وہ اس سسٹم سے باہر نہیں نکل رہے، وہ بھی اپنی مرضی کی اسٹیبلشمنٹ چاہتے ہیں، وہ اسٹیبلشمنٹ کو اپنا ہم نوا بنانا چاہتے ہیں جس کا اظہار وہ کئی بار کر چکے ہیں۔ ایسا ہوتا نہ دکھائی دے تو وہ مقبولیت کے زعم میں آ کر ان کے سہارے کے بغیر اقتدار میں آنے کا نعرہ لگاتے ہیں مگر ان کے اردگرد موجود اسٹیبلشمنٹ کے نمائندے یہ بیانات سن کر ہنستے ہوں گے۔ دراصل اکیلے عمران کے بس کی بات نہیں کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کو نکال باہر کرے جب تک کہ تمام سیاسی جماعتیں مل کر ایسا فیصلہ نہ کر لیں۔ اسٹیبلشمنٹ کو ہر دور میں اپنے ہم نوا مل جاتے ہیں سو اُن کا کام چلتا رہتا ہے۔ عمران خان کو اصل ڈر یہی ہے کہ وہ مقبول ہونے کے باوجود شاید اس لیے اقتدار میں نہ آ پائیں گے کہ اسٹیبلشمنٹ میں اب ان کی پہلے جیسی سپورٹ موجود نہیں۔ عدلیہ کے متعلق بھی شاید وہ یہی سمجھتے ہوں گے کہ نئے چیف جسٹس کے آنے بعد شاید انہیں کوئی زیادہ ریلیف مل نہ پائے گا۔ اس کو ایسے دیکھیں کہ وہ اگلے برس اقتدار میں آتے ہیں تو چیف آف آرمی اسٹاف عاصم منیر ہوں گے اور چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ ہوں گے سو ان کی فرسٹریشن کی وجہ یہی لگ رہی ہے۔ خیر وہ اس کا بھی کوئی نہ کوئی حل نکال لیں گے۔
دیکھتے ہیں کہ کوئی حل نکالیں گے
یا کوئی انہیں ہی نکال دے گا
اِس وقت کے حالات سے تو لگ رہا ہے کہ
عمران خان صاحب کا اگلی بار بھی حکومت کرنا ممکن نہیں
اگر حکومت ہوگی بھی تو لولی لنگڑی حکومت ملے گی
جس سے نیا پاکستان بنانا بہت ہی مشکل ہے
نیا پاکستان بنانے کے نئی مشینری چاھئیے جو کہ عمران خان کے پاس نہیں ہے ۔