(سیاہ سی آت)
یہ تسلیم نہ کرنا بہت بڑا جھوٹ ہو گا کہ پاک آرمی آج انہی عناصر پر قابو پانے میں اپنی جان کی بازی لگا رہی ہے جن کو اس نے خود پروان چڑھایا تھا ۔ ماضی کے عالمی سیاسی حالات اور پاک بھارت کشیدگی کے علاوہ مسئلہ کشمیر ان کی تخلیق کی اہم وجوہات میں سے ہیں ۔
گو کہ اب ان عناصر کا صفایا کیا جارہا ہے لیکن ان کے تخلیق کے اسباب اب بھی باقی ہیں ۔ کیا ہم میں سے کسی "دانشور" نے کبھی غور کیا کہ جب کوئی ملک کسی گروہ کو اپنے مفادات کے لئے مسلح کرتا ہے اور ان کی فوجی تربیت کرتا ہے تو وہ گروہ ایک دن خود اسی ملک کے لئے خطرہ بن جاتا ہے ۔ جو لوگ یہ بات سمجھنے سے قاصر ہیں کہ امریکی سی آئی اے مختلف گروہوں ، حکمرانوں اور افراد کو اپنے مقاصد پورے ہونے پر اپنے ہاتھوں کیوں ختم کر دیتی ہے وہ یہ جان لیں کہ امریکی سی آئی اے ہماری طرح سے غافل نہیں کہ ا یسے گروہوں کو خود کے لئے خطرہ بننے کی مہلت دے ۔ طالبان کی تخلیق میں امریکہ برابر کا شریک رہا ہے اور امریکی سی آئی نے بڑی با قاعدگی سے طالبان کے جنگی سرداروں کو وقت پر عدم آباد روانہ کرنے کی پالیسی اپنائے رکھی ۔ اس سے ایک تو سی ائی اے امریکہ کو خطرے سے محفوظ رکھتی رہی تو دوسری طرف کروڑوں ڈالرز کے لالچ میں خود طالبان کی سرداری ایک سے دوسرے ہاتھ میں یوں منتقل ہوتی رہی کہ ایک سردار کے مرنے پر کئی گروہی افراد سرداری کے امیداوار ہوتے جو کسی بھی خفیہ ایجنسی کی کامیابی کی دلیل ہے ۔
جنگ ایک ایسی کیفیت کا نام ہے جس کے قوانیں و نتائج غیر طے شدہ ہوتے ہیں لہذا اس بات کی توقع نہ کی جائے کہ جنگ کا ماحول ہوتے حالات چٹکی بجاتے سدھر جائیں گے یا پھر طالبان کو ختم کر کے امن سکون ہو گا ۔ بلکہ یہ ایک طویل مدتی عمل ہے جس کے تحت پاکستان کو داخلی طور پر روز گار ، تجارت اور تعلیم پر خصوصی توجہ دینا ہو گی اور خارجی طور پر عالمی و علاقائی حالات و واقعات سے خود کو ہم آہنگ کرنا ہو گا ۔ خارجہ پالیسی جذبات کی بجائے حقائق پر بنانا ہو گی ۔ کرپشن کے گھوڑے کو لگام ڈالنا ہو گی اور سب سے بڑھ کر یہ کہ فوج کو اب مزید کسی پراکسی کی بجائے اپنے زور بازو سے خود کو منوانا ہو گا ۔
یہ تسلیم نہ کرنا بہت بڑا جھوٹ ہو گا کہ پاک آرمی آج انہی عناصر پر قابو پانے میں اپنی جان کی بازی لگا رہی ہے جن کو اس نے خود پروان چڑھایا تھا ۔ ماضی کے عالمی سیاسی حالات اور پاک بھارت کشیدگی کے علاوہ مسئلہ کشمیر ان کی تخلیق کی اہم وجوہات میں سے ہیں ۔
گو کہ اب ان عناصر کا صفایا کیا جارہا ہے لیکن ان کے تخلیق کے اسباب اب بھی باقی ہیں ۔ کیا ہم میں سے کسی "دانشور" نے کبھی غور کیا کہ جب کوئی ملک کسی گروہ کو اپنے مفادات کے لئے مسلح کرتا ہے اور ان کی فوجی تربیت کرتا ہے تو وہ گروہ ایک دن خود اسی ملک کے لئے خطرہ بن جاتا ہے ۔ جو لوگ یہ بات سمجھنے سے قاصر ہیں کہ امریکی سی آئی اے مختلف گروہوں ، حکمرانوں اور افراد کو اپنے مقاصد پورے ہونے پر اپنے ہاتھوں کیوں ختم کر دیتی ہے وہ یہ جان لیں کہ امریکی سی آئی اے ہماری طرح سے غافل نہیں کہ ا یسے گروہوں کو خود کے لئے خطرہ بننے کی مہلت دے ۔ طالبان کی تخلیق میں امریکہ برابر کا شریک رہا ہے اور امریکی سی آئی نے بڑی با قاعدگی سے طالبان کے جنگی سرداروں کو وقت پر عدم آباد روانہ کرنے کی پالیسی اپنائے رکھی ۔ اس سے ایک تو سی ائی اے امریکہ کو خطرے سے محفوظ رکھتی رہی تو دوسری طرف کروڑوں ڈالرز کے لالچ میں خود طالبان کی سرداری ایک سے دوسرے ہاتھ میں یوں منتقل ہوتی رہی کہ ایک سردار کے مرنے پر کئی گروہی افراد سرداری کے امیداوار ہوتے جو کسی بھی خفیہ ایجنسی کی کامیابی کی دلیل ہے ۔
جنگ ایک ایسی کیفیت کا نام ہے جس کے قوانیں و نتائج غیر طے شدہ ہوتے ہیں لہذا اس بات کی توقع نہ کی جائے کہ جنگ کا ماحول ہوتے حالات چٹکی بجاتے سدھر جائیں گے یا پھر طالبان کو ختم کر کے امن سکون ہو گا ۔ بلکہ یہ ایک طویل مدتی عمل ہے جس کے تحت پاکستان کو داخلی طور پر روز گار ، تجارت اور تعلیم پر خصوصی توجہ دینا ہو گی اور خارجی طور پر عالمی و علاقائی حالات و واقعات سے خود کو ہم آہنگ کرنا ہو گا ۔ خارجہ پالیسی جذبات کی بجائے حقائق پر بنانا ہو گی ۔ کرپشن کے گھوڑے کو لگام ڈالنا ہو گی اور سب سے بڑھ کر یہ کہ فوج کو اب مزید کسی پراکسی کی بجائے اپنے زور بازو سے خود کو منوانا ہو گا ۔