اچھا اقتباس ہے لیکن پروفیسرز نے دو باتیں مکس کی ہیں۔ ایک بات یہ کہ گریوٹی یعنی کشش ثقل ہو، ہوا ہو، روشنی ہو، ان سب پر تحقیقات کی جا چکی ہیں اور ان کا وجود آپ ثابت کر سکتے ہیں، چاہے دکھائی نہ دے۔ یہ آفاقی طور پر تمام تر سیاروں، ستاروں، خلاء وغیرہ، ہر جگہ موجود ہو سکتے ہیں (خدائی کا دعویٰ یا شرک نہ سمجھ لیجئے گا) جنات وغیرہ پر ہم اس لئے یقین رکھتے ہیں کہ مذہبی یا روایتی طور پر ہمیں اس کے بارے علم ہوتا ہے لیکن حقیقت میں ہم آج تک انہیں دیکھنے، سننے، چھونے یا محسوس کرنے کے قابل نہیں ہو سکے۔ ہاں یہ ممکن ہے کہ جب سائنس مزید ترقی کر جائے تو شاید ہمارے پاس ایسے آلات ہوں کہ ہم ان غیر مرئی وجود کو دیکھ سکیں
جنات کے حوالے سے آپ کو کبھی کوئی ذہنی طور پر مستحکم بندہ مشکل سے ہی ملے گا جس نے جنات کو دیکھا ہو یا انہیں سنا ہو یا کسی طرح ان کے وجود سے واقف ہوا ہو
محترم ساقی بھائی
کیوں سولی پہ چڑھانا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔؟
دیکھ لیں محترم قیصرانی بھائی نے " ذہنی طور پر غیر مستحکم " بندوں کی صف میں کھڑا دیا ۔
میرے محترم بھائی روحانیات کی دنیا قائم ہی " تماشوں " پہ ہے ۔۔۔۔۔ ایسے تماشے جو تماشائیوں کو مبہوت کر دیتے ہیں ۔
لیکن یہ تماشے صرف ان تماش بینوں کے لیئے وقوع پذیر ہوتے ہیں ۔ جو کہ مٹا دیتے ہیں اپنی ہستی کو ۔
اور مثال حضرت آدم علیہ السلام اپنی غلطی کا اعتراف کرتے " ربنا ظلمنا " کی صدا بلند کرتے ہیں ۔
علمی برتری کے زعم کا شکار نہیں ہوتے چونکہ جانتے ہیں کہ یہ زعم ہمارے علمی سفر کے بہتے دریا میں رکاوٹ بنے گا ۔
اور وہ دریا جو کہ کائنات کو اپنے علم سے سیراب کرتے زرخیز بنا رہا ہے ۔ ہم اس دریا سے اک گھونٹ پانی کو ترس جائیں گے ۔۔۔۔
یہ تماشے کھلی مجلسوں میں یا شوارع عام پر منعقد نہیں کیئے جا سکتے ،،، کیونکہ " غورو فکر " کرنا سب کی دسترس میں نہیں ہوتا ۔
اسی لیئے ایسے تماشہ گیروں کو " ڈھونگی " کا خطاب دیا جاتا ہے ۔۔۔
جیسے کہ میں اک " ڈھونگی " ٹھگ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آپ بابا صاحبا سے جو مکالمہ بحث کے لیئے سامنے لائے ہیں ۔ اس مکالمے اور اس کتاب میں بیان شدہ دیگر مواد پر بحث کرنے سے پہلے اسی کتاب میں بیان کردہ " دانش " کی قوت و صلاحیت بارے( صفحہ ٣٣٢) پر موجود توجیہ کو ذرا دھیان سے پڑھ لیا جائے ۔ اور اس سے بھی پہلے یہ جاننا چاہیئے کہ " اشفاق بابا " نے یہ کتاب کس دائرے میں قید ہوکر تحریر فرمائی ہے ۔ اور اس دائرے کو ہی حقیقت ماننا ہے ۔
غیر مرئی اور مرئی کی بحث کی ابتدااور انتہا " دائرہ اسلام میں " لا الہ الا اللہ " کی تفسیر میں موجود ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔