Discovery Channel کے پروگرام "How The Universe Works - Season 1" کا اردو ترجمہ

زہیر عبّاس

محفلین
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ملکی وے کہکشاں اور پردیسی کہکشائیں - حصّہ پنجم (آخری حصّہ)
How The Universe Works - Season 1, Episode 3
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سائنس دانوں نے اس سارے عمل کو کمپیوٹر سمیولیشن کے ذریعے سمجھنے کی کوشش کی ہے (ملاحظہ کیجئے تصویر نمبر ١٣)۔ اس میں انہوں نے دیکھا کہ کہکشاں کے تصادم کے ساتھ ہی گیسی بادل اور غبار ہر طرف پھیل گیا۔ ثقلی قوت نے ستاروں کو انکے مداروں سے نکال کر دور خلائے بسیط میں پھینک دیا۔ یہ قیامت خیز نظارہ حشر کا سامان برپا کردے گا ۔ اس جنگ میں ہم صف اول میں موجود ہوں گے۔


آخرکار دونوں کہکشائیں ایک دوسرے سے آرپار ہوجائیں گی؛ اور پھر واپس آکر ایک عظیم الجثہ کہکشاں کی شکل میں ابھریں گی۔ حیرت انگیز بات تو یہ ہے کہ اس سارے معرکے میں کوئی بھی ستارہ، دوسرے ستارے سے نہیں ٹکرائے گا۔ ستارے اس وقت بھی ایک دوسرے سے بہت زیادہ دوری پر ہوں گے۔ ستاروں کے آپس میں ٹکرانے کا امکان صفر ہے۔ بہرحال، گیس اور غبار کے بادل، جو ستاروں کے درمیان ہوں گے، وہ گرم ہونا شروع ہوجائیں گے؛ اور آخرکار جل اٹھیں گے۔ نئی کہکشاں میں ہر جگہ سفید گرم روشنی پھیل جائی گی۔ ایک وقت ایسا بھی آئے گا کہ آسمان، آگ سے روشن ہوگا۔ ملکی وے اور اینڈرومیڈا کے انضمام سے شاید ‘‘ملکومیڈا’’ کہلانے والی کہکشاں کا جنم ہوگا۔ اور یہ ایک نئی طرح کی کہکشاں کی مانند دکھائی دے گی۔ یہ نئی کہکشاں ایک بہت ہی بڑی، بیضوی شکل کی کہکشاں ہوگی جو بغیر مرغولہ نما بازئووں کے ہوگی۔ یہ تصادم ناگزیر ہے؛ اور دنیا کی کوئی طاقت اسے روک نہیں سکتی۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اس نئی بننے والی کہکشاں میں ہماری جگہ کہاں ہوگی؟ اور یہ ہم پر کیا اثر ڈالے گی؟ اس کا جواب بڑا ہی بھیانک ہے۔ اُس دوران کہ جب یہ ٹکراؤ شروع ہوگا، ہم شاید خلائے بسیط میں دور پھینک دیئے جائیں۔ یا پھر ہم اس نئی بننے والی کہکشاں کے مرکز میں دھکیل دیئے جائیں گے۔ شاید وہ دن، کرہ ارض کےلئے قیامت کا دن ہی ہوگا۔


کہکشائیں تو کائنات میں ایک دوسرے سے ٹکرانا جاری رکھیں گی؛ اوران کے اس عمل کو کوئی روک بھی نہیں سکتا۔ یہ کہکشانی تصادم تو آخرکار گزر ہی جاتے ہیں۔


مگر اس سے بھی بڑا ایک اور خطرہ کائنات میں موجود ہے۔ ایک ایسا خطرہ جسے کوئی بھی نہیں ٹال سکتا۔ یہ خطرہ آخرکار کہکشاؤں کو ایک دوسرے سے دور دھکیل دے گا۔ کہکشائیں اتنا دور دھکیل دی جائیں گی کہ کائنات کا تانا بانا بکھر کر رہ جائے گا۔ کہکشائیں ستاروں، نظام ہائے شمسی، سیاروں، اورچاندوں کا گھر ہوتی ہیں۔ ہر اہم چیز کہکشاں میں ہی واقع ہے۔ کہکشائیں کائنات کی جان ہیں۔ ہر وہ چیز جو ہم پر اثر انداز ہوتی ہے، وہ کہکشاؤں میں ہی وقوع پذیر ہوتی ہے۔ مگر یہ بات بھی سچ ہے کہ کہکشائیں نہایت ہی نازک ہوتی ہیں، جنہیں تاریک مادّے نے باندھ رکھا ہے۔ اب سائنس دانوں نے ایک اور کائناتی قوت دریافت کرلی ہے۔ اس کا نام انہوں نے ‘‘تاریک توانائی’’ (Dark Energy) رکھا ہے۔


تاریک توانائی کا اثر، تاریک مادّے کے بالکل الٹ ہے۔ یہ کہکشاؤں کو ایک دوسرے سے جوڑے رکھنے کے بجائے ایک دوسرے سے دور دھکیل رہا ہے۔ تاریک توانائی، جسے ہم نے بیسویں صدی کے آخری چند برسوں میں ہی دریافت کیا ہے، کائنات میں ایک بڑی اثر و رسوخ رکھنے والی قوّت بن کر ابھری ہے۔ یہ بھی نہایت پراسرار ہے۔ ہم نہیں جانتے کہ یہ کیوں ہے۔ ہم تو صرف اتنا جانتے ہیں کہ یہ موجود ہے! مگر کیوں ہے اور کیا کررہی ہے؟ ہمیں واقعی اس بارے میں کچھ بھی نہیں معلوم۔


تاریک تونائی واقعی میں نہایت عجیب و غریب ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے اس نے خلاء میں اسپرنگ سے لگادیئے ہوں، جو ہر چیز کو ایک دوسرے سے دور پرے دھکیل رہے ہوں۔ سائنس دانوں کا خیال ہے کہ مستقل بعید تاریک توانائی اور تاریک مادّے کے درمیان (کشش اوردفع کی) جنگ کا اختتام، تاریک توانائی کے حق میں ہوگا۔ وہ جیت جائے گی۔ اور اس جیت کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ کہکشائیں ایک دوسرے سے دور ہوتی چلی جائیں گی۔ تاریک توانائی، کہکشاؤں کو ایک دوسرے سے اتنا زیادہ دور کردے گی کہ ایک کہکشاں سے دوسری کہکشاں نظر ہی نہیں آئے گی۔ کہکشائیں ایک دوسرے سے روشنی کی رفتار سے بھی زیادہ تیزی سے دور ہورہی ہوں گی ۔ باقی ماندہ کائنات ہماری نظروں سے اوجھل ہوجائے گی۔ یہ سب نہ آج ہوگا اور نہ ہی آنے والے میں؛ البتہ یہ سب کچھ شاید آج سے دس کھرب سال بعد ہوگا۔ اور تب ہماری کہکشاں بالکل تنہا رہ جائے گی۔


فی الوقت تو کائنات میں کہکشاؤں کی نشوونما اور ان میں زندگی پروان چڑھنے والے عوامل بالکل درست طور پر، بدرجہ اُتم موجود ہیں۔ ہم خوش قسمت ہیں کہ زمین پر زندگی کا ارتقاء ہوا؛ کیونکہ ہمارا چھوٹا سا نظام شمسی، کہکشاں میں بالکل اس مقام پر ہے جو زندگی کو پروان چڑھانے کیلئے نہایت موزوں ہے۔ اگر ہم کہکشانی مرکز سے ذرا بھی قریب ہوتے، تو شاید ہم پیدا ہی نہیں ہوئے ہوتے۔ کہکشانی مرکز میں انتہاء درجے کا شدید ماحول ہوتا ہے؛ اور وہاں بہت زیادہ ریڈیائی لہریں سرگرم ہوتی ہیں۔ تاہم، مرکز سے زیادہ دور ہونا بھی اتنا ہی برا ہوتا کہ جتنا مرکز سے قریب ہونا۔ مرکز سے بہت زیادہ دور وہ ستارے بھی اتنی کافی تعداد میں موجود نہ ہوتے جنہوں نے ہماری زندگی کےلئے درکار، بنیادی عناصر تشکیل دیئے ہیں۔ ایک طرح سے دیکھا جائے تو ہم اپنی کہکشاں کے ہم ‘‘گولڈی لاکس زون’’ (Goldilocks Zone) میں ہیں: نہ مرکز سے زیادہ دور نہ اس سے زیادہ قریب؛ بالکل مناسب فاصلے پر!


سائنس دانوں کو یقین ہے کہ اس کہکشانی گولڈی لاکس زون میں لاکھوں کروڑوں ستارے اور بھی موجود ہوں گے؛ جو نہ صرف ہمارے سورج کی مانند ہوں گے بلکہ ساتھ ہی ساتھ ان میں ویسے ہی نظامِ شمسی موجود ہوں گے کہ جیسا ہمارا اپنا نظامِ شمسی ہے۔ لہٰذا، یہ ہوسکتا ہے کہ وہاں بھی زندگی کے وجود میں آنے اور پنپنے کے امکانات بھی ویسے ہی ہوں جیسے ہمارے نظامِ شمسی میں، ہماری زمین پر چلے آرہے ہیں۔ ہماری کہکشاں جیسے گولڈی لاکس زون – یعنی زندگی کی ابتداء، نشوونما اور ارتقاء کےلئے سازگار ماحول کے حامل علاقے جنہیں اصطلاحاً ‘‘قابلِ رہائش علاقے’’ بھی کہا جاتا ہے – دوسری کہکشائوں میں بھی تو موجود ہوسکتے ہیں۔


کائنات بہت بڑی ہے؛ اور ہم اس کائنات میں ہمیشہ نت نئی چیزیں دریافت کرتے ہی رہتے ہیں۔ ہر بار جب ہم کسی نئے راز کا پردہ فاش کرتے ہیں تو اس میں سے ایک نئی اور پہلے سے بھی زیادہ پیچیدہ پہیلی ہمارے سامنے سامنے آن دھمکتی ہے۔ ماہرین کےلئے یہ بات تو قطعی طور پر نہایت پُرجوش ہے کہ ملکی وے کہکشاں اور کائنات میں موجود دوسری کہکشاؤں سے متعلق ان کے سامنے ختم نہ ہونے والے سوالات ہیں؛ اور نہ سلجھنے والی پہیلیوں کے انبار لگے ہیں۔


صرف ایک دہائی پہلے تک ہم یہ سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ ہماری کہکشاں اور دوسری کہکشاؤں کے مرکزوں میں بلیک ہولز موجود ہوں گے؛ نہ ہم یہی سوچ سکتے تھے کہ ماہرین فلکیات، تاریک توانائی اور تاریک مادّے کے وجود پر یقین کرلیں گے۔ جیسے جیسے ان کی تحقیق کا دائرہ کار بڑھ رہا ہے، ان کی معلومات میں اضافہ ہورہا ہے۔ اور وہ کارخانہ قدرت کے کام کرنے کا طریقہ بہتر سے بہتر انداز میں سمجھ رہے ہیں۔


ہمیں اس پر خدا کا لاکھ لاکھ شکر ادا کرنا چاہئے کہ ہم اس سنہرے دور میں، اور ایک ایسے نایاب سیارے پر موجود ہیں جو ایک کہکشاں کے مضافات میں واقع ہے۔ جہاں رہتے ہوئے نہ صرف ہم کائنات کی تخلیق پر سوچ بچار کرسکتے ہیں، بلکہ سوالات بھی پوچھ سکتے ہیں؛ اور کائنات کی ابتداء اور زماں و مکان کے آغاز کو سمجھ سکتے ہیں۔


کہکشائیں جنم لے رہی ہیں۔ ان کا ارتقاء ہورہا ہے۔ وہ نشوونما پارہی ہیں؛ اور ختم بھی ہوجائیں گی۔ کہکشاؤں کی اہمیت، سائنس کی دنیا میں بہت زیادہ ہے۔ ہر ماہر فلکیات کی اپنی پسند کی ایک کہکشاں ہوتی ہے۔ بھنور کی شکل والی کہکشاں یا چھلے دار کہکشاں، بیضوی کہکشاں یا گیند کی طرح گول نظر انے والی کہکشاں۔ بہرحال ہماری تو سب سے پسندیدہ کہکشاں ہماری اپنی ملکی وے ہے، جو ہمارا گھر ہے۔ ہم خوش قسمت ہیں کہ ملکی وے نے زندگی کے پنپنے کےلئے ہمیں بالکل مناسب ماحول فراہم کیا ہے۔ ہمارا مقدر اسی کہکشاں سے وابستہ ہے؛ اور ہمارا مستقبل بھی اسی کے ہاتھ میں ہے۔

ختم شد

تلخیص و ترجمہ: زہیر عبّاس

ترمیم و ادارت: علیم احمد
 

زہیر عبّاس

محفلین
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سورج اور دور دراز کے تارے - حصّہ اوّل
How The Universe Works - Season 1, Episode 4
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ستارے عظیم الجثہ اور انتہائی گرم کائناتی اجسام ہیں۔ پوری کائنات ان سے جگمگا رہی ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ کائنات کے اصل حکمراں یہ ہی ہیں۔ ہمارا نصیب، ان کے نصیب سے جڑا ہوا ہے۔ کائنات میں موجود ہر شئے کی طرح ان کی پیدائش اور موت بھی، دونوں ہی نہایت ہولناک اور ہنگامہ خیز ہوتی ہیں۔ ان کی خاک، کائنات میں ہر جگہ پھیلی ہوئی ہے۔ یہ وہی خاک ہے جس سے انسان کی تخلیق ہوئی ہے۔ ہمارے جسم کا ایک ایک جوہر، ان ہی ستاروں کے آگ اگلتے قلب میں بنا ہے۔ کائنات ان ہی کے دم قدم سے چل رہی ہے۔ زندگی کو انہوں نے ہی پروان چڑھایا ہے۔


رات کا آسمان، ستاروں کی روشنی سے منور ہوتا ہے۔ جب ہم اپنی نگاہ اٹھا کر دیکھتے ہیں تولگ بھگ تین ہزار تک کی تعداد میں ستارے دیکھ سکتے ہیں۔ مگر یہ تعداد تو بس سمندر میں سے ایک قطرہ ہی ہے۔ صرف ہماری کہکشاں ملکی وے ہی میں ایک کھرب سے زائد ستارے موجود ہیں؛ اور قابلِ مشاہدہ کائنات میں اندازاً دو کھرب (دو سو اَرب) سے بھی زیادہ کہکشائیں ہیں۔ ستاروں کی تعداد، زمین پر موجود ریت کے ذرّوں کی تعداد سے بھی زیادہ ہے۔ ہر ستارہ طاقت و توانائی کا عظیم الشان منبع ہوتا ہے؛ اور ہم سمیت کائنات کی ہر چیز کا بنیادی خام مال اسی کے قلب میں تیار ہوتا ہے۔ یہ ہم سے نہایت فاصلے پر واقع ہیں۔ مگر ایک ستارہ ہم سے بہت نزدیک بھی ہے؛ اور ہمیں اب تک جو کچھ دوسرے ستاروں کے بارے میں معلوم ہوا ہے، وہ اسی پڑوسی ستارے کی بدولت ہے۔ جی ہاں! یہ ہمارا سورج ہے… ہر روز طلوع اور غروب ہونے والا سورج۔


سورج کی دھوپ جو ہمیں روشنی اور حرارت فراہم کرتی ہے، کچھ اور نہیں بلکہ ستارے ہی کی روشنی ہے۔ ہمارا سورج بھی دوسرے ستاروں کی طرح ایک ستارہ ہے۔ زمین سے دیکھنے پر سورج ایک روشن گیند کی مانند لگتا ہے جس کی روشنی، آنکھوں کو چندھیا دیتی ہے۔ کائنات کا ایک طاقتور ترین جسم ہمارا پڑوسی ہے۔ یہ انتہائی گرم گیس کی ایک گیند ہے جو ہمارے نظام شمسی کو 4.6 ارب سال سے روشن کئے ہوئے ہے۔ زندگی کا سارا دار و مدار اسی پر ہے۔ سورج ہم سے تقریباً ٩ کروڑ میل کی دوری پر ہے۔ اس کا مطلب، درحقیقت بہت ہی زیادہ فاصلہ ہے۔


دس لاکھ سے بھی زیادہ زمینیں سورج میں سما سکتی ہیں۔ اس کا محیط ٢٧ لاکھ میل پر پھیلا ہوا ہے۔ اس عظیم الشان جسامت کے باوجود، ہمارا سورج کائنات کے دوسرے ستاروں کے مقابلے ایک ننھا سا ستارہ ہے۔ اِیٹا کرینی (ETA Crainee) ہمارے سورج سے پچاس لاکھ گنا بڑا ہے۔ ابط الجوزا (Betelgeuse)، ایٹا کرینی سے بھی ٣٠٠ گنا بڑا ہے۔۔ اگر یہ سورج کی جگہ ہمارے نظام شمسی کا حصّہ ہوتا، تو یہ مشتری کے مدار سے بھی آگے نکل جاتا۔ (ملاحظہ کیجئے تصویر نمبر١ اور ٢)۔ یو وائی اسکوٹی (UY Scuti) اب تک کے دریافت شدہ ستاروں میں سب سے بڑا ہے۔ یہ ہمارے سورج سے لگ بھگ پانچ ارب گنا بڑا ہے!


ستاروں کی روشنی ہمیں مختلف رنگوں میں نظر آتی ہے۔ کچھ ستارے پیلے، کچھ نیلے اور کچھ لال رنگ کے دکھائی دیتے ہیں۔ کچھ ستارے اکلوتے ہوتے ہیں، کچھ ثنائی نظام میں رہتے ہوئے ایک دوسرے کے گرد چکر لگاتے ہیں۔ کہکشاؤں میں ارب ہا ارب ستارے ہوتے ہیں۔ ہر ستارہ اپنی مثال آپ ہے۔ مگر ان سب کی زندگی ایک ہی طرح سے شروع ہوتی ہے۔ گیس اور گرد کے غبار سحابئے (Nebula) کہلاتے ہیں (ملاحظہ کیجئے تصویر نمبر ٣)۔ کئی ارب میل پر پھیلے ہوئے، خلاء میں تیرتے یہ حسین گیسی بادل نہایت خوبصورت لگتے ہیں۔ ہر سحابیہ، ستاروں کا زچہ خانہ ہوتا ہے جہاں لاکھوں ستارے پیدا ہوتے ہیں۔ مگر ان کے پیدا ہونے کی اصل جگہ تو ہم سے چھپی ہوتی ہے۔


سحابیوں کے کچھ حصے اتنے خوبصورت اور روشن نہیں ہوتے کہ ہم انہیں دیکھ سکیں۔ وہ اندھیرے میں ڈوبے ہوتے ہیں۔ وہاں گیس اور گرد کے کثیف بادل چھائے ہوتے ہیں… اور یہی ستاروں کی جائے پیدائش ہوتی ہے۔ گرد و غبار کے یہ بادل اتنے کثیف ہوتے ہیں کہ عام دوربین بھی ان کے اندر جھانک نہیں سکتی۔


ستاروں سے زیادہ کوئی چیز ہمارے لئے اہم نہیں۔ مگر عرصہ دراز تک ان کی پیدائش ہمارے لئے ایک معما بنی رہی۔ ہم ان کی پیدائش کا براہ راست مشاہدہ نہیں کرسکتے تھے؛ اور نہ ہم ان کی پیدائش کی پہلی جھلک دیکھ سکتے تھے۔ ٢٠٠٤؁ء میں جب ناسا نے اسپٹزر خلائی دوربین (Spitzer Space Telescope) مدار میں چھوڑی، تو اس راز سے بھی پردہ اٹھ گیا۔ اس خلائی دوربین نے کائناتی ارتقاء کے سربستہ رازوں کو ہم پر آشکار کرنا شروع کردیا۔ اسپٹزر ایک انفرا ریڈ دوربین ہے جو گرمی (حرارت) کو دیکھ سکتی ہے۔ یہ مرئی روشنی کے بجائے زیریں سرخ شعاعیں (انفراریڈ) سے مدد لیتی ہے؛ جو دراصل گرمی کی نمائندہ لہریں ہیں۔ حرارت، سحابئے کے گہرے بادلوں میں سے گزرسکتی ہے، جو اسپٹزر کو اس قابل بناتی ہے کہ وہ ستاروں کی پیدائش ہوتے ہوئے دیکھ سکے۔ سائنس دانوں نے ستاروں کے پیدا ہونے کی نہایت شاندار تصاویر حاصل کرلی ہیں۔ ان تصاویر میں انہوں نے ہائیڈروجن کے گیسی بادلوں کو ستاروں کا روپ دھارتے دیکھ لیا ہے۔ کائنات کہ وہ حصّے جو ہم سے چھپے ہوئے تھے، اب نہایت روشن ہو گئے تھے۔ اب ہم ستاروں کی پیدائش کے بالکل ابتدائی لمحات کو دیکھ سکتےہیں (ملاحظہ کیجئے تصویر نمبر ٤)۔


کسی بھی ستارے کو بننے کےلئے تین بنیادی چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے: ہائیڈروجن، قوّت ثقل اور وقت۔ قوّت ثقل گرد و غبار اور گیس کے بادلوں کو کھینچ کر ایک دیوقامت، بھنور جیسی شکل والی (قیف نما) چوٹی میں ڈھالتی ہے؛ اور مادّے کو ایک جگہ جمع کرتی ہے۔ جب مادّہ ایک جمع ہونے لگتا ہے تو وہ اپنے ہی دباؤ سے اور بھی دبنا شروع کردیتا ہے۔ اور یہی دباؤ مزید حرارت پیدا کرنے کا موجب بھی بنتا ہے۔ یہ سائنس کا ایک سادہ اصول ہے کہ آپ جب کسی چیز کو دباتے ہیں تو اس کا درجہ حرارت بڑھ جاتا ہے۔ لاکھوں سال تک گیس کے بادلوں کی کثافت بڑھتی رہتی ہے؛ اور یہ ایک دیوہیکل، گھومتی ہوئی ٹکیہ کی صورت اختیار کرلیتے ہیں۔ اس ٹکیہ کی جسامت ہمارے نظام شمسی سے بھی بڑی ہوتی ہے۔ اس کے مرکز میں قوّت ثقل، گیس کو زبردست طاقت کے ساتھ بھینچتی ہے جس سے اس کا قلب اور بھی زیادہ کثیف اور گرم ہوجاتا ہے۔ رفتہ رفتہ دباؤ بڑھتا چلا جاتا ہے، یہاں تک کہ گیس کے فوارے ایک دھماکے کی شکل میں مرکز سے پھوٹ پڑتے ہیں۔ یہ بے حد ڈراؤنا اور ہولناک نظارہ ہوتا ہے۔


یہ فوارے مادّے کو کئی نوری سال دور تک پھیلا دیتے ہیں۔ کوئی چیز مادّے کو نہایت تیزی سے، ناقابل تصور فاصلے تک پھیلا دیتی ہے۔ قوّت ثقل دباؤ برقرار رکھتے ہوئے، گیس اور گرد و غبار کے بادلوں کو ہڑپ کرتی رہتی ہے۔ یہ بادل ایک دوسرے سے ٹکرا کر پستے رہتے ہیں۔ اگلے پانچ لاکھ سال میں اپنی تخلیق کے ابتدائی مراحل سے گزرتا ہوا ستارہ چھوٹا، روشن اور گرم ہوجاتا ہے۔ اس کے مرکز میں درجہ حرارت 1.5کروڑ ڈگری تک جاپہنچتا ہے۔ اس درجہ حرارت پر گیسوں کے ایٹم ایک دوسرے میں ضم ہونے لگتے ہیں اور یوں گداخت (فیوژن) کا عمل شروع ہوجاتا ہے۔ اس کے نتیجے میں زبردست توانائی پیدا ہوتی ہے؛ اور یہی ستارے کی پیدائش کی گھڑی بھی ہوتی ہے۔ پیدا ہونے کے بعد اب یہ ستارہ کروڑوں، اربوں بلکہ کھربوں سال تک یونہی چمکتا رہے گا۔


ستارے زبردست حرارت اور روشنی پیدا کرتے ہیں۔ مگر اس کےلئے انہیں بہت زیادہ ایندھن کی ضرورت ہوتی ہے۔ بیسویں صدی عیسوی کے اوائل تک کوئی نہیں جانتا تھا کہ ستارے کونسا ایندھن استعمال کرتے ہیں۔ انیسویں صدی کا سب سے بڑا معما یہی تھا ستارے اپنا ایندھن کہاں سے حاصل کرتے ہیں۔ تب تک ہمارے پاس کائنات کو جاننے کےلئے معلومات کی قلت تھی۔ ستاروں کے راز سمجھنے کےلئے ہمیں بالکل نئے طریقوں سے سوچنے کی ضرورت تھی۔ ہمیں اس چیز کی تلاش تھی جو ستاروں کو ارب ہا ارب سال تک روشن رکھ سکے۔ آخرکار خدا داد صلاحیتوں کے حامل، البرٹ آئن اسٹائن نے یہ پہیلی حل کر ہی لی۔ اس کے نظریہ اضافیت نے ثابت کردیا کہ ستارے، ایٹموں کے اندر قید توانائی کو اپنا ایندھن بناتے ہیں۔ ستاروں کا راز آئن اسٹائن کی مشہور ترین مساوات E=Mc2 میں پنہاں تھا۔

جاری ہے ۔۔۔۔۔
 

زہیر عبّاس

محفلین
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سورج اور دور دراز کے تارے - حصّہ دوم
How The Universe Works - Season 1, Episode 4
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دیکھا جائے تو ایک طرح سے ہمارا جسم بھی مرتکز توانائی پر ہی مشتمل ہوتا ہے۔ توانائی، ایٹموں کی شکل میں ہوتی ہے اور انہی ایٹموں نے ہماری کائنات تشکیل دی ہے۔ آئن اسٹائن نے ثابت کردیا کہ دو ایٹم آپس میں مل کر ایک نیا ایٹم بناتے ہیں اور اس کے نتیجے میں زبردست توانائی خارج ہوتی ہے۔ یہی عمل ‘‘نیوکلیائی گداخت’’ (نیوکلیئر فیوژن) کہلاتا ہے۔ یہی وہ طاقت ہے جو ستاروں کو ایندھن فراہم کرتی ہے۔


انتہائی حیرت انگیز بات ہے کہ ایٹموں کے ذیلی ذرّات کی طبیعی خصوصیات (physical properties) کسی ستارے کی نوعیت اور ساخت کا تعین کرتی ہیں۔ آئن اسٹائن کے نظریئے سے ہمیں پتا چل چکا ہے کہ ایٹموں میں چھپی توانائی کو باہر نکالا جا سکتا ہے۔ سائنس دانوں نے تجربہ گاہوں میں ستاروں کی نقالی شروع کردی ہے۔ انگلستان میں آکسفورڈ کے قریب ایک تجربہ گاہ میں ایک مشین نصب ہے جس کا نام ‘‘ٹوکامیک’’ (Tokamak) ہے (ملاحظہ کیجئے تصویر نمبر ٥)۔ (ٹوکامیک دراصل وہ ٹیکنالوجی ہے جو سابق سوویت یونین میں ایجاد کی گئی تھی اور جس کا مقصد، نیوکلیائی گداخت کو تجربہ گاہ میں نقل کرنا تھا۔ آج بھی گداخت پر مبنی ایٹمی بجلی گھر بنانے کی جتنی بھی کوششیں ہورہی ہیں، ان میں سے بیشتر کا انحصار اسی ٹوکامیک ٹیکنالوجی ہی پر ہے۔ مترجم) وہاں سائنس دان اینڈی کرک (Andy Kirk) اور ان کی ٹیم روزانہ عمل گداخت کے ذریعہ ستاروں کے توانائی پیدا کرنے کا طریقہ کار سمجھتے ہیں۔ یہ مشین ایک بہت ہی بڑی سی مقناطیسی بوتل ہے۔ ایک ایسا قید خانہ ہے جو بہت ہی گرم پلازما کو اپنے اندر قید رکھتا ہے۔ سائنس دان اس مشین میں ستاروں کے اندر کا ماحول نہایت محدود پیمانے پر پیدا کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔


ٹوکامیک کے اندر ہائیڈروجن ایٹموں کے مرکزے ایک دوسرے کو دفع کرتے ہیں۔ ان ایٹمی مرکزوں کو ایک دوسرے میں ضم کرنے کےلئے ان کا درجہ حرارت تیس کروڑ ڈگری تک بڑھانا پڑتا ہے۔ اس درجہ حرارت پر توانائی سے بھرپور ہائیڈروجن کے مرکزے، نہایت تیزی سے حرکت کرتے ہیں۔ اب وہ ایک دوسرے میں مدغم ہونے سے خود کو روک نہیں سکتے۔ حرارت اصل میں حرکت ہی کا دوسرا نام ہے۔ ان ذروں کی حرکت اتنی تیز اور توانا ہوتی ہے کہ ہائیڈروجن مرکزوں کے درمیان موجود قوتِ دفع (ایک دوسرے کو دُور دھکیلنے والی قوت) پر غالب آجاتی ہے۔ اگر ہر چیز ٹھیک ٹھیک کام کرے تو نتیجہ ایک بہترین پاور پلانٹ کی صورت میں نکل سکتا ہے۔ ایک ہزار میل فی سیکنڈ کی رفتار سے ٹکراتے ہوئے ہائیڈروجن کے مرکزے، گداخت (Fusion) کا عمل شروع کردیتے ہیں۔ اس سے ایک نئے عنصر، یعنی ہیلیم کا ایٹمی مرکزہ تشکیل پاتا ہے؛ اور تھوڑی سی خالص توانائی بھی پیدا ہوتی ہے۔ ہائیڈروجن کے خالص مرکزوں کی مجموعی کمیت، ان کے آپس میں مل کر وجود میں آنے والے ہیلیم مرکزے کی کمیت سے تھوڑی سی زیادہ ہوتی ہے۔ لیکن کمیت میں یہ فرق کہاں سے آیا؟ دراصل یہی وہ معمولی سی کمیت ہے جس نے توانائی کو جنم دیا ہے۔ بہ الفاظِ دیگر، یہی وہ مادّہ ہے جو توانائی میں تبدیل ہوا ہے: آئن اسٹائن کی مساوات کے عین مطابق!


ٹوکامیک اس عمل گداخت کو صرف سیکنڈ کے کچھ حصّے تک ہی جاری رکھ پاتا ہے۔ مگر ستارے کے اندر یہی عمل اربوں سال تک جاری و ساری رہتا ہے۔ وجہ صاف ظاہر ہے۔ ستارے کا عظیم الشان حجم اور زبردست کمیت، اس عمل کو مسلسل جاری رکھنے میں انتہائی مددگار ہوتے ہیں۔ قوّت ثقل کی مادّے کو اتنے بڑےپیمانے پر جمع کرنے کی صلاحیت ہی کی وجہ سے ستارے اتنے عظیم الجثہ ہوتے ہیں۔ عمل گداخت شروع کرنے کےلئےاتنی ثقلی قوّت درکار ہوتی ہے جو مادّے کو زبردست طاقت سے دبا سکے، بھینچ سکے، تاکہ یہ عمل شروع ہوسکے۔


گداخت کا عمل ہی ستاروں کے چمکنے دمکنے کا راز ہے۔ ستاروں کے قلب میں جاری عمل گداخت سے ہر ایک سیکنڈ کے دوران اتنی زیادہ توانائی خارج ہوتی ہے جتنی ایک ارب ہائیڈروجن بموں کے بیک وقت پھٹ پڑنے سے پیدا ہوتی ہے۔ ہر ستارہ ایک عظیم الشان ہائیڈروجن بم کی طرح ہوتا ہے۔ اب یہاں سوال یہ اُٹھتا ہے کہ پھر وہ ستارہ منتشر کیوں نہیں ہوجاتا؟ وہ دھماکے سے پھٹ کر خلاء میں بکھر کیوں نہیں جاتا؟ اس کی وجہ ہے قوّت ثقل، جو ستارے کی بیرونی پرت کو مسلسل دباتی رہتی ہے۔ ستارے کی پوری زندگی قوّت ثقل اور نیوکلیائی قوت کی ایک دوسرے سے پنجہ آزمائی میں گزرتی ہے۔ ان دونوں قوتوں ہر وقت ایک دوسرے کو للکارتی رہتی ہیں۔ قوّت ثقل ستارے کو دبا کر پچکانا چاہتی ہے جبکہ نیوکلیائی قوت اسے دھماکے سے اس کے پرخچے اُڑادینے کی کوشش میں مصروف رہتی ہے۔ مگر ان دونوں قوتوں کے مابین اس قدر توازن ہوتا ہے کہ ستارہ اربوں سال تک یونہی قائم و دائم اور روشن رہتا ہے۔ قوتوں کے مابین برتری قائم کرنے کی یہ جنگ، ستارے کی تمام زندگی چلتی رہتی ہے۔ جوں جوں جنگ آگے بڑھتی ہے، ستارہ گرمی اور روشنی کو باہر نکالنے کےلئے بیتاب ہوتا جاتا ہے۔


روشنی، یعنی توانائی کا ہر ذرّہ (فوٹون) باہر نکلنے کےلئے ایک عظیم سفر طے کرتا ہے۔ روشنی کی رفتارلگ بھگ ٦٧ کروڑ میل فی گھنٹہ ہوتی ہے۔ روشنی ایک سیکنڈ میں زمین کے گرد سات چکر مکمل کرسکتی ہے۔ کائنات میں کوئی بھی چیز اس رفتار کو مات نہیں دے سکتی۔ روشنی کی اس رفتار کے باوجود، ستارے ہم سے اس قدر دور ہیں کہ ان سے چلنے والی روشنی کو ہم تک پہنچنے میں سینکڑوں، ہزاروں، لاکھوں، کروڑوں، بلکہ اربوں سال تک لگ جاتے ہیں۔ لہٰذا جب ہبل دوربین، خلاء کے دور دراز گوشوں میں جھانکتی ہے تو وہ دراصل اسی روشنی کو دیکھ پاتی ہے جو کروڑوں اربوں سال پرانی ہوتی ہے۔ ایٹا کرینی ستارے کی وہ روشنی جو ہم تک آج پہنچ رہی ہے، وہ اس ستارے سے تب نکلی ہوگی جب ہمارے آبا و اجداد نے ٨ ہزار سال قبل، یہاں زمین پر، پہلی مرتبہ کاشتکاری شروع کی تھی۔ ابط الجوزا (Betelgeuse) ستارے کی وہ روشنی جو آج کی تاریخ میں ہمیں موصول ہورہی ہے، وہ اس زمانے میں وہاں سے روانہ ہوئی تھی جب آج سے تقریباً پانچ سو سال پہلے کولمبس نے امریکہ دریافت کیا تھا۔ ہمارے آنگن کا ستارہ، ہمارا سورج ہم سے نزدیک ترین ہے۔ لیکن اس کی روشنی بھی ہم تک پہنچنے میں آٹھ منٹ اور بیس سیکنڈ لگادیتی ہے… یہ کائنات واقعی بہت، بہت بڑی ہے!


مگر اس سے پہلے کہ روشنی اپنا سفر خلاء میں شروع کرے، وہ ہزاروں سال کا سفر کرچکی ہوتی ہے۔ جب سورج اپنے قلب میں ہائیڈروجن مرکزوں کو ایک دوسرے میں ضم کرکے ہیلیم بناتا ہے، تو ساتھ میں فوٹون بھی پیدا ہوتے ہیں۔ فوٹون، روشنی کا ذرّہ ہوتے ہیں۔ روشنی کی کرن کو سورج کی سطح تک پہنچنے کےلئے ابھی بہت سا سفر کرنا ہوتا ہے۔ پورا سورج ہی اس کے راستے میں حائل ہوتا ہے۔ جیسے ہی فوٹون پیدا ہوتے ہیں، ابھی وہ زیادہ دور نہیں جاتے کہ ایٹمی مرکزے کے کسی دوسرے حصے سے ٹکرا جاتے ہیں: کبھی پروٹون سے تو کبھی نیوٹرون سے۔ یہ اسے جذب کرکے کسی دوسری طرف پھینک دیتے ہیں۔ یہ عمل کئی مرتبہ دوہرایا جاتا ہے۔ گویا فوٹون بے چارے، سورج کے اندر مارے مارے پھرتے ہیں۔


پھرتے ہیں میر خوار، کوئی پوچھتا نہیں!


بہرحال! انہیں اپنی آزادی کےلئے کچھ نہ کچھ تو کرنا ہی پڑتا ہے۔ سورج کی سطح تک آنا، فوٹون کےلئے انتہائی دقّت طلب سفر ہوتا ہے۔ انہیں سورج سے فرار حاصل کرنے کےلئے ارب ہا ارب مرتبہ گیسی ایٹموں کے مرکزوں سے ٹکرانا، یعنی اپنا سر پھوڑنا پڑتا ہے۔ اس پورے چکر میں جو بات سب سے اہم ہے، وہ یہ ہے کہ فوٹون کو سورج کی سطح پر آنے میں ہزار ہا ہزار سال لگ جاتے ہیں۔ مگر جیسے ہی وہ سورج کی سطح تک پہنچ کر وہاں سے فرار ہوتا ہے، تو اسے ہم تک پہنچنے میں صرف آٹھ منٹ اور چند سیکنڈ لگتے ہیں۔


فوٹون، روشنی اور حرارت کا منبع ہوتے ہیں مگر یہ اپنے اندر نہایت ہلاکت انگیز چیز پوشیدہ رکھتے ہیں، جو ‘‘شمسی ہوا’’ (Solar Wind) کا باعث بنتی ہے (ملاحظہ کیجئے تصویر نمبر ٦)۔ جیسے ہی فوٹون، سورج کی سطح تک پہنچتے ہیں وہ اسے شدید گرم کردیتے ہیں۔ نتیجتاً سورج کی بالائی سطح تیزی سے گردش کرنے لگتی ہے جس کی وجہ سے زبردست کھلبلی مچ جاتی ہے؛ اور یوں شدید صدماتی لہریں (Shock Waves) خارج ہونے لگتی ہیں۔ یہ اس قدر ہنگامہ خیز ہوتی ہیں کہ ہم انہیں سن بھی سکتے ہیں۔ سائنس دانوں نے سوہو (SOHO) نامی مصنوعی سیارچے کی مدد سے مدار میں ان آوازوں کو سنا ہے۔

جاری ہے ۔۔۔۔۔
 

زہیر عبّاس

محفلین
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سورج اور دور دراز کے تارے - حصّہ سوم
How The Universe Works - Season 1, Episode 4
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

گیس کے تیز رفتار ذرّات، طاقتور مقناطیسی میدان بناتے ہیں۔ سورج کے گھومنے کے ساتھ ساتھ، یہ مقناطیسی میدان بھی سورج کی سطح سے اور آپس میں ایک دوسرے سے ٹکراتے ہوئے حرکت کرتے ہیں؛ اور زبردست جھماکے کی صورت میں پھٹ کر خلاء میں پھیل جاتے ہیں (ملاحظہ کیجئے تصویر نمبر ٧)۔ یہ عظیم الجثہ مقناطیسی میدان، حلقوں کی شکل میں پھیلے ہوتے ہیں۔ ان میں سے بعض اس قدر بڑے ہوتے ہیں کہ زمین کو بھی پار کر جاتے ہیں۔ یہ نہایت شاندار مگر مہلک ہوتے ہیں؛ اور برقی ذرّات کوخلاء میں دور دور تک پھینک دیتے ہیں۔ شمسی ہوائیں، خلائی جہازوں اور مصنوعی سیارچوں کو خراب کرسکتی ہیں۔ بلکہ خلاء نوردوں کی زندگی کو ان سے خطرہ ہوسکتا ہے۔ اسے سمجھنے کےلئے کہ کس طرح مقناطیسی حلقے، شمسی ہواؤں کا باعث بنتے ہیں، کیلیفورنیا انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی (کیلٹیک) میں سائنسدانوں کی ٹیم نے ایک تجربہ گاہ میں ستارے کی مصنوعی سطح بناکر دیکھا۔ ان کےلئے تجربہ گاہ میں ایسا کرنا بہت ہی ہیجان انگیز تھا، کیونکہ نہ تو وہ سورج کی سطح پر پہنچ سکتے تھے اور نہ ہی کوئی کھوجی روبوٹ وہاں جاسکتا تھا۔ لیکن تجربہ گاہ میں وہ یہ کوشش ضرور کرسکتے تھے کہ ستارے کی سطح پر ہوتا کیا ہے۔ اس کام کےلئے انہوں نے ہوا سے خالی ایک چیمبر تیار کیا جو خلاء کے ماحول کی نمائندگی کررہا تھا۔ مقناطیسی حلقے بنانے کےلئے نہایت طاقتور برقی رَو لی گئی۔ تجربہ گاہ میں بنائے ہوئے پلازما کے حلقوں اور سورج میں موجود پلازما کے حلقوں میں صرف حجم ہی کا فرق تھا۔ اس تجربے کے دوران جب مقناطیسی حلقے آپس میں ٹکرائے تو انہوں زبردست توانائی کے جھکڑ پیدا کئے۔ جب عظیم الجثہ مقناطیسی حلقے آپس میں سورج کی سطح پر ٹکراتے ہیں تو زبردست توانائی خارج ہوتی ہے اور درجہ حرارت دس ہزار ڈگری تک جاپہنچتا ہے۔ زبردست حرارت کروڑوں ٹن ذرّات خلاء میں بکھیر دیتی ہے۔ جتنا بڑا ستارہ ہوگا، اس کی شمسی ہوا بھی اتنی ہی زیادہ مہلک ہوگی۔ اگر ہم ایٹا کرینی کے گرد مدار میں اتنے ہی فاصلے سے چکر لگا رہے ہوتے کہ جتنا فاصلہ ہماری زمین کا سورج سے ہے، تو وہ زمین کو جہنم بنادیتا۔ اس کی خارج کردہ توانائی، ہماری زمین کی فضا کو لمحے بھر میں ختم کردیتی۔ سمندر ابل پڑتے، زمین پگھل جاتی۔


ستاروں کے کام کرنے کا طریقہ سمجھ لینا ہمیں اس تباہ کن طاقت سے بچنے میں مدد گار ثابت ہوتا ہے۔ مگر ہم اپنے آپ کو بچانے کےلئے اس وقت کچھ نہیں کرسکتے ستارے اپنی زندگی پوری کرتے ہوئے، موت کی دہلیز پر قدم رکھتے ہیں۔ آخری لمحات میں وہ اپنے اردگرد کی ہر چیز فنا کردیتے ہیں۔ پیدا ہونے کے ساتھ ہی ستارہ موت کی منزل کی جانب رواں دواں ہوجاتا ہے۔ جب ایک ستارہ اپنا ایندھن پھونکنے کے بعد اپنی موت کے مرحلے میں، اپنے عالمِ نزع میں داخل ہوتا ہے تو اس وقت تک قوّت ثقل، نیوکلیائی قوت پر غلبہ پاچکی ہوتی ہے۔ ہمارے سورج کی زندگی کے مدارج بھی دوسرے ستاروں کی طرح کچھ خاص مختلف نہیں۔ ہر گزرتے لمحے وہ ساٹھ کروڑ ٹن ہائیڈروجن کو بطور ایندھن اپنے قلب میں استعمال کررہا ہے۔ (نوٹ: ناسا کی ویب سائٹ کے مطابق، سورج ہر سیکنڈ میں پچاس لاکھ ٹن ہائیڈروجن استعمال کررہا ہے۔ جبکہ ‘‘یونیورس ٹوڈے’’ نامی ویب سائٹ کے مطابق بھی سورج ہر سیکنڈ ساٹھ کروڑ ٹن ہائیڈروجن استعمال کررہا ہے۔ علاوہ ازیں ‘‘ناسا کوسمی کوپیا’’ ویب سائٹ کے مطابق بھی سورج ساٹھ کروڑ ٹن ہائیڈروجن فی سیکنڈ استعمال کررہا ہے۔ مترجم) اس شرح استعمال کے حساب سے سورج اپنے اندر موجود تمام ہائیڈروجن کو آئندہ سات ارب سال تک ختم کردے گا۔


جیسے ہی ہائیڈروجن ختم ہوگی، گداخت کا عمل بھی سست پڑجائے گا۔ قوّت ثقل غالب آجائے گی اور مزید مادّے کو قلب (مرکز) کی جانب بھینچے گی۔ نیوکلیائی طاقت بھی زور آزمائی شروع کردے گی جس سے ستارے کی بیرونی پرت گرم ہوجائے گی۔ اور کیونکہ حرارت چیزوں کو پھیلاتی ہے، لہٰذا سورج بھی پھولنا شروع ہوجائے گا۔ آج سورج کا قطر لگ بھگ دس لاکھ میل ہے۔ لیکن تب اس کا قطر دس کروڑ میل ہوچکا ہوگا۔ ہمارا سورج ‘‘سرخ دیو’’(Red Giant) بن چکا ہوگا۔


سات ارب سال بعد سورج کے طلوع ہونے کا منظر تصور میں لائیے۔ وہ آج کی طرح نظر آنے والا ہنستا مسکراتا، ننھا پیلا سورج نہیں ہوگا۔ بلکہ وہ سوجا ہوا، پھولا ہوا، لال رنگ کا، ہمارے افق پر طلوع ہوتا ہواسورج ہوگا۔ اور جب سورج مکمل طلوع ہوجائے گا توزمین، دہکتی ہوئی بھٹی بن جائے گی۔ اس کا درجہ حرارت ایک ہزار ڈگری تک جا پہنچے گا۔ سمندر ابل جائیں گے، پہاڑ پگھل جائیں، اور روز محشر بپا ہوگا۔ اس کے بعد یہ پھولا ہوا سورج، زمین کو نگل لے گا۔ سرخ دیو خود بھی تباہ ہورہا ہوگا۔ اس کا قلب غیرمتوازن اور ناہموار ہورہا ہوگا۔ ہائیڈروجن ختم ہوجانے کے بعد، سورج نے ہیلیم میں گداخت سے کاربن بنانا شروع کردیا ہوگا۔


سورج اب اپنے آپ کو اندر سے باہر کی طرف تباہ کررہا ہوگا، جس سے توانائی کے عظیم جھکڑ نکل رہے ہوں گے۔ توانائی کے یہ عظیم جھکڑ، ستارے کی بیرونی پرت کو دور اڑا کر پھینک دیں گے۔ آہستہ آہستہ سورج ختم ہونا شروع ہوجائے گا۔ اور آخرکار اس کی موت ہوجائے گی۔ سرخ دیو اب ایک سفید بونا بن جائے گا (ملاحظہ کیجئے تصویر نمبر٨)۔ جب ستارہ، سفید بونا بننے کے مرحلے پر پہنچتا ہے تو گداخت کا عمل رک چکا ہوتا ہے۔ ستارے کا قلب آخرکار خاموش ہوجاتا ہے۔


ہمارا سورج بھی ایک سفید بونا بن کر ہی اپنی زندگی پوری کرے گا۔ اگرچہ سفید بونے کی حیثیت سے اس کا حجم ہماری زمین سے زیادہ نہ ہوگا، لیکن پھر بھی وہ زمین سے لاکھوں گنا زیادہ، ناقابل تصور حد تک کثیف ہوگا۔ اگر آپ چینی کے کیوب (شکر کی چھوٹی ڈلی) جتنا ٹکڑا وہاں سے اٹھا لائیں اور زمین پر ڈال دیں، تو وہ اپنی زبردست کثافت کی وجہ سے زمین میں دھنستا چلا جائے گا۔ سفید بونے کے مرکز میں کاربن کی ایک عظیم و جسیم قلم ہوگی، جو ہزاروں میلوں پر پھیلا ہوا، کونیاتی ہیرا ہوگا۔ یہ خیال ہی نہایت افسوسناک ہے کہ سورج ٹھنڈا، تاریک اور راکھ کے ڈھیر کے سوا کچھ نہیں بچے گا۔ بچے گا تو بس ایک جناتی حجم والا ہیرا، وہ بھی اس کے قلب میں۔ ذرا تصور کیجئے کہ وہ ایک ہیرا اتنے قیراط کا ہوگا کہ جس کے سامنے کھرب ہا کھرب قیراط بھی نہایت ہی حقیرسی اکائی محسوس ہوں گے۔ مگر ستارے ہیرے سے بھی زیادہ قیمتی چیزیں بناسکتے ہیں۔


سورج سے بڑے ستاروں کی موت اس قدر سکون سے نہیں ہوتی۔ وہ مرتے ہوئے بھی زندگی کے بنیادی اجزاء بنا جاتے ہیں۔ بڑے ستاروں کا عرصہ حیات کم ہوتا ہے۔ وہ زیادہ روشن ہوتے ہیں اور اپنی زندگی جلدی جلدی گزارتے ہوئے، موت کی دہلیز پر قدم رکھ دیتے ہیں۔ مگر ان کی بے وقت کی موت ہی کائنات میں زندگی کو دوام بخشتی ہے۔ بڑے ستاروں کی موت ہی زندگی پنپنے کےلئے بنیادی خام مال تیار کرتی ہے۔ ان کی موت ہی سے زندگی کا بیج تیار ہوپاتا ہے۔


لگ بھگ چھ سو نوری سال دور، ابط الجوزا نامی ستارہ اپنی زندگی پوری کرنے کے قریب ہے (ملاحظہ کیجئے تصویر نمبر٩)۔ یہ ہمارے سورج سے بہت کم عمر ہے۔ اس کی عمر محض کروڑوں برسوں میں ہے۔ عمل گداخت اس کے قلب میں بہت تیزی سے جاری ہے۔ ابط الجوزا، ہمارے سورج سے بالکل مختلف، ایک الگ قسم کا ستارہ ہے۔ یہ ایک بڑا سرخ دیو (Red Supergiant) ہے۔ اس کے بڑے سرخ دیو ہونے کی وجہ اس کی بہت زیادہ کمیت ہے، جو سورج کے مقابلے میں بیس گنا زیادہ ہے۔ اس کے مرکز میں جاری عمل گداخت، سورج کے قلب سے ہونے والے عمل سے خاصا مختلف ہے۔ عموماً بڑے ستارے انتہائی درجہ کا دباؤ اور حرارت پیدا کرتے ہیں۔ ابط الجوزا کی قوّت ثقل اس قدر شدید ہے کہ وہ گداخت کے عمل سے کاربن سے بھی بھاری عناصر تخلیق کردیتی ہے۔ ستارے کا قلب ایک طرح سے بھاری عناصر بنانے کا کارخانہ ہوتا ہے؛ اور اسی وجہ سےاس کی موت بھی ہوتی ہے۔ ستارے کا قلب جب لوہے کا عنصر بنانے کے قریب پہنچتا ہے، تو بس وہی اس کی موت کا پروانہ ثابت ہوتا ہے۔


سائنس فکشن فلموں میں ستاروں کو تباہ کرنے کےلئے بہت ہی عجیب و غریب مشینوں کے خیالات ملتے ہیں۔ لیکن درحقیقت ستارے کی موت تو لوہے کا عنصر تشکیل دینے ہی سے ہوتی ہے۔ کسی بھی ستارے کےلئے لوہا سب سے خطرناک عنصر ہوتا ہے۔ وہ ستارے کےلئے زہر قاتل کا کام کرتا ہے۔ (نیوکلیائی گداخت کے ذریعے) لوہے کا عنصر بنتے دوران زیادہ توانائی جذب کرلیتا ہے۔ لہٰذا اس لمحے کہ جب کوئی ستارہ، لوہا بنانا شروع کرتا ہے تو اس کی زندگی کے لمحے گنے جاچکے ہوتے ہیں۔

جاری ہے۔۔۔۔۔
 

زہیر عبّاس

محفلین
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سورج اور دور دراز کے تارے - حصّہ چہارم (آخری حصّہ)
How The Universe Works - Season 1, Episode 4
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ستارہ پوری کوشش کرتا ہے کے کسی طرح لوہے کے مرکزوں میں بھی عمل گداخت (فیوژن) شروع ہوجائے؛ لیکن ایسا نہیں ہوتا۔ اور لوہے کی گیند، ستارے کی توانائی جذب کرنا شروع کردیتی ہے۔ یہی وہ توانائی ہوتی ہے جس نے ستارے کا وجود برقرار رکھنے کےلئے سہارا دیا ہوتا ہے۔ ستارے کے قلب میں جیسے ہی لوہا بننا شروع ہوتا ہے، ویسے ہی ستارے کی زندگی کا پروانہ اجل لکھ دیا جاتا ہے۔ قوّت ثقل اور نیوکلیائی قوت کے مابین جنگ ختم ہوجاتی ہے۔ لوہے کی تشکیل کے ساتھ ہی نیوکلیائی طاقت اپنے انجام کو پہنچ جاتی ہے۔ قوّت ثقل کی جیت ہو جاتی ہے۔ ستارے کا قلب تیزی سے منہدم ہوتا ہے… اور ستارے کی بیرونی پرت، پوری رفتار سے اس پر آن گرتی ہے۔ ستارہ ایک زبردست دھماکے سے پھٹ جاتا ہے۔ سائنس دانوں نے اس دھماکے کا نام ‘‘سپرنووا’’ رکھا ہے (ملاحظہ کیجئے تصویر نمبر١٠)۔ صرف چند سیکنڈوں میں سپرنووا اتنی توانائی پیدا کرتا ہے کہ جتنی توانائی ہمارا سورج، اپنی پوری زندگی میں شاید ہی پیدا کرپائے۔


لوہے کی گداخت شروع ہونے کے صرف چند سیکنڈ بعد ہی ستارہ، سپرنووا بن کر پھٹ جاتا ہے۔ آئندہ جب آپ لوہے کی کوئی چیز دیکھیں یا استعمال کریں، تو ضرور یاد رکھئے گا کہ یہ وہی لوہا ہے جس نے کسی ستارے کی جان لی ہوگی۔ یاد کیجئے گا کہ لوہے کی تخلیق کے چند سیکنڈوں میں ہی ستارہ، سپرنووا میں تبدیل ہوجاتا ہے۔


پوری دنیا کی دوربینیں سپرنووا کی تلاش میں آسمان کی خاک چھانتی رہتی ہیں۔ ١٩٨٧ء میں آسمان پر ایک شاندار روشنی ابھری۔ یہ روشنی ایک قریبی کہکشاں سے آرہی تھی، جو زمین سے ایک لاکھ ستّر ہزار نوری سال کی مسافت پر ہے۔ سائنس دانوں نے سپرنووا کے پھٹنے کے بعد کی تصویر تو حاصل کرلی تھی (ملاحظہ کیجئے تصویر نمبر١١) مگر ابھی تک اُس وقت کی کوئی تصویر حاصل نہ کرپائے تھے جب سپرنووا پھٹنے کے بالکل قریب ہو۔ کسی بھی ستارے کی موت کا ہمیں اسی وقت پتا چل پاتا ہے کہ جب وہ سپرنووا کی شکل میں پھٹ چکا ہو۔


سائنس دان یہ جاننے کےلئے بیتاب ہیں کہ جب ستارہ پھٹنے کے قریب ہوتا ہے تو وہاں کی صورتحال کیا ہوتی ہے۔ ان کے پاس یہ سب جاننے کا ابھی تو صرف ایک ہی طریقہ ہے: ایسا ماحول کسی تجربہ گاہ میں دوہرایا جائے۔ سائنس دانوں کےلئے یہ جاننا انتہائی اہم ہے کہ ستارے کے قلب (مرکز) میں موجود مادّہ کیسے باہر نکلتا ہے۔ سائنس دان امریکی ریاست نیویارک کے شہر روچیسٹر (Rochester) میں، دیوقامت لیزر کی مدد سے، تجربہ گاہ میں ایک سپرنووا کی نقل بنانے میں مصروف ہیں۔


کوئی بھی دوربین کسی بھی ستارے کے اندر نہیں جھانک سکتی۔ لہٰذا، یہ سراغ لگانے کےلئے کہ اس وقت جب ستارہ پھٹنے کے بالکل قریب ہوتا ہے تو وہاں کا ماحول کیسا ہوتا ہے، سائنس دانوں نے تجربہ گاہ میں لیزر شعاعوں کی مدد لی ہے۔ اس زبردست مشین کے ذریعے لیزر کی طاقت، دس لاکھ کھرب گنا بڑھائی جاتی ہے۔ اس سے پیدا ہونے والی توانائی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ یہ ڈیٹرائٹ (Detroit) جیسے تیس شہروں میں توانائی کی ضرورت پوری کرنے کےلئے کافی ہے۔ توانائی کی اتنی بڑی مقدار کو سوئی کے سرے جتنے حصّے پر مرتکز کیا جاتا ہے۔ لیزر کے ذریعے ہم کائنات کے اُس زوردار دھماکے کی نقل کرسکتے ہیں۔ ظاہر سی بات ہے کہ یہ انتہائی خطرناک عمل ہوتا ہے۔ اگر کوئی انسان اس کی زد میں آجائے تو یہ آناً فاناً اس میں سوراخ کردے گی۔ اس دھماکے کا دورانیہ انتہائی مختصر ہوتا ہے۔ بس یوں سمجھ لیجئے کہ یہ ایک سیکنڈ کے ایک لاکھویں حصّے تک ہی برقرار رہ پاتا ہے۔ مگر وقت کے اس قلیل دورانئے کی منظر کشی، انتہائی تیز رفتار کیمروں کی مدد سے کی جاتی ہے (جنہیں خاص اسی مقصد کےلئے بنایا گیا ہے)۔ اس تجربے سے سائنس دانوں نے ستارے کے قلب سے نکلنے والی صدماتی لہروں (کی نقل کا) مشاہدہ کیا۔


سائنس دانوں نے دیکھا کہ ستارے کا اندرونی مادّہ کس طرح باہر نکلتا ہے جبکہ بیرونی مادّہ کیسے اندر جاگرتا ہے… بالکل اسی طرح جیسے سپرنووا کے پھٹتے دوران ہوتا ہے۔ ستارے کے قلب میں دفن مادّہ جب باہر نکلتا ہے تو اس سے صدماتی لہریں باہر نکلتی ہیں اور دور دور تک خلاء میں پھیل جاتی ہیں۔ دھماکے سے پیدا ہونے والی اس زبردست گرمی اور توانائی کے پُرہنگام لیکن مختصر وقفے میں لوہے سے بھاری عناصر تشکیل پاتے ہیں۔ ان میں سونا، چاندی، پلاٹینم شامل ہیں۔ اور چونکہ ان عناصر کو بننے کےلئے بہت ہی قلیل وقت ملتا ہے، اسی لئے یہ کائنات کے سب سے کمیاب اور قیمتی عناصر بھی خیال کئے جاتے ہیں۔ سونے، چاندی اور پلاٹینم سمیت، لوہے سے بھاری تمام عناصر اسی دھماکے کی پیداوار ہیں۔ اور یہ زمین پر بھی وہیں سے پہنچے ہیں۔


کائنات کے اس خطرناک ترین حادثے کے بعد بھی کچھ بچ جاتا ہے۔ پہلے سائنس دان سمجھتے تھے کہ سپرنووا میں ستارہ ریزہ ریزہ ہوجاتا ہے اور اپنے پیچھے کچھ بھی نہیں چھوڑتا۔ مگر ان کی یہ غلط فہمی جلد ہی دور ہوگئی۔ سپرنووا دھماکے اور مادّے کے خلاء میں بکھر جانے کے بعد بھی ستارے کا کچھ بچا کچھا حصّہ باقی رہ جاتا ہے۔ اسے سائنس دانوں نے ‘‘نیوٹرون ستارے’’ کا نام دیا ہے (ملاحظہ کیجئے تصویر نمبر١٢)۔ نیوٹرون ستارہ اتنا زیادہ کثیف ہوتا ہے کہ جس کا تصور کرنا بھی ہمارے لئے محال ہے۔ جیسا کہ اس کے نام سے ظاہر ہے، یہ ایٹمی مرکزے میں پائے جانے والے ذرّات ‘‘نیوٹرون’’ ہی پر مشتمل ہوتا ہے۔ کشش ثقل نے ان ذرّات کو اس قدر شدت سے بھینچ رکھا ہوتا ہے کہ وہ انتہائی عجیب و غریب قسم کا مادّہ تشکیل دیتے ہیں۔ کہنے کو تو یہ ٹھوس (solid) ہوتا ہے، لیکن ہماری روزمرہ زندگی میں جس زیادہ سے زیادہ ٹھوس شئے کے بارے میں ہم سوچ سکتے ہیں، نیوٹرون ستارے کا مادّہ اس سے بھی کہیں زیادہ ٹھوس ہوتا ہے۔ اپنی آسانی کےلئے یوں سمجھ لیجئے کہ نیوٹرون ستارے پر مادّہ اس قدر ٹھوس اور کثیف ہوتا ہے کہ اگر صرف ایک چمچے جتنا مادّہ، نیوٹرون ستارے سے لے لیا جائے تو اس کی کمیت، پورے ماؤنٹ ایورسٹ پہاڑ سے بھی زیادہ نکلے گی!


مرتا ہوا ستارہ اپنی باقیات میں صرف نیوٹرون ستارہ ہی پیچھے نہیں چھوڑتا، بلکہ بھاری عناصر بھی کائنات میں دور دور تک پھیلا دیتا ہے۔ اور یہی بھاری عناصر، زندگی کی بنیاد اور اسے پروان چڑھنے کیلئے خام مال فراہم کرتے ہیں۔ ہر وہ چیز جس سے ہمیں انسیت ہے، اور وہ جو ہمیں محبوب ہے، وہ انہی ستاروں کی خاک سے بنی ہے۔ لوہے سے بھاری عناصر تخلیق کرنے کیلئے جتنی توانائی درکار ہوتی ہے، وہ کائنات میں سپرنووا کے پھٹنے کے علاوہ ابھی تک کہیں بھی دریافت نہیں ہوسکی۔ زندگی کے وجود، ارتقاء اور بقاء، سب کےلئے یہ عناصر نہایت ضروری ہیں۔ سپرنووا کے بغیر زندگی پنپ ہی نہیں سکتی تھی۔ یہ نہ ہوتے تو نہ میں ان کی مدح سرائی کےلئے ہوتا، اور نہ آپ ہی ان سطروں کو پڑھ کر سر دُھن رہے ہوتے۔


سپرنووا بن کر پھٹتے ہوئے ستارے سے کائنات میں پھیلتی ہوئی خاک ہائیڈروجن، کاربن، آکسیجن ، سلیکان اور لوہے سے پھرپور ہوتی ہے۔ یہ خام مال نئے بننے والے ستاروں اور ان کے سیاروں کے کام آتا ہے۔ لوہے سے بھاری عناصر سے بنی ہوئی ہر چیز سپرنووا کے دھماکے میں ہی پیدا ہوئی اور پھیلی ہے۔ ایک مرتبہ یہ خاک، کائنات میں پھیل جائے تو پھر یہ نئے ستاروں کا خام مال بن جاتی ہے۔ آپ کو یقیناً یہ جان کر حیرت ہوگی کہ میں اور آپ بھی اسی خاک سے پیدا ہوئے ہیں۔ ہم ستاروں کی خاک ہی تو ہیں۔ ہمارے جسموں کا ہر ایک ایٹم، ستاروں کے قلب میں ہی تو پیدا ہوا ہے۔ شاید ہمارے سیدھے ہاتھ کے ایٹم کسی ایک ستارے کی خاک ہوں جبکہ الٹے ہاتھ کے ایٹم کسی دوسرے ستارے میں پیدا ہوئے ہوں۔ دیکھا جائے تو ہم ستاروں ہی کے بچے تو ہیں… بہت پہلے مرتے ہوئے ستاروں نے اپنی خاک ہمیں فراہم کی؛ جس سے ہمارا نظام شمسی، سیارے اور ہر وہ چیز جو ان کے درمیان موجود ہے، پیدا ہوئی۔ ہمارے جسم میں کاربن اور آکسیجن سب سے زیادہ ہیں؛ ہماری رگوں میں دوڑتے پھرنے والے خون کا اہم ترین جزو، لوہا ہے۔ یہ تمام چیزیں کہیں اور پیدا ہو ہی نہیں ہوسکتیں۔ اور اگر ہوسکتی ہیں تو صرف اور صرف ستاروں کے قلب ہی میں پیدا ہوسکتی ہیں۔ تو اگلی بار جب آپ ستاروں کو دیکھ کر متحیر ہوں تو ذرا اپنے آپ پر اور ارد گرد موجود چیزوں پر بھی نظر دوڑا لیجئے گا۔ ہر چیز جو ہمارے آس پاس موجود ہے (بشمول ہمارے خود کے) وہ ان ہی ستاروں کی کوکھ سے نکلی ہے جو لمبے عرصے پہلے اپنی حیات پوری کرچکے تھے۔

حتیٰ کہ سورج میں موجود بیشتر ایٹم بھی بازیافت شدہ ہیں۔ یہ ایٹم شاید تیسری یا چوتھی نسل کے ہیں۔ یہ ان ستاروں کی باقیات ہیں جو عرصہ دراز پہلے مرتے ہوئے اپنی خاک اس کائنات میں پھیلا گئے تھے۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو سورج ہماری سوتیلی ماں ہے۔ ہماری اصل سگی ماں تو وہ ستارے تھے جو سورج کو ان بھاری عناصر سے بھرپور، اپنی خاک دیتے ہوئے اس جہان سے گزر گئے… وہ خاک جو زندگی کو پروان چڑھانے کیلئے نہایت ضروری تھی۔ کاش کہ غالب اور میر انیس کے دور میں یہ طبیعیاتی معلومات دستیاب ہوتیں تو وہ ضرور ان ستاروں کی مدح سرائی یا غم میں کوئی غزل یا نوحہ و مرثیہ ضرور لکھ دیتے۔


ہم ستاروں کے سنہری عہد میں جی رہے ہیں۔ لیکن ہر فانی چیز کی طرح یہ عہد بھی ختم ہوجائے گا۔ کائنات میں جتنی بھی ہائیڈروجن ہے، وہ کھرب ہا کھرب سال گزرنے کے بعد، بالآخر ختم ہوجائے گی۔ اور ستارے جب ساری ہائیڈروجن پھونک دیں گے تو نئے ستارے پیدا ہونا بند ہوجائیں گے۔ ہماری زندگی کا عرصہ، کائنات کی تاریخ میں بہت ہی حقیر ہے۔ خیر ابھی سے پریشان ہونے کی کوئی ضرورت نہیں۔ ابھی تو وہ ستارے جو زندگی کو جنم دیتے ہیں، آسمان کو روشن کئے ہوئے ہیں۔ مگر ان کی یہ روشنی، یہ جگمگاہٹ ہمیشہ کیلئے تو نہیں۔ جلد یا بدیر ستارے بجھنے شروع ہوجائیں گے۔ سب سے پہلے بڑے ستارے اپنا ایندھن پھونک کر بجھ جائیں گے۔ ان کے بعد درمیانے حجم کے ستاروں کی، جیسا کہ ہمارا سورج ہے، باری آئےگی۔ آخرکار چھوٹے ستاروں کی بھی باری آ ہی جائے گی۔ کھربوں سال گزرنے کے بعد وہ بھی غائب ہوجائیں گے۔ آہستہ آہستہ کائنات تاریک اور ٹھنڈی ہوجائے گی ۔ یہاں تک کہ اس کا آخری ستارہ بھی بجھ جائے گا۔ ستاروں کا عظیم الشان دور ختم ہوجائے گا۔


ایمانداری کی بات ہے کہ کائنات کا انجام بہت ہی افسوسناک ہوگا۔ مگر اچھی بات یہ ہے کہ ہمارا دور جینے کے لحاظ سے بہترین ہے۔ یہ وقت زندگی کے پنپنے کےلئے مثالی دور ہے۔ نئے ستارے پیدا ہورہے ہیں۔ ہم کائنات کے سنہری دور میں جی رہے ہیں۔ ہم کائنات کے اُس عہد میں زندہ ہیں جب وہ زندگی کیلئے نہایت سازگار اور موزوں ہے۔ اور یہ دور مزید کئی اَرب سال تک یونہی جاری رہے گا۔


ہر چیز کو زوال ہے۔ کوئی بھی چیز ہمیشہ سے ہے نہ ہمیشہ رہے گی۔ ہمیں اس بات پر خدا کا لاکھ لاکھ شکر ادا کرنا چاہئے کہ اس نے ہمیں اس دور میں پیدا کیا جب رات کو ستارے آسمان کو جگمگا رہے ہیں۔ فی الحال تو ستارے کائنات کے ارتقاء میں یوں ہی بڑھ چڑھ کر حصّہ لیتے رہیں گے اور زندگی کو پروان چڑھانے کیلئے خام مال تیار کرتے رہیں گے۔ نئے ستارے کائنات کی تاریکی کو یوں ہی دور کرتے رہیں گے۔


ختم شد

ترجمہ: زہیر عبّاس

ترمیم و ادارت: علیم احمد
 

زہیر عبّاس

محفلین
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سپرنووا - حصّہ اوّل
How The Universe Works - Season 1, Episode 5
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ایک زبردست دھماکے سے پھٹتا ہوا ستارہ ‘‘سپرنووا’’ (Supernova) کہلاتا ہے (ملاحظہ کیجئے تصویر نمبر١)۔ یہ کائنات میں ایک قیامت انگیز لمحہ ہوتا ہے۔ ماہرین فلکیات نے سپرنووا کو ان کی جسامت کے اعتبار سے مختلف قسموں میں تقسیم کیا ہوا ہے۔ ہر ایک سپرنووا کی روشنی اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ تمام کائنات میں بہ آسانی دیکھی جاسکتی ہے۔ سپرنووا دراصل ستارے کی بھیانک ترین موت ہوتی ہے۔ مگر ستارے کی اس موت میں پوشیدہ حیات کو ہم اپنے چاروں طرف روز دیکھتے ہیں۔ جسیم یعنی دیو ستارے (Giant Star) سپرنووا کی صورت میں پھٹتے ہوئے اپنی زندگی تمام کرتے ہیں۔ ایسے کسی پھٹتے ہوئے سپرنووا کی روشنی اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ وہ ایک پوری کہکشاں سے آتی ہوئی روشنی کو اپنی روشنی سے گہنا دیتی ہے۔ اس سے خارج ہونے والی توانائی، سورج سے نکلنے والی توانائی سے کھرب ہا کھرب گنا زیادہ ہوتی ہے۔


ان ہلاکت خیزی کا اندازہ یوں بھی لگایا جاسکتا ہے کہ اگر کوئی سپرنووا، ہماری زمین سے صرف بیس یا تیس نوری سال کے فاصلے پر بھی واقع ہو تو اس سے آنے والی زبردست شعاعیں، ہماری زمین کو بھون کر رکھ دیں گی۔ کوئی بھی قریبی سپرنووا، زمین کو آسانی سے ویران کردے گا۔ سب سے پہلے ریڈیائی لہروں کی بمباری زمینی کرہ ہوائی (فضا) کو بالکل ختم کردے گی۔ اس ہلاکت خیزی سے بچنے کی صرف ایک ہی صورت ہوگی: ہم زمین کے اندر پناہ لے لیں۔ مگر بات یہیں پر ختم نہیں ہوگی۔ زیر زمین ایکس ریز، آبلہ انگیز قوّت کے ساتھ ٹکرائیں گی اور ساری نباتاتی حیات کو، سارے پیڑ پودوں کو، ختم کردیں گی۔ اور اسی کے ساتھ انسانیت معدوم ہوجائے گی۔


سپرنووا انسانیت کےلئے زہر قاتل تو ہوسکتے ہیں، مگر یہ زندگی کی اساس اور اسے جاری وساری رکھنے والے بنیادی عناصر بھی تشکیل دیتے ہیں۔ ہمارا سیارہ زمین، ہمارا سورج اور ہر وہ چیز جو ہمارے ارد گرد موجود ہے، وہ ان ہی سپرنووا کے بچے کچھے ملبے سے تخلیق شدہ ہے۔ ہمارا جسم بھی نہ جانے کتنے سپرنووا کی خاکِ لحد سے بنا ہوا ہے۔ سارا لوہا، تمام سلیکان اور ہر وہ چیز جس سے ہمارے مکان اور فلک بوس عمارتیں بنی ہیں، ہمارا جسم اور اس میں دوڑتا ہوا خون اور قیمتی سونا، غرض سب کچھ ان ہی سپرنووا کی دین ہے۔


اکثر ہمارے ذہنوں میں اس قسم کے سوالات کی بازگشت ہوتی ہے کہ ستارے، سپرنووا کیسے بنتے ہیں؟ اور کیا کبھی ہمارا سورج بھی سپرنووا بن سکے گا؟ ہمارا سورج، کائنات میں موجود دوسرے ستاروں کے مقابلے میں ایک چھوٹا سا ستارہ ہے۔ ہر ستارے کی طرح یہ بھی ایک عظیم نیوکلیائی ری ایکٹر ہے۔ ستارہ اس گداختی عمل (Fusion) کے دوران کائنات میں سب سے زیادہ پائی جانے والی گیس ‘‘ہائیڈروجن’’ کو بطور ایندھن (فیول) استعمال کرتا ہے۔ وہ ہائیڈروجن ایٹموں کو ملاکر ہیلیم بناتا ہے اور نتیجتاً زبردست توانائی خارج ہوتی ہے۔ جب ہائیڈروجن ایندھن ختم ہوجاتا ہے تو پھر ہیلیم ایٹموں کو ایک دوسرے میں ضم کرکے کاربن ایٹموں میں ڈھالنا شروع کردیتا ہے اور اپنے آپ کو زندہ رکھتا ہے۔ لیکن جلد ہی یہ ہیلیم بھی ختم ہوجاتی ہے؛ تو پھر وہ کاربن ایٹموں کو ملاکر آکسیجن بنانے لگتا ہے… بس یوں سمجھئے کہ اس طرح وہ اپنی زندگی کی آخری سانسیں گن رہا ہوتا ہے۔


جب کسی چھوٹے ستارے (جیسے کہ ہمارا سورج) میں گداخت کے عمل سے کاربن بننے کا مرحلہ شروع ہوتا ہے، تو اس کی موت کا وقت قریب آجاتا ہے۔ ستاروں کی تمام زندگی میں قوّت ثقل اور نیوکلیائی طاقت میں ایک توازن قائم رہتا ہے۔ قوّت ثقل ستارے کو بھینچ کر دبانا چاہتی ہے؛ جبکہ نیوکلیائی قوّت اسے دھماکے سے بکھیردینا چاہتی ہے۔ جب تک یہ توازن قائم رہتا ہے اور توانائی پیدا ہوتی رہتی ہے، تب تک کوئی مسئلہ نہیں ہوتا۔ مشکل تب درپیش آتی ہے جب وہ توانائی پیدا کرنا بند کردیتا ہے۔ قوّت ثقل ستارے کو دبانا، اور اسے زبردست قوّت کے ساتھ بھینچنا شروع کردیتی ہے؛ جبکہ نیوکلیائی قوّت ستارے میں موجود، بچی کچی ہائیڈروجن میں، جو ستارے کی سب سے بیرونی پرت میں ہوتی ہے، گداخت کا عمل جاری رکھنے کی کوشش کرتی ہے۔ چونکہ گداخت کا عمل زبردست توانائی (حرارت) پیدا کرتا ہے، لہٰذا ستارے کی بیرونی سطح باہر کی طرف پھیلنا شروع کردیتی ہے اور وہ ایک عظیم الجثہ گیند کی مانند پھیلتی چلی جاتی ہے… اب یہ ستارہ ایک ‘‘سرخ دیو’’ (Red Giant) میں تبدیل ہوچکا ہے۔ آج سے لگ بھگ ساڑھے چار ارب سے پانچ ارب سال بعد، ہمارا سورج بھی پھیل کر ایسا ہی ایک سرخ دیو بن جائے گا۔ یہ پھیل کر مریخ تک جاپہنچے گا۔ کرۂ ارض پر موجود ہر چیز بھاپ بن کر ختم ہوچکی ہوگی۔ جب سورج کی بیرونی سطح پھیل رہی ہوگی تو اسی وقت، اس کے مرکز میں قوّت ثقل بالکل الٹ اثر ڈال رہی ہوگی: وہ سورج کے قلب کو اس قدر دباؤ کے ساتھ بھینچ رہی ہوگی کہ آخرکار اس کا قلب سکڑ کر (اپنی موجودہ جسامت کے مقابلے میں) دس لاکھ گنا چھوٹا ہوجائے گا۔ بس یوں سمجھئے کہ صرف سیارہ زمین جتنا بڑا۔ اب ہمارے سورج کا قلب، آکسیجن اور کاربن کی کثیف سی گیند بن جائے گا۔ اسی کے ساتھ ہمارا سورج ایک ‘‘سفید بونا’’ (White Dwarf) ستارہ بن جائے گا۔ ہمارے نظام شمسی کی کہانی یہیں تک چلے گی؛ اور اس کے بعد تمام شد ہوجائے گی۔ مرتے ہوئے سورج کی گیس، وقت کے ساتھ ساتھ ادھر ادھر ہوجائے گی۔ مگر یہ سفید بونا ستارہ تب بھی ارب ہا ارب سال تک مدھم مدھم جلتا رہے گا۔


ہمارا نظام شمسی، کائنات میں موجود زیادہ تر نظام ہائے شمسی سے تھوڑا مختلف ہے۔ ہمارے نظام شمسی میں سورج ایک اکلوتا ستارہہے۔ حقیقت یہ ہے کہ کائنات میں زیادہ تر ستارے جوڑے بنا کر ایک دوسرے کے گرد چکر لگاتے ہیں (ملاحظہ کیجئے تصویر نمبر٢)۔ جب ان دو ستاروں میں سے کوئی ایک بھی سفید بونا بنتا ہے اور اپنے جوڑی دار ستارے کے نزدیک ہوتا ہے، تو وہ دوسرے ستارے کا مادّہ چرانے لگتا ہے۔ ذرا تصور کیجئے کہ دو جڑواں ستارے ایک دوسرے کے گرد مدار میں چکر کاٹ رہے ہوں اور ایک ستارہ، دوسرے ستارے کی ہائیڈروجن اور ہیلیم کھینچ رہا ہو۔ یہ بالکل ایسا ہی لگے گا جیسے کوئی خون آشام چمگاڈر، کسی کا خون چوس رہی ہو۔ خون آشام ستارہ جیسے جیسے اپنے ساتھی ستارے کاایندھن چراتا ہے، ویسے ویسے وہ زیادہ بھاری اور کثیف ہوتا جاتا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ وہ غیرمستحکم بھی ہوتا جاتا ہے۔ اس کے اندر کاربن اور آکسیجن کے ایٹم، گداختی عمل (فیوژن) سے گزرنے کےلئے تیار ہوتے ہیں اور یہ بات اس ستارے کےلئے نہایت بھیانک خبر ہوتی ہے۔


سفید بونا ایک طرح کا بم ہوتا ہے جو پھٹ پڑنے کےلئے گویا ایک اشارے کا منتظر ہوتا ہے۔ اس ستارے کے اندر بہت زیادہ توانائی جمع ہوچکی ہوتی ہے؛ جو ثقلی توانائی اور نیوکلیائی توانائی کی صورت میں ہوتی ہے۔ اب یہ سفید بونا ایک عفریت میں بدلنے لگتا ہے جسے سائنس دانوں نے ‘‘ٹائپ 1-A’’ سپرنووا کا نام دیا ہے (ملاحظہ کیجئے تصویر نمبر٣)۔ ٹائپ 1-Aسپرنووا، بیس ارب ارب ارب میگا ٹن (Twenty Octillion) توانائی کا حامل، ایک کاربن نیوکلیائی بم ہوتا ہے۔ اس کا شمار کائنات میں سب سے زیادہ دھماکہ خیز چیزوں میں ہوتا ہے۔ آخرکار سفید بونا اپنے ساتھی ستارے کا اتنا زیادہ مادّہ چرا چکا ہوتا ہے کہ وہ اس کی برداشت سے بہت زیادہ ہوجاتا ہے۔ ستارے کے قلب میں کاربن اور آکسیجن گداختی عمل شروع کردیتے ہیں جس کے نتیجے میں ایک ایسا عنصر وجود میں آتا ہے جو ستارے کےلئے موت کا پروانہ ہوتا ہے۔


سائنس فکشن فلم ‘‘اسٹار ٹریک’’ میں ایک ایسی خفیہ ٹیکنالوجی دکھائی گئی ہے جس سے ستارے کو ختم کیا جاسکتا ہے۔ مگر ستارے کی موت کا اصل ذمہ دار کوئی خفیہ ہتھیار نہیں بلکہ ہمارے روزمرّہ استعمال کی چیزوں میں شامل ایک چیز ہے۔ اس سے بنی بہت سی اشیاء، میں اور آپ یہ سطریں پڑھتے وقت بھی استعمال کررہے ہوں گے۔ (میں یہ مضمون لوہے سے بنی ہوئی پن کی نوک سے لکھ رہا ہوں جبکہ ہوسکتا ہے کہ آپ اس مضمون کو کمپیوٹر پر پڑھ رہے ہوں کہ جس میں اچھا خاصا لوہا موجود ہوتا ہے۔) اس وقت جب کوئی سفید بونا ستارہ کاربن اور آکسیجن کے مرکزے آپس میں ملاکر، کاربن پر منتج ہونے والا گداختی عمل شروع کرتا ہے؛ تو بس وہی اس کےلئے نوشتہ دیوار ثابت ہوتا ہے۔ سفید بونا یکدم پھٹ پڑتا ہے۔ اس ستارے کے نیوکلیائی دھماکے میں دوسری چیزوں کے ساتھ ساتھ لوہے کی بھی بہت بڑی مقدار خارج ہوتی ہے۔ درحقیقت ٹائپ اے ون (1-A) سپرنووا ان عناصر کو پھیلانے میں بڑی اہمیت رکھتے ہیں جو زندگی کو بنیاد فراہم کرنے میں نہایت ضروری ہوتے۔ ٹائپ 1-Aسپرنووا، لوہے کو خلاء میں ارب ہا ارب میل دور تک پھیلا دیتے ہیں۔ پوری کائنات میں موجود لوہا وہیں سے آتا ہے۔

جاری ہے ۔۔۔۔۔
 

زہیر عبّاس

محفلین
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سپرنووا - حصّہ دوم
How The Universe Works - Season 1, Episode 5
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مگر اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ لوہے سے بھاری عناصر کہاں سے آتے ہیں؟ جیسے کہ سونا، چاندی وغیرہ۔ تو اس سوال کا جواب ہے: لوہے سے بھاری عناصر دوسرے اور اکلوتے ستاروں کے سپرنووا بن کر پھٹ جانے سے وجود میں آتے ہیں۔ سپرنووا، کائنات میں موجود ہر چیز بناتے ہیں۔ ہر وہ چیز جو ہم زمین پر دیکھتے ہیں، وہ سب کی سب کسی ستارے نے ہی بنائی ہے۔ زمین پر موجود سارے کا سارا مادّہ، سپرنووا کے دوران ہی تخلیق ہوا تھا۔ ہم اور آپ بھی اسی بچے کچھے مادّے سے بنے ہیں۔ درحقیقت ہم ستاروں کی خاک (Star Dust) ہی تو ہیں!


ہمارے سیارے پر موجود زیادہ تر لوہا ثنائی ستاروں (Binary Stars) کے سپرنووا بن کر پھٹنے ہی سے وجود میں آیا ہے۔ یہ سپرنووا آج سے لگ بھگ پانچ ارب سال پہلے پھٹے تھے۔ زمینی اندرون میں کھربوں ٹن لوہے سے لے کر آسمان چھوتی عمارتوں تک، اور ہماری رگوں میں دوڑتے پھرنے والے خون میں شامل ہیموگلوبین تک، سارے کا سارا لوہا ان ہی ٹائپ 1-Aسپرنووا کے پھٹنے سے وجود میں آیا ہے۔ مگر کائنات میں لوہے سے بھاری عناصر (جیسے سونا، چاندی اور یورینیم وغیرہ) دوسری قسم کے سپرنووا سے وجود میں آئے ہیں۔ اس قسم کا سپرنووا وہ ستارے بنتے ہیں جو اکلوتے ہوتے ہیں۔ اس طرح کے ستاروں کی کمیت، ہمارے سورج سے کہیں زیادہ ہوتی ہے۔ کائنات میں ایسے ان گنت عفریت موجود ہیں۔ ان میں سے کچھ کی کمیت سورج کی کمیت سے کوئی پچیس تیس گنا زیادہ ہوتی ہے؛ تو کچھ کی کمیت، سورج کے مقابلے میں سینکڑوں گنا زیادہ ہوتی ہے۔ جتنی زیادہ کمیت ہوگی، ستارے کی عمر بھی اتنی ہی کم ہوگی۔ جتنا بھاری ستارہ ہوگا، وہ اتنی ہی تیزی سے اپنا نیوکلیائی ایندھن پھونک ڈالے گا۔ جب اس قسم کے عظیم و جسیم ستارے، اپنی عمر پوری کرتے ہوئے موت کی دہلیز پر قدم رکھتے ہیں، تو ان کے اندر جاری نیوکلیائی عمل تیز سے تیز تر ہوجاتا ہے۔ بھاری اور بڑے ستارے اپنا نیوکلیائی ایندھن بہت ہی جلدی پھونک دیتے ہیں۔ جو ستارہ جتنی تیزی سے جلتا ہے، وہ اتنی ہی تیزی سے اپنا ایندھن ختم کرتا ہے۔ ستارے کی کمیت جتنی زیادہ ہوگی، وہ اتنا ہی زیادہ گرم ہوگا۔ نتیجتاً وہ اپنا ایندھن بھی اتنی ہی جلدی ختم کردے گا۔


جب بہت ہی زیادہ کمیت والے ‘‘فوق ضخیم ستارے’’ (Supermassive Stars) سپرنووا کا روپ دھارتے ہیں، تو وہ کائنات میں صرف لوہا ہی نہیں پھیلاتے بلکہ اس دوران وہ لوہے سے بھاری عناصر بھی تخلیق کرلیتے ہیں۔ ایک بار جب وہ اپنے قلب میں موجود ہائیڈروجن کو ہیلیم میں، ہیلیم کو کاربن میں، اور کاربن کو آکسیجن میں تبدیل کرچکے ہوتے ہیں (عملِ گداخت یعنی فیوژن ری ایکشن کے نتیجے میں) تو وہ سفید بونے نہیں بنتے… بلکہ ان میں جلنے کا عمل، گداخت کا عمل جاری رہتا ہے۔ اس سے ان کے مرکز میں نت نئے عناصر، پرت در پرت جمع ہوتے رہتے ہیں۔ وہ کاربن سے زیادہ بھاری عنصر بناتے رہتے ہیں۔ نیون، آکسیجن سے لے کر سلیکان تک۔ یہ عناصر کائنات میں زندگی کی اساس ہیں۔ مگر یہ عناصر، ستاروں کے قلوب میں قید ہوتے ہیں؛ اور انہیں کسی بھی طریقے سے باہر نکلنا ہوتا ہے… یہاں سے فرار ہوکر دور خلاؤں میں پھیلنا ہوتا ہے۔ سپرنووا بن کر پھٹنے والے ستاروں کا مطالعہ کرکے ہی ہم یہ جان سکے ہیں کہ بھاری عناصر کیسے وجود میں آتے ہیں۔ یہ بھاری عناصر نیوکلیائی گداخت (نیوکلیئر فیوژن) کے ذریعے ہی ستاروں کے اندر پیدا ہوتے ہیں۔ اگر ستارے سپرنووا بن کر نہیں پھٹتے تو وہ عناصر ہمیشہ کےلئے ان مُردہ ستاروں کے قلوب ہی میں دفن رہتے۔ تاہم، بڑے یعنی فوق ضخیم ستاروں کے پھٹنے کا ذمہ دار بھی وہی عنصر ہے جو ٹائپ 1-A کے سپرنووا کو پھاڑنے کا موجب بنتا ہے؛ یعنی کہ لوہا۔


لوہا ستاروں کی گداخت سے پیدا ہونے والی توانائی کو پی جاتا ہے۔ توانائی کے بغیر نیوکلیائی عمل رک جاتا ہے اور قوّت ثقل غالب آکر ستارے کو دبانا اور بھینچنا شروع کردیتی ہے۔ یہ لمحہ بس ستارے کےلئے موت کا پروانہ ہی لے کر آتا ہے۔ ستارے کا آخری لمحہ بہت ہی مختصر سا ہوتا ہے۔ سپرنووا بننے کیلئے درکار عرصہ تقریباً ایک کروڑ سال کا ہوتا ہے؛ مگر اس کا آخری وقت تو صرف چند لمحوں پر محیط ہوتا ہے۔ ستارے کے قلب میں ایک بار لوہا جمع ہوجائے تو وہ اپنا توازن کھو بیٹھتا ہے اور ایک سیکنڈ کے بھی ہزارویں حصّے میں، یعنی صرف ایک ملی سیکنڈ میں منہدم ہوکر سیارہ زمین کی جسامت سے سکڑ کر ایک چھوٹے جتنا ہی رہ جاتا ہے۔ تب اس کے سکڑنے کی رفتار، اپنے آپ میں منہدم ہونے کی رفتار، روشنی کی رفتار کا ایک تہائی ہوتی ہے۔ ستارہ جیسے ہی غیر متوازن ہوتا ہے، ویسے ہی قوّت ثقل اس کے قلب کو منہدم کر دیتی ہے۔ یہ اتنی شدت سے ہوتا ہے کہ ستارے کے قلب میں موجود ایٹموں کے مرکزے بھی ایک دوسرے سے متصادم ہوکر آپس میں ضم ہونے لگتے ہیں۔ جیسے جیسے ستارے کا قلب چھوٹا اور کثیف ہوتا جاتا ہے، ویسے ویسے اس کے مرکز میں توانائی کا ذخیرہ بھی بڑھتا جاتا ہے۔ بس یوں سمجھ لیجئے کہ سورج سے ڈیڑھ گنا زیادہ کمیت والی چیز دب کر صرف پندرہ میل قطر ہی کی رہ جائے۔ وہ ستارہ ناقابل بیان حد تک کثیف ہوجاتا ہے۔ پانی کی عمومی کثافت کے مقابلے میں اس کی کثافت دس ہزار کھرب گنا زیادہ ہوجاتی ہے۔


دھماکا، ستارے کی بیرونی پرت کو اڑا کر رکھ دیتا ہے؛ اور اسی دوران لوہے سے بھاری عناصر تشکیل پاتے ہیں۔ لوہے سے کوبالٹ، کوبالٹ سے نکل، اور اسی طرح ہوتے ہوتے سونا، پلاٹینم اور یورینیم بنتے چلے ہیں۔ اس دھماکے کی مدّت اس قدر مختصر ہوتی ہے کہ بھاری عناصر بہت ہی کم مقدار میں بن پاتے ہیں۔ اسی وجہ سے یہ عناصر زمین پر بھی کمیاب ہیں۔ سپرنووا دھماکے سے یہ بھاری عناصر خلاء میں ارب ہا میل دور تک پھیل جاتے ہیں۔ بھاری عناصر کی تشکیل کا عمل اور طریقہ کار، پوری کائنات میں ہمیں اب تک جو ملا ہے، وہ یہی ہے کہ یہ عناصر ستاروں کے سپرنووا بن کر پھٹنے کے نتیجے میں وجود میں آتے ہیں۔ ناقابلِ یقین سا لگتا ہے کہ اس قیامت خیز دھماکے کے بعد بھی کوئی چیز سلامت بچی رہے۔ مگر اب یہ بات ہمارے مشاہدے میں آچکی ہے کہ اتنے زبردست دھماکے کے بعد بھی ستارے کی لاش باقی رہ ہی جاتی ہے۔ ستارے کی لاش اب تک کی دریافت ہونے والی چیزوں میں نہایت عجیب و غریب اور مہلک ہوتی ہے۔


جب کوئی دیوہیکل ستارہ سپرنووا بن کر پھٹتا ہے، تو یہ ہمیشہ اس ستارے کا اختتام نہیں ہوتا۔ کبھی کبھار اس کی باقیات بھی رہ جاتی ہیں۔ ان باقیات کا انحصار ستارے کی جسامت اور کمیت پر ہوتا ہے۔ ہمارے سورج سے لگ بھگ آٹھ گنا بڑے ستارے سپرنووا دھماکے کے بعد ایک نیوٹرون ستارہ (Neutron Star) اپنے پیچھے چھوڑ جاتے ہیں (ملاحظہ کیجئے تصویر نمبر۴)۔ یہ نیوٹرون ستارہ، کائنات کی عجیب و غریب ترین چیزوں میں سے ایک ہے۔ نیوٹرون ستارے اگرچہ نہایت خطرناک اور انوکھے ہوتے ہیں، لیکن کائنات میں ان کی تعداد بہت زیادہ ہے۔


جب ایک دیوہیکل ستارہ سپرنووا بنتا ہے، تو اس کا قلب سکڑ کر اتنا چھوٹا ہوجاتا ہے جیسے کوئی پورا سیارہ سکڑ کر ایک چھوٹے سے شہر جتنا ہوجائے۔ ستارے کے قلب میں اتنا شدید دباؤ ہوتا ہے کہ وہاں موجود ایٹموں کے مرکزے بھی ایک دوسرے کے ساتھ دبنا شروع ہوجاتے ہیں۔ اور جب یہ ایٹمی مرکزے آپس میں اس قدر پیوست ہوجاتے ہیں کہ بالکل بھی جگہ نہیں بچتی، تو زبردست توانائی بننے لگتی ہے۔ اب ضروری ہوجاتا ہے کہ ستارہ اس زبردست توانائی کو کسی نہ کسی طور پر نکال باہر کرے؛ اور اپنے آپ کو نسبتاً سکون کی حالت میں لے آئے۔ بس! یہی وہ موقعہ ہوتا ہے جب ایک بہت ہی شدید دھماکہ ہوتا ہے اور قلب کی بیرونی پرت، خلاء میں بکھر جاتی ہے جو اپنے پیچھے ایک فوق ضخیم نیوٹرون ستارہ (Super-massive Neutron Star) ہی بچ جاتا ہے۔ نیوٹرون ستارے کی کمیت بہت ہی زیادہ اور جسامت بہت ہی کم ہوتی ہے۔ اس کا مطلب ہے ہے کہ اس کی کثافت بھی بہت ہی زیادہ ہوگی۔ بس یوں سمجھ لجئے کہ نیوٹرون ستارے میں پوری ایمپائر اسٹیٹ بلڈنگ کی کمیت، ریت کے ایک ذرّے جتنی جسامت میں سما جائے گی۔ نیوٹرون ستارے کی کثافت اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ اگر ہمارے پاس اتنا کثیف کوئی مادّہ موجود ہو اور ہم اسے زمین پر ڈالیں، تو وہ زمین کے آرپار ہوجائے گا۔ بالکل اسی طرح جیسے گرم چھری، مکھن میں سے گزرتی چلی جاتی ہے۔ نیوٹرون ستارے میں ایک چائے کے چمچے جتنا مادّہ، دس کروڑ ٹن کے برابر ہوتا ہے۔ ذرا تصور کیجئے کہ ایک پورا ستارہ صرف ایک چھوٹے سے شہر کے رقبے جتنا ہوجائے تو وہ کتنا کثیف ہوگا!

جاری ہے ۔۔۔۔
 

زہیر عبّاس

محفلین
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سپرنووا - حصّہ سوم
How The Universe Works - Season 1, Episode 5
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نیوٹرون ستارہ نہایت ہی تیزی سے گھومتا ہے۔ کچھ تو ایک سیکنڈ میں ہزار مرتبہ گھومتے ہیں۔ صرف یہ بات سوچنے میں ہی ہمارا دماغ چکرا کر رہ جاتا ہے کہ کوئی چیز سورج سے ڈیڑھ گنا زیادہ بڑی ہو اور ایک سیکنڈ میں ایک ہزار بار (اپنے محور پر) چکر لگا رہی ہو۔ کچھ نیوٹرون ستارے اس قدر تیزی سے چکر لگاتے ہیں کہ وہ زبردست قسم کی توانائی کی دھڑکنیں (Pulses of Energy) پیدا کرتے ہیں۔ توانائی کا یہ اخراج، ریڈیو لہروں کی صورت میں ہوتا ہے۔ اگر کسی نیوٹرون ستارے کو کچھ مختلف حالات درپیش آجائیں اور وہ اپنے قطبین کے بجائے استواء (ایکویٹر) کے گرد گھومنا شروع کردے، تو پھر وہ ‘‘نابض ستارہ’’ یعنی پلسار (Pulsar) کہلاتا ہے۔ ان کے قطبین سے نکلنے والی ریڈیو لہریں (جو بذاتِ خود برقی مقناطیسی لہروں ہی کی ایک قسم ہیں) بہت ہی لگے بندھے اور ٹھیک ٹھیک وقفے کے ساتھ ہمیں اپنی طرف آتی ہوئی محسوس ہوتی ہیں۔ ظاہر ہے ہمیں یہ اس لئے محسوس ہوتا ہے کیونکہ ایسے سپرنووا کے قطبین ہماری سیدھ میں ہوتے ہیں۔ پلسار سے آنے والی ریڈیو لہروں کا درمیانی وقفہ اس قدر نپا تلا ہوتا ہے کہ جیسے کوئی دور دراز خلائی مخلوق ہمیں اپنی موجودگی کے سگنل بھیج رہی ہو۔ پہلے پہل جب پلسار دریافت ہوئے، تو ان کا مشاہدہ کرنے والے ماہرینِ فلکیات کی ٹیم بھی اسی غلط فہمی کا شکار ہوگئی تھی کہ کوئی خلائی مخلوق، ریڈیو سگنلوں کے ذریعے ہم سے رابطہ کرنے کی کوشش کررہی ہے۔ اسی لئے ابتداء میں انہیں ‘‘چھوٹے سبز آدمی’’ (Little Green Men) یا مختصراً ‘‘ایل جی ایم’’ (LGM) کا نام دے دیا۔ البتہ، بعد میں یہ نیوٹرون ستاروں ہی کی ایک قسم ثابت ہوئے۔ ماہرینِ فلکیات آج بھی پیار سے پلساروں کو ‘‘چھوٹے سبز آدمی’’ ہی کہتے ہیں (ملاحظہ کیجئے تصویر نمبر۵)۔ ایسا ہی ایک پلسار، کیکڑے کی شکل والے سحابئے (Crab Nebula) میں موجود ہے جہاں کوئی ہزار سال پہلے سپرنووا دھماکہ ہوا تھا۔ یہ اپنی قسم کا تیز ترین گھومنے والا ستارہ ہے۔ یہ اپنے محور پر ایک سیکنڈ میں تیس مرتبہ چکر لگالیتا ہے؛ اور اگلے لاکھوں سال تک اسی طرح کرتا رہے گا۔


مگر صرف پلسار ہی وہ عجیب و غریب اجسام نہیں جو سپرنووا پھٹنے سے وجود میں آتے ہیں۔ جب کوئی ستارہ، جو اپنی کمیت میں سورج سے لگ بھگ تیس گنا زیادہ ہو، اور سپرنووا دھماکے میں اپنی جان گنوادے، تو وہ مرتے ہوئے اپنے پیچھے ایک ایسا نیوٹرون ستارہ چھوڑ جاتا ہے جسے ہم میگنیٹار (Magnetar) یعنی ‘‘مقناتارہ’’ (مقناطیسی ستارہ) کہتے ہیں (ملاحظہ کیجئے تصویر نمبر۶)۔ مقناطیسی ستارے (مقناتارے) پلسار سے زیادہ عجیب ہوتے ہیں۔ یہ نہایت طاقتور مقناطیسی میدان بناتے ہیں۔ ان کے مقناطیسی میدان کی قوّت، زمینی مقناطیسی میدان کے مقابلے میں ایک ہزار کھرب گنا زیادہ ہوتی ہے! ان کی طاقت کا اندازہ یوں بھی لگایا جاسکتا ہے کہ اگر کوئی مقناطیسی ستارہ، ہم سے ہزاروں میل دور ہو، تب بھی یہ ہمارے جسم میں موجود لوہے کے تمام ذرّات کھینچ نکال سکتا ہے۔ مگر سپرنووا کے پھٹنے سے صرف پلسار اور مقناطیسی ستارے جیسی خطرناک چیزیں ہی وجود میں نہیں آتیں، بلکہ ایک اور خطرناک شئے بھی بن سکتی ہے۔ جب کوئی فوق ضخیم ستارہ، سپرنووا دھماکے میں پھٹتا ہے تو اس کی لاش صرف ایٹموں ہی کو نہیں بھینچتی بلکہ وہ زمان و مکان کا تانا بانا بھی منہدم کردیتی ہے… اور یہ سپرنووا ایک بلیک ہول (Black Hole) کو جنم دیتا ہے۔


جب سورج سے سو گنا بڑا ستارہ سپرنووا بنتا ہے، تو اس کا دھماکا اتنا زبردست ہوتا ہے کہ عام سپرنووا اس کے سامنے محض ایک چنگاری محسوس ہوتا ہے۔ اسی لئے سائنس دانوں نے اسے ‘‘ہائپرنووا’’ (Hypernova) کا نام دیا ہے۔ یہ ہائپرنووا ہی تھا جو شاید تیسری عالمی جنگ شروع کروانے کی وجہ بن جاتا؛ لیکن خوش قسمتی سے ایسا نہیں ہوا۔


١٩٦٣ء میں امریکہ اور سوویت یونین نے نیوکلیائی ہتھیاروں کے تجرباتی دھماکوں پر پابندی کا معاہدہ کیا۔ روس پر نظر رکھنے کےلئے امریکہ نے ایک جاسوس سیارچہ خلاء میں چھوڑا۔ اس سیارچے نے دور خلاء سے آتی ہوئی زبردست شعاعیں ریکارڈ کیں۔ یہ شعاعیں کسی ایٹمی دھماکے سے بھی پیدا ہوتی ہیں۔ اسی لئے امریکیوں کو یہ گمان ہوا کہ شاید روس نے معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کوئی ایٹمی دھماکہ کیا ہے۔ لہٰذا، اسے انہوں نے اپنے لئے بہت بڑا خطرہ تصور کیا۔ تاہم، مزید تصدیق کی غرض سے امریکی حکومت نے ایک اور سیارچہ، جس کا نام ‘‘ویلا’’ (Vela) تھا، خلاء میں چھوڑا تاکہ دنیا بھر میں کہیں بھی ہونے والے نیوکلیائی دھماکوں کا سراغ لگاسکیں۔ اس سیارچے نے بھی دُور خلاء سے آتے ہوئے یہ جناتی دھماکے (تابکار شعاعوں کی بوچھاڑیں) ریکارڈ کئے۔ پہلے تو امریکیوں نے سمجھا کہ شاید روس چوری چھپے خلاء میں نیوکلیائی ہتھیاروں کے تجربات کررہا ہے۔ مگر نہ تو وہ کوئی نیوکلیائی ہتھیار تھے اور نہ ہی ان دھماکوں سے روس کا کوئی لینا دینا تھا۔ جب امریکیوں نے ان دھماکوں کا جائزہ لینا شروع کیا تو انہیں یہ کہکشاں میں ہرطرف سے، بلکہ کہکشاں سے بھی دور سے آتے نظر آئے۔ اب انہیں یقین ہوگیا کہ روس کوئی بھی نیوکلیائی دھماکہ، کہکشاں سے دور جاکر نہیں کرسکتا۔ سائنس داں سمجھ چکے تھے کہ انہوں نے کوئی نئی چیز دریافت کرلی ہے… وہ دراصل انتہائی طاقتور دھماکے تھے جن سے زبردست توانائی کی حامل گیما شعاعیں خارج ہورہی تھیں۔ اب چونکہ نیوکلیائی ہتھیاروں کے دھماکوں سے بھی گیما شعاعیں خارج ہوتی ہیں، اسی لئے مذکورہ غلط فہمی بھی پیدا ہوئی تھی۔ خیر! مزید چھان بین اور تحقیق کے بعد، دُور خلاء سے آتی ہوئی ان شعاعوں کو ‘‘گیما شعاعوں کی بوچھاڑیں’’ (Gamma Rays Bursts) قرار دے دیا گیا۔ یہ شعاعیں ہائپرنووا کے پھٹنے کے مقام سے ہماری طرف آرہی تھیں۔


ایک عام سپرنووا دھماکے کے دوران قوّت ثقل، ستارے کے قلب کو نیوٹرون ستارے میں بدل دیتی ہے۔ مگر ہائپرنووا کے دھماکے میں دیوہیکل ستارہ اس قدر بڑا ہوتا ہے کہ قوّت ثقل اس کے قلب کو دباکر ایک عجیب سی شئے میں بدل دیتی ہے؛ جس کا نام بلیک ہول ہے۔


ستارے کے قلب میں جیسے ہی بلیک ہول بنتا ہے، وہ فوراً ہی اس ستارے کے باقی ماندہ بیرونی مادّے کو نگلنا شروع کردیتا ہے۔ تاہم، یہ مادّہ بہت زیادہ ہوتا ہے اور نوزائیدہ بلیک ہول انتہائی مختصر؛ لہٰذا بلیک ہول (ستارے کے قلب) کے گرد ایک بھنور سا بنانے لگتا ہے جس کے باعث بلیک ہول کے گرد ایک پرت دار ٹکیہ (Accretion Disk) وجود میں آجاتی ہے۔ اب یہ پرت دار ٹکیہ، بلیک ہول کو ہر ایک سیکنڈ کے دوران، دس لاکھ زمینی کمیت جتنا مادّہ فی فراہم کرنا شروع کردیتی ہے۔ اتنی تیزی سے اس قدر زیادہ مادّہ نگلنے کی وجہ سے ایک ڈرامائی صورتحال پیدا ہوجاتی ہے۔ نومولود بلیک ہول کےلئے ہر سیکنڈ میں دس لاکھ زمینی کمیت جتنا مادّہ ہضم کرنا بہت ہی زیادہ ہوتا ہے۔ لہٰذا وہ اس میں سے بہت سا مادّہ واپس خلاء میں تقریباً روشنی کی رفتار سے واپس پھینکنا شروع کردیتا ہے۔ اپنی زبردست توانائی کی وجہ سے یہ مادّہ دو بوچھاڑوں کو جنم دیتا ہے جو خالص توانائی پر مشتمل ہوتی ہیں۔ اب چونکہ یہ انتہائی توانائی کی حامل گیما شعاعوں کی صورت میں ہوتی ہے، اس لئے ہمیں گیما شعاعوں کی بوچھاڑیں نظر آتی ہیں۔ (ملاحظہ کیجئے تصویر نمبر۷)۔ یہ گیما شعاعیں جو بلیک ہول کے عین کنارے سے نکلتی ہیں، ستارے کی بیرونی پرت کو چیرتی ہوئی خلاء میں دور دور تک بکھرجاتی ہیں۔ یہ گیما بوچھاڑیں اپنے آپ میں ایک نہایت ہنگامہ خیز واقعہ ہوتی ہیں: ایک جناتی ستارہ اپنے آپ کو ریزہ ریزہ کرکے بلیک ہول بن جاتا ہے۔ یہ گیما بوچھاڑیں اس قدر توانا ہوتی ہیں کہ پوری کائنات کو منوّر کردیتی ہیں۔ یہ اس قدر طاقتور ہوتی ہیں کہ کائنات کے کسی بھی دور دراز حصے میں ان کا اخراج دیکھا جاسکتا ہے۔ یہ کائنات کی روشن ترین چیزوں میں سے ایک ہیں۔


ایک سپرنووا اس قدر توانائی خارج کرتا ہے جتنی ہمارا سورج اپنی دس ارب سالہ زندگی میں مجموعی طور پر خارج کرے گا۔ لیکن گیما شعاعوں کا اخراج، سپرنووا سے بھی دس کروڑ گنا زیادہ توانائی سے لبریز ہوتا ہے۔ توانا ہونے کے ساتھ ساتھ، یہ شعاعیں انتہائی مہلک بھی ہوتی ہیں۔ خدانخواستہ اگر گیما شعاعوں کی کوئی بوچھاڑ اپنی اسی توانائی کے ساتھ ہماری زمین سے آٹکرائے، تو سیکنڈوں میں زمین کی تمام فضا کو ختم کردے گی۔ ایک بار اگر یہ زمین تک پہنچ گئیں، تو وہ زمین کو نائٹرک آکسائڈ میں نہلا دیں گی، جو اوزون کی حفاظتی تہہ کو تہس نہس کردے گی۔ یہ شعاعیں کرۂ ارض کی زندگی کو براہ راست نشانہ بنائیں گی۔ ان سے الجی ختم ہوجائے گی۔ غذائی پیداوار کی پوری زنجیر، جس پر خود ہمارا انحصار ہے، پوری ختم ہوجائی گی۔ اگر ان شعاؤں کا اخراج، زمین کے تھوڑے بھی نزدیک سے ہوا، تو یہاں جاندار انواع بڑے پیمانے پر صفحہ ہستی سے مٹ جائیں گی، معدوم ہوجائیں گی۔ گیما شعاعوں کی یہ بوچھاڑیں، ہمارے سابقہ اندازوں سے کہیں زیادہ عام ہیں۔ لہٰذا بہت ممکن ہے کہ ماضی میں کبھی انہوں نے کرۂ ارض کا رخ بھی کیا ہو۔ یہ یقیناً بہت ہی خوفناک صورتحال رہی ہوگی، اگر ماضی میں کبھی ایسا ہوا ہو۔

جاری ہے ۔۔۔۔۔
 

زہیر عبّاس

محفلین
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سپرنووا - حصّہ چہارم (آخری حصّہ)
How The Universe Works - Season 1, Episode 5
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب سوال یہ ہے کہ اگر ماضی میں ایسا کچھ وقوع پذیر ہوچکا ہے، تو کیا دوبارہ بھی ایسا ہوسکتا ہے؟ مگر ایسا دوبارہ ہونے کےلئے کسی بہت ہی دیوہیکل ستارے کا مرنا لازمی ہے۔ ہم سے سب سے قریبی ستارہ ایٹا کرینائی (Eta Crainae) ہے، جو اس قدر دیوہیکل ہے کہ اس کی موت، گیما شعاعوں کی زبردست بوچھاڑ خارج کرسکے۔ یہ سحابیہ دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے، جو خلاء میں ہر طرح کا مادّہ بکھیر رہا ہے۔ یہ ستارہ بہت ہی غیر قیام پذیر ہے۔ مگر صرف ایٹا کرینائی ہی ہمارے لئے واحد خطرہ نہیں۔ بہت سے دوسرے مرتے ہوئے ستارے، خلاء میں ہم سے قریب موجود ہیں۔ آپ چاہے یقین کیجئے یا نہ کیجئے، ان میں سے ایک ستارہ جس کا نام WR104 ہے، وہ بالکل ہماری زمین ہی کی طرف رخ کئے ہوئے ہے۔ سوال یہ نہیں کہ ایسا ہوگا؛ بلکہ یہ ہے کہ کب ہوگا؟ البتہ، اچھی خبر یہ ہے کہ شاید ہمیں کبھی پہلے سے پتا ہی نہیں چلے گا۔ گیما بوچھاڑیں اس سے پہلے ہی ہمیں آلیں گی کہ جب تک ہم کچھ کرنے کے قابل ہوں۔ لہٰذ قصہ مختصر کہ ہمیں اس کی فکر کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔


سچ تو یہ ہے کہ ہمیں کبھی پتا ہی نہیں چلے گا کہ کب کوئی ستارہ ہائپرنووا کی شکل میں پھٹ پڑے گا۔ خیر! اس سے پہلے کہ ہم جان سکیں کہ کوئی ستارہ ہمارے آس پاس (صرف چند نوری سال کے فاصلے پر) یہ حرکت کرنے جارہا ہے، اس وقت تک بہت دیر ہوچکی ہوگی۔ دراصل ہم پہلے ہی گیما بوچھاڑوں کا سامنا کررہے ہوتے ہیں۔ ہر دن، ہر سیکنڈ میں ہمارا واسطہ ان گیما بوچھاڑوں سے پڑتا ہے۔ مگر یہ ہم سے بہت دور ہوتی ہیں۔


جب جناتی حجم کے عظیم ستارے پھٹتے ہیں، تو یہ کائنات میں عظیم دھماکے کرتے ہیں۔ مگر ابھی کچھ عرصہ پہلے تک کسی کو یہ نہیں معلوم تھا کہ وہ کیا چیز ہے جو انہیں اس قدر توانائی بہم پہنچاتی ہے۔ سائنس دانوں نے جب کمپیوٹر پر سپرنووا بننے کی نقل (سمیولیشن) تیار کی تو انہیں ایک مشکل کا سامنا کرنا پڑا۔ کمپیوٹر سمیولیشن یہ ظاہر کررہی تھی کہ مرتے ہوئے ستارے میں اتنی توانائی نہیں ہوگی جو اسے پھٹ پڑنے کےلئے درکار تھی۔ فلکیات کی دنیا میں یہ مسئلہ ایک مصیبت بن گیا تھا۔ کمپیوٹر سمیولیشن نے ستارے کے پھٹ پڑنے کے عمل میں اس توانائی کا ساتھ دینے سے معذوری ظاہر کردی تھی۔ ستارے کو پھاڑنے کےلئے مزید توانائی کی ضرورت تھی۔ مسئلہ یہ تھا کہ ماہرینِ فلکیات اس گتھی کو سلجھانے سے قاصر تھے۔


بصری اشعاع جو ہم تک پہنچتی ہیں، وہ اس ستارے سے پیدا ہونے والی تمام توانائی کا نہایت ہی معمولی سا حصّہ ہوتی ہیں۔ پھیلتی ہوئی گیسوں سے جو حرکی توانائی خارج ہوتی ہے، وہ پوری توانائی کا صرف ایک فیصد بنا پاتی ہے۔ یہ بات سائنس دانوں کو پریشان کررہی تھی کہ باقی نناوے فیصد توانائی آخر کہاں گئی۔ سائنس دانوں کے پاس کمپیوٹر سمیولیشن کو اصل سپرنووا سے مطابقت میں لانے کا صرف ایک ہی راستہ تھا۔ اور وہ یہ کہ سمیولیشن میں پراسرار ذیلی ذرّات ‘‘نیوٹرائنو’’ (Neutrino) بھی شامل کردیئے جائیں۔ ان کے بغیر کام نہیں چل سکتا تھا۔ یہ تو کہیں آسان کام تھا، مگر اصل بات اس چیز کو واقعتاً ثابت کرنا تھا کہ درحقیقت سپرنووا میں یہی نیوٹرائنو کارفرما ہوتے ہیں۔ خوش قسمتی سے ہماری ایک قریبی کہکشاں میں، جس کا نام ‘‘بڑا مجیلانی بادل’’ (Large Magellanic Cloud) ہے، ایک لاکھ اڑسٹھ ہزار سال پہلے سپرنووا کا ایک دھماکہ ہوا تھا۔ اس دھماکے کی روشنی (اور دیگر اشعاع) ایک لاکھ اڑسٹھ ہزار نوری سال کا فاصلہ طے کرنے کے بعد ہم تک 1987ء میں پہنچیں؛ یعنی اُس سال ہم نے اس سپرنووا کی پہلی جھلک دیکھی۔ اسی مناسبت سے اس سپرنووا کا نام SN-1987-A رکھ دیا گیا۔


سپرنووا 1987-A کی اہمیت بہت زیادہ تھی۔ کسی بھی سپرنووا کو اس کے پھٹتے وقت، دوربین کی ایجاد کے بعد، پہلی بار دیکھا جارہا تھا۔ ہم اس قابل ہوگئے تھے کہ اسے اپنے جدید آلات کی مدد سے پھٹتے ہوئے دیکھ سکیں؛ جو ہم نے اب تک خاص اسی مقصد کےلئے بنائے تھے۔ ان میں سے ایک جناتی قسم کا آلہ تھا جو زیر زمین دفن تھا۔ اس آلے کا کام ہی نیوٹرائنو کی تلاش تھا۔ سائنس دانوں نے نیوٹرائنو کی بوچھاڑ کا سراغ لگا لیا تھا۔ یہ نہایت شاندار دریافت تھی کیونکہ سائنس دان برسوں سے کہتے آرہے تھے کہ ننانوے فیصد توانائی، نیوٹرائنو کی صورت میں ہوتی ہے۔ مگر اس سے پہلے کسی نے اس بات کا براہ راست مشاہدہ نہیں کیا تھا۔ اب ہم نے یہ ثابت کردیا تھا کہ سپرنووا کی وہ ننانوے فیصد توانائی ان نیوٹرائنو ہی کی صورت میں خارج ہوتی ہے۔ نیوٹرائنو بہت ہی چھوٹے ہوتے ہیں، اتنے چھوٹے کہ ہائیڈروجن ایٹم کا مرکزہ بھی ان کی جسامت سے ایک ارب بڑا ہوتا ہے۔ یہ ہر قسم کے نیوکلیائی تعامل میں پیدا ہوتے ہیں؛ چاہے وہ نیوکلیائی بم کا دھماکہ ہو، ایٹمی بجلی گھر ہو یا پھر ستاروں کے پھٹنے کا عمل۔ اگر ہم کسی روشنی کے بجائے نیوٹرائنو کی مدد سے دیکھنے کے قابل ہوجائیں، تو ہمیں اپنے ہر طرف نیوٹرائنو ہی نیوٹرائنو دکھائی دیں گے… یہ اتنے زیادہ ہیں کہ ہماری ‘‘نیوٹرائنو بصارت’’ کو خیرہ کردیں گے۔ (لیکن ہمارے لئے فی الحال تو یہ نادیدہ قسم کے ذرّات ہی ہیں۔) اس وقت بھی جبکہ آپ یہ سطریں پڑھ رہے ہیں، کھرب ہا کھرب نیوٹرائنو آپ کے جسم میں سے گزر رہے ہیں۔ درحقیقت وہ فرش کے نیجے سے نکل کر ہماری ٹانگوں میں سے گزر رہے ہیں۔ یہ بات واقعی نہایت عجیب سی ہے۔ مگر اصل سوال یہ ہے کہ اتنے زیادہ چھوٹے ذرّات جو ہمارے جسم میں سے تیزی سے گزر رہے ہیں، وہ کہاں سے توانائی حاصل کررہے ہیں؟


سپرنووا کے پھٹنے سے پہلے جب کسی ستارے کا قلب منہدم ہونا شروع ہوتا ہے، تو اس میں موجود ایٹم بھی شدید دباؤ کے تحت ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوتے ہیں۔ ستارے کا قلب اس قدر گرم اور شدید دباؤ کا حامل ہوتا ہے کہ وہ اس ایٹمی ملبے کو نیوٹرائنو ذرّات میں تبدیل کردیتا ہے۔ سائنس دانوں کا خیال ہے کہ سپرنووا بہت ہی بڑی تعداد میں نیوٹرائنو کو اس وقت جنم دیتے ہیں جن ان کا قلب، نیوٹرون ستارے میں منہدم ہوتا ہے۔ لگ بھگ دس سیکنڈ تک ستارے کے قلب سے اتنے زیادہ نیوٹرائنو ذرّات خارج ہوتے ہیں جو اس مختصر سے دورانئے میں ساری کائنات میں پیدا ہونے والی توانائی سے بھی زیادہ ہوتی ہے۔ بہ الفاظِ دیگر، یہ واقعی بہت ہی روشن ہوتا ہے۔ قوّت ثقل ان نیوٹرائنو کو قلب میں جکڑ کر نہیں رکھ سکتی۔ وہ بڑی تیزی سے، اور انتہائی توانائی کے ساتھ، گویا مرتے ہوئے ستارے کا سینہ چیرتے ہوئے باہر نکل جاتے ہیں؛ اور روشنی کے اس زبردست جھماکے کا حصہ بن جاتے ہیں جو سپرنووا کے پھٹتے وقت وجود میں آکر ہر طرف پھیل رہا ہوتا ہے۔


نیوٹرائنو کی دریافت نے سپرنووا کو سمجھنے کا انداز مکمل طور پر تبدیل کردیا۔ مگر ابھی سپرنووا کا اس راز سے پردہ اٹھانا باقی تھا جس نے کائنات کا مقدر بدل کر رکھ دیا تھا۔ سپرنووا دھماکے سے پیدا ہونے والی روشنی اس قدر چمکدار ہوتی ہے کہ کائنات میں دور دور تک نظر آتی ہے۔ اسی سے ماہرین فلکیات کو کائنات کی پراسرار ترین گتھیاں سلجھانے میں بہت مدد ملی۔


جیسا کہ ہم پہلے باب میں پڑھ چکے ہیں، کائنات کی ابتداء آج سے 13.7 اَرب سال (تقریباً 14 اَرب سال) پہلے، بگ بینگ سے ہوئی تھی۔ ابتدائی کائنات نے ایک ایسے نقطے سے پھیلنا شروع کیا جس کی جسامت ایک ایٹم سے بھی بہت چھوٹی تھی۔ آج کائنات اب ارب ہا ارب نوری سال پر پھیلی ہوئی ہے؛ اور مزید پھیل رہی ہے۔ شاید مستقبل بعید کی نسلیں، بگ بینگ کے بارے میں نہ جان سکیں۔ ہم اس لئے بگ بینگ کی سراغرسی کرسکتے ہیں کیونکہ ہم اپنے ارد گرد کہکشاؤں کو ایک دوسرے سے دور ہٹتا ہوا دیکھ سکتے ہیں۔ لیکن، ایک دن وہ بھی آئے گا جب کہکشائیں ایک دوسرے سے اتنی زیادہ دور ہوچکی ہوں گی کہ انہیں آسمان پر دیکھنا ممکن نہیں ہوگا۔ کہکشاؤں کے درمیان اتنا زیادہ فاصلہ ہوگا کہ روشنی بھی ایک سے دوسری کہکشاں تک پہنچنے سے قاصر رہے گی۔ قبل ازیں سائنس دان یہ سمجھتے تھے کہ پھیلتی ہوئی کائنات بتدریج سست پڑجائے گی۔ مگر یہ ثابت کرنے کےلئے ان کے پاس کوئی ثبوت نہیں تھا۔ دوہرے ستاروں سے ٹائپ 1-Aسپرنووا وجود میں آتے ہیں۔ یہ اس وقت پھٹتے ہیں جب کوئی سفید بونا ستارہ ہمارے سورج کی کمیت سے ٹھیک 1.4 گنا زیادہ کمیت کا ہو۔ ان کی روشنی بھی ایک جیسی ہوتی ہے۔ یہ خلاء میں فاصلہ ناپنے کا بہترین پیمانہ ہیں۔ ہمیں ٹھیک ٹھیک معلوم ہے کہ ان سے کتنی روشنی خارج ہوتی ہے، اور یہ کہ ان سے کتنا دُور ہونے پر یہ روشنی کس قدر ماند پڑجائے گی۔ غرض ٹائپ 1-A سپرنووا کو دیکھتے ہوئے جب ہم ان کی روشنی ناپتے ہیں، تو ہم ان کا فاصلہ آسانی سے معلوم کرسکتے ہیں۔ ان کے ذریعے نہ صرف ہم اپنی اور قریبی کہکشاؤں کے فاصلے ناپ سکتے ہیں بلکہ ارب ہا ارب نوری سال دور سے آنے والی روشنی کا بھی صحیح سے اندازہ لگا سکتے ہیں۔ اور ان کے ذریعہ فاصلہ ناپنے کی اس صلاحیت نے ایک زبردست دریافت کی بنیاد رکھی۔


ماہرین فلکیات سمجھتے تھے کہ انہوں نے یہ ثابت کرنے کےلئے کافی ثبوت تلاش کرلئے ہیں کہ کائنات کا پھیلاؤ سست پڑرہا ہے۔ مگر ان کی امیدوں پر پانی پھر گیا۔ ہوا یوں کہ 1998ء میں ماہرینِ فلکیات نے ایک غیرمعمولی اور ہماری تمام سابقہ امیدوں کے برخلاف ایک دریافت کرلی۔ اس وقت تک یہ بات مسلّم تھی کہ کائناتی پھیلاؤ، قوّت ثقل کی وجہ سے، سست پڑرہا ہے۔ مگر یہ دریافت تو بالکل اُلٹ تھی: کائناتی پھیلاؤ تو تیز تر ہورہا تھا؛ یہ تو اسرا ع پذیر تھا! ٹائپ 1-A سپرنووا سے آنے والی روشنی نے کائناتی پھیلاؤ کے بارے میں ماہرین فلکیات کی سوچ ایک بار پھر اُتھل پتھل کرکے رکھ دی۔ مگر تب تک ماہرین فلکیات یہ نہیں جان پائے تھے کہ آخر وہ ایسی کونسی چیز ہے جو کائنات کے اسراع پذیر پھیلاؤ کا سبب بن رہی ہے۔ پھر انہوں نے غوروفکر شروع کیا کہ کہیں یہ کوئی ایسی توانائی تو نہیں جو اسراع پذیر کائناتی پھیلاؤ کا موجب بن رہی ہے۔ ہم اب تک یہ نہیں جانتے کہ وہ توانائی آخر کیا ہے، کیسی ہے، اور کس طرح عمل پذیر ہورہی ہے۔ بہرحال! یہ جو کچھ بھی ہے، نہایت پراسرار ہے۔ اور اس پراسرار چیز کو آج ہم ‘‘تاریک توانائی’’ (Dark Energy) کے نام سے جانتے ہیں۔


مگر اسے ثابت کرنا نہایت ہی مشکل ہے، کیونکہ نہ تو یہ نظر آتی ہے اور نہ ہی اسے چھوا جاسکتا ہے؛ اور نہ ہی اس کا سراغ لگایا جاسکتا ہے۔ سرِدست ہمیں تاریک توانائی کے بارے میں زیادہ کچھ نہیں معلوم۔ اس کی طبیعیاتی نوعیت کیا ہے؟ یہ کہاں سے آئی ہے؟ یہ اب تک دنیائے طبیعیات کی ایک مشکل ترین پہیلی بنی ہوئی ہے۔ تاریک توانائی سے لے کر بلیک ہول کے بننے تک، سپرنووا نے کائنات کی بہت سی پیچیدہ گتھیاں سلجھائی ہیں؛ اور ساتھ ہی ساتھ نئے سوالوں کو بھی جنم دیا ہے۔ پھٹتے ہوئے ستارے، زندگی اور کائنات کو بنیادی خام مال فراہم کرتے ہیں؛ اور ہمیں بتاتے ہیں کہ کائنات میں بکھرے ہوئے عناصر کی تخلیق کیسے ہوتی ہے۔ یہ ہضم کرنا نہایت مشکل ہے کہ ہمارے جسموں کے ایٹم، اربوں سال پہلے کسی سپرنووا میں پیدا ہوئے تھے۔ صحائف کہتے ہیں کہ انسان کی تخلیق خاک (Dust) سے ہوئی ہے؛ اور سائنس یہ تصدیق اس طرح کرتی ہے کہ انسان، ستاروں کی خاک (Star Dust) سے پیدا ہوئے ہیں۔


سپرنووا، زندگی کو پروان چڑھانے کی ناگزیر کڑی ہیں۔ ہم سپرنووا کی باقیات میں سے ہیں۔ ہم ان ہی کے بچے ہیں۔ انہوں نے ہمارے لئے اپنی جان قربان کردی۔ ہم ان ہی کی خاک ہیں۔ سپرنووا کے بغیر ہمارا وجود ممکن ہی نہیں تھا۔ جب ہم کبھی آسمان میں دور ستاروں کو دیکھیں، تو یہ ضرور یاد رکھیں کہ کبھی ہم بھی ان ہی کا حصّہ تھے۔ کچھ سائنس دان سمجھتے ہیں کہ سپرنووا کا سنہرا دور ختم ہورہا ہے۔ چھوٹے چھوٹے، کفایت شعاری سے جلنے والے ستارے، جیسا کہ ہمارا سورج ہے، زیادہ اور وافر مقدار میں کائنات میں موجود ہیں؛ اور جناتی حجم والے ستارے کم ہورہے ہیں۔ بہرحال! سپرنووا نے ہمیں کہکشائیں دیں، نظام ہائے شمسی دیئے۔ ستارے اور سیارے دیے۔ انہوں نے ہمیں اور ہر اُس چیز کو جو ہم دیکھتے ہیں، پروان چڑھانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ سپرنووا، تعمیر و تخریب کے عین درمیان میں ہیں۔ ہماری کائنات کی تقدیر، ان مرتے ہوئے ستاروں ہی کی راکھ میں پنہاں ہے۔


تمام شد

اردو ترجمہ: زہیر عبّاس

ترمیم و ادارت: علیم احمد
 

زہیر عبّاس

محفلین
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کرۂ ارض اور اس کے پڑوسی سیّارے - حصّہ اوّل
How The Universe Works - Season 1, Episode 6

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کچھ عرصےپہلے تک ہم صرف کرۂ ارض اور ان سیّاروں سے واقف تھے جو سورج کے گرد چکر لگاتے تھے(ملاحظہ کیجئے تصویر نمبر 1). مگر اب دوسرے چٹانی سیّارے(Rocky Planets)اور گیس کے عظیم گولے(Gas Giants) دوسرے ستاروں کے گرد چکر لگاتے ہوئے دریافت ہوچکے ہیں اور اپنی ارتقاء کی انوکھی سرگزشت سنا رہے ہیں.ان سیّاروں کی ابتدائی تاریخ ہنگاموں سے بھرپور رہی ہے.سیّارےپوری کائنات میں ایک ہی طریقے سے جنم لیتے ہیں. ان کی پیدائش اس باقی ماندہ بچی ہوئی خاک اور گردکے ملبے سے ہوتی ہے جو ستارے کی پیدائش کے بعدباقی رہ جاتی ہے. اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ اگر وہ سب ایک ہی مادّے سے اور ایک ہی طریقے سے پیدا ہوئے ہیں تو پھر وہ ایک دوسرے سے اتنے مختلف کیوں ہوتے ہیں.کائنات کہکشاؤں، ستاروں، بلیک ہول اور دیگر اجسام سے بھری ہوئی ہے . اب سیّارےبھی اسی لامحدود تعداد کی دوڑ میں شامل ہوچکے ہیں.


ہمارے نظام شمسی کے آٹھ سیّارےہیں. مگر ہمیں معلوم ہے کہ وہ سمندر میں سے ایک قطرے ہی کی مانند ہیں. جس لمحے سائنس دانوں کو یہ پتہ چلا کہ کائنات میں دوسرے ستاروں کے گرد بھی سیّارےچکر لگا رہے ہیں وہ سائنسی تاریخ کا ایک یادگار لمحہ تھا. سیّارےتو کائنات میں نہایت ہی عام ہیں. ملکی وے کہکشاں کے دو کھرب ستاروں میں سےکئی ارب ستاروں کے گرد سیارےمو موجود ہیں.


٢٠٠٩؁ء میں ناسا نے کیپلر خلائی دوربین (Kepler Space Telescope) چھ سالہ مشن پر خلاء میں بھیجی.اس کا کام نئے سیّاروں کی کھوج کرنا تھا. ابھی تک خلاء نوردوں نے ١٨٥٠کے قریب سیّارےتلاش کر لئے ہیں ١. ان میں سے کچھ گیس کےگھومتے ہوئے عظیم گولے ہیں جو سیّارہ مشتری سے پانچ گنا زیادہ حجم کے ہیں. دوسرے دیوقامت چٹانی دنیائیں بھی (Super Earths)ہماری کرۂ ارض کے مقابلے میں کہیں زیادہ بڑی دنیائیں ہیں(ملاحظہ کیجئے تصویر نمبر ٢).ان میں سے کچھ انتہائی خطرناک قسم کے مدار میں چکر کاٹ رہے ہیں وہ مدار ان کے اپنے ستارے سے اس قدر قریب ہیں کے وہ ستارے ان کو سوختہ کر رہے ہیں. ایک بات تو نہایت واضح ہے کہ کوئی بھی ایک سیّارہ کسی دوسرے سیّارےجیسا نہیں ہے. ہر ایک اپنی مثال آپ ہے. زیادہ تر سیّارےبہت دور ہیں اور ان کا مشاہدہ کرنا نہایت ہی مشکل کام ہے. ان سیّاروں کے کام کرنے کا طریقہ کار کو سمجھنے کے لئے ہمیں زیادہ انحصار اپنے ان آٹھ سیّاروں کے کام کرنے کے طریقہ پر کرنا پڑتا ہے. ان سیّاروں پر جو ہمارے سورج کے گرد چکر لگا رہے ہیں.


ہمارے اپنے نظام شمسی کے سیّارےدو گروہوں میں تقسیم ہیں. ان میں سے چار پتھریلے اور چٹانی سیّارےسورج کے قریب اندرونی مدار میں چکر لگا رہے ہیں جن میں عطارد (Mercury)، زہرہ(Venus) ،زمین(Earth) اور مریخ(Mars) شامل ہیں(ملاحظہ کیجئے تصویر نمبر ٣).جبکہ سورج کے بیرونی مدار میں بھی چار سیّارےجو گیس کے عظیم گولے ہیں چکر کاٹ رہے ہیں جن میں مشتری(Jupiter)، زحل(Saturn) ، نیپچون(Neptune) اور یورینس(Uranus) شامل ہیں(ملاحظہ کیجئے تصویر نمبر ٤). ان آٹھ سیّاروں میں سے ہر ایک سیّارہ بہت ہی مختلف اور منفرد ہے. ان کی یہ انفرادیت ان کے پیدا ہونے کے ساتھ آج سے ٤.٦ ارب سال پہلے ہی شروع ہوگئی تھی. جب سورج نے جلنا شروع کیا تو اس نے اپنے پیچھے گرد و غبار کے عظیم بادلوں کو چھوڑ دیا تھا.سارے سیّارےچاہے وہ اندرونی چٹانی سیّارےہوں یا بیرونی گیس کے گولے ہوں سب کے سب اسی بچی ہوئی کونیاتی گردکے ملبے سے وجود میں آئے . ہمارے نظام شمسی کے سارے سیّارےایک ہی خام مال سے پیدا ہوئے ہیں . وہ اسی ایک گرد و غبار اور گیس کے بادل سے بنے ہیں .مگر وہ مختلف ماحول میں پیدا ہوئے ہیں. ان میں سے کچھ سورج کے قریب پیدا ہوئے ہیں جہاں انتہائی درجہ کی گرمی تھی.کچھ سورج سے تھوڑے دور جو نسبتا"کم گرم علاقے تھے وہاں بنے.کیونکہ ان کے بننے کی جگہ کا ماحول بہت زیادہ ایک دوسرے سے الگ تھا لہٰذا ہر سیّارہ ایک منفرد شناخت کے ساتھ پیدا ہوا. یوں سمجھ لیں کہ ایک جیسے خام مال کے ساتھ جس میں سلیکٹ،پانی،ہائیڈروجن،میتھین،اور دوسرے عناصر شامل تھے ، نظام شمسی کے سیّاروں کی ابتداء ہوئی. یہ عناصر ان سیّاروں کے بنیادی اجزاء میں شامل تھے جیسے کہ کسی کیک کو بناتے ہوئے ہم میدہ ، چینی،انڈے، وغیرہ استعمال کرتے ہیں. فرق صرف اتنا ہے کہ وہ مختلف ماحول اور درجہ حرارت میں پید ا ہوئے .ہمارے نظام شمسی میں تمام سیّارےمختلف درجہ حرارت میں رہتے ہوئے تشکیل پائے . درجہ حرارت کے اسی تفاوت نے ان کو ایک دوسرے سے بالکل مختلف بنا دیا.حرارت اور گرمی کی زیادتی کی وجہہ سےسورج سے قریب سیّاروں کی گیس جل گئی اور پانی ابل گیا.صرف وہ مادّہ جو زیادہ درجہ حرارت برداشت کرسکتا تھا جیسا کہ دھاتیں اور پتھر وغیرہ وہ ہی باقی بچے رہ گئے. یہ ہی وجہہ ہے کہ سورج کے اندرونی حصّے میں پتھریلے سیّارےوجود میں آئے جبکہ سورج کی گرمی سے دور مختلف سیّارےوجود میں آئے .


سیّاروں کی قسمیں ان کے گیسی و گردی بادلوں میں چھپی ہوئی ہوتی ہیں.یہ بات اس چیز پر منحصر ہے کہ گیسی و گردی غبار میں کون سے اجزاء ترکیبی موجود ہیں. اگر کسی ستارے کے ارد گرد کوئی چٹانی سیّارہ چکر نہیں لگا رہا تو اس کا مطلب ہے کہ اس کے گیسی بادلوں میں وہ مادّہ شامل نہیں تھا جو اس کو پتھریلا و دھاتی بنا سکے.لہٰذا اس کے ارد گرد صرف گیس کے عظیم گولے ہی بن سکتے ہیں.پتھریلے سیّاروں کے لئے چٹانوں اور دھاتوں سے لبریز گردو گیس کے بادلوں کی ضرورت ہوتی ہے.


دوسرے دور میں جب گرمی کم ہوتی ہے تو سیّارےٹھنڈا ہونا شروع کردیتے ہیں. ان میں موجود کچھ عنصر جن کا درجہ ابال کافی زیادہ ہوتا ہے وہ ٹھنڈا ہو کر ٹھوس شکل اختیار کرلیتے ہیں اور اس کے نتیجے میں معدنیات کے ذرّات جنم لیتے ہیں. یہ ننھے ذرّات ان نئے بننے والے پتھریلے سیّاروں کی بنیاد ہوتے ہیں. وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ ایک دوسرے کے ساتھ چپکنا شروع کردیتے ہیں. ایک ذرّہ دوسرے ذرّے سے ٹکراتا ہے اور پھر ایک ساتھ جڑ جاتے ہیں. ان سے دوسرے ذرّات آکر ٹکراتے ہیں اور گرد کا ایک بڑا سالمہ بناتے ہیں اور اسی طرح کرتے کرتے وہ بڑے ہوتے جاتے ہیں. اس عمل کو تہہ جما نا (Accretion) کہتے ہیں. یہ بڑے ہوتے ہوتے چٹانی پتھر بناتے ہیں. پھر یہ چٹانیں ایک دوسرے سے ٹکرا کر بڑے بٹے(Boulder))بناتی ہیں . پھر وہ بٹے آپس میں مل کر اور بڑے بٹے بناتے ہیں(ملاحظہ کیجئے تصویر نمبر ٥).آخرکار اس کا حجم اتنا زیادہ ہوجاتا ہے کہ اس کی قوّت ثقل مادّہ کو کھینچنا شروع کردیتی ہے.اب وہ ایک دوسرے سے ٹکرا کر بڑے ہونے کے بجائے مادّے کو کھینچنا شروع کردیتے ہیں.


ہمارے اپنے نظام شمسی میں پہلے پہل کافی نوزائیدہ سیّارےموجود تھے جن کی تعداد کا تخمینہ کوئی سو کے قریب لگایا گیا ہے.ان میں سے زیادہ تر اپنا وجود برقرار نہیں رکھ پائے. ہم اگر سیارچوں کی پٹی میں ویسٹا ٤ کو دیکھیں گے(ملاحظہ کیجئےتصویر نمبر ٦) تو ہم کو اندازہ ہوگا کہ چٹانی سیّارےکو کتنا بڑا ہونا چاہے کہ وہ اس قابل ہو کہ مادّے کو اپنی طرف کھینچ سکے اورکرۂ کی شکل حاصل ہوسکے . ویسٹا ٤ صرف ٣٢٩ میل پر محیط ہے اور حجم میں اتنے چھوٹے ہونے کی وجہہ سے ہی وہ کرۂ کی شکل حاصل نہیں کر سکا.ایک بڑھتے ہوئے سیّارےکو ٥٠٠ میل پر پھیلا ہوا ہونے چاہے. تب کہیں جا کر اس کی ثقلی قوّت اس قابل ہوگی کہ اس کوکرۂ کی شکل میں ڈھال سکے. اس سے تھوڑا سا بھی چھوٹا ہوا تو اس کی شکل کرۂ کے علاوہ ہی ہوگی.


نوزائیدہ سیّارےمادّے کو ہضم کرتے رہے . ہر ٹکراؤ ان کو گرم سے گرم تر کرتا رہا(ملاحظہ کیجئے تصویر نمبر ٧). یہاں تک کہ وہ پگھلنا شروع ہوگئے. اب قوّت ثقل کا کام پھر شروع ہوگیا.اس نے بھاری چیزوں کو ہلکی چیزوں سےعلیحده کرنا شروع کردیا.ہلکے عناصر قشری سطح پر تیرنے لگےاور بھاری عناصر جن میں سے اکثریت دھاتی عناصر کی تھی وہ نیچے جمع ہونے شروع ہوگئے اور انہوں نے سیّاروں کی کثیف قلب ان کے مرکز میں بنانی شروع کردی جیسے کہ وہ آج ہمیں دکھائی دیتے ہیں. اب ان سیّاروں کو ایک ہنگامہ خیزوقت سے بھی گزرنا تھا ایک ایسا بے رحمانہ دور جو اس بات کا تعین کرتا کہ کون سا سیّارہ باقی رہے گا اور کونسا فنا ہوجائے گا. جنم لینے والا کوئی بھی ستارا اپنی ابتدائی شکل میں موجود نہیں تھا . وہ بہت زیادہ بدل چکے تھے. انہوں نے صرف اور صرف قوانین قدرت کے آگے سر جھکا دیئے تھے. ٤.٥ ارب سال پہلے ہمارے سورج کے گرد سو کے قریب ستارے گردش میں تھے.مگر پھر وہ ایک دوسرے سے ٹکرانے لگے.سیّاروں کی ابتدائی زندگی نہایت ہی تباہی و بربادی سے بھری تھی اور اسی ہنگامہ خیزی نے ان کا مقدر مقررکرنا تھے. سیّاروں کے ٹکراؤ کے بڑھنے کا ساتھ ساتھ کچھ سیّارےدوسروں کا مال ہضم کر کے خود کو پروان چڑھا تے رہے اور جس سیّارےکا جتنا حجم بڑھتا گیا وہ اتنا ہی زیادہ دوسروں کا مال ہضم کرتا گیا.سیّاروں کی سطح پر خلاء میں سے گرد و غبار کی بارش ہوتی رہی.

جاری ہے ۔۔۔۔۔
 

زہیر عبّاس

محفلین
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کرۂ ارض اور اس کے پڑوسی سیّارے - حصّہ دوم
How The Universe Works - Season 1, Episode 6

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جب کافی عرصہ گزرجانے کے بعد یہ ہنگامہ رکا تو سورج کے اندرونی مدار میں صرف چار چٹانی سیّارےہی باقی بچے تھے.یہ چاروں سیّارےآپس میں ایک دوسرے سے نہایت ہی مختلف تھے. ہر ایک کی اپنی کتھا تھی. مریخ ایک منجمد بنجر زمین کی طرح ابھرا. زمین کی سطح پر پانی مائع حالت میں بہنے لگا.زہرہ آتش فشانی جہنم بن گیا اور عطارد ایک ایک چھوٹا بے لطف اور نہایت گرم ترین جگہ بن گئی . عطارد کی یہ حالت ایک نہایت زبردست ٹکر کا نتیجہ ہی تھا.عطارد نہایت زیادہ کثیف اور بہت ہی باریک قشر رکھتا ہے.لہٰذا اس بات کا قوی امکان ہے کہ وہ اپنی موجودہ شکل سے کافی بڑا ہو مگر پھر اس سے کوئی چیز اس طرح اور اس زاویے سے ٹکرائی ہو کہ اس ٹکر نے اس کا ہلکا چھلکا اتار دیا ہو اور اس کا کثیف حصّہ ہی بچ پایا ہو.نوزائیدہ کرہ ارض نے بھی ایک بڑا ٹکراؤ جھیلا. اس کے پیدا ہونے اور موجودہ شکل میں آنے کے آخری وقتوں میں کوئی چیز زمین سے ایسے ٹکرائی کہ زمین کا کافی سارا حصّہ خلاء میں بکھر گیا(ملاحظہ کیجئے تصویر نمبر ٨) اور اس ملبے نے زمین کے مدار میں جمع ہونے شروع کردیا او ر جمع ہوتے ہوتے اس چیز نے ہمارے چندا ما ما کی شکل لے لی. اس بات کا بھی ثبوت ملا ہے کہ کسی چیز نے مریخ کو بھی ٹکر ماری ہے. مریخ کی شمالی کرۂ کی پرت اس کے جنوبی کرۂ کی پرت سے کافی ہلکی ہے. ایک خیال یہ ہے کہ سیّارہ مریخ کے ماضی میں کوئی چیز اس کی شمالی کرۂ کی طرف ٹکرائی جس نے اس کی کافی پرت اتار دی اور اس پرت نے مریخ کے جنوبی حصّے میں جمع ہونے شروع کردیا. ان تمام تصادموں نے دوکام کئے . ایک تو انہوں نے نوزائیدہ سیّاروں کی تعداد کو کم کیا . دوسرے انہوں نے باقی بچ جانے والے ستاروں کو نئے اجزاء سے نوازا. اگر تصادم کسی دھاتی چٹان سے ہوا تو اس ٹکراؤ کے نتیجے میں بچ جانے والی دھات سیّارےکے قلب میں چلی گئی.ٹکراؤ اگر کسی ہلکی یا برفانی چیز سے ہوا تو اس نے سطح پر تیرنا شروع کردیا اور اوپری پرت کا حصّہ بن گئی.سورج کے مدار میں چکر لگا نے والے چاروں سیّاروں کی کہانی تو مکمل ہوگئی. ان تمام سیّاروں کا قلب تو ٹھوس دھاتوں سے بن چکا تھا .جس کے گرد لوہے کی پگھلی ہوئی دھات بہہ رہی تھی.اس پگھلی ہوئی لوہے کی دھات کو پگھلی ہوئی چٹانوں نے اپنے حصار میں لے لیا تھا اور ان پگھلی ہوئی چٹانیں کے اوپر باہری یا اوپری پرت بن گئی تھی. ہر چٹانی سیّارہ ایک ہی طرح اور ایک ہی جیسے اجزاء سے بنا تھا. مگر اس کے باوجود اس میں سے ہر ایک نہایت ہی منفرد اور دوسرے سے مختلف تھا. ان کی جسامت اور مدار بھی الگ الگ تھے.


خلاء ہمیں کافی خالی خالی لگتی ہے مگر دراصل ایسا نہیں ہے.وہ سورج سے نکلے ہوئے ذرّوں سے بھری ہوئی ہے.سورج زبردست قسم کے مقناطیسی جھکڑMagnetic Field)) پیدا کرتا ہے جو اس کی سطح سے بلند ہو کر جناتی قسم کے حلقے ب(Giant Loops)ناتے ہیں.جب یہ آپس میں ٹکراتے ہیں تو اس سے شمسی طوفان (Solar Winds)اٹھتے ہیں جو نہایت ہی گرم اور باردار ذرّات خلاء میں دور دور تک پھیلا دیتے ہیں.یہ شمسی طوفان کہلاتے ہیں.خلاء میں خلاء نورد ان کو دیکھ سکتے ہیں. مگر اس وقت جب وہ اپنی آنکھیں بند کرلیں. جب وہ آنکھیں بند کرتے ہیں تو روشنی کے ہلکے جھماکے سے محسوس ہوتے ہیں. یہ توانائی کےذرّات ہوتے ہیں جو ہماری آنکھوں میں موجود مائع سے ٹکراتے ہیں تو ہمیں روشنی کے ہلکے جھماکے محسوس ہوتے ہیں اور یہ ہر تھوڑی دیر بعد آپ کو محسوس ہوتے رہتے ہیں. خلاء نورد اگر شمسی ہواؤں کا زیادہ سامنا کریں تو وہ ان کے لئے مہلک ثابت ہوسکتی ہیں . اپالو مشن میں چاند کا دو پروگراموں کے درمیان شمسی ہوا چاند سے ٹکرائی تھی اگر وہاں کوئی خلاء نورد ہوتا تو اس کی جان چلی جاتی.خلاء میں جانا کوئی بچوں کا کھیل نہیں ہے.


زمین پر یہ شمسی ہوائیں اس قدر نقصان دہ نہیں ہوتی ہیں .کیونکہ ہمیں ایک نادیدہ ڈھال نے ڈھانپے رکھا ہے جو کہ زمین کی قلب کا بنایا ہوا مقناطیسی میدان ہے. زمین کے عین مرکز میں میں ٹھوس دھاتی قلب ہے جو کہ سخت لوہے پر مشتمل ایک گیند سی ہے جو مستقل گھومتی رہتی ہے. جس کی وجہہ سے مقناطیسی میدان وجود میں آتے ہیں. بہرحال یہ ایک نظریہ ہی تھا. اس نظریے کو ثابت کرنے کے لئے سائنس دانوں کو اپنا سیّارہ ایک تجربہ گاہ میں بنانا پڑا.اس میں انہوں نے ١٠ فٹ کی ٢٦ ٹن کی دھاتی گیند کو زمین کے قلب کی نقل کے طور پر استعمال کیا.اس کے گرد مائع سوڈیم کو ٩٠ میل فی گھنٹہ کی رفتار سے گھمایا.تاکہ اس پگھلے ہوئے دھاتی مادّے کی نقل کی جاسکے جو زمین کے قلب میں چکر لگا رہا ہے.اس تجربہ کا مقصد صرف یہ جاننا تھا کہ آیا اس سے مقناطیسی میدان پیدا ہوتا ہے یا نہیں .تاکہ ہم یہ جان سکیں کہ زمین کے مقناطیسی میدان کیوں ہیں اور دوسرے سیّاروں کے کیوں نہیں ہیں. یہ بالکل ایسے کام کرتا ہے جیسے ہماری گاڑی میں موجودجنریٹر کام کرتا ہے. جنریٹر میں گھومتے ہوئے تاروں کے لچھے بجلی پیدا کرتے ہیں. اس تجربے میں مائع سوڈیم نے قلب کے گرد گھومتے ہوئے مقناطیسی میدان پیدا کردیئے . اس نے کافی حد تک برقی موٹر کی طرح کام کیا جس میں حرکی توانائی موٹر کی حرکت سے مقناطیسی توانائی میں تبدیل ہوتی ہے. بالکل یہی چیز زمین کے اندر ہوتی ہے . جیسے زمین گھومتی ہے تو اس کے ساتھ گرم مائع دھات اس ٹھوس قلب کے گرد گھومنا شروع کردیتی ہے.جس سے اس کی توانائی مقناطیسی توانائی میں تبدیل ہوجاتی ہے جو زمین کے قطبین سے نکل کر دور تک پھیل جاتی ہے.


یہ مقناطیسی میدان زمین کی فضا کو شمسی طوفانوں سے محفوظ رکھتی ہے. اگر سیّارےکے اپنا مقناطیسی میدان ہوں تو یہ شمسی طوفانوں کو ادھر ادھر بھگا دیتی ہیں. یہ مقناطیسی میدان سورج کے شمسی طوفانوں کو موڑ کرکرۂ ارض کی فضا اور اس میں موجود سانس لینے والی ہر شئے کو اس سے بچاتی ہیں.کبھی کبھی بڑے شمسی طوفانوں سے نکلنے والی اشعا ع مقناطیسی میدان سے الجھ پڑتی ہیں.جو ہمیں قطبین پر قطبی روشنیوں کی شکل میں نظر آتی ہیں. مقناطیسی میدان کے بغیر شمسی جھکڑ ہماری فضا کو لمحوں میں تباہ کردیں گے اور پانی کو بھی ختم کردیں گے.جس کے بعد زمین ایک مردہ سیّارےکی طرح بنجر ہوجائی گی. بالکل اسی طرح جیسے کہ مریخ.


سیّارہ مریخ بھی زمین ہی کی طرح پیدا ہوا تھا.مگر آج یہ ٹھنڈا ،خشک اور بے آب و گیا ہے.اس کی فضا نہ ہونے کے برابر ہی ہے.مریخ زمین سے اتنا مختلف کیوں ہے؟اس بات کا جواب حاصل کرنے کے لئے ٢٠٠٤؁ء میں ناسا نے دو کھوجی گاڑیاں مریخ کو جانچنے کے لئے روانہ کیں. ان کے نام سپرٹ (Spirit) اور اپر چونٹی(Opportunity) تھے.(ملاحظہ کیجئے تصویر نمبر٩)جنہوں نے مریخ کی سطح کا میلوں تجزیہ کیا .انہوں نے اس بات کی تصدیق کی کہ مریخ ایک مردہ اور زندگی پنپنے کے لئے ایک نامہرباں صحرا ہی کی طرح ہے. اس کی فضا زمین کی فضا کا صرف ایک فیصد ہی ہے.مگر اس نے اس بات کی بھی تصدیق کہ ہے کہ وہاں ماضی میں پانی کے پائے جانے کے ثبوت بھی ملے ہیں. مریخ ہمیشہ سے صحرا نہیں تھا .اس بات کے واضح ثبوت ملے ہیں کہ پانی کبھی اس کی سطح کے نیچے بہتا تھا .پھر وہ سطح پر بھی آیا مگر بخارات بن کر اڑگیا . وہاں کچھ جگہیں ایسی بھی ملی ہیں جن کے نشانات اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ وہاں پانی کبھی بہتا تھا. نہ صرف پانی اس کی سطح کے نیچے موجود تھا بلکہ وہ اوپر کی سطح پر بہتا بھی تھا اور اگر کبھی وہاں پانی موجود تھا تو غالب امکان یہ بھی ہے کہ وہاں فضا بھی موجود ہوگی. تو پھر آخر ایسا ہوا کیا کہ سب کچھ ختم ہوگیا.ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ مریخ میں کبھی زندہ آتش فشاں بھی موجود تھے.لہٰذا اس کا اندرونی حصّہ کبھی بہت ہی گرم رہا ہوگا اور کیونکہ اس کے اجزاء ترکیبی بھی وہی تھے جو زمین کے تھے لہٰذا اس کے قلب میں بھی ٹھوس دھاتی گیند بھی ہوگی . جس کے گرد مائع دھاتیں بھی موجود ہوں گی. لہٰذا اس کا مقناطیسی میدان بھی ضرور رہا ہوگا.


اہم سوال یہ ہے کہ وہاں اب مقناطیسی میدان کیوں موجود نہیں ہے. سیّاروں کی ابتدائی تاریخ میں مریخ کے اپنے زبردست مقناطیسی میدان موجود تھےاور وہ بھی اسی وجہ سے اور اسی طرح سے بنے تھے جیسے کہ زمین کے مقناطیسی میدان. مگر مریخ زمین سے چھوٹا سیّارہ ہے. جس کی وجہ سے اس کی حرارت جلد ہی ختم ہوگئی . اور اس وجہہ سے مائع دھاتیں ٹھوس حالت میں آگئیں. ایصال حرارت رک گئی.جیسے ہی ایصال حرارت رکی ویسے ہی مقناطیسی میدان غائب ہوگئے اور اس کے ساتھ ہی شمسی ہواؤں نے اس کی فضا کا تیا پانچہ کر دیا . پانی بخارات بن کر اڑ گیا.مریخ سرد اور بنجر سیّارہ بن گیا.

جاری ہے ۔۔۔۔۔
 

زہیر عبّاس

محفلین
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کرۂ ارض اور اس کے پڑوسی سیّارے - حصّہ سوم
How The Universe Works - Season 1, Episode 6

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مریخ،زمین،زہرہ اور عطارد سب کے سب چٹانی سیّارےسورج کے ١٥ کروڑ میل کے دائرے میں بننے. مگر اس سے چار گنا زیادہ دور سورج نے مختلف قسم کے سیّاروں کو گرمایا . وہ دیوقامت ہیں اور گیس سے بنی ہوئی عظیم گیندوں کی مانند ہیں . ان عفریتوں کی کوئی ٹھوس سطح موجود ہی نہیں ہے.ابھی تک خلاء نوردوں نے دوسرے نظام ہائے شمسی میں ١٨٥٠ کے قریب سیّارےدریافت کیئے ہیں. تقریبا" سب کے سب نہایت مہیب اور قوی ہیکل ہیں اور سب کے سب گیس سے بنے ہوئے ہیں. ہمارے نظام شمسی میں وہ چار نام نہاد قوی ہیکل گیسی جناتی سیّارے مشتری، زحل، یورینس اور نیپچون ہیں.ان سب کی فضا نہایت گاڑھی اور شوربے جیسی ہے . جس میں ہائیڈروجن، ہیلیم، او ر بہت ساری میتھین ہے.اب سوال یہاں یہ اٹھتا ہے کہ سورج کے بیرونی حصّہ میں گیسی سیّارےاور اندورنی حصّے میں چٹانی سیّارے کیوں بنے ہیں . کیا ان کے اس طرح کی ماہیت کا سبب کہیں ان کا محل وقوع تو نہیں تھا.


سورج سے ٥٠ کروڑ میل دور کافی ٹھنڈ ہے.نظام شمسی کی ابتداء میں کچھ گرد تھی مگر زیادہ تر گیس اور پانی ، برف کے دانوں میں منجمد تھے.جہاں یہ گیسی دیو بننے شروع ہوئے وہاں اتنی سردی تھی کہ برف ٹھوس شکل اختیار کر سکتی تھی. وہاں یہ جمع ہوکر دیوہیکل سیّاروں کی قلب میں ڈھل سکتی تھی اسی وجہ سے یہ دیوہیکل سیّارےاس قدر قوی الجثہ ہیں. وہاں اس قدر برف اور گیس جمع تھی کہ قلب بڑھتا گیا یہاں تک کہ اس کا حجم زمین سے تقریبا"١٠ گنا بڑھ گیا. اتنے بڑے مرکزوں نے زبردست قوّت ثقل پیدا کی. جس سے اس کی مادّے کو کھینچنے کی طاقت اس قدر بلند ہوگئی کہ اس نے آ س پاس کی ساری گیسوں کو کھینچنا شروع کردیا. گاڑھی فضا دسیوں ہزار میل گہری بن گئی. وہ سیّارےجتنے بڑے ہوتے گئے قوّت ثقل اتنی ہی بڑھتی گئی. سیّاروں کے گرد جمع ہوتے ہوئے گرد و گیس کے بادلوں نے ان سیّاروں کے چاندوں کے لئے خام مال کا کام کیا.


مشتری اور زحل ہر ایک کے ٦٠ سے زائد چاند ہیں.گیسی دیوہیکل سیّاروں کی ایک اور منفرد خصوصیت ان کے گرد موجود خوبصورت چھلے(Rings) ہیں.زحل ان تمام گیسی سیّاروں میں اس لئے منفرد ہے کہ اس کے چھلے سب سے زیادہ خوبصورت ہیں.مشتری،یورینس اور نیپچون کے چھلے اس قدر کمزور ہیں کہ ان کو ڈھونڈھ نکالنا ایک دقّت طلب کام ہے. مگر بہرحال وہ چھلے ان کے گرد بھی موجود ہیں. اگر زحل کے چھلے دور سے دیکھیں تو وہ ایک ٹھوس چپٹی ٹکیہ کی شکل کے لگتے ہیں مگر اصل میں وہ ہزاروں مختلف ٹکڑے ہیں ہر ٹکرا کچھ میل پر پھیلا ہوا ہے.


جب کسینی (Cassini) کھوجی زحل کے پاس سے گزراتو اس نے ارب ہا ارب برف کے ٹکڑے دیکھے جو ٥٠ ہزار میل فی گھنٹے کی رفتار سے ان چھلوں میں مدار کے گرد چکر کاٹ رہے تھے. یہ برف اور پتھروں کے ٹکڑے آپس میں مستقل ٹکرا رہے تھے. ان میں سے کچھ چھوٹے چاندوں کی شکل اختیار کر لیتے ہیں تو دوسرے مزید ریزہ ریزہ ہوجاتے ہیں. مگر کبھی وہ ایک بڑا چاند نہیں بنا سکتے کیونکہ زحل کی زبردست قوّت ان کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیتی ہے. سائنس دان ابھی اس بات کی تلاش میں ہیں کہ یہ چھلے شروع میں بنے کیسے تھے. ایک نظریہ یہ ہے کہ ایک دم دار ستارہ زحل کے ایک چاند سے اس زور سے ٹکرایا کہ اسے اس کے مدار سے دھکیل کر زحل کے قریب کردیا اور پھر زحل کی زبردست قوّت ثقل نے اس چاند کے ٹکڑے ٹکڑے کر دئیے اور اس چاند کا سارا ملبہ زحل کی قوّت ثقل کے زیر اثر وہاں پھنس گیا جہاں انہوں نے چھلوں کی شکل اختیار کرلی.


مگر اصل راز تو ان دیوقامت گیسی سیّاروں کے اندر دفن ہے. دسیوں ہزار میل ان کے بادلوں کے نیچے جہاں اصل کام ہورہا ہے. یہ اتنی خطرناک جگہ ہے کہ قانون فطرت کو کھلا چیلنج دیتی ہے.نئے دریافت ہونے والے سیّارےزیادہ تر گیسی دیو ہیں جو اپنے ستاروں کے گرد چکر کاٹ رہے ہیں. وہ اس قدر عظیم الجثہ ہیں کہ ان کے سامنے مشتری ایک بونا سیّارہ لگتا ہے. مگر سائنس دان اس جستجو میں ہیں کہ کسی طرح یہ معلوم ہوجائے کہ ان کے اندرون خانہ کیسا ماحول ہوتا ہے. مگر فی الحال ابھی یہ ان کے لئے راز ہی ہے. ہم جانتے ہیں کے سیّارہ مشتری کی فضا ٤٠ ہزار میل گہری ہے اور ہم اس کی سطح پر چلتے ہوئے زبردست قسم کے طوفانوں بھی کو دیکھتے ہیں جو وہاں موجود گیس جنم دیتی ہے.مگر ہم اس بات سے بے خبر ہیں کہ ان طوفانوں کے نیچے کیا عوامل کار فرما ہوتے ہیں. اس بات کو جاننے کے لئے ناسا نے ایک ١٤ سالہ مشن جس کا نام گلیلیو (Galileo) تھا مشتری کی جانب روانہ کیا(ملاحظہ کیجئے تصویر نمبر ١٠) . گلیلیو نے ایک کھوجی مشتری کی فضا میں چھوڑا جس کی رفتار ١٦٠ ہزار میل فی گھنٹہ تھی . مشتری کی گاڑھی فضا میں داخل ہوتے ہوئے پیراشوٹوں نے اس کی رفتار کو کم کیا. جب یہ وہاں سے گزر راہ تھا تو اس نے بجلی کو کڑکتے دیکھا . وہاں اس نے ٤٥٠ میل فی گھنٹہ کی رفتار سے طوفانی ہوائیں چلتے ہوئے دیکھیں . اس کھوجی نے اگلے ٥٨ منٹوں تک زمین پر سیّارےکی فضا سے مطلق مواد بھیجا.


ایک دلچسپ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب گیسی سیّاروں کی کوئی ٹھوس سطح نہیں ہوتی تو پھر اس گلیلیوکے کھوجی کا کیا ہوا جو مشتری کی فضا میں پھینکا گیا تھا. کیا وہ کسی چیز سے ٹکرایا ہوگا. اصل میں وہ کھوجی تو بس مشتری کی فضا میں گرتا ہی چلا گیا اور مشتری کی فضا کا دباؤ اس پر بڑھتا چلا گیا . جب وہ مشتری کی فضا میں داخل ہوا تھا تو اس پر زمین سے ٢٣ گنا زیادہ دباؤ تھا اور اس کا درجہ حرارت ٣٠٠ ڈگری تک جا پہنچا تھا. اس بات سے قطع نظر کہ گیسی دیو سیّارےکی ٹھوس سطح نہیں ہوتی ہے . مگر جب آپ اس کی فضا میں داخل ہوتے ہیں تو وہاں آپ بہت زیادہ وزن محسوس کرتے ہیں اور آخر کار آپ اس دباؤ کی وجہہ سے پچک جاتے ہیں.اگرچہ وہ کھوجی صرف ١٢٤ میل دور ہی گیا تھا مگر وہاں پہنچتے پہنچتے وہ کچلا گیا.اگرچہ اس کھوجی کے ذریعہ مشتری کے اندرون خانہ کی تانک جھانک ہوگئی مگر اس کا تاریک دل اب بھی سائنس دانوں کے لئے ایک معمہ ہی بنا ہوا ہے.


کچھ چٹانی سیّاروں کی طرح گیسی دیوہیکل سیّاروں کے بھی مقناطیسی میدان ہوتے ہیں. مگر ان کا مقابلہ کسی بھی طرح چٹانی سیّاروں سے نہیں کیا جاسکتا. مشتری کے مقناطیسی میدان کی طاقت زمین کے مقناطیسی میدان کے مقابلے میں ٢٠ ہزار گنا زیادہ ہے اور یہ اس قدر وسیع و عریض ہے کہ زحل تک جا پہنچتی ہے.مطلب اس کے دائرہ اثر ٤٠ کروڑ میل دور تک جا پہنچتا ہے. زمین ہی کی طرح اس کے مقناطیسی میدان اس کی فضا کی حفاظت کرتے ہوئے شمسی طوفانوں کا رخ موڑ دیتے ہیں. جب سائنس داں مشتری کے مقناطیسی میدانوں کا مطالعہ کررہے تھے تو انہوں نے یہ بات محسوس کی کہ اس کے مقناطیسی میدان اس کے مہتابوں پر اثر انداز ہورہے ہیں. آتش فشانی چاند جس کا نام آئی او (IO) ہے وہ مشتری سے ٢٧ ہزار میل کی دوری پر اس کا چکر کاٹ رہا ہے.آئی او کے آتش فشاں ہر لمحہ ایک ٹن گیس اور غبار فضا میں پھینک رہے ہوتے ہیں. مشتری کے مقناطیسی میدان اس کو زبردست بار دار کر دیتے ہیں جس سے اشعاع کی طاقتور پٹی بن جاتی ہے اور یہ ہی بات مشتری کے آ س پاس کے علاقے کو بہت زیادہ متحرک کرتی ہے. اگر ہم انٹینا کا رخ مشتری کی جانب کریں تو ہم کو مقناطیسی میدان اور سیّارےکے درمیان تمام رابطوں کو سن سکیں گے.


مریخ اور زحل کو قطبی روشنیوں کے لئے شمسی ہواؤں کی ضرورت نہیں ہوتی. ان کے مقناطیسی میدان اس قدر وسیع ہوتے ہیں کہ وہ اپنی قطبی روشنی خود ہی پیدا کر لیتے ہیں.چاندرا خلائی دوربین (Chandra X-Ray Observatory ) نے مشتری کے قطبین کی روشنیوں کی منظر کشی کی ہے. اسی طرح ناسا کے کھوجی کسینی نے زحل کے قطبین کی روشنیوں کی تصویر کشی کی ہے. یہ قطبی روشنیاں اس بات کا مظہر ہیں کہ ان گیسی سیّاروں کے اپنے مقناطیسی میدان ہیں . اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ گیسی سیّارےکس طرح سے اپنا مقناطیسی میدان پیدا کرتے ہیں. زمین پر تو ایک زبردست گرم مائع دھات ٹھوس لوہے کی گیند کے گرد گھوم کر یہ کام کرتی ہے. مگر کیونکر گیسی سیّارےبھی ایسے ہی مقناطیسی میدان پیدا کرتے ہیں. جب کہ ان کے قلب میں تو کھولتا ہوا لوہا نہیں موجود ہے. سائنس دانوں کو یہ سوال زچ کئے ہوئے تھا کہ آخر کار ان کے قلبوں میں یہ کام کس طرح انجام پذیر ہورہا ہے. ان گیسی سیّاروں کے قلب تو جمی ہوئی گیس اور برف سے بنے ہوئے ہیں. سائنس دان ابھی تک اس بات کو پوری طرح نہیں سمجھ سکے کہ مشتری کے قلب کی گہرائی میں اس کا اندرون کس چیز سے بنا ہوگا. یہ بات بھی ممکن ہے کہ مشتری کے قلب میں کوئی ٹھوس چیز موجود ہو . یا اس بات کا بھی امکان ہے کہ اس کے قلب میں کوئی دھات مائع حالت میں موجود ہو. شاید ہم یہ بات مستقبل بعید میں کبھی جان پائیں ابھی تو کوئی بھی کھوجی اس قابل نہیں ہے کہ وہ ٤٤ ہزار میل کی گہرائی میں جا کر اس کے قلب کو جانچ سکے. گلیلیو تو کچھ دور ہی جا کر تباہ ہوگیا تھا۔

جاری ہے ۔۔۔۔۔
 

زہیر عبّاس

محفلین
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کرۂ ارض اور اس کے پڑوسی سیّارے - حصّہ چہارم (آخری حصّہ)
How The Universe Works - Season 1, Episode 6

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

گیسی سیّاروں کے قلبوں پر تحقیق کرنے کے لئے سائنس دانوں نے مشتری کے قلب کو تجربہ گاہ میں بنانے کی کوشش کی ہے.لیور مور ، کیلی فورنیا میں واقع نیشنل اگنیشن فیسلٹی تجربہ گاہ (The National Ignition Facility) میں سائنس دان مشتری کے قلب کی نقل بنانے کی کوشش کر رہے ہیں. اس کام کے لئے وہ نہایت طاقتور لیزر مشینیں استعمال کر رہے ہیں. یہ مشینیں خاص طور پر اس لئے بنائی ہیں کہ ہائیڈروجن کو اس کی کثافت کی انتہائی بلندیوں پر لے جایا جائے. مشتری کے اندر ٤٠ ہزار میل پر پھیلی ہوئی ہائیڈروجن مشتری کے قلب کو زبردست دباؤ کے ساتھ کچل رہی ہے . تجربہ گاہ میں اس بات کو دہرانے کے لئے ١٩٢ لیزر کی کرنیں ایک چھوٹے سے ہائیڈروجن کے ٹکڑے پر ماری گئیں جس سے ہائیڈروجن کے اس ٹکڑے پر اتنا دباؤ بڑھ گیا کہ وہ زمینی دباؤ سے ١٠ لاکھ گنا زیادہ ہوگیا اس دباؤ پر ہائیڈروجن مائع حالت میں تبدیل ہو گئی مگر جب اس دباؤ کو زمینی دباؤ سے کروڑوں گنااتنا زیادہ کیا جتنا کہ مشتری کے قلب میں ہوگا تو تو ہائیڈروجن نے نہایت ہی عجیب سا برتاؤکیا. ہائیڈروجن نہایت ہی بنیادی عنصر ہے مگر اتنا زیادہ دباؤ ہائیڈروجن کی ہیت ہی بدل دیتا ہے. لہٰذا وہ2H کی سخت دھات میں ڈھل جاتی ہے. سائنس دانوں کے خیال میں مشتری کے قلب میں یہ ہی ہوتا ہے. دباؤ اور حرارت مشتری کے قلب میں موجود ہائیڈروجن کو دھاتی شکل دے دیتی ہے. مشتری کا یہ دھاتی قلب یا مرکزہ بالکل اسی طرح کام کرتا ہے جیسے زمین پر لوہے کا مرکزہ کام کرتا ہے اور اسی دھاتی ہائیڈروجن سے گیسی سیّارےزبردست مقناطیسی میدان پیدا کرتے ہیں.


قوّت ثقل اور حرارت دونوں سیّاروں کے ارتقاء میں اہم کردار ادا کرتے ہیں. یہ دونوں سیّاروں کے مرکز سے لے کر اس کی فضا بنانے تک کا تعین کرتے ہیں.یہ دونوں سیّاروں کو ان کی موجودہ شکل و صورت دیتے ہیں اور زبردست تخلیقی قوّت کے طور پر کام کرتے ہیں. مگر ابھی ایک نہایت اہم جز باقی ہے جو سیّاروں کو بالکل مختلف طرح سے بدل دیتا ہے اور وہ اہم جز ہے ہمارا جانا پہچانا پانی. سیّارے غیر متغیر اور پائیدار لگتے ہیں مگر ان کی ارتقاء پذیری کا عمل کبھی بھی نہیں رکتا. ہمارے اپنے نظام شمسی میں ایک سیّارےنے اپنی فضا کو کھو دیا اور ایک بنجر اور ناکارہ زمین میں تبدیل ہوگیا جبکہ ایک اور سیّارہ جہنم بن کر ابھرا. یہاں تک کہ سیّارہ زمین بھی تبدیل ہوگیا مگر یہاں یہ تبدیلی پانی کی وجہ سے آئی.جب ہم زمین کا جائزہ لیتے ہیں تو ہمیں ہر طرف پانی ہی پانی نظر آتا ہے. خلاء میں ہمارا سیّارہ نیلا نظر آتا ہے. اس قدر پانی کا مطلب تو یہ ہونا چاہئے کہ ہماری زمین پانی میں ڈوبی ہوئی ہے. کم از کم خلاء میں دور سے ایسا ہی لگتا ہے کہ ہماری زمین پانی میں ڈوبی ہوئی ہے اس کا تین چوتھائی حصّہ پانی میں ڈوبا ہوا ہے. مگر یہ بات درست نہیں ہے . زمین کی کمیت کے حساب سے پانی کا حصّہ صرف ٠.٦ فیصد ہے . اس میں وہ سارا پانی شامل ہے جو سمندر کی شکل میں ہو یا زیر زمین میں موجود ہو.حقیقت میں تو زمین بہت ہی سوکھی ہوئی ہے.


اندرونی چٹانی سیّارےسورج کے قریب پیدا ہوئے لہٰذا وہ جلد ہی سوکھنے لگے. ان میں موجود پانی یا تو بخارات بن گیا یا پھر ٹکراؤ کے نتیجے میں ادھر ادھر خلاء میں پھیل گیا . یہ تصادم اس قدر خوفناک تھے کہ پانی بخارات کی شکل میں زمین سے ضرور اڑ گیا ہوگا. اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ زمین پر جو ہم پانی دیکھتے ہیں وہ کہاں سے آیا. جب ہم مزید دور دیکھتے ہیں تو ہمیں مشتری ، زحل، یورینس اور نیپچون نظر آتے ہیں جہاں پانی کی کثیر اور عظیم الشان مقدار ان کے اندر دفن دکھائی دیتی ہے. زیادہ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان کے چاندوں میں بھی کافی مقدار میں پانی موجود ہےان چاروں گیسی سیّاروں کے تمام چاند کم از کم ٥٠ فیصد پانی سے بنے ہیں. مگر یہ سوال اب بھی اپنی جگہ بدرجہ اتم موجود ہے کہ آخر زمین پر پانی کہاں سے آیا. اس کا جواب ہم سے بہت دور ہمارے نظام شمسی میں سیارچوں اور شہابیوں میں دفن ہے جنہوں نے پانی کی کافی بڑی مقدار اب بھی بچا کر رکھی ہوئی ہے. پانی سے بھرپور ان لاکھوں سیارچوں اور شہابیوں میں سےاکثر سیارچے اور شہابیے سورج کے اندرنی حصّے کی طرف نکلتے رہتے ہیں. ماضی میں ان میں سے کچھ زمین سے ٹکرا گئےہوں گے . زمین نے یہ سارا پانی ان سیارچوں اور شہابیوں سے ہی حاصل کیا . یہ وہی پانی ہے جس نے زمین کو اپنے گھیرے میں لیا ہوا ہے. مگر دلچسپ بات جو سائنس دانوں کو تنگ کرتی ہے وہ یہ ہے کہ پانی کی اتنی ہی مقدار کیوں سیارچوں اور شہابیوں نے زمین کو عطا کی جتنی کہ زمین کو زندگی کو پروان چڑھانے کی ضرورت تھی. کیا یہ زمین کی خوش قسمتی تھی ؟ اگر پانی کے تناسب میں ذرّہ برابر بھی اونچ نیچ ہوجاتی تو کیا ہوتا. اگر پانی اپنی موجودہ مقدار سے ٥٠ فیصد بھی کم ہوتا تو سطح زمین تقریبا"خشک ہی ہوتی اور اگر تھوڑا بہت پانی سطح سے اوپر رہ بھی جاتا تو وہ بھی زمین چوس لیتی . سطح کے اوپر پانی نہ ہونے کا مطلب بنجر اور ویران زمین ہی ہے.دوسری طرف اگر پانی بہت زیادہ ہوتا تو سطح زمین پوری پانی سے ڈھک جاتی یہاں تک کہ ماؤنٹ ایورسٹ کی چوٹی بھی پانی میں ڈوب جاتی.


اگر پانی اپنی موجودہ مقدار سے دگنا ہوتا تو کیا سیّارہ زمین جدیدزندگی کے لئے موزوں ماحول فراہم کرسکتی تھی. ظاہر سی بات ہی کہ جدید طرز زندگی گزارنے کے لئے خشک زمین کی ضرورت ہوتی ہے .پانی کی بالکل صحیح اور نپی تلی مقدار نے ہماری جیسی نوع انسانی کو زندہ رہنے اور پھلنے پھولنےکا موقع دیا. آج سے لگ بھگ ٤ ارب سال پہلے ان سیارچوں اور شہابیوں نے اس دنیا کو جس کو میں اور آپ جانتے ہیں بالکل صحیح اور مناسب مقدار میں پانی فراہم کیا. یہ بھی ممکن ہے کہ کائنات کی کسی اور جگہ یہ ہی سب کچھ دہرایا جارہا ہو.ایک بات تو ثابت ہے کہ کائنات میں پانی کی کہیں کوئی قلّت نہیں ہے. ہائیڈروجن کائنات میں سب سے زیادہ پایا جانے والا سب سے عنصر ہے اور آکسیجن بھی کافی مقدار میں کائنات میں موجود ہے لہٰذا غالب امکان یہ ہے کہ پانی کا سالمہ کائنات کا پسندیدہ ترین سالمہ ہوگا. H2O کا سالمہ کائنات میں بننا کوئی بڑی بات نہیں ہوگی اور درحقیقت یہ سالمہ ہماری کائنات میں وافر مقدار میں پایا جاتا ہے. پانی کائنات میں ہر جگہ دستیاب ہے اور اب ہم نے نظام شمسی کے باہر بھی سیّارےدریافت کرنا شروع کر دیئے ہیں .


بہرحال زمین جیسا سیّارہ جو کسی دوسرے نظام شمسی میں موجود ہو ااور اپنے ستارے کی گرد مدار میں چکر کاٹ رہا ہو جس کی کمیت اور کیمیائی حالت زمین کے جیسی ہو ابھی دریافت کرنا باقی ہے. انسانیت کے لئے کسی ایسے سیّارےکی کھوج جو ہم سے مماثلت رکھتا ہو اور ہم جس کو دوسرا گھر کہہ سکیں ابھی بہت دور ہے . مگر ہم اب بھی تلاش جاری رکھے ہوئے ہیں. ہم جانتے ہیں کہ ہماری کہکشاں میں موجود ٢ کھرب ستاروں میں لگ بھگ ٤٠ ارب ستاروں کے گرد سیّارےچکر لگا رہے ہیں . ہم اب بھی امید کرتے ہیں کہ جب ہم اس سیّاروں کو دریافت کرلیں گے تو وہ ہمیں اپنے سیّارےکے ارتقاء کو سمجھنے میں کافی مدد دیں گے. ان دور دراز نظام ہائے شمسی کے گرد چکر لگاتے ہوئے سیّاروں سے ہم اپنے نظام شمسی کے سیّاروں کی ارتقاء کے عمل کو جان سکیں گے.


ہم سیّاروں کے سنہرے دور میں داخل ہوئے چاہتے ہیں . کائنات میں موجود متنوع فیہ قسم کے سیّاروں کو سمجھنے کی یہ توبس شروعات ہے. سیّارےتو بس کیمیا اور طبیعیات کے قوانین پر پیرا عمل ہوتے ہیں. باقی ان کا مقدر اور قسمت ہوتی ہے جو یہ فیصلہ کرتی ہے کہ وہ کیسے بنیں اور کیسے نظر آئیں . سائنس دان پر امید ہیں کہ بس اب کچھ عرصہ کی ہی بات ہے جب وہ زمین کے جیسا کوئی سیّارہ تلاش کرلیں گے جس کے کیمیائی عناصر بالکل زمین ہی کی طرح ہوں گے اور اس کا فاصلہ اپنے ستارے سے بالکل مناسب مقام پر ہوگا اور جس کے پاس موزوں مقدار میں پانی کی بھی فراوانی ہوگی. ایک بات تو ثابت ہے کہ کائنات میں ارب ہا ارب سیّارےاپنی دریافت کے منتظر ہیں.

تمام شد۔۔۔۔۔
 

زہیر عبّاس

محفلین
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نظام شمسی اور پردیسی نظام ہائے شمسی - حصّہ اوّل
How The Universe Works - Season 1, Episode 7

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہمارے نظام شمسی(Solar System) میں کل ملا کر آٹھ سیّارے اور تین سو کے لگ بھگ چاند ہیں١. ہمارے نظام شمسی میں موجود ہر چیز سورج کے گرد انتہائی منظّم طریقے سے اس کے مدار میں چکر کاٹ رہی ہے(ملاحظہ کیجئے تصویر نمبر ١). مگر اپنی پیدائش کے دور میں یہ سب کچھ اتنا منظّم اور ترتیب میں نہیں تھا.ہمارے نظام شمسی کی تاریخ ہنگامہ خیزی اور تباہی سے پھرپور تھی. اس ہنگامہ خیز دور سے صحیح سلامت اور بچ کر نکل جانے والے سیّارے اور چاند آج نہایت منظّم اور ترتیب میں نظر آتے ہیں. مگر تیار رہئے مستقبل میں بھی ہمارے نظام شمسی کا واسطہ تباہی اور ہلاکت خیزی سے پڑ سکتا ہے. ہمارا نظام شمسی شیشے کے محل سے بھی زیادہ نازک ہے.


ہمارا سورج ملکی وے کے ارب ہا ستاروں میں سے ایک ہے.سورج کے گرد سیّارے اور چاند چکر لگا رہے ہیں.یہ سب مل کر ہمارے نظام شمسی کو تشکیل دیتے ہیں.ہمارا نظام شمسی یقینا"ایک قیمتی اور نایاب نظام ہےاور یہیں سے یہ سوال اٹھتا ہے کہ کیا دوسرے ستاروں کے بھی اس طرح کے سیّارے ہوتے ہیں جو ان کا نظام ہائے سیّارگان ترتیب دیتے ہیں. اس بات کی تلاش کے لئے سائنس دان آسمان کی خاک چھان رہے ہیں . موانا کی(Mauna Kea) ، امریکی ریاست ہوائی (Hawaii)میں واقع ہے جہاں دنیا کی ایک بہت بڑی دوربین نسب ہے جس کا نام" کیک (Keck)"ہے . اس دوربین کا کام نئے نظام ہائے شمسی کی آسمان میں کھوج کرنا ہے.


حقیقت تو یہ ہے کہ ہمارا نظام شمسی اپنے آٹھ سیّاروں کے ساتھ ملکی وے کہکشاں میں اکیلا نہیں ہے.اس جیسے ارب ہا نظام ہائے شمسی کائنات میں موجود ہیں. خلاء نوردوں کو امید ہے کہ جلد ہی وہ ایک ایسا نظام شمسی تلاش کرلیں گے جس میں زمین کے جیسا کوئی سیّارہ موجود ہوگا. بہرحال ان کی ابھی کی شروعات تو کافی اچھی ہیں. اب تک سائنس دان ٣٦٠ ستاروں کی کھوج کر چکے ہیں جن کے گرد سیّارے چکر کاٹ رہے ہیں(ملاحظہ کیجئے تصویر نمبر ٢). سب سے اچھی خبر یہ کہ ستاروں کے گرد صرف ایک سیّارہ نہیں مدار میں چکر لگا رہا بلکہ ہر ستارے میں عام طور پر دو،تین،چار یا پھر اس سے زیادہ سیّارے چکر کاٹ رہے ہیں.سیّارے خاندانوں کی شکل میں ہوتے ہیں. پہلی دفعہ سائنس دان ان کا مطالعہ اس قدر تفصیل کے ساتھ کررہے ہیں . وہ اس بات کا مشاہدہ کررہے ہیں کہ کس طرح سے سیّارے گرم ہوکر ستاروں کے گرد چکر کاٹ رہے ہیں . انہوں نے ایک سیّارے کو دیکھا جو اپنے ستارے کے گرد چکر لگاتے ہوئے انتہائی گرم اور انتہائی ٹھنڈا ہوتا رہتا ہے.بعد میں یہ عقدہ کھلا کہ سیّارے کےدرجہ حرارت کا فرق اس کا دن اور رات والے حصّوں کا مشاہدہ کرنے کی وجہہ سے تھا. سائنس دان طلوع آفتاب اور غروب آفتاب ایک دوسرے نظام میں مشاہدہ کررہے ہیں . مگر انھیں ابھی تک زمین کے جیسا سیّارہ نہیں ملا .بلکہ زیادہ تر سیّارے ہمارے نظام شمسی کے سیّاروں سے بھی مختلف ہی ہیں. وہ سیّارے نہایت ہی عظیم الجثہ ہیں اتنے بڑے ہیں کہ مشتری بھی ان کے آگے بونا (Dwarf)لگتا ہے. ان میں سے اکثر کے مدار بہت ہی خطرناک ہیں . کچھ سیّارے اپنے ستارے سے انتہائی دور چکر کاٹتے ہوئے اس کے انتہائی نزدیک آجاتے ہیں تو کچھ سیّارے اپنے ستاروں سے اتنے قریب ہیں کہ ان کی سطح بخارات بن کر اڑ جاتی ہے تو کچھ سیّارے الٹی سمت میں گھوم رہے ہیں. یہ یقینا"خوفناک نہیں ہے تو نہایت عجیب توضرور ہے.


سیّاروں کے نظام مختلف قسم کی ساخت ، جسامت،کمیت وغیرہ کے ہیں.ہمارا نظام شمسی ان اقسام میں سے ایک قسم ہے. یہ بھی ممکن ہے کہ ہر نظام شمسی ایک منفرد قسم کا ہو. مگر ان سب میں ایک بات تو مشترک ہوتی ہے کہ یہ سب اپنے ستارے کے پیدا ہونے کے ساتھ ہی بننا شروع کرتے ہیں. سب سے پہلے تو ستارہ گیس اور گرد کے غبار جس کو سحابیہ کہتے ہیں وہاں پیدا ہوتے ہیں. جیسے کہ عقابی سحابیہ (Eagle Nebula)جس کو تخلیق کے ستون بھی کہا جاتا ہے(ملاحظہ کیجئے تصویر نمبر ٣) .ایک اور سحابیہ جس کا نام گھوڑے کا سر (Horsehead)ہے یہ بھی ستاروں کابچہ خانہ ہے(ملاحظہ کیجئے تصویر نمبر ٤). سائنس دان اس بات کی تلاش میں ہیں کہ وہ کیا چیز ہے جو ان گیسی سحابیہوں کو اس بات پر مجبور کرتی ہے کہ وہ ستارے کی پیدائش کی ابتداء کریں. ایک نظریہ یہ ہے کہ قریبی سپرنووا کے پھٹنے سے ستاروں کے پیدا ہونے کا عمل شروع ہوتا ہے . دوسرا نظریہ یہ ہے کہ گیسی گرد و غبار کے بادل ایک دوسرے سے ٹکرا کر دبتے ہوئے اتنا دبیں کہ قوّت ثقل اتنی مظبوط ہوجائے کہ وہ ان پر حاوی ہوجائے. ایک دفعہ جب قوّت ثقل کا غلبہ ہوجائے تو وہ بادلوں کو سکیڑ تی ہے اور مزید بادلوں کو کھینچتی ہے. جس سے ایک گھومتی ہوئی ایک عظیم الجثہ ٹکیہ سی بن جاتی ہے. اس ٹکیہ کے مرکز میں قوّت ثقل ہر چیز کو دباتی رہتی ہے اور اس کی کثافت بڑھتی جاتی ہے اور ساتھ ساتھ حرارت بھی بڑھتی جاتی ہے اور اس کا مرکز ایک گرم گیند کی مانند ہوجاتا ہے.پھر درجہ حرارت اس قدر بلند ہوجاتا ہے کہ گیس میں موجود جوہر گداخت کا عمل شروع کردیتے ہیں اور ستارا روشن ہوجاتا ہے(ملاحظہ کیجئےنمبر ٥). باقی مانندہ گیس اور گرد و غبار کے بادل ستارے کے گرد گھومتے رہتے ہیں جن میں سے سیّارے، چاند سیّارچے اور شہابیے بنتے ہیں.


٢٠٠١؁ء میں ہبل دوربین نے اورا ئن سحابیہ میں ایک نوزائیدہ ستارے کی تصویر کشی کی ہے. جس میں اس کے گرد گھومتی ہوئی ایک ٹکیہ تھی. یہ کسی دوسرے نظام شمسی کے پیدا ہونے ہی کی ابتداء تھی. یہ تصویر ہمیں ہمارے نظام شمسی کی پیدائش یاد دلاتی ہے. کبھی ہمارا نظام شمسی بھی ایسا ہی ہوا کرتا تھا. اس دھندھلی سی تصویر نے اس بات کے دریچے کھول دیے ہیں کہ کس طرح سے نظام ہائے شمسی تشکیل پاتے ہیں. اس تصویر نے ہمیں یہ موقع فراہم کیا ہے کہ ہم وہاں کی تصاویر لے کر یہ جانچ کر سکیں کہ کس طرح سے سیّارے وجود میں آتے ہیں. یقینا"ہمیں ان تصاویر سے یہ جاننے کا موقع ملے گا کہ خود ہمارا نظام شمسی کس طرح سے وجود میں آیا. سائنس دانوں کو یہ بات تو معلوم تھی کہ ستارے کس طرح پیدا ہوتے ہیں مگر وہ اس بات کی تلاش میں تھے کہ سیّارے کیسے بنتے ہیں. اس کا جواب انہوں نے حادثاتی طور پر دریافت کر لیا . انٹرنیشنل سپیس سٹیشن (International Space Station)میں خلاء نوردڈان پٹیٹ (Don Pettit)اس بات کا تجربہ کررہے تھے کہ قوّت ثقل کے بغیر چینی اور نمک کے ذرّات کیسا برتاؤ کرتے ہیں. دوسرے خلاء نورد اسٹینلے لو(Stanley Love) ان کو زمینی مشن کنٹرول سینٹر سے دیکھ رہے تھے جب انہوں نے اتفاقی طور پر یہ بات دریافت کرلی تھی. ڈان پٹیٹ نے ایک خالی بیگ میں چینی اور نمک کو ڈالا اور پھلا دیا . جبکہ دوسرے بیگ میں کافی کو ڈالا. انہوں نے دیکھا کہ چینی اورنمک کے ذرّات نے ایک دوسرے سے جڑنا شروع کردیا. وہ سمجھ گئے کہ انہوں نے ٤٠ سالہ پرانا سیّاروں کی تشکیل کے متعلق سوال کا جواب حاصل کرلیا تھا.


خلاء نورد پٹیٹ کی یہ دریافت کافی بڑی تھی. قوّت ثقل کے بغیر ذرّات ایک دوسرے سے الگ نہیں رہتے بلکہ آپس میں جڑنا چاہتے ہیں. بڑے سیّاروں نے بھی ایسا ہی کیا ہوگا . گرد کے ذرّات ایک دوسرے سے ٹکرا کر آپس میں جڑ گئے ہوں گے اور بڑھتے بڑھتے چٹانوں کی شکل اختیار کی ہوگی . جتنا بڑا چٹانی ٹکرا ہوگا اس کی اتنی ہی زیادہ قوّت ثقل ہوگی. پھر اس نے اپنے آ س پاس موجود چیزوں کو ہضم کرنا شروع کیا ہوگا اور بڑے اور بھاری چٹانی پتھر کی شکل اختیار کر لی ہوگی. آخرکار ان میں سے کچھ چٹانوں نے سیّاروں کی شکل حاصل کرلی ہوگی . ہمارے نظام شمسی میں آج سے ٤.٦ ارب سال پہلے یہ ہی ہوا ہوگا . ہم اپنے مضمون "کرۂ ارض اور اس کے پڑوسی سیارے " میں اس بات پر تفصیل سے روشنی ڈال چکے ہیں کہ کس طرح شروع میں پیدا ہوئے ١٠٠ کے قریب سیّارے آج کے نظر آنے والے ٨ سیاروں، ان کے چاندوں، سیّارچوں اور شہابیوں میں ڈھلے. لہٰذا اس کی تفصیل میں دوبارہ نہیں جائیں گے.


سائنس دان اتنا جانتے ہیں کہ سورج کے بیرونی مدار میں موجود یورینس کسی چیز سے ایک طرف سے ٹکرایا. یہ بات کافی عرصہ تک معمہ ہی بنا رہا کیونکہ بیرونی مدار میں موجود سیّارے گیس پر مشتمل ہیں اور یہ اس شروع کی ہنگامہ خیزی، جب سیّارے ایک دوسرے سے ٹکرا رہے تھے، سے بھی کافی حد تک بچے ہوئےاور دور تھے.گیس ان کے گرد جمع ہورہی تھی اور یہ سب فلکیاتی وقت کے مطابق نہایت تیزی سے ہورہا تھا. صرف دس لاکھ سال میں یہ سب کچھ نمٹ گیا تھا اور انہوں نے ان عظیم الجثہ سیّاروں کی شکل لے لی تھی جن کو ہم آج دیکھتے ہیں. دو گیسی دیو سیّارے مشتری اور زحل کے بعد یورینس اور نیپچون ہیں. یہ دونوں گیس اور برف سے بنے ہوئے ہیں. ان کےبعد کائپر کی پٹی(Kuiper Belt) ہے جس میں برفیلی چٹانیں اور بونے سیّارے تیر رہے ہیں. پہلے ہم کائپرکی پٹی میں موجود ایک جسم کو سیّارہ پلوٹو کہتے ہیں(ملاحظہ کیجئے تصویر نمبر ٦). مگر پھر ہم نے اس کو بونے سیّارہ کا درجہ دے دیا . اب یہ ان بونوں سیّاروں میں سے ایک ہے جو سورج سے ٣ ارب میل کے فاصلے پر چکر کاٹ رہے ہیں . اس جیسی لاکھوں چیزیں وہاں موجود ہیں . یہ اتنے دور اور اتنے دھندهلے ہیں کہ ان کو تلاش کرنا نہایت مشکل کام ہے . یہ نظام شمسی کے باقی ماندہ حصّے ہیں جو اس کی تشکیل کے بعد بچ گئے تھے. کائپر کی پٹی بھی سورج کی سلطنت کا ایک کونا ہے . وہاں نہ زیادہ گرمی ہے نہ زیادہ روشنی ہے . مگر کائپر کی پٹی بھی سورج کی آخری سرحد نہیں ہے. ایک خول جو دسیوں کھرب برفیلی چیزوں پر مشتمل ہے اس کا نام اورٹ کے بادل (Oort Cloud)ہے(ملاحظہ کیجئے تصویر نمبر ٧) وہ اس سے بھی زیادہ ددور ہے.اورٹ کا بادل سورج سے اتنا دور ہے کہ سورج کی روشنی کو وہاں تک پہنچنے میں پورا ایک سال لگ جاتا ہے.

جاری ہے۔۔۔۔۔
 

زہیر عبّاس

محفلین
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نظام شمسی اور پردیسی نظام ہائے شمسی - حصّہ دوم
How The Universe Works - Season 1, Episode 7

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

گرم ترین حصّے سے لے کر سرد ترین حصّے تک ہمارا نظام شمسی نہایت منظّم اور اعلیٰ اور ارفع تنظیم کا شہکار نظر آتا ہے . ہر چیز اپنی جگہ پر بالکل صحیح اور درست رکھی ہوئی نظر آتی ہے مگر کچھ تو گڑ بڑ ہے . یورینس اور نیپچون اپنی صحیح جگہ پر نہیں ہیں وہ اپنی جگہ سے کچھ ہٹے ہوئے لگتے ہیں. سورج سے اس قدر دور ان کو بنانے کا خام مال دستیاب نہیں تھا . تو پھرسوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخرکار وہ وہاں کیسے پہنچے .سائنس دانوں کے خیال میں یورینس اور نیپچون کی پیدائش سورج سے قریب ہی ہوئی تھی.مگر پھر کسی چیز نے انہیں دھکیل کر دور کردیا.سوال یہ بھی اپنی جگہ موجود ہے کہ اتنے بڑے سیاروں کو کس نے اٹھا کرکس نے اتنی دور پھینک دیا. سائنس دانوں کو یقین ہے کہ ان کو دور دھکیلنے کا سبب کوئی اور نہیں بلکہ مشتری اور زحل ہی ہیں.پہلے پہل مشتری سورج کے گرد جتنے عرصے میں دو چکر مکمل کرتا تھا اتنے ہی عرصے میں زحل سورج کے گردایک چکر پورے کرلیتا تھا اور یہ ہی بات ان دونوں سیّاروں کو دھکیلنے کا سبب بنی . مشتری اور زحل جیسے ہی ایک دوسرے کے پاس پہنچتے ویسے ہی ایک دوسرے کو دھکیلتے اور ایک دوسرے سے خود کو پرے کرتے تھے. اسی دھکم پیل میں انہوں نے پورا نظام درہم برہم کردیا . مشتری اور زحل دونوں کی قوّت نے یورینس اور نیپچون کو کھینچ کر سورج سے پرے دھکیل دیا. جب یہ سیّارے سورج کے بیرونی مدار میں گئے تو وہاں موجود سیّارچوں اور باقی بچے ہوئے گرد و غبار کو انہوں نے اربوں چٹانی ٹکڑوں کی صورت میں خلاء میں پھیلا دیا. کچھ چٹانوں نے مل کر سیّارچوں کی پٹی تشکیل دی مگر زیادہ تر کائپر کی پٹی کے علاقے میں دھکیل دیئے گئے جہاں انہوں نے کائپر کی پٹی کو بنایا.


مشتری اور زحل کی ثقلی طاقت اس قدر زوردار تھی کہ انہوں نے ان دونوں سیّاروں کے مدار کو ایک دوسرے کے مدار سے بدل دیا. ایسا لگتا ہے کہ یورینس اور نیپچون اپنی موجودہ پوزیشن کے مقابلے میں پیدا ہوتے ہوئے دوسری پوزیشن پر تھے.نیپچون سورج سے یورینس کے مقابلے میں زیادہ قریب تھا. مگر مشتری اور زحل کی ثقلی قوّتوں کی کارستانیوں کی وجہہ سے انہوں نے اپنی پوزیشن ایک دوسرے سے بدل لیں تھیں. یہ تو وہ چٹانی ٹکڑے تھے جنہوں نے یورینس اور نیپچون کو مزید آگے جانے سے روکا اور آج وہ اپنے انہی مداروں میں ٹکے ہوئے ہیں. سیّارے کے مداروں کی تبدیلی کچھ عجیب سی بات لگتی ہے. مگر سائنس دانوں نے اسی چیز کو دوسرے ستاروں کے سیّاروں میں دیکھا ہے اور اسی چیز نے ان کو اس بات کو سمجھنے میں مدد دی ہے کہ نظام شمسی کس طرح سے کام کرتا ہے. سائنس دان جب آسمان میں دوسرے ستاروں کو دیکھتے ہیں تو ان کو اس قسم کی وافر شہادتیں دیکھنے کو ملتی ہیں.کائنات میں ہر جگہ ایسا ہی ہورہا ہے.


ہم سے کافی دور سائنس دانوں نے ایک منفرد نظام شمسی دیکھا ہے.انھوں نے ایک سیّارہ مشتری کے جتنا تلاش کرلیا ہے مگر وہ مشتری جیسا نہیں ہے. اس قسم کے سیّارے اپنے ستارے کے قریب مدار میں چکر لگانے کے بہت شوقین ہوتے ہیں اور ان کا ستارے کے مدار میں چکر چند دن ہی میں مکمل ہوجاتا ہے. ظاہر سی بات ہی کہ ستارے کے اس قدر نزدیک مدار میں چکر کی وجہہ سے ان کا درجہ حرارت ایک ہزار سے دو ہزار ڈگری تک جا پہنچتا ہے. ابھی تک تو کوئی ایسا گیسی دیو ستارے کے اتنے نزدیک بنتے نہیں دیکھا وہاں بہت زیادہ گرمی ہوتی ہے. صرف ایک ہی بات سمجھ میں آتی ہے کہ گیسی دیوہیکل سیّارے سورج کے پاس پیدا تو ہوتے ہیں مگر پھر باہر دھکیل دیے جاتے ہیں. بالکل یہ ہی چیز شاید ہمارے نظام شمسی میں بھی ہوئی تھی.


سائنس دانوں نے سورج کی سطح پر کافی مقدار میں لیتیم پائی ہے.عام طور سے لیتیم ستاروں میں نہیں ملتی مگر گیسی دیو میں بکثرت پائی جاتی ہے. ہوسکتا ہے کہ ہمارے نظام شمسی میں کوئی اور گیسی دیو بھی موجود تھا جس کو سورج نے نگل لیا تھا اور یہ ہی وجہہ سورج کی سطح پر لیتیم کے پائی جانے کی ہوسکتی ہے. کچھ بہت ہی قیامت انگیز قسم کا واقعہ ہوا ہوگا . شاید کوئی مشتری جیسا گیسی دیو سیّارہ سورج سے ٹکرا گیا ہوگا. نظام شمسی کی شروعات میں ہر چیز بےترتیب اور ہنگامہ خیزی و ہلاکت خیزی سے بھرپور تھی. مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہر چیز اپنی جگہ پر آ گئی . مگر اس پائیداری پر مت جائے یہ تو صرف ایک دھوکہ ہی ہے. ہمارے نظام شمسی کے ہر ایک سیّارے پر ہر وقت اس کی فنا کا خطرہ منڈلاتا رہتا ہے.


ملکی وے میں ہر قسم کے نظام ہائے شمسی موجود ہیں . زیادہ تر ہمارے نظام شمسی کے مقابلے میں عجیب و غریب لگتے ہیں.ہمارے سیّاروں کے مدار ان کے مقابلے میں نہایت پائیدار اور منظّم لگتے ہیں.اس کی وجہہ وہ "حرکت"ہے جو نظام شمسی کے پیدا ہوتے ہوئے ہر سیّارے کو ودیعت ہوئی تھی. اسی حرکت کی وجہہ سے ہر ایک سیّارے کی اپنی سمتی رفتار (Velocity)ہے. درحقیت ہم ہر وقت سورج کی جانب گر رہے ہوتے ہیں . مگر ہماری رفتار اس قدر تیز ہے کہ ہمیں یہ پتا نہیں چلتا اور انہیں دونوں چیزوں کے باہم میلاپ سے مدار وجود میں آتے ہیں. اس ٹکیہ -جس سے سیّاروں کی پیدائش ہوئی ہے –کے گھماؤ نے سیّاروں کو حرکت دی ہے جو آج تک جاری و ساری ہے.


٦٦ ہزار میل فی گھنٹہ کی رفتار سے زمین اپنے مدار میں سورج کی گرد ایک سال میں ایک چکر مکمل کرتی ہے. سورج سے دور سیّاروں کے مداراور بڑے ہیں.ان کی حرکت وہاں ہلکی ہے اور وہ زیادہ وقت ایک چکر کو اپنے مدار میں پورا کرنے میں لیتے ہیں.زحل سورج کے گرد ٢٩ سال میں ایک چکر مکمل کرتا ہےاور نیپچون ١٦٥ سال میں . ہر ایک سیّارہ سورج سے بالکل مناسب فاصلے پر ہے اور یہ ہی بات ہماری اپنی بقاء کے لئے نہایت ضروری ہے.ہمارے نظام شمسی میں سیّاروں کے آپس کے درمیان میں جگہ اور ان کے تقریبا" گولائی میں موجود مدار ہماری نہایت ہی خوش قسمتی ہیں اور یہ ہی بات اس شیشے کے محل کو ٹوٹنے سے بچاتی ہے. اگر ہمارے نظام شمسی میں موجود سیّاروں کے مدار تقریبا"گولائی میں صاف ستھرے انداز میں نہ ہوتے تو میں اور آپ آج کارخانہ قدرت کو سمجھنے کے لئے یہاں موجود نہیں ہوتے.فی الحال تو سیّاروں کے مدار محفوظ مقام پر ہیں مگر سیّارچوں اور شہابیوں کے مدار اتنے محفوظ نہیں ہیں.اکثر ان میں بھٹکتے ہوئے سورج کے اندرونی حصّے کی طرف آ دھمکتے ہیں. زمین پر بھی جا بجا شہابیوں کے ٹکرانے کے نشان آج تک ثبت ہیں. کچھ شہابیے کافی بڑے ہوتے ہیں. چاند پر نظر ڈالیں تو ہمیں جا بجا وہاں بھی گڑھے نظر آتے ہیں جو انہی شاہبیوں کی کارستانیاں ہیں. زمین بھی ان کارستانیوں سے زیادہ محفوظ نہیں ہے. مگر زیادہ تر نشان زمین سے مٹ چکے ہیں. ہمیں یہ بات معلوم ہے کہ آج سے ٦٥ کروڑ پہلے میکسیکو کے ساحل پر ایک بہت بڑا سیّارچہ ٹکرایا. وہ ٤٥ ہزار میل فی گھنٹے کی رفتار سے زمین سے ٹکرایا تھا. اس کی ٹکر سے جو توانائی پیدا ہوئی تھی وہ اس توانائی سے ١٥ ارب گنا زیادہ تھی جو ہیروشیما کے بم کے پھٹنے سے نکلی تھی. اس نے زمین سے ٧٠ فیصد زندگی کو مٹا دیا تھا. اس طرح کے کچھ اور ٹکراؤ زمین پر زندگی کو مکمل ختم کر سکتے تھا. مگر ہماری خوش قسمتی ہے کہ زمین کو ایک عدد دیو ہیکل باڈی گارڈ قدرت نے عطا کیا ہے.


خلائے بسیط میں مشتری کا نظارہ نہایت ہی شاندار ہوتا ہے.یہ زمین پر زندگی کو رواں دواں رکھنے کے لئے انتہائی اہم ہے. اس کی ثقلی قوّت نہایت ہی شاندار ہے اور یہ نظام شمسی میں بالکل صحیح اور مناسب مقام پر موجود ہے.یہ زمین کو زیادہ تر سیّارچوں اور شہابیوں سے بچاتا ہے.جو دور خلاء بسیط سے بھٹکتے ہوئے سورج کے اندرونی حصّے کی طرف آ نکلتے ہیں. یہ زمین سے ٹکرا سکتے ہیں . مگر مشتری ایک ایسے بلے باز کی طرح ہمارے نظام شمسی میں کردار ادا کرتا ہے جو زیادہ تر انے والے شاہبیوں اور سیّارچوں کو گیند کی طرح بلے پر لے لیتا ہے. ان میں سے زیادہ تر کو وہ نظام شمسی سے باہر پھینک دیتا ہے.١٩٩٤؁ء کو شو میکر لیوی ٩ سورج کے اندرونی حصّے کی طرف بھٹکتا ہوا آنکلا . مگر وہ مشتری سے آگے نہیں آپایا . خلاء نوردوں نے دیکھا کہ مشتری نے اس کے ٹکڑے ٹکڑے کردیے اور ان ٹکڑوں کو اپنی طرف کھینچ لیا(ملاحظہ کیجئے تصویر نمبر ٨). اس سیّارچے نے مشتری سے ٹکرا کر زمین سے بھی بڑا آگ کا گولہ مشتری پر بنا دیا تھا.یہ اب تک کادیکھا جانے والا نظام شمسی کا سب سے بڑا ٹکراؤ تھا. خدانخوستہ اگر یہ سیّارچہ ہم سے ٹکراتا تو زمین کی پوری سطح کو ڈھانپ لیتا اور یوں زندگی کا خاتمہ ہوجاتا. اگرمشتری نہ ہوتا تو زمین سے سیّارچوں اور شہابیوں کے ٹکرانے کا خطرہ ہزار گنا بڑھ جاتا.یہ ہماری خوش قسمتی کہ زمین کو بالکل مناسب و بہترین مدار ملا جس کی وجہہ سے مشتری ہمیں ان آفات سے بچاتا ہے.

جاری ہے۔۔۔۔۔
 

زہیر عبّاس

محفلین
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نظام شمسی اور پردیسی نظام ہائے شمسی - حصّہ سوم (آخری حصّہ)
How The Universe Works - Season 1, Episode 7

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سورج سے زمین کا متناسب فاصلہ پانی کو نا صرف مائع حالت میں رکھتا ہے بلکہ یہ اس کو بخارات بنا کر خلاء میں بھی نہیں اڑاتا . یہ فاصلہ زمین پر حیات کے جاری و ساری رہنے کے لئے بالکل موزوں اور مناسب ہے.اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر ہمارا نظام شمسی زندگی کو پروان چڑھانے کے لئے مناسب ماحول فراہم کر سکتا ہے تو کیا کائنات میں موجود دوسرے نظام ہائے شمسی ایسا کر سکتے ہیں یا نہیں؟ سیّاروں کی کھوج کرنے والوں نے زمین سے ٢٠ نوری سال کی دوری پر ایک نظام شمسی دیکھا ہے جس کے سیّارے اور ان کے مدار اپنے ستارے سے کافی مناسب مقام پر موجود ہیں. ٢٠٠٥؁ءمیں خلاء نوردوں نے ایک اور زبردست دریافت کی. انہوں نے کچھ چٹانی سیّارے(Rocky Planets) دریافت کرلئے تھے اس سے پہلے تک انہیں صرف گیسی دیو ہی مل پائے تھے.یہ چٹانی سیّارے ایک ستارا جس کا نام گلیز ٥٨١ (Gliese 581)تھا اس کے گرد مدار میں چکر لگا رہے تھے.اس ستارے کے چاروں سیّارے ہمارے نظام شمسی کے مقابلے میں نہایت ہی انوکھے اور منفرد ہیں.یہ چاروں سیّارے اپنے ستارے سے عطارد کے مدار سے بھی زیادہ قریب ہیں. گلیز ٥٨١ ایک چھوٹا ستارا ہے یہ اتنا زیادہ گرم اور روشن نہیں ہے جتنا ہمارا سورج . لہٰذا سیّارے اس کے قریبی مدار میں چکر لگانے کے باوجود بخارات میں تبدیل نہیں ہوں گے.ان چاروں سیّاروں میں سے کچھ بہت ہی زیادہ دلچسپی کے حامل ہیں. ان میں سے ایک زمین سے دگنی کمیت والا سیّارہ بھی ہےاور یہ اپنی میزبان ستارے سے بہت زیادہ قریب بھی ہے. یہ یقینی طور پر نہایت گرم ہوگا اتنا گرم کہ زندگی کے لئے یہ جگہ مناسب نہیں ہوگی. مگر وہاں ایک اور سیّارہ بھی ہے جو زمین سے آٹھ گنا زیادہ بڑا ہے ، اس کا مدار اپنے میزبان ستارے سے اس قدر فاصلے پر ہے کہ وہاں شاید زندگی پنپ پائے گی.زمین کی طرح اس سیّارے کا فاصلہ اتنا ہے کہ جہاں پانی مائع حالت میں موجود ہو سکتا ہے اور جہاں پانی ہوگا وہاں سمندر بھی ہوگا اور جہاں سمندر ہوگا وہاں زندگی بھی ہوسکتی ہے.


٢٠٠٩؁ء میں ناسا نے کیپلر خلائی دوربین(Kepler Space Telescope) کو فضا میں چھوڑا . اس کا کام نئے نظام ہائے شمسی کی کھوج کرنا تھا.سائنس دان پر امید ہیں کہ وہ کچھ ایسے بھی سیّارے تلاش کرسکتے ہیں جن کا ماحول یا جن کی فضا میتھین پر مشتمل ہو یا پھر امونیا پر یا پھر وہ بھاری حیاتیاتی چیزوں سے بھرپور ہوں. وہ کوئی پانی سے بھرا سیّارہ بھی تلاش کر سکتے ہیں.سائنس دان پر امید ہیں کے اگلی دہائی تک وہ شاید زمین جیسے متنوع فیہ قسم کے سیّارے تلاش کر پائیں گے. سائنس دان سمجھتے ہیں کہ وہ کیپلر کے ذریعہ سیکڑوں بلکہ ہزاروں نئے نظام ہائے شمسی تلاش کرلیں گے . ہماری اپنی کہکشاں میں موجود کافی سارے ستاروں کے اپنے سیّارے موجود ہوں گے.ذرا سوچیں کہ کائنات میں کتنی کہکشائیں ہیں.ہم ابھی تک کہکشاؤں کی اصل تعداد نہیں جان پائے ہیں. ہم ٦٠ ارب تک کہکشاؤں کو دیکھ سکتے ہیں . آپ جب نگاہ اٹھا کر آسمانوں کی طرف دیکھتے ہیں تو وہاں ارب ہا ارب ستارے موجود ہیں اگرچہ ہم ان کو خالی آنکھ سے نہیں دیکھ سکتے . ان ستاروں میں کوئی تو ایسا ہوگا جس کے گرد زمین جیسا کوئی سیّارہ گردش کررہا ہوگا اور اگر ایک دفعہ ایسا ہوسکتا ہے تو دوبارہ کیوں نہیں ہوسکتا.


نظام ہائے شمسی ہمیشہ نہیں رہیں گے .سیّارے آپس میں ٹکرائیں گے. یہ ہمارے نظام شمسی میں بھی ہوسکتا ہے مگر اگلے ٥ ارب سالوں میں کوئی تصادم نہ بھی ہو تو بھی ہمارا نظام شمسی ختم ہی ہو جائے گا.یہ بات ہم سب کو اچھی طرح معلوم ہے. کوئی بھی چیز ہمیشہ نہیں رہتی اور نظام شمسی کو بھی اس اصول سے کوئی استثناء حاصل نہیں ہے.ہمیں نظام شمسی بہت ہی پرسکون لگتا ہے مگر اصل میں ایسا نہیں ہے.اگر ماضی میں یہ جگہ پرہنگام رہی ہے تو وہ مستقبل میں بھی ایسی رہ سکتی ہے. مستقبل بعید میں قوّت ثقل کی طاقت سیّاروں کو ان کےموجودہ مدار سے باہر کردے گی.شاید آج سے کچھ ارب سال بعد سیّارے اس ثقلی قوّت کے زیر اثر ہو کر ایک دوسرے کے قریب آجائیں گےاور پھر ایک دوسرے کو غیر پائیدار مدار میں دھکیل دیں گے یا پھر کوئی ایک یا دونوں ہی نظام شمسی سے باہر دھکیل دیے جائیں گے.مریخ نظام شمسی سےنکال دیا جائے گا. عطارد شاید زمین سے بغلگیر ہوجائے گا. شیشے کا محل چکنا چور ہوجائے گا. نظام شمسی کی شروعات تباہی و بربادی سے شروع ہوئی تھی اور یہ منتہج بھی اسی طرح ہوگی. مگر فی الحال گبھرانے کی کوئی بات نہیں ہے. اس سب کو ہونے میں بھی ابھی ارب ہا ارب سال لگیں گے.مگر نظام ہائے شمسی کی عمر میں یہ تو ہو کر ہی رہیگا . کچھ بھی ہو روز قیامت تو آکر ہی رہےگی .ہر نظام شمسی کی طرح خاتمہ اس وقت ہوگا جب سورج کی موت ہوگی.


آج سے ٥ ارب سال بعد ہمارے سورج کا ایندھن ختم ہوجائے گا اور وہ سرخ دیو کی شکل اختیار کرلے گا.وہ گرم ہو کر سوجھ جائے گااور اندرونی مدار کے سیّاروں کو نگل جائے گا.زمین کی سطح گرم ترین ہو جائی گی .سمندر بھاپ بن کر اڑ جائیں گے ،زمین پگھل جائی گی. سورج پھیلتے پھیلتے اتنا بڑا ہوجائے گا کہ زمین کے پورے مدار کو گھیر لے گا.زمین کا خاتمہ سورج کو اس کے نگلنے کے ساتھ ہی شروع ہوجائے گا.سورج اسے نگلنے سے پہلے بھون کر رکھ دے گااور وہ بھاپ بن جائی گی . آخر کار سرخ دیو بھی مر جائے گا اور اپنے پیچھے سفید بونا ستارہ چھوڑ جائیگا.اس کا حجم ہماری زمین ہی کے جتنا ہوگا اور اس کو ٹھنڈا ہونے میں کروڑوں یا اربوں سال درکار ہوں گے اور وہی وقت ہمارے نظام شمسی کا وقت آخر ہوگا.


اگر اس وقت ہم اس زمین پر موجود ہوتے جہاں کبھی شاندار تہذیب ہوا کرتی تھی اور وہاں سے سورج کو دیکھتے تو ہمیں ایک دھندلہ سا ایک نقطہ نظر آتا جو درحقیقت ہمارا سورج ہوتا جو اب سفید بونا مرتا ہوا ستارا ہوگا . اندرونی سیّاروں کی باقیات اب بھی اس کے گرد چکر کاٹ رہی ہوں گی. بیرونی مدار میں واقع سیّارے صحیح سلامت بچ گئے ہوں گے . وہ سرخ دیو والے دور میں گرم تو ہوگئے ہوں گے . مگر ایک دفعہ سورج بونا ستارا بن جائے گا تو وہ صرف اپنی ہائیڈروجن اور ہیلیم پر ہی زندہ رہے ہوں گے.کیونکہ سفید بونا ستارہ اب ان کو گرمی اور روشنی نہیں مہیا کر رہا ہوگا لہٰذا وہ اب پہلے سے بھی زیادہ سرد ہوچکے ہوں گے.اگرچہ یہ حادثہ ہمارے سورج کے ساتھ اگلے ٥ ارب سال میں ہوگا مگر کائنات میں موجود دوسرے نظام ہائے شمسی میں یہ سب کچھ تو کئی دفعہ دہرایا جا چکا ہوگا. ہمارے نظام شمسی نے بدنظمی سے شروعات کی مگر پھر زندگی کوبھی دوام بخشا . ہم خوش قسمت ہیں کہ ہمارے نظام شمسی میں بالکل ٹھیک تعداد میں سیّارے موجود ہیں جو بالکل مناسب فاصلے پر نا صرف ایک دوسرے سے دور موجود ہیں بلکہ بالکل متناسب فاصلے سے سورج کے گرد چکر لگا رہے ہیں. ہم خوش قسمت ہیں کہ ہمارا سورج زندگی کو پروان چڑھانے کے لئے بالکل صحیح تارہ ہے.نظام شمسی کی شروعات سے، سورج کی پیدائش سے لے کر زندگی کی شروعات تک خوش قسمتی ہم پر سایہ فگن رہی ہے. سورج ایک نہایت متوازن اور سہل ستارہ ہے جو زندگی کے ارتقاء کے لئے مکمل ماحول فراہم کرتا ہے. یہ اتفاق تو نہیں ہوسکتا کہ ہم یہاں اس جگہ ایسے ہی موجود ہوں. غیر معمولی اتفاقات ارب ہا سال میں پے در پےواقع ہونے کی ہی وجہہ سےہمارا نظام شمسی وجود میں آیا جو زندگی کے لئے بالکل مناسب اور مکمل جگہ تھی. اگرچہ یہ سب کچھ ہمیشہ سے ایسا ہی نہیں تھااور نہ ہی یہ ہمیشہ ایسا رہے گا.


ہم منفرد نہیں ہیں مگر خوش قسمت ضرور ہیں .زمین کو بالکل مناسب فاصلہ پر ہونا تھا، سیّاروں کو بالکل اسی طرح قاعدے سے ایک ترتیب میں ہونا تھا، دیو ہیکل سیّاروں کو بالکل ٹھیک جگہ پر ہونا تھا تاکہ وہ ہمیں شہابی تصادموں سے بچا سکیں. ہر چیز کو ایسے ہی ہونا تھا جیسا کہ وہ وقوع پزیر ہوئی تاکہ زندگی کی شروعات کے لئے مدد گار ثابت ہو سکے. ہم نہیں جانتے کہ ہمارے نظام شمسی نے ہمیں کائنات میں کوئی غیر معمولی یا انوکھامقام دیا ہے مگر ہر گزرتے دن ہم نئے نظام ہائے شمسیاور ان کے سیاروں کو دریافت کر رہے ہیں . اب یہ کچھ ہی عرصہ کی بات ہے جب ہم یہ جان سکیں گے کہ کائنات میں ہم تنہا نہیں ہیں.

تمام شد
 

زہیر عبّاس

محفلین
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چندا ماما اور ماورائے ارض چاند - حصّہ اوّل
8 How The Universe Works - Season 1, Episode
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کائنات میں موجود ہرچیز کسی نہ کسی کا گرد چکر کاٹ رہی ہے.ستارے کہکشاؤں کے مرکز کے گرد،سیّارے ستاروں کے گرد ارو چاند سیّاروں کے گرد مدار میں چکر کاٹ رہے ہیں. ہمارے نظام شمسی میں موجود کچھ چاند وں پر پرفیلے آتش فشاں موجود ہیں جبکہ کچھ کی سطح کے نیچے عظیم الشان سمندر بہہ رہے ہیں. یہ چاند ہمیں نظام شمسی کی وہ ان کہی داستان سناتے ہیں جو ہم میں سے زیادہ تر نہیں جانتے یہ ہمیں نظام شمسی کےکام کرنے کےطریقہ کار کو بہتر انداز سے سمجھاتے ہیں. ہماری کائنات میں قابل رہائش چاندوں کی تعداد قابل رہائش سیّاروں سے کہیں زیادہ ہو سکتی ہے. ہمارے نظام شمسی میں کل ملا کر آٹھ سیّارے ہیں. ان میں سے صرف ٦ کے گرد چاند موجود ہیں.مگر ان چاندوں کی تعداد اچھی خاصی ہے لگ بھگ١٦٨ کے قریب چاند ان ٦ سیّاروں کے گرد چکر لگا رہے ہیں.ان میں سے ہر ایک چاند ایک مفرد اور مختلف شناخت رکھتا ہے اور اپنی مثال آپ ہے. جب ہم نظام شمسی کے جائزہ لیتے ہیں تو ہم کو سیّاروں کی اچھی خاصی تعداد نظر آتی ہے مگر ان سیّاروں کے گرد چکر کاٹنے والےمہتابوں کی تعدادان سے کہیں زیادہ ہے . نظام شمسی میں موجود یہ چاند کئی طرح سےان سیّاروں سے زیادہ دلچسپی کے حامل ہیں جن کے گرد وہ چکر کاٹ رہے ہیں .


ہمارے نظام شمسی میں فضا اور حرارت سے محروم اور مردہ چاند بھی ہیں جیسے کے ہمارا اپنا چندا ماما. پھر سورج کے بیرونی مدار میں موجود سیّاروں کے گرد گھومتے ہوئے ایسا چاند بھی ہیں جن کے زیر زمین اپنے سمندر اور اپنے ماحول (Atmosphere)بھی ہیں. عظیم الشان جولا مکھی ، سرد ترین درجہ اور نظام شمسی کے سب سے بڑے سمندر یہ سب چاندوں پر ہی موجود ہیں. کچھ چاندوں پر برفیلے آتش فشاں (Ice Volcanoes)موجود ہیں، کچھ چاندوں پر پر میتھین گیس کی جھیلیں ، میتھین گیس کے بادل اور اس کی بارش کا نظام بھی موجود ہے. ان پر موجود آتش فشاں اس قدر زندہ اور عامل ہیں کہ وہ چاند کی سطح کو مستقل بناتے رہتے ہیں. ہر قسم کے گرد و غبار کو اگلتے ہوئے چاند بھی ہمارے نظام شمسی کا حصّہ ہیں. نظام شمسی میں موجود چاندوں کا ماحول اور فضا اس قدر متنوع فیہ ہے کہ ہم سوچ بھی نہیں سکتے.


مشتری اور زحل کے چاند اتنے پیچیدہ اور پرسرار ہیں کہ وہ بالکل ایک الگ ہی جہاں کی طرح ہیں.مشتری اور زحل ہر ایک کے علیحده علیحده٦٠ سے زائد چاند ہیں. یہ گیسی دیو اور ان کے چاندوں نے ایک طرح سے چھوٹا نظام شمسی(Mini Solar System) قائم کر رکھا ہے. ان کے ہر چاند کی ایک منفرد شناخت ہے. آیا پٹس کالے اور سفید(Iapetus) دو رنگوں کا چاند ہے(ملاحظہ کیجئے تصویر نمبر ١). ٹائٹن (Titan)اپنے کثیف ماحول اور نارنجی رنگ کی وجہہ سے سب سے ممتاز نظر آتا ہے(ملاحظہ کیجئے تصویر نمبر ٢). برفیلا انسیلیڈس(Enceladus) برف کےچشمے Geysers)) ٢٠٠ میل فضا میں چھوڑتا ہوا ایک منفرد چاند ہے(ملاحظہ کیجئے تصویر نمبر ٣). ان تمام چاندوں کی منفرد شناخت کے باوجود جو ایک چیز ان میں قدر مشترک ہے وہ ان کا اپنے سیّارے کا قدرتی سیّارچہ(Natural Satellite) ہونا ہے. یہ قوّت ثقل کی وجہہ سے اپنے سیّارے کے گرد چکر کاٹ رہے ہیں. مگر چاند صرف سیّاروں کے گرد ہی چکر نہیں کاٹتے بلکہ یہ اس سے بڑھ کر کام کرتے ہیں. یہ سیّاروں کو ان کے مداروں میں پائیداری کے ساتھ جمے رہنے میں مدد کرتے ہیں تاکہ نظام شمسی پرسکون انداز میں قائم و دائم رہے.


چاندوں کی یہ منفرد شناخت اور آپس کی تفاوت قوانین سائنس اور اٹکل چٹانی اور گیسی تصادموں کے درمیان بہت ہی دلچسپ ہم آہنگی کا مظہر ہے.آپ قوانین سائنس کے نتیجے میں حاصل ہونے والی کسی بھی چیز کو تو قیاس کرسکتے ہیں کہ وہ کیسی ہوگی مگر بے ترتیب اور اٹکل ٹکراؤ کے نتیجے میں کیا حاصل ہوگا اور اس بات کا کیا امکان ہوگا کہ وہ ایک مخصوص ماہیت ہی حاصل کرسکیں یہ کبھی بھی درست طرح سے قیاس نہیں کرسکتے .سیّارے اور چاند دونوں ایک ہی پیدائشی عمل سے گزرتے ہیں.ایک دفعہ ستارے کی پیدائش کا عمل شروع ہوجائے اس کے نتیجے میں بچنے والی گرد و غبار کے گیسی بادل اتنے ہوتے ہیں کہ وہ ایک دوسرے سے جڑ کر چٹانیں بناتے ہیں، پھر وہ چٹانیں بٹے بناتی ہیں،وہ بٹے بڑے بٹے بناتے ہیں . یہ عمل تہہ پر تہہ چڑھانے کا عمل(Accretion) کہلاتا ہے . بالکل ایسا ہی جیسے کہ ایک برف کی گیند کو بنا کر کسی برف کے پہاڑ کی چوٹی سے نیچے پھینک دیں. جیسے جیسے وہ گیند نیچے لڑکے گی ویسے ویسے بڑی اور سخت ہوتی جائے گی. اسی تہہ دار عمل کے نتیجے میں سیّاروں اور ان کے گرد موجود چاندوں کی پیدائش ہوتی ہے.اگرچہ یہ عمل بہت ہی سادہ سا لگتا ہے مگر یہ ہوتا کیسا ہے ٢٠٠٣؁ءسے پہلے کوئی نہیں جانتا تھا . ہم سیّاروں کے پیدائش کے اس طریقے کی کھوج کو اپنے پچھلے مضمون "کرۂ ارض اور اس کے پڑوسی سیّارے "میں کافی تفصیل کے ساتھ بتا چکے ہیں لہٰذا یہاں دوبارہ نہیں دہرائیں گے.


اب یہاں یہ سوا ل پیدا ہوتا ہے کہ اگر سب چاند ایک ہی طریقے سے پیدا ہوتے ہیں تو یہ اتنے مختلف اور منفرد کیوں ہیں.صرف مشتری کے دو چاندوں ہی کو لیجئے . کللسٹو(Callisto) اور گینا میڈ(Ganymede) . دونوں ہی نہایت مختلف چاند ہیں جبکہ دونوں ایک ہی گیسی گرد و غبار کے بادل سے وجود میں آئے ہیں. مشتری کے پیدائش کے اولین دور میں گینا میڈ مشتری کے قریب پیدا ہوا.اس وقت وہاں گرد و غبار کے کافی بادل موجود تھے . مادّے کی وافر مقدار کے موجود ہونے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے وہ بہت جلدلگ بھگ ١٠ ہزار سال میں پیدا ہوگیا. اس کا درجہ حرارت پیدائش کے وقت کافی زیادہ تھا. حرارت نے برف کو چٹانوں سے الگ کردیا تھا جس کی وجہہ سے اس کے مختلف ارضی مناظر آج بھی دیکھے جاسکتے ہیں(ملاحظہ کیجئے تصویر نمبر ٤). اصل میں چاند اس طرح کے کیوں نظر آتے ہیں جیسے کہ وہ آج ہیں . ان کی اس صورت گری کی اصل وجہہ توانائی ہے وہ توانائی جو ان کو اس تہہ دار عمل میں ملی اوراس میں سے کتنی توانائی انہوں نے بچا کر رکھی اور کتنی توانائی انہوں نے کھو دی. یہ تمام عوامل ہمیں اس بات کو سمجھنے میں مدد دیتے ہیں کہ چاند ایسا برتاؤ کیوں کرتے ہیں اور آج اپنی اس موجودہ شکل میں کیوں نظر آتے ہیں.


کللسٹوکی سطح ایک مختلف کہانی سناتی ہے . یہ اس جگہ پیدا ہوا تھا جہاں گیس اور گرد کے غبار اور حرارت نسبتا"کم موجود تھی. اس نے پیدا ہونے میں زیادہ وقت لیا اور جلد ہی ٹھنڈا بھی ہوگیا. اس کی سطح گینا میڈ سے بالکل الگ ایک جیسی ہے. یہاں چٹانیں اور برف کبھی علیحده ہو ہی نہ سکے(ملاحظہ کیجئے تصویر نمبر ٥). چاندوں کی پیدائش کے علاقے ان کے بچے رہنے اور تباہ ہونے کہ بھی ذمے دار ہوتے ہیں. بہت زیادہ سیّارے سے قریب ہونے کا مطلب ہے کہ قوّت ثقل اس کے چاندوں کو تباہ کردے گی.سائنس دانوں کو پورا یقین ہے کہ مشتری کے بہت سارے چاندوں کے ساتھ ایسا ہی ہوا ہوگا. جب مشتری جوان تھا توایسا ممکن ہے کہ اس کے ہر طرف چاند پیدا ہونے کے لئے بےچین تھے . مگر ان میں سے زیادہ تر کو پیدا ہوتے ہی مشتری نے نگل لیا تھا. مشتری کے باقی مانندہ اور بچے ہوئے چاند جو آج ہمیں نظر آتے ہیں ان میں سےوہ زندہ رہنے والے خوش قسمت چاند ہیں جنہوں نے اپنے مدار کو مشتری سے بالکل صحیح فاصلے پر متوازن کر لیا تھا. مگر مشتری کی مسلسل یہ کوشش رہتی ہے کہ وہ ان بچ جانے والے چاندوں کو بھی نگل لے. اس دیوہیکل سیّارے کی قوّت ثقل وہاں تک جا پہنچتی ہے اور ان کو اپنے مداروں میں ٹکے رہنے میں کافی پریشان کرتی ہے. مشتری کی قوّت ثقل ان مردار چاندوں کو نہایت عجیب اور ڈرامائی دنیا بنا دیتی ہے.


مشتری ہمارے نظام شمسی کا سب سے بڑا سیّارہ ہے. اس کے لگ بھگ ٦٣ چاند ہیں.ان میں سے ٤ بڑے چاندوں کو گلیلین(Galilean Moons) کہتے ہیں . ان کا یہ نام گلیلیو(Galileo) کے نام پر پڑا ہے جس نے ان کو١٦١٠؁ء میں دریافت کیا تھا. یہ چاند ہمیں بتاتے ہیں کہ کس طرح قوّت ثقل ان کی ساخت اور ان کے برتاؤ کو کنٹرول کرتی ہے. ان میں سے سب سے پہلا چاند جس کا نام آئی او (Io)ہے وہ مشتری سے سب سے قریبی مدار میں٢٦٠ ہزار میل اوپر چکر لگاتا ہے(ملاحظہ کیجئے تصویر نمبر ٦).یہ فاصلہ اتنا ہی ہے جتنا ہماری زمین سے ہمارے چاند کاہے. مگر ہمارے چاند کی طرح اس کی سطح پر شہابی گڑھے موجود نہیں ہیں. سائنس دان سمجھ گئے کہ اس کی سطح نئی نئی ہے . مگر ایسا کیسے ہوسکتا تھا. ہر مرتبہ جب وہ آئی او کو چاہے خلائی جہاز سے دیکھتے یا دوربین سے ان کو اس کی سطح مختلف ہی نظر آتی تھی. آئی او کی سطح ایسے تبدیل ہورہی تھی جیسے کہ سیّاروں پر موسم تبدیل ہوتے ہیں. ان کو اس کی اس تفاوت پسندی کی وجہہ سمجھ میں نہیں آ سکی. جب ناسا نے پہلی دفعہ خلائی جہاز آئی او کے قریب سے گزارا تو وہ ششدر رہ گئے .انہوں نے وہاں درجنوں زندہ آتش فشاں دیکھے اور پھر ہر ایک کی زبان پر ایک ہی سوال تھا کہ چاند کی سطح پر زندہ آتش فشاں کیسے ہو سکتے ہیں. صرف ایک ہی قوّت وہاں یہ کام کرسکتی تھی اور وہ تھی قوّت ثقل.

جاری ہے ۔۔۔۔۔
 

زہیر عبّاس

محفلین
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چندا ماما اور ماورائے ارض چاند - حصّہ دوم
8 How The Universe Works - Season 1, Episode
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مشتری کی قوّت ثقل اس قدر زبردست ہوتی ہے کہ وہ اس چاند پر پہنچ کر اس کی سطح کو چرمرا دیتی ہے. اور صرف مشتری کی قوّت ثقل ہی اس پر اثر انداز نہیں ہوتی بلکہ جب وہ دوسرے چاندوں کے پاس سے گزرتا ہے تو ان کی ثقلی قوّت بھی اس پر اثر انداز ہوتی ہے. لہٰذا چاند کے قلب کو ہر وقت دھرا دباؤ جھیلنا پڑتا ہے. اس کو مدو جزر کی رگڑ (Tidal Friction)کہتے ہیں. اس عمل سے اس کے قلب میں زبردست گرمی پیدا ہوتی ہے. بالکل اسی طرح جیسے کسی کوٹ کے ہینگر کو اس وقت تک موڑیں جب تک وہ ٹوٹ نہ جائے بس وہاں حرارت کچھ زیادہ ہی پیدا ہوتی ہے. یہ ہی رگڑ کی قوّت آئی او (Io)کے قلب کو اس قدر گرماتی ہے کہ وہ نظام شمسی میں موجود ایک زبردست زندہ آتش فشانی دنیا بن جاتی ہے. مستقل کھینچا تانی آئی او کے قلب میں درجہ حرارت کو ہزار ہا ڈگری تک پہنچا دیتی ہے اور وہ لاوے کو اگل دیتا ہے.آئی او مدو جزر اور قوّت ثقل کے باہمی تعلق کی سب سے بہترین مثال ہے. آئی او مستقل مشتری اور اس کے چاندوں کے درمیان پستا رہتا ہے جس کے نتیجہ میں زبردست حرارت پیدا ہوتی ہے.آتش فشانی سیلاب لاوے کی شکل میں آئی او کی سطح پر بہتے رہتے ہیں جس کی وجہہ سے کسی شہابیہ کے ٹکراؤ کا کوئی نشان نظر نہیں اتا.

قوّت ثقل آئی او کے پڑوسی چاند یوروپا (Europa)کو بھی گرماتی ہے(ملاحظہ کیجئے تصویر نمبر ٧). یوروپا کا مدار مشتری سے کافی دور ہے لہٰذا یہ قدرے سرد ہے .لاوے کے بجائے یہاں کی سطح برفیلی ہے. انٹارکٹیکا میں سب سے کم درجہ حرارت منفی ١٢٨ ڈگری ریکارڈ کیا ہے. جبکہ یوروپا کی سطح اس سے دگنی سرد ہوتی ہے. مگر اس برف کے نیچے پانی کا ٹھاٹیں مارتا سمندر موجود ہوسکتا ہے. جس کو وہی مدو جزر والی رگڑ حرارت پہنچاتی ہے جو آئی او کو آتش فشانی بناتی ہے.یوروپا میں یقینی طور پر اس کی سطح کے نیچے سمندر موجود ہو سکتا ہے جس کا رابطہ سطح کے نیچے اس کی چٹانی قشر سے بھی ہوگا جو اس کو حرارت اور زرخیزی جو زندگی کو برقرا ر رکھنے کے لئے ضروری ہےپہنچا تاہوگا. مستقبل میں شاید ہم کوئی کھوجی یوروپا کی برف کے نیچے اس کی چھان بین کے لئے بھیج سکیں اور ہوسکتا ہے کہ ہم وہاں کے گرم پانیوں میں زندگی دریافت کرلیں.مشتری کے آئی او اور یوروپا سے دور مزید ٦٠ چاند اور ہیں.یہ مشتری سے کافی دور چکر کاٹ رہے ہیں جہاں اس کی قوّت ثقل اتنی طاقتور نہیں ہے. یہاں یہ اس قدر طاقتور نہیں ہے کہ مدو جزر کا اثر پیدا کرسکے جس سے ان کو حرارت بہم پہنچے.لہٰذا یہ دور کی دنیائیں سرد اور بنجر ہیں . مگر یہ بالکل روکھی پھیکی بھی نہیں ہیں. وہ لاتعداد شہابیوں کے تصادموں کے نشان سے مزین ہیں. سائنس دانوں کے مطابق یہ ہی نشان ہمیں بتا تے ہیں کہ کس طرح ان تصادموں کے بعد مشتری کے چاندوں کا نظام وجود میں آیا.

زحل کے چاندوں کا نظام بھی مشتری سے کچھ کم نہیں ہے.یہ تقریبا" دو لاکھ میل پر پھیلا ہوا ہے. دیکھا جائے تو زحل کے ایک ارب سے بھی زیادہ چاند ہیں. جی ہاں ایک ارب چاند.اس وقت تک کوئی بھی چیزکسی سیّارے کا چاند ہی کہلائے گی جب تک وہ کسی سیّارے کے مدار میں چکر لگائے چاہے وہ چیز کوئی کنکر ہو یاکسی شہر جتنی بڑی کوئی چٹان. یہ سب مل کر زحل کے چھلے بناتے ہیں. زحل کے حلقے لاتعداد برفیلے ٹکروں اور چٹانوں پر مشتمل ہیں.ان کا حجم ایک کنکر سے لے کر ایک شہر کے جتنا ہوسکتا ہے. ان تمام چھلوں کے ٹکڑوں کو جو ١٠ سے ٢٠ میٹر تک کے ہوسکتے ہیں ان کو کوئی نام تو نہیں دے سکتے نا ہی ان کی کوئی علیحده شناخت کر کے چاند کا نام دیا جاسکتا ہے .مگر جب کوئی ایک یا دو کلومیٹر کا کوئی ٹکرا نظر آتا ہے تو آپ اس کو چاند یا ما ہچہ کہنے کے لئے سوچتے ضرور ہیں.

زحل کے چھلے فلکیات کی دنیا میں عرصہ دراز تک معمہ بنے ہوئے تھے . اس بات کو جاننے کے لئے کے وہ کیسے بنے تھے. ناسا نے کسینی کھوجی(Cassini Probe) ١٢ سالہ مشن پر بھیجا تاکہ وہ زحلاور اس کےگرد چھلوں،اور اس کے چاندوں پر تحقیق کر سکے . کسینی نے زحل کی شاندار تصاویر لیں . ایک دفعہ کسینی زحل کے سائے میں موجود تھا اور اس پر سورج زحل کا سایہ بنا رہا تھا . سورج بالکل زحل کے پیچھے موجود تھا اور زحل کے پیچھے ایک نکتہ بھی نظر آرہا تھا . وہ نکتہ اس کا کوئی چاند نہیں تھا بلکہ وہ وہاں سے دور دراز خلاء میں ایک ارب میل کے فاصلے پر موجود ہماری زمین تھی(ملاحظہ کیجئے تصویر نمبر ٨). زحل ، اس کے گرد موجود چھلوں اور اس کے چاندوں کے بارے میں ہمیں زیادہ تر معلومات کسینی کے ذریعہ ہی پتا لگیں. کسینی کے پہنچنے سے پہلے ہم سمجھتے تھے کہ زحل کے صرف آٹھ چھلے ہیں مگر اب ہمیں معلوم ہے کے ان کی تعداد ٣٠ سے بھی زیادہ ہے. کسینی کے ذریعہ جو چیزیں ہم نے وہاں دیکھیں اگرچہ ہم وہ پہلے ہی دیکھ چکے تھے مگر جتنی جزیات کے ساتھ کسینی نے ہم کو یہ معلومات بہم پہنچائی ہیں وہ دماغ کو ہلا دینے والی ہیں. سائنس دان سمجھتے تھے کہ یہ چھلے اس بچی کچی گیس و گرد کے غبار سے بنے تھا جو زحل کے بننے کے بعد٤ ارب سال پہلے بچ گئی تھی. مگر ان کو حیرت اس بات پر تھی کہ اتنی پرانی چیز کو کائناتی دھول و غبار سے اٹ جانا چاہئے تھا مگر زحل کے چھلے تو صاف اور چمکدار نظر آتے ہیں بلکہ نئے لگتے ہیں . اس بات کی کھوج کے لئے مشن کنٹرول نے کسینی کو ان چھلوں کے قریب کیا. اس کھوجی نے دیکھا کہ چھلوں میں موجود برف کے ٹکڑے مستقل ایک دوسرے سے ٹکرا رہے ہیں اور ٹوٹ رہے ہیں اور ہر نیا تصادم ایک نئی سطح کو اجاگر کرتا ہے جو نئی اور چمکتی ہوئی ہوتی ہے.

شروع میں نوزائیدہ زحل کے چھلے نہیں تھے بس کافی سارے چاند ہی تھے. پھر کسی وقت ماضی میں کوئی دم دار ستارہ خلائے بسیط سے آکر اس کے کس چاند سے ٹکرا گیا . وہ دم دار ستارہ اس کے چاند سے ٹکرا کر ارب ہا ٹکڑوں میں بٹ گیا تھا اور اس تصادم نے زحل کے چاند کو اس کے مدار سے نکل کر اس کے قریب کر دیا تھا. زحل کی زبردست قوّت ثقل نے اس چاند کو بھی ٹکڑے ٹکڑے کردیا تھا . اب دم دار ستارہ اور زحل کے چاند کے گرد و غبار نے مل کر زحل کی قوّت ثقل کے زیر اثر اس کے ان ٹکڑوں کو زحل کے گردچھلوں کی شکل میں جمع کردیا تھا.

چاندوں کی کہانی قوّت ثقل کی ہی کہانی ہے. قوّت ثقل ان چاندوں کو ان کے مدار میں قائم رکھتی ہے، وہ ان کے قلب کو گرماتی ہے اور ان کی سطح کو شکل عطا کرتی ہے اور آخر میں ہر چیز کو کنٹرول کرتی ہے .ان کی بقاء اور سلامتی اسی کے ہاتھ میں ہے. قوّت ثقل صرف چاندوں کو ہی تباہ نہیں کرتی بلکہ یہ نئے چاند بھی بناتی ہے. یہ شہابیوں، سیّارچوں، اور پورے کے پورے سیّارے کو بھی کسی سیّارے کا قیدی بنا کر اس کا قدرتی سیّارچہ بنادیتی ہے. ہم کو معلوم ہے کہ قوّت ثقل ہی چاندوں کے پیدا کرنے کا سبب ہے . عام طور سے یہ اس بچے ہوئے گیسی گرد و غبار سے چاند بناتی ہے جو کسی سیّارے کی پیدائش کے بعد بچ جاتے ہیں. مگر قوّت ثقل ایک اور طریقے سے بھی چاند بناتی ہے. یہ ان کو پکڑ کر کسی بھی سیّارے کا قدرتی سیّارچہ بنا دیتی ہے.ذرا کسی آوارہ گرد شہابیے یا سیّارچہ کا تصور کریں کہ وہ بھٹکتا ہوا کسی سیّارے کے قریب آ پہنچا ہو. قوّت ثقل کسی سائنس فکشن فلم میں دکھائے ہوئے جال کی طرح اس کو گرفت میں لے لیتی ہے . اگر ذرا سی بھی کم ثقلی قوّت ہوئی تو وہ فرار ہوجاتا ہے اور اگر تھوڑی سی زیادہ ہوئی تو سیّارے سے جا ٹکراتا ہےاور اگر بالکل مناسب فاصلے سے آتا ہوا کوئی شہابیہ یا سیّارچہ پکڑا گیا تو وہ اس کو سیّارے کے مدار میں چکر کاٹنے پر مجبور کردیتی ہے اور وہ اس کا چاند بن جاتا ہے.

مریخ کے دو چھوٹے چاند ہیں جن کے نام فوبوس(Phobos) اور ڈیموس (Deimos)ہیں(ملاحظہ کیجئے تصویر نمبر ٩ ).یہ دونوں مقید سیّارچے(Captured Asteroids) ہی ہیں.ان میں سے ایک باہر کی طرف زور لگا رہا ہے اور آخرکار مریخ سے راہ فرار حاصل کرلے گا. دوسرے اس سے قریب سے قریب تر ہوتا جارہا ہے اور آخر کار اس سے ٹکرا کر پاش پاش ہوجائے گا. کرویتھنیا (Cruithne)کو اکثر زمین کا دوسرا چاند کہتے ہیں یہ تین میل پر پھیلا ہوا ہے(ملاحظہ کیجئے تصویر نمبر ١٠).اتنے چھوٹے جسامت کی چیز کی دریافت کے ساتھ ١٩٨٦؁ءمیں یہ بحث شروع ہوگئی کہ آخر چاند کہتے کس کو ہیں.صرف چند ہزار سال پہلے ہی کرویتھنیا ایک عام سے سیّارچہ تھا جو سورج کے گرد چکر لگا رہا تھا جیسے کہ ارب ہا ارب سیّارچے سورج کے گرد چکر کاٹتے ہیں. یہ سیّارچوں کی پٹی سے بھٹکتا ہوا آنکلا اور زمین کی قوّت ثقل کے پھندے میں پھنس گیا. مگر پھر کرویتھنیا نے ایک عجیب سی حرکت کی اس نے بجائے زمین کے گرد چکر کاٹنے کے جس طرح سےعام چاند کرتے ہیں زمین کے مدار کا پیچھا کرنا شروع کردیا. اس کو شاید زمین کا چاند کہہ سکتے ہیں مگریہ اصل میں زمین کے گرد نہیں بلکہ اپنے خود مختار مدار میں سورج کے گرد چکر کاٹ رہا ہے.

کبھی کبھی سیّارچے اپنا چاند بھی پکڑ لیتے ہیں.١٩٩٣؁ء عیسوی میں گلیلیو خلائی جہازآئیڈاسیّارچہ (Ida Asteroid) کے پاس سے گزرا اور وہاں اس نے جو دیکھا وہ اس وقت کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا. ایک چھوٹا آدھے میل کا چاند اس شہابیے کا چکر کاٹ رہا تھا(ملاحظہ کیجئے تصویر نمبر ١١).ابھی تک صرف کوئی بھی خلائی جہاز صرف دو شہابیوں کے پاس سے ہی گزرا ہے جس میں سے ایک کا اپنا چاند ہے.یہ اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ شہابیوں کے اپنے چاند ہونا کائنات میں ایک عام سی بات ہوگی.

جاری ہے۔۔۔۔۔
 
Top