زہیر عبّاس
محفلین
دیوہیکل سیاروں کے دیس میں - بیرونی نظام شمسی کی کھوج اور آباد کاری
مائیکل کیرول
پیش لفظ - حصّہ اوّل
1 by Zonnee, on Flickr
خاکہP-1 انسانوں کی بستی بسانے کی اگلی معقول جگہ مریخ ہے۔ لیکن کیا دوسری جگہیں بھی کسی قسم کی امید دلا رہی ہیں؟
بیرونی نظام شمسی مستقبل میں انسانی سفر کے لئے کوئی قابل ذکر جگہ نہیں لگتی چہ جائیکہ کہ وہاں انسانوں کے لئے رہنے کی کوئی بستی بسائی جائے۔ سرد دور اور دور دراز کے گیسی، پتھر اور برف کے جہاں ہمیں مائل کرنے کے بجائے جان چھڑاتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ بنی نوع انسان چاند پر جاچکی ہے اور اب اگلے پڑاؤ کے لئے اپنی نظریں مریخ اور سیارچوں کی پٹی پر جمائے ہوئے ہے۔ لیکن کیا انسانیت کے مستقبل کے منظر نامے میں بیرونی نظام شمسی کوئی کردار ادا کرتا نظر آ رہا ہے؟
اگر انسانیت کو نظام شمسی کی آخری سرحدوں کو کھوجنا اور وہاں جا کر بالآخر رہنا ہے تو ہم ہر چیز تو اپنے ساتھ وہاں نہیں لے جا سکتے۔ فاصلے نہایت عظیم الشان ہیں۔ ایک طرح سے ہمیں اپنی زمین سے دور رہنا ہوگا۔ ایک اور جگہ ایسی ہے جو وہاں سے ہماری نسبت کافی قریب ہے اور اس کے پاس کافی وسائل بھی موجود ہیں یعنی کہ سرخ سیارہ، مریخ۔
مریخ کے بارے میں کافی کچھ جانا جا چکا ہے، ہرچند مریخ زمین سے زہرہ جتنا قریب تو نہیں ہے، لیکن اس کا کرۂ فضائی اتنا شفاف ہے کہ اس کی سطح کو ہم دوربین سے دیکھ سکتے ہیں۔ مریخ نے سب سے پہلے ہمیں اپنے زمینی موسمی جھکاؤ ، دن و رات کی گردش ، قطبین اور اپنے پراسرار گہرے ہچکولے لیتے تاریک علاقوں سے متحیر کیا۔ چوب پرچم اٹھائے ماہر فلکیات پرسیول لوئل(Percival Lowell) نے مریخی نہروں کو جنون کی حد کر مشہور کر دیا تھا، اس نے مریخی نہروں کے جال اور نخلستانوں کے مفصل نقشے بنائے اور قیاس کی بنیاد پر مریخ پر موجود حیات کے بارے میں کتابیں لکھیں۔ مصنفین جیسے کہ ویلز ، بروز اور بریڈ بری نے ان فلکیات دانوں مثلاً لوئل [1] کے کام سے ہی مواد لے کر انیسویں اور بیسویں صدی میں سرخ سیارے سے پیار کی ثقافت کو فروغ دیا۔
Percival-Lowell-Artificial-Canals-on-Mars by Zonnee, on Flickr
ماہر فلکیات پرسیول لوئل(Percival Lowell) نے قیاس کی بنیاد پر مریخی نہروں کے جال اور نخلستانوں کے مفصل نقشے بنائے۔
ہمیں ان سائنس دانوں اور لکھاریوں کے ورثے پر چھوڑ دیا گیا۔ ان کے کاموں میں مریخ کو اس وقت کے دور میں بیان کیا گیا ہے جب تک وہاں پر خلائی کھوجی نہیں بھیجے گئے تھے، لیکن مریخی حیات کو کھوجنے کی ہماری خواہش چاہئے وہ خرد بینی شکل میں ہی کیوں نہ موجود ہو اب بھی جاری ہے اور کچھ لوگوں کے مطابق مریخی حیات کی اس کھوج نے خلائی تحقیقات میں ہماری ترجیحات کو آلودہ کر دیا ہے۔ حالیہ دنوں میں ہونے والی امریکن آسٹرونومیکل سوسائٹی ڈیویژنفار پلانٹری سائنسز کی ایک میٹنگ میں ایک محقق نے طنزاً کہا ، "اگر ہم مریخ کو جاننے کا موازنہ گینی میڈ کو جاننے سے کریں ، تو وہ قابل شرم بات ہوگی۔"
اب بھی اگر انسان چاند سے آگے جانے کا جوکھم اٹھانا چاہتا ہے تو سب سے بہتر جگہ وہ ہوگی جہاں ہم زمین کے بغیر بھی رہ سکیں۔ مریخ کے پاس ایسا کرنے کے لئے ذرائع موجود ہیں۔ یہاں پر پانی کے کافی ذخائر موجود ہیں اور اس کی لطیف فضا ٩٥ فیصد کاربن ڈائی آکسائڈ پر مشتمل ہے، ایک ایسا سالمہ جو کاربن اور آکسیجن پر مشتمل ہے۔ پانی کو برق پاشیدگی کے ذریعہ ہائیڈروجن اور کاربن میں توڑا جا سکتا ہے۔ ہائیڈروجن مریخی فضا میں موجود کاربن ڈائی آکسائڈ سے تعامل کر سکتی ہے تاکہ میتھین بنائی جا سکے جو ایک موثر خلائی راکٹ کا ایندھن ہو سکتا ہے اور ساتھ میں مزید پانی بھی بنے گا جس کو دوبارہ برق پاشیدگی کے عمل سے گزرا جا سکے گا۔ اس طرح سے حتمی پیداوار میں میتھین اور آکسیجن حاصل ہوں گی۔
Terraforming by Zonnee, on Flickr
مریخ کی ارض سازی ہمارا ایک خواب ہے۔
آکسیجن ایک ایسی گیس ہے جس میں سانس لینا ہر کھوجی کی کوشش ہوگی اور یہ خلائی جہاز کے ایندھن کا بھی اہم حصّہ ہوتی ہے۔ مریخی پانی پینے کے استعمال میں بھی لیا جا سکے گا جو مریخی کاربن ڈائی آکسائڈ کا استعمال کرکے خود سے آکسیجن پیدا کرے گا۔
اہم خلائی کمپنیوں سے لے کر نجی صنعت کے گروپ مختلف قسموں کے انجینئرنگ کی تحقیقات میں مصروف عمل ہیں تاکہ انسان بردار مریخی مہمات اور مریخ میں انسانی بستیوں کو بسانے کے بارے میں منصوبہ بندی کی جا سکے۔ ان کی پیش بینی کے مطابق خلائی گاڑیوں سے لے کر زیر زمین گھروں تک ہر چیز مریخی مٹی کی اینٹوں اور سیمنٹ سے بنائی جائے گی۔ ان کے جادوئی آئینے میں مریخ پر قائم مستقبل کے گرین ہاؤسز بانسوں کے درختوں سے لبریز نظر آرہے ہیں جو تیزی سے بڑھتے ہوئے مضبوط عمارتی سامان بنانے کا ذریعہ بن رہے ہیں۔ کچھ تو جینیاتی طور پر تقلیب کی گئی بکریوں، ٹلاپیا (دریائے نیل میں پائی جانے والی سخت جان مچھلی)، اسٹرابیریز اور پوئی (ہوائی کا ایک کھانا جسے لوف/تارو کی جڑ سے بنایا جاتا ہے) سے زمین سے آنے والے مسافروں کی تواضع کرنے کا خواب آنکھوں میں سجائے ہوئے ہیں۔
republic_cruiser_by_radojavor-dqqw6n by Zonnee, on Flickr
سائنس دان مریخ کو مستقبل میں درختوں سے لبریز ہونے کا خواب اپنی آنکھوں میں سجائے ہوئے ہیں۔
[1]۔ لوئل نے بونے سیارے پلوٹو کو بھی دریافت کرنے میں مدد کی تھی۔ یورینس اور نیپچون کے مشاہدات کا استعمال کرتے ہوئے ، اس نے اندازہ لگایا کہ نیا سیارہ کہاں ہونا چاہئے اور اس نے اس کی تلاش بھی جاری رکھی جو ناکامی سے دوچار ہوئی۔ بہرحال یہ بعد میں دریافت ہوا کہ لویل رصدگاہ نے سیارے کی تصاویر کو ١٩١٥ء میں اتار لیا تھا، لویل کی موت سے ایک برس پہلے۔ پلوٹو کو ١٩٣٠ء میں کلائیڈ ٹام بو (Clyde Tombaugh)نے دریافت کیا۔ لوئل کی تحقیقاتی کاوشوں کے اقبال میں سیارے کے نشان میں پرسیول لوئل کے دستخط کے ابتدائی حروف پی ایل شامل کر لئے گئے۔
جاری ہے۔۔۔۔۔
مائیکل کیرول
پیش لفظ - حصّہ اوّل
1 by Zonnee, on Flickr
خاکہP-1 انسانوں کی بستی بسانے کی اگلی معقول جگہ مریخ ہے۔ لیکن کیا دوسری جگہیں بھی کسی قسم کی امید دلا رہی ہیں؟
بیرونی نظام شمسی مستقبل میں انسانی سفر کے لئے کوئی قابل ذکر جگہ نہیں لگتی چہ جائیکہ کہ وہاں انسانوں کے لئے رہنے کی کوئی بستی بسائی جائے۔ سرد دور اور دور دراز کے گیسی، پتھر اور برف کے جہاں ہمیں مائل کرنے کے بجائے جان چھڑاتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ بنی نوع انسان چاند پر جاچکی ہے اور اب اگلے پڑاؤ کے لئے اپنی نظریں مریخ اور سیارچوں کی پٹی پر جمائے ہوئے ہے۔ لیکن کیا انسانیت کے مستقبل کے منظر نامے میں بیرونی نظام شمسی کوئی کردار ادا کرتا نظر آ رہا ہے؟
اگر انسانیت کو نظام شمسی کی آخری سرحدوں کو کھوجنا اور وہاں جا کر بالآخر رہنا ہے تو ہم ہر چیز تو اپنے ساتھ وہاں نہیں لے جا سکتے۔ فاصلے نہایت عظیم الشان ہیں۔ ایک طرح سے ہمیں اپنی زمین سے دور رہنا ہوگا۔ ایک اور جگہ ایسی ہے جو وہاں سے ہماری نسبت کافی قریب ہے اور اس کے پاس کافی وسائل بھی موجود ہیں یعنی کہ سرخ سیارہ، مریخ۔
مریخ کے بارے میں کافی کچھ جانا جا چکا ہے، ہرچند مریخ زمین سے زہرہ جتنا قریب تو نہیں ہے، لیکن اس کا کرۂ فضائی اتنا شفاف ہے کہ اس کی سطح کو ہم دوربین سے دیکھ سکتے ہیں۔ مریخ نے سب سے پہلے ہمیں اپنے زمینی موسمی جھکاؤ ، دن و رات کی گردش ، قطبین اور اپنے پراسرار گہرے ہچکولے لیتے تاریک علاقوں سے متحیر کیا۔ چوب پرچم اٹھائے ماہر فلکیات پرسیول لوئل(Percival Lowell) نے مریخی نہروں کو جنون کی حد کر مشہور کر دیا تھا، اس نے مریخی نہروں کے جال اور نخلستانوں کے مفصل نقشے بنائے اور قیاس کی بنیاد پر مریخ پر موجود حیات کے بارے میں کتابیں لکھیں۔ مصنفین جیسے کہ ویلز ، بروز اور بریڈ بری نے ان فلکیات دانوں مثلاً لوئل [1] کے کام سے ہی مواد لے کر انیسویں اور بیسویں صدی میں سرخ سیارے سے پیار کی ثقافت کو فروغ دیا۔
Percival-Lowell-Artificial-Canals-on-Mars by Zonnee, on Flickr
ماہر فلکیات پرسیول لوئل(Percival Lowell) نے قیاس کی بنیاد پر مریخی نہروں کے جال اور نخلستانوں کے مفصل نقشے بنائے۔
ہمیں ان سائنس دانوں اور لکھاریوں کے ورثے پر چھوڑ دیا گیا۔ ان کے کاموں میں مریخ کو اس وقت کے دور میں بیان کیا گیا ہے جب تک وہاں پر خلائی کھوجی نہیں بھیجے گئے تھے، لیکن مریخی حیات کو کھوجنے کی ہماری خواہش چاہئے وہ خرد بینی شکل میں ہی کیوں نہ موجود ہو اب بھی جاری ہے اور کچھ لوگوں کے مطابق مریخی حیات کی اس کھوج نے خلائی تحقیقات میں ہماری ترجیحات کو آلودہ کر دیا ہے۔ حالیہ دنوں میں ہونے والی امریکن آسٹرونومیکل سوسائٹی ڈیویژنفار پلانٹری سائنسز کی ایک میٹنگ میں ایک محقق نے طنزاً کہا ، "اگر ہم مریخ کو جاننے کا موازنہ گینی میڈ کو جاننے سے کریں ، تو وہ قابل شرم بات ہوگی۔"
اب بھی اگر انسان چاند سے آگے جانے کا جوکھم اٹھانا چاہتا ہے تو سب سے بہتر جگہ وہ ہوگی جہاں ہم زمین کے بغیر بھی رہ سکیں۔ مریخ کے پاس ایسا کرنے کے لئے ذرائع موجود ہیں۔ یہاں پر پانی کے کافی ذخائر موجود ہیں اور اس کی لطیف فضا ٩٥ فیصد کاربن ڈائی آکسائڈ پر مشتمل ہے، ایک ایسا سالمہ جو کاربن اور آکسیجن پر مشتمل ہے۔ پانی کو برق پاشیدگی کے ذریعہ ہائیڈروجن اور کاربن میں توڑا جا سکتا ہے۔ ہائیڈروجن مریخی فضا میں موجود کاربن ڈائی آکسائڈ سے تعامل کر سکتی ہے تاکہ میتھین بنائی جا سکے جو ایک موثر خلائی راکٹ کا ایندھن ہو سکتا ہے اور ساتھ میں مزید پانی بھی بنے گا جس کو دوبارہ برق پاشیدگی کے عمل سے گزرا جا سکے گا۔ اس طرح سے حتمی پیداوار میں میتھین اور آکسیجن حاصل ہوں گی۔
Terraforming by Zonnee, on Flickr
مریخ کی ارض سازی ہمارا ایک خواب ہے۔
آکسیجن ایک ایسی گیس ہے جس میں سانس لینا ہر کھوجی کی کوشش ہوگی اور یہ خلائی جہاز کے ایندھن کا بھی اہم حصّہ ہوتی ہے۔ مریخی پانی پینے کے استعمال میں بھی لیا جا سکے گا جو مریخی کاربن ڈائی آکسائڈ کا استعمال کرکے خود سے آکسیجن پیدا کرے گا۔
اہم خلائی کمپنیوں سے لے کر نجی صنعت کے گروپ مختلف قسموں کے انجینئرنگ کی تحقیقات میں مصروف عمل ہیں تاکہ انسان بردار مریخی مہمات اور مریخ میں انسانی بستیوں کو بسانے کے بارے میں منصوبہ بندی کی جا سکے۔ ان کی پیش بینی کے مطابق خلائی گاڑیوں سے لے کر زیر زمین گھروں تک ہر چیز مریخی مٹی کی اینٹوں اور سیمنٹ سے بنائی جائے گی۔ ان کے جادوئی آئینے میں مریخ پر قائم مستقبل کے گرین ہاؤسز بانسوں کے درختوں سے لبریز نظر آرہے ہیں جو تیزی سے بڑھتے ہوئے مضبوط عمارتی سامان بنانے کا ذریعہ بن رہے ہیں۔ کچھ تو جینیاتی طور پر تقلیب کی گئی بکریوں، ٹلاپیا (دریائے نیل میں پائی جانے والی سخت جان مچھلی)، اسٹرابیریز اور پوئی (ہوائی کا ایک کھانا جسے لوف/تارو کی جڑ سے بنایا جاتا ہے) سے زمین سے آنے والے مسافروں کی تواضع کرنے کا خواب آنکھوں میں سجائے ہوئے ہیں۔
republic_cruiser_by_radojavor-dqqw6n by Zonnee, on Flickr
سائنس دان مریخ کو مستقبل میں درختوں سے لبریز ہونے کا خواب اپنی آنکھوں میں سجائے ہوئے ہیں۔
[1]۔ لوئل نے بونے سیارے پلوٹو کو بھی دریافت کرنے میں مدد کی تھی۔ یورینس اور نیپچون کے مشاہدات کا استعمال کرتے ہوئے ، اس نے اندازہ لگایا کہ نیا سیارہ کہاں ہونا چاہئے اور اس نے اس کی تلاش بھی جاری رکھی جو ناکامی سے دوچار ہوئی۔ بہرحال یہ بعد میں دریافت ہوا کہ لویل رصدگاہ نے سیارے کی تصاویر کو ١٩١٥ء میں اتار لیا تھا، لویل کی موت سے ایک برس پہلے۔ پلوٹو کو ١٩٣٠ء میں کلائیڈ ٹام بو (Clyde Tombaugh)نے دریافت کیا۔ لوئل کی تحقیقاتی کاوشوں کے اقبال میں سیارے کے نشان میں پرسیول لوئل کے دستخط کے ابتدائی حروف پی ایل شامل کر لئے گئے۔
جاری ہے۔۔۔۔۔
آخری تدوین: