propaganda & propaganda tools

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

x boy

محفلین
بہت اچھا کیا بھائی صاحب
پاکستان میں واردات سے زیادہ پروپیگنڈہ ہی ہے، ورنہ مغرب میں آدھے گھنٹے کی بجلی جانے سے ہزاروں ریپ، ہزاروں ڈکیتی اور چوری ہوتی ہے اس کو منظر عام پر نہیں لایا جاتا۔ سمجھ سے بالاتر، جہاں ہر سکنڈ میں گرل فرینڈ بوائے فرینڈ کے نام سے مثبت کردار کو نمایا کیا جاتا ہے وہاں ریپ، جو امن والے ہیں وہاں چوریاں اور ڈکیٹی،
کہنے کا مقصد یہ ہے کہ پاکستان میں بیرون اجرت میں پلنے والے چینل اور مغرب کی دنیا تو ہے ہی پاکستان کا پروپیگنڈہ کرنے والے اگر ایک مکھی بھی مرتی ہے
تو وہ انسانیت کے خلاف ہوتی ہے
http://islamqa.info/ur/4060
 
آخری تدوین:

الف نظامی

لائبریرین
پروپگنڈا میں رنگ بھرنے کے لیے دونوں اطراف کے جعلی "جہادی "میدان میں اتارے جاتے ہیں اور کچھ لوگوں کے کندھوں پر رکھ کر بندوق چلائی جاتی ہے۔
 

الف نظامی

لائبریرین
Determinants of propaganda/spam
If someone's posting behavior is above average in any or all of the following then he must be on spam/propaganda mission
no of likes/reactions per day
no of thread creation per day
no of posts per day​
 

زاہد لطیف

محفلین
دیو بندی بریلوی اہل حدیث ، اہل تشیع بھائی بھائی
اصل ناکام پروپیگنڈہ کرنے کی سعی تو یہ ہے۔ کم از کم پہلے ان سے تو پوچھ لیا ہوتا کہ آپ اگر بھائی بھائی ہیں تو یہ فرقے میں نام میں تقسیم محض دکانداری ہے؟
(واعتصموا بحبل اللہ جمیعا ولا تفرقو)
 

الف نظامی

لائبریرین

وہ دن ماضی کا قصہ بن چکے جب ہمارا دشمن ایک فرقے کے خلاف تنقید کرتا تھا تو دوسرے خاموش رہتے اور خوش ہوتے تھے۔
آج سب مسلمان یہ جانتے ہیں کہ فرقہ وارانہ گفتگو کرنے والے کا بنیادی مقصد مسلمانوں کی قوت کو تقسیم کرنا ہے۔
فرقہ وارانہ انتشار پھیلانے والے کا بنیادی ہتھیار جزو کو کل پر منطبق کرنا ہے یعنی سپیسیفک بات کو جنرلائز کر کے پیش کرنا۔
جس طرح ایک سائنسدان کی غلطی سے تمام سائنسدان غلط ثابت نہیں ہوتے بعینہ ایک عالم کی غلطی سے سب عالم غلط ثابت نہیں ہوتے۔
 

الف نظامی

لائبریرین
دشمن: یہ مسلمان اکٹھے ہو رہے ہیں کوئی تدبیر کرو
چیلا1: ایران والی تدبیر کروں یا سعودیہ والی؟
چیلا 2: پٹھان بمقابلہ پنجابی والی تدبیر بہتر رہے گی؟
چیلا 3: عورت بمقابلہ مرد حقوق کی جنگ کروا دیں؟
چیلا 4: سائنس پڑھنے والوں کو مدرسہ والوں کے مقابل لا کھڑا کر دیں؟
چیلا 5: صوفی بمقابلہ ملا ؟آج کل اس بحث کا فیشن ہے
چیلا 6: جدیدیت بمقابلہ روایت پسندی ؟
چیلا 7: دیوبندی بمقابلہ بریلوی ، شیعہ بمقابلہ سنی
۔۔
 

جا ن

محفلین
دشمن: یہ مسلمان اکٹھے ہو رہے ہیں کوئی تدبیر کرو
مسلمان تو کتابوں بھی اکٹھے نہیں ہو رہے، عملی زندگی میں تو بہت دور کی بات ہے۔ یہی تو المیہ ہے۔ باقی جو آپ نے تدابیر بیان کی ہیں اس کے لیے تو چیلوں کی ضرورت ہی نہیں ہے بلکہ خود مسلمان ہی کافی ہیں ایک دوسرے کی گردن کاٹنے کے لیے!
 

الف نظامی

لائبریرین
مسلمان تو کتابوں بھی اکٹھے نہیں ہو رہے، عملی زندگی میں تو بہت دور کی بات ہے۔ یہی تو المیہ ہے۔ باقی جو آپ نے تدابیر بیان کی ہیں اس کے لیے تو چیلوں کی ضرورت ہی نہیں ہے بلکہ خود مسلمان ہی کافی ہیں ایک دوسرے کی گردن کاٹنے کے لیے!
مراسلہ نمبر 33
 

فہد مقصود

محفلین
پروپگنڈا پروپگنڈا کا شور مچانے والوں اور ایجنٹ ایجنٹ کا لیبل لگانے والوں کے اساتذہ کی کیا حالت رہی ہے اور وہ درِحقیقت کس کا ساتھ دیتے رہے ہیں آئیے ذرا اس بارے میں ان ہی کی کتب سے مطالعہ کرتے ہیں۔


1- انگریز کی شہادت

"جو کام بڑے بڑے کالجوں میں ہزاروں روپیہ کے صرف سے ہوتا ہے وہ یہاں کوڑیوں میں ہورہا ہے۔ جو کام پرنسپل ہزاروں روپیہ ماہانہ تنخواہ لے کر کرتا ہے وہ یہاں ایک مولوی چالیس روپیہ ماہانہ پر کررہا ہے۔ یہ مدرسہ خلافِ سرکار نہیں بلکہ موافق سرکار ممد معاونِ سرکار ہے۔"

(مولانا محمد احسن نانوتوی، ص 217)

2- انگریزوں سے وظیفہ اور پینشنز

(مدرسہ دیوبند کے کارکنوں میں اکثریت) ایسے بزرگوں کی تھی جو گورنمنٹ کے قدیم ملازم اور حال پینشنز تھے جن کے بارے میں گورنمنٹ کو شک و شبہ کرنے کی کوئی گنجائش ہی نہ تھی۔

(حاشیہ سوانح قاسمی، ج 2، ص 247)

3- رشید گنگوہی کے بارے میں انکشافات جب ان پر بغاوت کا الزام لگایا گیا :-

"شروع 1276ھ، 1858 وہ سال تھا جس میں حضرت امام ربانی پر اپنی سرکار سے باغی ہونے کا الزام لگایا گیا اور مفسدوں میں شریک رہنے کی تہمت باندھی گئی۔"

(تذکرۃالرشید، ج 1، ص 74)

اس سے ظاہر ہوا کہ وہ باغی نہیں تھے بلکہ سرکار کے معاون تھے -

مزید آگے لکھتے ہیں کہ:-

"جن کے سروں پر موت کھیل رہی تھی انہوں نے کمپنی کے امن وعافیت کا زمانہ قدر کی نظروں سے نہ دیکھا اور اپنی رحمدل گورنمنٹ کے سامنے بغاوت کا علم قائم کیا۔"

(تذکرۃالرشید، ج 1، ص 74)

4- جہاد جو اپنے "سرکار" کے "باغیوں" یعنی مجاہدینِ تحریک آزادی کے خلاف لڑا گیا:-

"اتنی بات یقینی ہے کہ اس گھبراہٹ کے زمانہ میں جبکہ عام لوگ بند کواڑوں گھر میں بیٹھے ہوئے کانپتے تھے حضرت امام ربانی (رشید گنگوہی) اور دیگر حضرات اپنے کاروبار نہایت اطمینان کے ساتھ انجام دیتے اور جس شغل میں اس سے قبل مصروف تھے بدستور ان کاموں میں مشغول رہتے تھے۔ کبھی ذرہ بھر اضطراب نہیں پیدا ہوا اور کسی وقت چہ برابر تشویش لاحق نہیں ہوئی۔ آپکو اور آپ کے مختصر مجمع کو جب کسی ضرورت کے لئے شاملی کرانہ یا مظفرنگر جانیکی ضرورت ہوئی، غایت درجہ سکون ووقار کے ساتھ گئے اور طمانیت قلبی کے ساتھ واپس ہوئے۔ ان ایام میں آپکو ان مفسدوں سے مقابلہ بھی کرنا پڑا جو غول کے غول پھرتے تھے۔ حفاظت جان کے لئے تلوار البتہ پاس رکھتے تھے اور گولیوں کی بوچھاڑ میں بہادر شیر کی طرح نکلے چلے آتے تھے۔ ایک مرتبہ ایسا بھی اتفاق ہوا کہ حضرت امام ربانی اپنے رفیقِ جانی مولانا قاسم العلوم اور طبیب روحانی اعلیٰحضرت حاجی صاحب و نیز حافظ ضامن صاحب کے ہمراہ تھے کہ بندوقچیوں سے مقابلہ ہوگیا۔ یہ نبرد آزما دلیر جتھا اپنی سرکار کے مخالف باغیوں کے سامنے سے بھاگنے یا ہٹ جانے والا نہ تھا۔ اس لئے اٹل پہاڑ کی طرح پرا جما کر ڈٹ گیا اور سرکار پر جاںثاری کے لئے تیار ہوگیا۔ اللہ رے شجاعت و جوا مردی کے جس ہولناک منظر سے شیر کا پتہ پانی اور بہادر سے بہادر کا زہرہ آب ہو جائے وہاں چند فقیر ہاتھوں میں تلواریں لئے جم غفیر بندوقچیوں کے سامنے ایسے جمے رہے گویا زمین نے پاؤں پکڑ لئے ہیں۔ چناچہ آپ پر فیریں ہوئی اور حضرت ضامن صاحب زیرِ ناف گولی کھا کر شہید بھی ہوئے"

(تذکرۃ الرشید، ج 1، ص 74-75)

یہ ہے وہ الٹا جہاد جو اپنے "سرکار" کے "باغیوں" یعنی مجاہدینِ تحریک آزادی کے خلاف لڑا گیا۔ خود عاشق الہٰی میرٹھی مصنف تذکرۃالرشید کو اعتراف ہے کہ جس زمانے میں عوام انگریز کے مظالم کے خوف سے گھروں میں چھپی رہتی تھی اس زمانے میں بھی یہ حضرات بڑے اطمینان سے اپنے معمولات کی تکمیل کرتے تھے۔ اور کیوں نہ کرتے کہ انگریز جن کی سرکار ہو، جن کے مدارس "معاونِ سرکار" ہوں انہیں کیا خوف-

اس کیفیت کا کھل کر اظہار ان الفاظ میں کرتے ہیں۔

"ہر چند کہ یہ حضرات حقیقتہً بےگناہ تھے مگر دشمنوں کی یاوہ گوئی نے انکو باغی و مفسد اور مجرم وسرکاری خطاوار ٹہرا رکھا تھا اس لئے گرفتاری کی تلاش تھی۔ مگر حق تعالیٰ کی حفاظت برسر تھی اسلئے کوئی آنچ نہ آئی اور جیسا کہ آپ حضرات اپنی مہربان سرکار کے دلی خیرخواہ تھے، تازیست خیر خواہ ہی ثابت رہے۔"

(تذکرۃ الرشید، ج 1، ص 81)

5- مولوی رشید احمد گنگوہی صاحب فرماتے ہیں کہ میں رشید سرکار (انگریز) کا فرمانبردار ہوں تو جھوٹے الزام سے میرا بال بھی بیکا نہیں ہوگا اور مارا گیا تو سرکار (انگریز) مالک ہے اسے اختیار ہے جو چاہے کرے-

(از کتاب: تذکرۃ الرشید صفحہ نمبر 80 مطبوعہ ادارہ اسلامیات انار کلی لاہور پاکستان)

6- مولوی اشرف علی تھانوی صاحب کو سرکار برطانیہ (انگریز) سے چھ سو روپے ماہوار ملا کرتے تھے-

(مکالمۃ الصدرین صفحہ نمبر 9 دارالاشاعت دیوبند ضلع سہانپور)

7- مولوی الیاس کاندھلوی کو سرکار برطانیہ (انگریز) سے بذریعہ لیٹر پیسے ملتے تھے –

(از کتاب: مکالمۃ الصدرین صفحہ نمبر 8 دارالاشاعت دیوبند ضلع سہارنپور)

8- جمعیت علمائے اسلام کو حکومت برطانیہ (انگریز) نے قائم کیا اور ان کی امداد کی-

(مکالمۃ الصدرین صفحہ نمبر 7‘ دارالاشاعت دیوبند ضلع سہارنپور)

9- انگریزوں کے مقابلے میں جو لوگ لڑ رہے تھے ان میں حضرت مولانا فضل الرحمن شاہ گنج مراد آبادی بھی تھے اچانک ایک دن مولانا کو گیا کہ خود بھاگے جا رہے ہیں اور کسی چودہری کا نام لے کر جو باغیوں کی فوج کی افسری کر رھے تھے کہتے جاتے تھے لڑنے کا کیا فاءدہ؟ خضر کو تو میں انگریزوں کی صف میں پا رہا ھوں-

(حاشیہ سوانح قاسمی ج 2 ص 103 مطبوعہ مکتبہ رحمانیہ لاہور )

10- انگریزوں کی صف میں حضرت خضر کی موجودگی اتفاقا نہیں پیش کی گئی بلکہ وہ نصرت حق کی علامت بن کر انگریزی فوج کے ساتھ ایک بار اور دیکھے گئے تھے جیسا کہ فرماتے ہیں عذر کے بعد جب گنج مرادآباد کی ویران مسجد میں حضرت مولانا(شاہ فضل الرحمان صاحب ) مقیم ہوئے تو اتفاقا اسی راستے سے جس کے کنارے مسجد ہے کسی وجہ سے انگریزی فوج گزر رہی تھی مولانا مسجد سے دیکھ رہے تھے اچانک مسجد کی سیڑھیوں سے اتر کر دیکھا گیا کہ انگریزی فوج کے ایک سائیں سے جو باگ دوڑ کھونٹے وغیرہ گھوڑے کیلئے ہوئے تھے اس سے باتیں کرکے مسجد واپس آگئے اب یاد نہیں رہا کہ پوچھنے پر یا خود بخود فرمانے لگے سائیں جس سے میں نے گفتگو کی یہ خضر تھے میں نے پوچھا یہ کیا حال ہے؟ تو جواب میں کہا کہ حکم یہی ہوا ہے ۔

( حاشیہ سوانح قاسمی ج 2 ص 103 مطبوعہ مکتبہ رحمانیہ لاہور )
 

فہد مقصود

محفلین
مولویوں کی انگریزوں سے وفاداری:

مولویوں کی انگریزوں سے وافاداری اور حمایت کے متعلق ڈاکٹر مسعود احمد بریلوی نے لکھا ہے:

جب انگریزوں نے مسلمانوں کے خون سے بے دریغ ہاتھ رنگنا شروع کئے تو سر سید احمد خان نے ’’اسبابِ بغاوت ہند‘‘ رسالہ لکھ کر انگریز کی آتشِ انتقام کو فرو (ٹھنڈا) کیا اور قدرے اطمینان نصیب ہوا، غالباً اس دور کا سیاسی تقاضا تھا کہ عالم و عامی سب ہی نے من حیث القوم وافاداری کا یقین دلایا بلکہ شیعہ حضرات نے بقول ہنٹر فارسی میں ایک رسالہ لکھ کر جہاد کی شدید مخالفت کی، علمائے احناف (بریلوی مولویوں) نے بھی انگریزوں کی حمایت میں بہت سے فتوے شائع کئے، دو قسم کے علمائے تھے، ایک وہ جو ہندوستان کو دار الحرب کہتے تھے ....... دوسرے وہ جو ہندوستان کو دار الاسلام کہتے تھے، اس لئے جہاد کے عدم جواز کے فتوے دیتے تھے، بہر کیف ماسوائے چند علماء کے مصلحتِ وقت کے تحت سب ہی نے انگریزوں کی حمایت میں عافیت سمجھی۔

(فاضل بریلوی اور ترک موالات:۳۵)

قارئین حضرات! ڈاکٹر مسعود احمد بریلوی کو بھی اعتراف ہے کہ مولویوں نے انگریزوں سے وفاداری اور ان کی حمایت کی اور انگریزوں کی حمایت میں فتوے شائع کئے، جب انگریزوں سے وفاداری اور ان کی حمایت کی تو پھر یہ حضرات انگریز نواز ہوئے۔

2- ملکہ برطانیہ میری کی درگاہ خواجہ غریب نواز پر حاضری:-

اس کے بعد ملکہ برطانیہ ’’میری‘‘ حضرت خواجہ معین الدین خواجہ غریب نواز کی درگاہ معلیّٰ پر رونق افروز ہوئیں، خواجہ صاحب ایک پاکیزہ نفس بزرگ و عابد تھے جو بارہویں صدی عیسوی کے ابتداء میں غور سے یہاں تشریف لائے اور اپنے فیض صحبت سے اجمیر میں ترقئ اسلام کا باعث ہوئے، آپ کی درگاہ مرجع خواش و عوام ہے، جہاں ہندوستان کے ہر حصہ سے زائرین آتے ہیں، درگاہ مذکور میں وہ ڈھول و شمع دان اب تک موجود ہیں جو شہنشاہ اکبر فتح چتور کے وقت اپنے ہمراہ لائے تھے، داخلہ خانقاہ کے وقت لفٹننٹ کرنل ڈبلیو آر سٹریسٹن، کمشنر پریزیڈنٹ و ممبران درگاہ کمیٹی نے استقبال کیا اور یہیں ممبران درگاہ کمیٹی کی طرف سے سنہری و نقروی تاروں کا ایک گلدستہ پیش ہوا جسے ہر میجسٹی نے بخوشی قبول فرمایا، اس کے بعد درگاہ شریف میں تشریف لیجاکر پورے احترام و دلچسپی سے اس کا معائنہ فرمایا اور چلتے ہوئے یہاں بھی ایک سو پونڈ یعنی پندرہ سو روپئے بطور نذر دیا۔

(یادگار دربار:۱/۵۶۹۔۱۹۱۱ء)

3- ہندوستان میں انگریزوں کی حکومت کو مضبوط کیا:-

جب انگریز ہندوستان میں آئے تو ان کی انگریزی حکومت مضبوط کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی کہ کس طرح انگریزی حکومت کو مضبوط کیا جاسکتا ہے، تو انہوں نے تجویز سوچی کہ یہاں کے بڑے بڑے مولویوں کو انگریزی حکومت میں بڑے بڑے عہدے دیدئے جائیں تاکہ ان مولویوں کے ذریعہ انگریزی حکومت کو مضبوط کیا جاسکے، انگریز ان بریلوی مولویوں کے ذریہ اپنی حکومت کو مضبوط کرنے میں کامیاب ہوگیا، کیونکہ ان مولویوں نے انگریزی حکومت کا پورا پورا ساتھ دیا اور بڑے بڑے عہدے انگریزوں سے حاصل کرلئے اور انگریزی حکومت کو خوب مضبوط کیا۔

مفتی انتظام اللہ شہانی اکبرآبادی کی زبانی سنئے، لکھتے ہیں:-

انگریزووں کو اس بات کی بڑی خواہش و جستجو رہتی تھی کہ مسلمانوں کے خاندان اور ذی وجاہت اشخاص افتاء صدارت کے مناصب قبول کرلیں تاکہ شمالی ہند میں انگریزی حکومت عوام میں مقبول ہوسکے، ہندوستانیوں کے لئے بڑے سے بڑا عہدہ صدر الصدور عدالت کا تھا، اس لئے اکابر و افاضل کو یہی پیش کیا جاسکتا تھا، دہلی چونکہ قدیم دار السلطنت اور اسلامی تہذیب کا مرکز تھا اس لئے یہاں کی صدارت کے لئے خصوصیت سے اہتمام کیا جاتا تھا، چنانچہ فضل حق کے والد مولانا فضل امام صدر الصدور بنائے گئے، ان کے بعد ان کے شاگرد مفتی صدر الدین خان آزردہ صدر الصدور دہلی مقرر ہوئے، ان کے متعلق ریزیڈنٹ بادشاہ اکثر ثانی سے بھی مشورہ لیا کرتے تھے، ایسے ہی سررشتہ داری پر مولانا فضل حق مقرر کئے گئے تھے، آخر میں یہ بھی لکھنو میں حکومت (انگریزی) کی طرف سے صدر الصدور کردئے گئے۔

(حیات علامہ فضل حق خیرآبادی اور ان کے سیاسی کارنامے:۱۷)

4- ڈاکٹر مختار الدین احمد کی زبانی سنئے، لکھتے ہیں:-

جب انگریز نے اپنی سلطنت کا استحکام چاہا تو اس نے تجویز سوچی کہ یہاں کے اہل وجاہت اور با اثر و رسوخ اصحاب کو انتظامِ حکومت میں شامل کرنا چاہئے تاکہ لوگوں کی وحشت دور ہور اور ان کی نظروں میں اس کا وقار بڑھے، چنانچہ شخصی مقدمات فیصل کرنے کے لئے علماء اور پنڈتوں کی خدمات حاصل کی گئیں، اس منصوبہ کے تحت مفتی (صدر الدین) صاحب بھی انگریزوں کے ملازم ہوئے، ان کے (انگریز افسر) جرنیل سرڈیوڈ اختر لونی کے ساتھ بہت دوستانہ تعلقات تھے اور اسے ان پر کامل اعتماد تھا، اس کی سفارش اور وساطت سے یہ انگریزی ملازمت میں داخل ہوئے، ابتدائی زمانہ ملازمت میں بہت دن تک اختر لونی کے ساتھ ہی اجمیر اور نمیچ چھاؤنی اور جے پور میں مقیم رہے، ان دنوں یہ چار سو روپئے ماہانہ مشاہرہ پاتے تھے، اس کے بعد انہیں ۱۵/جون ۱۸۴۴ء کو دہلی میں صدر الصدور مقرر کیا گیا۔

(تذکرہ آزردہ: مولفہ مفتی صدر الدین آزردہ،، مرتبہ ڈاکٹر مختار الدین احمد:۶)

5-سید محمد ہاشمی میاں بریلوی ایک محقق کے حوالہ سے لکھتے ہیں:-

مولانا فضل امام خیرآبادی صدر الصدور دہلی مفتی صدر الصدور آزردہ مفتی عنایت احمد کاکوری مصنف صدر امین کول و بریلی، مولانا فضل رسول بدایونی سررشتہ دار کلکٹری صدر دفتر سہسوان، مفتی عنایت اللہ گوپاموی قاضی دہلی و سرکاری وکیل الہ آباد، مولانا مفتی لطف اللہ علیگڑھی سررشتہ دار امین بریلی، علامہ فضل حق خیرآبادی سررشتہ دار ریزیڈنس دہلی صدر الصدور لکھنو، مہتم حضور تحصیل اودھ مولوی غلام قادر گوپاموی ناظر سررشتہ دار عدالت دیوانی و تحصیل دار گوڑگاؤں، مولوی قاضی فیض اللہ کشمیری سررشتہ دار صدر الصدور دہلی وغیرہ، یہ سب اپنے وقت کے بے نظیر و عدیم المثال اکبر علماء تھے، (انگریزی) حکومت کی باگ ڈور انہی کے ہاتھ میں تھی۔

(انوارِ رضا:۴۳۶)

قارئین حضرات یہ تھے وہ اکابر علماء انگریزی حکومت کی باگ ڈور انہیں کے ہاتھ میں تھی، اس لئے توانہوں نے انگریزوں کی حکومت کو مضبوط کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔

6- مولویوں کو انگریزوں سے ملازمتیں ملیں:-

پروفیسر محمد ایوب قادری بریلوی لکھتے ہیں:-

جس وقت اللہ کے یہ فرمانبردار بندے (سید احمد بریلوی اور شاہ اسماعیل) دین و ملت کی خاطر میدانِ جہاد میں اپنی جانیں نچھاور کررہے تھے اس زمانہ میں اس تحریک کے سب سے زیادہ مخالف مولانا فضل حق خیرآبادی ف۱۲۷۸ھ ۱۸۶۱ء ایجنٹ دہلی کے محکمہ میں سررشتہ دار اور مولانا فضل رسول بدایونی ف ۱۲۸۹ھ۔۱۸۷۲ء کلکٹری بدایوں (سہسوان) میں سررشتہ دار تھے، حکومت برطانیہ کی دور اندیشی اور پالیسی ملاحظہ ہو کہ اس نے مسلمانوں کے ذہین اور صاحب علم و فضل طبقہ کو سرکاری خدمات کے لئے حاصل کرلیا، دہلی میں دبیر الدولہ فرید الدین (ف۱۲۴۴ھ،۱۸۲۸ء)، منشی زین العابدین (ف۱۲۷۳ھ،۱۸۵۶ء)، مفتی صدر الدین آزردہ (ف۱۲۸۵ھ،۱۸۶۸ء)، مولوی فضل امام خیرآبادی (ف۱۲۴۴ھ،۱۸۲۹ء)، مولوی محمد صالح خیرآبادی برادر فضل امام خیرآبادی، منشی فضل عظیم خیرآبادی فرزند اکبر فضل امام خیرآبادی، مولوی فضل حق خیرآبادی (ف۱۲۷۸ھ،۱۸۶۱ء)، بدایوں میں مولوی فضل رسول (ف۱۲۸۹ھ،۱۸۷۲ء)، مولوی علی بحش صدر الصدور (ف۱۳۰۳ھ،۱۸۸۵ء)، مرادآباد میں مولوی عبد القادر چیف رام پوری (ف۱۲۶۵ھ،۱۸۴۹ء)، الٰہ آباد میں مفتی اسد الدین (ف۱۳۰۰ھ،۱۸۸۲ء) و قاضی عطا رسول چریاکوٹی، کلکتہ میں قاضی نجم الدین خان کاکوری (ف۱۲۲۹ھ،۱۸۱۳ء)، اور ان کے صاحبزادگان: قاضی سعید الدین (ف۱۲۶۲ھ،۱۸۴۶ء)، مولوی حکیم الدین (ف۱۲۶۹ھ،۱۸۵۴ء) اور قاضی علیم الدین (ف۱۲۵۷ھ،۱۸۴۱ء) وغیرہ مدارس میں قاجی ارتضاء علی گوپاموی (ف۱۲۷۰ھ،۱۸۵۳ء) اور ناسک میں خان بہادر مولوی عبد الفتاح مفتی وغیرہ برصغیر پاک و ہند کے وہ اعاظم و افاضل ہیں، جنہوں نے مناصب افتاء و قضاء اور صدر الصدوری کے ذریعہ سرکار کمپنی کے انتظام و اقتدار حکوت کو بحال اور مضبوط کیا۔

(جنگِ آزادی ۱۸۵۷ء: حاشیہ صفحہ:۵۵،۵۶)

7- یہاں فضل امام خیرآبادی کے خاندان کے سرکاری ملازموں کے نام بھی ملاحظہ فرمائیں جنہوں نے انگریزی حکومت کو مضبوط سے مضبوط تر کیا۔

پروفیسر ایوب قادری بریلوی لکھتے ہیں:-

دوسرا خاندان مولوی فضل امام خیرآبادی (بریلوی) کا ہے انہوں نے اور ان کے صاحبزادگان اور دوسرے اعزہ نے سرکاری خدمات باحسن وجوہ انجام دیں، جیسا کہ ذیل کی فہرست سے ظاہر ہے۔

۔ مولانا فضل امام بن شیخ محمد ارشد فاروقی خیرآبادی (ف۱۲۴۴ھ،۱۸۲۹ء)

دہلی میں مفتی عدالت او بعد ازاں صدر الصدور ہوئے، رشوت کے الزام میں ملازمت سے برطرف ہوئے، کچھ دنوں ریاست پٹیالہ سے وابستہ رہے۔

مولوی فضل امام کی رشوت کی بناء پر معطلی

مولوی فضل امام رشوت لینے پر ملازمت سے معطل کئے گئے تھے، مولوی عبد القادر نے لکھا ہے:
مولوی برکت اللہ دہلوی شاہجہاں آباد کے صدر دفتر کے محافظ تھے، چونکہ گونڈس صاحب بہادر کے وارد ہوتے ہی رشوت کی بناء پر مولوی فضل امام (خیرآبادی) ملازمت سے معطل ہوگئے۔

(علم و عمل:۲/۱۹۹)

2۔ مولوی محمد صالح بن شیخ محمد ارشد الدین خیرآبادی:

مولانا فضل امام کے چھوٹے بھائی، سرکاری اخبار نویس، اکثر راجپوتانہ میں فرائض منصبی ادا کئے۔

3۔ مولانا فضل الرحمن بن مولانا فضل امام خیرآبادی:

ریاست پٹیالہ میں اعلیٰ منصب پر فائز رہے، ان کے دو بیٹے مولوی فضل حکیم اور فضل علیم تھے، فضل حکیم کے بیٹے خان بہادر فضل متین سیشن جج پٹیالہ تھے۔

4۔ مولوی منشی فضل عظیم بن مولانا فضل امام خیرآبادی:

ولیم فریزر کے خاص معتمد و منشی رہے، اس لئے منشی فضل عظیم مشہور ہوئے، جنگ گورکھاں میں خدمات انجام دیں، تحصیل دار ڈپٹی کلکٹر کے عہدوں پر فائز ہوئے۔

5۔ مولانا فضل حق بن مولانا فضل امام خیرآبادی:

سررشتہ دار عدالت دیوانی (ریزیڈنسی دہلی)

6۔ منشی کرم احمد بن فضل احمد بن احمد حسین (برادر مولانا فضل امام خیرآبادی)

جنرل آکڑلونی کے منشی اور سرکاری اخبار نویس رہے، بعد ازاں امجد علی شاہ (اودھ) کے وزیر نواب شرف الدولہ ولد محمد ابراہیم خان کے میر منشی رہے۔

7۔ برکت علی خان، مولانا فضل امام خیرآبادی کے حقیقی بھانجے:

جنرل آکڑلونی کے میر منشی مختلف خدمات پر مامور رہے۔

8۔ الٰہی بخش نازش ولد محمد صالح (ف۱۲۸۹ھ)

وکیل ریاست ٹونک (دراجمیسر ایجنسی و میواڑ)۔

9۔ تفصیل حسین بن محفوظ علی خان:

مولانا فضل امام خیرآبادی کی بھانجی کے فرزند (ف۱۲۷۰ھ)، جنرل آکٹرلونی کے یہاں بحیثیت وکیل ریاست ٹونک رہے۔

10۔ احمد بخش خیر آبادی: اخبار نویس کشن گڑھ من جانب سرکار۔
(رشتہ دار فضل امام)

11۔ مولوی قادر بخش خیرآبادی: عدالت فوجداری پٹیالہ میں صدر الصدور تھے۔
(رشتہ دار فضل امام)

12۔ مولوی غلام قادر گوپاموی: ناظر سررشتہ دار عدالت دیوانی و تحصیلدار گوڑگاؤں۔

(سبط فضل امام)

8- مولانا فضل امام خیرآبادی کے ارکانِ خاندان اور اعزہ مختلف سرکاری (انگریزی حکومت کے) عہدوں پر فائز رہے جس کی بدولت ان کو عزت و ناموری اور مرفہ الحالی اور فارغ البالی حاصل ہوئی، انگریزی حکومت کو بھی اس کا احساس تھا، چنانچہ مولانا فضل حق خیرآبادی کے مقدمہ میں اسپیشل کمشنر نے اپنے فیصلہ میں اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے۔

’’وہ (مولانا فضل حق) اودھ کا باشندہ ہے اور ایک ایسے خاندان کا فرد ہے جو انگریز حکومت کا ساختہ پرداختہ ہے، بلکہ ایک زمانہ میں وہ خود بھی سرکاری ملازمت میں اچھے بڑے عہدہ پر متمکن تھا، لیکن گذشتہ کئی برس سے ملازمت ترک کرکے اودھ، رامپور وغیرہ کے متعدد دیسی ریاستوں میں معقول عہدوں پر ممتاز رہا ہے، اس کی ہمیشہ بہت شہرت رہی ہے‘‘۔

مولانا فضل حق خیرآبادی نے اس کی تائید کی ہے، چنانچہ وہ اپنی درخواست بنام وزیر ہند (جنوری ۱۸۶۰ء) میں لکھتے ہیں:

’’جیسا کہ اسپیشل کمشنر نے بھی اپنے فیصلہ میں ذکر کیا ہے کہ میرا خاندان اپنی دنیوی حیثیت کے لئے بہت حد تک سرکار انگریز کا مرہون منت ہے، ایک زمانہ میں خود بھی انگریزی ملامت می بہت اچھے عہدے پر متمکن تھا‘‘۔

(مولانا فضل حق خیرآبادی، مجموعہ مقالات از افضل حق قرشی:۱۶۔۲۰)

9- مولانا احمد رضا نے تحریک خلافت و تحریک ترک موالات کی مخالفت کرکے انگریز کو فائدہ پہنچایا:-

تحریک خلافت اور تحریک مولانا یہ دونوں تحریکیں انگریز کے خلاف چلائی گئی تھیں، خود ان کی زبانی سنئے، ڈاکٹر مسعود احمد بریلوی لکھتے ہیں:

پہلی جنگ عظیم کے بعد تقریباً ۱۹۱۹ء میں ترکوں پر انگریزوں کے ظلم و استبداد کے خلاف تحریک خلافت کا آغاز ہوا اور پورے ملک میں انگریز حاکموں کے خلاف ایک شورش برپا ہوگئی۔

(فاضل بریلوی اور ترک موالات:۲۷)

آگے پھر لکھتے ہیں:

تحریک خلافت اور ترک موالات دونوں کی مشترکہ اساس انگریزوں کی مخالفت و مقاطعت تھی۔

(فاضل بریلوی اور ترک موالات:۲۷)

10-پروفیسر محمد صدیق بریلوی لکھتے ہیں:-

بر صغیر میں تحریک خلافت اور تحریک ہجرت کے دوران جب ۱۹۲۰ء میں تحریک ترک موالات نے زور پکڑا تو یہ دور اسلامیہ کالج کی تاریخ کا نہایت نازک اور آزمائش کا دوت تھا، کیونکہ اس تحریک کے پروگرام میں نہ صرف انگریزی عدالتوں، کونسلوں اور انگریزی ملازمتووں سے علاحدگی بلکہ یونیورسٹی سے ملحق تعلیمی درسگاہوں سے بھی مقاطعہ پر زور دیا گیا تھا، سرکاری خطابات کی واپسی اور سرکاری امداد قبول نہ کرنا بھی اس کی ایک شق تھی۔

(پروفیسر مولوی حاکم علی:۹۷)

قارئین حضرات!

آپ نے ڈاکٹر مسعود احمد اور پروفیسر محمد صدیق کی عبارتیں پڑھ لیں اور آپ یہ سمجھ گئے کہ یہ دونوں تحریکیں ان کے نزدیک بھی انگریموں کے خلاف چلائی گئی تھیں، مگر مولوی احمد رضا خان نے ان دونوں تحریکوں کے خلاف فتوے بھی دئے جو انگریزوں کی ایماء پر چھپوا کر لاکھوں کی تعداد میں تقسیم کئے گئے اور ان دونوں تحریکوں کی ڈٹ کر مخالفت کی گئی۔

11- ڈاکٹر مسعود احمد بریلوی لکھتے ہیں:-

ترک موالات کا معاملہ اگر صرف انگریز حاکموں اور مسلمان محکوموں کے درمیان ہوتا تو اس کی نوعیت قطعاً مختلف ہوتی، مگر ترک موالات کے نتیجہ میں فوراً ہی بعد اور حصول آزادی کے بعد زندگی کے ہر شعبہ میں جو عدم توازن متوقع تھا، بحث اس سے تھیاور اسی بناء پر اس (تحریک ترک موالات) کی شدید مخالفت کی گئی، جن متدین علماء نے مخالفت کی ان میں سر فہرست اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی (مولوی احمد رضا) کا نام نامی نظر آتا ہے۔

(فاضل بریلوی اور ترک موالات:۲۷)

12- ڈاکٹر مسعود احمد بریلوی لکھتے ہیں:

۱۹۱۹ء میں مسئلہ خلافت پیش آیا، امام احمد رضا کو شرعی بنیادوں پر اس سے اختلاف تھا، ...... امام رضا نے ایک استفتاء کے جواب میں مسئلہ خلافت پر محققانہ بحث کی اور اپنا موقف پیش کیا، چونکہ اس جواب کی اشاعت سےانگریزوں کو فائدہ پہنچ سکتا تھا اس لئے اس کو شائع نہ کیا، چنانچہ یہ جواب ۱۹۲۲ء میں امام احمد رضا کے انتقال کے بعد منظر عام پر آیا۔

(دوام العیش فی الائمۃ القریش، افتتاحیہ:۲۳، ۲۴)

قارئین حضرات! جب مولوی احمد رضا نے فتویٰ دیا تو یہ فتویٰ انگریزوں کے موافق تھا، اس لئے ان کو فائدہ ہوا جس نے فتویٰ لیا تھا، اس نے لے لیا، چھپوانا یا نہ چھپوانا ضروری نہ تھا، کیونکہ فتویٰ لینے سے پتہ تو چل گیا کہ یہ فتویٰ انگریزوں کے فائدہ کا ہے، ڈاکٹر مسعود احمد کو بھی اعتراف ہے کہ ان تحریکوں کی مخالفت کی وجہ سے انگریزوں کو فائدہ پہنچ سکتا تھا اور فائدہ پہنچا، تب ہی تو فتوے انگریزوں کی ایماء پر چھپوا کر تقسیم ہوئے۔
 

فہد مقصود

محفلین
- مولانا احمد رضا کے نزدیک انگریزوں سے مدرسوں کے لئے امداد لینا جائز ہے:-
(1) سوال:


۱۰/محرم ۱۳۳۹ھ کو بنارس، کچی باغ سے سوال آیا: مدرسہ عربیہ اسلامیہ جس میں پچیس سال سے گورنمنٹ (انگریزی) سے امداد ماہوار ایک سو روپئے مقرر ہے، جس میں کتب فقہ و احادیث و قرآن کی تعلیم ہوتی ہے ، ممبران خلافت کمپنی نے تجویز کیا کہ امداد نہ لینا چاہئے، پس استفسار ہے کہ یہ امداد لینا جائز ہے یا نہیں؟ مدرسہ ھٰذا میں سوا تعلیم دینیات کے ایک حرف کسی غیر ملت و غیر زبان کی تعلیم نہیں ہوتی۔

جواب: -

اس کا جواب مطلق جواز ہوتا، مگر احتیاط شکل شرط میں دیا گیا کہ جبکہ وہ مدرسہ صرف دینیات کا ہے اور امداد کی بناء پر انگریزی وغیرہ اس میں داخل نہ کی گئی تو اس کے لینے میں شرعاً کوئی حرج نہیں، تعلیم دینیات کو مدد پہنچتی تھی، اس کا بند کرنا محض بے وجہ ہے۔

(2) ایک سوال کا جواب:

لکھتے ہیں: جو مدارس ہر طرح سے خالص اسلامی ہوں اوران میں وہابیت نیچریت وغیرہما کا دخل نہ ہو ان کا جاری رکھنا موجب اجر عظیم ہے، ایسے مدارس کے لئے (انگریزی) گورنمنٹ اگر اپنے پاس سے امداد کرتی ہے لینا جائز تھا، نہ کہ جب وہ امداد بھی رعایا ہی کے مال سے ہو۔ (المحجۃ المؤتمنۃ فی اٰیۃ الممتحنۃ:۹۲، شامل رسائل رضویہ جلد:۲)

(3) ایک اور تحریر:

لکھتے ہیں: اور تعلیم دین کے لئے گورنمنٹ (انگریزی) سے امداد قبول کرنا جو نہ مخالفت شرع سے مشروط نہ اس کی طرف منجر ہو یہ تو نفع بے غائلہ ہے۔ (المحجۃ المؤتمنۃ فی اٰیۃ الممتحنۃ:۹۷)

مولانا معین الدین اجمیری لکھتے ہیں:

ظاہر ہے کہ گورنمنٹ سے امداد لینا اس کو اپنا بنانا ہے اور یہ انسان کا فطری جذبہ ہے کہ محسن کے ساتھ محبت پیداہوجاتی ہے۔

(کلمۃ الحق بحوالہ اوراقِ گم گشتہ:۵۶۵)

مولوی احمد رضا نے ایک کتاب المحجۃ المؤتمنۃ تحریک ترک موالات کے خلاف لکھی ہے۔

مولوی احمد رضا نے تحریک ترک موالات کی مخالفت کرکے انگریزوں کو فائدہ پہنچایا، ڈاکٹر مسعود احمد بریلوی، محمد ہاشمی میاں بریلوی اور پروفیسر محمد صدیق بریلوی نے لکھا ہے کہ یہ تحریک انگریزوں کے خلاف تھی، جب یہ تحریک انگریزوں کے خلاف تھی اس کی مخالفت کرنا یقیناً انگریزوں کو فائدہ پہنچانا اور اپنے آپ کو انگریزوں کا حمایتی ظاہر کرنے کے برابر تھا۔

ڈاکٹر مسعود احمد بریلوی لکھتے ہیں:

فاضل بریلوی نے ترک موالات کے نتیجہ میں ہندو مسلم اتحاد کو وطنیت پرستی اور دین سے بے خبری پر مبنی تھا، سخت مخالفت فرمائی یہ وہ زمانہ تھا جب ترک موالات کے خلاف آواز اٹھانا خود کو انگریز حاکموں کا حمایتی ظاہر کرنے کے مترادف (برابر) تھا۔
(فاضل بریلوی اور ترک موالات:۴۱)

انگریز مؤرخ فرانسس رابنسن نے بھی مولانا احمد رضا کو انگریزوں کا حمایتی بتایا ہے

انگریز مؤرخ اپنی کتاب Separatism – Among Indian Muslims میں لکھتا ہے:

آپ (مولوی احمد رضا) کا عام موقف سلطنت برطانیہ کی حمایت کرنا تھا اور آپ نے جنگ عظیم اول (۱۹۱۴تا۱۹۱۹ء) کے دوران سلطنت برطانیہ کے طرفدار رہے، آپ نے تحریک خلافت کی مخالفت کی اور ۱۹۱۲ء میں تحریک ترک موالات کے خلاف علماء کی ایک کانفرنس بلائی، آپ کا عام لوگوں پر اچھا خاصا اثر تھا، لیکن تعلیم یافتہ طبقہ آپ کو پسند نہیں کرتا تھا۔
(سپریٹ ازم اَمونگ انڈین مسلمز:۴۲۲)

بابر خان لکھتے ہیں:-

۱۹۱۴ء میں جنگ عظیم اول کی ابتداء کے بعد ترکی نے مغربی یورپ کی مسلسل بدعہدیوں اور نا انصافیوں سے عاجز آکر جرمنی کے ساتھ اتحاد کرلیا تھا، برطانیہ (انگریزی حکومت) نے اس سلسلہ میں اہل ہند کے بعض علماء سے جن میں مولانااحمد رضا بریلوی خاص طور پر شامل ہیں ترکی کے خلاف فتاویٰ بھی حاصل کرلئے تھے۔
(برصغیر پاک و ہند کی سیاست میں علماء کا کردار:۱۳۶)

پیام شاہجہاں پوری لکھتے ہیں:-

یہ ہیں احکام اور فقیہانِ اسلام کے فتاویٰ جن کی بنیاد پر مولانا احمد رضا خان فاضل بریلوی نے فتویٰ دیا کہ مفلس پر اعانت مال نہیں، بے دست و پا پر اعانت اعمال نہیں بلکہ مسلمانانِ ہند پر حکم جہاد و قتال نہیں۔
(دوام العیش:۴۶)

’’۱۸۵۷ء کا جہاد‘‘ کے مصنف لکھتے ہیں:

اعلی حضرت مولانا احمد رضا خان بریلوی اپنے مریدین باصفا اور بریلوی مکتبہ فکر کے اکابر و عوام کو جو فکر و نظر عطا کرگئے اور جس راستہ کی طرف راہنمائی کرگئے ان کی مریدین و متبعین نے اس سے سر مو انحراف نہ کیا، پیرانِ طریقت نے ان کی نصیحت کو گرہ میں باندھ لیا کہ امام اہل سنت کی نصیحت تھی اور اس کی بنیاد فقہ اسلامیہ کی مستند کتب تھی، جس کی رُو سے ایک پر امن حکومت کے خلاف خواہ وہ مسلم ہی کیوں نہ ہو فتنہ و فساد حرام ہے، چنانچہ ۱۹۱۹ء کی جنگ عظیم اول ہو یا ترک موالات و مسئلہ خلافت ہو یا جلیانوالہ باغ کا سانحہ اہل طریقت نے ہر موقع پر حکومت سے تعاون کیا، فتنہ و فساد سے اجتناب کیا اور سرکار برطانیہ سے وفاداری کا اظہار کیا۔
(۱۸۵۷کا جہاد:۱۴۳)

محمد فاروق قریشی لکھتے ہیں:

اعلیٰ حضرت مولانا احمد رضا خان کے مریدوں اور مقلدوں نے ان کے حکم و ارشاد کے مطابق عمل کیا اور ان کے مکتب فکر کے علماء و اکابرین نے بحیثیت جماعت آزادی کی تحریکوں سے کنارہ کشی اختیار کئے رکھی، اس کی شدید مخالفت کی اور انگریزوں کے ساتھ تعاون کیا۔

پھر آگے لکھتے ہیں:

جلیانوالہ باغ، تحریک خلاف اور ترک موالات میں ان کا تعاون برطانوی سرکار کو حاصل رہا، انہوں نے برطانوری سرکار سے یکجہتی کے اظہار کے لئے فتوے جاری کئے کئی کتب تصانیف کیں، جن میں اپنے مریدوں کو ان میں حصہ لینے سے روکا گیا تھا، ان تحریکوں کو فتنہ و فساد قرار دیا یا قومی تحریکوں اور جد و جہد کے بارے میں ان کا رویہ مستحسن قرار نہیں دیا جاسکتا۔

(ولی خان اور قرارداد پاکستان:۳۰۹)

مولوی عبد الحکیم شرف قادری بریلوی ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی میں مسلمانوں کی شکست کے متعلق لکھتا ہے:
سوءِ اتفاق کہ منظم تیاری نہ ہونے اور اپنوں کی غداری اور غفلت کی وجہ سے انگریز دہلی پر مسلط ہوگئے۔

(باغی ہندوستان، حرفِ آغاز:۲۰)

قارئین حضرت! مولوی عبد الحکیم شرف قادری بریلوی کے اپنے کون تھے، جنہوں نے مسلمانوں سے غداری کی؟ ان کے اپنے ہی تھے جنہوں نے مسلمانوں سے غداری کی، جس کا اعتراف مولوی عبد الحکیم شرف قادری بریلوی کو ہے۔

حکیم محمود احمد برکاتی بریلوی لکھتا ہے:-

دہلی کے مسلمانوں میں سے ایک گروہ انگریزوں کا مخالف اور دشمن ہے، مگر دوسرا گروہ انگریزوں کی محبت میں اتنا بڑھا ہوا ہے کہ وہ باغی لشکر کو نقصان دینے اور مجاہدین کو ذلیل و رسواء کرنے میں کوئی کسر اٹھا کے نہیں رکھتا اور ان میں باہم پھوٹ ڈالنے میں مصروف ہے۔

(فضل حق خیرآبادی اور سنہ ستّاون:۳۴)
 

فہد مقصود

محفلین
اور یہی نہیں بلکہ ایک دوسرے کی حقیقت عیاں کرنے میں بھی خوب آگے آگے رہتے ہیں۔

غدّاران ِ وطن کی کہانی ، حقائق کی زبانی

  • مضمون نگار: ڈاکٹر محمد حسین مُشاہد رضوی
ہندوستان کی آزادی میں علمائے حق نے جو قربانیاں پیش کی ہیں اُسے کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ مگر یہ کتنی بڑی ستم ظریفی ہے کہ آج ان وفاداروں کا کہیں ذکر نہیں کیا جاتا ہاں ذکر کیا جاتا ہے تو ان غدّارانِ وطن کا جنھوں نے انگریزوں کے ٹکڑوں پر گزارا کیا اور انگریزوں کا نمک کھایا۔ علمائے دیوبند کے بارے میں آج کل اس جھوٹ کو اتنا زیادہ بولا جارہا ہے کہ وہ انگریزوں کے سخت مخالف تھے اور اُنہوں نے وطنِ عزیز کی آزادی کیلئے بڑی بڑی قربانیاں دی ہیں جب کہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ یادمحبانِ وطن کے نام سے جلسے کا مقصد بھی یہی ہے کہ اکابر علمائے دیوبند مولوی قاسم نانوتوی (بانی دارالعلوم دیوبند)، مولوی رشید احمد گنگوہی ، مولوی اشر ف علی تھانوی، مولوی اسماعیل دہلوی اور سیّد احمد رائے بریلوی جیسے غدّارانِ وطن اور برطانوی حکومت کے ایجنٹوں کا قصیدہ پڑھ کر ان پر لگے انگریز نوازی اور ملک دشمنی کے الزامات کو ہلکا کیا جائے لیکن حقیقت کو کبھی چھپایا نہیں جاسکتا۔ تاریخ کے اوراق ہمیشہ صداقت تسلیم کرنیوالوں کی رہبری کرتے رہیں گے ۔ غدّاروں کو وفادار نہیں بنایا جاسکتا۔ ’’یادِ محبان وطن‘‘ کے نام پر جلسہ لیکر دیوبندی لاکھ کوشش کریں کہ اپنے اکابرین کے پاپ کو چھپالیں لیکن وہ اس میں کبھی کامیاب نہیں ہوسکتے۔ حقیقت ہر حال میں خود کو منواکر رہے گی۔ آج نہیں تو کل سہی لیکن اتنا ضرور ہے کہ قوم جب بیدار ہوگی تو ملک دشمنوں کے چہرے پوری طرح بے نقاب ہوں گے۔ ہندوستان میں ہزاروں علمائے کرام نے انگریزوں کے خلاف جہاد کرتے ہوئے مصائب و آلام کا سامنا کیا اور وطن عزیز پر اپنی جان نچھاور کردی۔ اس حقیقت سے کون آگاہ نہیں کہ علماء سوء کی ایک جماعت کو انگریزوں نے خرید رکھا تھا۔ جو انگریزوں کی مخالفت کرنے سے مسلمانوں کو منع کررہے تھے۔ بس اسی کی تحقیق اگر مسلمان کرلے کہ آخر انگریزوں کے وفادار علماء کون تھے؟ تو جہاںاُسے وطن کے غدّار علماء کا پتہ چلے گا وہیں مزید یہ بھی آشکار ہوگا کہ انگریزوں کے ہاتھوں بکے ہوئے یہ علماء در اصل مسلمانوں کے ایمان و عقیدے پر ڈاکہ ڈال رہے تھے اس مضمون میں دیوبندی جماعت کے سرکردہ رہنماؤں کی انگریز دوستی کا نمونہ دکھانے کی کوشش کی جارہی ہے۔
آیئے سب سے پہلے سیّد احمد رائے بریلوی کے بارے میں معلوم کریں یاد رہے کہ دیوبندی علماء سیّد صاحب موصوف کو ہندوستان میں پہلی اسلامی تحریک کا بانی اور مسلمانوں میں انگریزوں کے خلاف جہاد کا جذبہ پیدا کرنے والا پہلا شخص کہتے ہیں اس ضمن میں سب سے پہلے ہم یہ دیکھتے ہیں کہ آیا سیّد صاحب واقعی انگریزوں کے مخالف تھے اور مسلمانوں کو انگریزوں کے خلاف جہاد کرنے کا درس دیتے تھے۔ واضح رہے کہ اس مضمون میں جتنے بھی حوالے دیئے جارہے ہیں سب کے سب دیوبندیوں کی مستند کتابوں سے ماخوذ ہیں۔ سیّد احمد رائے بریلوی سے متعلق ’’سیرت سیّد احمد‘‘ کے سوانح نگار مولوی ابوالحسن علی ندوی نے بڑی اچھی وضاحت کی ہے۔

’’اتنے میں کیادیکھتے ہیں کہ انگریز گھوڑے پر سوار چند پالکیوں میں کھانا رکھے کشتی کے قریب آیا اور پوچھا کہ پادری صاحب (یعنی سیّد صاحب) کہاں ہیں ۔ حضرت نے کشتی پر سے جواب دیا میں یہاں موجود ہوں انگریز گھوڑے پر سے اترا اور ٹوپی ہاتھ میں لئے کشتی پر پہنچا ۔ مزاج پرسی کے بعد کہاتین روز سے میں نے اپنے ملازم یہاں کھڑے کر رکھے تھے کہ آپ کو اطلاع کریں آج انہوں نے یہ اطلاع دی ہے کہ اغلب یہ ہے کہ حضرت قافلہ کے ساتھ تمہارے مکان کے سامنے پہونچیں یہ اطلاع پاکر غروب آفتاب تک کھانے کی تیاری میں مشغول رہا ۔سیّد صاحب نے حکم دیا کہ کھانا اپنے برتنوں میں منتقل کرلیا جائے ، کھانا لیکر قافلے میں تقسیم کردیا گیا اور انگریز دو تین گھنٹہ ٹھہر کر چلا گیا۔ (سیرت سیّد احمد ۔ص نمبر ۱۹۰)

قارئین کرام ذرا ٹھنڈے دل سے سوچئے کہ ایک طرف تو یہ کہا جارہا ہے کہ سیّد صاحب انگریزوں کی مخالفت کا نقش لوگوں کے دلوں میں بٹھاتے تھے اور دوسری طرف ان کی انگریز دوستی کو بڑے فخر کے ساتھ بیان کیا جارہا ہے ہم آپ کے ضمیر سے فیصلہ چاہتے ہیں کہ جس شخص کی انگریز دوستی کا عالم یہ ہو کہ انگریز تین تین روز تک کھانا لے کر سیّد صاحب کی آمد کا انتظار کرے اور جب سیّد صاحب کا گزر ہو تو کھانا ان کی بارگاہ میں بصد ادب پیش کردے اور طرفہ تماشہ یہ کہ پورے قافلہ والوں کا کھانا سیّد صاحب کے صدقہ میں آیا اور تقسیم بھی ہوا۔ ایسا شخص بھلا کب انگریزوں کی مخالفت کرے گا اور ان کے مقابل جہاد کرے گا اور جہاد کی ترغیب دے گا۔
اور آگے بڑھئے مرزا حسرت دہلوی کی زبانی دوسری روایت سنئے۔’’حیات طیبّہ‘‘ کے صفحہ نمبر ۴۲۰ پر سیّد احمد کے چار سو بیسی کام کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں ۔

’’۱۸۱۵۔؁ء تک سیّد احمد ، امیر خاں کی ملازمت میں رہے مگر ایک کام نام آوری کا یہ کیا کہ انگریز اور امیر خان میں صلح کرادی۔ سیّد صاحب نے امیرخان کو بڑی مشکل سے شیشے میں اتارا۔ لارڈ ہیسٹٹنگز، سیّد صاحب کی کارگزاری سے بہت خوش ہوا کیونکہ امیر خاں نے ریاستوں اور ان کے ساتھ انگریزوں کا بھی ناک میں دم کردیا تھا۔ سیّد صاحب نے اس حکمت عملی سے بپھرے ہوئے شیر کو پنجرے میں بند کردیا۔ (حیات طیبّہ ، صفحہ نمبر ۴۲۰ )

کہاں ہے دیوبندی مکتب فکر کے علماء ومقررین جو سیّد احمد کی تحریک کاگن گاتے ہوئے، اپنی تقاریرمیں اُنہیں مجاہد آزادی ، انگریزوں کے خلاف جہاد کی ترغیب دینے والا اور وطن کے نام پر بالا کوٹ کے میدان پر جامِ شہادت نوش کرنیوالا کہا کرتے ہیں۔ اگر واقعی سیّد صاحب کو آزادی ٔ وطن کی ذرا بھی فکر ہوتی تو امیر خان کو انگریزوں کی غلامی پر نہ اکساتے بلکہ اُن ظالموں کے خلاف جہاد میں شدّت اختیار کرنے کا مشورہ دیتے کیونکہ امیر خان کے پاس اُس وقت پچیس تیس ہزار لڑنے والے مسلمانوں کا لشکر موجود تھا۔ عوام کو اس طرح کہہ کردھوکہ دیناکہ برطانوی حکومت کے ایجنٹ آج آزادی کے ہیرو کہلارہے ہیں ۔اور خود برطانوی ایجنٹ سیّد احمد رائے بریلوی کو مجاہد آزادی اور شہید کہنا چہ معنی دارد۔؟

اسی طرح شاہ اسمٰعیل دہلوی کا نام بھی وطن عزیزکے نام پر قربان کرنے والوںکے طور پر لیا جاتا ہے ۔ یاد رہے مولوی اسماعیل دہلوی وہ شخص ہے جنھوں نے انگریزوں کی ایماء پر سکھوں سے لڑائی لڑی اور برطانوی حکومت کے بارے میں ان کا موقف بڑا ہی نرم تھا۔ چنانچہ ’’تواریخ عجیبہ ‘‘کے ص ۷۳ پر انگریزوں کے تعلق سے شاہ اسماعیل دہلوی کے موقف کی وضاحت انہی کی زبانی ان کا سوانح نگار یوںکرتا ہے کہ ’’انگریزوں کے عہد میں مسلمانوں کو کوئی اذّیت نہیں چوں کہ ہم انگریزوں کی رعایا ہیں ہمارے مذہب کی روسے ہم پر یہ فرض ہے کہ انگریزوں سے جہاد کرنے میں ہم کبھی شریک نہ ہوں۔‘‘ اسی بات کو ’’حیات طیّبہ ‘‘ کے ص نمبر ۲۹۶ پر مرزا حیرت دہلوی قدرے تفصیل سے بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔
’’کلکتہ میں جب مولانا اسمٰعیل صاحب نے جہاد کاوعظ شروع کیا اور سکھوں کے مظالم کی داستان شروع کی تو ایک شخص نے دریافت کیا کہ آپ انگریزوں پرجہادکا فتویٰ کیوںنہیں دیتے؟ انہوں نے جواب دیا کہ ایک توہم ان کی رعیت (رعایا)ہیں اوردوسرے ہمارے مذہبی ارکان ادا کرنے میں بھی ذرّہ برابر دست اندازی نہیں کرتے ہمیں اُ ن کی حکومتوں میں ہرطرح آزادی ہے۔ بلکہ اگر کوئی ان (انگریزوں) پرحملہ آور ہوتو مسلمانوں پر فرض ہے کہ وہ اُس سے لڑیں اور اپنی گورنمنٹ برطانیہ پر آنچ نہ آنے دیں۔‘‘

ملک بھرمیں ’’یاد محبانِ وطن‘‘ کے نام پر منعقد کئے گئے جلسوںسے خطاب کرتے ہوئے مکتب دیوبند کے مقررین نے اسی مولوی اسمٰعیل کا قصیدہ پڑھ کر انہیںانگریز مخالف بتانے کی بھرپورکوشش کی ہے جبکہ وہ خود کیا کہتے ہیں اُن کی ہی زبانی مذکورہ بالا اقتباسات کو بار بار پڑھیں اور فیصلہ کریں کہ ہمارا الزام دیوبندیوں پر صحیح ہے یا غلط؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یاد محبان وطن کے جلسوں میں غدّاران وطن کو وفادار بتایا جانا انتہائی افسوس ناک امر ہے۔ اور جھوٹ جیسی بری چیز کی تشریح ہے۔ یہی نہیں بلکہ سیّد احمد رائے بریلوی اور اسمٰعیل دہلوی دونوں کوشہید کہا جاتا ہے۔ حقیقتاً یہ لوگ قتیل نجد اور ذبیح تیغِ خیار ہیں ان کی ’’فرضی شہادت کی روداد علی گڑھ تحریک کے بانی سرسیّد احمد خان کی زبانی سنئے ’’ہندوستان کے گوشہ شمال مغرب کی سرحد پر جوپہاڑی قومیںآباد رہتی ہیں وہ سُنی المذہب حنفی ہیں چونکہ پہاڑی قومیں سیّد صاحب اور مولوی اسمٰعیل کے عقائد کی مخالف تھیں اسلئے وہ وہابی ان پہاڑیوں کو ہرگز اس بات پر راضی نہ کرسکے کہ وہ انکے مسائل بھی اچھا سمجھتے البتہ وہ سکھوں کے جو رو ستم سے نہایت تنگ آچکے تھے۔ اس سبب سے وہابیوں کے اس منصوبے میںشریک بھی ہوگئے کہ سکھوں پر حملہ کیا جائے لیکن یہ قوم مذہبی مخالفت میں نہایت سخت تھیں اس سبب سے اس قوم نے اخیر میں وہابیوں سے دغا کرکے سکھوں سے اتفّاق کیا اور مولوی اسمٰعیل و سیّد احمد صاحب کو قتل کردیا۔‘‘ (مقالات سرسیّد حصّہ نہم ص : ۱۳۹ ؍اور ۱۴۰)
اس عبارت کا مطالعہ کے بعد ذہن میں ایک سوال ابھرتا ہے کہ آخر ایسے کونسے عقائد ومسائل تھے جن کی بناء پر پہاڑی قوموں نے اسمٰعیل دہلوی کی پوری شدو مد سے مخالفت کی حتیٰ کے اخیر میں بالاکوٹ کے میدان میں سیّد صاحب اور مولوی اسمٰعیل دونوں کو قتل کردیا۔ اسلئے ہم یہاں پر ان کے عقائد کی وضاحت کرنا ضروری سمجھتے ہیں۔ مگر ان کے عقائد کفریہ کی فہرست بڑی طویل ہے فقط ایک ہی عقیدہ بیان کرکے ہم آگے بڑھتے ہیں۔

مولوی اسمٰعیل دہلوی’’صراط مستقیم‘‘(اردو) ناشر مکتبۂ رحیمیہ دیوبندکے صفحہ نمبر۱۳۶، پرلکھتے ہیں۔ ’’نماز میں زناکے وسوسہ سے اپنی بی بی کی مجامعت کا خیال بہتر ہے۔ شیخ یا اسی جیسے دوسرے بزرگوں کی طرف خواہ جناب رسالت مآب ہی ہوںاپنی ہمت کو لگا دینا اپنے بیل اور گدھے کی صورت میں مستغرق ہونے سے برا ہے۔‘‘(معاذ اللہ)

بناء کسی تبصرے کے ہم یہاں پر یہ کہنا چاہتے ہیں کہ یہی وہ کفری عقیدہ ہے جس کی بناء پر سرحد کی باغیرتِ جوش ایمانی سے پرُ اور محبت ِ سرورکائناتﷺ میں سرشار مسلمانوں نے بالاکوٹ کے میدان میں سیّد احمد رائے بریلوی اور اسماعیل دہلوی کو قتل کردیا تھا۔ یاد رہے کہ انہی دونوں کو دیوبندی علماء جنگ آزادی کے قائد، مجاہد آزادی اور شہید وطن قراردیتے ہیںجب کہ حقائق کی زبانی ان غداری کی کہانی آپ نے ملاحظہ کرلی ہے اب بھی کسی شک و شبہ کی گنجائش کا ہونا ضداور ہٹ دھرمی کے سوا کچھ نہیں تاریخی حقائق وشواہد کو جھٹلاتے ہوئے بڑی ڈھٹائی سے ان دونوں کے ناموں کے ساتھ شہید کا لکھا جاناسادہ لوح مسلمانوں کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے مترادف ہے ۔ حقائق بہرحال کسی نہ کسی دن عیاں ہوکر رہیںگے۔

دیوبندی علماکے ممتاز مصنف مولوی عاشق الٰہی میرٹھی بلند شہری اپنی کتاب تذکرۃ الرشید ‘‘ میں برطانوی حکومت کے ساتھ دیوبندی شیخ العالم رشید احمد گنگوہی کے نیاز مندانہ جذبات کی عکاسی کرتے ہوئے ایک جگہ لکھتے ہیں ’’میں جب حقیقت میں سرکار (انگریز) کا فرمانبردار ہوں تو جھوٹے الزامات سے میرا بال بھی بیکا نہ ہوگا۔ اور اگر مارا بھی گیا تو سرکار مالک ہے ۔اسے اختیار ہے جو چاہے کرے۔‘‘ (تذکرۃ الرشید صفحہ نمبر۸۰)

کچھ سمجھاآپ نے؟ کس الزام کویہ جھوٹا کہہ رہے ہیں یہی کہ انگریزوں کے خلاف انہوں نے جہادکا علم بلند کیا تھا۔ مولوی رشید احمد گنگوہی کی اس مخلصانہ صفائی کو کوئی مانے نہ مانے کم از کم دیوبندیوں کو توضرور ماننا چاہئے تھامگرغضب خدا کا کہ اتنی شدو مد کے ساتھ انگریزوں سے جہاد نہ کرنے کی مولوی رشیداحمدگنگوہی کی صفائی کے باوجود دیوبندی علماء یہ الزام اپنے اس اکابر پر لگارہے ہیں کہ انہوںنے انگریزوںسے جہادکیا تھا۔دنیا کی تاریخ میں اس کی مثال مشکل ہی سے ملے گی کہ کسی فرقے کے افراد نے اپنے پیشوا کی اس طرح تکذیب کی ہو۔
آیئے اب کچھ باتیںدیوبندی حکیم الامت مولو ی اشرف علی تھانوی کے تعلق سے کرتے ہیں۔ آپ کی ذات محتاج تعار ف نہیں’’توہین رسالت‘‘ کے بھیانک ترین جرم کے مرتکب ہونے کے ساتھ ساتھ کس قدر انگریز نواز تھے خود تھانوی صاحب اپنے بارے میںارشاد فرماتے ہیں۔

’’تحریکات کے زمانے میں میرے متعلق یہ مشہورکردیاگیا کہ ۶۰۰ روپیہ ماہانہ گورنمنٹ سے پاتاہے ۔‘‘ (الافاضات الیومیہ جلد ۴،ص: ۶۹۸)
مذکورہ بالا۶۰۰؍ روپیہ ماہانہ وظیفہ کی تاویل دیوبندی مکتب فکر کے مایا ناز ادیب مولوی شبیر احمدعثمانی اپنے الفاظ میںیوں کرتے ہیں ۔
’’مولانا تھانوی کو اسکاعلم نہیں تھا کہ روپیہ حکومت دیتی ہے۔ مگر حکومت ایسے عنوان سے دیتی تھی کہ ان کواس کا شبہ بھی نہیں گزرتا تھا اب اس طرح اگر حکومت مجھے یا کسی شخص کو استعمال کرے مگر اسے علم نہ ہو کہ اسے استعمال کیا جارہا ہے تو ظاہر ہے وہ شرعاً اس میں ماخوذ نہیں ہوسکتا ۔‘‘یہ بات مولوی عثمانی نے ضرور اسلئے کہی کہ ان پر ناظم جمیعۃ العلماء مولوی حفیظ الرحمن نے انگریزوں کی نمک خواری کا الزام لگایاتھا۔ مولوی حفیظ الرحمن لکھتے ہیں کہ’’ کلکتہ میں جمیعۃ العلمائے اسلام حکومت کی مالی امداد اور ایما ء سے قائم ہوئی ہے‘‘۔
(چند سطروں بعد)۔۔۔
گفتگوکے بعد طئے ہوا کہ گورنمنٹ ان کو کافی امداد اس مقصد کیلئے دے گی۔ چنانچہ ایک پیش قرار رقم اس کے لیے منظور کی گئی اور اس کی ایک قسط مولانا آزاد سبحانی کے حوالہ بھی کردی گئی اس روپیہ سے کلکتہ میں کام شروع کیا۔‘‘ مولانا حفیظ الرحمن نے کہا یہ اسقدر یقینی روایت ہے کہ اگر آپ اطمینان فرمانا چاہیں تو ہم اطمینان کرسکتے ہیں ۔ (مکالمۃ الصدرین ص۸)
مندرجہ بالا عبارت باربار پڑھئے آپ کو محسوس ہوگا کہ کس بیباکی سے علمائے دیوبند ایک دوسرے پر انگریزوں کی نمک خواری اور وظیفہ یابی کا الزام عائد کررہے ہیں۔
بہر کیف برطانوی حکومت کے وفاداروں اور وطن کے غدّاروںسیّد احمد رائے بریلوی ،مولوی اسمٰعیل دہلوی، مولوی رشید احمد گنگوہی، مولوی اشرف علی تھانوی اور مولوی شبیر عثمانی وغیرہ ہم جن کو زمانۂ حال کے علمائے دیوبند اور جمیعۃ العلماۂ ہند کے ذمّہ داران باربارآزادی کا ہیرو قرار دیتے ہیں۔ ان کی انگریز نوازی اور انگریز دوستی کے واقعات کے بعد آیئے اب دار العلوم دیوبند کی خانہ تلاشی کرتے ہیں۔ جس کی جھوٹی انگریز دشمنی اور وطن عزیزکی آزادی کیلئے فرضی قربانیوںکا قصہ دیوبندی علما ء و مقررین پڑھاکرتے ہیں۔

ایک دیوبندی فاضل نے مولانا محمداحسن ناناتوی کے نام سے موصوف کی سوانح حیات لکھی ہے جس کو مکتبۂ عثمانیہ کراچی نے شائع کیا ہے۔ اور جس پر مفتی محمد شفیع دیوبندی (کراچی) کی تصدیق بھی موجود ہے۔ مصنف نے اخبار ’’انجمن پنجاب لاہور‘‘ ۱۹؍فروری ۱۸۷۵ء کے حوالہ سے لکھا ہے کہ ۳۱؍جنوری ۱۸۷۵ء یکشنبہ لیفٹننٹ گورنر کے ایک خفیہ معتمد انگریز مسمّیٰ پامرPamer نے دار العلوم دیوبند کا معائنہ کیا۔ معائنہ کی جو عبارت موصوف نے اپنی کتاب میں نقل کی ہے۔ اس کی چند سطریں خاص طور پر پڑھنے کے قابل ہیں۔ ’’جو کام بڑے بڑے کالجوں میں ہزاروں روپیوں کے صرفہ سے ہوتا ہے۔ وہ یہاں کوڑیوںمیں ہورہا ہے۔جو کام پرنسپل ہزاروں روپئے ماہانہ تنخواہ لیکر کرتا ہے وہ یہاں ایک مولوی چالیس روپیہ ماہانہ پرکررہاہے۔ یہ مدرسہ خلاف سرکار انگلشیہ نہیں بلکہ موافق سرکار ممدو معاون سرکا ر ہے۔‘‘

؎ مدعی لاکھ پہ بھاری ہے گواہی تیری
خود انگریز کی یہ شہادت کے یہ مدرسہ خلاف سرکار نہیںبلکہ موافق سرکارکا معاون ہے توپھراسی ’’فرضی افسانے‘‘کی کیا حقیقت رہ جاتی ہے جس کا’’ ڈھنڈورا‘‘ ہر سال ’’ یاد محبان وطن‘‘ کے نام پر اجلاس کا انعقاد کرکے پیٹا جاتا ہے۔ کہ دار العلوم دیوبند اور اکابرعلمائے دیوبند نے انگریزی حکومت کے خاتمے کیلئے زبردست حصّہ لیا ہے۔اور ملک کو آزاد کرانے کیلئے قربانیاں دیں۔ حقائق تو انہیں برطانوی حکومت کا ایجنٹ ووفادار اور ملک کا غدّارو دشمن ثابت کرتے ہیں۔
دارا لعلوم دیوبند کے کارکنوں کا انگریزوںکے ساتھ کس درجہ خیر خواہانہ ، نیاز مندانہ اورمخلصانہ تعلق تھا۔ اس کا اندازہ لگانے کیلئے خود قاری طیّب صاحب مہتمم دار العلوم دیوبند کا یہ تہلکہ خیز بیان پڑھئے اور سر دھنئے۔’’ مدرسہ دیوبند کے کارکنوں کی اکثریت ایسے بزرگوں کی تھی جو گورنمنٹ کے قدیم ملازم اور حال پینشنرز یافتہ تھے۔ جن کے بارہ میں گورنمنٹ کو کچھ شک و شبہ کرنے کی گنجائش ہی نہ رہی تھی۔ (حاشیہ سوانح قاسمی جلد :۲ ص۲۴۷)

اتنے حقائق کے بعد مسلمانوں کو خود فیصلہ کرنا چاہئے کہ دار العلوم دیوبند انگریزوں کی شہ پر قائم کیاگیا ادارہ ہے جس کا مقصدمسلمانوں میں پھوٹ ڈالنا اور ان کے دلوں سے عشق رسولﷺ کو نکال کر انگریزوں کی محبت بھرنا تھا۔ اوراسلام کو کمزور اور کھوکھلا کرنا تھا۔ دارالعلوم دیوبند کے ساتھ ساتھ تبلیغی جماعت بھی انگریزوں کی مدد سے مسلمانوں میں پھوٹ ڈالنے کیلئے بنائی گئی ہے اور انگریزوں کی مہربانیاںاور نوازشات علمائے دیوبند و دار العلوم دیوبند کی طرح تبلیغی جماعت پربھی تھی۔ اوریہ جماعت بھی وظیفہ خوری میں کسی سے پیچھے نہ رہی ۔ دیوبندی مکتب فکرکا ایک ذمے دار شخص اس حقیقت کا اقرار کرتا ہے کہ

’’مولانا حفیظ الرحمن نے کہا الیاس صاحب کی تبلیغی تحریک کو ابتداً حکومت کی جانب سے بذریعہ حاجی رشید کچھ روپیہ ملتا تھا۔ پھر بندہوگیا۔(مکالمۃ الصدرین)

روپیہ بندہونے کی وجہ یہ نہ تھی کہ تبلیغی جماعت تائب ہوکر انگریز دشمن بن گئی تھی بلکہ وجہ یہ تھی کہ جس مسلمان افسر نے تبلیغی جماعت کو خرید کر برطانوی حکومت کا آلۂ کار بنایاتھا اس کا تبادلہ ہوگیاتھا۔ اور اس کی جگہ ایک متعصب ہندو افسر آیاتھا۔ جو غالباً اپنی مسلم دشمن ذہنیت کے سبب انگریزوں کے مسلم وفاداروں کی جگہ کافر وفاداروں کا فائدہ چاہتا تھا۔ اسی ہندو افسر کی سفارش پرتبلیغی جماعت کی امداد بند ہوگئی۔
ان تاریخی حقائق و شواہد کی روشنی میں یہ واضح ہوجاتا ہے کہ دار العلوم دیوبند اور اکابرین علمائے دیوبند تمام کے تمام برطانوی حکومت کے ایجنٹ اور وفادار رہے ہیں۔ملک کی آزادی کیلئے کوششیں اور قربانیاں تو درکنار انگریزوں سے روپیہ پیسہ وظیفے کے طور پر حاصل کرکے انگریزوں کے کیخلاف جہادکرنے والوں کو ان لوگوںنے منع کیا اور وطن سے غدّاری کی۔ ان تاریخی حقائق و شواہد کی زبانی غداران وطن کی کہانی مکمل طور پر سمجھ میںآگئی ہوگی۔ خخخ
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top