8 اکتوبر 2005 از قلم نیرنگ

قیصرانی

لائبریرین
جناب امید امید ہی ہوتی ہے اور خوش فہمی خوش فہمی ہی، الفاظ کو نقاب پہانا چھوڑ دیجیئے خدارا :)
ایک مثال: ہم دعا کرتے ہیں کہ پاکستان کرکٹ ٹیم جنوبی افریقہ کو شکست دے دے۔ یہ ہمارے لئے امید ہوئی۔ جنوبی افریقہ کے نزدیک یہ خوش فہمی ہوئی کہ وہ لوگ باقاعدہ تیاری کر کے کھیلنے آ رہے ہیں۔ ہمارے ہاں تو ابھی تک دوسرے اوپنر کا اعلان تک نہیں ہوا :)
اب اگر ہماری امید بر آئے تو ہم اللہ تعالٰی کے شکر گذار ہوں گے۔ جنوبی افریقہ اسی اللہ سے شکوہ کرے گی کہ اے اللہ تیاری ہماری اچھی تھی اور جیت پر ہمارا حق، لیکن آپ کی وجہ سے ہم ہار گئے :)
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
"(میری جانب سے ) کہ دو اے میرے بندو ! جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے تم اللہ کی رحمت سے ناامید نہ ہو جاؤ، بالیقین اللہ سارے گناہوں کو بخش دیتا ہے، واقعی وہ بڑی بخشش بڑی رحمت والا ہے۔"
(سورۃ الزمر،آیت 53 )
:)
یہاں بات شاید خوش فہمی والی امید کی ہو رہی ہے، اللہ کی رحمت سے نا امیدی یا مایوسی والی نہیں
جناب امید امید ہی ہوتی ہے اور خوش فہمی خوش فہمی ہی، الفاظ کو نقاب پہانا چھوڑ دیجیئے خدارا :)

پہلے میں نے سوچا کہ اس پیغام کو نظر انداز کر دوں۔۔۔ جو کہ میرا دستور العمل بھی ہے۔۔۔ مگر آپ چونکہ مجھے پختہ خیالات کی مالکہ لگتی ہیں۔ سو سوچا کہ کچھ بیاں صراحت سے ہوجائے۔۔۔ میرے داغے گئے بیان پر۔۔
آپ کو لگا کہ میں نے بات کر دی۔۔۔ بس۔۔۔ یونہی۔۔۔ موج میں۔۔۔ طنز داغ دیا۔۔۔ جملہ ذہن میں آیا۔۔۔ لکھ دیا۔۔۔ آیات تو یونہی حوالہ جات کے لیے دھری رہتی ہیں۔۔۔ گزشتہ کئی سالوں سے ان کا اور مصرف بھی کیا رہ گیا ہے اہل پاکستان کے ہاں۔۔۔
اس سے پہلے کہ اپنے خیالات کا اظہار کروں۔۔۔ میں آپ کو یہ بتا دینا چاہتا ہوں کہ میں ایک راسخ العقیدہ اور سخت نظریات کا مالک شخص ہوں۔ میں نہ تو جدید دور کا کوئی روشن خیال مسلمان ہوں۔ اور نہ ہی مجھے لبرل کہلائے جانے کا کوئی شوق ہے۔ اسلام میری پہچان اور تشخص ہے۔۔ اب آجاتے ہیں آپ کے حوالہ کی طرف۔۔۔۔

تو جناب بات یہ ہو رہی تھی۔۔۔ کہ "اس قوم کو امیدوں نے مار رکھا ہے۔۔۔"

میں اللہ کی رحمت سے کبھی مایوس نہ تھا اور نہ ہوں۔۔۔ اور مجھے یہ تجدید اچھی لگی۔۔۔ لیکن کیا ہی عمدہ ہوتا۔۔۔ اگر آپ اس سے قبل یہ آیت بھی پیش کر دیتی۔۔۔ کہ
لیس للانسان الاّ ما سعیٰ
یہ آیت کیوں نہیں یاد آئی۔۔۔۔
ولقد یسّرنا القرآن للذکر فھل من مدّکر

اہل نظر کے ہاں رائج ہے کہ جب کسی خاص طبقے پر نظر ڈالتے ہیں۔۔۔ تو سب سے پہلے یہ دیکھتے ہیں کہ وہ کون سے عوامل اور باتیں ہیں جو اس گروہ کے نزدیک معیار ٹھہرتے ہیں۔ یعنی اس گروہ کا معیار عزوشرف کیا ہوگا؟۔۔۔ وہ کن لوگوں کو قابل عزت سمجھے گا۔۔۔ اور کون سی چیزیں اس کے نزدیک بے وقعت ہوں گی۔۔۔

اقتباس از جون ایلیا
"ہمارے ہاں معیار اور مثالیے بہت ہی رکیک اور پست ہیں۔ ہم کسی عالم، ادیب، مفکر، مصنف، قانون داں، شاعر، افسانہ نگار اور سائنس داں کو کوئی اہمیت نہیں دیتے۔ ہم نقالوں، لطیفہ گویوں، اداکاروں، مسخروں اور بےہنگام نچنیوں اور گویوں کو اہمیت دیتے ہیں۔ سو ہمیں اپنے انجام اور مقسوم کو سمجھنے میں کوئی الجھن نہیں ہونا چاہیے"۔ سسپنس ڈائجسٹ مئی 1996

تو میں عرض یہ کر رہا تھا۔۔۔ کہ ہمارا معیار ذوق کیا ٹھہرا ہے۔۔۔ اب دو چار لوگوں کی فہرست اٹھارہ کروڑ میں سے اٹھا کر نہ کوئی لے آئے۔۔۔ ان کو تو کوئی نمک بھی نہیں سمجھتا۔ تو آخر ایسی کیا بات ہے کہ ہم لوگ عملیت سے دور بےحسی کی دلدل میں دھنسے، لہو و لعب میں ڈوبے، اپنے آپ کو برتر اور افضل سمجھتے رہے کہ اگر ہم پر ابر رحمت نہ برسا تو کدھر کو جائے گا۔۔۔ خدا کی رحمت کو یاد رکھیں۔ اور اس کے جابر و قہار ہونے کی جابجا نشانیوں کو پس منظر کا شور سمجھ لیں۔ اور ایک جملہ لکھ دیں۔۔۔ ایسا نہیں ہوتا۔۔۔ امید عمل سے جڑی ہے۔۔۔ مشاہدہ تدبر میں مضمر ہے۔۔۔ غور کرنے والے ذہن، دیکھنے والی آنکھیں اب ناپید ہوئی جاتی ہیں۔۔۔ ایسے میں فضول امیدیں۔۔۔ محض بیکار امیدیں۔۔۔ معافی کی آس پر گناہ پر کمر کسے رکھنا۔۔۔ سب بیکار شغل ہیں۔۔۔ اور ان رویوں نے اس حال تک پہنچا دیا ہے کہ بےحسی کی دلدل ہے چاروں طرف۔۔۔ اور ہر کوئی بارش کے چیونٹی کو پر لگنے والی زندگی گزار رہا ہے۔۔۔۔ ہائے۔۔۔ وصال یار فقظ آرزو کی بات نہیں۔۔۔

گر کوئی بات طبع پر گراں گزرے تو خاکسار معذرت خواہ ۔۔۔۔ گر قبول افتد زہے عزوشرف
 
آخری تدوین:

ماہی احمد

لائبریرین
نیرنگ خیال بھائی آپ کی بات سو فیصد سچ ہے۔
پوری آیت اسی لیئے لکھی تھی تھے میری بات کا غلط مطلب نہ لیا جائے :)

آپ نے کہا "اس قوم کو امیدوں نے مار رکھا ہے۔۔۔ "
اہلِ قلم کو جہاں معاشرے کی برائیوں کی نشاندہی کرنی چاہیئے وہیں امید کے دیے بھی جلانے چاہیں کیونکہ ہر دور میں چند ایک ایسے ضرور ہوتے ہیں جو صرف ان دیوں کی روشنی میں آگے بڑھ رہے ہوتے ہیں۔
میں نے یہ آیت اُن 5 فیصد لوگوں کے لئے لکھی جو ابھی ابھی کوشش کرہے ہیں، نیرنگ بھائی لوگ پلٹنا چاہتے ہیں تو یہ آیت ان کو راستہ دکھاتی ہے، آپ کہیں گے ایسا کوئی نہیں میں کہوں گی ایسے ہزاروں ہیں :) میں نے خود دیکھے ہیں۔ آپ کی باتیں تو اچھے بھلے شخص کو پکڑ کر پیچھے لے جائیں کہ نہیں بھائی یہاں کچھ نہیں ہو سکتا :)
میں مانتی ہوں کے فتنہ اور برائی اس حد تک پھیل چکی ہے کہ اب اس دھند میں کچھ بھی نظر نہیں آرہا مگر ابھی بھی کچھ لوگ ایسے ہیں جو جدوجہد کر رہے ہیں، آپ کا فقرہ ان کی ہمت کو پست کرے گا۔
آپ نے سمجھا کہ میں نے آیت صرف لکھ دی؟
نہیں، گہرائی میں جا کر دیکھیں یہ آیت آپ کی قوم کے 50 فیصد لوگوں کو راہ پر لانے میں کتنی مددگار ہو سکتی ہے۔
آپ نے کہا فضول امیدیں بےکار امیدیں۔۔۔ امیدیں فضول یا بےکار نہیں ہوتیں یہ تو ڈرایونگ فوررس ہوتی ہیں اُن کے لیے جن میں ذرا سا بھی مثبت پن ہوتا ہے۔
آپ نے کہا امید عمل سے جڑی ہے۔
آپ سوچیں ایک شخص ہے جو "ہاں" اور "ناں" کی سی کیفیت میں ہے
آپ اسے کہیں گے نہیں تم نہیں کر سکتے ، کہتے جائیں، وہ کرنا بھی چاہے گا تب بھی نہیں کر پائے گا۔
آپ کہیں ہاں تم کر لو گے، تم ہی ہو جو کر سکتے ہو، وہ نا بھی کر سکتا ہوا تب بھی کر لے گا۔
ایسے لوگ بہت ہیں ہمارے معاشرے میں ، میرے ارد گرد ہیں ،میں نے دیکھے ہیں، میں امید دلاتی ہوں اُنہیں تو بدل جاتا ہے، سب کچھ ،بہت کچھ۔
ایک بھی شخص میں جب تک احساس زندہ ہے، امید زندہ ہے :)
یہی ہے اللہ کی رحمت سے امید رکھنا :)
میرے والد مجھ سے بہت اختلاف کرتے اس معاملے میں، میں جانتی ہوں انہوں نے بہت منفی پن دیکھ رکھا ہے، بہت زیادہ اس لیے وہ کہتے ہیں "ماہم کچھ نہیں ہوسکتا"
میں تب بھی کہتی ہوں "نہیں پاپا میں زندہ ہوں، آپ ہیں ہم سب ہیں ہم جیسے ہیں اور بھی ابھی، ہم کوشش کر رہے ہیں، ایک دن بدل جائے گا سب"
وہ نہیں مانتے
کیوں؟
کیوں کہ انہیں کوئی امید نہیں دلاتا، جب کوئی مانتا نہیں ہے تو کوشش بھی نہیں کرتا اور یہیں سے مسلہ شروع ہوتا ہے
امید ہے آپ سمجھ گئے ہوں گے :)
 
Top