیف ہوتی ہے اور ہمارے لئے نقص امن کا باعث بنتا ہے۔ پہلی صورت میں سامنے والے کا کوئی حرج نہیں لیکن دوسری صورت میں بہت حرج ہے۔
 

یوسف-2

محفلین
مسلم ممالک کی خواتین کو بھی اسی استدلال کی رو سے یہی حق دینے کے بارے میں کیا خیال ہے ؟ ;)
میرا مطلب ہے کہ اسی دلیل کو لے کر جو حجاب اتارے وہ ؟
جملہ ”مسلم ممالک“ میں خواتین کو یہ حق انہیں پہلے ہی حاصل ہے کہ وہ چاہے حجاب کرے، چاہے حجاب اتاردے۔ واضح رہے رہے کہ حجاب اور لباس میں فرق ہے۔ آپ حجاب اتارنے کا حق مانگ کر وینا ملک اینڈ کمپنی کی طرح اس ”حق“ کونارمل نسوانی لباس کے لئے استعمال نہین کرسکتے۔ حجاب میں صرف نقاب، بالوں کو کور کرنا اور نارمل نسوانی ڈریس کے اوپر جلباب (چادر، عبایا، اوور کوٹ وغیرہ) کا استعمال شامل ہے۔ میری آزادی وہاں ختم ہوجاتی ہے، جہاں سے آپ کی ناک شروع ہوتی ہے۔ عورت کی آزادی بھی وہاں ختم ہوجاتی ہے، جہاں اس کی سیکسی ڈریسنگ یا اَن ڈریسنگ سے معاشرے میں جنسی اشتعال اور فساد کا خدشہ ہو۔ دنیا کی ہر ریاست کو اس قسم کی قانون سازی کا حق ہوتا ہے کہ وہ متوقع فساد کے سد باب کے لئے اپنے شہریوں پر ناگزیر پابندیاں لگائے۔ اسی طرح ایک اسلامی ریاست کو بھی، اسلامی تعلیمات کی رو سے اس قسم کی پابندیاں لگانے کا حق حاصل ہے۔ اسی بنیاد پر سعودیہ میں عورتوں پر حجاب کی پابندی ہے۔
حجاب کرنے کی پابندی سے حجاب کرنے والی کو عملاً کوئی نقصان نہیں ہوتا ۔ جبکہ حجاب نہ کرنے کی پابندی اور اپنے جسم کی نمائش کرنے کی آزادی سے خود ایسا کرنے والی کو بھی نقصان ہوتا ہے اور پورے معاشرے میں بھی جنسی انارکی پھیلتی ہے۔ مثلاً امریکہ میں ہر عورت کو یہ آزادی حاصل ہے کہ وہ اپنے جسم کو جتنا چاہے نمایاں اور پر کشش بنا کر سرا بازار پیش کرے۔ نتیجہ آپ کے سامنے ہے۔ امریکہ ہی کے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق یہاں سیکس سر عام اور ہر ایک کی دسترس میں ہونے کے باوجود دنیا میں سب سے زیادہ زنا بالجبر اسی سرزمین پر ہوتا ہے۔ اس کے برعکس سعودیہ میں حجاب کرنے کی قانونی پابندی کے نتیجہ میں یہاں جنسی جرائم دنیا بھر کے مقابلہ میں سب سے کم ہیں۔
کسی ریاست میں حجاب کرنے کی پابندی اور حجاب نہ کرنے کی پابندی ، یہ دونوں ”پابندیاں“ یکساں ہرگز نہیں ہیں۔ حجاب نہ کرنے کی پابندی بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ جبکہ حجاب کرنے کی پابندی ہو یا (مثلاً) ٹریفک اشاروں پر رکنےکی پابندی، اس سے بنیادی انسانی حقوق ”سلب“ نہیں ہوتے۔ کیونکہ اگر ہر ایک کو ٹریفک کے اشاروں پر ”اپنی مرضی“ سے رکنے یا نہ رکنے کی آزادی ہو تو اس سے سڑک پر حادثات میں اضافہ ہوگا اور دوسرے الفاظ میں میری اس نام نہاد آزادی سے دوسرے بہت سے ڈرائیورز کے حقوق سلب ہون گے، جو محفوظ طریقہ سے انہی سڑکوں پر ڈرائیو کرنے کا حق رکھتے ہیں۔ یہی حال حجاب کرنے یا نہ کرنے کی ”انفرادی آزادی“ دینے والا معاشرہ عملاً عیاش طبع مردوں کو ایسی خواتین کی آبروریزی کے مواقع فراہم کرکے خواتین کے حق تحفظ عزت کو مجروح کرتا ہے۔ جبکہ سماج کی تمام خواتین کو حجاب کی پابندی کے دائرہ میں لانے سے کسی خاتوں کا کوئی بنیادی انسانی حق متاثر نہیں ہوتا۔ اور سماج بھی سکھ کا سانس لیتا ہے۔
 

یوسف-2

محفلین
نوٹ: تدوین کا محدود وقت ختم ہوجانے کے سبب، مذکورہ بالا جواب از سر نو پیش خدمت ہے

کسی ریاست میں حجاب کرنے کی پابندی اور حجاب نہ کرنے کی پابندی ، یہ دونوں ”پابندیاں“ یکساں ہرگز نہیں ہیں۔ حجاب نہ کرنے کی پابندی ایک عورت کے بنیادی انسانی حق کی خلاف ورزی ہے۔ جبکہ حجاب کرنے کی پابندی کی مثال ٹریفک کے سُرخ اشاروں پر لازماً رکنےکی پابندی جیسی ہے کہ اس ”پابندی“ سے کسی کے بنیادی انسانی حقوق ”سلب“ نہیں ہوتے۔ کیونکہ اگر ہر ایک کو ٹریفک کے سُرخ اشارے پر ”اپنی مرضی“ سے رکنے یا نہ رکنے کی ”آزادی“ ہو تو اس سے سڑکوں پرنہ صرف یہ کہ حادثات میں اضافہ ہوگا بلکہ اس نام نہاد آزادی سے دوسرے بہت سے ڈرائیورز کے بنیادی حقوق بھی سلب ہوں گے کیونکہ وہ انہی سڑکوں پر ڈرائیو کرتے ہوئے خود کو حادثات سے محفوظ کرنے کا حق رکھتے ہیں۔

حجاب کرنے یا نہ کرنے کی ”انفرادی آزادی“ دینے والا معاشرہ در اصل سماج دشمن عناصر یعنی عیاش طبع بدمعاش مردوں کو ایسی خواتین کی آبروریزی کے ”کھلے مواقع“ فراہم کرکے خواتین کے حق تحفظ عزت کو مجروح کرتا ہے۔ اس کے برخلاف سماج کی تمام خواتین کو حجاب کی پابندی کے دائرہ میں لانے سے کسی بھی خاتوں کا کوئی بنیادی انسانی حق متاثر نہیں ہوتا۔ اور سماج بھی سکھ کا سانس لیتا ہے۔

بیشتر”مسلم ممالک“ کے ملکی قوانین میں خواتین کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ چاہے تو حجاب کرے اور چاہے تو حجاب نہ کرے۔ واضح رہے کہ ”حجاب“ اور ” زنانہ لباس“ میں فرق ہے۔ کسی مسلم معاشرے میں حجاب نہ کرنے کا ”حق“ مانگ کر وینا ملک اینڈ کمپنی کی طرح اس ”حق“ کونارمل نسوانی لباس کے لئے استعمال نہیں کیا جاسکتا۔ ”حجاب“ میں صرف چہرے کا نقاب، بالوں اور سر کو ڈھکنا اور نارمل پرکشش نسوانی ڈریس کے اوپر جلباب (چادر، عبایا، اوور کوٹ وغیرہ) کا استعمال شامل ہے۔ جس طرح میری ”آزادی کی حدود“ وہاں ختم ہوجاتی ہیں، جہاں سے کسی دوسرے کی ناک شروع ہوتی ہے۔ اسی طرح ایک عورت کی ”آزادی“ بھی وہاں ختم ہوجاتی ہے، جہاں سے اس کی سیکسی ڈریسنگ یا اَن ڈریسنگ معاشرے میں جنسی اشتعال اور فساد کا سبب بننے کا سبب بنے۔ دنیا کی ہر ریاست کو اس قسم کی قانون سازی کا حق ہوتا ہے کہ وہ ”متوقع سماجی فساد“ کے سد باب کے لئے اپنے شہریوں پر پیشگی چند پابندیاں لگائے۔ گویا کسی ریاست کواپنے ریاستی حدود میں اس قسم کی پابندیاں لگانے کا حق تو حاصل ہے کہ ہر خاتون لازماً حجاب کرے۔ لیکن اس کے برعکس کسی بھی ریاست کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ خواتین پر حجاب نہ کرنے کی پابندی لگائے کیونکہ حجاب کرنے کی پابندی سے حجاب کرنے والی خواتین کو عملاً کوئی نقصان نہیں ہوتا ۔ جبکہ حجاب نہ کرنے کی پابندی یا اپنے جسم کی نمائش کرنے کی آزادی سے خود ایسا کرنے والی خواتین کو بھی سماج دشمن عناصر سے نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہوتا ہے اور پورے معاشرے میں بھی جنسی انارکی پھیلنے کا سبب بن سکتا ہے۔ مثلاً امریکہ میں ہر عورت کو یہ آزادی حاصل ہے کہ وہ اپنے جسم کو جتنا چاہے نمایاں اور پر کشش بنا کر سر بازار پیش کرے۔ نتیجہ آپ کے سامنے ہے۔ امریکہ ہی کے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق یہاں سیکس سرعام اور ہر ایک کی دسترس میں ہونے کے باوجود دنیا میں سب سے زیادہ زنا بالجبر اسی سرزمین پر ہوتا ہے۔ اس کے برعکس سعودیہ میں حجاب کرنے کی قانونی پابندی کے نتیجہ میں یہاں جنسی جرائم دنیا بھر کے مقابلہ میں سب سے کم یا نہ ہونے کے برابر ہیں۔
 

مہ جبین

محفلین
بہت افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ کچھ مسلمان اپنے مذہبی اقدار و روایات کو انسانی حقوق کی خلاف ورزی ثابت کرنے پر کمر بستہ ہو جاتے ہیں
اور بہت زور و شور سے اس کی مخالفت میں بیانات دینا شروع ہوجاتے ہیں
مکھی کا کام ہے غلاظت تلاش کر کے اس پر بیٹھنا ، تو کچھ لوگ جو آٹے میں نمک کے برابر ہیں ، یہ کام بخوبی انجام دے رہے ہیں
عائشہ نصرت نے اس پورے مضمون میں صرف ایک جملہ " میرا جسم میرا مسئلہ " ہی تو نہیں کہا ناں۔۔۔۔۔۔ بہت ساری مفید اور خوبصورت باتیں بھی کی ہیں
اُن پر تو ایک نظر ڈالنے کی زحمت بھی نہیں کی اور صرف اس ایک جملے کو ہدف بنا کر ایسی ایسی خرافات باتیں کی گئی ہیں کہ الاماں و الحفیظ

یہ جسم کیا ہم خود بنا سکتے ہیں ؟
کیا ہمارے اندر اتنی طاقت ہے کہ اس جسم میں کوئی ٹوٹ پھوٹ ہو تو اس کو پہلے جیسی حالت پر دوبارہ لاسکیں؟
کوئی بھی عضو ضائع ہونے کی صورت میں کیا وہاں پہلے جیسا عضو ہم لاسکتے ہیں ؟
یہ جسم صرف مسلمانوں ہی کو تو نہیں ملا بلکہ ہر انسان کو ملا ہے چاہے اسکا مذہب کوئی بھی ہو ۔
ہر مذہب میں عریانی و فحاشی کو برا سمجھا گیا ہے یہ اور بات کہ وقت کے ساتھ ساتھ ان قوانین میں اپنی پسند کے مطابق تبدیلیاں ہوتی رہیں
اسلام کے قوانین جو ہزاروں سال پہلے نافذ کئے گئے تھے وہ ہر دور کے لئے تھے ۔ صرف چند سال یا چند سو سال کے لئے نہیں تھے
اسلامی قوانین صرف اسلام کے ماننے والوں کے لئے ہیں یہ بھی درست ہے لیکن کیا دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کو جسم جیسی انمول دولت دے کر کیا بالکل چھوٹ دے دی گئی ہے کہ اب اسکے ساتھ تم جو چاہے کرو ، آزاد ہو؟؟؟؟؟
اگر انسان کوئی مشین ایجاد کرتا ہے تو کتنے تجربات کے بعد وہ یہ معلوم کرپاتا ہے کہ اس مشین کو یہ چیز نقصان پہنچاسکتی ہے اور یہ چیز اسکے لئے فائدہ مند ہے
اب وہ اس مشین کے ساتھ ایک ہدایت نامہ بھی منسلک کردیتا ہے کہ اس مشین کو فلاں چیز نقصان اور فلاں چیز فائدہ دے گی
لیکن جب کوئی دوسرا شخص اس مشین کو خرید کر اپنی مرضی سے آپریٹ کرنا شروع کردے ، نقصان دینے والی چیز سے نہ بچائے اور فائدہ پہنچانے والی چیز کو تسلیم نہ کرے اب کوئی دیکھنے والا اسکا خیرخواہ دیکھ کر کہے کہ بھائی یہ تم کیا کر رے ہو؟
وہ شخص کہے کہ تم کو کیا ہے میں اس مشین کے ساتھ جو چاہوں کروں یہ میری چیز ہے میرا مسئلہ ہے
تو پھر اس شخص کی ذہنی حالت پر افسوس کرتے ہوئے اسکو اس کے حال پر چھوٹ دینا ہی مناسب لگتا ہے

چھوٹی سی ایک مثال ہے کہ بازار سے کوئی بھی چیز خریدیں تو جو کسی غلاف میں لپٹی ہوئی ہو اسکو تو سب خریدنا پسند کریں گے لیکن جو بالکل "کھلی " پڑی ہو اسکو کوئی ہاتھ بھی لگانا پسند نہیں کرے گا کہ اس پر تو دھول مٹی ، غلاطت اور جراثیم ہونگے تو یہ صحت کے لئے نقصاندہ ہے ، لہٰذا ہم ہمیشہ "ریپر " والی چیزوں کو ہی ترجیح دیں گے
دوائیں بنانے والی کمپنیاں ہر دوا پر یہ ہدایت ضرور لکھتی ہیں کہ دوا کو دھوپ اور گرمی سے بچا کر ہمیشہ ٹھنڈی اور خشک جگہ پر رکھیں
ہم دوا خرید کر لائیں تو اسکو ہدایت کے مطابق ہی استعمال کرتے ہیں دھوپ ، گرمی اور پانی سے بچا کر رکھنے کی کوشش کرتے ہیں
لیکن کوئی دوا خرید کر یہ کہے اب تو میں اسکا مالک ہوں جیسے میرا دل چاہے گا سکو استعمال کروں گا تو اسکو تو سب ہی ذہنی بیمار قرار دیں گے

الّا ماشاءاللہ ہمارے مسلم طبقے میں بھی ایسا ذہنی بیمار طبقہ پایا جاتا ہے جس کو پتہ ہے کہ یہ جسم ہمارے پاس امانت ہے اللہ کی اور ہمکو صرف برتنے کے لئے دیا گیا ہے ، اسکے لئے کیا اچھا ہے اور کیا برا ہر بات کو کھول کھول کر بیان کردیا گیا ہے لیکن پھر بھی وہ ہٹ دھرم لوگ کہتے ہیں کہ ہماری مرضی ہے ہم اس جسم کو جیسے چاہے استعمال کریں اب ایسوں کی عقل کو کیا کہا جائے
ایسے لوگوں کی خدمت میں ادب کے دائرے میں رہتے ہوئے ایک سوال ہے کہ آگ کا کام ہے جلانا کوئی جانتے بوجھتے ہوئے اگر آگ سے کھیلے تو یقیناً اسکے کپڑوں میں بھی آگ لگنے کا خطرہ ہوسکتا ہے ، ایسے شخص کو کیا آپ یہ کہہ کر نظر انداز کردیں گے کہ اسکی مرضی ہے ، حق ہے وہ جو چاہے کرے ؟؟؟؟
آگ کا جو کام ہے وہ تو ضرور کرے گی اسلئے ہر شخص ہی شعوری یا لاشعوری طور پر آگ سے بچنے کی کوشش تو کرتا ہی ہے اور جو یہ کوشش نہیں کرتا اسکا انجام تو پھر سب کو پتہ ہی ہے کیا ہونا ہے

اللہ ہم سب کو آگ کے شعلوں سے اپنے آپ کو بچانے کی توفیق عنایت فرمائے اور ذہنی بیماروں کو صحتِ کاملہ عطا فرمائے آمین
 

نایاب

لائبریرین
مسلم خاتون کو اس کے لباس کے معاملے میں مذہب اخلاقیات کے سبق مت پڑھائیں۔ اوپر دیے گئے استدلال پر جو آپ صاحبان نے واہ واہ کی ہے اسی کو مد نظر رکھتے ہوئے اگر کوئی خاتون اپنے لباس کا انتخاب اپنی مرضی اور آپ صاحبان کے مذہبی اقدار کی پروا نہ کرتے ہوئے کرے تو آپ کو معترض نہیں ہونا چاہیے ورنہ تسلیم کر لیں کہ اس معاملے میں خود آپ کا معیار دوغلا ہے جس کے طعنے آپ مغرب کو دیتے نہیں تھکتے۔
محترم بھائی اسلامی معاشرے میں رہنے والی مسلمان عورت یہ بخوبی علم رکھتی ہے کہ اسلام نے عورت کو کیا مقام دیا ہے اور اس کی لباس کی حدود کیا ہیں ۔ اس لیئے وہ پردے کی نام سے پریشانی محسوس نہیں کرتی ۔ وہ صرف اک چادر اوڑھ کر اپنے جسم کو گندی نظروں سے محفوظ رکھنا مناسب سمجھتی ہے ۔ اب ایسے معاشرے میں اگر کوئی عورت ان حدود کی خلاف ورزی کرتے اپنے جسم کو نمائیش کا ذریعہ بنائے تو کیا وہ معطون نہ ٹھہرے گی ۔ ؟
مندرجہ بالا کالم جو کہ " واہ واہ " کا حق دار ٹھہرا ہے وہ مکمل کالم اک مسلمان خاتون کی سوچ پر ہے ۔ اس پر کوئی مذہبی اقدار نہیں ٹھونسی گئیں ۔ وہ اک غیر مسلم آزاد معاشرے میں عوت کے پردے کی بات کرتے " میرا جسم میرا مسلہ " کی دلیل رکھتے حجاب کی اہمیت بیان کر رہی ہے ۔ جس آزاد غیر مسلم معاشرے میں چونکہ عورت اک کھلونا دل بہلانے کا ذریعہ قرار پاتی ہے ۔اور اس معاشرے میں رہنے والی عورت جسم کی نمائیش میں کسی قسم کی جھجھک محسوس نہیں کرتی ۔ وہ جسم کی نمائیش میں فخر محسوس کرتی ہے ۔
کیا آپ یہ آگہی دے سکیں گے کہ " قران پاک " کے علاوہ کون سے مذہب کی عمومی اقدار عورت کو شرم و حیا سے متصف قرار دیتے عورت کو اک مقدس مقام عطا کرتے ہیں ۔ ؟
لیڈی ڈیانا جیسی آزاد خیال عورت اگر پاکستان میں آ کر مذہبی اقدار سے معمولی واقفیت رکھتے بنا کسی جبر کے چادر اوڑھ لیتی ہے ۔
اور اگر کوئی مسلم عورت کسی مغربی ملک کی ثقافت سے متاثر ہوتے اپنی چادر اتار جسم کی نمائیش میں مصروف ہوجاتی ہے ۔
تو دونوں ہی " میرا جسم میرا مسلہ " کی دلیل کی عکاس ٹھہرتی ہیں ۔ ان دونوں میں فرق کیا ہے ۔ ؟
یہ کسی بھی مسلم عورت کی نگاہ سے اوجھل نہیں ہے ۔
 
Top