زہیر عبّاس
محفلین
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ملکی وے کہکشاں اور پردیسی کہکشائیں - حصّہ پنجم (آخری حصّہ)
How The Universe Works - Season 1, Episode 3
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سائنس دانوں نے اس سارے عمل کو کمپیوٹر سمیولیشن کے ذریعے سمجھنے کی کوشش کی ہے (ملاحظہ کیجئے تصویر نمبر ١٣)۔ اس میں انہوں نے دیکھا کہ کہکشاں کے تصادم کے ساتھ ہی گیسی بادل اور غبار ہر طرف پھیل گیا۔ ثقلی قوت نے ستاروں کو انکے مداروں سے نکال کر دور خلائے بسیط میں پھینک دیا۔ یہ قیامت خیز نظارہ حشر کا سامان برپا کردے گا ۔ اس جنگ میں ہم صف اول میں موجود ہوں گے۔
آخرکار دونوں کہکشائیں ایک دوسرے سے آرپار ہوجائیں گی؛ اور پھر واپس آکر ایک عظیم الجثہ کہکشاں کی شکل میں ابھریں گی۔ حیرت انگیز بات تو یہ ہے کہ اس سارے معرکے میں کوئی بھی ستارہ، دوسرے ستارے سے نہیں ٹکرائے گا۔ ستارے اس وقت بھی ایک دوسرے سے بہت زیادہ دوری پر ہوں گے۔ ستاروں کے آپس میں ٹکرانے کا امکان صفر ہے۔ بہرحال، گیس اور غبار کے بادل، جو ستاروں کے درمیان ہوں گے، وہ گرم ہونا شروع ہوجائیں گے؛ اور آخرکار جل اٹھیں گے۔ نئی کہکشاں میں ہر جگہ سفید گرم روشنی پھیل جائی گی۔ ایک وقت ایسا بھی آئے گا کہ آسمان، آگ سے روشن ہوگا۔ ملکی وے اور اینڈرومیڈا کے انضمام سے شاید ‘‘ملکومیڈا’’ کہلانے والی کہکشاں کا جنم ہوگا۔ اور یہ ایک نئی طرح کی کہکشاں کی مانند دکھائی دے گی۔ یہ نئی کہکشاں ایک بہت ہی بڑی، بیضوی شکل کی کہکشاں ہوگی جو بغیر مرغولہ نما بازئووں کے ہوگی۔ یہ تصادم ناگزیر ہے؛ اور دنیا کی کوئی طاقت اسے روک نہیں سکتی۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اس نئی بننے والی کہکشاں میں ہماری جگہ کہاں ہوگی؟ اور یہ ہم پر کیا اثر ڈالے گی؟ اس کا جواب بڑا ہی بھیانک ہے۔ اُس دوران کہ جب یہ ٹکراؤ شروع ہوگا، ہم شاید خلائے بسیط میں دور پھینک دیئے جائیں۔ یا پھر ہم اس نئی بننے والی کہکشاں کے مرکز میں دھکیل دیئے جائیں گے۔ شاید وہ دن، کرہ ارض کےلئے قیامت کا دن ہی ہوگا۔
کہکشائیں تو کائنات میں ایک دوسرے سے ٹکرانا جاری رکھیں گی؛ اوران کے اس عمل کو کوئی روک بھی نہیں سکتا۔ یہ کہکشانی تصادم تو آخرکار گزر ہی جاتے ہیں۔
مگر اس سے بھی بڑا ایک اور خطرہ کائنات میں موجود ہے۔ ایک ایسا خطرہ جسے کوئی بھی نہیں ٹال سکتا۔ یہ خطرہ آخرکار کہکشاؤں کو ایک دوسرے سے دور دھکیل دے گا۔ کہکشائیں اتنا دور دھکیل دی جائیں گی کہ کائنات کا تانا بانا بکھر کر رہ جائے گا۔ کہکشائیں ستاروں، نظام ہائے شمسی، سیاروں، اورچاندوں کا گھر ہوتی ہیں۔ ہر اہم چیز کہکشاں میں ہی واقع ہے۔ کہکشائیں کائنات کی جان ہیں۔ ہر وہ چیز جو ہم پر اثر انداز ہوتی ہے، وہ کہکشاؤں میں ہی وقوع پذیر ہوتی ہے۔ مگر یہ بات بھی سچ ہے کہ کہکشائیں نہایت ہی نازک ہوتی ہیں، جنہیں تاریک مادّے نے باندھ رکھا ہے۔ اب سائنس دانوں نے ایک اور کائناتی قوت دریافت کرلی ہے۔ اس کا نام انہوں نے ‘‘تاریک توانائی’’ (Dark Energy) رکھا ہے۔
تاریک توانائی کا اثر، تاریک مادّے کے بالکل الٹ ہے۔ یہ کہکشاؤں کو ایک دوسرے سے جوڑے رکھنے کے بجائے ایک دوسرے سے دور دھکیل رہا ہے۔ تاریک توانائی، جسے ہم نے بیسویں صدی کے آخری چند برسوں میں ہی دریافت کیا ہے، کائنات میں ایک بڑی اثر و رسوخ رکھنے والی قوّت بن کر ابھری ہے۔ یہ بھی نہایت پراسرار ہے۔ ہم نہیں جانتے کہ یہ کیوں ہے۔ ہم تو صرف اتنا جانتے ہیں کہ یہ موجود ہے! مگر کیوں ہے اور کیا کررہی ہے؟ ہمیں واقعی اس بارے میں کچھ بھی نہیں معلوم۔
تاریک تونائی واقعی میں نہایت عجیب و غریب ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے اس نے خلاء میں اسپرنگ سے لگادیئے ہوں، جو ہر چیز کو ایک دوسرے سے دور پرے دھکیل رہے ہوں۔ سائنس دانوں کا خیال ہے کہ مستقل بعید تاریک توانائی اور تاریک مادّے کے درمیان (کشش اوردفع کی) جنگ کا اختتام، تاریک توانائی کے حق میں ہوگا۔ وہ جیت جائے گی۔ اور اس جیت کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ کہکشائیں ایک دوسرے سے دور ہوتی چلی جائیں گی۔ تاریک توانائی، کہکشاؤں کو ایک دوسرے سے اتنا زیادہ دور کردے گی کہ ایک کہکشاں سے دوسری کہکشاں نظر ہی نہیں آئے گی۔ کہکشائیں ایک دوسرے سے روشنی کی رفتار سے بھی زیادہ تیزی سے دور ہورہی ہوں گی ۔ باقی ماندہ کائنات ہماری نظروں سے اوجھل ہوجائے گی۔ یہ سب نہ آج ہوگا اور نہ ہی آنے والے میں؛ البتہ یہ سب کچھ شاید آج سے دس کھرب سال بعد ہوگا۔ اور تب ہماری کہکشاں بالکل تنہا رہ جائے گی۔
فی الوقت تو کائنات میں کہکشاؤں کی نشوونما اور ان میں زندگی پروان چڑھنے والے عوامل بالکل درست طور پر، بدرجہ اُتم موجود ہیں۔ ہم خوش قسمت ہیں کہ زمین پر زندگی کا ارتقاء ہوا؛ کیونکہ ہمارا چھوٹا سا نظام شمسی، کہکشاں میں بالکل اس مقام پر ہے جو زندگی کو پروان چڑھانے کیلئے نہایت موزوں ہے۔ اگر ہم کہکشانی مرکز سے ذرا بھی قریب ہوتے، تو شاید ہم پیدا ہی نہیں ہوئے ہوتے۔ کہکشانی مرکز میں انتہاء درجے کا شدید ماحول ہوتا ہے؛ اور وہاں بہت زیادہ ریڈیائی لہریں سرگرم ہوتی ہیں۔ تاہم، مرکز سے زیادہ دور ہونا بھی اتنا ہی برا ہوتا کہ جتنا مرکز سے قریب ہونا۔ مرکز سے بہت زیادہ دور وہ ستارے بھی اتنی کافی تعداد میں موجود نہ ہوتے جنہوں نے ہماری زندگی کےلئے درکار، بنیادی عناصر تشکیل دیئے ہیں۔ ایک طرح سے دیکھا جائے تو ہم اپنی کہکشاں کے ہم ‘‘گولڈی لاکس زون’’ (Goldilocks Zone) میں ہیں: نہ مرکز سے زیادہ دور نہ اس سے زیادہ قریب؛ بالکل مناسب فاصلے پر!
سائنس دانوں کو یقین ہے کہ اس کہکشانی گولڈی لاکس زون میں لاکھوں کروڑوں ستارے اور بھی موجود ہوں گے؛ جو نہ صرف ہمارے سورج کی مانند ہوں گے بلکہ ساتھ ہی ساتھ ان میں ویسے ہی نظامِ شمسی موجود ہوں گے کہ جیسا ہمارا اپنا نظامِ شمسی ہے۔ لہٰذا، یہ ہوسکتا ہے کہ وہاں بھی زندگی کے وجود میں آنے اور پنپنے کے امکانات بھی ویسے ہی ہوں جیسے ہمارے نظامِ شمسی میں، ہماری زمین پر چلے آرہے ہیں۔ ہماری کہکشاں جیسے گولڈی لاکس زون – یعنی زندگی کی ابتداء، نشوونما اور ارتقاء کےلئے سازگار ماحول کے حامل علاقے جنہیں اصطلاحاً ‘‘قابلِ رہائش علاقے’’ بھی کہا جاتا ہے – دوسری کہکشائوں میں بھی تو موجود ہوسکتے ہیں۔
کائنات بہت بڑی ہے؛ اور ہم اس کائنات میں ہمیشہ نت نئی چیزیں دریافت کرتے ہی رہتے ہیں۔ ہر بار جب ہم کسی نئے راز کا پردہ فاش کرتے ہیں تو اس میں سے ایک نئی اور پہلے سے بھی زیادہ پیچیدہ پہیلی ہمارے سامنے سامنے آن دھمکتی ہے۔ ماہرین کےلئے یہ بات تو قطعی طور پر نہایت پُرجوش ہے کہ ملکی وے کہکشاں اور کائنات میں موجود دوسری کہکشاؤں سے متعلق ان کے سامنے ختم نہ ہونے والے سوالات ہیں؛ اور نہ سلجھنے والی پہیلیوں کے انبار لگے ہیں۔
صرف ایک دہائی پہلے تک ہم یہ سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ ہماری کہکشاں اور دوسری کہکشاؤں کے مرکزوں میں بلیک ہولز موجود ہوں گے؛ نہ ہم یہی سوچ سکتے تھے کہ ماہرین فلکیات، تاریک توانائی اور تاریک مادّے کے وجود پر یقین کرلیں گے۔ جیسے جیسے ان کی تحقیق کا دائرہ کار بڑھ رہا ہے، ان کی معلومات میں اضافہ ہورہا ہے۔ اور وہ کارخانہ قدرت کے کام کرنے کا طریقہ بہتر سے بہتر انداز میں سمجھ رہے ہیں۔
ہمیں اس پر خدا کا لاکھ لاکھ شکر ادا کرنا چاہئے کہ ہم اس سنہرے دور میں، اور ایک ایسے نایاب سیارے پر موجود ہیں جو ایک کہکشاں کے مضافات میں واقع ہے۔ جہاں رہتے ہوئے نہ صرف ہم کائنات کی تخلیق پر سوچ بچار کرسکتے ہیں، بلکہ سوالات بھی پوچھ سکتے ہیں؛ اور کائنات کی ابتداء اور زماں و مکان کے آغاز کو سمجھ سکتے ہیں۔
کہکشائیں جنم لے رہی ہیں۔ ان کا ارتقاء ہورہا ہے۔ وہ نشوونما پارہی ہیں؛ اور ختم بھی ہوجائیں گی۔ کہکشاؤں کی اہمیت، سائنس کی دنیا میں بہت زیادہ ہے۔ ہر ماہر فلکیات کی اپنی پسند کی ایک کہکشاں ہوتی ہے۔ بھنور کی شکل والی کہکشاں یا چھلے دار کہکشاں، بیضوی کہکشاں یا گیند کی طرح گول نظر انے والی کہکشاں۔ بہرحال ہماری تو سب سے پسندیدہ کہکشاں ہماری اپنی ملکی وے ہے، جو ہمارا گھر ہے۔ ہم خوش قسمت ہیں کہ ملکی وے نے زندگی کے پنپنے کےلئے ہمیں بالکل مناسب ماحول فراہم کیا ہے۔ ہمارا مقدر اسی کہکشاں سے وابستہ ہے؛ اور ہمارا مستقبل بھی اسی کے ہاتھ میں ہے۔
ختم شد
تلخیص و ترجمہ: زہیر عبّاس
ترمیم و ادارت: علیم احمد
ملکی وے کہکشاں اور پردیسی کہکشائیں - حصّہ پنجم (آخری حصّہ)
How The Universe Works - Season 1, Episode 3
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سائنس دانوں نے اس سارے عمل کو کمپیوٹر سمیولیشن کے ذریعے سمجھنے کی کوشش کی ہے (ملاحظہ کیجئے تصویر نمبر ١٣)۔ اس میں انہوں نے دیکھا کہ کہکشاں کے تصادم کے ساتھ ہی گیسی بادل اور غبار ہر طرف پھیل گیا۔ ثقلی قوت نے ستاروں کو انکے مداروں سے نکال کر دور خلائے بسیط میں پھینک دیا۔ یہ قیامت خیز نظارہ حشر کا سامان برپا کردے گا ۔ اس جنگ میں ہم صف اول میں موجود ہوں گے۔
آخرکار دونوں کہکشائیں ایک دوسرے سے آرپار ہوجائیں گی؛ اور پھر واپس آکر ایک عظیم الجثہ کہکشاں کی شکل میں ابھریں گی۔ حیرت انگیز بات تو یہ ہے کہ اس سارے معرکے میں کوئی بھی ستارہ، دوسرے ستارے سے نہیں ٹکرائے گا۔ ستارے اس وقت بھی ایک دوسرے سے بہت زیادہ دوری پر ہوں گے۔ ستاروں کے آپس میں ٹکرانے کا امکان صفر ہے۔ بہرحال، گیس اور غبار کے بادل، جو ستاروں کے درمیان ہوں گے، وہ گرم ہونا شروع ہوجائیں گے؛ اور آخرکار جل اٹھیں گے۔ نئی کہکشاں میں ہر جگہ سفید گرم روشنی پھیل جائی گی۔ ایک وقت ایسا بھی آئے گا کہ آسمان، آگ سے روشن ہوگا۔ ملکی وے اور اینڈرومیڈا کے انضمام سے شاید ‘‘ملکومیڈا’’ کہلانے والی کہکشاں کا جنم ہوگا۔ اور یہ ایک نئی طرح کی کہکشاں کی مانند دکھائی دے گی۔ یہ نئی کہکشاں ایک بہت ہی بڑی، بیضوی شکل کی کہکشاں ہوگی جو بغیر مرغولہ نما بازئووں کے ہوگی۔ یہ تصادم ناگزیر ہے؛ اور دنیا کی کوئی طاقت اسے روک نہیں سکتی۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اس نئی بننے والی کہکشاں میں ہماری جگہ کہاں ہوگی؟ اور یہ ہم پر کیا اثر ڈالے گی؟ اس کا جواب بڑا ہی بھیانک ہے۔ اُس دوران کہ جب یہ ٹکراؤ شروع ہوگا، ہم شاید خلائے بسیط میں دور پھینک دیئے جائیں۔ یا پھر ہم اس نئی بننے والی کہکشاں کے مرکز میں دھکیل دیئے جائیں گے۔ شاید وہ دن، کرہ ارض کےلئے قیامت کا دن ہی ہوگا۔
کہکشائیں تو کائنات میں ایک دوسرے سے ٹکرانا جاری رکھیں گی؛ اوران کے اس عمل کو کوئی روک بھی نہیں سکتا۔ یہ کہکشانی تصادم تو آخرکار گزر ہی جاتے ہیں۔
مگر اس سے بھی بڑا ایک اور خطرہ کائنات میں موجود ہے۔ ایک ایسا خطرہ جسے کوئی بھی نہیں ٹال سکتا۔ یہ خطرہ آخرکار کہکشاؤں کو ایک دوسرے سے دور دھکیل دے گا۔ کہکشائیں اتنا دور دھکیل دی جائیں گی کہ کائنات کا تانا بانا بکھر کر رہ جائے گا۔ کہکشائیں ستاروں، نظام ہائے شمسی، سیاروں، اورچاندوں کا گھر ہوتی ہیں۔ ہر اہم چیز کہکشاں میں ہی واقع ہے۔ کہکشائیں کائنات کی جان ہیں۔ ہر وہ چیز جو ہم پر اثر انداز ہوتی ہے، وہ کہکشاؤں میں ہی وقوع پذیر ہوتی ہے۔ مگر یہ بات بھی سچ ہے کہ کہکشائیں نہایت ہی نازک ہوتی ہیں، جنہیں تاریک مادّے نے باندھ رکھا ہے۔ اب سائنس دانوں نے ایک اور کائناتی قوت دریافت کرلی ہے۔ اس کا نام انہوں نے ‘‘تاریک توانائی’’ (Dark Energy) رکھا ہے۔
تاریک توانائی کا اثر، تاریک مادّے کے بالکل الٹ ہے۔ یہ کہکشاؤں کو ایک دوسرے سے جوڑے رکھنے کے بجائے ایک دوسرے سے دور دھکیل رہا ہے۔ تاریک توانائی، جسے ہم نے بیسویں صدی کے آخری چند برسوں میں ہی دریافت کیا ہے، کائنات میں ایک بڑی اثر و رسوخ رکھنے والی قوّت بن کر ابھری ہے۔ یہ بھی نہایت پراسرار ہے۔ ہم نہیں جانتے کہ یہ کیوں ہے۔ ہم تو صرف اتنا جانتے ہیں کہ یہ موجود ہے! مگر کیوں ہے اور کیا کررہی ہے؟ ہمیں واقعی اس بارے میں کچھ بھی نہیں معلوم۔
تاریک تونائی واقعی میں نہایت عجیب و غریب ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے اس نے خلاء میں اسپرنگ سے لگادیئے ہوں، جو ہر چیز کو ایک دوسرے سے دور پرے دھکیل رہے ہوں۔ سائنس دانوں کا خیال ہے کہ مستقل بعید تاریک توانائی اور تاریک مادّے کے درمیان (کشش اوردفع کی) جنگ کا اختتام، تاریک توانائی کے حق میں ہوگا۔ وہ جیت جائے گی۔ اور اس جیت کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ کہکشائیں ایک دوسرے سے دور ہوتی چلی جائیں گی۔ تاریک توانائی، کہکشاؤں کو ایک دوسرے سے اتنا زیادہ دور کردے گی کہ ایک کہکشاں سے دوسری کہکشاں نظر ہی نہیں آئے گی۔ کہکشائیں ایک دوسرے سے روشنی کی رفتار سے بھی زیادہ تیزی سے دور ہورہی ہوں گی ۔ باقی ماندہ کائنات ہماری نظروں سے اوجھل ہوجائے گی۔ یہ سب نہ آج ہوگا اور نہ ہی آنے والے میں؛ البتہ یہ سب کچھ شاید آج سے دس کھرب سال بعد ہوگا۔ اور تب ہماری کہکشاں بالکل تنہا رہ جائے گی۔
فی الوقت تو کائنات میں کہکشاؤں کی نشوونما اور ان میں زندگی پروان چڑھنے والے عوامل بالکل درست طور پر، بدرجہ اُتم موجود ہیں۔ ہم خوش قسمت ہیں کہ زمین پر زندگی کا ارتقاء ہوا؛ کیونکہ ہمارا چھوٹا سا نظام شمسی، کہکشاں میں بالکل اس مقام پر ہے جو زندگی کو پروان چڑھانے کیلئے نہایت موزوں ہے۔ اگر ہم کہکشانی مرکز سے ذرا بھی قریب ہوتے، تو شاید ہم پیدا ہی نہیں ہوئے ہوتے۔ کہکشانی مرکز میں انتہاء درجے کا شدید ماحول ہوتا ہے؛ اور وہاں بہت زیادہ ریڈیائی لہریں سرگرم ہوتی ہیں۔ تاہم، مرکز سے زیادہ دور ہونا بھی اتنا ہی برا ہوتا کہ جتنا مرکز سے قریب ہونا۔ مرکز سے بہت زیادہ دور وہ ستارے بھی اتنی کافی تعداد میں موجود نہ ہوتے جنہوں نے ہماری زندگی کےلئے درکار، بنیادی عناصر تشکیل دیئے ہیں۔ ایک طرح سے دیکھا جائے تو ہم اپنی کہکشاں کے ہم ‘‘گولڈی لاکس زون’’ (Goldilocks Zone) میں ہیں: نہ مرکز سے زیادہ دور نہ اس سے زیادہ قریب؛ بالکل مناسب فاصلے پر!
سائنس دانوں کو یقین ہے کہ اس کہکشانی گولڈی لاکس زون میں لاکھوں کروڑوں ستارے اور بھی موجود ہوں گے؛ جو نہ صرف ہمارے سورج کی مانند ہوں گے بلکہ ساتھ ہی ساتھ ان میں ویسے ہی نظامِ شمسی موجود ہوں گے کہ جیسا ہمارا اپنا نظامِ شمسی ہے۔ لہٰذا، یہ ہوسکتا ہے کہ وہاں بھی زندگی کے وجود میں آنے اور پنپنے کے امکانات بھی ویسے ہی ہوں جیسے ہمارے نظامِ شمسی میں، ہماری زمین پر چلے آرہے ہیں۔ ہماری کہکشاں جیسے گولڈی لاکس زون – یعنی زندگی کی ابتداء، نشوونما اور ارتقاء کےلئے سازگار ماحول کے حامل علاقے جنہیں اصطلاحاً ‘‘قابلِ رہائش علاقے’’ بھی کہا جاتا ہے – دوسری کہکشائوں میں بھی تو موجود ہوسکتے ہیں۔
کائنات بہت بڑی ہے؛ اور ہم اس کائنات میں ہمیشہ نت نئی چیزیں دریافت کرتے ہی رہتے ہیں۔ ہر بار جب ہم کسی نئے راز کا پردہ فاش کرتے ہیں تو اس میں سے ایک نئی اور پہلے سے بھی زیادہ پیچیدہ پہیلی ہمارے سامنے سامنے آن دھمکتی ہے۔ ماہرین کےلئے یہ بات تو قطعی طور پر نہایت پُرجوش ہے کہ ملکی وے کہکشاں اور کائنات میں موجود دوسری کہکشاؤں سے متعلق ان کے سامنے ختم نہ ہونے والے سوالات ہیں؛ اور نہ سلجھنے والی پہیلیوں کے انبار لگے ہیں۔
صرف ایک دہائی پہلے تک ہم یہ سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ ہماری کہکشاں اور دوسری کہکشاؤں کے مرکزوں میں بلیک ہولز موجود ہوں گے؛ نہ ہم یہی سوچ سکتے تھے کہ ماہرین فلکیات، تاریک توانائی اور تاریک مادّے کے وجود پر یقین کرلیں گے۔ جیسے جیسے ان کی تحقیق کا دائرہ کار بڑھ رہا ہے، ان کی معلومات میں اضافہ ہورہا ہے۔ اور وہ کارخانہ قدرت کے کام کرنے کا طریقہ بہتر سے بہتر انداز میں سمجھ رہے ہیں۔
ہمیں اس پر خدا کا لاکھ لاکھ شکر ادا کرنا چاہئے کہ ہم اس سنہرے دور میں، اور ایک ایسے نایاب سیارے پر موجود ہیں جو ایک کہکشاں کے مضافات میں واقع ہے۔ جہاں رہتے ہوئے نہ صرف ہم کائنات کی تخلیق پر سوچ بچار کرسکتے ہیں، بلکہ سوالات بھی پوچھ سکتے ہیں؛ اور کائنات کی ابتداء اور زماں و مکان کے آغاز کو سمجھ سکتے ہیں۔
کہکشائیں جنم لے رہی ہیں۔ ان کا ارتقاء ہورہا ہے۔ وہ نشوونما پارہی ہیں؛ اور ختم بھی ہوجائیں گی۔ کہکشاؤں کی اہمیت، سائنس کی دنیا میں بہت زیادہ ہے۔ ہر ماہر فلکیات کی اپنی پسند کی ایک کہکشاں ہوتی ہے۔ بھنور کی شکل والی کہکشاں یا چھلے دار کہکشاں، بیضوی کہکشاں یا گیند کی طرح گول نظر انے والی کہکشاں۔ بہرحال ہماری تو سب سے پسندیدہ کہکشاں ہماری اپنی ملکی وے ہے، جو ہمارا گھر ہے۔ ہم خوش قسمت ہیں کہ ملکی وے نے زندگی کے پنپنے کےلئے ہمیں بالکل مناسب ماحول فراہم کیا ہے۔ ہمارا مقدر اسی کہکشاں سے وابستہ ہے؛ اور ہمارا مستقبل بھی اسی کے ہاتھ میں ہے۔
ختم شد
تلخیص و ترجمہ: زہیر عبّاس
ترمیم و ادارت: علیم احمد