یہ سکول نہیں یونیورسٹی ہے۔
پاکستان میں معاشیات پر تحقیق ایک آزاد ادارہ اسلام آباد میں کر رہا ہے۔ اگر آپ یونیورسٹی میں پڑھتی ہیں تو انکی تحقیق سے بہت فائدہ ہوگا۔ یہ اردو میں ہے:
اس نکتے کو ذہن میں رکھتے ہوئے کہ ایک مالی سال کا بجٹ حکومت کی اقتصادی، سماجی اور سب سے بڑھ کر سیاسی ترجیحات کا سب سے اہم عکاس ہونے کے ساتھ ہی ایک ایسی دستاویز کی حیثیت رکھتا ہے جو عموماً واضح طور پر نشاندہی کرتی ہے کہ حکومت ملک کو، اس کی معیشت کو اور معاشرے کو کس سمت میں لے کر جارہی ہے؛ انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز (IPS)، اسلام آباد بڑی باقاعدگی سے قبل از بجٹ تجاویز پیش کرنے کے ساتھ ہی مابعد بجٹ تجزیہ و سفارشات تیار کرنے اور متعلقہ حلقوں کو بھجوانے کی ذمہ داری نبھاتا چلا آ رہا ہے تاکہ پارلیمان، پالیسی سازوں اور مشترکہ مفاد رکھنے والے دیگر تمام متعلقہ حصہ داروں کو معاونت فراہم کر سکے۔ درج ذیل تجزیہ ماہرین معاشیات، دوسرے شعبوں کے پیشہ ور ماہرین اور دانشوروں پر مشتمل آئی پی ایس کی خصوصی ٹاسک فورس
*نے تیار کیا ہے۔
اقتصادی اشاریوں کا مختصر جائزہ
بجٹ کا تجزیہ کرنے سے قبل یہ مناسب رہے گا کہ ایک نظر قومی معیشت کی حالت و کیفیت پر بھی ڈال لی جائے۔ پاکستان اکنامک سروے (اقتصادی جائزے) ۱۵-۲۰۱۴ء میں دیے گئے عبوری تخمینوں کے مطابق جی ڈی پی (مجموعی قومی پیداوار) میں شرح نمو (گروتھ ریٹ) ۲۴ء۴ فی صد رکھی گئی ہے جو کہ ۱۴-۲۰۱۳ء کی ۰۳ء۴ فی صد سے معمولی سی زیادہ ہے، تاہم گذشتہ مالی سال کے متعین کردہ ہدف یعنی ۱ء۵ فی صد سے کم ہے۔ زراعت کے شعبے میں شرح نمو بہت پست رہی ہے، یعنی محض ۹ء۲ فی صد۔ تاہم اس سے بھی زیادہ پریشان کن صورت حال یہ ہے کہ اہم فصلیں غیرمستحکم رہی ہیں۔ زرعی شعبے میں جو نمو بھی ریکارڈ کیا گیا ہے اس کی بنیاد لائیواسٹاک کے ذیلی شعبے کی شرح نمو میں اضافے اور کچھ حد تک چھوٹی فصلوں کی شرح نمو میں اضافے پر رکھی گئی ہے۔ یہ نکتہ اجاگر کرنا ضروری ہے کہ شرح نمو کے اعدادوشمار کے حوالے سے لائیواسٹاک کا شعبہ مبہم نوعیت رکھتا ہے یہ اعداد و شمار زیادہ تر متناسب معلومات پر مبنی ہوتے ہیں۔ بڑی صنعتی پیداوار میں نمو کا ہدف ۶ فی صد رکھا گیا تھا مگر اس میں نمو ۴ء۲ فی صد کی شرح سے ہوا۔ خدمات کے شعبے میں ترقی کی شرح ۵ فی صد رہی۔
معاشی افق پر ایک اہم مثبت علامت یا تبدیلی افراط زر میں نظر آنے والی کمی ہے، جس کے لیے ۱۵-۲۰۱۴ء کے اصل ہدف آٹھ فی صد کے مقابلے میںعبوری تخمینہ صرف ۸ء۴ فی صد ہے۔ تاہم یہ تبدیلی نہ تو کسی ریاستی پالیسی یا کوشش کا نتیجہ ہے (اس کی اہم وجہ عالمی منڈی میں تیل اور اجناس کی قیمتوں میں نمایاں کمی رہی ہے) اور نہ ہی ان اعداد و شمار کو مکمل طور پر درست گردانا جا سکتا ہے کیونکہ عوام کا تاثر اس کے برعکس ہے (خوراک اور روزمرہ استعمال کی اشیا میں دیکھے جانے والے مسلسل اضافے کے باعث، جس کا تجربہ عام آدمی کر رہا ہے اور جس کی اطلاعات ذرائع ابلاغ سے مل رہی ہیں)۔
اگرچہ سرکاری سطح پر اقتصادی معلومات یا اعداد و شمار کی درستگی پر ہمیشہ شبہ کیا جاتا رہا ہے، تاہم بے روزگاری کے مجموعی مسئلے کے حوالے سے حکومت کے دو اہم شعبوں کی طرف سے اپنائے گئے متضاد موقف کے نتیجے میں ’’استحکام‘‘ کے دعووں کی قلعی کھلتی نظر آ رہی ہے۔پلاننگ کمیشن کی فراہم کردہ معلومات کے مطابق ۸ فی صد سے زائد افرادی قوت بے روزگار ہے جب کہ وزیرخزانہ کے بیان اور بجٹ دستاویز کے مطابق یہ شرح ۶ فی صد ہے اور اس کے ساتھ ہی یہ دعویٰ بھی کہ بے روزگاری کی شرح ۳ء۶ فی صد سے کم ہو کر ۶ فیصد رہ گئی ہے۔ جی ڈی پی میں ۲ء۴ فی صد شرح نمو اور آبادی میں ۲ء۲ فی صد کی شرح سے اضافے کے پیش نظر ماہرین معیشت کے لیے موجودہ اعدادوشمار قابل فہم نہیں ہیں۔ ٹیکسٹائل کی صنعت کا، جو کہ روزگار فراہم کرنے میں ایک اہم آجر کی حیثیت رکھتی ہے، یہ دعویٰ ہے کہ اس کے تیس فی صدی پیداواری یونٹ یا کارخانے بند ہو چکے ہیں جس کے نتیجے میں اتنی ہی بیروزگاری پیدا ہو چکی ہے یعنی کوئی بیس لاکھ کے قریب افراد روزگار سے محروم ہو چکے ہیں۔ اس منظرنامے میں پلاننگ کمیشن اور نیشنل اکائونٹس کمیٹی ( این اے سی) ایک حقیقت کے قریب تصویر پیش کرتے نظر آتے ہیں، کیونکہ ان حالات میں بیروزگاری کم ہوتی نظر نہیں آتی۔
قرضوں کے مجموعی حجم میں بھی اضافہ ہوتا نظر آ رہا ہے۔ یہاں اس نکتے پر زور دینا ضروری ہے کہ جی ڈی پی کے تناسب کے طور پر قومی قرضے کے حجم میں کمی کا خیال مغالطے پر مبنی ہے۔ اگرچہ بظاہر اس کی شرح ۴ء۶۴ فی صد سے کم ہو کر ۹ء۶۲ فی صد ہو گئی ہے تاہم حقیقی معنوں میں صرف اس برس میں ہی قرضے کے حجم میں ایک ہزار (۱۰۰۰) ارب روپے کا اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ قرضے کے حجم میں دو برس سے کچھ زائد عرصہ قبل یعنی اس حکومت کے آنے کے بعد تقریباً تین کھرب روپے کا اضافہ ہو چکا ہے۔
۱ محصولات سے حاصل ہونے والی آمدنی میں اگرچہ ۱۳ فی صد کا اضافہ دیکھنے میں آیا ہے، تاہم جی ڈی پی کے تناسب کے لحاظ سے یہ کوئی خاص بہتری نہیں ہے۔ اس ۱۳ فی صد کی کشش اس وقت ختم ہو کر رہ جاتی ہے جب اس کا موازنہ ۲ء۴ فی صد کی شرح نمو اور ۶ء۴ فی صد کے افراط زر سے کیا جاتا ہے۔ اس سے زیادہ پریشان کن حقیقت یہ ہے کہ جی ڈی پی کے تناسب کے لحاظ سے رواں مصارف میں اضافہ ہو چکا ہے جب کہ ترقیاتی مصارف میں کمی واقع ہوئی ہے۔
رواں کھاتے یا کرنٹ اکائونٹ کو مسلسل ترسیلات زر کے ذریعے مستحکم رکھا جا رہا ہے جن میں ۱۵-۲۰۱۴ء کے پہلے دس ماہ کے دوران ۱۶ فی صد کا اضافہ ہوا ہے اور جن کے رواں برس کے اختتام تک ۱۸ ارب ڈالر تک پہنچ جانے کی توقع ہے، جو کہ بیرونی کھاتے کے لیے ایک نعمت سے کم نہیں۔ تاہم اس میں اقتصادی پالیسی یا بندوبست کے حوالے سے کوششوں کا بہت کم عمل دخل ہے۔ مالی خسارے اور بینکوں سے قرضے لینے کے ہدف کے حصول میں بھی نظر آنے والے بڑے فرق کے ساتھ ناکامی رہی ہے۔
بجٹ ۱۶-۲۰۱۵ء پر ایک نظر
بجٹ ۱۶-۲۰۱۵ء کا کُل حجم ۳ء۴۴۵۱ ارب روپے ہے، جس میں سے اندرونی وسائل کا تخمینہ ۸ء۳۳۶۶ ارب روپے، بیرونی وسائل کا تخمینہ ۵ء۷۵۱ ارب روپے اور نج کاری سے حاصل ہونے والی رقم ۰ء۵۰ ارب روپے ہے۔ حسب معمول ۸۳ فی صد وسائل (۲ء۳۴۸۲ ارب روپے) رواں مصارف کی مد میں چلے جائیں گے جب کہ صرف ۱۷ فی صدی (۷۰۰ ارب روپے) ترقیاتی مصارف کے لیے بچ جائیں گے۔ دیکھیے شکل نمبر۱ اور ۲۔
حکمتِ عملی: وزیر خزانہ نے اپنی بجٹ تقریر میں دعویٰ کیا ہے کہ بجٹ ۱۶-۲۰۱۵ء ’’استحکام‘‘ کے موجودہ پیراڈائم سے ’’افزائش‘‘ (Growth Oriented Paradigm) کی طرف پیش قدمی کا ایک مثالی نمونہ ہے۔ انہوں نے اس نکتے پر زور دیا ہے کہ حکومت کی بجٹ حکمت عملی درج ذیل مقاصد کے گرد گھومتی ہے:
- مالی خسارے میں کمی
- محصولات سے حاصل ہونے والی آمدنی میں اضافہ
- توانائی کے شعبے پر مسلسل توجہ
- برآمدات میں اضافہ
- جی ڈی پی میں محصولات کے تناسب میں اضافہ
- قومی قرضے کے حجم پر قابو پانا
- بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام
بجٹ تجاویز اور اقدامات کا تجزیہ
بجٹ تجاویز اور تدابیر کے تجزیے کے لیے بہت سے معیاری پیمانے ہو سکتے ہیں۔ تاہم اس جائزے میں بجٹ ۱۶-۲۰۱۵ء کا تجزیہ دو پہلوئوں سے کیا گیا ہے۔ ایک: کیا اقتصادی سرگرمی، افزائش و ترقی کے عمل کو جاندار بنانے کے لیے اس کے اندر کوئی نئی حکمت عملی، ماضی کے تجربے سے انحراف اور نئی سمت میں پیش قدمی کا کوئی سراغ ملتا ہے؟ دو: کیا بجٹ تدابیر و تجاویز اعلان کردہ حکمت عملی اور ترجیحات کے ساتھ مطابقت رکھتی ہیں اور کیا بجٹ میں مالی سال کے جو اہداف مقرر کیے گئے ہیں وہ مکمل طور پر حاصل کر لیے جائیں گے؟
یہ نکتہ آغاز ہی میں، وسائل اور مصارف کی وسیع تر تصویر کو دیکھتے ہوئے واضح ہو جاتا ہے کہ بجٹ کی بنیادی ساخت اور بظاہر متعین قسم کی خصوصیات (Parameters) میں کوئی نمایاں بہتری نہیں آئی، جس سے یہ ظاہر ہوتا ہو کہ حکومت کی طرف سے کسی نئی سمت میں جستجو کے لیے کوئی غیرمعمولی کوشش کی جارہی ہے یا کوئی بہت اہم نوعیت کا قدم اٹھایا جا رہا ہے۔ وسائل اور مصارف دونوں کے اعدادوشمار میں صرف معمولی پیمانے کی بہتری دیکھی گئی ہے اور جیسا کہ ہوتا آیا ہے، دونوں قسم کے اعدادوشمار کو محض متوازن کرنے کی کوشش کی گئی ہے جیسا کہ دستاویزات سے واضح ہوتا ہے۔
اگرچہ مجموعی حکمت عملی ’’معمول کی کارروائی‘‘ والی لگتی ہے، تاہم درج ذیل سطور میں ۱۶-۲۰۱۵ء کے حوالے سے بعض شعبوں کا ترتیب وار جائزہ پیش کیا جا رہا ہے۔
توانائی: ملک کو اس وقت درپیش توانائی کے کثیر پہلو بحران کو سامنے رکھتے ہوئے یہ مناسب رہے گا کہ بجٹ میں اس شعبے کی مشکلات سے نمٹنے کے لیے مجوزہ کوششوں کا جائزہ لیا جائے۔ اپنی بجٹ تقریر میں وزیرخزانہ نے کہا ہے کہ بجٹ کی تیاری کے وقت توانائی کے شعبے کے لیے درج ذیل حکمت عملی اپنائی گئی تھی:
- توانائی کے شعبے کو حکومت کی بنیادی ترجیحات میں شامل کر دیا گیا
- نظام کے اندر ۷۰۰۰ میگا واٹ کا اضافہ کرنے کے ساتھ ہی رسد-طلب میں موجود خلا کو پورا کرنے کے لیے ایل این جی کی بنیاد پر ۳۶۰۰ میگاواٹ کے پراجیکٹس کا آغاز
- دسمبر ۲۰۱۷ء تک نظام کے اندر ۱۰۶۰۰ میگاواٹ کا اضافہ
- داسو، دیامیر- بھاشا، کراچی سول نیوکلیئر توانائی وغیرہ کے منصوبے جو ۲۰۱۷ء کے بعد مکمل ہوں گے۔
توانائی کے شعبے کے لیے بجٹ کا کل حجم ۲۴۸ ارب روپے رکھا گیا ہے جو کہ اچھا خاصا ہے۔ پن بجلی کے منصوبوں اور ٹرانسمشن لائنوں کی بہتری پر بنیادی توجہ خوش آئند پیش قدمیاں ہیں۔ تاہم ایک مرتبہ پھر بڑھتے ہوئے گردشی قرضوں کے حوالے سے واضح حکمت عملی کا جو کہ توانائی کے شعبے کے لیے بحیثیت مجموعی ایک بنیادی آزمائش ہے، بجٹ میں مکمل طور پر فقدان نظر آتا ہے۔ توانائی کی لاگت و قیمت فروخت کے درمیان فرق (Power tariff differentials) کو پورا کرنے کے لیے دیے جانے والے زرتلافی کا سکڑتا ہوا حجم جو کہ ۲۲۱ ارب روپے سے کم ہو کر۱۵-۲۰۱۴ء میں ۱۱۸ ارب روپے ہو گیا ہے، یقینا صارفین کے لیے باعث تکلیف ہو گا۔ حتیٰ کہ ٹرانسمشن لائنوں کے معاملے میں بھی ’کاسا ۱۰۰۰‘ (CASA1000) کے لیے ۳ء۲ ارب روپے مختص کرنا اس قدر قابل فہم نہیں لگتا۔ اس حوالے سے بھی خدشات پائے جاتے ہیں کہ مختص کردہ یہ رقم کس حد تک جواز رکھتی ہے، کیونکہ منصوبہ ابھی شروع ہونا ہے۔
مزید برآں، توانائی کے معاملے میں، بجٹ میں کافی حد تک صرف بجلی کے شعبے کو مدنظر رکھا گیا ہے اور تیل و گیس کے شعبے کے لیے نہ تو کوئی ترقیاتی رقوم مختص کی گئی ہیں اور نہ ہی مقامی و غیرملکی سرمایہ کاروں کو سرمایہ کاری کی ترغیبات دی گئی ہیں۔ اہم نکتہ یہ ہے کہ اس حوالے سے کوئی اشارہ نہیں ملتا کہ آیا حکومت اس مالی سال کے دوران ایران - پاکستان گیس پائپ لائن جیسے منصوبوں کی طرف پیش رفت کرنے کا بھی کوئی ارادہ رکھتی ہے یا نہیں، کیونکہ اس مقصد کے لیے کوئی رقوم مختص نہیں کی گئیں۔
زراعت: اگرچہ یہ شعبہ قومی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت ہی رکھتا چلا آرہا ہے، جس کا جی ڈی پی میں تناسب ۲۱فیصد ہے اور جو کل افرادی قوت کے ۴۴ فی صد کو روزگار کی فراہمی کا ذریعہ ہے۔ مگر ۱۶-۲۰۱۵ء کے بجٹ میں یہ حکومت کی توجہ اپنی جانب مبذول کرانے میں ناکام رہا ہے۔ زرعی قرضوں کا ہدف ۶۰۰ ارب روپے محض ایک علامتی قدر کا حامل ہے، کیونکہ یہ ایک معلوم حقیقت ہے کہ ان قرضوں کا زیادہ تر حصہ بڑے بڑے زمینداروں کی ایک محدود تعداد کے پاس چلا جاتا ہے۔ اس طرح کی ترغیبات جس طرح کہ شمسی توانائی سے چلنے والے ٹیوب ویلوں کے لیے بلا سود قرضے، اگرچہ خوش آئند ہیں مگر ناکافی ہیں۔ زرعی لوازمات (مثلاً بیج، کھاد،
۲ِ دوائوں) کی قیمتوں میں کمی کے لیے کوئی اقدامات نہیں کیے گئے۔ پانی کے لیے ترقیاتی بجٹ جو کہ زراعت کی ایک اہم ضرورت ہے، موجودہ مالی سال کے ۴۶ ارب سے کم کر کے ۱۶-۲۰۱۵ء میں تقریباً ۳۰ ارب روپے کر دیا گیا ہے۔
صنعت و برآمدات: حسب معمول ترغیبات کا زیادہ تر حصہ ٹیکسٹائل کی صنعت کے لیے مختص کر دیا گیا ہے، جس کے لیے ۵ء۶۴ ارب روپے کی مراعات رکھی گئی ہیں۔ یہ سچ ہے کہ ٹیکسٹائل کا شعبہ ملک میں برآمدات کا سب سے بڑا ذریعہ ہے مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ہماری ٹیکسٹائل کی برآمدات اب تک دی جانے والی تمام تر ترغیبات کے باوجود بنگلہ دیش سے آدھی ہیں۔ بجٹ میں مجموعی طور پر برآمدات کرنے والی دوسری صنعتوں، خاص طور پر غیرروایتی برآمدات کے لیے محض زبانی کلامی ترغیبات ہی دی گئی ہیں۔
ترقیاتی بجٹ (پی ایس ڈی پی): وفاقی پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام (پی ایس ڈی پی) کا حجم بڑھا کر ۷۰۰ ارب روپے تک کر دیا گیا ہے۔ یہ اضافہ خوش آئند ہے۔ تاہم ایک محتاط تجزیے سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یہ اضافہ بے معنی ثابت ہو سکتا ہے کیونکہ مختص کردہ رقوم نہ تو ملک کی ترقیاتی ترجیحات کی سچی عکاسی کرتی ہیں اور نہ ہی یہ ساری کی ساری ترقیاتی منصوبوں کے لیے مختص ہیں۔ مثال کے طور پر ۱۰۰ ارب روپے عارضی طور پر بے دخل ہونے والے افراد کے لیے مختص کیے گئے ہیں جنہیں بمشکل ہی ترقیاتی مصارف کی مد میں ڈالا جا سکتا ہے کیونکہ یہ بنیادی طور پر بحالی کے اخراجات ہیں۔
تقریباً تین چوتھائی ترقیاتی بجٹ بنیادی ڈھانچے (بشمول مواصلات و توانائی) کی تعمیر کے لیے وقف کیا گیا ہے۔ مختص کردہ وسائل ۳۲۳ ارب روپے سے بڑھا کر ۳۹۴ ارب روپے کر دیے گئے ہیں۔ جبکہ دوسری طرف تمام اہم سماجی شعبوں کے لیے وقف کردہ وسائل کا تناسب کم کر دیا گیا ہے۔ وفاقی پی ایس ڈی پی برائے ۱۶-۲۰۱۵ء میں تعلیم کے لیے مختص کردہ رقم ۲۸ ارب روپے سے کم کر کے ۲۲ ارب روپے کر دی گئی ہے جب کہ صحت کے لیے رقم ۲۸ ارب روپے سے کم کرکے ۲۰ ارب روپے کر دی گئی ہے۔
اسی طرح وفاقی پی ایس ڈی پی میں بعض اور قابل اعتراض تفویضات بھی ہیں۔ ۵ء۲۸ ارب روپے سپیشل فیڈرل ڈویلپمنٹ پروگرام کے نام پر رکھ دیے گئے ہیں؛ مگر اس طرح کی کوئی تفصیلات نہیں دی گئیں کہ یہ کہاں خرچ ہوں گے۔ یاد رہے کہ اس مد میں ۳۶ ارب روپے ۱۵-۲۰۱۴ء کے بجٹ میں رکھے گئے تھے، تاہم نظرثانی شدہ تخمینوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس مد میں رواں مالی سال کے آخر تک محض دس ارب روپے ہی خرچ ہو سکیں گے۔ ان مخصوص پروگراموں کی تفصیلات منظر عام پر آنی چاہییں اور یوں اس امر کا جائزہ لینا ہو گا کہ آیا یہ بڑی بڑی رقوم کہیں معاشی منتظمین کو ایک ایسی سہولت فراہم کرنے کا بہانہ تو نہیں ہیں جن کے ذریعے وہ پی ایس ڈی پی کے اعدادوشمار میں موقع کی مناسبت سے ترمیم یا مطابقت پیدا کر سکیں اور یہ کہ رقوم جہاں بھی خرچ کی گئی ہیں وہ لوگوں کی حقیقی ضروریات کو نظرانداز کر کے کسی سیاسی فیصلے کی روشنی میں نہیں کی گئیں۔ ۲۰ ارب روپے کی ایک اور رقم میلینیم ڈیویلپمنٹ گولز (MDGs) اور کمیونٹی ڈیویلپمنٹ پروگرام (CDP) کی مد میں مختص کی گئی ہے۔ اس حوالے سے ذہن میں جو اہم سوال ابھرتا ہے وہ یہ ہے کہ MDGs کی حتمی مدت کے خاتمے میں جب کہ صرف چھ ماہ باقی رہ گئے ہیں (۳۱ دسمبر ۲۰۱۵ء) تو آخری وقت میں کیے جانے والے اس اضافے کی بدولت ملک میں کون سی اہم تبدیلیاں رونما ہونے کی توقع ہے جب کہ MDGs کے اہداف پورے ایک عشرے کے لیے مقرر کیے گئے تھے۔
محصولات: بالواسطہ محصولات پر دارومدار کرتے رہنے کی پرانی حکمت عملی ۱۶-۲۰۱۵ء کے بجٹ میں بھی جاری رکھی گئی ہے۔ درحقیقت بجٹ دستاویز کے مطابق ۱۶-۲۰۱۵ء میں ایف بی آر کے لیے محصولات جمع کرنے کا جو ہدف مقرر کیا گیا ہے اس سے پتہ چلتا ہے کہ براہ راست محصولات میں ۸ء۲۳۸ ارب کے اضافے کی توقع رکھی جا رہی ہے جب کہ بالواسطہ محصولات میں ۸ء۲۵۹ ارب روپے کے اضافے کا قیاس کیا جا رہا ہے یعنی موخرالذکرمیں اول الذکر کی نسبت خاطر خواہ اضافے کا۔اس سے یہ حکمت عملی ظاہر ہوتی ہے کہ حکومت دولت مندوں اور محصولات سے مستثنیٰ طبقے پر کسی قسم کا متناسب محصول عائد کرنے کا ارادہ نہیں رکھتی اور یوں اس کے نتیجے میں بالواسطہ محصولات کی شرح میں اضافہ ہوتا رہے گا۔ ماضی قریب کے بعض اہم حکومتی عہدیداروں کے بیانات اور اسی طرح حکومت کے خود اپنے جائزوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ تقریباً ۳۰ سے ۴۰ لاکھ لوگ ایسے ہیں جنہیں لازماً محصولات ادا کرنے چاہییں اور جو براہِ راست محصولات (مثلاً آمدنی ٹیکس اور دولت ٹیکس) کی زد سے باہر رہتے ہیں۔ وزیر خزانہ نے صواب دیدی قسم کے بلکہ استحصالی نوعیت کے بعض ایس آر اوز میں جو کہ ایف بی آر جاری کرتی ہے، کمی کا اعلان کیا ہے جو ایک مثبت قدم ہے، تاہم ان ایس آر اوز سے ہمیشہ کے لیے نجات حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔
بے معنی ریلیف: پاکستان ایک ایسا ملک ہے جہاں آبادی کے ایک بڑے حصے کو مخصوص اہداف کے حامل ریلیف، مدد اور سماجی تحفظ کی فراہمی کی ضرورت ہوتی ہے۔ جہاں ایک طرف سماجی شعبوں کو نظرانداز کیا جاتا رہا ہے اور تعلیم و صحت کے لیے بہت کم رقوم مختص کی جاتی رہی ہیں، تو دوسری طرف سماجی تحفظ کی ترجیحات کو انتہائی تشہیر کردہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام (BISP) کے ساتھ ہی منسلک یا یہیں تک محدود رکھا گیا ہے۔ بی آئی ایس پی کے لیے مختص کردہ رقم کو (گزشتہ مالی سال کے ۹۷ ارب سے) بڑھا کر ۱۰۲ ارب روپے کر دیا گیا ہے اور ایک تخمینے کے مطابق اس سے استفادہ کرنے والوں کی تعداد ۴۳ لاکھ سے بڑھ کر ۵۰ لاکھ تک پہنچا دی جائے گی۔ اس پروگرام کی افادیت کے حوالے بار بار ظاہر کی جانے والی سنجیدہ نوعیت کی تشویش اور روزافزوں ہوتی بدعنوانی اور سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کی شکایتوں کے باوجود، اس کو تسلسل سے جاری رکھنا اچھے خاصے شکوک کو جنم دیتا ہے۔ سارے ملک میں اس امر کا مشاہدہ کیا گیا ہے کہ معمولی سی ماہانہ ادائیگی کے نتیجے میں محتاجی کی علامات میں اضافہ ہو گیا ہے اور یہ سہولت لوگوں کو معاشی طور پر متحرک اور خود انحصار بنانے میں ناکام ہو چکی ہے۔ اس ساری اسکیم پر از سر نو غور کرنے کی ضرورت ہے تاکہ غریبوں کو پیداواری عمل کے دھارے میں شریک کیا جا سکے۔ اس طرح کے منصوبوں کا مقصد فیض یافتگان کو خود انحصار بنانا ہونا چاہیے۔ بی آئی ایس پی کے تحت یہ مقصد حاصل نہیں کیا جا سکا۔ اس امر کی ضرورت بھی شدت سے محسوس کی جا رہی ہے کہ ہر سال جو اتنی بڑی بڑی رقمیں مسلسل خرچ کی جا رہی ہیں، ان کے اثرات کا تجزیہ کیا جائے اور ایسے طریقے یا حکمت عملیاں دریافت کی جائیں جن کی بدولت انہیں زیادہ مؤثر اہداف کا حامل بنایا جا سکے۔ مہنگائی کے اثرات کی شدت کم کرنے کے حوالے سے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں (اور پنشنوں میں) ۵ء۷ فیصد اضافہ اس افراط زر کے حساب سے بہت کم ہے کہ جس کی شرح اگرچہ مجموعی طور پر کم ہو رہی ہے مگر کھانے پینے اور روزہ مرہ ضروریات کی اشیاء کے حوالے سے بڑھتی جا رہی ہے۔ کم سے کم آمدنی کی سطح ۱۲۰۰۰ روپے سے بڑھا کر ۱۳۰۰۰ روپے کر دینا نہ صرف معمولی سا اضافہ ہے بلکہ حسبِ معمول جو کچھ بھی اضافہ کیا گیا ہے اس پر مؤثر انداز میں عمل درآمد کے حوالے سے کسی بھی حکمت عملی کا فقدان واضح نظر آتا ہے۔ یہاں پر یہ نکتہ اجاگر کرنا بھی ضروری ہے کہ بجلی کے شعبے میں زرتلافی کی رقم میں کمی اور اس طرح کی مصنوعات پر محصول (Duty) کی شرح میں اضافہ جیسے بند ڈبوں میں دودھ، دہی اور بالائی وغیرہ اور مشروبات، افراط زر کے ایسے اثرات کا حامل ہو گا جن کے نتیجے میں یہ معمولی سا ’’ریلیف‘‘ بھی بے معنی ہو کر رہ جائے گا۔
قرضوں پر مسلسل انحصار: اگرچہ قرضوں کی واپسی کی مد میں مختص کی جانے والی رقوم کا بوجھ (جو ۱۵-۲۰۱۴ء میں ۲ء۱ کھرب تھا) پاکستان جیسے ملک کی معیشت کے لیے پہلے ہی ناقابل برداشت ہو چکا ہے؛ تاہم ۱۶-۲۰۱۵ء کے بجٹ میں اس حوالے سے وہی فرسودہ حکمت عملی اختیار کی گئی ہے جو ماضی میں بھی ہمارا وتیرہ رہی ہے۔ یعنی بیرونی وسائل سے ۷۵۱ ارب روپے اور ملکی بنکوں سے ۹ء۲۸۲ ارب کے قرضے (جب کہ گذشتہ برسوں کے رجحان کو دیکھتے ہوئے خدشہ ہے کہ ان میں آخرکار اور بھی اضافہ ہو جائے گا)۔ اس کا سادہ سا مطلب یہ ہے کہ اب ہمارے اوپر کھربوں روپے کے بوجھ کا مزید اضافہ ہو جائے گا، جب کہ ہم پر یہ بوجھ پہلے ہی بہت زیادہ ہے اور اس صورتحال کا نتیجہ آنے والے برسوں میں قرضوں کی ادائیگی کے مصارف کی صورت میں مزید اضافہ ہو گا۔
بجٹ کی تدوین: چند اہم نکات
جیسا کہ وقتاً فوقتاً یہ نکتہ عیاں کیا جاتا رہا ہے کہ ملکی بجٹ کی تشکیل و تدوین کا عمل حقیقی معنوں میں ایک شراکتی عمل یا سرگرمی نہیں ہے۔ تاہم اس برس سے اسے شراکتی سرگرمی بنانے کے حوالے سے کچھ نہ کچھ کوششیں ہوتی نظر آئی ہیں۔ تاہم یہ سارا عمل مجموعی طور پر بہت محدود اور بہت تاخیر سے کیا جانے والا عمل دکھائی دیتا ہے۔ ایک مثبت نکتہ یہ ہے کہ بجٹ کی تشکیل کے دوران کاروباری طبقے سے مکالمے کا اہتمام کیا گیا تھا۔ پارلیمنٹ کی فنانس کمیٹی کے ساتھ بھی دو ایک اجلاس کیے گئے تھے۔ تاہم ان کے نتیجے کوئی ٹھوس قسم کی پیشرفت نہیں دیکھی گئی۔ کاروباری طبقے کا ردعمل اس امر کی نشاندہی کرتا ہے کہ ان کی تجاویز کے بڑے حصے (۸۰ فی صدی) کو سرے سے زیر غور ہی نہیں لایا گیا۔ یہ بھی ایک لطیفہ ہی ہے کہ پاکستان اکنامک سروے بجٹ سے محض ۲۴ گھنٹے پہلے جاری کیا جاتا ہے۔ خود سینیٹ کی جانب سے بھی کئی بار یہ سفارش کی جا چکی ہے کہ اس دستاویز کو بجٹ سے کم از کم ایک یا دو ہفتہ قبل جاری کیا جائے تاکہ عوام اس کا مطالعہ کرنے اور سمجھنے کے قابل ہونے کے ساتھ ہی اس کی روشنی میں بجٹ کا تنقیدی جائزہ بھی لے سکیں۔
بجٹ کے حوالے سے دوسرا اہم نکتہ اضافی یا ضمنی گرانٹس کا معمول ہے۔ حقیقت میں یہ عمل ’’قانون سازی کے بغیر کوئی محصول نہیں‘‘ کے اصول کے خلاف جاتا ہے۔ موجودہ بجٹ میں بھی ضمنی گرانٹس ۲۰۰ ارب روپے سے زائد تک پہنچ گئی ہیں، جن میں تقریباً ۱۴۰ ارب کے ایسے نئے اخراجات بھی شامل ہیں جو بغیر کسی پارلیمانی منظوری کے ہوں گے۔ بدقسمتی سے یہ رقم گذشتہ برس کے زائد اخراجات سے دوگنی ہے اور یوں ایک اہم خامی یا جھول کی نشاندہی کرتی ہے۔
تیسرے نکتے کا تعلق ایس آر اوز (SROs) سے ہے جو کہ ایک عیاں قسم کی بے ضابطگی ہے اس وقت اندازہ یہی ہے کہ ۹۰فیصد ایس آر اوز کو غلط مقاصد کے لیے استعمال کیا جاتا ہے تاکہ مخصوص افراد اور تنظیموں کو نوازا جا سکے۔ ایس آر اوز نظام کے اندر بدعنوانی کا ایک فطری ماخذ ہیں۔ ایوان بالا کی یہ سفارشات رہی ہیں کہ ایس آر اوز کی روایت کا ہر صورت قلع قمع کیا جائے۔ یہ درست ہے کہ بعض اوقات ایسی ناگہانی آفات یا اچانک قدرتی حادثات بھی پیش آ سکتے ہیں جن کے لیے نئی مالی تفویضات کی ضرورت پیش آ سکتی ہے۔ لیکن ایسی صورت کا مقابلہ کرنے کے لیے سرکاری سطح پر دوحکمت عملیاں اپنائی جا سکتی ہیں: ۱۔ بجٹ کے حوالے سے نئی سفارشات یا درخواستیں پارلیمنٹ کے سامنے لائی جائیں۔ ۲۔ اگر نئی سفارشات کی منظوری میں مشکل پیش آتی ہے تو آئین میں ترمیم کرکے پارلیمانی فنانس کمیٹیوں کو (قومی اسمبلی اور سینیٹ دونوں کی) یہ اختیار دیا جائے کہ وہ اس طرح کی درخواستوں پر غور کرکے پارلیمنٹ کو اطلاع دیتے ہوئے، انہیں منظور کر سکیں۔
ماحصل
درج بالا تجزیے کی روشنی میں یہ امر واضح ہو جاتا ہے کہ ۱۶-۲۰۱۵ء کا بجٹ بھی ماضی کی اس روایت کا ایک تسلسل ہی ہے جس کا قوم پہلے مشاہدہ کرتی آ رہی ہے۔بجٹ کی تجاویز و تدابیر میں کوئی خاص جدت نظر نہیں آتی۔ ان میں بھرپور اور ہمہ جہت ترقی کے عمل کے حوالے سے کسی بھی بصیرت کا فقدان نظر آتا ہے۔ ان میں قومی معیشت کو درپیش آزمائشوں سے مناسب انداز میں نمٹنے کی تدابیر کا بھی فقدان ہے۔ درحقیقت موجودہ بجٹ دستاویز کو حساب کتاب کے روایتی طریقوں کا تسلسل ہی کہا جا سکتا ہے۔ اس سے بھی اہم نکتہ یہ کہ یہ بجٹ مسلم لیگ ن کے ۲۰۱۳ء منشور کی بھی زیادہ عکاسی نہیں کرتا جو کہ ایک بہت اچھی کوشش تھی۔ اس میں کچھ ایسے بنیادی تصورات بھی موجود تھے جن کی عملی تعبیر کے حوالے سے حکومت نے اگر گذشتہ دو برسوں کے دوران کوئی کوشش کی ہوتی تو پالیسیاں حقیقی طور پر موثر ہوتی نظر آتیں۔ بدقسمتی سے ایسا نہیں ہوا۔
قرضوں پر انحصار ختم کرنے اور ایک منصوبہ بند، بتدریج طریقے سے خود انحصاری کی جانب کسی طرح کی پیشرفت اس بجٹ میں نمایاں نظر نہیں آتی۔ حتیٰ کہ اگر ۵ فی صد شرح نمو کا ہدف حاصل کربھی لیا جاتا ہے تو پھر بھی آبادی میں ۲ء۲ فی صدی شرح اضافہ کے پیش نظر ۲۵ لاکھ نئی ملازمتوں کی تخلیق، جیساکہ وزیرخزانہ نے اپنی بجٹ تقریر میں بڑے فخریہ انداز میں ہدف مقرر کیا ہے، ناممکن نظر آتی ہے۔ لہٰذا یہ خیال کہ ہم استحکام کی پیراڈائم سے افزائش کی پیراڈائم کی طرف پیشرفت کر سکیں، اس طرح کے بجٹ کے ساتھ ممکن نظر نہیں آتا، خاص طور پر پالیسی میں کسی واضح تبدیلی کی عدم موجودگی کے باعث۔ زراعت اور توانائی کے شعبے میں چند ایک ترغیبات کسی اہم مثالی سمت میں پیشرفت کے حوالے سے بالکل ہی ناکافی ہیں۔
*. اس ٹاسک فورس نے بجٹ کا تجزیہ کرنے کے حوالے سے ۹ جون ۲۰۱۵ء کو گول میز مباحثے کا ایک اجلاس منعقد کیا۔
↩
۱- اگرچہ قرضے کے حجم میں بہت زیادہ اضافہ پی پی پی کے دورِ حکومت میں ہوا ہے، ۱ء۶ کھرب سے بڑھ کر ۲ء۱۴ کھرب روپے (یعنی دوگنا سے بھی زیادہ)؛ تاہم موجودہ حکومت کے دور میں حکمت عملی میں کوئی بہتری دیکھنے میں نہیں آئی۔ تشویشناک امر یہ ہے اس وقت قرضوں اور سود کی ادائیگی کا تناسب کل بجٹ کا ۴۰ فی صد ہے جو کہ پاکستان جیسے ملک کی معیشت کے لیے کسی طرح بھی قابل برداشت نہیں ہے۔
↩
۲- کھاد کے لیے زرتلافی رکھا گیا ہے، مگر یہ ایک معلوم حقیقت ہے کہ اس کا چھوٹے کسانوں کو بمشکل ہی کوئی فائدہ ہوتا ہے۔
↩
حوالہ