حاتم راجپوت
لائبریرین
یوں تو اس پر بہت سی تھیوریز بن چکی ہیں لیکن میں جسے مانتا ہوں وہ یہ کہ کسی بھی واقعے یا تجربے سے گزرتے ہوئے ہم چیزوں کو پہچانی شکل دینے کیلئے ایک خاکے کا لاشعوری استعمال کرتے ہیں جیسے آپ اپنے کمرے میں بیٹھے ہیں اور آپ کی ٹیبل کمرے کی شمالی دیوار کے ساتھ ہے۔ اگر آپ آنکھیں بند کر کے یا منہ دوسری طرف کر کے کمرے کا خاکہ اپنے ذہن میں بنائیں گے تو آپ کو میز شمالی دیوار کے ساتھ ہی بنی نظر آئے گی۔ سمجھئے کہ اگر اسی میز پر ایک چھوٹا سا کلاک ہے تو وہ بھی اسی خاکے میں میز پر پڑا نظر آئے گا۔ اب آپ نے جب بھی ٹائم دیکھنا ہوتا ہے تو آپ گردن گھما کر ہر طرف کلاک کی تلاش نہیں کرتے بلکہ سیکنڈ کے سوویں حصہ میں آپ کی نظر میز پر پڑے کلاک پر چلی جاتی ہے۔ بالکل ایسے ہی کسی بھی جگہ اور کسی بھی سچویشن میں ہم چیزوں کا سرسری جائزہ لے کر ایک پہچانی خاکہ قائم کرتے ہیں ۔اور اسی کی بنیاد پر ہمارے اگلے خیالات جنم لیتے ہیں۔ سمجھ لیجئے کہ یہ پہچانی خاکہ ایک امکانی خاکے کے گرد لپٹا ہوا ہے۔ اس امکانی خاکے میں وہ تمام تر انفارمیشن ذخیرہ ہے جس کا ہم اس پہچانی خاکے میں امکان رکھ سکتے ہیں لیکن وہ انفارمیشن ہمارے لاشعور میں محفوظ ہوتی ہے لہذا صرف سوچنے سے ہم اس پر گرفت نہیں کر پاتے۔ ہمارے دماغ میں موجود نیورل سسٹم بڑے غیر محسوس طریقے سے اس پہچانی خاکے میں برقی رو چھوڑ کر آؤٹ پٹ ہماری میموری تک پہنچاتا رہتا ہے جسے ہم اپنی روز مرہ زندگی میں استعمال کرتے رہتے ہیں جس کی ایک مثال اوپر دی جا چکی ہے لیکن کبھی کبھی نیورل سسٹم کی برقی رو پہچانی خاکے کے گرد چکر پورا کرنے کے بجائے اپنا رستہ چھوٹا کرتی ہے اور پہچانی خاکے کے اندر بنے امکانی خاکے میں سوراخ کر کے واپس آ جاتی ہے۔یہ سارا عمل سیکنڈ کے ہزارویں سے بھی کم حصے میں مکمل ہوتا ہے اور دوبارہ سے برقی رو کا نارمل روٹ بحال ہو جاتا ہے لیکن امکانی خاکے میں سے گزری برقی رو نے پہچانی امکان کی بہت سے لاشعوری یادداشتوں کے اوپری خاکے کو اپنی گرفت میں لے لیا ہوتا ہے ۔یہ یاد داشتیں جب ہمارے دماغ کو موصول ہوتی ہیں تو وہ انہیں بھی میموری کے طور پر محفوظ کر لیتا ہے لیکن جب نارمل روٹ سے گزری برقی رو ہمارے دماغ کو موصول ہوتی ہے تو وہ چونک اٹھتا ہے اور ہمیں کاشن دینے لگ جاتا ہے۔ یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے آپ مختلف ڈیٹا لیکن ایک ہی ایکسٹینشن کی ایک سے زیادہ فائلز کو ایک ہی نام سے ایک فولڈر میں سیو کریں تو آپ کا کمپیوٹر انہیں ایک ہی فائل کے نام سے پہچانتے ہوئے دوسری فائل کا نام تبدیل کرنے کا مطالبہ کرتا ہے۔ اسی طرح جب برقی رو امکانی خاکے میں سے گزرتی ہے تو صرف امکانی خاکے کی ایکسٹینشن کو کاپی کرتی ہے لیکن اس میں موجود ڈیٹا کو نہیں۔
تو اس طرح ہمیں ایک ایکسٹینشن کا دھوکا ہوتا ہے اس میں موجود ڈیٹا کا نہیں لیکن چونکہ ہمارا دماغ فوری طور پر اس کی تشریح نہیں کر پاتا لہذا ہم یہی سمجھتے ہیں کہ اس میں موجود ڈیٹا بھی وہی ہے جو ایکسٹینشن ہم سے بیان کر چکی ہے۔اور یہی احساس déjà-vu کہلاتا ہے۔
نوٹ: یہ کچھ جگاڑی سی تشریح ہے۔ اصل اصطلاحات کے ساتھ بھی پیش کر دوں گا لیکن وہ ہے بہت مشکل۔ کبھی کبھی میرے اپنے پلے نہیں پڑتی
تو اس طرح ہمیں ایک ایکسٹینشن کا دھوکا ہوتا ہے اس میں موجود ڈیٹا کا نہیں لیکن چونکہ ہمارا دماغ فوری طور پر اس کی تشریح نہیں کر پاتا لہذا ہم یہی سمجھتے ہیں کہ اس میں موجود ڈیٹا بھی وہی ہے جو ایکسٹینشن ہم سے بیان کر چکی ہے۔اور یہی احساس déjà-vu کہلاتا ہے۔
نوٹ: یہ کچھ جگاڑی سی تشریح ہے۔ اصل اصطلاحات کے ساتھ بھی پیش کر دوں گا لیکن وہ ہے بہت مشکل۔ کبھی کبھی میرے اپنے پلے نہیں پڑتی