عظیم اللہ قریشی
محفلین
سب سے پہلے تو یہ معلوم ہونا چاہیے ہے کہ Haarp ہے کیا چیز؟؟؟؟
مریکہ میں 1993سے اس کی ریاست الاسکا میں ایک پروگرام ام HAARP کے نام سے چل رہا ہے اور اس پروگرام کو امریکہ کی ریاست الاسکا میں لانچ کیا گیا ہے اور تقریباً 30 ایکڑ زمین اس کو الاٹ کی گٰی ہے یہ جدید ترین ٹیکنالوجی ہے جس میں وہ Technology Latest Weather Modificationپرعمل کررہا ہے اور اس پر اس نے عبور بھی حاصل کرلیا ہے اور اس پروگرام کا نام ہے High Frequency Active Auroral Research Program الاسکا میں جدھر اسکا پروگرام چل رہا ہے ادھر Antennas کا جال بچھا دیا گیا ہے اور ELF یعنی Extremely Low Frequency لہریں ان Antennas کے ذریعے پیدا کی جاتی ہے اور یہ Wavesخلا میں بھیجی جاتی ہیں اور خلا کی سب سے جو Outer Sphere جس کو Ionosphere کہتے ہیں اس سے یہ Waves ایک خاص فرینکوینسی کے ساتھ ٹکراتی ہیں اور پھر بہت زیادہ طاقتور ہوکر دوبارہ زمین کی طرف پلٹ کر آتی ہیں لیکن جب یہ پلٹ کر واپش آتی ہیں تو ان کو کنٹرول کرکے اپنے مقاصد کے حصول کے لیے استعمال کیا جاتا ہے یعنی قدرتی طور پر جو موسم چل رہا ہے اس کو تبدیل کرنا اور اس کی تفصیل اتنی خوفناک ہے کہ انسان خوفزدہ ہوجاتا ہے یعنی کسی بھی ملک میں درجہ حرارت کو زیادہ کردینا زلزلے پیدا کرنا اور اتنی بارشیں کروانا کہ سیلاب آجاٗےاور جنگلات میں آگ لگادینا۔
22 ستمبر 1940ء میں امریکی سائنسدان نیکولاٹیسلا نے نیویارک ٹایمز میں ایک تھیوری پیش کیجس کا خلاصہ یہ ہے کہ موسم میں ایسے تغیرات لا ئے جا سکتے ہیں جو بارش برسا سکتے ہیں اور زلزلہ لاسکتے ہیں یا کسی جہاز کے انجن کو کسی خاص جگہ سے 250 کلومیٹر پہلے ہی ایک چھوٹی سی شعاع سے پگھلا یا جاسکتاہے، کسی خاص ملک خطہ یا علاقے کے گرد شعاعوں کا دیوار چین جیسا حصار قائم کیا جاسکتا ہے مگر معروف امریکی سائنسدانوں نے اس نظریہ کو یہ کہہ کر مشہور نہیں ہونے دیا کہ اُن کے نظریہ کو قبول کرلیا جائے تو کرئہ ارض کو توڑ دے گامگر امریکی حکومت نے اُن کے نظریہ کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کیلئے پینٹاگون کو ذمہ داری سونپی۔
پینٹاگون نے HAARP) High Frequency Active Auroral Research Program) پر کام شروع کیا اورا لاسکا سے 200 میل دور ایک انتہائی طاقتور ٹرانسمیٹر نصب کیا۔ 23 ایکڑ پلاٹ پر 180 ٹاورز پر 72میٹر لمبے انٹینا لگایے کئے جسکے ذریعہ تین بلین واٹ کی طاقت کی Electromagnetic wave) 2.5-10) میگا ہرٹز کی فریکوئنسی سے چھوڑی جاسکتی ہے۔ اس کے علاوہ امریکن اسٹار وارز، میزائل ڈیفنس اسکیم اور موسم میں اصلاح اور انسان کے ذہن کو قابو کرنے کے پروگراموں پر عملدرآمد کررہی ہے موسمی تغیرات پیدا کرنے کے لئے ایک کم مگر طے شدہ کرئہ ارض کے فضائی تہوں میں کہیں بھی جہاں موسمی تغیر لانا ہو سے وہ الاسکا کے اس اسٹیشن سے ڈالی جاسکتی ہے جو کئی سو میلوں کی قطر میں موسمی اصلاح کرسکتی ہے۔ HARRP کا Patentیعنی کاپی رایٹ نمبر 4,686,605 ہے، ساینسدان اس کوجلتی ہوئی شعاعی بندوق کہتے ہیں۔
اِس Patent کے مطابق یہ ایسا طریقہ اور Instrument ہے جو کرئہ ارض کے کسی Zone میں Weather Alternation پید اکردے اور ایسے جدید میزائل اور جہازوں کو روک دے یا اُن کا راستہ بدل دے، کسی ملک کے Satellite System میں مداخلت کرے یاریڈار سسٹم کو جام کردے یا اپنا نظام مسلط کردے۔ دوسروں کے انٹیلی جنس سگنل کو قابو میں کرے اور میزائل یا ایئر کرافٹ کو تباہ کردے۔ راستہ موڑ دے یا اس کو غیر موثر کردے یا کسی جہاز کو اونچائی پر لے جائے یا نیچے لے آئے۔ اس کا طریقہ پنٹنٹ(دنیا میں جو ایجادات ہوتی ہیں اس کو اپنے نام رجسٹرڈ کرنا ضروری ہوتا ہے جب یہ رجسٹرڈ ہوجاتا ہے تو پھر اس رجسٹر میں اس کی پوری تفصیل بیان کی جاتی ہے کہ یہ کیسے کام کرتا ہے) میں یہ لکھا ہے کہ ایک یا زیادہ ذرات کا مرغولہ بنا کر بالائی کرہ ارض کے قرینہ یا سانچے (Pattern) میں ڈال دے تو اس میں موسم میں تبدیلی لائی جاسکتی ہے۔ اس کو موسمی اصلاح کا نام دیا گیا۔ پنٹنٹ کے مطابق موسم میں شدت لانا یا تیزی یا گھٹنا، مصنوعی حدت پیدا کرنا، اس طرح بالائی کرئہ ارض میں تبدیلی لا کر طوفانی سانچہ یا سورج کی شعاعوں کو جذب کرنے کے قرینے کو تبدیل کیا جاسکتا ہے اور اس طرح وہ زمین کے کسی خطہ پر سورج کی انتہایی روشنی، حدت کو ڈالا جاسکتا ہے۔ اس نظام پر ایک کتاب Angles Don't play this Haarp" " جو دو سائنسدانوں JEANE MANNING اور Dr. NICK BEGICHنے لکھی ہے ،ا س کے مطابق کرئہ ارض کا اوپری قدرتی نظام جو سورج کی روشنی کی شعاؤں کے ضرر رساں اثرات کو جذب/چھان لیتا ہے ، مگر ہارپ کا مقصدIonosphere کواپنی مرض کے مطابق چلانا ہے، اس کو Ionospheric Heater کا نام بھی دیا گیا ہے۔ اسکے ذریعہ مصنوئی حدت یا اس میں کمی بیشی کی جاسکتی ہے۔ ہارپ کے بارے میں پہلی اطلاع 1958ء میں وہائٹ ہاؤس کے موسم کی اصلاح کے چیف ایڈوائزر Captain Howard نےیہ کہہ کر دی کہ امریکہ کرئہ ارض کے موسم کو ہیرپھیر کے ذریعہ متاثر کرنے پر تجربات کررہا ہے۔ اسی طرح 1986ء پروفیسر گورڈن جے ایف میکڈونلڈ نے ایک مقالہ لکھا کہ امریکہ ماحولیات کنٹرول ٹیکنالوجی کو ملٹری مقاصد کے حصول کے لئے تجربات کررہا ہے۔ یہ جغرافیائی جنگوں میں کام آئے گی اور قلیل مقدار کی انرجی سے ماحول کو غیر مستحکم کردے گا۔ اسی طرح 1997میں اس وقت کے امریکی وزیر دفاع ولیم کوہن نے بھی اس پروگرام کو متنازعہ قرار دیا تھا۔
امریکہ کی بدمعاشی اور کسی کو خاطر میں نہ لانا ایسے ہی نہیں ہے اس کے پیچھے اُس کی وہ سائنسی طاقت ہےجس میں فی الحال اس کا کویی مقابل نہیں ہےاور جس میں ایٹم بم ایک حقیر ہتھیار ہو کر رہ گیا ہے۔امریکی سائنسداں ہر وقت کام میں جتےرہتے ہیں جبکہ پاکستان میں سائنسدانوں کو مقید کرکے رکھا جاتا ہے، امریکی تجربہ گاہوں میں موسموں کا ہیرپھیر، آب و ہوا کی اصلاح، قطب جنوبی و قطب شمالی کے برف کو بڑی مقدار میں پگھلانا یا پگھلنے کو روکنا اوراوزون کی تہوں کو تراشنا، سمندر لہروں کو قابو کرنا، دماغی شعاعوں کو قبضہ کرنا، دو سیاروں کی انرجی فیلڈ پر کام ہورہا ہے۔ اسی وجہ سے 1970ء میں بززنسکی نے جہاں یہ کہا تھا کہ وہ دنیا کے طاقت کے محور کو امریکہ لے گئے ہیں اور اب کبھی یورو ایشیا میں نہیں آنے دیں گے۔ انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ زیادہ قابومیں رہنے والی اور ہدایت کے مطابق چلنے والی سوسائٹی ، امریکی ٹیکنالوجی کی ترقی کی وجہ سے ابھرے گی اور معاشرہ یا اس کرہ ارض کے لوگ اُن لوگوں کے حکم پر چلیں گے جو زیادہ سائنسی علم رکھتے ہوں گے۔ یہ عالم لوگ روایتی اور منافقانہ یا بے تعصبی سے قطع نظر اپنے جدید ترین تکنالوجی کو سیاسی عزائم کے حصول کے لئے بروئے کار لانے سے گریز نہیں کریں اور عوامی عادتوں اور معاشرہ کو کڑی نگرانی اور قابو میں رکھنے سے بھی دریغ نہیں کریں گے جس صورت پر کام کیا جارہا ہوگا اس پر تکنیکی اور سائنسی معیار اور مقدار متحرک کی جائے گی۔ ان کی یہ پیش گوئی آج صحیح ثابت ہورہی ہے۔ ج ایسے عوامل سامنے آرہے ہیں اور سائنس کو بروئے کار لا کر زلزلے، سونامی، موسم میں تغیر، جہازوں کے راستے، جہازوں کو گرایا جارہا ہے اور سیلاب لائے جارہے ہیں۔دراصل ہارپ امریکی فوج کا ایک ایسا پروگرام ہے جو کہ 2022
تک تمام دنیا میں امریکی تصرف کو یقینی بنانے کے لیئے استعمال کیا جاسکے۔
روس کے معروف سکالر اور معرف سٹریٹیجک کلچر فاونڈیشن کے نائب سربراہ آندرے اریشیف نے روس کے
جنگلوں میں لگنے والی آگ کو بھی امریکی ہارپ ٹیکنالوجی کا کارنامہ قرار دیا ہے۔
پاکستان میں موسم برسات میں عموماً مون سون کے بادل مشرق سے آتے ہیں اور سردیوں کی بارش کے مون سون مغرب سے، مگر اس دفعہ جس کی وجہ سے پاکستان میں تاریخ کا بدترین سیلاب آیا، جس سے پاکستان کی زرعی معیشت زمین بوس ہوگئی اور کروڑوں افراد بے گھر ہوگئے۔ مون سون کے بادل مشرق اور مغرب سے آئے اور وزیرستان و شمالی علاقہ جات میں آکر ٹکرا گئے، اب ایسا کیوں ہوا،، اسکے بعد ہم یہ سوچنے میں حق بجانب ہونگے کہ پاکستان میں جو بد ترین بارش ہوئی اور ہیبتناک طوفان آیایا قدرتی موسمی تغیرات اس کی وجہ ہیں، یہ کسی انسانی عمل سے یہ تغیر پیدا ہوا، اس بات کے امکانات موجودہیں کہ یہ تبدیلی طور ہتھیار استعمال کی گئی، ایک خاص خطہ پر دو مون سون کو ٹکرا کر تباہی لائی گئی، اسکے بعد شبہات بڑھ گئے ہیں کہ 2005ء کا زلزلہ بھی زمینی پلیٹوں میں تبدیلی کرکے لایا گیا ہو، اِس بات پر بھی شک ہے کہ ایئر بلیو کی فلائٹ کے انجن کو کسی شعاع کے ذریعہ پگھلا دیا گیا اور سونامی بھی سمندری لہروں کو قابو کرنے کے کسی تجربہ کی بناء پر آیا ہو۔ ایسا کیوں کیا جارہا ہے ؟ کیا ہم ان سائنسی ایجاد کے پہلے ہدف ہیں اور ہمیں زیادہ مطیع بنانے کی کوشش کی جارہی ہے یا ہمارے ایٹمی اثاثہ جات کو ٹھکانے لگانا مقصود ہے۔ ایسا کرنے کیلئے ، یہ کہا جاسکتا ہے کہ دو وار کئے جاچکے ہیں، ایک زلزلہ اور دوسرا سیلاب۔
کیا اس کے بعد بھی یہ شک رہ جاتا ہے کہ کوہاٹ کی پہاڑیوں میںپاک فضائیہ کے ایئر مارشل مصحف علی میر کا قتل اور ایئر بلیو کا مارگلہ کی پہاڑیوں سے ٹکرا جاناسونامی کا طوفان،2005کا زلزلہ 9/11اور پھر دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیئے کہ یہ طوفان اور سیلاب امریکہ میں بھی آسکتے ہیں بلکہ یہ امریکہ میں آنے والے سیلاب تو دنیا کی نظروں میں دھول جھونکنے کے لیئے تھے ۔ جن میں ہری کین (سمندری ہوائی طوفان)‘ قطرینہ‘ ڈینس‘ امیلی‘ ریٹا کا ڈرامہ رچایا گیا۔۔۔۔کیا سب قدرتی حادثات تھے۔؟؟؟؟؟؟؟؟؟۔
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کے چیئرمین سینیٹر طلحہ محمود نے اس بات کا سختی سے نوٹس لیا ہے کہ پاکستان سٹیٹ آئل نے پٹرول پمپوں کے لیئے اسرائیلی سافٹ ویئرز کی خریداری کی ہے ۔ترپاک نامی کمپنی دراصل اورپاک کمپنی کی ذیلی شاخ ہے جس کی ایک شاخ بھارت میں بھی ہے بھارتی سرمایہ کاروں نے اس کمپنی پر بھاری سرمایہ کاری کی ہے اس کمپنی کا چیف ایگزیکٹو اور صدر ہیم کوہن ہے اور منیجنگ ڈائریکٹر تان ہم اورین ہے جو اسرائیلی ملٹری انڈسٹریز کا سربراہ رہا ہے اور آج کل اورپاک سمیت تمام اس کے تمام ذیلی اداروں کی نگرانی کرتا ہے یہ تمام ادارے دراصل اسرائیلی ملٹری انڈسٹریز کی غیر سرکاری شاخیں ہیں جو کہ دنیا بھر میں اپنی جاسوسی کے آلات پھیلاتی ہیں ۔
پاکستان میںپٹرول پمپوں پر نگرانی کے لیئے جوآلات نصب کیئے گئے اس پر اسرائیل کی مہریں ہیں اور جو
سافٹ ویئر کمپیوٹر میں فیڈ ہے اس کی زبان انگریزی کی بجائے عبرانی ہے کیا مارگلہ کی پہاڑیوں سے طیارے کا ٹکرا جانا اور سیلاب کا آنا کسی عبرانی زبان میں دی جانے والی ہدایات یا کنٹرول کرنے والی ٹیکنالوجی کا نتیجہ تو نہیں ہے ذرا سوچیے؟؟؟؟؟؟
محہ فکریہ:: کیا اس سیلاب سے پاکستان داخلی اور خارجی طور پر پرمزید کمزور نہ ہوجایے گا اس کی وجہ یہ ہے کہ اس وقت انکل سام کے 20 ہیلی کوپٹر اور 700 فوجی بھی امدادی کاروا یوں میں مصروف ہیں 2005کے زلزلے میں بھی امریکہ نے امداد کے ساتھ ساتھ امدادی کاروایوں کے لیے اپاچی اور کوبرا ہیلی کوپٹر بھیجے تھے یہ ہیلی کوپٹر دو ماہ تک اسلام آباد سے لیکر گلگت اور اور بالاکوٹ اور مظفر آباد تک پروازیں کرتے رہے ۔ان ہیلی کوپٹرز نے شمالی علاقوں کا کونہ کونہ چھان مارا اور سوات سے لیکر پشاور تک اور لاہور سے اسلام آباد تک بلاخوف و خطر دندناتے پھرتے نظر آتے ہیں یہاں تک کہ چترال اور کالام کے بعض پسماندہ ترین علاقوں سے بھی کچھ امریکیوں کو کو گرفتار کیا گیا جو ادھر ملک دشمن سرگرمیوں میں مصروف کار تھے ۔اس کے علاوہ اس زلزلے میں درجنوں امریکی امدادی ٹیمیں این جی اوز کی شکل میں کام کرتی رہیں اور ساتھ ساتھ امریکہ کی خفیہ ایجنسیوں کے لیے بھی کام کرتی ہیں اور تو اور سوات اور بالا کوٹ سے ایسے بروشرز اور پمفلٹ بھی پکڑے گیے جس میں لوگوں کو عیسایت کی تبلیغ دی جاتی تھی ۔یہ بنیادی طور پر اسلام اور پاکستان کے خلاف امریکہ کی سازش ہے ایک طرف تو یہ لوگ آفات میں گھرے ہویے لوگوں کی امداد کرتے ہیں اور دوسری طرف اسلام دشمن اور وطن دشمن سرگرمیوں میں مصروف رہتے ہیں 2005کے زلزلے میں طاغوتی قوتوں نے فایدہ اٹھایا اور امداد دینے کے بہانے ملک کے شمالی علاقہ جات کا چپہ چپہ چھان مارا اور اب یہی کھیل پنجاب سندھ اور بلوچستان میں کھیلا جایے گا ۔
اسوقت پاکستان ناران سے لیکر پشاور تک اور کویٹہ سے لیکر روہڑی تک پانی میں گھرا ہوا ہے کروڑوں لوگ مشکلات میں مبتلا ہیں اور امریکی ہیلی کوپٹر ز اور کمانڈوز پورے ملک میں کھلے عام پھر رہے ہیں یہ کیا چاہیتے ہیں ؟؟؟؟؟؟
یہ پاکستان کو کیوں کھنگالنا چاہتے ہیں کیا یہ کسی بڑے آپریشن سے پہلے ریکی کررہے ہیں یا پاکستان کےسنگلاخ پہاڑوں اور چٹیل میدانوں کا جایزہ لے رہے ہیں کہ ایٹمی پروگرام کا درست اور صحیح محل وقوع معلوم کرسکیں۔
روحانی تبصرہ: ہارپ پروگرام کا روح رواں Extremely Low Frequency Wavesہے کوشش کرونگا کہ اس کو عام فہم طور پر اپنے خطے کی مثالوں اور علم الاسماء کی روشنی میں بیان کروں۔
ساینس یہ کہتی ہے کہ دو ہم آہنگ سروں کے ملنے کا نام فریکوینسی ہے۔
ہماری موسیقی میں کل سات سُر ہیں اور عام طور پر مشہور 36 راگنیاں ہیں اور جیسا کہ مشہور ہے کہ دربار اکبری میں تان سین نے دیپک راگ گا کر آگ لگا دی تھی۔ بقول شاعر
شعلہ سا چمک جایے ہے آواز تو دیکھو
اس غیرت ناہید کی ہر تان ہے دیپک
اور مشہور ہے کہ راگ ملہار کے گانے سے بارش ہوجاتی ہے یہ سب کیا ہے یہ راگوں کی مخصوص فریکوینسیوں کا تسلسل ہے۔
اسی طرح اسلام آباد میں ایک سنٹر ہے جو کہ بیماریوں کا روحانی علاج کرتا ہے اور اکثر ٹیلیوژن پر اس کا پروگرام بھی آتا ہے جس میں سورہ رحمٰن قاری باسط کی آواز میں سنائی جاتی ہے۔
آیے اس پرروحانی روشنی ڈالتے ہیں کہ یہ سب کیا ہے۔
ر لفظ ایک Unite یا Atom ہے جیسا کہ اندرونی جذبات کی تجلیاں برقیاتی ہیں اور اس کے اثرات اس عالم خاکی اورعالم لطیف یعنی cosmic world اور Astral World دونوں میں نمودار ہوتے ہیں اور Cosmic Vibrations توساینس کی ایک تسلیم شدہ حقیقت بن چکی ہے ایتھر(cosmic world) جو کہ حقیقت انسانیہ کی جہتوں میں سے ایک جہت ہے نہایت حساس چیز ہے جس میں نہ صرف بجلیوں کی کڑک، طیارے کی پروازاور ریل گاڑی کی حرکت سے لہریں اٹھتی ہیں بلکہ ایک ہلکی سی آواز اور رباب کی جنبش سے بھی ہیجان پیدا ہوتا ہے۔ (اہل روحانیت اس کو فرشتہ میططرون بھی کہتے ہیں)۔
ماہرین روح کی تازہ ترین تحقیق یہ ہے کہ آواز تو رہی ایک طرف بلکہ ارادرہ اور خیال سے لہریں (تموج) اٹھنے لگتی ہیں Cosmic Vibrationsکے ذریعے انسان روحانیت سے رابطے کرسکتا ہے اور جن فرشتوں اور فوت شدگان سے مل سکتا ہے۔
Emotional Energy یعنی جذبات کی قوت Cosmic World میں زبردست لہریں پیدا کرتی ہیں جب یہ لہریں فیض رساں قوتوں سے ٹکراتی ہیں تو یا تو خود وہ قوتیں ہماری مدد کے لیے آجاتی ہیں یا پھر طاقتور خیالات کی لہریں وہاں سے چھوڑتی ہیں جو ہمارے دماغ سے ٹکرا کر ایک ایسی تجویز کی شکل اختیار کرلیتی ہیں جس پر عمل پیرا ہوکر ہماری تکلیف دور ہوجاتی ہیں۔
جیسے کسی مشکل کے وقت گیٹیوں کا ختم کیا جاتا ہے جس میں سوالاکھ بار لاالٰہ الا انت سبحانک انی کنت من الظالمین پڑھا جاتا ہے تو مشاہدے میں آیا ہے کہ مشکل حل ہوجاتی ہے۔ یا پھر خود آکر مدد کرنے کا ایک واقعہ جو کہ زید بن حارثہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے منسوب ہے۔
حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کو ایک مرتبہ ایک لٹیرے نے گھیر لیا جب قتل کا ارادہ کیا تو آپ نے دورکعت نماز کی اجازت چاہی تو لٹیرے نے کہا کہ جتنے لوگوں کو میں اس ویرانے میں قتل کرچکا ہوں سب نے دعا کی ہے لیکن کویی فایدہ نہیں ہوا تو بھی پڑھ لے آپ نے دورکعت نماز کے بعد یہ کلمات پڑھے اللہم یا ودود یا ودود یا ودود یا ذالعرش المجید یا مبدی یا معید یا فعال لما یرید اسءلک بنور وجھک الذی ملاء ارکان عرشک وبقدرتک التی قدرت بھا علیٰ جمیع خلقک وبرحمتک التی وسعت کل شءی لا الٰہ الا انت یا غیاث المستغثین اغثنی۔ جیسے ہی لٹیرا ان کو قتل کرنے کے لیے آگے بڑھا تو پیچھے سے کسی نے آواز دی کہ تیرا مقابل یہ نہیں میں ہوں جب لٹیرے نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو ایک گھڑ سوار کھڑا تھا اتنے میں وہ گھڑ سوار آگے بڑھا اور ایک ہی وار میں لٹیرے کے دو ٹکڑے کرڈالے اور زید بن حارثہ سے کہنے لگا کہ جب تو نے پہلی مرتبہ دعا پڑھی تو جبرایل نے کہا کہ کون اس بے کس کی مدد کو جایے گا تو میں نے کہا کہ میں جاتا ہوں اسوقت میں ساتویں آسمان پر تھا جب تو نے دوسری بار یہ دعا پڑھی تو میں آسمان دنیا پر تھا اور جب تونے تیسری بار یہ دعا پڑھی تو میں تیرے پاس تھا۔
ہر لفظ Energy کا Unite ہے ہمارا ہر جملہ قوت کا ایک خزانہ و ذخیرہ ہے ایک مخصوص Vibration یا Radiation ہمارے منہ سے نکلتی ہے اور ایک اثر پیدا کردیتی یے کیونکہ اس کا کاسمک ورلڈ میں ایک مقام ہے۔
غرض ہر جذبہ محبت،رحم،خوف خدا،مروت،خوش خلقی،قناعت،شرم وحیا،دانائی،پارسائی،بے طمعی، صبر، بردباری،درگزر، استقلال، صالحیت، اللہ کی عبادت،گدازاور نیاز سے جسم میں ایسی رطوبتیں پیدا ہوتی ہیں جو کہ اس کے گرد نور کا ایک ہالہ (دائرہ)بنا دیتی ہیں جو نظر تو نہیں آتا لیکن اس کو محسوس کیا جاسکتا ہے ایسے شخص کے پاس جو بھی بیٹھتا ہے اس دائرے کی مقناطیسی کشش روحانی بیماریوں یعنی اخلاق رذیلہ کے اثرات کو زائل کردیتی ہیں اوراگر اس کے پاس بار بار بیٹھا جائے تو گناہ کے تباہ کن اثرات کو ختم کردیتی ہے۔آپ لوگوں کا مشاہدہ ہوگا کہ ایسے بندے کے پاس خواہ مخواہ بیٹھنے کو جی چاہتا ہے اور جو اس کے برعکس ہوتا ہے اس سے
ہرانسان بھاگتا ہے۔
یک زمانہ صحبت بااولیاء
بہتر است صد سالہ طاعت بے ریا
مریکہ میں 1993سے اس کی ریاست الاسکا میں ایک پروگرام ام HAARP کے نام سے چل رہا ہے اور اس پروگرام کو امریکہ کی ریاست الاسکا میں لانچ کیا گیا ہے اور تقریباً 30 ایکڑ زمین اس کو الاٹ کی گٰی ہے یہ جدید ترین ٹیکنالوجی ہے جس میں وہ Technology Latest Weather Modificationپرعمل کررہا ہے اور اس پر اس نے عبور بھی حاصل کرلیا ہے اور اس پروگرام کا نام ہے High Frequency Active Auroral Research Program الاسکا میں جدھر اسکا پروگرام چل رہا ہے ادھر Antennas کا جال بچھا دیا گیا ہے اور ELF یعنی Extremely Low Frequency لہریں ان Antennas کے ذریعے پیدا کی جاتی ہے اور یہ Wavesخلا میں بھیجی جاتی ہیں اور خلا کی سب سے جو Outer Sphere جس کو Ionosphere کہتے ہیں اس سے یہ Waves ایک خاص فرینکوینسی کے ساتھ ٹکراتی ہیں اور پھر بہت زیادہ طاقتور ہوکر دوبارہ زمین کی طرف پلٹ کر آتی ہیں لیکن جب یہ پلٹ کر واپش آتی ہیں تو ان کو کنٹرول کرکے اپنے مقاصد کے حصول کے لیے استعمال کیا جاتا ہے یعنی قدرتی طور پر جو موسم چل رہا ہے اس کو تبدیل کرنا اور اس کی تفصیل اتنی خوفناک ہے کہ انسان خوفزدہ ہوجاتا ہے یعنی کسی بھی ملک میں درجہ حرارت کو زیادہ کردینا زلزلے پیدا کرنا اور اتنی بارشیں کروانا کہ سیلاب آجاٗےاور جنگلات میں آگ لگادینا۔
22 ستمبر 1940ء میں امریکی سائنسدان نیکولاٹیسلا نے نیویارک ٹایمز میں ایک تھیوری پیش کیجس کا خلاصہ یہ ہے کہ موسم میں ایسے تغیرات لا ئے جا سکتے ہیں جو بارش برسا سکتے ہیں اور زلزلہ لاسکتے ہیں یا کسی جہاز کے انجن کو کسی خاص جگہ سے 250 کلومیٹر پہلے ہی ایک چھوٹی سی شعاع سے پگھلا یا جاسکتاہے، کسی خاص ملک خطہ یا علاقے کے گرد شعاعوں کا دیوار چین جیسا حصار قائم کیا جاسکتا ہے مگر معروف امریکی سائنسدانوں نے اس نظریہ کو یہ کہہ کر مشہور نہیں ہونے دیا کہ اُن کے نظریہ کو قبول کرلیا جائے تو کرئہ ارض کو توڑ دے گامگر امریکی حکومت نے اُن کے نظریہ کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کیلئے پینٹاگون کو ذمہ داری سونپی۔
پینٹاگون نے HAARP) High Frequency Active Auroral Research Program) پر کام شروع کیا اورا لاسکا سے 200 میل دور ایک انتہائی طاقتور ٹرانسمیٹر نصب کیا۔ 23 ایکڑ پلاٹ پر 180 ٹاورز پر 72میٹر لمبے انٹینا لگایے کئے جسکے ذریعہ تین بلین واٹ کی طاقت کی Electromagnetic wave) 2.5-10) میگا ہرٹز کی فریکوئنسی سے چھوڑی جاسکتی ہے۔ اس کے علاوہ امریکن اسٹار وارز، میزائل ڈیفنس اسکیم اور موسم میں اصلاح اور انسان کے ذہن کو قابو کرنے کے پروگراموں پر عملدرآمد کررہی ہے موسمی تغیرات پیدا کرنے کے لئے ایک کم مگر طے شدہ کرئہ ارض کے فضائی تہوں میں کہیں بھی جہاں موسمی تغیر لانا ہو سے وہ الاسکا کے اس اسٹیشن سے ڈالی جاسکتی ہے جو کئی سو میلوں کی قطر میں موسمی اصلاح کرسکتی ہے۔ HARRP کا Patentیعنی کاپی رایٹ نمبر 4,686,605 ہے، ساینسدان اس کوجلتی ہوئی شعاعی بندوق کہتے ہیں۔
اِس Patent کے مطابق یہ ایسا طریقہ اور Instrument ہے جو کرئہ ارض کے کسی Zone میں Weather Alternation پید اکردے اور ایسے جدید میزائل اور جہازوں کو روک دے یا اُن کا راستہ بدل دے، کسی ملک کے Satellite System میں مداخلت کرے یاریڈار سسٹم کو جام کردے یا اپنا نظام مسلط کردے۔ دوسروں کے انٹیلی جنس سگنل کو قابو میں کرے اور میزائل یا ایئر کرافٹ کو تباہ کردے۔ راستہ موڑ دے یا اس کو غیر موثر کردے یا کسی جہاز کو اونچائی پر لے جائے یا نیچے لے آئے۔ اس کا طریقہ پنٹنٹ(دنیا میں جو ایجادات ہوتی ہیں اس کو اپنے نام رجسٹرڈ کرنا ضروری ہوتا ہے جب یہ رجسٹرڈ ہوجاتا ہے تو پھر اس رجسٹر میں اس کی پوری تفصیل بیان کی جاتی ہے کہ یہ کیسے کام کرتا ہے) میں یہ لکھا ہے کہ ایک یا زیادہ ذرات کا مرغولہ بنا کر بالائی کرہ ارض کے قرینہ یا سانچے (Pattern) میں ڈال دے تو اس میں موسم میں تبدیلی لائی جاسکتی ہے۔ اس کو موسمی اصلاح کا نام دیا گیا۔ پنٹنٹ کے مطابق موسم میں شدت لانا یا تیزی یا گھٹنا، مصنوعی حدت پیدا کرنا، اس طرح بالائی کرئہ ارض میں تبدیلی لا کر طوفانی سانچہ یا سورج کی شعاعوں کو جذب کرنے کے قرینے کو تبدیل کیا جاسکتا ہے اور اس طرح وہ زمین کے کسی خطہ پر سورج کی انتہایی روشنی، حدت کو ڈالا جاسکتا ہے۔ اس نظام پر ایک کتاب Angles Don't play this Haarp" " جو دو سائنسدانوں JEANE MANNING اور Dr. NICK BEGICHنے لکھی ہے ،ا س کے مطابق کرئہ ارض کا اوپری قدرتی نظام جو سورج کی روشنی کی شعاؤں کے ضرر رساں اثرات کو جذب/چھان لیتا ہے ، مگر ہارپ کا مقصدIonosphere کواپنی مرض کے مطابق چلانا ہے، اس کو Ionospheric Heater کا نام بھی دیا گیا ہے۔ اسکے ذریعہ مصنوئی حدت یا اس میں کمی بیشی کی جاسکتی ہے۔ ہارپ کے بارے میں پہلی اطلاع 1958ء میں وہائٹ ہاؤس کے موسم کی اصلاح کے چیف ایڈوائزر Captain Howard نےیہ کہہ کر دی کہ امریکہ کرئہ ارض کے موسم کو ہیرپھیر کے ذریعہ متاثر کرنے پر تجربات کررہا ہے۔ اسی طرح 1986ء پروفیسر گورڈن جے ایف میکڈونلڈ نے ایک مقالہ لکھا کہ امریکہ ماحولیات کنٹرول ٹیکنالوجی کو ملٹری مقاصد کے حصول کے لئے تجربات کررہا ہے۔ یہ جغرافیائی جنگوں میں کام آئے گی اور قلیل مقدار کی انرجی سے ماحول کو غیر مستحکم کردے گا۔ اسی طرح 1997میں اس وقت کے امریکی وزیر دفاع ولیم کوہن نے بھی اس پروگرام کو متنازعہ قرار دیا تھا۔
امریکہ کی بدمعاشی اور کسی کو خاطر میں نہ لانا ایسے ہی نہیں ہے اس کے پیچھے اُس کی وہ سائنسی طاقت ہےجس میں فی الحال اس کا کویی مقابل نہیں ہےاور جس میں ایٹم بم ایک حقیر ہتھیار ہو کر رہ گیا ہے۔امریکی سائنسداں ہر وقت کام میں جتےرہتے ہیں جبکہ پاکستان میں سائنسدانوں کو مقید کرکے رکھا جاتا ہے، امریکی تجربہ گاہوں میں موسموں کا ہیرپھیر، آب و ہوا کی اصلاح، قطب جنوبی و قطب شمالی کے برف کو بڑی مقدار میں پگھلانا یا پگھلنے کو روکنا اوراوزون کی تہوں کو تراشنا، سمندر لہروں کو قابو کرنا، دماغی شعاعوں کو قبضہ کرنا، دو سیاروں کی انرجی فیلڈ پر کام ہورہا ہے۔ اسی وجہ سے 1970ء میں بززنسکی نے جہاں یہ کہا تھا کہ وہ دنیا کے طاقت کے محور کو امریکہ لے گئے ہیں اور اب کبھی یورو ایشیا میں نہیں آنے دیں گے۔ انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ زیادہ قابومیں رہنے والی اور ہدایت کے مطابق چلنے والی سوسائٹی ، امریکی ٹیکنالوجی کی ترقی کی وجہ سے ابھرے گی اور معاشرہ یا اس کرہ ارض کے لوگ اُن لوگوں کے حکم پر چلیں گے جو زیادہ سائنسی علم رکھتے ہوں گے۔ یہ عالم لوگ روایتی اور منافقانہ یا بے تعصبی سے قطع نظر اپنے جدید ترین تکنالوجی کو سیاسی عزائم کے حصول کے لئے بروئے کار لانے سے گریز نہیں کریں اور عوامی عادتوں اور معاشرہ کو کڑی نگرانی اور قابو میں رکھنے سے بھی دریغ نہیں کریں گے جس صورت پر کام کیا جارہا ہوگا اس پر تکنیکی اور سائنسی معیار اور مقدار متحرک کی جائے گی۔ ان کی یہ پیش گوئی آج صحیح ثابت ہورہی ہے۔ ج ایسے عوامل سامنے آرہے ہیں اور سائنس کو بروئے کار لا کر زلزلے، سونامی، موسم میں تغیر، جہازوں کے راستے، جہازوں کو گرایا جارہا ہے اور سیلاب لائے جارہے ہیں۔دراصل ہارپ امریکی فوج کا ایک ایسا پروگرام ہے جو کہ 2022
تک تمام دنیا میں امریکی تصرف کو یقینی بنانے کے لیئے استعمال کیا جاسکے۔
روس کے معروف سکالر اور معرف سٹریٹیجک کلچر فاونڈیشن کے نائب سربراہ آندرے اریشیف نے روس کے
جنگلوں میں لگنے والی آگ کو بھی امریکی ہارپ ٹیکنالوجی کا کارنامہ قرار دیا ہے۔
پاکستان میں موسم برسات میں عموماً مون سون کے بادل مشرق سے آتے ہیں اور سردیوں کی بارش کے مون سون مغرب سے، مگر اس دفعہ جس کی وجہ سے پاکستان میں تاریخ کا بدترین سیلاب آیا، جس سے پاکستان کی زرعی معیشت زمین بوس ہوگئی اور کروڑوں افراد بے گھر ہوگئے۔ مون سون کے بادل مشرق اور مغرب سے آئے اور وزیرستان و شمالی علاقہ جات میں آکر ٹکرا گئے، اب ایسا کیوں ہوا،، اسکے بعد ہم یہ سوچنے میں حق بجانب ہونگے کہ پاکستان میں جو بد ترین بارش ہوئی اور ہیبتناک طوفان آیایا قدرتی موسمی تغیرات اس کی وجہ ہیں، یہ کسی انسانی عمل سے یہ تغیر پیدا ہوا، اس بات کے امکانات موجودہیں کہ یہ تبدیلی طور ہتھیار استعمال کی گئی، ایک خاص خطہ پر دو مون سون کو ٹکرا کر تباہی لائی گئی، اسکے بعد شبہات بڑھ گئے ہیں کہ 2005ء کا زلزلہ بھی زمینی پلیٹوں میں تبدیلی کرکے لایا گیا ہو، اِس بات پر بھی شک ہے کہ ایئر بلیو کی فلائٹ کے انجن کو کسی شعاع کے ذریعہ پگھلا دیا گیا اور سونامی بھی سمندری لہروں کو قابو کرنے کے کسی تجربہ کی بناء پر آیا ہو۔ ایسا کیوں کیا جارہا ہے ؟ کیا ہم ان سائنسی ایجاد کے پہلے ہدف ہیں اور ہمیں زیادہ مطیع بنانے کی کوشش کی جارہی ہے یا ہمارے ایٹمی اثاثہ جات کو ٹھکانے لگانا مقصود ہے۔ ایسا کرنے کیلئے ، یہ کہا جاسکتا ہے کہ دو وار کئے جاچکے ہیں، ایک زلزلہ اور دوسرا سیلاب۔
کیا اس کے بعد بھی یہ شک رہ جاتا ہے کہ کوہاٹ کی پہاڑیوں میںپاک فضائیہ کے ایئر مارشل مصحف علی میر کا قتل اور ایئر بلیو کا مارگلہ کی پہاڑیوں سے ٹکرا جاناسونامی کا طوفان،2005کا زلزلہ 9/11اور پھر دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیئے کہ یہ طوفان اور سیلاب امریکہ میں بھی آسکتے ہیں بلکہ یہ امریکہ میں آنے والے سیلاب تو دنیا کی نظروں میں دھول جھونکنے کے لیئے تھے ۔ جن میں ہری کین (سمندری ہوائی طوفان)‘ قطرینہ‘ ڈینس‘ امیلی‘ ریٹا کا ڈرامہ رچایا گیا۔۔۔۔کیا سب قدرتی حادثات تھے۔؟؟؟؟؟؟؟؟؟۔
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کے چیئرمین سینیٹر طلحہ محمود نے اس بات کا سختی سے نوٹس لیا ہے کہ پاکستان سٹیٹ آئل نے پٹرول پمپوں کے لیئے اسرائیلی سافٹ ویئرز کی خریداری کی ہے ۔ترپاک نامی کمپنی دراصل اورپاک کمپنی کی ذیلی شاخ ہے جس کی ایک شاخ بھارت میں بھی ہے بھارتی سرمایہ کاروں نے اس کمپنی پر بھاری سرمایہ کاری کی ہے اس کمپنی کا چیف ایگزیکٹو اور صدر ہیم کوہن ہے اور منیجنگ ڈائریکٹر تان ہم اورین ہے جو اسرائیلی ملٹری انڈسٹریز کا سربراہ رہا ہے اور آج کل اورپاک سمیت تمام اس کے تمام ذیلی اداروں کی نگرانی کرتا ہے یہ تمام ادارے دراصل اسرائیلی ملٹری انڈسٹریز کی غیر سرکاری شاخیں ہیں جو کہ دنیا بھر میں اپنی جاسوسی کے آلات پھیلاتی ہیں ۔
پاکستان میںپٹرول پمپوں پر نگرانی کے لیئے جوآلات نصب کیئے گئے اس پر اسرائیل کی مہریں ہیں اور جو
سافٹ ویئر کمپیوٹر میں فیڈ ہے اس کی زبان انگریزی کی بجائے عبرانی ہے کیا مارگلہ کی پہاڑیوں سے طیارے کا ٹکرا جانا اور سیلاب کا آنا کسی عبرانی زبان میں دی جانے والی ہدایات یا کنٹرول کرنے والی ٹیکنالوجی کا نتیجہ تو نہیں ہے ذرا سوچیے؟؟؟؟؟؟
محہ فکریہ:: کیا اس سیلاب سے پاکستان داخلی اور خارجی طور پر پرمزید کمزور نہ ہوجایے گا اس کی وجہ یہ ہے کہ اس وقت انکل سام کے 20 ہیلی کوپٹر اور 700 فوجی بھی امدادی کاروا یوں میں مصروف ہیں 2005کے زلزلے میں بھی امریکہ نے امداد کے ساتھ ساتھ امدادی کاروایوں کے لیے اپاچی اور کوبرا ہیلی کوپٹر بھیجے تھے یہ ہیلی کوپٹر دو ماہ تک اسلام آباد سے لیکر گلگت اور اور بالاکوٹ اور مظفر آباد تک پروازیں کرتے رہے ۔ان ہیلی کوپٹرز نے شمالی علاقوں کا کونہ کونہ چھان مارا اور سوات سے لیکر پشاور تک اور لاہور سے اسلام آباد تک بلاخوف و خطر دندناتے پھرتے نظر آتے ہیں یہاں تک کہ چترال اور کالام کے بعض پسماندہ ترین علاقوں سے بھی کچھ امریکیوں کو کو گرفتار کیا گیا جو ادھر ملک دشمن سرگرمیوں میں مصروف کار تھے ۔اس کے علاوہ اس زلزلے میں درجنوں امریکی امدادی ٹیمیں این جی اوز کی شکل میں کام کرتی رہیں اور ساتھ ساتھ امریکہ کی خفیہ ایجنسیوں کے لیے بھی کام کرتی ہیں اور تو اور سوات اور بالا کوٹ سے ایسے بروشرز اور پمفلٹ بھی پکڑے گیے جس میں لوگوں کو عیسایت کی تبلیغ دی جاتی تھی ۔یہ بنیادی طور پر اسلام اور پاکستان کے خلاف امریکہ کی سازش ہے ایک طرف تو یہ لوگ آفات میں گھرے ہویے لوگوں کی امداد کرتے ہیں اور دوسری طرف اسلام دشمن اور وطن دشمن سرگرمیوں میں مصروف رہتے ہیں 2005کے زلزلے میں طاغوتی قوتوں نے فایدہ اٹھایا اور امداد دینے کے بہانے ملک کے شمالی علاقہ جات کا چپہ چپہ چھان مارا اور اب یہی کھیل پنجاب سندھ اور بلوچستان میں کھیلا جایے گا ۔
اسوقت پاکستان ناران سے لیکر پشاور تک اور کویٹہ سے لیکر روہڑی تک پانی میں گھرا ہوا ہے کروڑوں لوگ مشکلات میں مبتلا ہیں اور امریکی ہیلی کوپٹر ز اور کمانڈوز پورے ملک میں کھلے عام پھر رہے ہیں یہ کیا چاہیتے ہیں ؟؟؟؟؟؟
یہ پاکستان کو کیوں کھنگالنا چاہتے ہیں کیا یہ کسی بڑے آپریشن سے پہلے ریکی کررہے ہیں یا پاکستان کےسنگلاخ پہاڑوں اور چٹیل میدانوں کا جایزہ لے رہے ہیں کہ ایٹمی پروگرام کا درست اور صحیح محل وقوع معلوم کرسکیں۔
روحانی تبصرہ: ہارپ پروگرام کا روح رواں Extremely Low Frequency Wavesہے کوشش کرونگا کہ اس کو عام فہم طور پر اپنے خطے کی مثالوں اور علم الاسماء کی روشنی میں بیان کروں۔
ساینس یہ کہتی ہے کہ دو ہم آہنگ سروں کے ملنے کا نام فریکوینسی ہے۔
ہماری موسیقی میں کل سات سُر ہیں اور عام طور پر مشہور 36 راگنیاں ہیں اور جیسا کہ مشہور ہے کہ دربار اکبری میں تان سین نے دیپک راگ گا کر آگ لگا دی تھی۔ بقول شاعر
شعلہ سا چمک جایے ہے آواز تو دیکھو
اس غیرت ناہید کی ہر تان ہے دیپک
اور مشہور ہے کہ راگ ملہار کے گانے سے بارش ہوجاتی ہے یہ سب کیا ہے یہ راگوں کی مخصوص فریکوینسیوں کا تسلسل ہے۔
اسی طرح اسلام آباد میں ایک سنٹر ہے جو کہ بیماریوں کا روحانی علاج کرتا ہے اور اکثر ٹیلیوژن پر اس کا پروگرام بھی آتا ہے جس میں سورہ رحمٰن قاری باسط کی آواز میں سنائی جاتی ہے۔
آیے اس پرروحانی روشنی ڈالتے ہیں کہ یہ سب کیا ہے۔
ر لفظ ایک Unite یا Atom ہے جیسا کہ اندرونی جذبات کی تجلیاں برقیاتی ہیں اور اس کے اثرات اس عالم خاکی اورعالم لطیف یعنی cosmic world اور Astral World دونوں میں نمودار ہوتے ہیں اور Cosmic Vibrations توساینس کی ایک تسلیم شدہ حقیقت بن چکی ہے ایتھر(cosmic world) جو کہ حقیقت انسانیہ کی جہتوں میں سے ایک جہت ہے نہایت حساس چیز ہے جس میں نہ صرف بجلیوں کی کڑک، طیارے کی پروازاور ریل گاڑی کی حرکت سے لہریں اٹھتی ہیں بلکہ ایک ہلکی سی آواز اور رباب کی جنبش سے بھی ہیجان پیدا ہوتا ہے۔ (اہل روحانیت اس کو فرشتہ میططرون بھی کہتے ہیں)۔
ماہرین روح کی تازہ ترین تحقیق یہ ہے کہ آواز تو رہی ایک طرف بلکہ ارادرہ اور خیال سے لہریں (تموج) اٹھنے لگتی ہیں Cosmic Vibrationsکے ذریعے انسان روحانیت سے رابطے کرسکتا ہے اور جن فرشتوں اور فوت شدگان سے مل سکتا ہے۔
Emotional Energy یعنی جذبات کی قوت Cosmic World میں زبردست لہریں پیدا کرتی ہیں جب یہ لہریں فیض رساں قوتوں سے ٹکراتی ہیں تو یا تو خود وہ قوتیں ہماری مدد کے لیے آجاتی ہیں یا پھر طاقتور خیالات کی لہریں وہاں سے چھوڑتی ہیں جو ہمارے دماغ سے ٹکرا کر ایک ایسی تجویز کی شکل اختیار کرلیتی ہیں جس پر عمل پیرا ہوکر ہماری تکلیف دور ہوجاتی ہیں۔
جیسے کسی مشکل کے وقت گیٹیوں کا ختم کیا جاتا ہے جس میں سوالاکھ بار لاالٰہ الا انت سبحانک انی کنت من الظالمین پڑھا جاتا ہے تو مشاہدے میں آیا ہے کہ مشکل حل ہوجاتی ہے۔ یا پھر خود آکر مدد کرنے کا ایک واقعہ جو کہ زید بن حارثہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے منسوب ہے۔
حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کو ایک مرتبہ ایک لٹیرے نے گھیر لیا جب قتل کا ارادہ کیا تو آپ نے دورکعت نماز کی اجازت چاہی تو لٹیرے نے کہا کہ جتنے لوگوں کو میں اس ویرانے میں قتل کرچکا ہوں سب نے دعا کی ہے لیکن کویی فایدہ نہیں ہوا تو بھی پڑھ لے آپ نے دورکعت نماز کے بعد یہ کلمات پڑھے اللہم یا ودود یا ودود یا ودود یا ذالعرش المجید یا مبدی یا معید یا فعال لما یرید اسءلک بنور وجھک الذی ملاء ارکان عرشک وبقدرتک التی قدرت بھا علیٰ جمیع خلقک وبرحمتک التی وسعت کل شءی لا الٰہ الا انت یا غیاث المستغثین اغثنی۔ جیسے ہی لٹیرا ان کو قتل کرنے کے لیے آگے بڑھا تو پیچھے سے کسی نے آواز دی کہ تیرا مقابل یہ نہیں میں ہوں جب لٹیرے نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو ایک گھڑ سوار کھڑا تھا اتنے میں وہ گھڑ سوار آگے بڑھا اور ایک ہی وار میں لٹیرے کے دو ٹکڑے کرڈالے اور زید بن حارثہ سے کہنے لگا کہ جب تو نے پہلی مرتبہ دعا پڑھی تو جبرایل نے کہا کہ کون اس بے کس کی مدد کو جایے گا تو میں نے کہا کہ میں جاتا ہوں اسوقت میں ساتویں آسمان پر تھا جب تو نے دوسری بار یہ دعا پڑھی تو میں آسمان دنیا پر تھا اور جب تونے تیسری بار یہ دعا پڑھی تو میں تیرے پاس تھا۔
ہر لفظ Energy کا Unite ہے ہمارا ہر جملہ قوت کا ایک خزانہ و ذخیرہ ہے ایک مخصوص Vibration یا Radiation ہمارے منہ سے نکلتی ہے اور ایک اثر پیدا کردیتی یے کیونکہ اس کا کاسمک ورلڈ میں ایک مقام ہے۔
غرض ہر جذبہ محبت،رحم،خوف خدا،مروت،خوش خلقی،قناعت،شرم وحیا،دانائی،پارسائی،بے طمعی، صبر، بردباری،درگزر، استقلال، صالحیت، اللہ کی عبادت،گدازاور نیاز سے جسم میں ایسی رطوبتیں پیدا ہوتی ہیں جو کہ اس کے گرد نور کا ایک ہالہ (دائرہ)بنا دیتی ہیں جو نظر تو نہیں آتا لیکن اس کو محسوس کیا جاسکتا ہے ایسے شخص کے پاس جو بھی بیٹھتا ہے اس دائرے کی مقناطیسی کشش روحانی بیماریوں یعنی اخلاق رذیلہ کے اثرات کو زائل کردیتی ہیں اوراگر اس کے پاس بار بار بیٹھا جائے تو گناہ کے تباہ کن اثرات کو ختم کردیتی ہے۔آپ لوگوں کا مشاہدہ ہوگا کہ ایسے بندے کے پاس خواہ مخواہ بیٹھنے کو جی چاہتا ہے اور جو اس کے برعکس ہوتا ہے اس سے
ہرانسان بھاگتا ہے۔
یک زمانہ صحبت بااولیاء
بہتر است صد سالہ طاعت بے ریا