anwarjamal
محفلین
الرحمن الرحیم ،،،،،،،،،، تحریر؛ انور جمال انور
وہ چلتے چلتے ٹھٹھک کر رک گیا ، اس کا پہلا تاثر زائل ہو چکا تھا کہ کچھ نہیں ہے ، دوسرے تاثر نے اس کے پائوں جکڑ لیے کہ کچھ ہے ،،
اس نے ایک ننھے سے ہاتھ کو بلند ہو کر گرتے ہوئے دیکھا تھا ۔ گھڑی میں صبح کے سات بج کر دس منٹ ہو رہے تھے ،، کیا میں اب بھی نیند میں ہوں ؟ اس نے اپنے آپ سے سوال کیا ،، وہ رکا اور واپس مڑا ، آہستہ آہستہ چلتا ہوا اس کچرے کے ڈھیر کی طرف آیا جس کے کنارے ایک بڑا سا سفید رنگ کا خون آلود شاپنگ بیگ رکھا ہوا تھا ۔
اس نے ڈرتے ڈرتے اس کے اندر جھانکا اور جھٹکے سے پیچھے ہٹا ،، شاپنگ بیگ میں خون میں لت پت ایک بچہ آنکھیں بند کیے پڑا تھا وہ الٹے قدموں واپس بھاگا اور بہت دور جا کر رکا ،، وہاں سے پلٹ کر ایک بار پھر کچرے کی طرف دیکھنے لگا ،، اسے یک بہ یک ایسی بہت سی کہانیاں اورفلمیں یاد آگئیں جس میں ناجائز بچے کا ذکر تھا ۔۔ وہ اگلے کچھ پل میں سمجھ جاتا ہے کہ معاملہ ناجائز بچے کا ہی ہے ۔
وہ بچہ رو کیوں نہیں رہا ، کیا وہ مر چکا ہے ؟ اس نے اپنے آپ سے سوال کیا مگر اسے یاد آیا کہ اس نے بچے کے ننھے سے ہاتھ کو بلند ہوتے دیکھا تھا ،، گویا وہ زندہ ہے ۔۔۔۔
وہ بچہ زندہ ہے تو اسے رونا چاہئیے ،، اس نے اپنے آپ سے کہا کیونکہ اس کے دل میں یہ بات بیٹھی ہوئی تھی کہ بچہ دنیا میں آتے ہی چلانا شروع کر دیتا ہے رو رو کر اپنے ہونے کا اعلان کرتا ہے۔
یہ اپنے ہونے کا اعلان کیوں نہیں کر رہا ؟ کیا یہ نہیں ہے ؟ ممکن ہے یہ اپنے ہونے پر شرمسار ہو یا اپنے وجود سے مکر چکا ہو ،، جس بچے کی ماں ہی اسے ٹھکرا دے وہ اپنے ہونے کا اعلان کر کے کیا کرے گا ۔۔اس نے سوچا اور یکدم اسے بچے پر ترس آگیا
اس نے ادھر ادھر دیکھا ، دور دور تک کوئی نہیں تھا ،، یہ کراچی کا وہ علاقہ تھا جہاں کے لوگ نو دس بجے سے پہلے سو کر نہیں اٹھتے تھے اور ابھی صرف سات بج کر بارہ منٹ ہوئے تھے سورج ایک طرف سے سر نکالے اسے سوالیہ نظروں سے تک رہا تھا ،،،
اس نے ارادہ کیا کہ اس بچے کو شاپنگ بیگ سمیت اٹھا لے اور گھر لے جا کر نہلا دھلا کر اسے اچھے اچھے کپڑے پہنائے،،۔
وہ دو چار قدم آگے بڑھا مگر رک گیا
اسے یاد آیا کہ اس کے اپنے دس بچے ہیں جن کی حالت بھوکے ننگے کچرا چننے والوں جیسی ہے کیونکہ اس کی تنخواہ بہت قلیل تھی اور اپنی بیوی سے ایک ہزار جوتے کھا کر بھی وہ اوور ٹائم کے لیے آمادہ نہ تھا ، اس کا موقف تھا کہ انسان اور گدھے کی محنت میں کچھ فرق ہونا چاہیئے ۔۔
بچے نے ایک بار پھر ہاتھ بلند کیا ،، وہ ننھا سا ہاتھ سفید رنگ کا تھا ،، یقینا اس کی ماں بہت گوری چٹی ہوگی ، جب وہ نو ماہ تک مادر رحم میں رہا ہو گا تو چپکے چپکے اس نے اپنی ماں کی ساری خوبصورتی اور ادائیں خود میں سمو لی ہوں گی ،،یہ سوچ کر کہ جب وہ دنیا میں آئے گا تو ماں اسے دیکھ کر کہے گی کہ میرے لعل تو تو بالکل مجھی پر گیا ہے رے ،، اور پھر وہ اس کے صدقے واری جائے گی ، اس کی بلائیں لے گی ، اسے سینے سے لگا کر بھینچ لے گی ، اسے اپنی چھاتی کا دودھ پلائے گی ،،،، مگر ،،،،،، ایسا کچھ نہ ہوا تھا ۔ بچے کا ہاتھ ایک بار پھر اٹھا اور گرا ،،
کیا اس بچے کو بھوک لگی ہے اور وہ بار بار ہاتھ اٹھا کر اپنی ماں کو بلا رہا ہے ؟ اس نے سوچا ،، تب اسے بچے پر دوسری بار ترس آیا ، وہ بھوک کے عذاب سے واقف تھا ،، ایک نئے عزم کے تحت آگے بڑھا مگر جلد ہی رک گیا
اسے یاد آیا کہ اس کے اپنے بچے کل رات سے بھوکے ہیں یہی وجہ تھی کہ وہ صبح صبح ہی اٹھ گیا تھا اور اب اپنے ایک دوست کے گھر ادھار مانگنے جا رہا تھا
،، اے خدا تو ان بچوں کو کیوں دنیا میں بھیجتا ہے جو بھوک سے بلکتے ہیں راتوں کو سونے نہیں دیتے یا علی الصبح کچرے کے ڈھیر پر پائے جاتے ہیں ،، اس نے ناراض ہو کر خدا سے شکوہ کیا اور واپسی کا ارادہ کیا ،، بچہ شاپنگ بیگ میں اس طرح کسمسایا جیسے وہ اپنے زندہ بچ جانے کی امید کھو رہا ہو ،، اس بار اس کا ننھا سا ہاتھ بھی بلند نہیں ہوا ،، شاید ہر گزرنے والے پل کے ساتھ اس میں گلوکوز کی کمی واقع ہو رہی ہو اور اب اس میں اتنی سکت بھی نہ ہو کہ وہ ہاتھ اٹھا کر کسی کو اپنی جانب متوجہ کر سکے،،
خود غرضی کہہ رہی تھی کہ اس کے اپنے بچے زیادہ اہم ہیں جو کل رات سے بھوکے ہیں ، اسے فی الفور ان کے لیے ناشتے کا بندوبست کرنا چاہئیے
اس نے تھیلی میں رکھے بچے سے منہ پھیر کر اپنا راستہ ناپنا چاہا مگر جیسے زمین نے اس کے پاوں پکڑ لیے ہوں ،، وہ اپنی جگہ سے ہل بھی نہیں سکا ،، اس نے دیکھا آسمان پر چیلیں جمع ہو رہی ہیں اور بچہ ساکت ہو چکا ہے ۔
دور کسی مسجد سے چندے کی اپیلیں شروع ہو چکی تھیں ، گنتی کے چند نمازیوں کے لیے قیمتی قلین ، سنگ مرمر کے وضو خانے ائیرکنڈیشن اور ہر طرح کی آرائش و زیبائش کے باوجود مولوی کو چین نہیں آیا تھا اور اب جانے وہ کس سلسلے میں مانگ رہا تھا ، اسے بھوک سے بلکتے بچوں یا کچرے کے ڈھیر ہر چیلوں کا ناشتہ بن جانے والے بچے سے کوئی غرض نہیں تھی ۔
اچانک وہ ہڑبڑا کر اپنے خیالوں سے باہر نکل آیا
اس نے جلدی سے گھبرا کر آسمان کی طرف دیکھا ، واقعی وہاں چیلیں گردش میں تھیں پھر اس نے غور سے تھیلی کی جانب دیکھا۔
تھیلی ساکت تھی ،،، کیا بچہ واقعی مر چکا ہے ؟ اس نے اپنے آپ سے پوچھا اور اس کا دل صدمے سے چور چور ہو گیا ،، جہاں دس بچے پل رہے تھے وہان گیارہواں بھی شامل ہو جاتا تو کیا تھا ، اس نے بالآخر خود کو ہی مورد الزام ٹھہرایا اور مردہ قدموں سے اپنے راستے پر جانے لگا ،، آگے ایک موڑ مڑنے سے پہلے اس نے آخری بار پلٹ کر دیکھا اور تب وہ جتنی قوت سے بھاگ سکتا تھا کچرے کی سمت بھاگا ،،، ننھے سے بچے کا اٹھا ہوا ہاتھ اسے اپنی طرف بلا رہا تھا
وہ چلتے چلتے ٹھٹھک کر رک گیا ، اس کا پہلا تاثر زائل ہو چکا تھا کہ کچھ نہیں ہے ، دوسرے تاثر نے اس کے پائوں جکڑ لیے کہ کچھ ہے ،،
اس نے ایک ننھے سے ہاتھ کو بلند ہو کر گرتے ہوئے دیکھا تھا ۔ گھڑی میں صبح کے سات بج کر دس منٹ ہو رہے تھے ،، کیا میں اب بھی نیند میں ہوں ؟ اس نے اپنے آپ سے سوال کیا ،، وہ رکا اور واپس مڑا ، آہستہ آہستہ چلتا ہوا اس کچرے کے ڈھیر کی طرف آیا جس کے کنارے ایک بڑا سا سفید رنگ کا خون آلود شاپنگ بیگ رکھا ہوا تھا ۔
اس نے ڈرتے ڈرتے اس کے اندر جھانکا اور جھٹکے سے پیچھے ہٹا ،، شاپنگ بیگ میں خون میں لت پت ایک بچہ آنکھیں بند کیے پڑا تھا وہ الٹے قدموں واپس بھاگا اور بہت دور جا کر رکا ،، وہاں سے پلٹ کر ایک بار پھر کچرے کی طرف دیکھنے لگا ،، اسے یک بہ یک ایسی بہت سی کہانیاں اورفلمیں یاد آگئیں جس میں ناجائز بچے کا ذکر تھا ۔۔ وہ اگلے کچھ پل میں سمجھ جاتا ہے کہ معاملہ ناجائز بچے کا ہی ہے ۔
وہ بچہ رو کیوں نہیں رہا ، کیا وہ مر چکا ہے ؟ اس نے اپنے آپ سے سوال کیا مگر اسے یاد آیا کہ اس نے بچے کے ننھے سے ہاتھ کو بلند ہوتے دیکھا تھا ،، گویا وہ زندہ ہے ۔۔۔۔
وہ بچہ زندہ ہے تو اسے رونا چاہئیے ،، اس نے اپنے آپ سے کہا کیونکہ اس کے دل میں یہ بات بیٹھی ہوئی تھی کہ بچہ دنیا میں آتے ہی چلانا شروع کر دیتا ہے رو رو کر اپنے ہونے کا اعلان کرتا ہے۔
یہ اپنے ہونے کا اعلان کیوں نہیں کر رہا ؟ کیا یہ نہیں ہے ؟ ممکن ہے یہ اپنے ہونے پر شرمسار ہو یا اپنے وجود سے مکر چکا ہو ،، جس بچے کی ماں ہی اسے ٹھکرا دے وہ اپنے ہونے کا اعلان کر کے کیا کرے گا ۔۔اس نے سوچا اور یکدم اسے بچے پر ترس آگیا
اس نے ادھر ادھر دیکھا ، دور دور تک کوئی نہیں تھا ،، یہ کراچی کا وہ علاقہ تھا جہاں کے لوگ نو دس بجے سے پہلے سو کر نہیں اٹھتے تھے اور ابھی صرف سات بج کر بارہ منٹ ہوئے تھے سورج ایک طرف سے سر نکالے اسے سوالیہ نظروں سے تک رہا تھا ،،،
اس نے ارادہ کیا کہ اس بچے کو شاپنگ بیگ سمیت اٹھا لے اور گھر لے جا کر نہلا دھلا کر اسے اچھے اچھے کپڑے پہنائے،،۔
وہ دو چار قدم آگے بڑھا مگر رک گیا
اسے یاد آیا کہ اس کے اپنے دس بچے ہیں جن کی حالت بھوکے ننگے کچرا چننے والوں جیسی ہے کیونکہ اس کی تنخواہ بہت قلیل تھی اور اپنی بیوی سے ایک ہزار جوتے کھا کر بھی وہ اوور ٹائم کے لیے آمادہ نہ تھا ، اس کا موقف تھا کہ انسان اور گدھے کی محنت میں کچھ فرق ہونا چاہیئے ۔۔
بچے نے ایک بار پھر ہاتھ بلند کیا ،، وہ ننھا سا ہاتھ سفید رنگ کا تھا ،، یقینا اس کی ماں بہت گوری چٹی ہوگی ، جب وہ نو ماہ تک مادر رحم میں رہا ہو گا تو چپکے چپکے اس نے اپنی ماں کی ساری خوبصورتی اور ادائیں خود میں سمو لی ہوں گی ،،یہ سوچ کر کہ جب وہ دنیا میں آئے گا تو ماں اسے دیکھ کر کہے گی کہ میرے لعل تو تو بالکل مجھی پر گیا ہے رے ،، اور پھر وہ اس کے صدقے واری جائے گی ، اس کی بلائیں لے گی ، اسے سینے سے لگا کر بھینچ لے گی ، اسے اپنی چھاتی کا دودھ پلائے گی ،،،، مگر ،،،،،، ایسا کچھ نہ ہوا تھا ۔ بچے کا ہاتھ ایک بار پھر اٹھا اور گرا ،،
کیا اس بچے کو بھوک لگی ہے اور وہ بار بار ہاتھ اٹھا کر اپنی ماں کو بلا رہا ہے ؟ اس نے سوچا ،، تب اسے بچے پر دوسری بار ترس آیا ، وہ بھوک کے عذاب سے واقف تھا ،، ایک نئے عزم کے تحت آگے بڑھا مگر جلد ہی رک گیا
اسے یاد آیا کہ اس کے اپنے بچے کل رات سے بھوکے ہیں یہی وجہ تھی کہ وہ صبح صبح ہی اٹھ گیا تھا اور اب اپنے ایک دوست کے گھر ادھار مانگنے جا رہا تھا
،، اے خدا تو ان بچوں کو کیوں دنیا میں بھیجتا ہے جو بھوک سے بلکتے ہیں راتوں کو سونے نہیں دیتے یا علی الصبح کچرے کے ڈھیر پر پائے جاتے ہیں ،، اس نے ناراض ہو کر خدا سے شکوہ کیا اور واپسی کا ارادہ کیا ،، بچہ شاپنگ بیگ میں اس طرح کسمسایا جیسے وہ اپنے زندہ بچ جانے کی امید کھو رہا ہو ،، اس بار اس کا ننھا سا ہاتھ بھی بلند نہیں ہوا ،، شاید ہر گزرنے والے پل کے ساتھ اس میں گلوکوز کی کمی واقع ہو رہی ہو اور اب اس میں اتنی سکت بھی نہ ہو کہ وہ ہاتھ اٹھا کر کسی کو اپنی جانب متوجہ کر سکے،،
خود غرضی کہہ رہی تھی کہ اس کے اپنے بچے زیادہ اہم ہیں جو کل رات سے بھوکے ہیں ، اسے فی الفور ان کے لیے ناشتے کا بندوبست کرنا چاہئیے
اس نے تھیلی میں رکھے بچے سے منہ پھیر کر اپنا راستہ ناپنا چاہا مگر جیسے زمین نے اس کے پاوں پکڑ لیے ہوں ،، وہ اپنی جگہ سے ہل بھی نہیں سکا ،، اس نے دیکھا آسمان پر چیلیں جمع ہو رہی ہیں اور بچہ ساکت ہو چکا ہے ۔
دور کسی مسجد سے چندے کی اپیلیں شروع ہو چکی تھیں ، گنتی کے چند نمازیوں کے لیے قیمتی قلین ، سنگ مرمر کے وضو خانے ائیرکنڈیشن اور ہر طرح کی آرائش و زیبائش کے باوجود مولوی کو چین نہیں آیا تھا اور اب جانے وہ کس سلسلے میں مانگ رہا تھا ، اسے بھوک سے بلکتے بچوں یا کچرے کے ڈھیر ہر چیلوں کا ناشتہ بن جانے والے بچے سے کوئی غرض نہیں تھی ۔
اچانک وہ ہڑبڑا کر اپنے خیالوں سے باہر نکل آیا
اس نے جلدی سے گھبرا کر آسمان کی طرف دیکھا ، واقعی وہاں چیلیں گردش میں تھیں پھر اس نے غور سے تھیلی کی جانب دیکھا۔
تھیلی ساکت تھی ،،، کیا بچہ واقعی مر چکا ہے ؟ اس نے اپنے آپ سے پوچھا اور اس کا دل صدمے سے چور چور ہو گیا ،، جہاں دس بچے پل رہے تھے وہان گیارہواں بھی شامل ہو جاتا تو کیا تھا ، اس نے بالآخر خود کو ہی مورد الزام ٹھہرایا اور مردہ قدموں سے اپنے راستے پر جانے لگا ،، آگے ایک موڑ مڑنے سے پہلے اس نے آخری بار پلٹ کر دیکھا اور تب وہ جتنی قوت سے بھاگ سکتا تھا کچرے کی سمت بھاگا ،،، ننھے سے بچے کا اٹھا ہوا ہاتھ اسے اپنی طرف بلا رہا تھا