Dead Poets Society ----------مجلسِ شعرائے رفتہ

فلک شیر

محفلین
عزیزم عبدالسمیع ہمارے ارشد تلامذہ میں سے ہیں۔ سوال سے اُن کی محبت نے ان کے علم و معلومات کو یک رُخا نہیں رہنے دیا ۔علم کے تمام مصادر ومخارج تک رسائی کی وہ پیہم کوشش میں رہتے ہیں ۔ آج کل انجینیرنگ یونیورسٹی لاہور میں زیرِ تعلیم ہیں ۔ دو ایک روز قبل انہوں نے ایک فلم دیکھنے کی طرف توجہ دلائی اور ساتھ ہی یہ بھی ، کہ اس پہ کچھ تبصرہ بھی کروں۔ فلم کا نام “Dead Poets Society”ہے اور 1989ءمیں بنی تھی۔ فلم دیکھنا ایک مشکل کام ہے، یعنی اڑھائی تین گھنٹے جم کر بیٹھنا اور اس دوران فوکس ایک جگہ رکھنا ---الا یہ کہ کہانی اتنی جاندار اور موضوع اتنا لگ ہو،کہ آپکو باندھ لے اور ہلنے نہ دے۔ خیر -- یہ فلم ہم نے دیکھ ہی ڈالی اور ایک دفعہ ایک صفحہ لکھ لیا تھا، کہ بجلی چلی گئی اور لکھا ہوا ضائع ہو گیا ۔ عبدالسمیع سے معذرت کی ،لیکن آج دوبارہ موقع ملنے پر کچھ لکھا ہی گیا--اور وہ پیش خدمت ہے۔

فلم کے انگریزی نام کا ترجمہ ہم نے 'مجلسِ شعرائے رفتہ'کیا ہے –جو تاثر نام سے قائم ہوتا ہے، کہانی اس سے کچھ مختلف ہے ۔مرکزی موضوع، ذیلی موضوعات، پبلک سکول کی روایتی فضا،جانداراداکاری، دیکھے بھالے کردار اور فلم سے لا شعوری طور پر سیکھی گئی چیزیں ---سب مل کر اسے ایک قابلِ دید پیکج بناتے ہیں۔

یہ ایک امریکی پبلک سکول کی کہانی ہے—جو 'کیریر بوائز' تیار کرتا ہے اور اسی کی شہرت بھی رکھتا ہے۔والدین بھی اس پہ اسی وجہ سے فریفتہ ہیں اور انتظامیہ بھی اپنی اسی کامیابی پہ شاداں ہے۔سکول کا ماحول؛ روایتی نظم و ضبط—گاہے روح کو بوجھل کر دینے والے نظم و ضبط، سخت گیر نظام الاوقات،کلاسیکی تصور تعلیم اور 'طے شدہ منازل کے حصول کے لیےطے شدہ ڈرلز ' کا مجموعہ ہے۔ اساتذہ اور طلباء کے درمیان 'خوف سے پھوٹنے والا احترام' زیادہ اور 'محبت سے جنم لینے والا اتباع'کم دکھائی دیتا ہے۔یہ منظرنامہ وہاں دہائیوں سے جاری ہے-- اس کی چھاپ بڑی گہری ہے –اور اسی کو ہی اس ادارے کی کامیابی کی کنجی بھی سمجھا جاتا ہے۔ایسے میں وہاں کیٹنگ نامی ،انگریزی کے ایک استاد وارد ہوتے ہیں ،جو اسی کالج کے پڑھے ہوئے اور کافی ذہین واقع ہوئے ہیں۔بچوں کو پڑھانے سکھانے کے لیے وہ غیر روایتی طریقے استعمال کرتے ہیں ۔ شاعری اور ادب کی وہ تعریفیں، جو نقاد لوگ اپنی موٹی موٹی کتابوں میں لکھ گئے ہیں –اُن کی بجائے وہ شعر وادب کو ایک زندہ، لطف اٹھانے کی چیزاور زندگی بدلنے والے مواد کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ 'لفظ 'ان کے نزدیک محض امتحان میں کامیابی کا 'کھل جا سم سم'نہیں—یہ ایک زندہ تر چیز ہے، جو اثر پذیری میں کسی بھی اور زندہ چیز سے کم نہیں ہے -- یہ منزل بھی ہے اور نشانِ منزل بھی ۔

کیٹنگ اپنے طلباکو "Capri Diem"یعنی "حال کو گرفت میں لاؤ"کا درس دیتے ہیں—اپنے خوابوں کی قدر کرنے اور اُن کے لیے جینے کا درس دیتے ہیں۔ظاہر ہے، ایسی کوئی بھی سرگرمی ایک جامد روایات کے ادارے کے حکامِ بالا کو کسی طرح نہ بھائے گا –یہی کچھ کیٹنگ صاحب کے ساتھ ہوا ،انہیں ڈھکے چھپے الفاظ میں 'سمجھایا 'جانے لگا۔

اپنے زمانہ طالب علمی میں کیٹنگ نے اپنے کچھ دوستوں کے ساتھ مل کر 'Dead Poets Society' بنائی تھی۔اس سوسائٹی کے ارکان شعرائے قدیم اور ادبائے سلف کے نثر اور نظم پارے جنگلوں ویرانوں میں جا کر پڑھتے اور اس سے زندگی، حرارت،یقین اور خوداعتمادی اخذ کرتے۔کیٹنگ نے اپنے طلباء کو اس سوسائٹی کو ازسرِ نو زندہ کرنے کا کہا۔طلباء کا ایک گروپ ، جو کیٹنگ کے پیغام سے متاثر تھے،وہ ایساکر گزرتا ہے۔یہ تجربہ اُن بچوں میں زدگی کو مختلف زاویہ نظر سے دیکھنے کی صلاحیت اور اعتماد پیدا کرتا ہے۔کہانی اپنے اختتام کی طرف بڑھتی ہے –انہی بچوں میں سے ایک اداکاری کا بے حد شائق ہوتاہے ،لیکن اس کے والد اسے اپنی طے شدہ منزل کی طرف جانے کے لیے ہانکتے رہتے ہیں۔وہ بچہ پڑھائی میں بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کرتا ہے –لیکن ساتھ ہی ساتھ اپنے اس خواب کی تکمیل بھی چاہتا ہے۔بالآخر اسے ایک ڈرامے میں مرکزی کردار نبھانے کا موقع مل جاتا ہے—جسے وہ انتہائی کامیابی سے نبھاتا ہے—لیکن اس کے والد عین اس کی پرفارمنس کے دوران اسی تھئیٹر میں آ ن پہنچتے ہیں اور اسے گھر واپس لے جاتے ہیں۔بے بسی،غصے،خود کو نہ سمجھے جانے کے کرب اور اسی قبیل کے دیگر جذبات کے زیرِ اثر وہ بچہ اسی رات خود کُشی کر لیتا ہے –اس اکلوتے بھائی کی خود کُشی سکول میں بھونچال لے آتا ہے۔انتطامیہ کو موقع مل جاتا ہے اور وہ ڈیڈ پوئیٹس سوسائٹی کے ارکان کو ڈرا دھمکا کر کیٹنگ کے خلاف بیان لے لیتی ہے اور یوں کیٹنگ کو کالج سے نکال دیا جاتا ہے۔

کالج سے نکلتے ہوئے پرنسپل کے چیخنے چلانے کے باوجود بچے کیٹنگ سے محبت کا اظہار کرتے ہوئے بنچوں پر کھڑے ہو جاتے ہیں اور اسے
"O Captain , May Captain"
کہہ کر رُخصت کرتے ہیں۔

یہ تو تھی مختصر کہانی –اس پہ کچھ تاثرات بھی دیکھ لیجیے:

٭کوئی بھی نثر پارہ، شعر،کہانی یا ڈرامہ –مکمل سچ یا پورا جھوٹ نہیں ہوتا۔سو کسی بھی چیز کاتاثر قبول کرنے اور اس سے نتائج اخذ کرنے کے دوران اس بات کو شعور ی سطح پہ رکھنا لازم ہے۔

٭ ہر پچھلی نسل اپنے خوف تو اگلی نسل کو زبردستی ہدیہ کرتی ہے –مگر ساتھ ہی ساتھ امید اورخواب کے وہ روزن دیکھنے سے اس سے بھی زیاددہ سختی سے روکتی ہے ،جنہیں وہ بھی دیکھنا چاہتے تھے ،لیکن روک دیے گیے۔ بچوں کو ان کےعصر کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنا اور اسلاف کی روایات سے آشنائی دےکر ایک کامیاب اور متوازن شخصیت کی تعمیر ایک مشکل کام ہے۔کسی نسل کی کامیابی اسی میں ہے، کہ وہ اپنے سے اگلی نسل کے ہاتھ پاؤں باندھنے اور مادر پدر آزاد چھوڑنے کے درمیان کا راستہ اختیار کرے۔یہ رستہ مشقت،قربانی اور پیہم جہد کا راستہ ہے—اسی لیے ہر نسل اسے اگلی نسل کے لیے چھوڑ دیتی ہے—بالعموم ۔

٭ادنیٰ استاد طالب علم کے پاس پہلے سے موجود علم و عمل کو بھی برباد کردیتا ہے—اوسط استاد طالب علم کو محض امتحان کے لیے تیار کرتا ہے –جب کہ اعلیٰ استا د اسے زندگی کے لیے تیار کرتا ہے،اُسے زندہ کر دیتاہے،زاویہ ہائے نظر تبدیل کرتاہے—خوابوں کے لیے مسلسل جہد کا درس نہیں دیتا –اُس کے لیے اس کی شخصیت کو ڈھال دیتا ہے ، تبدیل کر دیتا ہے—اسے خبر بھی نہیں ہوتی اور وہ کچھ کا کچھ ہو جاتا ہے –کہیں کا کہیں پہنچ جاتا ہے۔

٭اُستاد کو یہ شرف تو بہرحال حاصل ہے،کہ کسی بھی قوم کی آئندہ نسل کی تعمیر کی اولین ذمہ داری ، اسی کے سپرد رہے گی۔اُسے انسانی وسائل ،خام مال کی شکل میں ہر سال وافر مہیا کیے جاتے ہیں—اب یہ اس پہ ہے،کہ وہ اُن کو کیسے برتتا ہے اور کس حد تک زندہ،متحرک،صاحبانِ علم و عمل اور اپنے زمانے سے بھی آگے بڑھ کر آئندہ زمانوں کے چیلنجز سے نپٹنے کے قابل انسان تعمیر کرتا ہے۔ وہ وسائل کی کمی کا بہانہ بنا سکتا ہے—زمانے کی ناقدری اور دنیاوی مال و متاع سے کمتر حصے کا گلہ کر سکتا ہے –لیکن وہ اس حقیقت اور عظیم حقیقت سے انکار نہیں کر سکتا—کہ زمانہ ہر برس اپنے جگر کے ٹکڑے اس کے دامن میں لا ڈالتا ہے –جس سے قیمتی متاع بہرحال کوئی اور نہیں ہوتی—تو اب وہ ادنیٰ رہتا ہے—اوسط بنتا ہے—یا اعلیٰ دائرہ میں داخل ہو کر میلہ لوٹ لیتا ہے—اس دنیا میں بھی اور اُس دنیا میں بھی—یہ چوائس بہرحال اُسی کی ہے ۔

٭والدین اور اساتذہ کو بچے کے سامنے کیریر کا بُت اتنا بڑا کر کے نہیں دکھانا چاہیے، کہ بچے میں موجود متنوع صلاحیتیں –جو خدا نے یقینا اسے برتنے کے لیے نوازی ہیں –اُن کا قتلِ عام ہو جائے ۔

اور آخر میں یہ کہ –اگر آپ اس فلم کا ملخص مُرشد اقبالؒ کے الفاظ میں سننا چاہیں –تو وہ کچھ یوں ہے:

عاقبت منزلِ ما، وادی خاموشان است
حالیہ غلغلہ در گنبد افلاک انداز

آخر ہماری منزل ایک شہرِ خاموشاں ہے ---------تو آج آسمانوں کے اس گنبد تلے جتنا غوغا کر سکتے ہو، کر لو
فلک شیر
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
ہر پچھلی نسل اپنے خوف تو اگلی نسل کو زبردستی ہدیہ کرتی ہے –مگر ساتھ ہی ساتھ امید اورخواب کے وہ روزن دیکھنے سے اس سے بھی زیاددہ سختی سے روکتی ہے ،جنہیں وہ بھی دیکھنا چاہتے تھے ،لیکن روک دیے گیے۔ بچوں کو ان کےعصر کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنا اور اسلاف کی روایات سے آشنائی دےکر ایک کامیاب اور متوازن شخصیت کی تعمیر ایک مشکل کام ہے۔کسی نسل کی کامیابی اسی میں ہے، کہ وہ اپنے سے اگلی نسل کے ہاتھ پاؤں باندھنے اور مادر پدر آزاد چھوڑنے کے درمیان کا راستہ اختیار کرے۔یہ رستہ مشقت،قربانی اور پیہم جہد کا راستہ ہے—اسی لیے ہر نسل اسے اگلی نسل کے لیے چھوڑ دیتی ہے—بالعموم ۔

فلم میں نے بھی دیکھی ہے۔۔۔۔ یہ سطور بےحد خوبصورتی سے لکھی گئی ہیں۔۔۔ اور ان میں نئے والدین اور اساتذہ کے لیے شافی رہنمائی موجود ہے۔
 

سیما علی

لائبریرین
٭والدین اور اساتذہ کو بچے کے سامنے کیریر کا بُت اتنا بڑا کر کے نہیں دکھانا چاہیے، کہ بچے میں موجود متنوع صلاحیتیں –جو خدا نے یقینا اسے برتنے کے لیے نوازی ہیں –اُن کا قتلِ عام ہو جائے ۔

اور آخر میں یہ کہ –اگر آپ اس فلم کا ملخص مُرشد اقبالؒ کے الفاظ میں سننا چاہیں –تو وہ کچھ یوں ہے:

عاقبت منزلِ ما، وادی خاموشان است
حالیہ غلغلہ در گنبد افلاک انداز
بہت خوبصورت تبصرہ ۔۔اصل حسن آپکے بیاں میں ۔۔۔بہت پہلے دیکھی تھی فلم ۔بہت اچھا لگا آپکا تبصرہ پڑھ کے ۔
بہت ساری دعائیں 😇😇
 
Top