قمراحمد
محفلین
پچاس سال بعد لکھا جانے والا کالم
(ذراہٹ کے…یاسر پیر زادہ)
(ذراہٹ کے…یاسر پیر زادہ)
یہ ان دنوں کی بات ہے جب لاہور صرف رائیونڈ تک محدود تھا اور ابھی اس کے کنارے قصور اور شیخوپورہ تک نہیں پھیلے تھے۔زیادہ ترلوگوں کے پاس ذاتی استعمال کے لیے گاڑی ہوا کرتی تھی، تاہم ایک بڑا طبقہ ایسا بھی تھا جو صرف موٹر سائیکل پر گذارہ کرتا تھا۔موٹر سائیکل سواروں کا شمار ان دنوں غریب غرباء میں ہوتا تھا جبکہ گاڑی والے متوسط طبقے میں شامل تھے۔پیدل چلنے والوں کو بھی انسان ہی تصور کیا جاتا تھا۔ان دنوں صرف امیروں کے پاس ہی، ایک سے زیادہ،1800 سی سی کی گاڑیاں ہوا کرتی تھیں لیکن وہ بھی سڑک پر پیدل چلنے والوں اور موٹر سائیکل سواروں کا خیال رکھتے تھے یعنی انہیں بلاوجہ روندتے ہوئے نہیں گذرتے تھے۔ (یہ گاڑیاں آج بھی لاہور میوزیم میں دیکھی جاسکتی ہیں)۔
لاہور اپنے کھانے پینے کے اڈوں کی وجہ سے بھی بہت مقبول تھا۔گوالمنڈی میں سب سے پہلے ایک فوڈ سٹریٹ بنی جو اس قدر مشہور ہوئی کہ ہر شہر میں اس کی دیکھا دیکھی ویسی ہی فوڈ سٹریٹ کھل گئی، لیکن شہر کے دیگر تاریخی مقامات کی طرح فوڈ سٹریٹ کا بھی اب کوئی پرسان حال نہیں۔اس کی وجہ یہ ہے کہ وہاں آج کل کی ضرورت کے مطابق ہیلی کاپٹر کی پارکنگ کا کوئی انتظام نہیں۔ ضلعی انتظامیہ کو نہ صرف فوڈ سٹریٹ میں مناسب ہیلی کاپٹر پارکنگ کا انتظام کرنا چاہیے بلکہ شہر میں جگہ جگہ کھلے غیر قانونی ہیلی پیڈزکو بھی بند کروانا چاہیے۔
اُن دنوں مہنگائی بھی اتنی نہیں ہوا کرتی تھی، سونا صرف 22 ہزار روپے فی تولہ تھا جس میں ایک ہزار کلو سے بھی زیادہ آٹا خریدا جاسکتا تھا جو کئی سال کے لیے کافی ہوتا تھا۔لوگ تھوڑے پیسوں میں بھی تفریح کرلیا کرتے تھے جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اُس زمانے کے پوش ترین علاقے ”ڈیفنس“ میں واقع ایک سینماگھر کی ٹکٹ صرف اڑھائی سو روپے ہوا کرتی تھی۔آج کل وہ سنیما گھر ایک عجائب گھر کی مانند ہے جس کی ٹکٹ اب پانچ ہزار روپے ہے۔
آج سے پچاس سال پہلے لوڈ شیڈنگ کا وقت لوگ زیادہ تر اپنی بیوی…اور بچوں کے ساتھ گذارتے تھے کیونکہ یہ وقت کہیں اور نہیں گذارا جاسکتا تھا۔لوڈ شیڈنگ کا مقابلہ کرنے کے لیے لوگوں نے گھروں میں جنریٹرز اور یو پی ایس لگوا رکھے تھے، جونہی بجلی جاتی، یو پی ایس آن ہوجاتا، جس سے گھر کے چند پنکھے اور لائٹیں آن ہوجاتیں۔ افسوس کہ آج کی نئی نسل اِن ”کلاسیکل “ برقی آلات سے آگاہ نہیں رہی کیونکہ اب لوگ بجلی جانے پر اپنے ہیلی کاپٹر میں بیٹھ کر اے سی آن کر لیتے ہیں!!!
اُس زمانے کی لڑکیاں والدین کی فرمانبردار ہوتی تھیں…عموماً بھاگ کر شادی نہیں کرتی تھیں، البتہ والدین کو اپنی پسند کے لڑکے کے بارے میں اعلانیہ بتا دیا کرتی تھیں۔مڈل کلاس گھروں کی لڑکیوں کا ڈانس پارٹیوں پر جانا ابھی عام نہیں ہوا تھا اس لیے وہ چوری چھپے جاتی تھیں۔شریف گھرانوں کی لڑکیوں کا رات ایک بجے کے بعد گھرسے باہر رہنا معیوب سمجھا جاتا تھا۔ صد حیف!!!شرافت اور نجابت کے وہ معیار اب بالکل ہی مفقود ہوگئے ہیں۔اب تو ہمارے معاشرے نے جوڑوں کا بغیر شادی کے بھی ساتھ رہنا قبول کر لیا ہے۔
امن و امان کی صورتحال بھی کچھ ایسی بری نہیں تھی۔ پورے دن میں محض ایک آدھ درجن قتل ہوتے تھے اور وہ بھی صرف پیسوں یا ذاتی دشمنی کی بناء پر۔لیکن اس کے باوجود لوگ بے خوف ہوکر گھروں سے نکلتے تھے، البتہ جس دن کوئی بم دھماکہ یا خودکش حملہ ہوجاتا اُس دن شہر میں معمولی سراسیمگی پھیلتی تھی لیکن اس کا اثر بھی زیادہ دیر تک نہیں رہتا تھا۔ ہر شخص کا یہ خیال تھا کہ ڈکیتی ، خود کش حملے یا بم دھماکے میں مرنے والے کوئی اور ہی لوگ ہوتے ہیں۔کبھی کبھار غیرت کے نام پر قتل بھی ہوجایا کرتے تھے لیکن وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ یہ رواج اور غیرت، دونوں ختم ہوگئے۔
ایس ایم ایس کے ذریعے خوشی اور غمی میں شریک ہونا ان دنوں بہت پاپولر تھا، لوگ اپنی مصروفیات کے باوجود بھی وقت نکال کر ”فادر اور مدر ڈے “ کے موقع پر اپنی محبوبہ کے والدین کو وِش کر دیا کرتے تھے۔یہ وہ دور تھا جب لوگ عید شبرات کے موقع پر ایک دوسرے کو موبائل فون کے ذریعے تہنیتی پیغامات بھیجا کرتے تھے اور اس طرح ایک دوسرے کی خوشی میں بذریعہ ”لاسلکی رابطہ“ شریک ہوتے تھے۔غمی میں شریک ہونے کے لیے بھی عموماً یہی طریقہ استعمال کیا جاتا تھا یعنی کسی کے رشتہ دار کی ناگہانی وفات پر ایک ایس ایم ایس بھیج دی جاتی جو کچھ یوں ہوتی: v.sad 2 hair abt.de newz of ur dad جنازوں میں شرکت کا رواج انہی دنوں کم ہونا شروع ہوگیا تھا، تاہم ایک اچھی بات یہ تھی کہ معاشرے کے بااثر لوگوں کے جنازوں میں جانے کی روایت قائم تھی۔افسوس کہ آج کل یہ روایت بھی ختم ہوتی جارہی ہے، اب لوگ صرف دوسروں کی بیویوں کے جنازوں کو کندھا دینے جاتے ہیں!!! اُن دنوں خوشحالی کا معیارموبائل فون کا مالک ہونا تصور کیا جاتا تھا، لہذا اس تصور کی رو سے اُس دور کا خاکروب بھی خاصا خوشحال تھا جو اپنی جیب میں مختلف موبائل کمپنیوں کی ’ ’ سِمیں “ ڈال کر پھرا کرتا تھا۔
اُن دنوں چونکہ کال کرنے کے بھی پیسے ہوا کرتے تھے اس لیے ‘کس کمپنی کا فی منٹ کال ریٹ سب سے کم ہے، کون سب سے زیادہ فری منٹ دے رہا ہے‘کس پیکج میں ایس ایم ایس سب سے زیادہ سستی ہے، یہ تمام معلومات بچے بچے کے پاس ہوتی تھیں۔تاہم ان دنوں پندرہ سال سے کم عمر بچوں کے پاس عموماً موبائل فون نہیں ہوتا تھا جبکہ آج کل تو ہر بچہ ہی Pre-paid پیدا ہوتاہے۔
اُس زمانے میں فقیر بھی بہت سادہ لوح ہوا کرتے تھے، صرف اللہ کے نام پر مانگا کرتے تھے۔ ان کے پاس نہ ہی کوئی کریڈٹ کارڈ ہوتا، نہ موبائل فون کا بل کہ جس کو جمع کرانے کے لیے وہ لوگوں سے بھیک مانگتے۔زیادہ سے زیادہ کوئی فقیر ایک کلو آٹا مانگ لیتا، جو اس زمانے میں بیس پچیس روپے کلو مل جاتاتھا۔آج کل کے فقیرتو اپنی موٹر سائیکل میں دو لٹر سے کم پٹرول ڈلوائے بغیر جان نہیں چھوڑتے۔
آج سے پچاس سال پہلے ہر گھر میں ”کیبل“ کا کنکشن ہوا کرتا تھا جس کی فیس صرف دو سو روپے ماہوار ہوا کرتی تھی، ٹی وی پر ساٹھ کے قریب چینل آیا کرتے تھے اور سارے گھر والے ایک ساتھ بیٹھ کر ہر وقت ٹی وی دیکھا کرتے تھے۔ اس زمانے کے ٹی وی ڈرامے دیکھ دیکھ کر بچوں کو بھی ”نمشکار، کریاکرم، بلاتکار اور سہاگ رات“ جیسی تراکیب کے معانی بہت اچھی طرح آتے تھے۔آج کل کی نئی پود کو ان لفظوں کی پہچان ہی نہیں رہی بلکہ خود نئی پود کی کوئی پہچان نہیں رہی کیونکہ اب بچوں کو ناموں سے نہیں بلکہ نمبروں سے یاد رکھا جاتا ہے!!!
یوں تو اس زمانے کی بے شمار باتیں اب قصہء پارینہ بن چکی ہیں لیکن لاہور کی ایک ایسی خصوصیت جس کے بغیر یہ ذکر مکمل نہیں ہوتا،اس کے سٹیج ڈرامے اور تھیٹر تھے ۔ ان کی مقبولیت کی خاص بات ان میں ”مجرا“ کرنے والی خواتین تھیں جنہیں معاشرے میں بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔جن پڑھنے والوں کو اس بات میں میں مبالغہ آرائی کا شائبہ نظر آئے وہ بے شک ”علامہ مہجول“ کی مشہور کتاب ”شاہی کشتے اور ان کا استعمال“ کی جلد نمبر1 ، صفحہ 142 پڑھ لیں جس میں علامہ نے اِن عفیفاؤں کے چال چلن پر تفصیلی روشنی ڈالی ہے۔
مزید براں ، اُس زمانے کے ٹی وی چینلز کے انٹرویو بھی نکلو ا کر دیکھے جاسکتے ہیں جن میں یہ پاکدامن عورتیں معاشرے میں پھیلی برائیوں پر افسوس کا اظہار اور قوم کے نام اپنے پیغام میں لوگوں کو صاف ستھری تفریح کی طرف مائل کرتی نظر آتی ہیں۔اُس زمانے کی ایک سٹیج ڈانسر آج کل ایڈز کے خلاف این جی او چلا رہی ہے ۔اِن تھیٹروں کی اداکارائیں جب اپنے”فن“ کا مظاہرہ کرتی تھیں تو بڑھکیں اور سیٹیاں بجاتے ہوئے شائقین کا شوق دیدنی ہوتا اور کچھ تو مستی کے عالم میں سٹیج پر چڑھنے کی کوشش بھی کرتے لیکن سٹیج کے پاس موجود انتظامیہ کے ”کن ٹُٹے“ انہیں کانوں سے پکڑ کر سٹیج سے نیچے اتار دیتے۔آج کل ایسا روح پرور روایتی کلچر کہاں دیکھنا نصیب ہوتاہے، اب تو ان تھیٹرز کی جگہ ”اسٹرپ ٹیز“ کلبوں نے لے لی ہے‘ نہ جانے لاہور کو کس کی نظر لگ گئی !!!
آج جب 2059 ء میں ہم 2009 ء کے لاہور پرنظر ڈالتے ہیں تو یوں لگتا ہے جیسے اِن پچاس سالوں میں ہم نے لاہور کا حسن گہنادیاہے، پچاس سال پہلے کا لاہور میرے دل میں یوں بسا ہوا ہے جیسے میرے بزرگوں کے دلوں میں 1908 ء کا لاہور بسا کرتا تھا۔اصل میں ہم سب لوگ اپنے اپنے شہروں میں پچاس سال پرانی باتیں ڈھونڈتے ہیں اور ظاہر ہے کہ ان کو نہ پا کر ہمیں اس زمانے میں خرابیاں ہی خرابیاں نظر آتی ہیں۔ درحقیقت اُس زمانے کی تمام یادیں ہماری جوانی سے جڑی ہوتی ہیں ، جوانی چلی جاتی ہے تو صرف یادیں رہ جاتی ہیں اور جب یادیں رہ جائیں تو پھر ماضی اچھا اور حال برا لگنے لگتاہے۔