نیرنگ خیال
لائبریرین
عجب یاسیت نے گھیر رکھا ہے۔ آٹھ سال بیت گئے۔ آج صبح سے ذہن دفتری کاموں میں الجھا ہے۔ ایک لمحہ فرصت کا میسر نہیں آیا۔۔۔ شام ہوئی تو تنہا بیٹھتے ہی یہ یادیں ملنے آگئیں۔۔۔۔ میں رات کو ملازمت کرتا دن کو پڑھتا تھا۔ ابھی دفتر ہی میں موجود تھا۔ گھر کو روانگی کی تیاری تھی۔ زمین سے قریبا 40 فٹ نیچے منزل پر بیٹھا تھا کہ زمین ہلنے لگی۔ دیواروں میں شگاف پڑ گئے۔ اور اعصاب آن واحد میں شل ہوگئے۔ سب کو نکلنے کا عندیہ دیا۔ سب سے آخر میں میں اور ایک دوست نکلے۔ یونہی ذہن میں خیال آیا کہ فائل روم پر نظر مار لوں۔ شاید کوئی انجان نہ رہ گیا ہو۔۔۔ ویسے تو اس قیامت سے کوئی انجان نہ رہا ہوگا۔
فلک شیر بھائی نے آواران کی بات۔۔۔ ہم نے بھلا دیا۔۔۔۔ ہم نے یاد ہی کب رکھا کسی کو۔۔۔ دانشور کہتے ہیں کہ ہم نے سبق نہ سیکھا۔ ہماری ذہنی استعداد ہی کہاں ہے سبق سیکھنے کی۔۔۔ بلوچستان میں قیامت گزر گئی۔۔۔۔ لب تک نہ ہلے۔۔۔ آٹھ سال ۔۔۔ آٹھ سال۔۔۔۔ میری زندگی کے قیمتی آٹھ سال گزر گئے۔۔۔ کتنے ہی چہرے محو ہوگئے ذہن سے۔۔۔۔ زلزلے سے کیا انکار کروں۔۔۔ قدرت کے سامنے کیا سر اٹھاؤں۔۔۔ یہ سب تو اشارہ ہے۔۔۔ لیکن ان کھلے اشاروں میں کونسا راز مضمر ہے۔۔۔ اس کھلے راز سے پردہ کیوں نہیں اٹھاتا۔۔۔
غلط راستے پر چلی جا رہی ہے
ذرا بڑھ کر دنیا کو آواز دینا
یہ آواز کون دے۔۔۔ اس صدا کا بار کون اپنے سر لے۔۔۔ اور کیوں لے۔۔۔ جب حلق پھاڑ کر چیخنے سے بھی اپنا گلا ہی چھل رہا ہے۔۔۔ کوئی صدا پر کان نہیں دھر رہا۔۔۔ اہل دل کے کانوں پر اب سرگوشیاں اثر نہیں کرتیں۔۔۔ "پہلا طرب شناس بڑا سنگدل تھا دوست" یہ چیخیں بھی اب چیخیں نہیں لگتی۔۔۔ کیوں کہ اب ہم آوازوں کو واسطوں کے پیمانوں سے تولنے لگے ہیں۔۔۔ ہم دکھ سے محروم ہوچکے ہیں۔۔۔ آہ۔۔۔ احمد جاوید صاحب کی ایک بات یاد آگئی۔۔۔ "احمقو! تم دکھ سے آزاد نہیں دکھ سے محروم ہو۔" ہائے۔۔۔ دانشور مر گئے۔۔۔ اور تم ان کے عقیدوں پر بحث کرتے رہے۔۔۔ بغداد کٹ گیا۔۔۔ اور تم ہاتھ باندھنے اور چھوڑنے پر لڑتے رہے۔۔۔ شام لٹ گیا۔۔۔ مصر خون سے سرخ ہوگیا۔۔۔ تمہارے لوگ دن رات آسمان سے برسنے والی آفات سے مرنے لگے۔۔۔ زمین کے پھٹنے سے گڑنے لگے۔۔۔ بھوک سے دریاؤں میں اترنے لگے۔۔۔ شہر زندگی سے ویران ہوگئے۔۔۔ نفسا نفسی نے تمہیں کچھ ایسے کھینچا۔۔۔ ایسے سینچا۔۔۔ کہ تم تعفن کے عادی ہوگئے۔۔۔ عیاشی کو دنیا بنا کر دین کو آسان کہہ کر سب باتوں پر پردہ ڈال دیا۔۔۔۔ کیا لکھوں۔۔۔ کیا لکھوں۔۔۔ کس بات کا رونا ہے۔۔۔۔ کس بات کا رونا۔۔۔ کیوں لکھوں میں یہ سب۔۔۔ آخر لکھنے کو تو بہت کچھ لکھا جا چکا ہے۔۔۔ تو میں کیوں اپنی بھڑاس نکالوں۔۔۔ آخر کیوں اپنے الفاظ کو رنج میں ڈبو کر دکھ سے کروٹ بدلتا رہوں۔۔ کیوں۔۔۔۔
کیا کیا لکھے جاتا ہوں۔۔۔ کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی۔۔۔
فلک شیر بھائی نے آواران کی بات۔۔۔ ہم نے بھلا دیا۔۔۔۔ ہم نے یاد ہی کب رکھا کسی کو۔۔۔ دانشور کہتے ہیں کہ ہم نے سبق نہ سیکھا۔ ہماری ذہنی استعداد ہی کہاں ہے سبق سیکھنے کی۔۔۔ بلوچستان میں قیامت گزر گئی۔۔۔۔ لب تک نہ ہلے۔۔۔ آٹھ سال ۔۔۔ آٹھ سال۔۔۔۔ میری زندگی کے قیمتی آٹھ سال گزر گئے۔۔۔ کتنے ہی چہرے محو ہوگئے ذہن سے۔۔۔۔ زلزلے سے کیا انکار کروں۔۔۔ قدرت کے سامنے کیا سر اٹھاؤں۔۔۔ یہ سب تو اشارہ ہے۔۔۔ لیکن ان کھلے اشاروں میں کونسا راز مضمر ہے۔۔۔ اس کھلے راز سے پردہ کیوں نہیں اٹھاتا۔۔۔
غلط راستے پر چلی جا رہی ہے
ذرا بڑھ کر دنیا کو آواز دینا
یہ آواز کون دے۔۔۔ اس صدا کا بار کون اپنے سر لے۔۔۔ اور کیوں لے۔۔۔ جب حلق پھاڑ کر چیخنے سے بھی اپنا گلا ہی چھل رہا ہے۔۔۔ کوئی صدا پر کان نہیں دھر رہا۔۔۔ اہل دل کے کانوں پر اب سرگوشیاں اثر نہیں کرتیں۔۔۔ "پہلا طرب شناس بڑا سنگدل تھا دوست" یہ چیخیں بھی اب چیخیں نہیں لگتی۔۔۔ کیوں کہ اب ہم آوازوں کو واسطوں کے پیمانوں سے تولنے لگے ہیں۔۔۔ ہم دکھ سے محروم ہوچکے ہیں۔۔۔ آہ۔۔۔ احمد جاوید صاحب کی ایک بات یاد آگئی۔۔۔ "احمقو! تم دکھ سے آزاد نہیں دکھ سے محروم ہو۔" ہائے۔۔۔ دانشور مر گئے۔۔۔ اور تم ان کے عقیدوں پر بحث کرتے رہے۔۔۔ بغداد کٹ گیا۔۔۔ اور تم ہاتھ باندھنے اور چھوڑنے پر لڑتے رہے۔۔۔ شام لٹ گیا۔۔۔ مصر خون سے سرخ ہوگیا۔۔۔ تمہارے لوگ دن رات آسمان سے برسنے والی آفات سے مرنے لگے۔۔۔ زمین کے پھٹنے سے گڑنے لگے۔۔۔ بھوک سے دریاؤں میں اترنے لگے۔۔۔ شہر زندگی سے ویران ہوگئے۔۔۔ نفسا نفسی نے تمہیں کچھ ایسے کھینچا۔۔۔ ایسے سینچا۔۔۔ کہ تم تعفن کے عادی ہوگئے۔۔۔ عیاشی کو دنیا بنا کر دین کو آسان کہہ کر سب باتوں پر پردہ ڈال دیا۔۔۔۔ کیا لکھوں۔۔۔ کیا لکھوں۔۔۔ کس بات کا رونا ہے۔۔۔۔ کس بات کا رونا۔۔۔ کیوں لکھوں میں یہ سب۔۔۔ آخر لکھنے کو تو بہت کچھ لکھا جا چکا ہے۔۔۔ تو میں کیوں اپنی بھڑاس نکالوں۔۔۔ آخر کیوں اپنے الفاظ کو رنج میں ڈبو کر دکھ سے کروٹ بدلتا رہوں۔۔ کیوں۔۔۔۔
کیا کیا لکھے جاتا ہوں۔۔۔ کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی۔۔۔
آخری تدوین: