کئی برس پہلے جم کاربٹ کی کتاب Temple Tiger and Other Maneaters of Kumaon کا ترجمہ کیا تھا اور یہ سوچ کر کہ محفل پر پوسٹ کر چکا ہوں گا، اسے گم کر دیا تھا۔ ابھی کچھ دن قبل ڈیسک ٹاپ پر کام کرتے ہوئے ورڈ کی کچھ فائلز تلاش کر رہا تھا کہ اس فائل پر نظر پڑ گئی۔ سو شیئر کر رہا ہوں
ٹمپل ٹائیگر
1
ایسے افراد جو ہمالیہ کے بالائی علاقوں میں نہیں رہے، ان کے لیے یہ اندازہ کرنا ناممکن ہے کہ اس انتہائی کم آباد علاقے میں توہم پرستی کس حد تک پھیلی ہوئی ہے۔ بالائی علاقوں میں رہنے والے افراد کی توہم پرستی اور کم بلند علاقوں پر رہنے والے نسبتاً تعلیم یافتہ افراد کے عقائد کے درمیان حد فاضل مقرر کرنا بہت دشوار ہے۔ جہاں ایک کے عقائد ختم ہوتے ہیں، وہیں سے دوسرے کی توہم پرستی شروع ہوتی ہے۔ عین ممکن ہے کہ میری اس داستان میں بیان کردہ توہم پرستی پر آپ کو ہنسی آئے تاہم ہنسنے سے قبل آپ ان توہمات کا مقابلہ اپنے ان عقائد سے کیجئے جن میں آپ نے پرورش پائی ہے۔
قیصر کی جنگ کے فوراً بعد رابرٹ بلئیرس اور میں کماؤں کے اندرونی علاقوں میں شکار کھیل رہے تھے اور ہمارا کیمپ ستمبر کی ایک شام تری سول کے دامن میں لگا۔ ہمیں بتایا گیا کہ ہر سال 800 بکریاں تری سول کے شیطان کی بھینٹ چڑھائی جاتی ہیں۔ ہمارے ساتھ 15 بہترین اور ماہر پہاڑی تھے جو میرے ساتھ ہمیشہ سے شکاری مہمات پر ہمراہ ہوتے تھے۔ ان میں سے ایک گڑھوالی کا نام بالا سنگھ ہے جو میرے ساتھ کئی سالوں سے ہے اور میرے شکاری کیمپ پر وہ ساتھ رہتا ہے۔ اس کا محبوب مشغلہ میرے کیمپ کا سب سے بھاری سامان اٹھا کر لمبے لمبے ڈگ بھرتے ہوئے اور پورے قافلے کو گانے وغیرہ سنا کر محظوظ کرتا۔ رات کو کیمپ فائر کے گرد یہ افراد جمع ہو کر گاتے اور پھر سونے چلے جاتے۔ تری سول کے دامن میں پہلی رات زیادہ دیر تک گانے گا کر، تالیاں بجاتے، شور کرتے اور پیپے وغیرہ بجا کر پھر یہ لوگ سونے چلے گئے۔
ہمارا ارادہ تھا کہ اس جگہ ہم کئی دن رکتے اور آس پاس کے علاقے میں پہاڑی بکریوں وغیرہ کا شکار کرتے۔ تاہم صبح اٹھتے ہی ایک عجیب سا منظر دکھائی دیا۔ سارے ہمراہی سامان باندھ کر کیمپ منتقل کرنے کے لیے تیار ہو رہے تھے۔ جب میں نے وجہ پوچھی تو انہوں نے بتایا کہ یہ جگہ بہت نم ہے، پانی بھی اچھا نہیں، ایندھن کے لکڑیاں دور سے لانی پڑتی ہیں اور یہ کہ محض دو میل آگے بہت عمدہ مقام موجود ہے۔
میرے سامان کو اٹھانے کے لیے چھ افراد تھے لیکن میرا سارا سامان پانچ حصوں میں تقسیم کیا ہوا تھا۔ بالا سنگھ کیمپ فائر کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا اور اس کے سر اور شانوں پر کمبل تھا۔ ناشتے سے فارغ ہو کر میں جونہی بالا سنگھ کی طرف بڑھا، تمام افراد اپنے کام کاج چھوڑ کر انتہائی توجہ سے مجھے دیکھنے لگے۔ بالا سنگھ نے مجھے آتے دیکھا لیکن خوش آمدید نہیں کہا۔ یہ بات بہت عجیب تھی۔ میرے ہر سوال کا اس نے صرف ایک ہی جواب دیا کہ وہ ٹھیک نہیں۔ دو میل کا سفر ہم نے اس دن انتہائی خاموشی سے طے کیا۔ بالا سنگھ سب سے پیچھے چل رہا تھا۔ اسے دیکھ کر ایسے لگتا تھا جیسے خواب میں چل رہا ہو یا نشے میں ہو۔
یہ بات صاف ظاہر تھی کہ بالا سنگھ کے ساتھ جو بھی واقعہ پیش آیا، اس سے دیگر 14 افراد بھی پوری طرح متائثر تھے۔ روز مرہ کے کام کاج کو یہ لوگ انتہائی بے دلی اور عدم توجہی سے کر رہے تھے۔ ہر ایک کا چہرہ اترا ہوا اور پریشان دکھائی دیتا تھا۔ میرا چالیس پاؤنڈ وزنی خیمہ جو رابرٹ اور میں ایک ساتھ استعمال کر رہے تھے،، جب تک نصب ہوتا، میں نے اپنے پرانے ملازم موٹھی سنگھ کو پکڑا اور اس سے پوچھا کہ بالا سنگھ کو کیا ہوا ہے۔ موٹھی سنگھ 25 سال سے میرے ساتھ ہے۔ انتہائی ٹال مٹول اور لیت و لعل کے بعد مجھے بالا سنگھ کی مختصر کہانی پتہ چلی۔ موٹھی سنگھ نے کہا کہ کل جب وہ لوگ گذشتہ رات کیمپ فائر کے گرد بیٹھے گا بجا رہے تھے، تری سول کا شیطان سیدھا بالا سنگھ کے منہ میں گھسا اور بالا سنگھ نے اسے نگل لیا۔ موٹھی سنگھ نے کہا کہ انہوں نے ٹین بجائے اور شور و غل کر کے اس شیطان کو بھگانے کی کوشش کی لیکن ناکام رہے۔ لیکن اب بہت دیر ہو چکی ہے۔
بالا سنگھ ایک طرف کمبل اوڑھے بیٹھا تھا۔ چونکہ وہ دوسروں سے اتنی دور تھا کہ وہ ہماری بات چیت نہ سن سکتے تھے، میں اس کے پاس گیا اور اس سے پوچھا کہ گذشتہ رات کیا ہوا تھا۔ کافی دیر تک وہ مجھے تکتا رہا اور پھر مایوس لہجے میں بولا کہ ‘صاحب اب کیا بتانا کہ کل رات کیا ہوا تھا۔ آپ نے یقین ہی نہیں کرنا’۔ میں نے جواب دیا کہ ‘میں نے کبھی پہلے اس کی کسی بات پر یقین نہیں کیا’؟ اس نے کہا کہ ‘نہیں۔ آپ نے ہمیشہ میری بات پر یقین کیا ہے۔ تاہم یہ بات یقین کی نہیں بلکہ سمجھنے کی ہے’۔ میں نے کہا کہ ‘چاہے مجھے سمجھ آئے یا نہ آئے، تم اپنی بات پوری کرو۔ لفظ بلفظ مجھے بتاؤ کہ کل رات کیا ہوا تھا’۔ لمبے وقفے کے بعد اس نے کہا: ‘اچھا صاحب۔ میں آپ کو بتاتا ہوں کہ کل رات کیا ہوا تھا۔ آپ جانتے ہیں کہ ہم پہاڑی لوگ رات کو اس طرح گاتے ہیں کہ ایک بندہ بول اٹھاتا ہے اور باقی مل کر اس بول کو دہراتے ہیں۔ میں نے گانا گاتے ہوئے جب منہ کھولا تو تری سول کا شیطان میرے منہ میں گھس گیا۔ میں نے ہر ممکن کوشش کی کہ اسے اگل دوں، لیکن وہ میرے منہ سے ہوتے ہوئے معدے میں اتر گیا۔ چونکہ آگ کی روشنی کافی تھی، سب نے یہ منظر دیکھا اور انہوں نے شور مچا کر اور پیپے بجا شیطان کو بھگانے کی کوشش کی لیکن بے سود۔ اس نے سسکی لے کر کہا کہ شیطان اب جانے والا نہیں’۔ میں نے پوچھا کہ ‘شیطان اب کہاں ہے’؟ بالا سنگھ نے اپنے پیٹ پر ہاتھ پھیر کر کہا کہ ‘شیطان یہاں ہے صاحب۔ مجھے اس کی حرکت صاف محسوس ہو رہی ہے’۔
رابرٹ نے سارا دن ہمارے کیمپ کے مغرب کے علاقے کا جائزہ لیتے ہوئے گذارا۔ انہوں نے بہت ساری پہاڑی بکریاں دیکھیں اور ایک شکار بھی کی۔ رات کو کھانے کے بعد ہم نے مل کر صورتحال کا جائزہ لیا۔ اس شکار سے ہمیں بہت امیدیں وابستہ تھیں اور ہم کئی ماہ سے اس کا انتظار کر رہے تھے۔ رابرٹ سات دن کا پیدل سفر کر کے اور میں دس دن کا مشکل راستہ طے کر کے یہاں پہنچے تھے اور پہلی ہی رات بالا سنگھ نے تری سول کا شیطان نگل لیا۔ ہماری ذاتی رائے اس بارے چاہے کچھ بھی ہو، لیکن ہمارے ہمراہیوں کو پورا یقین تھا کہ بالا سنگھ کے پیٹ میں تری سول کا شیطان موجود ہے اور خوف کے مارے سارے ہی اس سے کنی کترا رہے تھے۔ اس صورتحال میں شکار پر ایک ماہ گذارنا ناممکن تھا۔ واحد حل یہی تھا کہ میں بالا سنگھ کے ساتھ نینی تال واپس لوٹ جاؤں جبکہ رابرٹ اپنا شکار جاری رکھیں۔ اگلی صبح میں نے سامان باندھا اور رابرٹ کے ساتھ قبل از وقت ناشتہ کر کے ہم دس دن کے پیدل سفر پر واپس نینی تال روانہ ہو گئے۔
بالا سنگھ تیس سال کا ہٹا کٹا بندہ جب نینی تال سے نکلا تو زندگی سے بھرپور تھا۔ اب جب وہ واپس جا رہا تھا تو اس کی آنکھوں سے پریشانی جھلک رہی تھی اور اس کے اطوار سے صاف ظاہر ہو رہا تھا کہ اب اسے زندگی سے کوئی دل چسپی نہیں رہی۔ میری بہنوں نے، جن میں سے ایک میڈیکل مشنری تھیں، نے اپنی پوری کوشش کی۔ دور اور نزدیک کے دوست احباب بھی بالا سنگھ کو ملنے آئے لیکن وہ اپنے گھر کی دہلیز پر بیٹھا رہتا، اگر کوئی اس سے بات کرتا تو جواب دیتا ورنہ خاموش رہتا۔ نینی تال کے سول سرجن کرنل کک انتہائی تجربہ کار ڈاکٹر تھے اور ہمارے گہرے خاندانی دوست بھی۔ میری درخواست پر وہ میرے ساتھ چل کر بالا سنگھ کے گھر اسے دیکھنے آئے۔ ہر ممکن طریقے سے معائینے کے بعد انہوں نے بتایا کہ بالا سنگھ جسمانی طور پر سو فیصد صحت مند ہے اور وہ اس کی موجودہ حالت کی کوئی وجہ نہیں جان سکے۔ چند دن بعد مجھے ایک خیال سوجھا۔ نینی تال میں ایک انتہائی قابل مقامی ہندو نوجوان ڈاکٹر بھی تھا۔ میں نے سوچا کہ اگر وہ ڈاکٹر جو بذات خود ہندو اور مقامی بندہ ہے، اگر آ کر بالا سنگھ کا معائینہ کرے اور اسے بتائے کہ اس کے اندر تری سول کا شیطان موجود نہیں تو شاید بالا سنگھ کو افاقہ ہو۔ تاہم یہ خیال بیکار ثابت ہوا۔ جب اس ڈاکٹر نے دہلیز پر بیٹھے بالا سنگھ کو دیکھا تو اسے شک گذرا۔ چند سوال جواب کے بعد جب اسے پتہ چلا کہ بالا سنگھ کے اندر شیطان گھس گیا ہے تو خوف زدہ ہو کر وہ ڈاکٹر پیچھے ہٹ گیا اور بولا کہ معاف کیجئے، میں اس کے لیے کچھ نہیں کر سکتا۔
وہاں بالا سنگھ کے گاؤں کے دو افراد نینی تال میں موجود تھے۔ اگلے دن میں نے انہیں بلوا بھیجا۔ انہیں معلوم تھا کہ بالا سنگھ کے ساتھ کیا مسئلہ ہے اور وہ کئی بار اسے ملنے کے لیے بھی آئے تھے۔ میری درخواست پر وہ بالا سنگھ کو اس کے گھر پہنچانے پر راضی ہو گئے۔ انہیں زاد راہ اور پیسے میں نے مہیا کیے۔ اگلے دن صبح کو وہ لوگ اپنے آٹھ روزہ سفر پر روانہ ہو گئے۔ تین ہفتے بعد یہ دونوں آدمی واپس لوٹے اور مجھے اطلاع دی۔
بالا سنگھ نے یہ سارا سفر آسانی سے طے کیا۔ رات کو جب بالا سنگھ کے گرد اس کے سارے دوست اور رشتہ دار جمع تھے تو بالا سنگھ نے کہا کہ تری سول کا شیطان چاہتا ہے کہ وہ مجھے چھوڑ کرتری سول کو لوٹ جائے۔ تاہم واحد حل یہ ہے کہ وہ مر جائے۔ یہ کہہ کر بالا سنگھ زمین پر لیٹا اور دیکھتے ہی دیکھتے مر گیا۔ اگلی صبح ہم نے اس کی ارتھی جلانے میں مدد کی۔
میرے خیال میں توہم پرستی خسرے کی طرح ہے۔ جب اس کا حملہ ہوتا ہے تو اس سے بہت افراد متائثر ہوتے ہیں لیکن کئی افراد پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔ میں اس بات کو اتنا قابل فخر نہیں سمجھتا کہ پہاڑی علاقے میں رہنے کے باوجود بھی میں نےبالا سنگھ والی توہم پرستی کو نہیں اپنایا۔ اگرچہ میں جانتا ہوں کہ میں توہم پرست نہیں لیکن چمپاوت کی آدم خور شیرنی کے شکار کے دوران بنگلے میں جو واقعات پیش آئے یا ٹھاک کے ویران گاؤں سے رات کو آنے والی چیخ ہو یا جو شیر کے شکار کا ایک واقعہ جس میں میں بار بار ناکام ہوا، کی وضاحت پیش کرنا میرے لیے ناممکن ہے۔ یہ واقعہ کچھ ایسے ہے۔
2
کوئی فرد جو دیبی دھورا کے ریسٹ ہاؤس سے دکھائی دینے والے مناظر کو کوئی بھی شخص نہیں بھلا سکتا۔ یہ ریسٹ ہاؤس ‘بھگوان’ کے پہاڑ کی چوٹی کے نزدیک بنایا گیا ہے۔اس چھوٹے تین کمرے والے ریسٹ ہاؤس کے برآمدے سے پہاڑی ڈھلوان کی صورت میں سیدھی دریائے پانار کی وادی کو جاتی ہے۔ اس وادی کے بعد پہاڑیاں پھر تہہ در تہہ اٹھنے لگتی ہیں حتی کہ برفانی چوٹیاں دکھائی دینے لگ جاتی ہیں۔ ہمیشہ برف سے ڈھکی رہنے والی یہ چوٹیاں ہوائی جہاز کی ایجاد سے قبل ہندوستان کو اس کے شمالی ہمسائیوں سے الگ رکھتی تھیں۔
کماؤں کے انتظامی صدر مقام سے ہولار گھاٹ کو ایک تنگ سی سڑک جاتی ہے ۔ لوہار گھاٹ اس ضلع کا ایک سرحدی علاقہ ہے۔ یہ سڑک دیبی دھورا سے ہو کر گذرتی ہے اور اسی سڑک کی ایک شاخ دیبی دھورا کو الموڑا سے ملاتی ہے۔اسی شاخ پر میں پانار کے آدم خور چیتے کا شکار کر رہا تھا جس کے بارے میں آگے چل کر تفصیل سے لکھوں گا، کہ مجھے الموڑا جانے والے ایک روڈ اوور سیئر نے بتایا کہ آدم خور نے دیبی دھورا میں ایک بندے کو ہلاک کیا ہے۔سو میں دیبی دھورا کو چل پڑا۔
دیبی دھورا کو مغرب سے جانے والا راستہ کماؤں کی ڈھلوان ترین سڑکوں میں سے ایک ہے۔ شاید اس کو بنانے والے نے چوٹی تک پہنچنے کا مختصر ترین راستہ اختیار کرنے کا سوچا تھا۔ چوڑے موڑوں کو استعمال کرتے ہوئے یہ سڑک تقریباً سیدھی ہی 8000 فٹ بلندی کو جاتی ہے۔ اس سڑک کو اپریل کی چلچلاتی دوپہر میں عبور کر کے جب میں تھکا ہارا ریسٹ ہاؤس کے برآمدے میں بیٹھا ڈھیروں چائے پیتے ہوئے قدرتی مناظر سے لطف اندوز ہو رہا تھا کہ دیبی دھورا کا پنڈت ملنے آیا۔ دو برس قبل جب میں یہاں چمپاوت کی آدم خور شیرنی کا شکار کر رہا تھا تو اس پنڈت سے میں نے واقفیت پیدا کر لی تھی۔ یہ پنڈت دیبی دھورا کے مندر کی دیکھ بھال اور پوجا پاٹ کا کام کرتا تھا۔ چند منٹ قبل مندر سے گذرتے ہوئے میں نے رسمی چڑھاوا چڑھایا تھا اور پنڈت اس وقت اشلوک پڑھ رہا تھا اور اس نے سر ہلا کر میرے چڑھاوے کو قبول کیا تھا۔ اب عبادت سے فارغ ہو کر میرے پاس آیا اور میرے سگریٹ کو قبول کرتے ہوئے وہ برآمدے کی دیوار سے ٹیک لگا کر اطمینان سے گپ شپ کے لیے تیار ہو گیا۔ چونکہ میرا بقیہ دن فارغ ہی تھا، اس لیے میں نے تفصیلی گپ شپ کا سوچا۔
پنڈت نے مجھے بتایا کہ مجھے غلط اطلاع ملی تھی۔ چیتے نے گذشتہ شب کوئی انسانی شکار نہیں کیا تھا۔ یہ بندہ پنڈت کا ایک مہمان چرواہا تھا جو الموڑا سے اپنے گاؤں کو جا رہا تھا جو دیبی دھورا کے جنوب میں تھا، رات کے کھانے کے بعد چرواہے نے مندر کے چبوترے پر سونے کا ارادہ کیا۔ اگرچہ پنڈت نے اسے بار بار منع کیا لیکن وہ باز نہ آیا۔ رات گئے جب مندر کے پیچھے والی چٹان کا سایہ مندر پر پڑنے لگا تو آدم خور رینگتا ہوا آیا اور چرواہے کو ٹخنے سے پکڑ کر گھسیٹنے لگا۔ تاہم بیدار ہوتے ہی اس نے چیخ ماری اور آگ سے جلتی لکڑی نکال کر اس نے آدم خور کو پیچھے ہٹایا۔ اس کی چیخ سن کر پنڈت اور کچھ دیگر لوگ بھی آ گئے اور انہوں نے مل جل کر چیتے کو بھگا دیا۔ چونکہ اس بندے کے زخم زیادہ گہرے نہ تھے، بنیے نے اس کی مرہم پٹی کی اور وہ بندہ اپنے گاؤں کو اگلی صبح چل دیا۔
پنڈت کے مشورے پر میں نے فیصلہ کیا کہ دیبی دھورا ہی رکوں۔ مندر اور بنیے کی دکان پر ہر روز دور دراز دیہاتوں کے لوگ آتے تھے۔ یہ دیہاتی ہر طرف میری آمد کی خبر پھیلا دیتے۔ اس طرح کسی بھی انسان یا مویشی کی ہلاکت کی صورت میں مجھے فوراً ہی اطلاع مل جاتی۔
جب پنڈت روانہ ہونے لگا تو میں نے اس سے پوچھا کہ کیا کوئی شکار مل جائے گا؟ میرے ساتھی بہت دنوں سے بغیر گوشت کے تھے اور دیبی دھورا کے بازار میں گوشت بکاؤ نہیں تھا۔ اس نے جواب دیا کہ ہاں، مندر کا شیر ہے۔ میں نے اسے یقین دلایا کہ میں اس شیر کو ہلاک کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا تو وہ ہنسا اور بولا کہ صاحب مجھے اس بات پر کوئی اعتراض نہیں کہ آپ اس شیر کو مارنے کی کوشش کریں۔ لیکن نہ تو آپ اور نہ ہی کوئی اور کبھی بھی اس شیر کو ہلاک کر سکے گا۔ یہ پہلا موقع تھا کہ میں نے دیبی دھورا کے مندر کے اس شیر کے بارے سنا۔ آگے چل کر آپ دیکھیں گے کہ اس شیر کے شکار کا تجربہ میری زندگی کے یادگار ترین تجربات میں سے ایک ہے۔
3
دیبی دھورا میری آمد کی اگلی صبح میں لوہار گھاٹ والی سڑک پر روانہ ہوا تاکہ آدم خور کے نشانات کو تلاش کروں یا کسی دوسرے دیہات سے اس کے بارے کوئی خبر ملے۔ مندر کے چبوترے پر چرواہے پر حملے کے بعد چیتا اسی راستے پر گیا تھا۔ ریسٹ ہاؤس واپسی پر میں نے دیکھا کہ ایک بندہ میرے ملازم سے بات کر رہا تھا۔ اس بندے نے بتایا کہ اسے پنڈت سے علم ہوا ہے کہ میں شکار کھیلنا چاہ رہا ہوں۔ اس نے کہا کہ وہ مجھے جڑاؤ یعنی سانبھر دکھا سکتا ہے جس کے سینگ اتنے بڑے ہیں جیسے کسی درخت کی شاخیں ہوں۔ پہاڑی علاقوں میں بعض اوقات سانبھر کے سینگ بہت بڑے بھی ہو سکتے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل کماؤں میں شکار کردہ ایک سانبھر کے سینگ 47 انچ نکلے۔ چونکہ سانبھر جیسا بڑا جانور نہ صرف میرے ساتھیوں بلکہ پورے دیبی دھورا کے لیے گوشت مہیا کر سکتا تھا، میں نے اس بندے کو کہا کہ دوپہر کا کھانا کھا کر میں اس کے ساتھ چلوں گا۔
چند ماہ قبل جب میں کلکتہ گیا تھا تو میں نے مینٹن نامی ایک اسلحہ فروش کی دوکان کا رخ کیا۔ دروازے کے پاس ہی شیشے کی ایک الماری میں ایک رائفل دکھائی دی۔ ابھی میں اس رائفل کو دیکھ ہی رہا تھا کہ دکان کامنیجر آ گیا۔ یہ بندہ میرا پرانا دوست ہے۔ اس نے بتایا کہ یہ اعشاریہ 275 بور کی رائفل ہے جو ویسٹلے رچرڈز نامی کمپنی نے بنائی ہے۔ یہ نیا ماڈل کمپنی والے ہندوستان کے شکاریوں میں متعارف کرانے کے لیے بے چین ہیں۔ چونکہ یہ رائفل بہت خوبصورت تھی، مینجر کو زیادہ اصرار نہیں کرنا پڑا اور میں نے اس شرط پر یہ رائفل خرید لی کہ اگر مجھے پسند نہ آئی تو میں واپس کر دوں گا۔ اب جب ہم سانبھر کے شکار کے لیے نکلے تو میں نے یہ رائفل ساتھ لے لی۔
دیبی دھورا کے جنوب میں پہاڑی شمال کی نسبت کم ڈھلوان ہے اور دو میل جتنا دور گئے ہوں گے کہ گھاس کا ایک قطعہ سامنے آیا اور یہاں سے وادی کا بہترین نظارہ دکھائی دے رہا تھا۔ وادی کے بائیں جناب موجود گھاس کے ایک مختصر قطعے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے ہمارے رہنما نے بتایا کہ اس قطعے پر ہر روز صبح اور شام کو سانبھر گھاس چرنے آتے ہیں۔ یہ قطعہ جنگل سے گھرا ہوا تھا۔ اس نے یہ بھی بتایا کہ وادی کے دائیں جناب موجود پگڈنڈی پر سے جب وہ دیبی دھورا کو آتا جاتا ہے ہے تو ہمیشہ اسے یہاں سانبھر دکھائی دیتے ہیں۔ میری رائفل کی شست 500 گز پر درست کی ہوئی تھی اور پگڈنڈی سے اس قطعے کا فاصلہ بمشکل 300 گز رہا ہوگا۔ اس لیے میں نے فیصلہ کیا کہ راستے پر مزید آگے جا کر انتظار کروں۔
ابھی ہم یہ باتیں کر ہی رہے تھے کہ میں نے ہمارے سامنے بائیں جانب گدھ چکر لگاتے دیکھے۔ جب میں نے اپنے ہمراہی کی توجہ ان کی جانب مبذول کرائی تو اس نے کہا کہ اس جگہ ایک چھوٹا سا گاؤں ہے۔ اس کے خیال میں اس گاؤں کا کوئی مویشی مارا گیا ہے جسے کھانے کے لیے گدھ جمع ہو رہے ہیں۔ تاہم اس نے یہ بھی بتایا کہ ہمارا راستہ اسی گاؤں سے ہو کر گذرے گا اور جلد ہی ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں گے۔ تاہم یہ گاؤں گھاس پھونس سے بنے محض ایک جھونپڑے پر مشتمل تھا۔ اس کے سامنے مویشیون کا باڑہ اور پھر ایک ایکڑ جتنے تہہ در تہہ کھیت تھے۔ ان کھیتوں سے فصل کچھ دن قبل ہی کاٹ لی گئی تھی۔ جھونپڑے اور باڑے اور اس کھیت کے درمیان دس فٹ چوڑا برساتی نالہ تھا جس کھیت میں گدھ کسی بڑے جانور کی ہڈیاں چچوڑ رہے تھے۔ جونہی ہم نزدیک پہنچے تو جھونپڑے سے ایک آدمی نکلا اور سلام دعا کے بعد اس نے میرے بارے اور میری آمد کا مقصد دریافت کیا۔ جب میں نے اسے بتایا کہ میں نینی تال سے آدم خور تیندوے کو ہلاک کرنے آیا ہوں تو اس نے میری آمد پر اپنی لاعلمی پر ندامت کا اظہار کیا۔ اس نے کہا کہ اگر اسے میری آمد کا علم ہوتا تو میں اس کی گائے کو ہلاک کرنے والے شیر کو مارنے میں کامیاب ہو سکتا تھا۔ اس نے مزید بتایا کہ اس نے اسی گدھوں والے کھیت میں گذشتہ شب اپنے پندرہ مویشی باندھے تھے اور رات کو شیر آیا اور اس کی ایک گائے کو ہلاک کر کے کھا گیا۔ چونکہ اس کے پاس کوئی آتشیں اسلحہ نہیں تھا اور نہ ہی وہ کسی سے اس شیر کو ہلاک کرنے کا کہہ سکتا تھا، اس لیے وہ گاؤں جا کر اس آدمی سے ملا جس کے پاس اس علاقے میں کھالیں جمع کرنے کا ٹھیکہ تھا۔ یہ بندہ میری آمد سے دو گھنٹے قبل آ کر گائے کی کھال اتار گیا تھا۔ اس کے بعد گدھوں نے باقی گائے ہڑپ کر لی تھی۔ جب میں نے اس بندے سے پوچھا کہ جب اسے علم تھا بھی کہ اس علاقے میں ایک شیر رہتا ہے تو اس نے اپنے مویشی اس طرح کھلے عام کیوں باندھے۔ اس کے جواب نے مجھے حیران کر دیا کہ دیبی دھورا کی پہاڑی پر ہمیشہ سے شیر رہتا آیا ہے لیکن گذشتہ شب کے علاوہ اس نے کبھی کسی مویشی پر بری نگاہ نہیں ڈالی۔
جونہی میں جھونپڑے سے ہٹا، اس بندے نے پوچھا کہ اب میرا کیا ارادہ ہے۔ میں نے اسے بتایا کہ میں سانبھر مارنے نکلا ہوں۔ اس نے درخواست کی کہ سانبھر کو چھوڑ کر میں شیر کی فکر کروں۔ اس نے بتایا کہ اس کی زمین اور مویشی بہت کم ہیں۔ اگر شیر اس کے مویشی کھانے پر تل گیا تو اس کا خاندان بھوکا مر جائے گا۔
ابھی ہم یہ باتیں کر رہی رہے تھے کہ پہاڑی کے سرے سے میں نے ایک گھڑا اور پھر عورت کا سر دیکھا۔ پھر پوری عورت، سر پر گھاس کا گٹھا اٹھائے ایک لڑکی اور خشک لکڑیاں اٹھائے لڑکا نمودار ہوئے۔ چار افراد کا خاندان اس بے کار زمین اور تھوڑے سے دودھ پر زندہ تھا۔ پہاڑی علاقوں کے مویشی کم دودھ دیتے ہیں۔ یہ دودھ وہ دیبی دھورا کے بنیے کو بیچ دیتے تھے۔ ظاہر ہے کہ یہ بندہ شیر کی ہلاکت کے لیے اتنا بے چین کیوں تھا۔
گدھوں نے شکار خراب کر دیا تھا۔ تاہم مجھے اس کی زیادہ فکر نہیں تھی کیونکہ اس جگہ کے آس پاس کہیں بھی گھنا جنگل نہیں تھا جہاں شیر چھپ کر گدھوں کو دیکھتا۔ اس لیے مجھے تقریباً یقین تھا کہ یہ شیر لازمی واپس لوٹے گا کیونکہ گذشتہ شب اس نے آرام سے گائے کھائی تھی۔ میرا رہنما بھی سانبھر کو بھول کر شیر کے شکار کے لیے مضطرب ہو رہا تھا۔ میں شیر کی روانگی کا راستہ جاننے کے لیے چل پڑا۔ چونکہ یہاں کھیت کے نزدیک کوئی درخت نہیں تھا جہاں میں بیٹھ کر شیر کی آمد کا انتظار کر سکتا، اس لیے میں نے فیصلہ کیا کہ شیر کی واپسی کے راستے پر بیٹھ کر اس کا انتظار کروں۔ پہاڑی پر مویشیوں کی پگڈنڈیاں آڑی ترچھی تھیں اور زمین نہایت سخت۔ اس لیے پگ نہیں مل سکے۔ گاؤں کے گرد دو بار ناکام چکر لگانے کے بعد میں نے برساتی نالے کو آزمانے کا سوچا۔ یہاں کی نرم اور نم مٹی زمین پر مجھے ایک بڑے نر شیر کے پگ دکھائی دیئے۔ گائے کو کھانے کے بعد شیر یہاں سے گذرا تھا اور اس بات کے کافی امکانات تھے کہ شیر اسی راستے سے واپس آئے گا۔ اس جگہ نالے کے جھونپڑے والے کنارے پر جھونپڑے سے 30 گز دور ایک ٹنڈ منڈ درخت تھا جس کے تنے پر جنگلی گلاب کی بیل اگی ہوئی تھی۔ رائفل کو زمین پر رکھ کر میں درخت پر چڑھا جو نالے پر جھکا ہوا تھا اور یہاں مجھے اپنے بیٹھنے کے لیے مناسب جگہ دکھائی دی۔
واپس جا کر میں نے دونوں آدمیوں کو بتایا کہ میں ریسٹ ہاؤس واپس جا کر اپنی بھاری اعشاریہ 500 بور کی رائفل لاتا ہوں جو دو نالی ہے۔ تاہم میرے رہنما نے مجھے اس پریشانی سے بچا لیا کہ وہ خود جا کر رائفل لے آتا ہے۔ اسے ہدایات دے کر میں نے روانہ کیا اور پھر جھونپڑے کی دہلیز پر بیٹھ کر اس بندے سے اس کی مشکل زندگی اور فطرت کے ساتھ ساتھ جنگلی جانوروں سے اس کی روز مرہ کی کشمکش کے بارے گفتگو شروع کر دی ۔ جب میں نے اس سے پوچھا کہ وہ کہیں اور جا کر بہتر زمین پر قسمت آزمائی کیوں نہیں کرتا تو اس نے سیدھا سا جواب دیا کہ یہ اس کا گھر ہے۔
سورج غروب ہونے والا تھا کہ پہاڑی سے دو بندے جھونپڑے کی طرف آتے دکھائی دیئے۔ تاہم دونوں میں سے کسی کے پاس بھی رائفل نہیں تھی۔ تاہم بالا سنگھ جس کے بارے میں نے ابھی آپ کو بتایا ہے، اپنی افسوس ناک موت تک میرے ساتھ شکاری مہمات پر جاتا رہا ہے اور بہترین ہمراہی تھا، کے ہاتھ میں لالٹین تھا۔ نزدیک پہنچ کر بالا سنگھ نے بتایا کہ چونکہ بھاری رائفل کی گولیاں میرے سوٹ کیس میں مقفل تھیں اور میں چابی بھیجنا بھول گیا تھا، اس لیے وہ خالی رائفل نہیں لایا۔ خیر اب مجھے شیر کو اسی نئی رائفل سے شکار کرنا تھا اور نئی رائفل کا پہلا شکار اس سے بہتر اور کیا ہو سکتا تھا۔
درخت پر اپنی منتخب کردہ جگہ پر بیٹھنے سے قبل میں نے جھونپڑے کے مالک سے کہا کہ میری کامیابی کا دار و مدار اس بات پر ہے کہ اس کے بچے جو کہ آٹھ سالہ لڑکی اور چھ سالہ لڑکا تھے، بمع اس کی بیوی کے بالکل خاموش رہیں اور جب تک یا تو میں شیر کو ہلاک نہ کر لوں یا پھر شیر کی آمد سے مایوس نہ ہو جاؤں، رات کا کھانا نہ بنائیں۔ بالا سنگھ سے میں نے کہا کہ وہ جھونپڑے کے مکینوں کو خاموش رکھے اور میری سیٹی سنتے ہی لالٹین جلا کر میرے اگلے احکامات کا انتظار کرے۔
شام کے وقت پرندوں کی چہکار اور بولیاں سورج کے پہاڑیوں کے پیچھے ڈوبنے کے بعد آہستہ آہستہ ختم ہوتی گئیں۔ شفق گہری ہوتی گئی اور سینگوں والا الو میرے اوپر پہاڑی سے بولنے لگا۔ چاند نکلنے تک کچھ وقت نیم تاریکی میں گذارنا تھا۔ جھونپڑے کے مکین بالکل خاموش تھے۔ رائفل کو اٹھائے ہوئے میں اپنی آنکھوں پر زور دے دے کر دیکھ رہا تھا کہ اچانک پتہ چلا کہ شیر گائے کی لاش پر پہنچ چکا ہے۔ ایسا لگتا تھا کہ وہ میرے درخت کے پاس سے گذرنے کی بجائے سیدھا کھیت کو گیا تھااور وہاں گائے کی حالت کو دیکھ کر غصے میں آ گیا۔ ہلکی آواز سے شاید وہ گدھوں کو کوس رہا تھا جو خود تو دو گھنٹے قبل ہی اڑ گئے تھے لیکن ان کی بو زمین میں موجود تھی۔ دو، تین یا شاید چار منٹ تک وہ اسی طرح بولتا رہا اور پھر خاموشی چھا گئی۔ روشنی اب بڑھ رہی تھی۔ اگلے چند منٹ گذرنے کے بعد چاند پہاڑی کے کنارے سے ابھرا اور ہر طرف روشنی پھیل گئی۔ گدھوں کی چھوڑی ہوئی ہڈیاں چاندنی میں سفید دکھائی دے رہی تھیں لیکن شیر غائب تھا۔ سسپنس کے مارے اپنے خشک ہونٹ تھوک سے گیلے کر کے میں نے ہلکی سی سیٹی بجائی۔ بالا سنگھ پوری طرح متوجہ تھا اس لیے فوراً ہی مجھے اس کی آواز سنائی دی کہ وہ جھونپڑے کے مالک کو لالٹین جلانے کا کہہ رہا تھا۔ پھر جھونپڑے کی جھریوں سے روشنی دکھائی دینے لگی۔ پھر بالا سنگھ نے لالٹین اٹھایا اور دروازہ کھول کر باہر نکلا اور میرے اگلے احکامات کا انتظار کر نے لگا۔ درخت پر بیٹھنے کے بعد سے لے کر اب تک میں نے کوئی حرکت نہیں کی تھی اور نہ ہی سیٹی کے علاوہ میں نے کوئی آواز نہیں نکالی تھی۔ اب جب میں نے نیچے دیکھا تو چاندنی میں مجھے شیر عین میرے نیچے کھڑا گردن موڑ کر دائیں شانے کے اوپر سے بالا سنگھ کو دیکھ رہا تھا۔ رائفل کے نال سے شیر کے سر کے درمیان پانچ فٹ کا فاصلہ تھا۔ میرے ذہن میں خیال آیا کہ بارود سے شیر کے بال خراب نہ ہو جائیں۔ رائفل کے سفید دیدبان عین شیر کے دل کی سیدھ میں تھے، لبلبی دباتے ہوئے میں نے سوچا کہ یہاں گولی لگتے ہی شیرکی فوری ہلاکت یقینی تھی۔ لبلبی دبی لیکن گولی نہ چلی۔
خدایا۔ کتنا لاپرواہ ہوں میں بھی۔ مجھے اچھی طرح یاد تھا کہ درخت پر بیٹھنے کے بعد میں نے پوری پانچ گولیوں کا کلپ رائفل میں لوڈ کیا تھا تاہم شاید جب میں نے بولٹ چڑھایا تو شاید کسی وجہ سے گولی میگزین سے نکل کر چیمبر تک نہیں پہنچی اور میں اس بات کو محسوس نہ کر سکا۔ اگر رائفل پرانی ہوتی تو شاید میں اس غلطی کا ازالہ کر سکتا تھا لیکن چونکہ رائفل بالکل نئی تھی اور جب میں نے بولٹ چڑھایا تو کلک کی واضح آواز آئی اور ایک ہی چھلانگ میں شیر نالے کے کنارے سے ہوتا ہوا غائب ہو گیا۔ سر گھما کر بالا سنگھ کو دیکھا کہ وہ کیا کر رہا ہے تو میں نےد یکھا کہ وہ الٹے قدم جھونپڑے میں واپس چلا گیا اور دروازہ بند کر لیا۔
چونکہ اب مزید خاموش رہنے کی ضرورت نہیں تھی اس لیے میں نے بالا سنگھ کو آواز دی تاکہ وہ مجھے درخت سے اترنے میں مدد دے۔ تاہم جب میں نے بولٹک کھینچا کہ رائفل کے میگزین کو خالی کروں تو میں نے دیکھا کہ چیمبر میں گولی موجود تھی۔ یعنی رائفل بھری ہوئی تھی اور سیفٹی کیچ بھی ہٹا ہوا تھا، پھر رائفل کیوں نہیں چلی۔ اتنی تاخیر کے بعد مجھے یاد آیا کہ اسلحہ فروش دکان کے مینجر نے جو ہدایات دیں تھیں ان میں سےا یک یہ بھی تھی کہ رائفل ‘ڈبل پل آف’ ہے یعنی اس کی لبلبی دو بار دبانے پڑتی تھی۔ چونکہ میں نے اس قسم کی رائفل کبھی نہیں استعمال کی تھی اس لیے مجھے علم نہیں تھا کہ پہلی بار لبلبی دبانے کے بعد دوسری بار بھی دبانی تھی تاکہ گولی چلتی۔ جب میں نے بالا سنگھ کو اس بارے بتایا تو اس نے سارا الزام اپنے سر لے لیا کہ اگر وہ میری بھاری رائفل اور سوٹ کیس ساتھ لے آتا تو یہ سب کچھ نہ ہوتا۔ اس وقت تو میں اس سے متفق ہو گیا تھا لیکن اگلے چند دنوں کے واقعات سے یہ ظاہر تھا کہ اگر اس رات میرے پاس بھاری رائفل بھی ہوتی تو بھی شیر نہ مارا جاتا۔
5
آدم خور کے بارے کوئی خبر سننے کے لیے کافی طویل سفر کیا اور جب میں ریسٹ ہاؤس پہنچا تو وہاں ہیجان میں مبتلا ایک بندہ میرا انتظار کر رہا تھا۔ اس نے بتایا کہ شیر نے اس کی گائے ہلاک کر دی ہے۔ اس نے بتایا کہ وہ وادی کے دوسرے سرے پر مویشی چرا رہا تھا کہ اچانک شیر نمودار ہوا اور اس کی سرخ گائے جس نے چند دن قبل ہی بچھڑے کو جنم دیا تھا، کو ہلاک کر دیا۔ چونکہ اور کوئی گائے دودھیل نہیں تھی، بچھڑا لازمی مر جائے گا۔
اگرچہ قسمت شیر کے ساتھ گذشتہ رات تھی لیکن اس کی قسمت ہمیشہ تو اس کا ساتھ نہ دیتی۔مویشیوں کی ہلاکت کے بدلے شیر کو اپنی جانی دینی تھی کیونکہ پہاڑی علاقوں میں مویشی ویسے بھی کم ہوتے ہیں اور غریب آدمی کے لیے دودھ دینےو الی گائے کی ہلاکت بہت بڑی پریشانی تھی۔چونکہ چرواہے کا باقی ریوڑ گاؤں کو بھاگ گیا تھا اس لیے وہ مویشیوں کی فکر چھوڑ کر انتظار کر رہا تھا جب تک کہ میں نے دوپہر کا کھانا کھا لیا۔ ایک بجے ہم لوگ روانہ ہوئے۔ دو ساتھی مچان کا سامان اٹھائے ہوئے تھے۔
پہاڑی کے کنارے پر کھلے میدان سے میرے ہمراہی نے اشارے سے مجھے اس مقام کی تفصیل سمجھائی۔ اس کے مویشی اس جگہ سے چوتھائی میل نیچے گھاس کے قطعے پر اپنے مویشی چرا رہا تھا۔ شیر وادی کی جانب سے آیا اور اس کی گائے کو ہلاک کر دیا۔ باقی ریوڑ بھاگتا ہوا پہاڑی پر چڑھا اور دوسری جانب اپنے گاؤں کو نکل گیا۔ ہمارا مختصر راستہ تو براہ راست ہی اس وادی میں اتر کر دوسری جانب نکل جانا ہوتا لیکن چونکہ میں شیر کو خبردار نہیں کرنا چاہتا تھا اس لیے وادی کے سرے سے ہو کر ہم لوگ اس جگہ کے اوپر پہنچے جہاں گائے ماری گئی تھی۔ جہاں مویشی چر رہے تھے، وہاں سے پہاڑی کے اوپر تک جنگل کھلے درختوں پر ہی مشتمل تھا۔ نرم مٹی پر مویشیوں کے کھروں کے گہرے نشانات ثبت تھے۔ ان کا پیچھا کرتے ہوئے شیر کے حملے کی جگہ تک پہنچنا آسان تھا۔ وہاں پہنچ کر ہمیں خون کا ایک بڑا تالاب سا دکھائی دیا اور یہاں سے گھسیٹنے کے نشانات بھی دکھائی دیئے۔ یہ نشانات پہاڑی سے ہو کر 200 گز دور گہری کھائی میں گئے تھے جہاں پانی کا ایک چشمہ بہتا تھا۔ یہاں سے شیر اپنے شکار کو لے کر گیا تھا۔
گائے کھلے میدان میں صبح کو 10 بجے ماری گئی تھی اور بظاہر شیر کا پہلا کام اپنے شکار کو کھلے میدان سے ہٹا کر کسی خفیہ جگہ پھر گدھوں اور دیگر مردار خوروں سے بچانا تھا۔ اس لیے شیر گائے کی لاش کو گھسیٹ کر اسی کھائی میں لے گیا اور کسی خفیہ جگہ چھپا کر اسی کھائی سے ہوتا ہوا نیچے وادی کو چلا گیا تھا۔ ایسی جگہ جہاں انسان اور مویشی بکثرت پھرتے ہوں، اس بات کا اندازہ لگانا غلط ہے کہ شیر کہاں سو رہا ہوگا۔ ہلکی سی بھی آہٹ سے شیر اپنی جگہ تبدیل کر سکتا تھا۔ اگرچہ شیر کے پگ کھائی کے نیچے کی طرف جا رہے تھے لیکن میں نے اپنے ہمراہیوں کے ساتھ مخالف سمت انتہائی احتیاط سے گھسیٹنے کے نشانات کا تعاقب جاری رکھا۔
پہاڑی کے کنارے سے 200 گز نیچے جہاں سے ہو کر ہم آئے تھے، بارش کے پانی نے زمین کو کاٹ کر ایک بڑا سا سوراخ بنا دیا تھا۔ یہاں سے کھائی شروع ہو رہی تھی۔ یہ سوراخ بہت سال پہلے بنا تھا اور اب یہاں دس بارہ فٹ اونچے مختلف درخت اگ آئے تھے۔ انہی درختوں کے درمیان اور پندرہ فٹ کی گہرائی پر چھوٹا سا کھلا قطعہ تھا جہاں شیر نے گائے کو چھپا دیا تھا۔ گائے کے مالک نے آنسو بھری آنکھوں سے بتایا کہ یہ گائے اس نے خود پالی تھی اور اس کی پسندیدہ گائے تھی۔ میں محض افسوس کا ہی اظہار کر سکتا تھا۔ گائے کی لاش کو شیر نے ابھی کھانا نہیں شروع کیا تھا اور بظاہر شیر نے اس لاش کو کسی دوسرے وقت کھانے کے لیے چھوڑ دیا تھا۔
اب بیٹھنے کے لیے جگہ کا انتخاب باقی رہ گیا تھا۔ کھائی کے دونوں جانب کئی بڑے درخت تھے لیکن کسی بھی درخت سے لاش نہیں دکھائی دیتی تھی اور نہ ہی ان پر چڑھنا ممکن تھا۔ لاش سے تیس گز نیچے اور بائیں جناب کھائی کے کنارے پر ایک چھوٹا سا لیکن مضبوط درخت اگا ہوا تھا۔ تنے سے اس کی شاخیں سیدھی نکلی ہوئی تھیں۔ زمین سے چھ فٹ کی بلندی پر میرے بیٹھنے کے لیے ایک مناسب شاخ تھی اور اس کے نیچے پاؤں رکھنے کے لیے دوسری شاخ بھی موجود تھی۔ میرے ساتھیوں نے زمین کے اتنے قریب بیٹھنے پر شدید احتجاج کیا۔ چونکہ اور کوئی مناسب جگہ نہیں تھی اس لیے یہ درخت ہی میرے لیے مناسب تھا۔ اپنے ساتھیوں کو میں نے کہا کہ وہ اس جھونپڑے کو چلے جائیں جہاں میں پچھلی شام کو تھا اور کہا کہ جب تک میں انہیں آواز نہ دوں یا خود نہ آؤں، وہ اپنی جگہ نہ چھوڑیں۔ یہ جھونپڑا یہاں سے نصف میل دور تھا اور اگرچہ وہاں سے میرے ساتھی مجھے نہیں دیکھ سکتے تھے لیکن درخت کی شاخوں سے مجھے وہ جھونپڑا دکھائی دے رہا تھا۔
میرے ساتھی 4 بجے روانہ ہوئے اور میں اپنے اندازے کے مطابق لمبے انتظار کے لیے تیار ہو گیا۔ وادی کا رخ مغرب کی جانب تھا اور شیر سورج غروب ہونے سے کچھ ہی دیر پہلے آتا۔ میرے بائیں جناب شاخوں کے درمیان سے مجھے وادی تقریباً پچاس گز تک دکھائی دے رہی تھی۔ یہ وادی دس فٹ گہری اور بیس فٹ چوڑی تھی۔ میرے سامنے والی پہاڑی پر جگہ جگہ چٹانیں نکلی ہوئی تھیں لیکن کوئی درخت نہیں تھا۔ دائیں جانب مجھے پہاڑی کی چوٹی تک صاف دکھائی دے رہا تھا لیکن گھنے درختوں کی وجہ سے لاش میری نظروں سے اوجھل تھی۔ میرے پیچھے پہاڑی بانسوں کا جھنڈ تھا جو میرے درخت تک پھیلا ہوا تھا۔ شیر نےبرساتی پانی سے بنے سوراخ میں اپنا شکار چھپایا اور نیچے کو چلا گیا۔ مجھے پوری امید تھی شیر اسی راستے سے ہی واپس آئے گا۔ اسی لیے میں نے اپنی پوری توجہ اسی طرف مرکوز کر دی۔ میرا ارادہ تھا کہ شیر جونہی میرے سامنے آئے گا تو میں گولی چلا دوں گا۔مجھے پورا یقین تھا کہ شیر کو اتنے کم فاصلے سے میں لازماً ہلاک کر دوں گا اور اپنی تسلی کے لیے میں نے دوسری گولی چلانے کے لیے دوسرے گھوڑے کو بھی چڑھا دیا۔
جنگل میں سانبھر، کاکڑ اور لنگور تھے۔ اس کے علاوہ فیزنٹ، کوے، بلبل اور دیگر پرندے بھی بے شمار تھے۔ یہ سارے پرندے اور جانور شیر وغیرہ کو دیکھتے ہی خوب شور مچاتے ہیں۔ مجھے یقین تھا کہ شیر کی آمد کے بارے مجھے کافی پہلے پتہ چل جائے گا۔ تاہم یہ اندازہ غلط نکلا۔ کسی بھی پرندے یا چرندے کی آواز کے بغیر اچانک شیر لاش پر پہنچ گیا۔ کھائی سے شاید پانی پینے کے بعد واپسی پر شیر نے پہاڑی بانسوں کے جھنڈ سے کترا کر گذرنے کا فیصلہ کیا جس کی وجہ سے وہ میری نظروں میں آئے بناء لاش پر پہنچ گیا۔ تاہم مجھے اس سے کوئی پریشانی نہیں ہوئی کیونکہ دن کی روشنی میں شیر اپنے شکار کردہ جانور پر آتے وقت کافی محتاط ہوتے ہیں۔ مجھے پوری طرح یقین تھا کہ جلد یا بدیر شیر میرے سامنے کھلے میدان میں آئے گا۔ ابھی شیر کو کھاتے پندرہ منٹ ہی گذرے ہوں گے کہ میں نے پہاڑی کے سرے کے ایک ریچھ کو بائیں طرف سے دائیں کو آتےد یکھا۔ یہ ریچھ کافی بڑا اور کالے رنگ کا تھا۔ انتہائی آرام سے چلتے پھرتے ریچھ آگے چلتا آیا۔ اچانک ہی ایک جگہ ریچھ رکا اور پہاڑی کے نیچے کی طرف رخ کر کے لیٹ گیا۔ ایک یا دو منٹ بعد اس نے سر اٹھایا، سونگھا اور پھر نیچے لیٹ گیا۔ ہمیشہ کی طرح دن کے وقت ہوا نیچے سے اوپر کو چل رہی تھی اور ریچھ کو گوشت اور خون کے ساتھ ساتھ شیر کی بو بھی آ گئی تھی۔ چونکہ میں شکار سے تھوڑا سا دائیں جانب تھا اس لیے ریچھ کو میری بو نہیں پہنچی۔ پھر ریچھ اٹھا اور زمین سے قریب جھکا ہوا شیر پر گھات لگانے لگا۔
ریچھ کو پہاڑی سے اترتے ہوئے اور شیر پر گھات لگاتے ہوئے مجھ پر کئی نئے انکشافات ہوئے۔ اگرچہ شیر یا چیتوں کی مانند ریچھ کا جسم گھات لگانے کے لیے نہیں بنالیکن دو سو گز کا فاصلہ ریچھ نے کسی سائے کی طرح خاموشی اور سانپ کی طرح آسانی سے طے کیا۔ جتنا قریب وہ ہوتا گیا اتنا ہی محتاط ہوتا گیا۔ مجھے یہاں سے اس سوراخ کا کنارہ دکھائی دے رہا تھا جہاں شیر اپنے شکار سمیت موجود تھا۔ اس کنارے سے چند فٹ دور جب ریچھ پہنچا تو زمین سے لگ گیا۔ جب شیر نے لاش کو پھر سے ادھیڑنا شروع کیا تو ریچھ نے انتہائی آہستگی سے اپنا سر کنارے سے اوپر کیا اور نیچے دیکھ کر پر سر نیچے کر لیا۔ میں اس ساری صورتحال سے اتنا ہیجان میں مبتلا ہو چکا تھا کہ میرا سارا جسم کانپ رہا تھا اور منہ اور گلا خشک ہو گئے تھے۔
دو بار میں نے ہمالیائی ریچھوں کو شیر کو ان کے شکار کردہ جانورکھاتے دیکھا ہے۔ دونوں بار ہی شیر موقعے پر موجود نہیں تھے۔ دو بار میں نے ریچھوں کو پیٹ بھرتے چیتوں تک جاتے چیتوں کو بھگاتے دیکھا ہے۔ چیتوں کے جانے کے بعد ریچھ ان کا شکار کردہ جانور لے کر رفو چکر ہو گئے تھے۔ تاہم اس بار ایک بڑا نر شیر موقعے پر موجود تھااور شیر کو چیتوں کی طرح ڈرا کر بھگایا نہیں جا سکتا۔ تاہم میرے ذہن کے کسی گوشے میں یہ خیال موجود تھا کہ یہ ریچھ اتنا احمق نہیں ہو سکتا کہ جنگل کے بادشاہ کو اس کے شکار کردہ جانور سے ہٹانے کی کوشش کرے۔ تاہم ریچھ بظاہر یہی کام کرنے والا تھا۔ جونہی شیر نے ایک بڑی ہڈی کو توڑا، ریچھ نے حملہ کر دیا۔ ریچھ اس موقعے کا انتظا رکر رہا تھا یا کیا، جونہی شیر نے ہڈی توڑی، ریچھ نے اپنا جسم اکٹھا کیا اور خوفناک چیخ مار کر گڑھے میں کود گیا۔ میرا خیال ہے کہ چیخ کا مقصد شیر کو ڈرانا تھا۔ تاہم ڈرنے کی بجائے شیر الٹا آگ بگولا ہو گیا کیونکہ ریچھ کی چیخ کے فوراً بعد شیر کی دھاڑ سنائی دی۔
جنگل میں اس طرح کی لڑائیاں انتہائی کم ہوتی ہیں اور میرے مشاہدے میں یہ دوسرا واقعہ تھا جب دو مختلف انواع کے جانور ایک دوسرے سے محض لڑائی کی نیت سے لڑ رہے تھے نہ کہ شکار کے لیے۔جیسا کہ میں نے پہلے بتایا، مجھے یہ لڑائی دکھائی نہیں دے رہی تھی لیکن میں نے اس کو پوری طرح سنا۔ چھوٹی سی اور تنگ جگہ سے یہ آوازیں مزید ہولناک سنائی دے رہی تھیں۔ مجھے انتہائی خوشی ہوئی کہ اس لڑائی میں دو فریق ایک دوسرے سے لڑ رہے تھے نہ کہ سہ فریقی، جس میں میں بھی ایک فریق ہوتا۔ اس طرح کے ہیجان خیز لمحات میں وقت تھم سا جاتا ہے۔ شاید یہ لڑائی تین منٹ تک جاری رہی یا پھر زیادہ وقت کے لیے، میں یقین سے نہیں کہہ سکتا۔ جب شیر نے محسوس کیا کہ اس نے ریچھ کو اچھا خاصا سبق دے دیا ہے تو وہ لڑائی چھوڑ کر پوری رفتار سے بھاگتا ہوا میرے سامنے کھلے قطعے سے گذرا اور ریچھ ابھی بھی چیختا چلاتا اس کے پیچھے تھا۔ ابھی میں شیر کے بائیں شانے پر شست لے ہی رہا تھا کہ اچانک شیر بائیں جانب مڑا اور بیس فٹ چوڑی کھائی ایک ہی چھلانگ میں عبور کر کےسیدھا میرے قدموں میں پہنچا ۔ ابھی شیر فضا میں ہی تھا کہ میں نے اس پر گولی چلائی اور میرا خیال ہے کہ یہ گولی اس کی گردن میں لگی۔ گولی چلتے ہی شیر غرایا اور میرے پیچھے پہاڑی بانس کے جھنڈ کے پیچھے غائب ہو گیا۔ چند سیکنڈ بعد شیر کی حرکت اور آوازیں رک گئیں۔ میں نے سوچا کہ گولی اس کے دل میں لگی ہے اور شیر اب مر چکا ہے۔
اعشاریہ 500 بور کی رائفل جب چلتی ہے تو اچھی خاصی آواز پیدا کرتی ہے۔ تاہم اس تنگ وادی میں اس کی آواز توپ سے مشابہہ تھی۔ تاہم اس سے ریچھ پر کوئی فرق نہ پڑا۔ شیر کے برعکس ریچھ سیدھا میری طرف بھاگتا ہوا آ رہا تھا۔ مجھے اس بہادر ریچھ پر گولی چلانے کا کوئی شوق نہیں تھا کیونکہ اس ریچھ نے شیر جیسے جانور کو اس کے شکار کردہ جانور سے بھگا دیا تھا لیکن اب غصے سے پاگل ریچھ کو اپنے مزید قریب آنے کا موقع دینا حماقت ہوتی۔ ابھی وہ مجھ سے چند ہی فٹ دور ہوگا کہ میں نے بائیں نالی کی گولی اس کی پیشانی میں اتار دی۔ آہستگی سے ریچھ زمین پر پھسلتے ہوئے دوسرے کنارے سے جا لگا۔
ابھی لمحہ بھر قبل ہی پورا جنگل اس لڑائی اور میری بھاری رائفل کی آواز سے گونج رہا تھا اور اب اچانک ہی خاموشی چھا گئی۔جب میرے دل کی دھڑکن دوبارہ نارمل ہوئی تو میں نے سگریٹ پینے کا سوچا۔ خالی رائفل کو گھنٹوں پر رکھ کر میں نے دونوں ہاتھ جیبوں میں ڈالے اور سگریٹ کیس اور ماچس نکالنے لگا۔ اسی وقت اچانک مجھے اپنے دائیں جناب حرکت محسوس ہوئی۔ سر موڑا تو دیکھا کہ شیر عام رفتار سے چلتا ہوا ریچھ کی طرف جا رہا تھا۔
مجھے پتہ ہے کہ اوپر بیان کردہ واقعات کی روشنی میں میرے شکاری دوست مجھے برا نشانچی اور لاپرواہ کہیں گے۔ برا نشانچی کہنے میں شاید وہ حق بجانب ہوں لیکن لاپرواہی کا الزام درست نہیں۔ جب میں نے شیر پر اس کی کمر پر گولی چلائی تو میرا خیال تھا کہ یہ گولی شیر کے دل میں ترازو ہو گئی ہے۔ اس کا ثبوت شیر کی غراہٹ، اس کے بھاگنے اور پھر اچانک اس کی آوازوں کا تھم جانا ہیں۔ دوسری گولی میں نے غصے سے پاگل ریچھ پر چلائی اور ریچھ کو اسی جگہ ہلاک کر دیا۔ چونکہ میں ابھی درخت پر ہی بیٹھا تھا اس لیے میں نے رائفل کو دوبارہ بھرنے کو بے کار سمجھا اور گھٹنوں پر رکھ دی۔
شیر کو اس طرح صحیح سلامت دیکھ کر ایک یا دو ثانئے کے لیے تو میں ششد رہ گیا۔ تاہم میں نے فوراً ہی خود کو سنبھالا۔ رائفل انڈر لیور ماڈل کی تھی اور اسے عجلت میں بھرنا مشکل تھا۔ مزید مشکل یہ کہ کارتوس پینٹ کی جیب میں تھے۔ کھڑی حالت میں تو ان کارتوسوں کو نکالنا بہت آسان ہوتا ہے لیکن پتلی سی شاخ پر بیٹھے ہونے کی صورت میں یہ کام انتہائی مشکل تھا۔ شاید شیر جانتا تھا کہ ریچھ مر چکا ہے یا پھر اس نے محض حملے سے بچاؤ کا سوچا، ریچھ پر نگاہ رکھتے ہوئے شیر سیدھا پہاڑی پر چڑھا۔ چالیس گز دور پہنچا تو وہ میرے سامنے ہلکا سا بائیں جناب تھا۔ جب وہ ایک بڑی پتھریلی چٹان کے پاس سے گذر رہا تھا تو میں نے ایک نال بھر لی تھی اور رائفل سیدھا کرتے ہوئے میں نے گولی چلائی۔ گولی چلتے ہی شیر اچھلا اور پہلو کے بل گرا اور پھر اٹھتے ہوئے وہ بھاگا اور پہاڑی کے کنارے سے ہوتا ہوا دوسری طرف گم ہو گیا۔ بھاگتے وقت اس کی دم ہوا میں تھی۔ نرم نکل والی گولی شیر کے منہ سے چند انچ دور چٹان پر لگی۔ جب گولی ٹکرا کر مڑی تو اس نے شیر کا توازن تو خراب کر دیا لیکن شیر کو کوئی زخم نہیں پہنچا۔
خاموشی سے سگریٹ ختم کر کے میں درخت سے نیچے اترا اور ریچھ کو دیکھنے چلا۔ یہ ریچھ میرے اندازے سے بھی زیادہ بڑا تھا۔ اس کی اپنی مرضی سے شروع کرنے والی لڑائی حقیقتاً بہت خوفناک تھی۔ اس کی گردن پر کئی جگہ گہرے کھاؤ تھے جن سے خون رس رہا تھا اور کھوپڑی پر کئی جگہ شیر کے ناخن ریچھ کی کھال چیرتے ہوئے ہڈی تک پہنچ گئے تھے۔ تاہم اس ریچھ جیسے سخت جان جانور کے لیے اس طرح کے زخم عام سی بات ہیں۔ اصل زخم ریچھ کو ناک پر لگا تھا۔ ناک پر لگنے والے زخم انتہائی تکلیف دہ اور شرمناک ہوتے ہیں اور ریچھ کو نہ صرف ناک پر چوٹ لگی تھی بلکہ شیر نے اس کی ناک آدھے سے زیادہ کاٹ لی تھی۔ اس چوٹ کے بعد ریچھ کو میری گولی کی آواز سننے کا ہوش نہیں رہا ہوگا اور اس کی آنکھوں میں شیر کی موت جھلک رہی ہوگی۔
چونکہ اب اپنے آدمیوں کو بلا کر ریچھ کی کھال اتارنے کے لیے مناسب وقت نہیں بچا تھا، میں انہیں لے کر ریسٹ ہاؤس کو چل دیا تاکہ اندھیرا ہونے سے قبل وہاں پہنچ جائیں۔ یاد رہے کہ آدم خور اسی علاقے میں سرگرم تھا۔ میرے ساتھیوں کے علاوہ درجن بھر دیہاتی بھی جھونپڑے کے گرد جمع تھے اور انتہائی تعجب سے مجھے وادی سے گذرتے ہوئے دیکھ رہے تھے۔ جب میں ان کے قریب پہنچا تو وہ ششدر تھے۔ بالا سنگھ سب سے پہلے ہوش میں آیا اور اس کی کہانی سننےسے مجھے پتہ چلا کہ ان کی نگاہوں میں میں دوبارہ زندہ ہو کر لوٹا تھا۔ بالا سنگھ نے کہا کہ صاحب ہم نے آپ سے کہا بھی تھا کہ زمین سےا تنا نزدیک نہ بیٹھیں۔ جب ہم نے آپ کی چیخ اور پھر شیر کی دھاڑ سنی تو ہمیں یقین ہو گیا کہ شیر نے آپ کو درخت سے کھینچ کر اتار لیا ہے اور آپ اپنی زندگی بچانے کے لیے شیر سے دو بدو لڑائی کر رہے ہیں۔ پھر جب شیر کی دھاڑ بند ہوئی لیکن آپ کی چیخیں سنائی دیتی رہیں تو ہم نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ شیر آپ کو اٹھا کر لے جا رہا ہے۔ پھر دو گولیوں کی آواز سنائی دی اور پھر تیسری گولی چلی اور ہم انگشت بدنداں تھے کہ جس آدمی کو شیر اٹھا کر لے جا رہا ہو، وہ کیسے گولی چلا سکتا ہے۔ ابھی ہم سب مل کر یہ سوچ ہی رہے تھے کہ اب کیا کریں کہ اچانک آپ خود سامنے آ گئے اور ہم حیرت کے مارے چپ ہو کر رہ گئے۔ جب شیر کے انتظار میں شکاری بیٹھا ہو تو اس کے ساتھی انتہائی توجہ سے ہر آواز سننے کی کوشش کرتے ہیں اور ریچھ کی آواز ویسے بھی انسانی آواز سے کافی مشابہہ ہوتی ہے اور کچھ فاصلے سے تو ان میں فرق کرنا تقریباً ناممکن ہو جاتا ہے۔
جتنی دیر میں ریچھ اور شیر کی لڑائی کے بارے ان لوگوں کو بتا رہا تھا، بالا سنگھ نے میرے لیے چائے کا کپ تیار کر لیا تھا۔ ریچھ کی چربی کو گٹھیا کے مرض کے مجرب مانا جاتا ہے اور یہ سارے لوگ یہ جان کر انتہائی خوش ہو گئے کہ ساری چربی ان لوگوں اور ان کے دوستوں میں تقسیم کی جائے گی۔ اگلی صبح میں ڈھیر سارے آدمیوں کے ساتھ ریچھ کی کھال اتارنے لوٹا۔ یہ لوگ نہ صرف چربی وصول کرنے آئے تھے بلکہ وہ اس جانور کو دیکھنا چاہتے تھے جس نے شیر سے لڑائی لڑی تھی۔ میں نے کبھی ریچھ کا وزن یا پیمائش نہیں کی تاہم میں نے بہت سے ریچھ دیکھے ہیں۔ اس ریچھ جتنا بھاری اور بڑا ہمالیائی ریچھ میں نے کبھی نہیں دیکھا۔ جب چربی اور دیگر حصے تقسیم ہو گئے تو سب نے دیبی دھورا کا رخ کیا۔ ان میں سب سے زیادہ خوش بالا سنگھ تھا جسے میں نے ریچھ کی کھال تحفتاً دی تھی۔ وہ اس کھال کو اپنی پشت پر باندھے ہوئے تھا۔
شیر دوبارہ نہ پلٹا اور شام تک گدھوں نے نہ صرف گائے بلکہ ریچھ کی لاش بھی صاف کر دی۔
6
چربی سے بھرے ریچھ کی کھال اتارنا انتہائی غلیظ کام ہے اور جب میں فارغ ہوا تو ریسٹ ہاؤس کو لوٹا تاکہ غسل کر کے ناشتہ کر سکوں۔ ریسٹ ہاؤس میں انتہائی ہیجان میں مبتلا دیبی دھورا کا فارسٹ گارڈ ملا۔ آج صبح جب وہ اپنی رات کی ڈیوٹی پوری کر کے جب دیبی دھورا پہنچا تو بنیا کی دکان پر اسے پتہ چلا کہ میں نے ریچھ مارا ہے۔ اپنے والد کے گٹھیا کے مرض کے لیے اسے ریچھ کی چربی کی اشد ضرورت تھی۔ اس لیے جب وہ ہماری طرف روانہ ہوا تو راستے میں اس نے مویشیوں کا ایک ریوڑ بھاگتے دیکھا جس کے پیچھے ایک لڑکا بھی بھاگا چلا آ رہا تھا۔ اس لڑکے نے اسے بتایا کہ شیر نے ابھی ابھی اس کی ایک گائے کو ہلاک کیا ہے۔ فارسٹ گارڈ کو کسی حد تک اس جگہ کا اندازہ تھا جہاں شیر نے گائے کو ہلاک کیا تھا۔ جتنی دیر میں بالا سنگھ اور دیگر ساتھی دیبی دھورا پہنچتے میں شیر کے شکار کو تلاش کرنے کی نیت سے چل پڑا۔ پہاڑی اور اترتے چڑھتے ہم لوگ دو میل دور گئے ہوں گے کہ ایک چھوٹی سی وادی سامنے آ گئی۔ فارسٹ گارڈ کے مطابق اسی وادی میں شیر نے گائے کو ہلاک کیا تھا۔ الموڑا کے گورکھا ڈپو پر کچھ عرصہ قبل ناکارہ سامان کی نیلامی ہوئی تھی اور میرے ساتھی فارسٹ گارڈ نے اسی نیلامی سے اپنے لیے پرانے فوجی بوٹ خریدے تھے جو اس کے پاؤں سے کافی بڑے تھے۔ انہی جوتوں کے ساتھ وہ چلتا ہوا میرے ساتھ یہاں تک آیا تھا۔ یہاں پہنچ کر میں نے اسے جوتے اتارنے کی ہدایت کی۔ جب اس نے جوتے اتارے تو اس کے پیروں کی حالت دیکھ کر مجھے اس پر بہت ترس آیا۔ یہ بندہ ساری زندگی ننگے پیر رہا تھا اور اب محض جوتوں کی خواہش میں اس نے اپنے پیروں کی شاندار درگت بنا لی تھی۔ اس نے بتایا کہ اس نے اس نیت سے بڑے جوتے خریدے تھے کہ وہ کچھ عرصہ استعمال کے بعد سکڑ جائیں گے۔
یہ وادی کشتی نما شکل کی تھی اور اس کا رقبہ تقریباً پانچ ایکڑ ہوگا۔ پوری وادی میں جگہ جگہ شاہ بلوط کے درخت موجود تھے اور جس طرف سے میں آ رہا تھا، وہاں سے اترائی اتنی سخت نہیں تھی اور نہ ہی جھاڑیاں وغیرہ تھیں۔ تاہم دوسری جانب چڑھائی کافی سخت تھی اور کچھ جھاڑیاں بھی موجود تھیں۔ اسی کنارے پر کھڑے ہو کر میں نے پوری وادی کا جائزہ لیا لیکن کہیں کوئی مشکوک چیز نظر نہ آئی۔پھر میں وادی میں اترا اور فارسٹ گارڈ میرے پیچھے ننگے پیر خاموشی سے آیا۔ جونہی ہم مسطح جگہ پہنچے، میں نے خشک پتوں اور مردہ ٹہنیوں کا ایک انبار دیکھا۔ اگرچہ مجھے گائے کا کوئی حصہ نظر نہیں آیا تھا پھر بھی مجھے پتہ چل گیا تھا کہ شیر نے گائے کو اسی ڈھیر میں چھپا یا ہے۔ میری حماقت کہ میں نے اپنے ساتھی کو اس ڈھیر کی حقیقت کے بارے کچھ نہیں بتایا۔ اس نے مجھے بعد میں بتایا کہ اسے اس بات کا علم نہیں تھا کہ شیر اپنے شکار کردہ جانوروں کو اس طرح بھی چھپاتے ہیں۔ جب شیر اس طرح اپنے شکار کو چھپاتا ہے تو اس کا مطلب عموماً یہ ہوتا ہے کہ شیر کہیں نزدیک نہیں ہوگا۔ تاہم ہر بار ایسا نہیں ہوتا۔ اگرچہ میں نے پوری وادی کا اچھی طرح جائزہ لے لیا تھا پھر بھی میں نے رک کر دوبارہ جائزہ لینے کا فیصلہ کیا۔
اس ڈھیر سے کچھ پیچھے پہاڑی اٹھنا شروع ہو جاتی ہے اور 45 درجے زاویہ بناتی ہے۔ چالیس گز کی بلندی پر جھاڑیوں کا ایک چھوٹا سا گچھا دکھائی دیا۔ ابھی میں اسی جگہ دیکھ ہی رہا تھا کہ میں نے شیر کو دیکھ لیا۔ ایک چھوٹے سے مسطح قطعے پر شیر میری طرف ٹانگیں کیے سو رہا تھا۔ مجھے اس کے سر کا کچھ حصہ دکھائی دے رہا تھا اور شانوں سے دم تک تین انچ چوڑی پٹی بھی دکھائی دے رہی تھی۔ اس موقع پر شیر کے سر پر گولی چلانا بے کار تھا کیونکہ اس سے محض ہلکا سا ہی زخم پہنچتا۔ ابھی میرے پاس پوری دوپہر اور شام کا وقت تھا اور شیر جلد یا بدیر اپنی جگہ سے حرکت کرتا۔ اس لیے میں نے وہیں بیٹھ کر انتظار کرنے کی ٹھانی۔ ابھی میں نے یہ فیصلہ کیا ہی تھا کہ بائیں جانب حرکت سی محسوس ہوئی۔ سر کو موڑ کر دیکھا تو پتہ چلا کہ ایک ریچھنی دو بچوں سمیت اسی سمت آ رہی ہے۔ لازماً ریچھنی نے شیر کو گائے ہلاک کرتے ہوئے سنا ہوگا اور مناسب وقفے کے بعد وہ تفتیش کی غرض سے آ رہی ہوگی۔ جب تک کوئی انتہائی ضرورت نہ ہو، ریچھ دوپہر کے وقت اس طرح مٹر گشت نہیں کرتے۔ اگر میں اس جگہ کی بجائے وادی کے سر ے پر ہوتا تو مجھے یقین ہے کہ انتہائی دلچسپ لڑائی دیکھائی دیتی۔ جب ریچھ اپنی بہترین قوت شامہ سے شکار کو ڈھونڈ نکالتے اور اس پر سے پتے وغیرہ ہٹانے لگتے تو شیر لازماً بیدار ہو جاتا اور بغیر لڑائی کے وہ ریچھوں کو شکار پر ہاتھ صاف نہ کرنے دیتا۔ یہ لڑائی قابل دید ہوتی۔
اس دوران فارسٹ گارڈ میرے پیچھے کھڑا تھا اور اس نے کچھ بھی نہیں دیکھا تھا کہ اچانک اس کی نظر ریچھوں پر پڑی اور وہ چلایا،دیکھو صاحب بھالو، بھالو۔بجلی کی تیزی سے شیر اٹھا تاہم اسے ابھی بیس گز مزید کھلے میدان سے گذرنا تھا۔ جونہی میں نے نشانہ باندھ کر لبلی دبائی، فارسٹ گارڈ نے یہ سوچ کر میرے بازو کو پکڑ کر مجھے گھمایا کہ میں غلط سمت گولی چلا رہا ہوں۔ نتیجتاً میری چلائی ہوئی گولی چند گز دور ایک درخت پر لگی۔ اپنے غصے پر قابو نہ پا سکنا حماقت ہے اور جنگل میں یہ مزید بھی نقصان کا باعث ہو سکتا ہے۔ فارسٹ گارڈ چونکہ نہ تو اس ڈھیر کے بارے جانتا تھا اور نہ ہی اسے شیر کی موجودگی کا علم تھا، اس نے سوچا کہ اس نے ریچھوں سے میری جان بچا لی ہے۔ اس لیے اسے کچھ ڈانٹ ڈپٹ کرنا بے کار تھا۔ گولی کی آواز سنتے ہی ریچھ واپس دوڑ پڑے۔ میرے ساتھی نے مجھے بار بار کہا کہ مارو، مارو۔
انتہائی مایوس فارسٹ گارڈ میرے ساتھ دیبی دھورا لوٹا۔ اسے خوش کرنے کے خیال سے میں نے اس سے پوچھا کہ کیا کوئی ایسی جگہ نزدیک ہے جہاں میں گڑھل کا شکار کر سکوں۔ میرے ساتھیوں کو ابھی تک گوشت نہ ملا تھا۔ نہ صرف اسے اس جگہ کا علم تھا بلکہ وہ ہماری رہنمائی کرنے کے لیے فوراً تیار ہو گیا۔ حالانکہ اس کے پیر چھالوں سے بھرے تھے۔ چائے کا ایک کپ پی کر فارسٹ گارڈ، میں اور دو ساتھی مزید ساتھ چل پڑے تاکہ وہ فارسٹ گارڈ کے مطابق شکار کردہ جانور کو اٹھا سکیں۔
ریسٹ ہاؤس کے برآمدے سے پہاڑی تیزی سے نیچی ہوتی جاتی ہے۔ اسی جگہ سے چند سو گز نیچے اتر کر فارسٹ گارڈ نے ہماری رہنمائی کی حتٰی کہ ایک پگڈنڈی دکھائی دی جو گڑھل استعمال کرتے تھے۔ یہاں سے میں سب سے آگے ہوا اور چلنے لگا۔ نصف میل دائیں جا کر جہاں ایک چٹانی چھجہ سا آیا، میں نے وادی کے پار دیکھا تو ایک گڑھل دکھائی دیا جو دوسرے کنارے پر ایک پتھر پر کھڑا نہ جانے آسمان پر کیا دیکھ رہا تھا۔ گڑھل، پہاڑی بکروں ، آئی بکس اور مارخور وغیرہ سب ہی کی یہ عادت ہے کہ وہ اسی طرح کھڑے ہو کر کچھ نہ کچھ دیکھتے رہتے ہیں۔ یہ گڑھل نر تھا جیسا کہ اس کے گلے پر موجود سفید نشان سے دکھائی دے رہا تھا۔ درمیانی فاصلہ دو سو گز سے ذرا سا زیادہ تھا۔ اب نہ صرف اپنے ساتھیوں کے لیے گوشت کا انتظام کرنے کا بلکہ نئی رائفل کے نشانے کی درستگی کا امتحان کرنے کا بہترین موقع تھا۔ نیچے لیٹ کر میں نے دو سو گز کی پتی چڑھائی اور احتیاط سے نشانہ لے کر گولی چلا دی۔ گولی چلتے ہی گڑھل نیچے گرا اور لڑھکنے لگا۔ اسی جگہ سے کئی سو فٹ کی ڈھلوان تھی۔ دوسرا گڑھل جسے میں نے ابھی تک نہیں دیکھا تھا، اپنے بچے کی ساتھ بھاگتا ہوا اوپر چوٹی تک چڑھا ۔ یہاں وہ رک کر کئی بار پیچھے مڑ مڑ کر دیکھنے کے بعد پہاڑی کی دوسری جانب چلا گیا۔
جتنی دیر میں میرے ساتھی گڑھل کو لاتے، میں اور فارسٹ گارڈسگریٹ پینے لگے۔ اگرچہ اسے ریچھ کی چربی تو نہ مل سکی تھی لیکن اسے میں نے پیشکش کی کہ وہ گڑھل کی کھال کے ساتھ ساتھ گوشت کا بھی کچھ حصہ لے سکتا ہے۔ اس پر وہ بہت خوش ہوا اور بولا کہ وہ گڑھل کی کھال سے اپنے باپ کے لیے نشست بنائے گا جو بڑھاپے اور گٹھیا کی وجہ سے سارا دن دھوپ سینکتا رہتا ہے۔
اگلے دن جب میں دوبارہ گائے کی لاش پر لوٹا تو میرے اندازے کے عین مطابق شیر کی بجائے ریچھ آ کر اپنا پیٹ بھر گئے تھے۔ انہوں نے گائے کی لاش کی محض ہڈیاں ہی باقی چھوڑی تھیں اور اب ایک گدھ اس پر اپنی چونچ تیز کر رہا تھا۔
چونکہ ابھی صبح کا وقت تھا اس لیے میں نے سوچا کہ اس سمت جا کر کچھ تحقیق کروں جس سمت کل شیر فرار ہوا تھا۔ اس لیے پہاڑی کی دوسری جانب جا کر میں لوہار گھاٹ والی سڑک تک آدم خور تیندوے کے پگوں کو تلاش کرتا چلا گیا۔ جب واپس لوٹا تو پتہ چلا کہ شیر نےا یک اور شکار کر لیا ہے۔ میرا مخبر کافی عقلمند آدمی تھا لیکن چونکہ وہ عدالت پیشی کے سلسلے میں جا رہا تھا اس لیے اس کے پاس وقت نہیں تھا۔ البتہ اس نے برآمدے کے فرش پر کوئلے سےنقشہ بنا کر مجھے وہ جگہ سمجھائی جہاں شیر نے شکار کیا تھا۔ناشتہ اور دوپہر کا کھانا ایک ساتھ کھا کر میں شیر کے شکار کو تلاش کرنے نکل کھڑا ہوا۔ اگر نقشہ درست تھا تو جہاں میں نے کل شیر پر گولی چلائی تھی، اس جگہ سے پانچ میل دور یہ واردات ہوئی تھی۔یہ شیر جیسا کہ میں نے جائے وارات کے مشاہدے سے جانا، ندی کے کنارے چرتے ہوئے اس ریوڑ تک پہنچا اور کافی مشکل کے بعد اس نے گائے کو ہلاک کیا۔ عموماً گائے کا وزن 600 یا 700 پاؤنڈ ہوتا ہے، اس لیے اتنے وزنی اور طاقتور جانور کو ہلاک کرنے کے بعد شیر عموماً کچھ دیر آرام کرتے ہیں۔ تاہم خون کے نشانات کی عدم موجودگی سے پتہ چلا کہ اس شیر نے گائے کو ہلاک کرتے ہی اسے اٹھایا اور ندی عبور کر کے وادی کے دامن میں موجود جنگل میں گھس گیا۔
کل شیر نے اپنے شکار کو ہلاک کر کے وہیں جھاڑ جھنکار سے ڈھانپ دیا تھا اور آج وہی شیر اپنے شکار کو کہیں دور لے جانے کا ٹھانے ہوئے تھا۔ دو میل تک میں نے ان نشانات کا پیچھا کیا۔ شیر نے گائے کو اٹھائے اٹھائے گھنے جنگل سے بھری پہاڑی پر گیا اور چوٹی سے چند سو گز نیچے گائے کی پچھلی ٹانگیں دو درختوں کے درمیان پھنس گئیں۔ انتہائی طاقتور جھٹکے سے شیر نے گائے کو کھینچا جس سے گائے کی ٹانگ گھٹنے سے ٹوٹ کر الگ ہو گئی۔ بقیہ لاش کو اٹھائے ہوئے شیر ٍآگے بڑھا۔ جس جگہ سے شیر چوٹی پر پہنچا،وہ مسطح اور شاہ بلوط کے درختوں سے بھری ہوئی تھی۔ یہ درخت ایک سے دو فٹ چوڑے تنوں والے تھے۔ اسی جگہ شیر نے گائے کو ڈالا اور چل دیا۔ اس بار اس نے گائے کو پتوں سے چھپانے کی کوشش نہیں کی۔
شیر کا تعاقب کرتے ہوئے میرے پاس صرف رائفل اور چند گولیاں ہی تھیں پھر بھی اس پہاڑی کی چڑھائی جب ختم ہوئی تو میرے کپڑے پسینے سے تر اور گلا خشک تھا۔ مجھے اندازہ تھا کہ شیر اس مشقت کے بعد کتنا پیاسا ہوگا۔ چونکہ میں بھی شدید پیاسا تھا اس لیے میں نے نزدیکی ندی تلاش کرنے کی ٹھانی۔ ظاہر ہے کہ شیر سے بھی اسی جگہ ملاقات ہو سکتی تھی۔ جس وادی میں میں نے ریچھ پر گولی چلائی تھی، یہاں سے نصف میل دور تھی اور وہاں چشمہ تھا۔ لیکن اس سے پہلے ایک کھائی بائیں جانب تھی جسے میں نے آزمانے کا سوچا۔
ابھی میں اس کھائی میں ایک میل سے کچھ کم دور گیا ہوں گا اور اس جگہ کھائی کافی تنگ ہو گئی تھی۔ ایک بڑی چٹان سے نکلتے ہی میں نے اچانک شیر دیکھا جو 20 گز دور لیٹا ہوا تھا۔ اس جگہ پانی کا ایک چھوٹا سا تالاب تھا اور دائیں کنارے اور تالاب کے درمیان پتلی سی پٹی پر شیر سو رہا تھا۔ اس جگہ وادی اچانک مڑتی ہے اور شیر کا نصف حصہ موڑ سے پہلے اور نصف حصہ موڑ کی وجہ سے چھپا ہوا تھا۔ شیر بائیں پہلو پر سو رہا تھا اور اس کی کمر تالاب کی جانب تھی۔ مجھے اس کی دم اور پچھلی ٹانگیں ہی دکھائی دے رہی تھیں۔ میرے اور شیر کے درمیان کافی بڑی مقدار میں درختوں کی خشک شاخیں پڑی تھیں جو بہت عرصہ قبل مویشیوں کے چارے کے لیے کاٹی گئی تھیں۔چونکہ ان شاخوں سے خاموشی سے گذرنا ممکن نہیں تھا اور نہ ہی کناروں پر چڑھائی ممکن تھی، اس لیے میں نے سوچا کہ وہیں رک کر انتظار کروں کہ شیر بیدار ہو کر حرکت کرے تو میں گولی چلاؤں۔
اتنی مشقت اور پیٹ بھر کر پانی پینے کے بعد شیر آرام سے نصف گھنٹہ سوتا رہا ۔ پھر اس نے دائیں کروٹ لی۔ اس کی ٹانگوں کا مزید کچھ حصہ دکھائی دینے لگا۔ چند منٹ اسی حالت میں رہنے کے بعد شیر کھڑا ہوا اور موڑ کی دوسری جانب غائب ہوگیا۔ لبلبی پر انگلی رکھے میں منتظر رہا کہ شیر کب نمودار ہوتا ہے کیونکہ اس کا شکار میرے عقب میں پہاڑی پر تھا۔ منٹوں پر منٹ گذرتے گئے لیکن شیر نہ دکھائی دیا۔ پھر سو گز دور سے کاکڑ بھونکتے ہوئے وادی کے نیچے کی جانب بھاگا۔ کچھ دیر بعد سانبھر کی آواز سنائی دی۔ شیر جا چکا تھا لیکن کیوں؟ اتنی مشقت کے بعد بھی، یہ بھی ممکن نہیں تھا کہ شیر نے میری بو پا لی ہو کیونکہ شیروں کی قوت شامہ بالکل نہیں ہوتی۔ خیر، اتنی مشقت کے بعد وہ اپنے شکا رکو کسی قیمت پر نہ چھوڑتا اورپہاڑی پر میں اس کا منتظر ہوتا۔ جس جگہ شیر لیٹا تھا اس تالاب کا پانی برف کی طرح سرد تھا اور اپنی پیاس بجھانے کے بعد میں نے سگریٹ پیا۔
ابھی سورج غروب ہونے والا تھا کہ میں نے لاش سے دس گز مشرق اور تھوڑا سا دائیں جانب شاہ بلوط کے ایک درخت پر ڈیرا جما لیا۔ چونکہ شیر مغرب سے پہاڑی پر چڑھتا اس لیے بہتر تھا میں اس کی آمد کی جگہ اور لاش کے درمیان نہ ہوتا۔ شیر اگرچہ سونگھ نہیں سکتے لیکن ان کی نظر انتہائی تیز ہوتی ہے۔ اس جگہ سے مجھے وادی اور اس کے پیچھے پہاڑیاں بھی صاف دکھائی دے رہی تھیں۔ جب غروب ہوتا ہوا سورج سرخ گیند کی شکل میں پہاڑی کے سرے پر دکھائی دے رہا تھا کہ نیچے وادی سے سانبھر کی آواز آئی۔ شیر روانہ ہو چکا تھا اور جتنی دیر میں اندھیرا ہوتا، شیر اس سے قبل ہی شکار پر پہنچ جاتا۔
سورج ڈوب گیا۔ شفق کی جگہ تاریکی نے لے لی۔ چاند کو نکلنے میں کافی دیر تھی لیکن ہمالیہ میں ستارے اتنے روشن دکھائی دیتے ہیں کہ مجھے سفید رنگ والی لاش صاف دکھائی دے رہی تھی۔ لاش کا سر میری طرف تھا اور اگر شیر لاش کے عقب سے آ کر اسے کھانا شروع کرتا تو میں اسے نہ دیکھ پاتا۔ تاہم لاش کا نشانہ لینے کے بعد رائفل کو تھوڑا سا اوپر اٹھا کر کہ جب لاش دکھائی دینا بند ہو جاتی، میں اندازاً شیر پر گولی چلا سکتا تھا۔ یہ گولی ففٹی ففٹی ہوتی۔ تاہم ایسا خطرہ صرف اور صرف آدم خور کے شکار میں ہی مول لیا جاتاہے۔ یہ عام سا ‘ٹمپل’ ٹائیگر تھا۔ اگرچہ چار دنوں میں اس نے چار مویشی مارے تھے لیکن اس نے کبھی کسی انسان کو تنگ نہیں کیا تھا اور مویشی مارنے کے سلسلے میں اس نے جنگل کے قانون کی کوئی خلاف ورزی نہیں کی تھی۔ مویشیوں کو اس سے بچانے کے لیے اس پر اس طرح گولی چلانا جائز تھا کہ وہ فوراً ہی مارا جاتا۔ لیکن اس طرح اوچھی گولی چلا کر اسے زخمی کرنا کہ وہ گھنٹوں تک زخم کی تکلیف سہتا رہے اور اگر اسے ڈھونڈ کر ہلاک نہ کیا جاتا تو اس کے آدم خور بننے کے امکانات بہت زیادہ ہوتے۔مشرق سے روشنی آنے لگ گئی تھی اور کچھ ہی دیر بعد چاند نکل آیا۔ اس وقت شیر آ گیا۔ اگرچہ میں نے اسے دیکھا نہیں تھا لیکن مجھے معلوم ہو گیا تھا کہ شیر آ چکا ہے۔ کیا شیر لاش کے پیچھے پہاڑی کے کنارے پر چھپا ہوا مجھے دیکھ رہا ہے؟ناں، جب سے میں اس درخت پر بیٹھا تھا، میں اس درخت کا حصہ بن چکا تھا اور کوئی حرکت نہیں کی تھی اور بغیر کسی معقول وجہ کے شیر شکار پر لوٹتے وقت جنگل میں راستے کے ہر درخت کی چھان بین نہیں کرتے۔ پھر بھی شیر آ گیا تھا اور مجھے دیکھ رہا تھا۔
جب چاندنی اتنی پھیل گئی کہ مجھے صاف دکھائی دینے لگا تو میں نے اپنے سامنے زمین کا جائزہ لینا شروع کر دیا۔ جونہی میں نے پیچھے دیکھنے کے لیے سر کو دائیں گھمایا، شیر دکھائی دیا۔ شیر ایک روشن قطعے پر پچھلی ٹانگوں پر لاش کی طرف رخ کیے اور گردن موڑ کر مجھے دیکھ رہا تھا۔ جونہی اس نے مجھے اپنی جانب دیکھتے پایا تو اس نے اپنے کان پھیلا دیئے۔ جب میں نے مزید کوئی حرکت نہیں کی تو اس نے کان دوبارہ کھڑے کر لیے جیسے وہ مجھ سے کہہ رہا ہو، ہاں بھئی، مجھے دیکھ تو لیا لیکن اب کیا کرو گے؟ اس وقت میں شاید ہی کچھ کر سکتا۔ گولی چلانے کے لیے مجھے نصف دائرے جتنا گھومنا پڑتا جس سے شیر لازماً خبردار ہو جاتا کیونکہ ہمارا درمیانی فاصلہ بمشکل پندرہ فٹ ہوگا۔ خیر دوسری صورت یہ تھی کہ میں بائیں شانے سے رائفل چلاتا۔رائفل میرے گھٹنوں پر آڑی رکھی تھی اور نال کا رخ بائیں جانب تھا۔ جونہی میں نے رائفل اٹھائی اور اس کا رخ دائیں جانب پھیرنے لگا تو شیر نے اپنا سر جھکایا اور کان پھیلا دیئے۔جتنی دیر میں نے حرکت نہیں کی شیر بھی وہیں رہا لیکن جونہی میں نے دوبارہ رائفل کا رخ پھیرنا شروع کیا، شیر اٹھا اور ایک سامنے موجود سایوں میں گم ہو گیا۔
خیر، میں کر بھی کیا سکتا تھا۔ شیر نے ایک بار پھر فتح یاب رہا تھا۔جتنی دیر میں یہاں رکتا، شیر نے نہ آتا۔ لیکن اگر میں یہاں سے چل پڑتا تو لازمی طور پر شیر آتا اور گائے کو لے جاتا۔چاہے وہ جتنا بھی کوشش کرتا، پوری گائے کھانا اس کے بس سے باہر تھی اور میں اگلے دن دوبارہ کوشش کر سکتا تھا۔
سوال یہ پیدا ہوا کہ میں کہاں رات گذاروں؟ میں دن بھر 20 میل چل چکا تھا اور 8 میل مزید سفر کر کے ریسٹ ہاؤس جانے کو دل نہیں چاہا۔ کسی بھی دیگر مقام پر میں لاش سے دو یا تین سو گز دور جا کر زمین پر سو جاتا لیکن یہاں اس علاقے میں آدم خور تیندوا موجود تھا اور آدم خور تیندوے رات کو شکار کرتے ہیں۔شام کو جب درخت پر بیٹھنے لگا تو میں نے دور سے مویشیوں کی گھنٹیوں کی آواز سنی اور اس کے مقام کو بخوبی سمجھ لیا تھا۔ یہ مویشی کسی گاؤں یا پھر کسی باڑے میں ہوں گے جسے تلاش کرنے کے لیے میں روانہ ہو گیا۔ ہمالیہ میں مویشی چوری کبھی نہیں ہوتے اور لوگوں کے مویشی مشترکہ باڑوں میں بند کر دیئے جاتے ہیں۔ میں نے اندازہ لگایا تھا کہ یہ مویشی سو کے لگ بھگ ہوں گے اور کسی ایسے مشترکہ باڑے میں بند تھے۔ اس طرح کے باڑے کھلے میدان میں بنائے جاتے ہیں اور لکڑیوں سے دیواریں سی بنا دی جاتی ہیں۔ یہ باڑے جنگل میں اتنی دور اس بات کا ثبوت تھے کہ یہاں کے لوگ کتنے ایمان دار ہیں اور یہ بھی کہ میری آمد سے قبل تک شیر نے کبھی مویشیوں پر بری نظر نہیں ڈالی تھی۔
جنگل میں رات کے وقت سارے ہی جانور کافی مشکوک ہوتے ہیں اور اگر میں نے اس باڑے کے مویشیوں کے ساتھ سکون سے رات بسر کرنی تھی تو مجھے ان کے شکوک دور کرنے پڑتے۔ کالا ڈھنگی کے ہمارے گاؤں میں 900 سے زیادہ مویشی ہیں اور بچپن سے ان کے ساتھ رہتے ہوئے مجھے ان کی زبان سمجھ آ گئی ہے۔ آہستگی سے چلتے ہوئے اور مویشیوں سے باتیں کرتے ہوئے میں باڑے تک پہنچا اور اس سے ٹیک لگا کر سگریٹ پینے لگا۔ جہاں میں بیٹھا تھا، وہاں کئی گائیں کھڑی تھیں اور پھر ان میں سے ایک آگے بڑھی اور ڈنڈوں سے سر نکال کر اس نے میری گدی چاٹنا شروع کر دی۔ اگرچہ اس کا یہ عمل دوستانہ تھا لیکن مجھے گیلا کر گیا۔ 8000 فٹ کی بلندی پر راتیں کافی سرد ہوتی ہیں۔ سگریٹ ختم کر کے میں نے رائفل کو خالی کیا اور گھاس پھونس سے ڈھانپ کر میں چاردیواری پر چڑھا۔
اس طرح کی جگہ پر سوتے وقت احتیاط کرنی چاہئے کہ اگر رات کو کوئی خطرہ نزدیک ہو تو باڑے کے جانور باڑے کے اندر دائرے کی شکل میں بھاگنا شروع کر دیتے ہیں۔ اگر بندہ زمین پر بے خبر سو رہا ہو تو ایسی صورتحال جان لیوا بھی ہو سکتی ہے۔ اس باڑے کے درمیان میں چھت کے ستون کے ساتھ دو گایوں کے درمیان کچھ خالی جگہ تھی۔ بوقت ضرورت میں اس ستون پر چڑھ سکتا تھا۔ جانوروں کے بیچ سے ہوتا ہوا میں اس ستون تک پہنچا اور دونوں گایوں کے درمیان لیٹ گیا۔ رات سکون سے گذری اور مجھے ستون پر پناہ لینے کی کوئی ضرورت نہیں محسوس ہوئی۔ مویشیوں کی جسمانی حرارت سے رات کی خنکی کا احساس نہیں ہوا اور ان کے جسموں کی خوشبو کے درمیان میں ساری دنیا بشمول شیر اور آدم خور تیندوے، سے بے خبر سویا۔
طلوع آفتاب کے وقت آدمیوں کی آواز سن کر میری آنکھ کھلی۔ جب میں جاگا تو دیکھا کہ تین بندے دودھ کے برتنوں کے ساتھ باڑے کے باہر کھڑے مجھے تعجب سے دیکھ رہے ہیں۔ انہیں میں نے اپنے بارے بتایا اور جب ان کی حیرت دور ہوئی تو دودھ دوہنے کے بعد انہوں نے مجھے پینے کے لیے تازہ دودھ دیا۔ گذشتہ روز ناشتے کے بعد چند گھونٹ پانی ہی میں نے پیا تھا۔ اس لیے دودھ میرے لیے نعمت غیر مترقبہ ثابت ہوا۔ تاہم ان لوگوں کی کھانے کی دعوت سے انکار کرتے ہوئے میں اپنی رہائش اور دودھ کے لیے ان کا شکریہ ادا کیا اور چل پڑا۔ باقاعدہ کھانے اور غسل کے لیے ریسٹ ہاؤس جانے سے قبل میں نے سوچا کہ گائے کی لاش کا معائینہ کرتا جاؤں۔ تعجب کی بات کہ شیر نے دوبارہ لاش پر چکر نہیں لگایا تھا۔ لاش کو گدھوں وغیرہ سے بچانے کے لیے میں نے اسے ٹہنیوں سے ڈھانپا اور ریسٹ ہاؤس کی طرف چل دیا۔
میرا اندازہ ہے کہ ہندوستان کے ملازمین جتنا اپنے مالکان کی بری عادتوں کو جتنی آسانی سے برداشت کرتے ہیں، دنیا کے کسی دوسرے کونے میں نہیں کرتے ہوں گے۔ 24 گھنٹوں کی غیر حاضری کے بعد جب میں ریسٹ ہاؤس واپس لوٹا تو کسی نے نہ تو حیرت کا اظہار کیا اور نہ ہی کوئی سوال پوچھے۔ غسل کے لیے گرم پانی تیار تھا اور صاف کپڑے ساتھ ہی رکھے تھے۔ جتنی دیر میں میں غسل سے فارغ ہوتا، ناشتہ تیار تھا۔ دلیہ، آملیٹ، گرم چپاتی اور شہد سے ناشتہ کرکے میں نے چائے پی۔ ناشتہ ختم ہونے کے بعد میں ریسٹ ہاؤس کے سامنے گھاس پر بیٹھا اور خوبصورت منظر کو دیکھتے ہوئے منصوبہ سوچنے لگا۔ نینی تال سے میں ایک ہی مقصد کے لیے نکلا تھا جو کہ پانار کے آدم خور تیندوے کی ہلاکت تھا۔ جس رات اس نے مندر کے چبوترے سے چرواہے کو ہلاک کرنے کی کوشش کی تھی، کے بعد سے اس کی خبر مفقود تھی۔ پنڈت، بنیا اور آس پاس کے دیہاتوں کے لوگوں نے مجھے بتایا تھا کہ کئی بار ایسا ہوا ہے کہ آدم خور تیندوا لمبے عرصے کے لیے گم ہو جاتا ہے۔ ان کا خیال تھا کہ ایسا ہی ایک وقفہ ابھی شروع ہوا ہے۔ کوئی بھی نہیں بتا سکتا کہ یہ کتنا عرصہ غائب رہے گا۔ جس علاقے میں آدم خور تیندوا موجود تھا، وہ بہت وسیع تھا۔ یہاں کم از کم دس سے بیس تیندوے ہوں گے۔ ایسے آدم خور تیندوے کو اس علاقے میں تلاش کر کے ہلاک کرنا کہ جب اس نے آدم خوری کو کچھ عرصے کے لیے ترک کر دیا ہو کارے وارد تھا۔
اس لیے جہاں تک آدم خور تیندوے کا تعلق تھا، میں ناکام ہو چکا تھا اور دیبی دھورا میں مزید رکنے سے کوئی فائدہ نہیں ہونا تھا۔ اب اس ‘ٹمپل’ ٹائیگر کا سوال باقی رہ گیا تھا۔ مجھے نہیں لگا کہ یہ شیر کسی بھی طرح میری ذمہ داری ہے۔ لیکن مجھے یہ ضرور محسوس ہوا کہ جتنی دیر میں اس کا تعاقب جاری رکھوں گا اتنا ہی وہ مویشیوں کو ہلاک کرتا رہے گا۔ ایک نر شیر بغیر کسی وجہ سے اسی دن سے مویشی مارنا شروع کرے جس دن میں دیبی دھورا پہنچا، ناقابل توجیہہ ہے۔ کیا میرے جانے کے بعد وہ رک جائے گا، یہ سوال فی الوقت تشنہ تھا۔ تاہم میں نے ہر ممکن کوشش سے اسے شکار کرنے کی کوشش کی تھی اور اس کے شکار کردہ مویشیوں کے مالکان کو اپنی جیب کی گنجائش کے مطابق معاوضہ بھی دیا تھا اور اس شیر نے جنگل میں مجھے بہترین تجربات میں سے ایک سے روشناس کرایا تھا۔ اس لیے میرے دل میں اس کے خلاف کوئی رنجش نہیں تھی۔ اگرچہ ہر بار اس شیر نے مجھے زک پہنچائی تھی۔ یہ چار دن میرے لیے انتہائی پریشان کن تھے اور میں نے فیصلہ کیا کہ آج کا دن آرام کر کے کل صبح نینی تال روانہ ہو جاؤں گا۔ ابھی میں نے اتنا ہی سوچا تھا کہ پیچھے سے آواز آئی۔ سلام صاحب۔ میں آپ کو یہ بتانے آیا ہوں کہ شیر نے میری گائے ہلاک کر دی ہے۔ اس شیر کے شکار کا ایک اور موقع آ گیا۔ چاہے میں کامیاب ہوتا یا ناکام، ہر حال میں اگلی صبح میں نینی تال کے لیے روانہ ہو جاتا۔
7
انسان اور ریچھ کی مداخلت سے ناراض شیر نے شکار کی جگہ بدل لی تھی۔ اس بار اس نے دیبی دھورا کے ریسٹ ہاؤس سے کئی میل دور اور دیبی دھورا پہاڑ کے مشرقی سرے پر شکار کیا تھا۔ اس جگہ زمین ناہموار تھی اور جگہ جگہ جھاڑیوں کے جھنڈ اور اکا دکا درخت موجود تھے۔ یہ مقام چکور کے شکار کے لیے بہترین لیکن شیر کے شکار کے لیے انتہائی ناموزوں تھا۔
پہاڑ کے ساتھ ساتھ ایک گہرا نشیب سا تھا۔ اسی نشیب میں کئی جگہ جھاڑیوں کے گھنے جھنڈ سے تھے اور دیگر جگہوں پر چھوٹی چھوٹی گھاس اگی ہوئی تھی۔ انہی کھلے قطعوں میں سےا یک کے سرے پر شیر نے گائے کو ہلاک کیا تھا اور چند گز دور جھاڑیوں میں اسے گھیسٹ کر لے گیا اور کھلے میدان میں چھوڑ کر چلا گیا۔ اس کی مخالف سمت پر شاہ بلوط کا ایک درخت تھا جو سو گز کے دائرے میں واحد درخت تھا۔ اسی درخت پر میں نے بیٹھنے کا فیصلہ کیا۔
جتنی دیر میں میرے ساتھی میرے لیے چائے کے لیے پانی کی کیتلی ابالتے، میں نے آس پاس گھوم کر یہ جائزہ لیا کہ آیا شیر کہیں موجود تو نہیں۔ میرے خیال میں اسی نشیب میں شیر کسی جگہ سو رہا تھا۔ اگرچہ میں نے پورے ایک گھنٹے تک اس نشیب کا جائزہ لیا لیکن شیر نہیں دکھائی دیا۔
جس درخت کو میں نے بیٹھنے کے لیے چنا، وہ گھاس کے قطعے پر جھکا ہوا تھا۔ سالہا سال تک اس سے لوگ مویشیوں کے چارے کے لیے ٹہنیاں کاٹتے رہے تھے اور اس پر چڑھنا انتہائی آسان تھا۔ تاہم اوپر بیٹھ کر تنا دکھائی نہیں دیتا تھا۔ بیس فٹ کی بلندی پر واحد شاخ ایسی تھی جہاں میں بیٹھ سکتا۔ تاہم اس شاخ تک چڑھنا نہ تو آسان تھا اور نہ ہی بیٹھنا آرام دہ۔ چار بجے میں نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ وہ گاؤں کی طرف جا کر پہاڑی کے سرے پر میرا انتظار کریں۔ میرا ارادہ تھا کہ سورج ڈوبتے ہی میں واپس چلا جاؤں گا۔
جیسا کہ میں نے پہلے بتایا، لاش مجھ سے دس گز دور تھی اور اس کا پچھلا حصہ جھاڑیوں میں چھپا ہوا تھا۔ اسی حالت میں بیٹھے ہوئے مجھے ایک گھنٹہ گذرا ہوگا اور میں سرخ بلبلوں کو جنگلی بیریاں کھاتے دیکھ رہا تھا کہ جب میں نے آنکھیں موڑ کر لاش کی طرف دیکھا تو شیر کا سر جھاڑیوں کے پیچھے سے دکھائی دے رہا تھا۔ بظاہر لیٹ کر شیر میری طرف دیکھ رہا تھا۔ پھر اس کا پنجہ آگے بڑھا اور پھر دوسرا اور خود کو گھیسٹ کر لاش تک پہنچا۔ اسی طرح شیر اب بھی زمین سے چپکا ہوا تھا۔ کئی منٹ تک بے حس و حرکت رہا۔ پھر اس نے اپنے منہ سے ٹٹول کر گائے کی دم کتری اور ایک طرف پھینک دی۔ اس کی آنکھیں سارا وقت مجھ پر مرکوز تھیں۔ تین دن قبل ریچھ سے ہونے والی لڑائی کے بعد سے اس نے ابھی تک کچھ نہیں کھایا تھا۔ اس لیے کھال کو بھول کر وہ بڑے بڑے لقمے نگل رہا تھا۔
رائفل میرے گھٹنوں پر رکھی تھی اور اس کا رخ شیر کی جانب تھا۔ مجھے صرف اسے اٹھا کر شانے تک لانا تھا۔ جونہی شیر اپنی آنکھیں مجھ سے ہٹاتا میں رائفل کو اٹھا کر نشانہ لے سکتا تھا۔ لیکن شیر کو شاید اس خطرے کا علم تھا کیونکہ اس نے مجھ سے نظریں ہٹائے بغیر آرام سے پیٹ بھرنا جاری رکھا۔ جب اس نے پندرہ یا بیس پاؤنڈ جتنا کھا لیا ہوگا اور اس کے پیچھے بلبل اور دیگر پرندے اچھا خاصا شور کرنے لگے تو میں نے سوچا کہ اب مجھے حرکت کرنی چاہئے۔ اگر میں انتہائی آہستگی سے رائفل اٹھاوں تو عین ممکن ہے کہ شیر اس کو نہ دیکھ پائے کیونکہ اس کے عقب میں پرندے خوب شور و غل مچا رہے تھے۔ میں نے بمشکل چھ انچ جتنی رائفل اٹھائی ہوگی کہ شیر اچانک اس طرح پھسل کر پیچھے ہوا جیسے کسی سپرنگ نے اسے کھینچ لیا ہو۔ رائفل کو شانے سے لگائے میں منتظر رہا کہ شیر کا سر کب دوبارہ نمودار ہو۔ مجھے یقین تھا کہ جلد ہی شیر دوبارہ دکھائی دے گا۔منٹوں پر منٹ گذرتے رہے لیکن شیر نہ دکھائی دیا۔ پھر اچانک ہی میں نے شیر کی آواز سنی۔ جھاڑیوں کے گرد چکر کاٹ کر شیر میرے درخت کے پیچھے پہنچا اور وہاں اس نے مزے سے درخت کے تنے پر اپنے پنجے تیز کرنے شروع کر دیئے۔ اس جگہ چھوٹی چھوٹی شاخوں کی وجہ سے وہ مجھے دکھائی نہیں دیا۔ بار بار خوشی سے آواز نکالتے ہوئے وہ اپنے پنجے تیز کرتا رہا اور درخت پر بیٹھے ہوئے میں خاموش قہقہوں سے جھومتا رہا۔
مجھے علم تھا کہ کوؤں اور بندروں میں حس مزاح ہوتی ہے لیکن آج سے پہلے تک مجھے علم نہیں تھا کہ شیروں میں بھی یہ حس پائی جا سکتی ہے۔ نہ ہی میں نے کسی جانور کو اتنا خوش قسمت پایا تھا جتنا کہ یہ شیر تھا۔ پانچ دنوں میں اس نے پانچ گائیں ماری تھیں اور چار تو اس نے دن دیہاڑے ہلاک کی تھیں۔ ان پانچ دنوں میں میں نے اسے آٹھ بار دیکھا تھا اور چار بار اس پر میں نے لبلبی دبائی تھی۔ اب نصف گھنٹہ تک پیٹ بھرنے کے بعد یہی شیر میرے درخت کے تنے سے اپنے رگڑ کر میرے بارے اپنی لاپرواہی ظاہر کر رہا تھا۔
جب بوڑھے پجاری نے مجھے شیر کے بارے بتایا تو اس نے یہ بھی کہا تھا کہ صاحب مجھے اس شیر کے شکار پر صرف ایک اعتراض ہے۔ وہ یہ کہ آپ یا کوئی اور اسے کبھی شکار کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے گا۔ یہ شیر اپنے انداز میں پنڈت کے بیان کی تصدیق کر رہا تھا۔ چار دن سے جاری اس کھیل میں جس میں ہم دونوں نے ایک دوسرے کو ضرر پہنچائے بغیر حصہ لیا تھا میں اب شیر نے آخری چال چلی۔ تاہم میں اس کو آرام سے بازی جیتنے نہیں دینےوالا تھا۔ رائفل کو رکھ کر میں نے دونوں ہاتھوں سے بھونپو بنایا اور جونہی شیر نے پنجےروکے، میں پوری طاقت سے چیخا جو پہاڑیوں میں گونجی۔ چیخ سنتے ہی شیر نے دوڑ لگائی اور سیدھا وادی میں اتر گیا۔ میرے آدمی فوراً ہی بھاگتے ہوئے پہنچے کہ معاملے کو جان سکیں۔ انہوں نے بتایا کہ شیر ان کے سامنے سے گذرا اور اس کی دم ہوا میں تھی۔ اسی وقت ان کی نظر درخت کے تنے پر پڑی۔
اگلی صبح میں دیبی دھورا میں اپنے دوستوں سے ملا اور انہیں یقین دلایا کہ جونہی آدم خور تیندوا دوبارہ فعال ہوگا، میں فوراً لوٹ آؤں گا۔
اگلے کئی سال تک میں وقتاً فوقتاً دیبی دھورا جاتا رہا لیکن کبھی کسی شکاری نے اس شیر کو شکار نہیں کیا۔ مجھے یقین ہے کہ ڈھلتی عمر کے ساتھ یہ شیر فطری موت مرا ہوگا۔
مکتسر کی آدم خورنی
نینی تال سے شمال مشرق میں اٹھارہ میل دور، 8000 فٹ بلند اور 12 سے 15 میل چوڑی ایک پہاڑی ہے جو شرقاً غربا واقع ہے۔ اسی پہاڑی کے مغربی سرا اچانک بلند ہونے لگتا ہے اور اسی جگہ مکتسر ویٹرنیری ریسرچ انسٹی ٹیوٹ قائم ہے جہاں ہندوستان کے مویشیوں کی بیماریوں کے لیے ادویات تیار کی جاتی ہیں۔ لیبارٹری اور سٹاف کی رہائش گاہیں پہاڑی کے شمالی سرے پر ہیں اور ہمالیائی برف سے ڈھکی چوٹیوں میں سے بہترین نظارہ پیش کرتی ہیں۔ ہندوستان کے دیگر پہاڑی سلسلوں کی طرح یہ بھی شرقاً غرباً پھیلے ہوئے ہیں۔ یہاں سے نہ صرف پہاڑی سلسلے بلکہ وادیوں میں تاحد نگاہ نظارے دکھائی دیتے ہیں۔ متکسر کے رہائشی لوگ اسے کماؤں کا خوبصورت ترین مقام گردانتے ہیں اور اس کے بہترین موسم کا کوئی جوڑ نہیں۔
مکتسر کی ایک شیرنی جس نے اس مقام کو اپنی رہائش کے لیے بہترین چنااور اس آبادی کے پاس موجود گھنے جنگل میں آ کر بسنے لگی۔ یہاں وہ سانبھروں، کاکڑوں اور جنگلی سوؤروں پر قانع تھی۔ ایک دن سیہہ کے ساتھ ہونے والی جھڑپ اس کے لیے بہت خوفناک ثابت ہوئی۔ اس مقابلے میں اس نے نہ صرف ایک آنکھ گنوائی بلکہ اس نے دائیں پنجے اور شانے کے اندرونی حصے پر 50 کے لگ بھگ کانٹے بھی وصول کیے۔ یہ کانٹے ایک سے نو انچ لمبے تھے۔ ان میں سے کئی کانٹے ہڈی سے ٹکرا کر یو کی شکل اختیار کر گئے تھے۔ جہاں جہاں اس نے دانتوں سے کانٹے نکالنے کی کوشش کی وہاں زخم بنے جن میں پیپ پڑ گئی۔ ایک دن جب وہ گھاس کے قطعے میں لیٹی اپنے زخم چاٹ رہی تھی کہ ایک عورت نے اسی قطعے سے اپنے مویشیوں کے چارے کے لیے گھاس کاٹنا شروع کی۔ پہلے پہل تو شیرنی نے توجہ نہ کی لیکن جب عورت گھاس کاٹتے کاٹتے شیرنی کے انتہائی قریب پہنچ گئی تو شیرنی نے جھلا کر اس عورت کے سر پر پنجہ مارا جس سے اس عورت کی کھوپڑی انڈے کی طرح پچک گئی۔ اس کی موت اتنی اچانک تھی کہ اگلے دن جب لوگ اسے تلاش کرتے پہنچے تو اس کے ایک ہاتھ میں گھاس اور دوسرے ہاتھ میں درانتی ابھی تک دبی ہوئی تھی۔ اس عورت کو وہیں چھوڑ کر شیرنی لنگڑاتی ہوئی ایک میل آگے جا کر ایک گرے ہوئے درخت کی اوٹ میں لیٹ گئی۔ دو دن بعد ایک آدمی اسی درخت سے لکڑیاں کاٹنے پہنچا۔ شیرنی جو اسی درخت کی دوسری جانب سو رہی تھی نے حملہ کر کے اسے ہلاک کر دیا۔ یہ آدمی درخت کے تنے پر گرا اور چونکہ اس آدمی نے اپنی صدری اور قمیض اتاری ہوئی تھی، شیرنی نے اسے ہلاک کرتے وقت اس کی کمر پر پنجے بھی مارے۔ شاید اس کی کمر سے بہتے ہوئے خون سے شیرنی نے اس لاش سے اپنی بھوک مٹانے کا سوچا ہوگا۔ خیر آگے جانے سے قبل اس نے اس بندے کی کمر سے کچھ گوشت کھا لیا۔ اگلے دن اس نے تیسرا شکار بغیر کسی وجہ کے کیا۔ اس دن سے اسے باقاعدہ آدم خور کا درجہ دے دیا گیا۔
اس شیرنی کے بارے میں نے اس کے آدم خور بننے کے کچھ عرصے بعد سنا۔ چونکہ مکتسر میں بہت سارے شکاری موجود تھے جو اس شیرنی کو ہلاک کرنے پر تلے ہوئے تھے، میں نے سوچا کہ کسی دوسرے بندے کا وہاں جانا شاید مناسب نہ سمجھا جائے۔ تاہم جب اس کے شکار کردہ انسانوں کی تعداد 24 سے بڑھ گئی اور آس پاس کی آبادیوں کے لوگوں کی جان کو خطرہ لاحق ہو گیا اور تحقیقاتی ادارے کا کام بھی کافی سست پڑ گیا تو ادارے کے سربراہ نے حکومت کو میری خدمات کے لیے لکھا۔
اگرچہ اس علاقے کے بارے میرے معلومات صفر تھیں اور آدم خوروں سے مقابلے کا مجھے کوئی خاص تجربہ نہیں تھا لیکن پھر بھی میں نے سوچا کہ یہ انتہائی آسان سا کام تھا۔
ایک ملازم اور دو ساتھیوں کے ساتھ جو میرا بستر اور سوٹ کیس اٹھائے ہوئے تھے، میں نینی تال سے دوپہر کو نکلا اور دس میل چل کر رام گڑھ کے ڈاک بنگلے پر پہنچا جہاں میں نے رات گذاری۔ ڈاک بنگلے کا خانساماں میرا پرانا دوست تھا اور جب اس نے سنا کہ میں مکتسر آدم خور کے شکار پر جا رہا ہوں تو اس نے مجھے واضح طور پر سفر کے آخری دو میل انتہائی محتاط رہنے کا کہا۔ اس دو میل کے فاصلے پر بہت سارے انسان مارے گئے تھے۔
اپنے ساتھیوں کو آرام سے سارا سامان باندھ کر اپنے پیچھے آنے کا کہہ کر میں دو نالی اعشاریہ 500 بور کی ایکسپریس رائفل اٹھائی اور اگلی صبح بہت سویرے سویرے نکل کھڑا ہوا۔ ابھی دن کی روشنی پھیل ہی رہی تھی کہ میں اس دوراہے پرپہنچا جہاں سے نینی تال سے الموڑا جانے والی سڑک مکتسر کی سڑک سے ملتی ہے۔ اس جگہ سے احتیاط ضروری تھی کہ یہ علاقہ آدم خور کی سرگرمی کا محور تھا۔ پہاڑی پر آڑی ترچھی چڑھنے سے قبل سڑک کچھ دور تک مسطح زمین سے گذرتی تھی۔ یہاں دونوں طرف مقامی پھول اگے ہوئے تھے جن کے سخت بیجوں کو لوگ مزل لوڈر بندوقوں میں بطور چھرے کے استعمال کرتے تھے۔چونکہ اس پہاڑی پر میں پہلی بار چڑھ رہا تھا اس لیے میں غاروں کو انتہائی دلچسپی سے دیکھ رہا تھا۔ چونکہ یہ غاریں ہوا نے بنائی تھیں اس لیے طوفان کے دوران ان سے کافی عجیب آوازیں آتی ہوں گی۔
جب سڑک پہاڑی کی چوٹی پر پہنچتی ہے تو وہاں چھوٹا سا مسطح قطعہ سا ہے جس کے دوسرے سرے پر مکتسر کا ڈاک خانہ اور چھوٹا سا بازار ہے۔ ابھی ڈاک خانہ نہیں کھلا تھا لیکن ایک دوکاندار نے مجھے ڈاک بنگلے کے بارے بتایا جو پہاڑی کے شمالی سرے پر نصف میل دور تھا۔ مکتسر میں دو ڈاک بنگلے تھے جن میں سے ایک سرکاری افسران کے لیے جبکہ دوسرا ہر ایک کے لیے بنایا گیا تھا۔ چونکہ مجھے اس با ت کا علم نہیں تھا اور اس دوکاندار نے مجھے سرکاری افسر سمجھا، اس نے غلط بنگلے کی طرف میری رہنمائی کی۔ بنگلے کے خانساماں نے میرے لیے ناشتہ تیار کیا اور میں نے ناشتہ کیا۔ ہم دونوں ہی سرکاری سرخ فیتے سے ناخوش تھے۔ بعد میں میں نے اس بات پر توجہ دی کہ میری غلطی کی وجہ سے خانساماں کو کوئی دقت نہ ہوئی ہو۔
جتنی دیر ناشتہ تیار ہوتا میں نے برفانی چوٹیوں کا مشاہدہ جاری رکھا۔ میں نے بارہ یورپیوں کی ایک جماعت دیکھی جو سرکاری رائفلیں اٹھائے ہوئے تھے۔ کچھ دیر بعد ان کا سارجنٹ دو بندوں کے ساتھ نشانے کی جھنڈیاں اٹھائے گذرا۔ سارجنٹ نے مجھے بتایا کہ وہ سارے چاند ماری کے لیے جا رہے تھے اور چونکہ آدم خور اس علاقے میں موجود تھا اس لیے وہ سارے اکٹھے ہو کر چل رہے تھے۔ سارجنٹ نے مجھے بتایا کہ تحقیقاتی ادارے کے سربراہ کو کل حکومت کی طرف سے تار ملا تھا جس میں اسے میری آمد کے بارے بتایا گیا تھا۔ سارجنٹ نے میری کامیابی کی امید ظاہر کی اور بتایا کہ صورتحال کافی خراب ہو چکی ہے۔ دن کے وقت بھی لوگ اکیلے سفر سے کتراتے ہیں اور رات کو دروازے مقفل کر دیئے جاتے ہیں۔ اس شیرنی کی ہلاکت کی کئی بار کوششیں کی گئی ہیں لیکن یہ شیرنی کبھی بھی واپس اپنے شکار پر نہیں لوٹی۔
ناشتے کے بعد میں نے خانساماں کو ہدایت کی کہ جب میرے ساتھی پہنچیں تو وہ انہیں بتائے کہ میں آدم خور کے بارے مزید معلومات لینے گیا ہوا ہوں اور میری واپسی کا کوئی پتہ نہیں۔ رائفل اٹھا کر میں ڈاک خانے چل دیا تاکہ اپنی والدہ کو بخیریت یہاں پہنچنے کی اطلاع دے سکوں۔
ڈاک خانے کے سامنے والی مسطح زمین اور بازار کے جنوبی کنارے پر مکتسر کی پہاڑی اچانک نیچی ہوتی ہے اور یہاں گھنی جھاڑیوں سے گھری ہوئی کھائیاں اور چھجے سے بنے ہوئے ہیں اور اکا دکا درخت بھی موجود تھے۔ میں پہاڑی کے سرے پر کھڑا تھا اور نیچے موجود وادی اور اس کے پار رام گڑھ کی پہاڑیاں صاف دکھائی دے رہے تھے۔ اتنی دیر میں پوسٹ ماسٹر اور کئی دوکاندار بھی پہنچ گئے۔ چونکہ پوسٹ ماسٹر نے کل والا حکومتی تار پڑھا تھا اور میرے آج والے تار کے دستخطوں سے اسے علم ہو گیا تھا کہ میں ہی وہی شکاری ہوں جو آدم خور کو مارنے کے لیے آیا ہوا ہے تو وہ اپنے دوستوں کے ہمراہ مجھے یہ بتانے آیا تھا کہ وہ میری ہر ممکن مدد کے لیے تیار ہیں۔ مجھے اس بات سے انتہائی خوشی ہوئی کیونکہ بازار آنے والے ہر بندے سے ان کا واسطہ پڑتا اور ہر بندہ آدم خور کے بارے ہی باتیں کرتا تھا، ان کے پاس لازماً معلومات ہوتیں جو میرے لیے انتہائی اہم ثابت ہو سکتی تھیں۔ دیہاتوں میں بنیے کی دکان اور ڈاک خانے کلب وغیرہ کا کام دیتے ہیں۔
پہاڑی کے سرے پر ہمارے بائیں جانب سامنے دو میل دور اور 2000 فٹ نیچے ایک آبادی تھی۔ یہ آبادی بدری شاہ کےسیبوں کا باغ تھا۔ بدری میرے ایک پرانے دوست کا بیٹا تھا اور کئی ماہ قبل نینی تال آیا تھا اور مجھے اس نے پیش کش کی تھی میں اس کے مہمان خانے میں آ کر رکوں اور آدم خور کی ہلاکت کے سلسلے میں وہ میری ہر ممکن مدد کے لیے تیار ہے۔جیسا کہ میں نے پہلے وجہ بتائی تھی، اس کی پیش کش کو میں نے قبول نہیں کیا تھا۔ تاہم اب چونکہ میں مکتسر اسی کام کے سلسلے میں ہی آیا تھا اس لیے اب اس کی پیش کش قبول کرنے میں کوئی حرج نہیں تھا۔ آدم خور کی آخری وارادات بدری کے باغ کے نیچے والی وادی میں ہوئی تھی۔
اپنے گرد موجود ہر بندے کا شکریہ ادا کرنے کے بعد میں نے انہیں بتایا کہ مزید معلومات مجھے ان سے ہی مل سکتی ہیں۔ اس کے بعد میں دھری والی سڑک پر چل پڑا۔ ابھی دن شروع ہو رہا تھا اور بدری سے ملنے سے قبل میں چاہتا تھا کہ پہاڑی پر مشرق میں واقع چند دیہاتوں کا چکر لگا لوں۔چونکہ یہاں سنگ میل نہیں تھے اس لیے اندازاً چھ میل کا سفر کرنے اور دو دیہاتوں کا چکر لگانے کے بعد میں نے واپسی کی ٹھانی۔ ابھی میں تین میل ہی واپس لوٹا ہوں گا کہ میری ملاقات سڑک پر موجود ایک بچی سے ہوئی جو بیل کو لے جا رہی تھی۔ بچی کی عمر آٹھ سال رہی ہوگی اور وہ بیل کو مکتسر کی جانب لے جا رہی تھی جبکہ بیل مخالف سمت جانا چاہتا تھا۔ جب میں ان کے پاس پہنچا تو اس وقت تک دونوں ہی ایک دوسرے کے مخالف سمت جانے کو تیار تھے۔ بیل کافی بوڑھا تھا اور اب آگے آگے لڑکی بیل کی رسی پکڑے چل پڑی اور میں پیچھے سے بیل کو ہنکار رہا تھا۔ کچھ فاصلہ چلنے کے بعد میں نے کہا۔
‘ہم کلوا چوری تو نہیں کر رہے’؟ میں نے بچی سے بیل کو کلوا کہتے سنا تھا۔
اس نے جواب دیا۔ ‘نہیں تو۔’
‘پھر یہ بیل کس کا ہے؟’ میں نے پوچھا۔
‘میرے والد کا’۔اس نے جواب دیا۔
‘اور ہم اسے کہاں لے جا رہے ہیں؟’
‘میرے چچا کی طرف۔’
‘لیکن چچا کو کلوا کی ضرورت کیوں آ پڑی؟’
‘تاکہ کھیتوں میں ہل چلا سکے۔’
‘لیکن کلوا اکیلے تو کھیتوں میں ہل چلانے سے رہا؟’
‘بالکل نہیں۔’ اس نے جواب دیا۔ ظاہرہے کہ میرا سوال احمقانہ تھا لیکن ایک ‘صاحب’ کو ان سب باتوں کا کیسے علم ہو سکتا تھا۔
‘کیا چچا کے پاس صرف ایک بیل ہے؟’ میں نے پوچھا۔
‘ہاں۔ اس کے پاس ایک ہی بیل باقی رہ گیا ہے۔ لیکن اس کے پاس دو بیل تھے۔’ اس نے جواب دیا۔
‘دو بیل؟ پھر دوسرا بیل کیا ہوا؟ میں نے پوچھا۔ میرا خیال تھا کہ دوسرا بیل کسی قرض کی ادائیگی کے لیے بیچ دیا گیا ہوگا۔
‘اسے شیر نے کل مار دیا تھا۔’ اس نے بتایا۔ یہ وہ خبر تھی جس کا مجھے انتظار تھا۔ جتنی دیر میں اسے ہضم کرتا، ہم خاموشی سے چلتے رہے۔بچی بار بارمڑ کر مجھے دیکھتی رہی اور جب اسے حوصلہ ہوا تو اس نے پوچھا۔
‘کیا آپ شیر کو مارنے آئے ہیں؟’
‘ہاں، میں اسے مارنے کی کوشش کرنے آیا ہوں۔’
‘تو پھر آپ غلط سمت کیوں جا رہے ہیں؟’
‘تاکہ ہم کلو کو چچا تک پہنچا سکیں۔’ میرا جواب شاید تسلی بخش تھا۔ ہم نے سفر جاری رکھا۔ چونکہ یہ معلومات ادھوری تھیں اس لیے میں نے پھر پوچھا۔
‘کیا تمھیں علم نہیں کہ شیر آدم خور ہے؟’
‘ہاں مجھے علم ہے۔ اس نے کنٹھی کے باپ کو اور بنشی سنگھ کی ماں کے علاوہ دیگر بہت سارے لوگ کھا لیے ہیں۔’
‘پھر تمہارے باپ نے تمہیں اکیلے کیوں بھیجا ہے؟’
‘اسے بھابری بخار (ملیریا) ہے۔’
‘تمہارا کوئی بھائی نہیں؟’
‘نہیں۔ ایک بھائی تھا جو بہت عرصہ قبل مر گیا۔’
‘ماں؟’
‘ہاں ماں تو ہے لیکن وہ کھانا پکا رہی ہے۔’
‘بہن؟’
‘نہیں میری کوئی بہن نہیں۔’ یہ بہادر بچی اپنے باپ کا بیل اپنے چچا کو پہنچانے جا رہی تھی۔ اس سڑک پر لوگ محض جماعت کی صورت میں ہی چلنے کو محفوظ سمجھتے تھے اور گذشتہ چار گھنٹوں کے دوران میں نے ایک بھی انسان اس سڑک پر نہیں دیکھا تھا۔
ہم سیدھا اسی راستے پر چلتے رہے۔ پھر ہم اس کے دوسرے سرے پر ایک کھیت تک پہنچے جس کے پیچھے ایک کچا مکان تھا۔ جب ہم وہاں پہنچے تو بچی نے اپنے چچا کو آواز دی اور بتایا کہ وہ بیل لے آئی ہے۔
‘اچھا۔ اب تم ایسا کرو کہ کلوا کو باندھ دو پتلی اور گھر چلی جاؤ۔ میں کھانا کھا رہا ہوں۔’ ہم نے بیل کو باندھا اور واپس چل پڑے۔ چونکہ اب کلوا ساتھ نہیں تھا اس لیے وہ شرمائی ہوئی تھی۔ اس لیے میں آگے چلتے ہوئے اس کی رفتار سے اپنی رفتار ملاتا رہا۔ کچھ دیر تک خاموشی سے چلنے کے بعد میں نے پھر پوچھا۔
‘میں اس شیر کو مارنا چاہتا ہوں جس نے چچا کے بیل کو ہلاک کیا ہے۔ لیکن مجھے اس بیل کی لاش کی جگہ کا علم نہیں۔ کیا تم مجھے وہ جگہ دکھاؤ گی؟’
‘ہاں۔ ضرور۔’ اس نے فورا’ کہا۔
‘تم نے لاش دیکھی ہے؟’ میں نے پوچھا۔
‘نہیں۔ میں نے تو نہیں دیکھا لیکن چچا نے میرے والد کو بتایا تھا کہ وہ کہاں پڑی ہے۔’ اس نے کہا۔
‘کیا وہ جگہ سڑک کے پاس ہی ہے؟’
‘پتہ نہیں۔’
‘کیا بیل اکیلا تھا جب شیر نے حملہ کیا؟’
‘نہیں تو۔ گاؤں کے دیگر مویشی بھی ساتھ ہی تھے۔’
‘شیر نے صبح کے وقت حملہ کیا کہ شام کے وقت؟’
‘شیر نے صبح کے وقت حملہ کیا تھا جب گایوں کے ساتھ وہ چرنے جا رہا تھا۔’
جتنی دیر میں اس بچی سے باتیں کرتا رہا، میں نے چاروں طرف پوری توجہ سے آنکھیں کھلی رکھیں۔اس جگہ سڑک کے بائیں جانب گھنا جنگل اور دائیں جانب گھنی جھاڑیاں تھیں۔ اسی طرح چلتے ہوئے ہم ایک میل جتنا آگے گئے جہاں مویشیوں کی ایک پگڈنڈی دائیں جانب مڑ کر جنگل میں چلی گئی تھی۔ یہاں بچی رکی اور اس نے کہا کہ اس کے چچا کے مطابق اسی راستے پر شیر نے بیل کو مارا تھا۔ چونکہ اب اس بیل کی لاش کو تلاش کرنے کے لیے ہر ممکن ضروری معلومات میرے پاس تھیں، بچی کو بحفاظت گھر گھستے دیکھ کر میں وہاں سے مویشیوں والی پگڈنڈی کو چل پڑا۔ یہ راستہ وادی سے ہو کر گذرتا تھا اور ابھی میں چوتھائی میل جتنا گیا ہوں گا کہ اس جگہ پہنچا جہاں مویشیوں میں بھگڈر مچی تھی۔ راستہ چھوڑ کر اب میں جنگل میں گھسا راستے سے پچاس گز نیچے اور متوازی سمت چل پڑا۔ تھوڑا دور ہی گیا ہوں گا کہ مجھے گھسیٹنے کے نشانات دکھائی دیئے۔یہ نشانات سیدھے وادی میں اترے اورچند سو گز تک ان کا پیچھا کرتے ہوئے میں بیل کی لاش تک جا پہنچا۔اس بیل کے پچھلے حصے سے تھوڑا سا ہی گوشت کھایا گیا تھا۔ یہ بیل بیس فٹ اونچے کنارے کے نیچے تھا اور کھائی کا سرا یہاں سے چالیس فٹ دور تھا۔ لاش اور کھائی کے سرے کے درمیان ایک ٹنڈ منڈ سا درخت تھا جس کے نیچے جنگلی گلاب کی بیل اگی ہوئی تھی۔ شکار سے مناسب فاصلے تک یہ واحد درخت تھا جہاں بیٹھ کر میں شیرنی کے شکار کا سوچ سکتا۔ راتیں اندھیری تھیں اور اگر شیرنی اندھیرا ہونے کے بعد آتی جیسا کہ مجھے یقین تھا تو لاش سے میں جتنا قریب ہوتا اتنا ہی بہتر تھا۔
ابھی دو بج رہے تھے اور میرے پاس اتنا وقت تھا کہ بدری کے پاس جا کر چائے کا کپ پی سکتا۔ رام گڑھ سے چار بجے صبح کو نکلا تھا اور اب چائے کی اشد ضرورت محسوس ہو رہی تھی۔ بدری کے باغ کو جانے والا راستہ اس جگہ سے قریب تھا جہاں مویشیوں کی پگڈنڈی راستے سے ملتی تھی اور آگے چل کر ڈھلوان پہاڑی پر ایک میل جتنا گھنے جنگل سے گذرتی تھی۔ جب میں وہاں پہنچا تو بدری اپنے مہمان خانے میں ہی موجود تھا جو باغ کے پاس ہی ہے۔ جتنی دیر ہم برآمدے میں بیٹھےاور چائے کا انتظار کر رہے تھے کہ میں نے اسے بتایا کہ میں مکتسر کس مقصد کے لیے آیا ہوں۔ اسے میں نے بیل کی لاش کے بارے بھی بتایا جو اس بچی کی مدد سے میں نے تلاش کیا تھا۔ جب میں نے بدری سے پوچھا کہ اس شکار کے بارے مکتسر کے شکاریوں کو کیوں نہیں آگاہ کیا گیا تو اس نے جواب دیا کہ بار بار کی ناکامیوں سے دیہاتیوں کا شکاریوں پر سے اعتبار اٹھ گیا ہے۔ بدری کے مطابق ان کی ناکامی کی وجہ ان کی ضرورت سے زیادہ تیاریاں تھیں۔ وہ لوگ پہلے لاش کے آس پاس کا سارا علاقہ جھاڑ جھنکار اور چھوٹے موٹے درختوں سے پاک کراتےاور پھر پھر بڑی مچانیں بناتے جن پر کئی کئی آدمی بیٹھتے۔ ظاہر ہے کہ انہی وجوہات پر شیرنی اپنے شکار کردہ جانور پر نہیں لوٹتی تھی۔ بدری کے مطابق مکتسر کے ضلع میں صرف ایک ہی شیر تھا جس کی اگلی دائیں ٹانگ کچھ لنگڑی سی تھی۔ تاہم اسے یہ علم نہیں تھا کہ آیا وہ شیر نر ہے یا مادہ۔
ہمارے ساتھ ہی برآمدے میں ایک آئیرڈیل ٹیرئیر بھی تھا۔ اچانک ہی اس کتے نے ایک طرف رخ کر کے غرانا شروع کر دیا۔ اس کی نظروں کا پیچھا کیا تو دیکھا کہ ایک بڑا لنگور سیب کے درخت کی شاخ تھامے زمین پر بیٹھا تھا اور کچے سیب کھا رہا تھا۔ برآمدے میں رکھی ہوئی بندوق اٹھا کر بدری نے چار نمبر کارتوس بھرا اور بندوق چلا دی۔ چھروں کے لیے یہ فاصلہ بہت زیادہ تھا اور اگر کوئی چھرہ لنگور کو لگ بھی جاتا تو اسے کچھ نہ ہوتا۔ لیکن دھماکے سے ڈر کر لنگور پہاڑی کی سمت بھاگا اور کتا اس کے پیچھے پیچھے لپکا۔ میں نے بدری سے کہا کہ کتے کو بلا لے کیونکہ مجھے معلوم تھا کہ کتا بہت مایوس ہوگا۔ اس نے کہا کہ کوئی بات نہیں یہ کتا ہر بار ہی اسی لنگور کا پیچھا کرتا ہے اور یہ لنگور درختوں کو بہت نقصان پہنچا رہا ہے۔ کتا لنگور کے قریب ہوتا جا رہا تھا اور ابھی وہ چند گز پیچھے ہوگا کہ اچانک لنگور مڑا اور کتے کو کانوں سے پکڑا اور سر کی ایک جانب سے گوشت کا بڑا سا ٹکڑا دانتوں سے کاٹ لیا۔ زخم کافی گہرا تھا اور جتنی دیر ہم اس زخم کی مرہم پٹی کرتے، گرم پوڑیاں اور چائے آ گئی۔
میں نے بدری کو بتایا کہ میں کس درخت پر بیٹھنے والا ہوں اور جب میں واپس لوٹا تو بدری اور اس کے دو ساتھی میری چھوٹی سی مچان کے لیے ضروری سامان اٹھائے ساتھ تھے۔ بدری اور اس کے ساتھی ایک سال سے زیادہ آدم خور کے علاقے میں رہ رہے تھے اور جب انہوں نے میرا مطلوبہ درخت دیکھا تو رائے دی کہ میں آج رات یہاں نہ بیٹھوں۔ شاید شیرنی بیل کو کسی دوسری جگہ لے جائے جہاں بیٹھنا نسبتاً آسان ہوگا۔ اگر شیرنی آدم خور نہ ہوتی تو میں ایسا ہی کرتا لیکن آدم خور شیر کے سلسلے میں میں کوئی بھی موقع نہیں گنوانا چاہتا تھا چاہے اس کے لیے مجھے تھوڑا بہت خطرہ بھی مول لینا پڑتا۔اس علاقے میں کئی ریچھ بھی تھے اور اگر کسی ریچھ کو لاش کی بو آ جاتی تو شیر پر گولی چلانے کے امکانات ختم ہو جاتے۔ پہاڑی ریچھ شیر کا بالکل لحاظ نہیں کرتے اور موقع ملتے ہی شیر کے شکار پر ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ درخت پر چڑھنا جب کہ اس کے تنے پر جنگلی گلاب کی بیل موجود ہو، آسان کام نہیں تھا۔ تاہم ہر ممکن طریقے سے خود کو آرام دہ حالت میں لا کر بدری سے میں نے رائفل پکڑی اور بدری اپنے ساتھیوں سمیت اگلی صبح واپس آنے کا کہہ کر چل دیا۔
میرا رخ پہاڑی کی جانب تھا اور کھائی میرے پیچھے تھی۔ سامنے سے آنے والے ہر جانور کو میں بخوبی دیکھ پاتا لیکن اگر شیر میرے عقب سےآتا جیسا کہ مجھے توقع تھی تو جب تک وہ لاش تک نہ پہنچتا، میں اسے نہ دیکھ سکتا۔بیل سفید رنگ کا تھا اور دائیں پہلو کے بل اس کی لاش پڑی تھی اور اس کی ٹانگیں میری جانب تھی۔ چار بجے میں نے اپنی نشست سنبھالی تھی اور ایک گھنٹے بعد وادی کے ایک سرے سے دو سو گز نیچے کاکڑ بولنے لگا۔ ظاہر ہے کہ شیر چل پڑا تھااور اسے دیکھتے ہوئے کاکڑ بول رہا تھا۔ کافی دیر تک کاکڑ بولتا رہا پھر اس کی آواز دور جانے لگی۔ حتٰی کہ آواز پہاڑی کی دوسری جانب جا کر غائب ہو گئی۔اس کا یہ مطلب تھا کہ شیر لاش سے اتنے قریب پہنچ کر لیٹ گیا جہاں سے وہ لاش کو دیکھ سکتا تھا۔ چونکہ بدری نے مجھے بتایا تھا کہ شیر کے شکار کردہ جانور پر بیٹھ کر کی جانے والی ناکام کوششوں کے سبب مجھے اس کی توقع تھی۔ مجھے علم تھا کہ شیر اب کہیں آس پاس ہی لیٹا ہوا سن گن لے رہا ہوگا اور آنکھیں کھلی رکھی ہوں گی تاکہ آنے سے قبل وہ اندازہ لگا سکے کہ کیا کوئی شکاری اس کی گھات میں تو نہیں بیٹھا؟ منٹوں پر منٹ گذرتے گئے اور میرے سامنے پہاڑی پر موجود مناظر دھندلے ہوتے ہوتے غائب ہو گئے۔ تاہم سفید لاش اب بھی کچھ نہ کچھ دکھائی دے رہی تھی کہ اچانک کھائی کے سرے پر ایک خشک ٹہنی چٹخی اور پھر دبے قدم کسی جانور کی آمد سنائی دی۔پھر یہ آواز عین میرے نیچے آ کر رک گئی۔ ایک یا دو منٹ تک خاموشی رہی اور پھر شیر درخت کے نیچے خشک پتوں پر لیٹ گیا۔
سورج غروب ہونے سے تھوڑا قبل آسمان پر بادل جمع ہونے شروع ہو گئے تھے اور اب ہر طرف بادلوں نے آسمان کو ڈھک لیا تھا۔ آخر کار جب شیر اٹھا اور لاش کی طرف گیا تو رات سیاہ تاریک تھی۔ پوری کوشش کے باوجود بھی مجھے نہ تو لاش اور نہ ہی شیردکھائی دے رہا تھا۔ لاش پر پہنچ کر شیر نے پھونکیں مارنا شروع کر دیں۔ ہمالیہ میں بالخصوص گرمیوں کے موسم میں شکار کردہ جانوروں پر بھڑ جمع ہو جاتے ہیں۔ یہ بھڑ عموماً سورج ڈوبتے ہی اڑ جاتے ہیں لیکن جن کا پیٹ بہت زیادہ بھرا ہوا ہو، وہ اڑ نہیں پاتے۔ شاید کسی تلخ تجربے کے پیش نظر شیر کھانا شروع کرنے سے قبل انہیں پھونک مار کر اڑا رہا تھا۔ چونکہ مجھے گولی چلانے کی کوئی عجلت نہیں تھی کیونکہ شیر چاہے جتنا بھی قریب کیوں نہ ہو، مجھے اس وقت تک نہ دیکھ پاتا جب تک میں کوئی حرکت نہ کرتا۔عام تاریک راتوں میں تاروں کی مدھم روشنی میں میں کافی حد تک دیکھ سکتا ہوں لیکن چونکہ بادلوں کی وجہ سے نہ تو ستارے تھے اور نہ ہی آسمانی بجلی چمک رہی تھی۔چونکہ شیر نے کھانا شروع کرنے سے قبل لاش کو اس کی جگہ سے نہیں ہٹایا تھا اس لیے مجھے بخوبی علم تھا کہ شیر میرے سامنے آڑی حالت میں لیٹا لاش کو کھا رہا ہے۔
چونکہ شیر کو ہلاک کرنے کی بہت ساری ناکام کوششیں ہو چکی تھیں اس لیے مجھے شک تھا کہ شیر اندھیرا ہونے سے قبل نہیں آئے گا۔ تاہم میرا خیال تھا کہ ستاروں کی مدھم روشنی میں میں لاش کا نشانہ لوں گا اور پھر رائفل کی نال کو ایک یا دو فٹ جتنا دائیں پھر کر گولی چلا دوں گا۔ اب چونکہ بادلوں کی وجہ سے گھپ اندھیرا تھا اور آنکھیں بے کار ہو کر رہ گئی تھیں تو میں نے سوچا کہ کیوں نہ اپنے کانوں کو استعمال کروں (اس وقت تک میری سماعت بہترین کام کر رہی تھی)؟ رائفل کو اٹھا کر میں نے کہنیاں اپنے گھٹنوں پر ٹکائیں اور شیر کے کھانے کی آواز پر میں نے بہت احتیاط سے نشانہ لیا۔ رائفل کو اسی حالت میں رکھ کر میں نے سر موڑ کر دائیں کان سے سنا۔ میرا نشانہ ذرا سا اوپر کی جانب تھا۔ رائفل کو رتی بھر نیچے کر کے میں نے پھر اپنا سر موڑا اور سننے کی کوشش کی۔ جب کئی بار اس طرح سننے کے بعد میں نشانے کی درستگی کے بارے مطمئن ہو گیا تو میں نے رائفل کو ذرا سا دائیں جانب موڑا اور لبلبی دبا دی۔ گولی چلتے ہی شیر نے دو چھلانگوں میں بیس فٹ اونچا کنارہ عبور کر لیا۔ اس کے بعد وہاں کچھ مسطح زمین تھی جہاں سے پہاڑی اچانک بلند ہونا شروع ہو جاتی ہے۔ اس مسطح جگہ تک میں نےشیر کی آوازیں سنیں اور اس کے بعد اچانک خاموشی چھا گئی۔ اس خاموشی کا یا تو یہ مطلب تھا کہ شیر اس جگہ تک پہنچتے ہی مر گیا یا پھر اسے گولی لگی ہی نہیں۔ رائفل کو کندھے سے ٹکائے میں تین یا چار منٹ تک پوری توجہ سے سننے کی کوشش کرتا رہا لیکن چونکہ مزید کوئی آواز نہ آئی تو میں نے رائفل کندھے سے ہٹا لی۔ فوراً ہی نالے کے کنارے سے شیر کی غراہٹ سنائی دی۔ یعنی شیر کو گولی نہیں لگی اور اب اس نے مجھے دیکھ بھی لیا تھا۔ میری نشست گاہ زمین سے دس فٹ بلند تھی اور چونکہ میں گلاب کی جھاڑیوں پر بیٹھا تھا جو میرے وزن سے دب کر جھک گئی تھیں۔ یعنی اب میں زمین سے بمشکل آٹھ فٹ اونچا تھا اور میرے پاؤں اس سے بھی نیچے تھے۔ تھوڑا سا اوپر اور دائیں جانب وہ شیر بیٹھا غرا رہا تھا جس کے بارے مجھے پورا یقین تھا کہ وہ آدم خور ہے۔
قریب موجود شیر جس نے آپ کو نہ دیکھا ہو، دن دیہاڑے بھی آپ کے اعصاب میں ہیجان پیدا کر دیتا ہے۔ تاہم جب شیر عام شیر نہ ہو بلکہ آدم خور ہو اور تاریک رات کے دس بجے ہوں اور آپ کو اچھی طرح علم ہو کہ شیر آپ کو دیکھ رہا ہے تو اعصابی ہیجان انتہا کو پہنچ جاتا ہے۔ میں ایک بار پھر اس بات پر زور دوں گا کہ شیر اپنی ضرورت سے زیادہ کبھی شکار نہیں کرتا اور یہ شیر جو مجھ پر غرا رہا تھا، کے سامنے دو یا تین دن کی خوراک موجود تھی اور اسے میری ہلاکت سے کوئی غرض نہیں تھی۔ تاہم اس موقع پر مجھے یہ خیال پریشان کر رہا تھا کہ شاید یہ شیر اس اصول کی خلاف ورزی کرے۔ کئی بار جب شیروں پر گولی چلائی جائے تو وہ کچھ دیر بعد شکار کردہ جانور پر لوٹ آتے ہیں۔ تاہم مجھے علم تھا کہ یہ شیر ایسا نہیں کرنے والا۔ مجھے علم تھا کہ میرے خدشات کے باوجود جب تک میرا توازن برقرار رہا، مجھے کوئی خطرہ نہیں۔ چونکہ میرے پاس کوئی شاخ وغیرہ نہیں تھی اور اگر میری آنکھ لگ جاتی تو میں نیچے گر جاتا۔ خیر، اب سگریٹ پینے میں کوئی حرج نہیں تھا۔ اس لیے میں نے سگریٹ کیس نکالا اور ماچس جلائی تو شیر کنارے سے ہٹ گیا۔ تاہم کچھ دیر بعد وہ پھر لوٹ آیا اور غرانے لگا۔ میں نے تین سگریٹ پیے اور شیر پھر بھی وہیں کا وہیں تھا۔ اچانک بارش شروع ہو گئی۔ پہلے چند موٹی موٹی بوندیں گریں اور پھر موسلا دھار بارش۔ رام گڑھ سے صبح نکلتے وقت میں نے ہلکے کپڑے پہنے تھے اور چند ہی منٹ میں اچھی طرح بھیگ گیا۔ میرے اوپر ایک پتا تک نہ تھا جو بارش کو روکتا۔ مجھے معلوم تھا کہ پہلی بوند گرتے ہی شیر کسی پناہ گاہ کی تلاش میں بھاگا ہوگا اور کسی درخت کے نیچے یا چٹان کی آڑ میں چھپ گیا ہوگا۔ رات کو گیارہ بجے بارش شروع ہوئی اور صبح چار بجے جا کر رکی۔ پھر اچانک ہوا چلنے لگی اور ٹھنڈ انتہائی بڑھ گئی۔ کافی عرصہ بعد جب مجھ پر گٹھیا کا ہلکاسا حملہ ہوا تو مجھے یہ رات اور اس جیسی کئی راتیں یاد آئیں۔ خدا کا شکر ہے کہ یہ ہلکا سا ہی حملہ تھا۔
بدری میرا اچھا دوست تھا اور سورج نکلتے ہی وہ اپنے ایک آدمی اور گرم چائے کی کیتلی کے ساتھ آن پہنچا۔ رائفل کو نیچے دے کر میں پھسلتے ہوئے اترا۔ دونوں نے مجھے پکڑا کیونکہ ساری رات ایک ہی جگہ بیٹھنے سے میری ٹانگیں اکڑ گئی تھیں۔ جتنی دیر میں زمین پر لیٹ کر چائے پیتا رہا، دونوں ساتھی میری ٹانگوں کی مالش کرتے رہے۔ جب میں کھڑا ہونے کے قابل ہوا تو بدری نے اس بندے کو روانہ کیا کہ وہ جا کر مہمان خانے میں آگ جلائے۔ چونکہ میں نے پہلے کبھی آواز پر گولی نہیں چلائی تھی اس لیے میں یہ دیکھ کر بہت خوش ہوا کہ میری چلائی ہوئی گولی شیر کے سر سے چند انچ دور لگی تھی۔ بلندی بالکل درست تھی لیکن میں نے رائفل کو پوری طرح دائیں طرف نہیں گھمایا تھا جس کے نتیجے میں گولی اس جگہ سے چھ انچ دور بیل کی لاش میں لگی جہاں شیر گوشت کھا رہا تھا۔
چائے اور نصف میل کے پیدل سفر نے ساری کسلمندی دور کر دی۔ جب ہم بدری کے مہمان خانے کی جانب روانہ ہوئے تو بھیگے کپڑے اور خالی پیٹ ہی مجھے تنگ کر رہے تھے۔ یہ راستہ سرخ مٹی سے گذرتا تھا جو بارش کی وجہ سے بہت پھسلوان ہو گئی تھی۔ اس مٹی پر تین نشانات تھے۔ بدری اور اس کے ساتھی کے آنے کے اور بدری کے اس ساتھی کے واپسی کے نشانات جو آگ جلانے گیا تھا۔ پچاس گز تک یہ تین ہی نشانات تھے۔ اور پھر راستے پر ایک موڑ کے بعد سے اچانک شیرنی کے نشانات دکھائی دینے لگے جو موڑ کے پیچھے دائیں جانب سے چھلانگ لگا کر راستے پر آئی اور اس آدمی کا تعاقب کرنے لگی۔ دونوں کے نشانات سے ظاہر ہو رہا تھا کہ وہ تیزی سے چلتے جا رہے تھے۔ چونکہ وہ بندہ ہم سے 20 منٹ پہلے روانہ ہوا تھا، اس لیے اگروہ اب تک باغیچے تک نہیں پہنچا تو اب اس کے لیے ہم کچھ بھی نہیں کر سکتے تھے۔ انہی سوچوں میں غلطاں ہم باغیچے تک اس جگہ پہنچے جہاں سے باغیچہ اور اس میں کام کرنے والے افراد صاف دکھائی دے رہے تھے۔ یہاں سے اس بندے کے نشانات سیدھے باغیچے کو جبکہ شیرنی کے نشانات راستے سے اتر کر دوسری جانب چلی گئی تھی۔جب اس بندے سے ہم نے شیرنی کی بابت پوچھا تو اسے شیرنی کے تعاقب کے بارے کچھ بھی علم نہیں تھا۔
بھڑکتی ہوئی آگ کے سامنے بیٹھ کر کپڑے سکھاتے ہوئے میں نے بدری سے اس جنگل کے بارے پوچھا جہاں شیرنی گئی تھی۔ بدری نے بتایا کہ جس راستے سے شیرنی گئے تھی وہ گہرے اور گھنے درختوں سے بھرے ہوئے نالے سے گذرتا ہے۔ یہ نالہ ایک بہت ڈھلوان پہاڑی تک جاتا ہے۔ میل بھر دور جا کر اسی نالے پر دائیں جانب سے ایک اور نالہ آن ملتا ہے۔ اسی سنگم پر ایک چھوٹی سی نہر گذرتی ہے اور ساتھ ہی کھلا میدان سا ہے اور یہاں سے دونوں نالے صاف دکھائی دیتے ہیں۔ بدری کا خیال تھا کہ جس نالے سے شیرنی گئی تھی، اسی نالے میں ہی وہ کہیں سو رہی ہوگی۔ چونکہ یہ نالہ شیرنی کے لیے بہترین جائے رہائش ہو سکتا تھا اس لیے ہم نے فیصلہ کیا کہ اگر کافی بندے اکٹھے ہو جائیں تو ہم اس نالے پر ہانکا کرا سکتے ہیں۔ بدری نے اپنے مالی گوند سنگھ کو بلایا اور اسے دوپہر تک کی مہلت دی۔ گوند سنگھ کا خیال تھا کہ دوپہر ہوتے ہوتے وہ کم از کم تیس بندے جمع کر لے گا۔ اس کے علاوہ وہ بدری کے لیے پانچ من مٹر بھی جمع کر لے گا۔ سیب کے باغ کے علاوہ بدری سبزیوں کے باغ کا بھی مالک تھا۔گذشتہ شام ہی بدری کو نینی تال سے تار ملا تھا کہ مٹروں کا بھاؤ اچانک بڑھ کر چار آنے فی پاؤنڈ ہو گیا ہے۔ بدری اس موقع سے فائدہ اٹھانے کے لیے بے چین تھا۔ گدھے پر لاد کر مٹر وہ راتوں رات نینی تال بھیج دیتا جو علی الصبح وہاں پہنچ جاتے۔
رائفل کو صاف کر کے اور باغ کا چکر لگا کر میں بدری کے ساتھ ناشتے میں شریک ہو گیا۔ دوپہر کو گوند سنگھ تیس آدمیوں کے ساتھ آ گیا۔
اپنی رائفل کو صاف کر کے میں نے باغ کے گرد چکر لگایا اور پھر ناشتے کے وقت بدری کے پاس پہنچا جس نے میری خاطر ناشتے کو ایک گھنٹہ ملتوی کر دیا تھا۔ دوپہر کو گوند 30 بندوں کے ساتھ پہنچا۔ چونکہ مٹر چننے والوں کی نگرانی بھی ضروری تھی اس لیے بدری نے وہیں رکنے کا فیصلہ کیا اور گوند سنگھ کو میرے ساتھ ہانکے کے لیے بھیج دیا۔ گوند سنگھ اور اس کے ساتھی سب مقامی تھے اور انہیں بخوبی علم تھا کہ وہ کس خطرناک کام کے لیے جا رہے ہیں۔ خیر میں نے انہیں اچھی طرح سمجھا دیا کہ میں ان سے کیا چاہتا ہوں تو انہوں نے اپنی رضامندی ظاہر کی کہ وہ میری ہدایات کے عین مطابق عمل کریں گے۔ میری روانگی کے ایک گھنٹے بعد بدری نے ہانکا شروع کرانا تھا تاکہ میں کھائی میں جا کر شیرنی کو تلاش کر سکوں اوراگر میں ناکام رہا تو ندی کے کنارے کسی اونچی جگہ چھپ کر بیٹھ جاؤں گا۔ گوند کے ذمے ان افراد کو دو گروہوں میں بانٹ کر خود ایک گروہ کی سربراہی اور دوسرے کی سربراہی کسی ذمہ دار بندے کو دینا تھے۔ ایک گھنٹے بعد بدری ہوائی فائر کر کے ان دونوں گروہوں کو روانہ کرتا اور یہ لوگ کھائی کے دونوں کناروں پر شور مچاتے اور پتھر لڑھکاتے ہوئے آگے بڑھتے آتے۔ بظاہر یہ ہانکا انتہائی آسان تھا لیکن میرے بھی کچھ تحفظات تھے کیونکہ میں نے اس سے کہیں بہتر طور پر منظم کیے گئے ہانکے خراب ہوتے دیکھے ہیں۔
جس راستے سے میں صبح آیا تھا، پر واپس لوٹ کر میں نے شیرنی کے پگوں کا پیچھا شروع کیا۔ تاہم تھوڑی دور جا کر یہ نشانات بہت وسیع اور گھنی جھاڑیوں کے قطعے میں گم ہو گئے۔ چند سو گز تک انتہائی دشواری سے راستے بناتے ہوئے میں چلتا رہا۔ راستے میں نے جگہ جگہ گہرے نالے اور کھائیاں دیکھیں۔ کنارے پر اس جگہ پہنچ کر کہ جہاں مطلوبہ کھائی سامنے سے گذرتی، میں نے دیکھا کہ دائیں اور بائیں سے آنے والی دو کھائیاں مل رہی تھیں اور اسی جگہ ندی بہہ رہی تھی۔ ابھی میں اسی شش و پنج میں کھڑا تھا کہ وہ کھلا قطعہ کہاں ہوگا جہاں میں نے چھپ کر شیرنی کا انتظار کرنا تھا کہ میری توجہ مکھیوں کی بھنبھناہٹ کی جانب مبذول ہو گئی۔ ان کا پیچھا کرتے ہوئے میں نے ہفتے قبل ماری گئی گائے کی باقیات دیکھیں۔ گائے کے گلے پر موجود دانتوں کے نشانات ظاہر کر رہے تھے کہ یہ کام شیر کا ہے۔ شانوں، گردن اور سر کے کچھ حصوں کے علاوہ شیر نے پوری گائے کھا لی تھی۔بغیر کسی معقول وجہ کے میں نے گائے کی لاش کو کھینچ کر کھائی میں لڑھکا دیا جو عمودی ڈھلوان سے سیدھا نیچے گری۔ تقریباً سو گز نیچے جا کر لاش ندی سے ذرا پہلے ایک ابھار پر رک گئی۔ بائیں جانب گھوم کر میں نے ایک کھلا قطعہ دیکھا جو اس کھائی سے 300 گز دور تھا۔ اس جگہ زمین میری توقع سے کہیں مختلف تھی۔ یہاں کوئی جگہ ایسی نہیں تھی جہاں کھڑے ہو کر میں ہانکے کا اور ہانکے کے نتیجے میں نکلنے والی شیرنی کا سامنا کر سکتا۔ تاہم چونکہ بدری کا ہوائی فائر میں سن چکا تھا اس لیے مجھے علم ہو گیا تھا کہ ہانکا شروع ہو چکا ہے اور اب کچھ نہیں ہو سکتا۔ پھر کافی فاصلے سے میں نے ان لوگوں کی آوازیں سنیں۔ کچھ دیر تک تو ایسے محسوس ہوا کہ ہانکے والے سیدھے میری جانب آ رہے ہیں لیکن پھر اچانک ان کی آوازیں مدہم ہوتے ہوتے غائب ہو گئیں۔ گھنٹے بھر بعد پھر سے آوازیں سنائی دینے لگیں۔ اس بار وہ میرے دائیں جانب سے آ رہے تھے۔ جب وہ میرے سامنے پہنچے تو میں نے چلا کر انہیں ہانکا روکنے اوراپنے پاس آنے کا کہا۔ ہانکے کی ناکامی کسی غلطی کا نتیجہ نہیں تھی۔ اتنےو سیع اور گھنے علاقے میں بغیر کسی تیاری اور معلومات کے چند ناتجربہ کار افراد کے ذریعے جو ہانکا ہوا تھا اس کے لیے کئی سو تجربہ کار افراد بھی ناکافی رہتے۔
گھنے جنگل سے گذرنے میں ان لوگوں کو بہت دقت ہوئی تھی۔ جتنی دیر بیٹھ کر وہ میری دی ہوئی سگریٹیں پیتے اور پیروں سے کانٹے نکالتے، گوند اور میں آمنے سامنے کھڑے ہو کر اگلے دن اسی طرح کے ایک اور ہانکے کا منصوبہ بنانے لگے۔ میری خواہش تھی کہ اس ہانکے میں مکتسر اور آس پاس کے دیہاتوں کے تمام افراد شامل ہوں۔ اچانک فقرہ ادھور اچھوڑ کر گوند چپ ہو گیا۔ اس کے چہرے کے تائثرات اورسکڑی ہوئی آنکھیں دیکھ کر مجھے پتہ چل گیا کہ میرے عقب میں اسے کچھ عجیب دکھائی دیا ہے۔ جب میں مڑا تو دیکھا کہ دور سے ایک ویران کھیت میں آرام سے چلتی ہوئی شیرنی دکھائی دی۔ ہم سے سو گز دور اس وقت شیرنی ندی کی دوسری جانب تھی اور اس کا رخ سیدھا ہماری جانب تھا۔
جب جنگل میں، انسانی آبادی سے بہت دور بھی اگر شیر آپ کی جانب آ رہا ہو تو آپ کے ذہن میں بےشمار خیالات آتے ہیں کہ کہیں کچھ ایسا نہ ہو جائے کہ شکار یا تصویر لینے کی کوشش ناکام ہو جائے۔ ایک بار میں ایک پہاڑی کے کنارے بیٹھا شیر کا منتظر تھا۔ میرے سامنے جنگل کی پگڈنڈی تھی جو جنگل میں ایک بہت پرانے مندر کو جاتی تھی۔ اسے برم کا تھان کہتے تھے۔ برم جنگل کا دیوتا مانا جاتا ہے جو انسانوں کو جنگلی جانوروں سے بچاتا ہے اور اس کے فرائض میں یہ بھی شامل ہے کہ اس کے زیر نگرانی علاقے میں جنگلی جانوروں کا شکار بھی نہ ہو۔
یہ جنگل جس کے عین وسط میں یہ مندر واقع ہے، آس پاس کے چور شکاریوں اور پورے ہندوستان کے شکاریوں کی بہترین شکارگاہ ہے۔ تاہم میری ساری زندگی میں میں نے ایک بار اس مندر کے آس پاس کسی جانور کا شکار ہوتے دیکھا ہو یا سنا ہو۔ اسی وجہ سے جب میں اس شیر کے شکار کی نیت سے نکلا تو میں نے اس مندر سے ایک میل دور اپنے بیٹھنے کی جگہ چنی۔ شام چار بچے ایک جھاڑی کے پیچھے بیٹھا ہوا تھا کہ گھنٹے بھر بعد اسی جانب سے سانبھر کی آواز سنائی دی جہاں سے مجھے شیر کی آمد کی توقع تھی۔ تھوڑی دیر بعد اس سے کچھ کم فاصلے سے کاکڑ کے بھونکنے کی آواز آئی۔ شیر اسی راستے پر چلتا ہوا آ رہا تھا جس پر میں اس کا منتظر تھا۔ اس جگہ جنگل اتنا گھنا نہیں تھا اور زیادہ تر جامن کے نوجوان درخت اگے ہوئے تھے جن کے تنے تین فٹ موٹائی کے رہے ہوں گے۔ دو سو گز دور آتے ہوئے ایک بڑے نر شیر پر میری نظر پڑی۔ آہستگی سے چلتا ہوا شیر جب ایک سو گز دور رہ گیا تو اچانک مجھے پتوں کی سرسراہٹ سنائی دی۔ جب میں نے سر اٹھایا تو دیکھا کہ جامن کا درخت جس کی شاخیں دوسرے درخت سے گھتی ہوئی تھیں، نے جھکنا شروع کر دیا۔ آہستہ آہستہ جھکتے ہئوئے یہ درخت کچھ دیر بعد اسی جسامت کے دوسرے جامن کے درخت سے لگ کر رک گیا۔ تھوڑی دیر دوسرا درخت پہلے درخت کا بوجھ سہارے رہا پھر دوسرا درخت بھی جھکنے لگا۔ جھکتے جھکتے یہ دونوں درخت نسبتاً کم موٹے جامن کے درخت پر جا کر ٹھہر گئے۔ ایک یا دو لمحے بعد تینوں درخت دھماکے سے زمین پر گرے۔ یہ درخت مجھ سے چند گز دور تھے اور جتنی دیر میں انہیں دیکھتا رہا، میں شیر سے بھی غافل نہیں رہا۔ پہلے درخت کے ہلنے کی آواز سنتے ہی شیر اپنی جگہ رک گیا تھا اور جب یہ درخت گرے تو شیر بغیر گھبرائے مڑا اور واپس اسی طرف چل دیا جہاں سے آ رہا تھا۔ میرے مشاہدے کی کیا وجہ ہو سکتی ہے میں نہیں جانتا۔ تینوں درخت کم عمر اور خوب مضبوط تھے اور نہ ہی بارش ہوئی تھی کہ ان کی جڑیں کمزور ہو جاتیں اور نہ ہی ہوا چل رہی تھی۔ اس کے علاوہ یہ درخت مندر کو جانے والے راستے پر آڑے گرے جہاں ستر گز مزید بڑھنے پر میں شیر پر گولی چلا دیتا۔
گولی چلانے کے امکانات اس وقت مزید کم ہو جاتے ہیں جب آپ شکار کی تلاش میں آباد علاقے میں موجود ہوں جہاں لوگوں کے گروہ ایک گاؤں سے دوسرے گاؤں یا پھر بازاروں کو آتے جاتے رہتے ہوں یا سیبوں کے باغ کا رکھوالا اپنی بندوق سے کارتوس چلا کر لنگوروں کو بھگاتے ہوں۔ شیرنی کو ابھی تین سو گز مزید چلتے ہوئے ندی تک پہنچنا تھا جس میں سے دو سو گز تک جھاڑی یا درخت کی کوئی آڑ نہیں تھی۔ شیرنی تھوڑا سا ترچھی آ رہی تھی اور اگر ہم میں سے کوئی بھی حرکت کرتا تو شیرنی اسے فوراً دیکھ لیتی۔ اس لیے ہم اپنی جگہ ساکت رکے شیرنی کو چلتا دیکھتے رہے۔ میں نے کسی بھی شیر کو اس سے زیادہ آہستگی سے چلتے نہیں دیکھا۔ مکتسر کے لوگوں نے مجھے بتایا تھا کہ شیرنی لنگڑی ہے لیکن مجھے شیرنی کا لنگ نہیں دکھائی دیا۔ میرے ذہن میں یہ تھا کہ جب تک شیرنی گھنے جنگل تک نہیں پہنچتی، میں بے حس و حرکت رہوں۔ پھر بھاگ کر میں ندی تک پہنچوں اور جب شیرنی اسے عبور کرنے والی ہو یا کر چکی ہو تو اس پر گولی چلاؤں۔ اگر ہمارے اور شیرنی کے درمیان مناسب آڑ ہوتی تو میں آگے بڑھ کر اسی کھلے میدان میں شیرنی پر گولی چلاتا اور اگر یہ ممکن نہ ہوتا تو پھر ندی عبور کرتے وقت اس پر گولی چلاتا۔ چونکہ ابھی میرے سامنے کوئی آڑ نہیں تھی اس لیے میں اس وقت تک رکا رہا جب تک شیرنی کھلے میدان اور ندی کے درمیان واقع جھاڑیوں میں نہ گھسی۔ جونہی شیرنی نظروں سے اوجھل ہوئی تو میں دوڑ پڑا۔ پہاڑی کافی ڈھلوان تھی اور جب میں موڑ پر پہنچا تو دیکھا کہ جنگلی گلاب کی ایک جھاڑی اگی ہوئی تھی جو راستے پر سے ہوتی ہوئی کئی گز نیچے تک چلی گئی تھی۔ اس جھاڑی کے درمیان سے ایک سرنگ سی بنی ہوئی تھی۔ جب میں نیچے جھک کر اس سرنگ سے گذرنے لگا تو میرا ہیٹ گر گیا۔ جب دوسرے سرے کے قریب پہنچ کر میں نے سر اٹھایا تو گلاب کے کانٹے میرے ننگے سر میں چبھ گئے۔ ان میں سے کچھ کانٹے میری بہن میگی نے میری واپسی پر بمشکل نکالے۔ میرے چہرے پر خون کی ہلکی ہلکی لکیریں بہنے لگیں۔ یہاں میں اس جگہ پہنچا جہاں میں نے اوپر سے گائے کا ڈھانچہ نیچے پھینکا تھا۔ یہ جگہ 40 گز لمبی اور 30 گز چوڑی تھی۔ اس کے اوپری سرے پر لاش موجود تھی اور اس کے اوپر والی پہاڑی پر گھنی جھاڑیاں اگی ہوئی تھیں۔ تاہم میری جانب والا نچلا حصہ جھاڑیوں سے پاک تھا۔ جب میں کنارے پر پہنچا اور اوپر اٹھ کر دوسری جانب دیکھا تو ہڈی چٹخنے کی آواز سنائی دی۔ مجھ سے قبل شیرنی یہاں پہنچ گئی تھی اور پرانے شکار کو دیکھ کر اس نے سوچا کہ اپنا پیٹ بھر لے۔
لاش پر بہت کم گوشت تھا اور اگر شیرنی اسے چھوڑ کر کھلے میدان کی طرف آئے تو میں آسانی سے اس پر گولی چلا سکتا ہوں لیکن اگر شیرنی پہاڑی پر چڑھی یا دوسرے کنارے کو چلی گئی تو مجھے دکھائی نہیں دے گی۔ ان گھنی جھاڑیوں میں جہاں سے میں شیرنی کی آواز سن رہا تھا، سے ایک پتلا سا راستہ میری موجودہ جگہ سے ایک گز دور سے گذرتا تھا۔ اس جگہ راستے سے ایک گز دور سے کم از کم 50 فٹ گہری کھائی تھی۔ ابھی میں یہ سوچ ہی رہا تھا کہ کیسے شیرنی کے اوپر پہاڑی پر پتھر پھینک کر اسے اس کھلے قطعے کی طرف لاؤں کہ میں نے اپنے پیچھے آہٹ سنی۔ مڑا تو دیکھا کہ گوند سنگھ میرا ہیٹ لیے کھڑا تھا۔ ان دنوں ہندوستان میں کوئی یورپی ہیٹ کے بغیر نہیں باہر نکلتا تھا اور جب گوند سنگھ نے میرا ہیٹ گرتے دیکھا تو فوراً اسے اٹھا کر میرے پاس لایا۔ ہمارے پاس ہی پہاڑی میں ایک غار نما گڑھا تھا۔ ہونٹوں پر انگلی رکھ کر میں نے گوند سنگھ کو بازو سے پکڑا اور اسے اس گڑھے میں بٹھا دیا۔ جب وہ بیٹھا تو اس کے گھٹنے اس کی تھوڑی کو لگ رہے تھے اور میرا ہیٹ دبائے وہ بمشکل اس گڑھے میں پورا آیا۔ مجھے اس پر بڑا ترس آیا کہ اس سے چند گز دور شیرنی گائے کی ہڈیاں چچوڑ رہی تھی۔ سیدھا کھڑا ہو کر میں دوبارہ اپنی جگہ پہنچا ہی تھا کہ شیرنی کی آواز بند ہوگئی۔ شاید اسے گائے کا گوشت پسند نہیں آیا ہوگا۔ کچھ دیر تک بالکل خاموشی رہی اور پھر اچانک میں نے شیرنی کو دیکھا۔ شیرنی دوسرے کنارے پر چڑھی اور اب پہاڑی کی طرف جا رہی تھی۔ اس جگہ پاپلر کے پودے اگے ہوئے تھے جن کے تنے بمشکل 6 انچ موٹے ہوں گے جن کے درمیان سے مجھے شیرنی کا خاکہ سا دکھائی دے رہا تھا۔ اس توقع پر کہ شاید گولی پاپلر سے بچتی ہوئی شیرنی کو جا لگے، میں نے رائفل اٹھا کر گولی چلا دی۔ گولی چلتے ہی شیرنی مڑی اور انتہائی تیزی سے بھاگتے ہوئے وہ کنارے پر پہنچی اور میری جانب آئی۔ اس وقت مجھے علم نہیں تھا کہ میری گولی اس کے سر کے پاس ایک تنے میں لگی تھی اور یہ کہ شیرنی کانی تھی۔ بظاہر انتہائی غصے سے بھاگتی ہوئی شیرنی درحقیقت محض انتہائی خوفزدہ جانور تھی جسے اس جگہ یہ علم نہیں ہو سکا تھا کہ یہ دھماکہ کہاں ہوا ہے۔ خیر میں یہ سمجھا کہ شیرنی انتہائی غصے سے میری جانب آ رہی ہے۔ جب شیرنی مجھ سے دو گز دور تھی تو میں نے آگے جھک کر اس کی گردن اور شانے کے جوڑ میں انتہائی خوش قسمتی سے گولی اتار دی۔ اعشاریہ 500 کی بھاری گولی کے دھکے سے شیرنی سیدھی 50 فٹ گہری کھائی میں جا گری۔ اگر میری گولی خطا جاتی تو شیرنی سیدھا میرے بائیں شانے سے آ ٹکراتی۔ ایک قدم بڑھا کر میں نے نیچے جھانکا تو دیکھا کہ شیرنی پانی کے چھوٹے سے تالاب میں گری ہوئی تھی۔ اس کے پیر ہوا میں تھے اور تالاب کا پانی اس کے خون سے سرخ ہونے لگا تھا۔
گوند ابھی تک اسی جگہ بیٹھا تھا۔ میرا اشارہ پاتے ہی وہ باہر نکلا اور شیرنی کو دیکھتے ہی اس نے مڑ کر زور سے چیخ کر اپنے ساتھیوں کو بتایا کہ ‘شیر مارا گیا۔ شیر مارا گیا’۔ تیس کے تیس آدمی شور مچانے لگے۔ بدری نے جب یہ آوازیں سنیں تو اس نے اپنی بندوق سے دس کارتوس چلا دیئے۔ ان کی آواز مکتسر اور آس پاس موجود تمام دیہاتوں کے افراد نے سنی اور ہر طرف سے لوگ ادھر آنے لگے۔ لوگوں نے خوشی خوشی شیرین کو تالاب سے نکالا اور ایک درخت کے تنے سے باندھ کر بدری کے باغ تک لائے۔ یہاں بھوسے کے ڈھیر پر شیرنی کو لوگوں کے سامنے رکھ دیا گیا۔ اتنی دیر میں میں بدری کے مہمان خانے میں جا کر چائے پینے لگا۔ ایک گھنٹے بعد لالٹینوں کی روشنی اور لوگوں کے ہجوم میں کہ جن میں مکتسر کے کئی شکاری بھی شامل تھے، بیٹھ کر میں نے شیرنی کی کھال اتاری۔ اس وقت مجھے پہلی بار پتہ چلا کہ شیرنی کی محض ایک آنکھ تھی اور اس کے جسم میں 50 کے قریب سیہی کے کانٹے پیوست تھے۔ یہ کانٹے ایک سے لے کر 9 انچ تک لمبے تھے اور اس کے دائیں پیر سے لے کر دائیں شانے تک پیوست تھے۔ دس بجے کھال اتارنے کا کام پورا ہوا۔ شب بسری کے لیے بدری کی درخواست کو نرمی سے رد کر کے میں اس کے ساتھ مکتسر کی چڑھائی چڑھا۔ ہمارے ساتھ وہ لوگ بھی تھے جو مکتسر سے آئے تھے اور میرے دو ساتھی بھی جنہوں نے شیرنی کی کھال اٹھائی ہوئی تھی۔ ڈاک خانے کے ساتھ کھلی جگہ پر میں نے شیرنی کی کھال بچھا دی تاکہ پوسٹ ماسٹر اور اس کے احباب اسے دیکھ سکیں۔ نصب شب کو میں عوامی ڈاک بنگلے میں چند گھنٹے کی نیند لینے کے لیے لیٹا۔ چار گھنٹے بعد ہم پھر روانہ ہو گئے تھے اور 72 گھنٹوں کی غیر حاضری کے بعد میں اپنے گھر نینی تال پہنچ گیا۔
آدم خور کے شکار کے بعد ایک عجیب سی تسکین ملتی ہے۔ ایسی تسکین جیسے کوئی انتہائی ضروری کام پورا ہو گیا ہو۔ ایسی تسکین کہ ایک انتہائی ماہر شکاری کو اس کے اپنے فطری ماحول میں شکست دی ہو۔ سب سے زیادہ یہ تسکین کہ زمین کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا اتنا محفوظ ہو گیا تھا کہ ایک چھوٹی سی بہادر بچی اس پر آرام سے چل سکے۔
پانار کا آدم خور
1
1907 میں جب میں چمپاوت کی آدم خور شیرنی کا شکار کرنے کی کوشش کر رہا تھا تو میں نے پہلی بار اس آدم خور تیندوے کے بارے سنا جس نے الموڑا ضلع کے مشرقی کنارے پر دیہاتوں پر لرزہ طاری کر رکھا تھا۔ اس تیندوے کے بارے ہاؤس آف کامنز میں بھی سوالات پوچھے گئے۔ اس تیندوے کو مختلف ناموں سے جانا جاتا تھا اور اس نے 400 مصدقہ انسانی شکار کیے تھے۔ تاہم چونکہ میں اسے پانار کے آدم خور کے نام سے جانتا ہوں اس لیے میں اس کہانی میں اسے اسی نام سے پکاروں گا۔
حکومتی ریکارڈوں میں 1905 سے قبل اس تیندوے کا کوئی ذکر نہیں ملتا۔ چمپاوت اور پانار کے آدم خور سے قبل کماؤں میں کسی آدم خور کا نہیں سنا گیا تھا۔ تاہم جب ان دونوں جانوروں نے 836 انسان کھا لیے تو حکومت کے پاس کوئی ایسا ذریعہ نہیں تھا کہ وہ انہیں ختم کرنے کے لیے مقرر کرتی۔ اس لیے سرکاری حکام مختلف شکاریوں سے ذاتی طور پر درخواستیں ہی کرتے رہے۔ بدقسمتی سے اس وقت کماؤں میں بہت کم شکاری ایسے تھے جو ان جانوروں کے شکار میں دلچسپی محسوس کرتے تھے۔ زیادہ تر کے خیال میں یہ انتہائی خطرناک کام تھا اور اسی طرح کے ایک خطرناک کام کا منصوبہ ولسن نے چند سال بعد ماؤنٹ ایورسٹ پر اکیلے چڑھنے کا بنایا۔ اس وقت میں آدم خوروں سے اتنا ہی اجنبی تھا جتنا ولسن کے لیے ماؤنٹ ایورسٹ رہی ہوگی۔ تاہم آدم خور کے خلاف میری کامیابی اور ماؤنٹ ایورسٹ پر چڑھائی کے لیے ولسن کی ناکامی کا سبب محض قسمت ہی ہے۔
جب میں چمپاوت کی آدم خور شیرنی کو ہلاک کر کے نینی تال اپنے گھر واپس پہنچا تو حکومت نے مجھے پانار کے اس آدم خور تیندوے کو ہلاک کرنے کی درخواست کی۔ ان دنوں میری معاشی صورتحال کافی تنگ تھی اور کئی ہفتے بعد اس کام کے لیے میں وقت نکال سکا۔ ابھی میں الموڑا روانہ ہونے کے لے تیار ہو ہی رہا تھا کہ مجھے نینی تال کے ڈپٹی کمشنر برتھوڈ کا پیغام ملا کہ میں فوراً مکتسر پہنچ کر وہاں کے لوگوں کو آدم خور شیر سے بچاؤں جس نے وہاں اپنی دہشت طاری کر رکھی تھی۔ پچھلے صفحات پر آپ مکتسر کی آدم خور کی کہانی پڑھ چکے ہیں۔ اب میں پانار کے آدم خور کے تعاقب میں نکلا۔
چونکہ میں اس علاقے میں پہلے کبھی نہیں گیا تھا، اس لیے میں نے سوچا کہ الموڑا سے ہوتا چلوں تاکہ وہاں کے ڈپٹی کمشنر سٹیفی سے اس آدم خور کے بارے تمام تر معلومات لے سکوں۔ انہوں نے کمال مہربانی سے مجھے دوپہر کے کھانے پر مدعو کر کے مجھے تمام تر معلومات اور نقشہ جات مہیا کیے۔ روانگی کے وقت جب انہوں نے پوچھا کہ کیا مجھے اس خطرناک کام کے نتائج و عواقب کا پوری طرح علم ہے؟ کیا میں نے اپنی وصیت مرتب کر لی ہے؟ مجھے اس بات سے کافی دھچکا سا لگا۔
نقشوں کے مطابق متائثرہ علاقے تک پہنچنے کے دو راستے تھے۔ پہلا راستہ پتھورا گڑھ روڈ پر چلتے ہوئے پنوانولا سے ہوتے ہوئے جبکہ دوسرا راستہ لامگرا سے ہوتا ہوئے دیبی دھورا روڈ سے تھا۔ میں نے دوسرے راستے کا انتخاب کیا اور دوپہر کے کھانے کے بعد بلند حوصلے کے ساتھ ہم روانہ ہوئے۔ میرے ساتھ ایک ملازم اور چار دیگر افراد میرا سامان اٹھانے کے لیے آئے ہوئے تھے۔ میں اور میرے ساتھ پہلے ہی 14 میل کا سخت سفر کر چکے تھے لیکن چونکہ ہم جوان اور سخت جان تھے اس لیے ہمارا ارادہ یہ تھا کہ ابھی کافی سفر کرنے کے بعد ہی جا کر رکیں گے۔
چودہویں کا چاند ابھی پہاڑیوں سے نکل ہی رہا تھا کہ ہم ایک ٹوٹی پھوٹی عمارت کے قریب پہنچے۔ اس کی دیواروں کی لکھائی اور جا بجا پڑے کاغذ کے ٹکڑوں سے ظاہر ہو رہا تھا کہ یہ سکول کی عمارت ہے۔ ہمارے پاس خیمہ نہیں تھا اور عمارت کا دروازہ مقفل ہونے کی وجہ سے ہم نے وہیں صحن میں ہی ڈیرہ لگانے کا سوچا۔ اس جگہ میں اور میرے ساتھی آدم خور سے قطعی محفوظ ہوتے کیونکہ ابھی ہم آدم خور کے علاقے سے کئی میل دور تھے۔ صحن بیس مربع فٹ کا تھا اور سڑک کے کنارے اور باقی تین اطراف سے دو فٹ اونچی دیوار سے گھرا ہوا تھا۔ چوتھی طرف سکول کی عمارت تھی۔
سکول کے پیچھے کے جنگل میں جلانے کے لیے کافی لکری موجود تھی اس لیے جلد ہی میرے ساتھیوں نے لکڑی جمع کر کے صحن کے ایک کونے میں آگ جلا لی۔ میرے ملازم نے میرے لیے کھانا بنانا شروع کر دیا۔ سکول کی عمارت کے مقفل دروازے سے ٹیک لگائے میں سیگرٹ پی رہا تھا۔ میں نے دیکھا کہ میرے ملازم نے بکرے کی بھنی ہوئی ٹانگ آگ سے اٹھا کر دیوار پر رکھ کر آگ کی طرف مڑا ہی تھا کہ دیوار کے پیچھے سے تیندوے کا سر نمودار ہوا۔ حیرت کے مارے میں چپکا بیٹھ کر دیکھتا رہا۔ تیندوے کا رخ میری طرف ہی تھا اور جب میرا ملازم چند فٹ دور ہٹا تو تیندوے نے لپک کر ران اٹھائی اور جنگل میں گھس گیا۔ میرے ملازم نے کاغذ پر ران رکھی تھی اور کاغذ گوشت سے چمٹا ہوا تھا۔ جب تیندوے نے ران اٹھائی تو کاغذ نے آواز پیدا کی۔ میرا ملازم سمجھا کہ شاید کوئی آوارہ کتا ران لے کر دوڑ گیا ہے۔ وہ پیچھے لپکا۔ لیکن جونہی اسے علم ہوا کہ ران کتے کی بجائے تیندوے نے اٹھائی ہے تو وہ میری جانب دوڑا۔ مشرق میں سفید فام لوگوں کو تھوڑا سا کھسکا ہوا مانتے ہیں۔ تاہم جب میرے ملازم نے مجھے آ کر افسوس ناک لہجے میں یہ خبر سنائی کہ ‘تیندوا آپ کا کھانا لے گیا اور میرے پاس اب آپ کے لے کچھ بھی نہیں۔’ تو میں ہنسی کے مارے لوٹ پوٹ ہو رہا تھا۔ شاید میرے ملازم نے مجھے عام سفید فاموں سے زیادہ کھسکا ہوا سمجھا ہو۔ خیر پھر بھی اس نے میرے لیے بہت عمدہ کھانا تیار کیا اور تیندوے نے ران سے اور میں نے کھانے سے پورا انصاف کیا۔
اگلی صبح جلدی نکلتے ہوئے ہم لام گرا پہنچ کر کھانے کے لیے رکے۔ شام ہوتے ہوتے ہم ڈول کے ڈاک بنگلے پر پہنچے۔ یہاں سے آدم خور کی سلطنت شروع ہوتی تھی۔ اپنے ساتھیوں کو بنگلے میں چھوڑ کر اگلی صبح میں آدم خور کی خبر لینے نکلا۔ گاؤں گاؤں ہوتے ہوئے اور راستے پر آدم خور کے پگ تلاش کرتے ہوئے شام کو میں ایک الگ تھلگ موجود ایک منزلہ پختہ گھر کے قریب پہنچا۔ اس کے پاس چند ایکڑ جتنی مزروعہ زمین تھی اور ہر طرف جنگل سے گھرا ہوا تھا۔ اس گھر کو جانے والے راستے پر میں نے ایک بڑے نر تیندوے کے پگ دیکھے۔
جونہی میں اس گھر کے نزدیک پہنچا تو اس کی بالکنی پر ایک بندہ دکھائی دیا۔ مجھے دیکھتے ہی وہ سیڑھیوں سے نیچے اترا اور صحن عبور کر کے مجھے ملنے آیا۔ بائیس سال کے لگ بھگ کا نوجوان مجھے بہت پریشان دکھائی دیا۔ اس نے بتایا کہ گذشتہ رات وہ اپنی بیوی کے ہمراہ اس گھر کے واحد کمرے کے فرش پر سو رہا تھا۔ دروازہ کھلا تھا کیونکہ اپریل میں یہاں کافی گرمی ہو جاتی ہے۔ آدم خور بالکنی پر چڑھا اور کمرے میں داخل ہو کر اس کی بیوی کو گلے سے دبوچ کر دروازے کو بڑھا۔ عورت نے چیخ مار کر اپنے شوہر کو پکڑا تو وہ بیدار ہو گیا۔ اس نے فوراً ایک ہاتھ سے بیوی کو پکڑا اور دوسرے سے کمرے کے ستون کو۔ جھٹکا دے کر اس نے بیوی کو چھڑایا اور لپک کر دروازہ بند کر دیا۔ بقیہ رات میاں بیوی خوف کے مارے کمرے کے ایک کونے میں دبکے رہے اور تیندوا دروازہ توڑنے کی کوشش میں لگا رہا۔ رات بھر گرمی اور حبس کی وجہ سے اس عورت کے زخموں میں پیپ پڑنے لگ گئی اور صبح ہوتے ہوتے وہ خوف اور تکلیف کی شدت سے بے ہوش تھی۔
سارا دن یہ بندہ اپنی بیوی کے ساتھ موجود رہا کیونکہ اسے ڈر تھا کہ اگر وہ بیوی کو چھوڑ کر مدد لینے گیا تو تیندوا واپس لوٹ کر اسے کھا جائے گا۔ اسے یہ بھی ڈر تھا کہ اگر وہ گھر سے نکلا تو نزدیکی ہمسائے اور اس کے گھر کے درمیان موجود ایک میل گھنا جنگل وہ کیسے بحفاظت عبور کر پائے گا۔ شام ہوتے ہوتے اس کے سامنے ایک اور رات اس دہشت میں گذارنے کا حوصلہ اس میں نہیں بچا تھا۔ اس کی کہانی سن کر مجھے حیرت نہیں ہوئی کہ مجھے دیکھتے ہی میرے قدموں میں گر کر کیوں رونے لگ گیا تھا۔
اب میرے سامنے انتہائی مشکل صورتحال تھی۔ اس وقت تک میں نے حکومت کو یہ درخواست نہیں کی تھی کہ آدم خور کے علاقے میں ابتدائی طبی امداد کا سامان بھجوا دیا جائے۔ الموڑا سے قبل کسی قسم کی طبی امداد ممکن نہیں تھی۔ الموڑا یہاں سے پچیس میل دور تھا۔ اب اگر طبی امداد لانے میں اکیلا جاتا تو زخمی عورت کے ساتھ رات اکیلے گذارنا اور تیندوے کی واپسی کا امکان اس بندے کو ہمیشہ پاگل کر دینے کے لیے کافی ہوتا۔
اس کی بیوی اٹھارہ سال کی تھی اور کمر کے بل بے ہوش پڑی تھی۔ تیندوے کے دانتوں کے زخم اس کے گلے پر تھے۔ جب بندے نے اسے اپنی طرف کھینچا تو تیندوے نے گرفت مضبوط کرنے کی غرض سے اس کی چھاتی میں پنجہ گاڑ دیا تھا۔ جب تیندوے کی گرفت سے عورت نکلی تو تیندوے کے ناخنوں سے اس کی چھاتی میں چار گہرے زخم بن گئے۔ چھوٹے سے کمرے کی گرمی، حبس اور مکھیوں کے غول کی وجہ سے یہ زخم سڑنا شروع ہو گئے تھے۔ اس کمرے میں کوئی کھڑکی نہیں تھی اور ایک ہی دروازہ تھا۔ چونکہ اس کے زخم سڑنا شروع ہو گئے تھے اس لیے اگر میں جا کر اس کے لیے طبی امداد لاتا تو بھی اس کے بچے کے امکانات انہتائی کم تھے۔ اس وجہ سے میں نے فیصلہ کیا کہ رات اس بندے کے ساتھ یہیں گذاروں۔ میری انتہائی خلوص دل سے دعا ہے کہ میرے قارئین کو کبھی بھی کسی انسان یا جانور کی تکلیف دیکھنے کا موقع نہ ملے جسے شیر یا تیندوے نے گلے سے پکڑا ہو اور ان کی تکلیف دور کرنے کے لیے رائفل کی گولی کے سوا اور کچھ نہ ہو۔
بالکنی اس گھر کی پوری لمبائی تک پھیلی ہوئی پندرہ فٹ لمبی اور چار فٹ چوڑی تھی۔ اس کی دونوں اطراف بند تھیں۔ اس تک پہنچنے کے لیے مختصر سی سیڑھیاں تھیں۔ سیڑھیوں کے اوپر کمرے کا دروازہ تھا۔ بالکنی کے نیچے چار فٹ چوڑی اور چار فٹ اونچی جگہ تھی جہاں جلانے کی لکڑی رکھی جاتی تھی۔
اس بندے نے میری منتیں کیں کہ میں اس کے ساتھ کمرے کے اندر رہوں۔ اگرچہ مجھے آسانی سے متلی نہیں ہوتی لیکن کمرے کی فضاء ایسی تھی کہ میں متلی نہ روک پاتا۔ اس لیے ہم نے مل کر بالکنی کے نیچے ایک کنارے سے لکڑیاں ہٹا کر اتنی جگہ بنا دی کہ میں کمرے کی دیوار سے ٹیک لگا کر بیٹھ سکتا۔ رات ہونے والی تھی اس لیے نزدیکی چشمے پر نہا کر اور پانی پی کر میں اپنی کمین گاہ میں بیٹھ گیا۔ اس بندے نے کمرے میں داخل ہوتے ہوئے پوچھا کہ ‘صاحب جب تیندوا رات کو آپ کو اٹھا کر لے جائے تو میں کیا کروں؟’ میں نے کہا کہ ‘دروازہ بند کر کے دن نکلنے کا انتظار کرنا۔’
چاند کی سولہ تاریخ تھی اور سورج ڈوبنے کے بعد چاند نکلنے کے درمیان دو گھنٹے جتنی تاریکی رہتی۔ یہ دو گھنٹے مجھے ڈرا رہے تھے۔ اس بندے نے بتایا تھا کہ صبح دن نکلنے تک تیندوا اس کے دروازے پر موجود رہا تھا، اس کا یہی مطلب تھا کہ تیندوا زیادہ دور نہیں گیا ہوگا۔ عین ممکن ہے کہ ابھی بھی تیندوا کہیں آس پاس چھپ کر مجھے دیکھ رہا ہو۔ ابھی تاریکی میں آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھتے ہوئے نصف گھنٹہ ہوا ہوگا اور میں مسلسل چاند نکلنے کی دعا کر رہا تھا۔ اچانک کافی دور سے مجھے گیدڑ کی آواز سنائی دی۔ جب گیدڑ پورے زور سے بولے تو اس کی آواز بہت دور تک جاتی ہے۔ اس کی آواز کو ‘فیوں فیوں’ سے مشابہہ کہہ سکتا ہوں۔ کئی بار یہ آواز آئی۔ بظاہر جتنی دیر خطرہ گیدڑ کے سامنے رہا، اس نے خطرے کی گھنٹی بجائے رکھی۔ عام طور پر جب تیندوا شکار کرنے یا شکار پر آنے کو نکلتا ہے تو قدم پھونک پھونک کر رکھتا ہے۔ اگر یہ تیندوا آدم خور ہی تھا تو نصف میل طے کرنے میں اسے کافی وقت لگتا اور اتنی دیر میں اگر چاند نہ بھی نکلتا تو بھی اتنی روشنی ہو جانی تھی کہ میں گولی چلا سکتا۔ یہ سوچ کر میں نے اطمینان کا سانس لیا کہ ابھی خطرہ کافی دور ہے۔
منٹوں پر منٹ گذرتے رہے۔ گیدڑ چپ ہو گیا تھا۔ چاند پہاڑیوں سے نکل آیا تھا اور میرے سامنے کی زمین اس کی روشنی سے منور تھی۔ تاہم روشنی میں بھی مجھے کوئی حرکت نہ محسوس ہوئی اور واحد آواز اس بدقسمت عورت کی تھی جو اوپر کمرے میں سانس لینے کی کوشش کر رہی تھی۔ منٹ گھنٹوں میں بدلتے گئے اور چاند اوپر پہنچ کر مائل بہ زوال ہو گیا۔ اب اس مکان کا سایہ میرے سامنے پڑنے لگا۔ اب پھر خطرہ تھا کیونکہ تیندوا بہ آسانی چھپ کر ساری رات شکار کی گھات میں بیٹھ سکتا ہے۔ اگر اس نے مجھے دیکھ لیا تھا تو وہ آرام سے اس وقت کا منتظر ہوگا جب مکان کا سایہ اس کی حرکات کو چھپانے کے لیے گہرا ہو جاتا۔ اس لیے مجھے اپنی احتیاط مزید بڑھا دینی تھی۔ تاہم ساری رات گذر گئی اور سورج نکل آیا۔ یہ رات ان طویل ترین راتوں میں سے ایک تھی جو میں نے آدم خور کی تلاش میں بیٹھ کر گذاری تھیں۔ اب چاند کی جگہ سورج کی روشنی پھیل گئی تھی۔
پچھلی رات جاگنے کے بعد یہ بندہ اس رات گہری نیند سویا تھا۔ جب میں اپنی کمین گاہ سے نکل کر اپنا دوران خون درست کر رہا تھا تو یہ بندہ نیچے اترا۔ وہ افراد جو سخت زمین پر گھنٹوں بے حس و حرکت رہ چکے ہوں، وہ جانتے ہیں کہ یہ کام کتنا تکلیف دہ ہوتا ہے۔ گذشتہ چوبیس گھنٹوں میں چند جنگلی رس بھریوں کے علاوہ میں نے کچھ نہیں کھایا تھا۔ اب یہاں مزید رکنا بے کار ہوتا، اس لیے اس بندے سے اجازت لے کر میں واپس ڈول کے ڈاک بنگلے کی طرف روانہ ہوا۔ میرا ارادہ تھا کہ اس بے چاری عورت کے لیے طبی امداد کا بندوبست کروں۔ ابھی میں راستے ہی میں تھا کہ میرے ساتھی آن پہنچے۔ میری طویل غیر حاضری سے پریشان ہو کر انہوں نے ڈاک بنگلے کا کرایہ ادا کیا اور میرا سامان باندھ کر میری تلاش میں نکل کھڑے ہوئے۔ ابھی میں ان سے بات کر ہی رہا تھا کہ رود اوؤر سئیر آن پہنچا۔ یہ وہی اوؤر سئیر تھا جس کا تذکرہ میں ٹمپل ٹائیگر میں کر چکا ہوں۔ اس کے پاس ایک عمدہ خچر تھا اور الموڑا جا رہا تھا۔ اس نے میرا خط بخوشی سٹیف تک پہنچانے کی حامی بھر لی۔ میرا خط ملتے ہی سٹیف نے فوراً اس عورت کے لیے طبی امداد روانہ کر دی۔ تاہم امداد پہنچنے سے قبل ہی اس عورت کی تکلیف تمام ہو چکی تھی۔
اسی اوؤر سئیر نے مجھے دیبی دھورا کی ہلاکت کے بارے بتایا تھا جہاں میں نے شکار کے بہترین تجربات میں سے ایک سے سامنا کیا تھا۔ اس کے بعد میں نے دیبی دھورا کے بوڑھے پجاری سے پوچھا کہ کیا آدم خور کو بھی اسی طرح مندر کی حفاظت تو نہیں؟ تو اس نے فوراً جواب دیا کہ ‘نہیں صاحب، یہ شیطان تو میرے مندر کے بے شمار لوگوں کو کھا چکا ہے۔ اب چوں کہ آپ یہاں آ گئے ہیں تو میں آپ کی کامیابی کے لیے دن رات دعائیں مانگوں گا۔
2
چاہے ہماری زندگی میں کتنی ہی خوشیاں کیوں نہ ہوں، پھر بھی بعض واقعات ایسے ہیں کہ ان پر نگاہ ڈالنے سے حقیقی مسرت ملتی ہے۔ میری زندگی میں ایک ایسا ہی عرصہ 1910 کا سال ہے۔ اس سال میں نےمکتسر کے آدم خور شیر اور پانار کے آدم خور تیندوے کا شکار کیا۔ ان دونوں کے درمیانی عرصے میں میرے آدمیوں اور میں نے مل کر محکمہ گھاٹ پر سامان کی منتقلی کا ایک نیا ریکارڈ بنایا۔ بغیر کسی مشینی مدد کے ہم نے ایک دن میں 5500 ٹن سامان منتقل کیا۔
پانار کے آدم خور کے پیچھے میں نے پہلی کوشش اپریل 1910 میں کی۔ اسی سال ستمبر میں مجھے اتنی فرصت ملی کہ اس تیندوے کے پیچھے دوسری بار نکلوں۔ مجھے قطعی اندازہ نہیں کہ اس دوران کتنے افراد اس تیندوے کی بھینٹ چڑھے کیونکہ اس بارے حکومت نے کوئی معلومات نہیں مہیا کیں اور ما سوائے ہاؤس آف کامنز میں ایک بار اس بارے پوچھے گئے سوال کے علاوہ مجھے نہیں علم کہ کبھی ہندوستانی پریس میں اس کا تذکرہ آیا ہو۔ پانار کا یہ آدم خور 400 انسانوں کی جان لے چکا تھا جبکہ ردرپریاگ کے آدم خور نے 125 ہلاکتیں کی تھیں۔ پھر بھی ردرپریاگ کے آدم خور کو کہیں زیادہ شہرت ملی۔ اس کی ایک وجہ تو یہ بھی ہو سکتی ہے کہ پانار کا آدم خور انتہائی دور دراز علاقے میں سرگرم تھا جہاں عام لوگوں کی زیادہ آمد و رفت نہیں ہوتی جبکہ ردرپریاگ کا آدم خور ان علاقوں میں سرگرم تھا جہاں ہر سال کم از کم 60،000 یاتری ہر شعبہ ہائے زندگی اور ہندوستان کے کونے کونے سے آتے تھے۔ انہی یاتریوں اور حکومتی اعلانات سے ہی ردرپریاگ کے آدم خور کو اتنی شہرت ملی تھی حالانکہ اس کی انسانی ہلاکتوں کی تعداد اتنی زیادہ نہیں تھی۔
ایک ملازم اور چار ساتھیوں کے ہمراہ جو میرے کیمپ کا سامان وغیرہ اٹھائے ہوئے تھے، میں 10 ستمبر کو نینی تال سے نکلا۔ 4 بجے صبح جب ہم نکلے تو مطلع ابر آلود تھا۔ ابھی ہم چند ہی میل گئے ہوں گے کہ بارش شروع ہو گئی۔ سارا دن بارش ہوتی رہی اور جب ہم 28 میل کا سفر کر کے الموڑہ پہنچے تو رواں رواں بھیگ چکا تھا۔ میں نے یہ رات سٹیف کے ساتھ گذارنی تھی لیکن اپنا حلیہ دیکھ کر میں نے پروگرام ملتوی کر دیا۔ یہ رات ہم نے ڈاک بنگلے میں گذاری۔ یہاں کوئی دوسرا مسافر نہیں تھا اس لیے چوکیدار نے دو کمرے ہمیں دے دیئے۔ کمروں میں جلانے کے لیے کافی ساری لکڑیاں موجود تھیں اور صبح تک ہم اور ہمارا سامان اتنا خشک ہو چکے تھے کہ ہم سفر جاری رکھ سکتے تھے۔
میرا ارادہ تھا کہ الموڑہ سے آگے ہم وہی راستہ لیں گے جو اپریل میں ہم نے چنا تھا اور اسی گھر سے اپنی مہم کا آغاز کروں گا جہاں آدم خور کی شکار لڑکی نے جان دی تھی۔ ابھی میں ناشتہ کر رہا تھا کہ پنوا نام کا ایک راج آن پہنچا۔ یہ بندہ نینی تال میں ہمارے چھوٹے موٹے کام کیا کرتا تھا۔ پنوا کا گھر وادئ پانار میں تھا۔ جب اس نے میرے ساتھیوں سے یہ سنا کہ ہم پانار کے آدم خور کو مارنے پانار ہی جا رہے ہیں تو اس نے مجھ سے اجازت مانگی کہ ہم اسے ساتھ لے چلیں کیونکہ اکیلے جانے سے ڈر لگ رہا تھا۔ چونکہ پنوا اس علاقے سے بخوبی واقف تھا اس لیے اس کے مشورے سے میں نے اس سکول والے راستے کو چھوڑا اور پتھورا گڑھ والے راستے کو چل پڑے۔ پنوا نولا کے ڈاک بنگلے میں رات گذار کر ہم اگلی صبح جلدی روانہ ہوئے اور چند میل آگے چل کر ہم نے پتھورا گڑھ سڑک چھوڑ دی اور دائیں جانب ایک پگڈنڈی پر چل پڑے۔ اب ہم آدم خور کی سلطنت میں داخل ہو چکے تھے جہاں باقاعدہ راستے نہیں تھے۔ ایک گاؤں سے دوسرے تک جانے کے لیے محض پگڈنڈیاں استعمال ہوتی تھیں۔
ہماری پیش رفت کافی آہستہ تھی کیونکہ کئی سو مربع میل پر بے شمار گاؤں جگہ جگہ پھیلے ہوئے تھے۔ آدم خور کے بارے جاننے کے لیے ہمیں ہر گاؤں سے معلومات لینی تھیں۔ سالن اور رنگوٹ پٹیوں (پٹی سے مراد گاؤں کا مجموعہ ہے) کے درمیان میں شام ڈھلے چکاٹی پہنچا جہاں کے نمبردار نے نے بتایا کہ پانار دریا کی دوسری جانب سانولی گاؤں میں چند روز قبل آدم خور نے ایک بندہ ہلاک کیا ہے۔ حالیہ بارشوں کی وجہ سے دریائے پانار میں سیلاب کی سی کیفیت تھی۔ نمبردار نے کہا کہ آج کی رات ہم وہیں رکیں اور اگلی صبح وہ ہمیں ایک رہنما دے گا جو ہمیں دریا کو محفوظ جگہ عبور کرائے گا۔ اس جگہ دریائے پانار پر پل نہیں تھا۔
نمبردار کے ساتھ گفتگو دو منزلہ عمارتوں کی قطار کے ساتھ کھڑے ہو کر کی تھی۔ جب نمبردار کے مشورے پر میں نے رات وہیں گذارنے کا فیصلہ کیا تو نمبردار نے بتایا کہ وہ میرے لیے اپنے گھر کی بالائی منزل کے دو کمرے خالی کرا دے گا۔ تاہم جہاں ہم کھڑے تھے اس جگہ پہلا کمرہ خالی دکھائی دے رہا تھا۔ میں نے نمبردار کو بتایا کہ میں اس کمرے میں رہوں گا۔ اس طرح اسے اپے گھر میں ایک کمرہ خالی کرنا پڑے گا۔ جو کمرہ میں نے اپنے لیے چنا تھا، کا دروازہ نہیں تھا۔ تاہم چونکہ سابقہ واردات دریا کے دوسرے کنارے کی جانب ہوئی تھی اور دریا خوب چڑھا ہوا تھا، اس لیے مجھے تیندوے کی جانب سے کوئی فکر نہیں تھی۔
اس کمرے کوئی ساز و سامان نہیں تھا۔ میرے ساتھیوں نے کمرہ اچھی طرح صاف کیا اور فرش پر چادر ڈال کر میرا بستر بچھا دیا۔ انہوں نے بتایا کہ اس کمرے میں کوئی انتہائی غلیظ انسان رہ رہا تھا کیونکہ ڈھیروں گند اور چیتھڑے موجود تھے۔ صحن میں میرے ملازم نے کھانا بنایا جسے بستر پر بیٹھ کر میں نے کھایا۔ چونکہ سارا دن میں نے کافی فاصلہ طے کیا تھا اس لیے سونے میں مجھے دیر نہیں لگی۔ اگلی صبح سورج طلوع ہو رہا تھا اور کمرے میں خوب روشنی پھیلی ہوئی تھی کہ میری آنکھ آہٹ سن کر کھل گئی۔ میری نظر فوراً ہی میرے پیروں کی جانب بیٹھے شخص پر پڑی۔ اس کی عمر پچاس سال کے لگ بھگ ہوگی اور بدقسمت انسان جذام یعنی کوڑھ کی آخری منزل پر تھا۔ مجھے جاگتے دیکھ کر اس بے چاری زندہ لاش نے کہا کہ امید ہے کہ اس کے کمرے میں مجھے اچھی نیند آئی ہوگی۔ اس نے یہ بھی بتایا کہ وہ دو دن کے لیے پاس والے گاؤں میں اپنے دوست کو ملنے گیا ہوا تھا اور واپسی پر اس نے مجھے اپنے کمرے میں سویا دیکھا تو بیٹھ کر میرے بیدار ہونے کا انتظار کرنے لگا۔
کوڑھ کا مرض مشرقی امراض میں سب سے اذیت ناک ہے اور چھوت سے پھیلتا ہے۔ یہ مرض پورے کماؤں بالخصوص الموڑا میں پھیلا ہوا ہے۔ چونکہ یہ لوگ ہر کام قسمت پر چھوڑ دیتے ہیں اس لیے لوگ اس بیماری کو خدا کا عذاب سمجھتے ہیں اور اس ے بچنے کی کوئی کوشش نہیں کرتے اور نہ ہی مریضوں کو الگ کرتے ہیں۔ بظاہر اسی وجہ سے نمبردار نے مجھے یہ بتانے کی کوشش بھی نہیں کہ کہ جس کمرے میں میں نے سونا ہے وہ برسوں سے کوڑھی کی رہائش گاہ ہے۔ فوراً ہی کپڑے بدل کر میں تیار ہو گیا اور رہنما کے آتے ہی ہم چل پڑے۔
کماؤں میں سفر کرتے ہوئے ہمیشہ میرا پالا کوڑھیوں سے پڑتا رہتا ہے تاہم جتنی کراہت مجھے اس وقت محسوس ہو رہی تھی وہ پہلے کبھی نہیں ہوئی۔ جونہی پہلی ندی کے کنارے ہم پہنچے تو وہیں رک کر میں نے اپنے ملازم کو ناشتہ تیار کرنے کا حکم دیا اور پھر اپنے ساتھیوں کو اپنے بستر کو دھونے کا حکم دے کر میں نے کاربالک صابن اٹھایا اور ندی پر جا کر میں نے غسل کے لیے ایک گوشہ چنا۔ سارے کپڑے اتار کر میں نے پہلے انہیں دھو کر پتھروں پر سوکھنے ڈال دیئے اور پھر باقی ماندہ صابن سے اپنے آپ کو مل مل کر دھویا۔ دو گھنٹے بعد اگرچہ میرے کپڑے تھوڑے سے سکڑ گئے تھے لیکن میری کراہت دور ہو گئی تھی۔ پھر میں واپس صاف ستھرا ہو کر ناشتے کو لوٹا۔
ہمارا رہنما ساڑھے چار فٹ کا بندہ تھا جس کے بڑے سر پر لمبے بالوں کی چٹیا تھی۔ موٹا پیٹ، چھوٹی ٹانگیں اور کم گفتار بندہ تھا۔ جب میں نے پوچھا کہ کیا راستے میں مشکل چڑھائی تو نہیں آئے گی تو اس نے اپنی ہتھیلی پھیلا کر کہا کہ راستہ اتنا مسطح ہے جیسے اس کی ہتھیلی۔ یہ کہہ کر وہ ہمیں سیدھا اتنہائی ڈھلوان سے اتار کر وادی میں لے گیا۔ میرا خیال تھا کہ اس وادی میں دریا عبور کرنا ہوگا۔ لیکن نہیں، کچھ کہے بغیر اونٹ کی طرح سیدھا وادی عبور کر کے اس نے اگلے پہاڑ کا رخ کیا۔ نہ صرف اس پہاڑ کی چڑھائی انتہائی ڈھلوان اور کانٹے دار جھاڑیوں سے بھری تھی بلکہ اس پر ریت اور کنکر بھی بکثرت تھے جس کی وجہ سے قدم جمانا اور بھی مشکل ہوتا گیا۔ سورج عین سر پر تھا کہ ہم پسینے میں ڈوبے چوٹی پر پہنچے۔ ہمارا رہنما جس کی ٹانگیں شاید بنی ہی پہاڑوں پر چڑھنے کے لیے تھیں، اسی طرح تازہ دم تھا۔
یہاں پہاڑ کی چوٹی سے نیچے وادی کا بہترین منظر دیکھنے کو مل رہا تھا۔ جب ہمارے رہنما نے یہ بتایا کہ ابھی ہمیں مزید دو پہاڑ عبور کر کے پانار دریا پہنچنا ہے تو پنوا نے، جس کے پاس اپنے خاندان کے لیے تحفے تحائف اور ایک بہت وزنی اوور کوٹ تھا، نے یہ کوٹ ہمارے رہنما کو دے دیا اور کہا کہ چونکہ وہ ہمیں زبردستی کماؤں کے تمام پہاڑ عبور کرنے پر مجبور کر رہا ہے اس لیے یہ کوٹ بھی خود ہی اٹھائے۔ بکری کے بالوں سے بنی رسی سے اس کوٹ کو اپنی کمر کے گرد ہمارے رہنما نے باندھ لیا۔ پہاڑ سے اتر کر دوسرے پہاڑ پر چڑھے اور اس سے اتر کر ہم ایک گہری کھائی میں جا پہنچے تو دریا دکھائی دیا۔ یہاں تک ہمارا سارا سفر بغیر کسی پگدنڈی کے ہوا تھا اور نہ ہی کوئی دیہات دکھائی دیا تھا۔ تاہم اس جگہ سے سیدھا دریا تک ایک پگڈنڈی جا رہی تھی۔ جوں جوں ہم دریا کے قریب ہوتے گئے، مجھے اس سے الجھن ہوتی گئی۔ دریا کے دونوں کنارے موجود راستے کو دیکھ کر لگتا تھا کہ دریا کو اسی جگہ سے عبور کیا جاتا ہے لیکن اس وقت طغیانی پر آئے دریا کو عبور کرنا میرے نزدیک بہت خطرناک تھا۔ تاہم ہمارے رہنما کے مطابق یہاں سے دریا عبور کرنا انتہائی آسان تھا۔ اس لیے جوتے اور جرابیں اتار کر میں نے پنوا کے بازوں میں بازو ڈالے اور پانی میں اترا۔ یہاں دریا تقریباً چالیس گز چوڑا ہوگا اور پانی کی سطح سے میں نے اندازہ لگایا کہ یہاں تہہ بہت کٹی پھٹی ہے۔ میرا اندازہ درست نکلا اور کئی بار ٹھوکریں کھانے اور ایک بار تقریباً بہہ جانے کے باوجود ہم دوسرے کنارے پہنچ گئے۔
ہمارا رہنما بھی ہمارے پیچھے آ رہا تھا۔ جب میں نے مڑ کر دیکھا تو اسے کافی مشکل ہو رہی تھی۔ جو پانی ہماری رانوں تک تھا، اس کی کمر تک پہنچ رہا تھا۔ دریا کے وسط میں پہنچ کر بجائے اس کے کہ وہ بہاؤ کی مخالف سمت رخ کر کے ترچھا چلتا، اس نے بہاؤ کی سمت رخ کیا اور نتیجتاً فوراً ہی تیز پانی نے اس کے قدم اکھاڑ دیئے۔ تاہم پنوا نے اپنا گٹھڑ پھینکا اور فوراً کنارے پر آگے جو بھاگا جہاں پچاس گز دور ایک چٹان پانی پر جھکی ہوئی تھی۔ دوڑتے ہوئے اسے نوکیلے پتھروں کی بھی پروا نہیں تھی۔ اس چٹان پر پنوا لیٹ کر ہمارے رہنما کا انتظار کرنے لگا۔ جونہی ہمارا رہنما اس کے قریب پہنچا، پنوا نے اس کو سر کے بالوں سے پکڑ کر بہت مشکل سے پانی سے نکال لیا۔ جب دونوں میرے پاس پہنچے تو ہمارا رہنما بیچارہ بھیگا چوہا لگ رہا تھا۔ میں نے پنوا کو شاباش دی کہ اس نے انتہائی بہادری کا مظاہرہ کر کے اس کی جان بچائی ہے۔ پنوا نے عجیب سی نظروں سے مجھے دیکھا اور بولا کہ ‘ارے نہیں صاحب، میں اس کی جان بچانے نہیں بلکہ اپنا نیا کوٹ بچانے گیا تھا جو اس نے کمر سے باندھ رکھا تھا۔’ خیر کچھ بھی ہو، ہمارے رہنما کی جان بچ گئی تھی۔ جب ہمارے سارے ساتھی بحفاظت ہماری جانب پہنچ گئے تو میں نے فیصلہ کیا کہ یہیں رات بسر کریں گے۔ پنوا کا گاؤں یہاں سے پانچ میل دور ہوگا اور اس نے ہمارے رہنما کو ساتھ لیا اور رخصت چاہی۔ ہمارا رہنما دریا عبور کرنے کے خیال سے ہی دہشت زدہ تھا۔
3
اگلی صبح ہم سانولی کو ڈھونڈنے نکلے جہاں آخری انسانی ہلاکت ہوئی تھی۔ شام ڈھلے ہم لوگ ایک بڑی اور کھلی وادی میں پہنچے جہاں ہمیں کوئی انسانی آبادی دکھائی نہیں دی۔ ہم نے رات وہیں گذارنے کا سوچا۔ نم اور ٹھنڈی زمین پر رات انتہائی بے آرامی سے گذری کیونکہ ہم اس وقت آدم خور کی سلطنت کے عین وسط میں تھے۔ اگلے دن دوپہر کو ہم سانولی جا پہنچے۔ اس چھوٹے سے گاؤں کے لوگ ہمیں دیکھ کر انتہائی خوش ہوئے۔ انہوں نے میرے ساتھیوں کے لیے ایک کمرہ جبکہ میرے لیے سرکنڈوں کی چھت والا ایک کھلا چبوترہ مہیا کر دیا۔
یہ گاؤں پہاڑی کے کنارے ایسی جگہ بنا تھا جہاں سے ہمیں وادی اور کھیت دکھائی دیتے تھے۔ ان کھیتوں سے چاول کی فصل کچھ دن قبل ہی کاٹی گئی تھی۔ وادی کی دوسری جانب پہاڑی بتدریج بلند ہوتی گئی تھی اور کھیتوں سے سو گز دور گھنی جھاڑیوں کا ایک قطعہ سا تھا جو 20 ایکڑ جتنا ہوگا۔ پہاڑی کے کنارے پر اور اسی قطعے کے اوپر ایک اور گاؤں تھا اور پہاڑی کے دائیں جانب بھی ایک گاؤں آباد تھا۔ بائیں جانب پہاڑی انتہائی ڈھلوان ہو گئی تھی۔ اس طرح اس قطعے کے تین اطراف میں کھیت اور ایک طرف گھاس کا کھلا میدان تھا۔
جتنی دیر میں ناشتہ تیار ہوتا، دیہاتی لوگ وہیں بیٹھ کر ہم سے باتیں کرتے رہے۔ مارچ کے وسط سے اپریل کے وسط تک اس علاقے میں چار انسان مارے جا چکے تھے۔ پہلا شکار پہاڑی کے کنارے، دوسرا اور تیسرا پہاڑی کی چوٹی والے گاؤں اور چوتھا سانولی میں ہوا تھا۔ ساری ہلاکتیں رات کو ہوئی تھیں اور چیتا لاشوں کو گھیسٹ کر اس قطعے میں اندازاً پانچ سو گز اندر تک لے گیا تھا۔ وہاں جا کر تیندوے نے اطمینان سے پیٹ بھرا تھا۔ چونکہ ان لوگوں کے پاس آتشیں اسلحہ نہیں تھا اس لیے تینوں دیہاتوں کے لوگ ہی لاشیں لانے کے ہچکچا رہے تھے۔ آخری واردات 6 دن قبل ہوئی تھی اور ان لوگوں کو یقین تھا کہ تیندوا ابھی تک ان جھاڑیوں میں ہی چھپا ہوا ہے۔
صبح ایک گاؤں سے گذرتے ہوئے میں نے دو بکرے خریدے تھے۔ شام کو چھوٹے بکرے کو میں نے جھاڑیوں کے کنارے لے جا کر باندھ دیا تاکہ دیہاتیوں کے اس مفروضے کی تصدیق کی جا سکے کہ آیا تیندوا یہاں موجود ہے بھی کہ نہیں؟ تاہم چونکہ اس جگہ کوئی درخت نہیں تھے اور گہرے بادلوں سے اندازہ ہو رہا تھا کہ رات کو بارش ہوگی، اس لیے میں نے وہیں بیٹھنے کا ارادہ ملتوی کر دیا۔ چونکہ میرا چبوترہ کھلا تھا، اس لیے اپنے ساتھ بکرا باندھ کر میں نے یہ فرض کر لیا کہ اگر تیندوا رات کو گاؤں آیا تو انسانی گوشت کی بجائے بکرے کا گوشت زیادہ پسند کرے گا۔ رات گئے تک دونوں بکرے ایک دوسرے کو بلاتے رہے۔ اس سے مجھے اندازہ ہوا کہ تیندوا نزدیک موجود نہیں۔ تاہم یہ فرض کرنا بھی مناسب نہیں تھا کہ تیندوا کبھی بھی ادھر لوٹ کر نہیں آئے گا اس لیے میں آرام سے سو گیا۔
رات کو ہلکی سی بارش ہوئی اور صبح جب سورج نکلا تو مطلع صاف تھا۔ گھاس اور درختوں کے پتے دھل کر جگ مگ کر رہے تھے۔ پرندے خوشی سے چہچہا رہے تھے۔ میرے پاس والا بکرا جھاڑیاں کترے جا رہا تھا اور وقتاً فوقتاً ممیا رہا تھا۔ دوسرا بکرا خاموش تھا۔ اپنے ملازم کو ناشتہ تیار کرنے کا کہہ کر میں نے رائفل اٹھائی اور وادی عبور کر کے دوسرے بکرے کی جانب گیا۔ وہاں پہنچ کر میں نے دیکھا کہ تیندوے نے بارش سے قبل بکرے کو مار کر رسی توڑی اور اسے لے گیا۔ بارش کی وجہ سے گھسیٹنے کے نشانات تو مٹ چکے تھے لیکن یہاں صرف ایک جگہ ایسی تھی جہاں تیندوا بکرے کو لے جاتا۔ یہ جگہ اسی راستے پر ہوتی جو ان جھاڑیوں سے گذرتا تھا۔
تیندوے یا شیر کو اس کے شکار پر گھات لگا کر شکار کرنا میرے نزدیک بہترین تفریح ہے۔ تاہم اس شکار کے لیے بہت ساری شرائط کا پورا ہونا لازمی ہے ورنہ کامیابی کا کوئی امکان نہیں ہوتا۔ اس جگہ حالات کافی نامساعد تھے اور جھاڑیاں اتنی گھی تھیں کہ خاموشی سے آگے بڑھنا ناممکن تھا۔ ناشتہ کر کے میں نے دیہاتیوں کو جمع کیا اور ان سے آس پاس کے علاقے کے بارے معلومات لیں۔ بکرے کی لاش کو تلاش کرنا اس لیے بھی ضروری تھا کہ اگر اس میں کچھ بچا تھا تو میں اس پر مچان باندھتا، لیکن بکرے کی لاش کو ڈھونڈنتے ہوئے اتنا شور لازماً ہوتا کہ تیندوا بھاگ جاتا۔ اس لیے یہ جاننا بھی ضروری تھا کہ آیا آس پاس مناسب فاصلے پر کوئی ایسا گھنا جنگل یا پناہ گاہ موجود ہے جہاں تیندوا بھاگ کر پناہ لیتا۔ ان لوگوں نے بتایا کہ تیندوے کے چھپنے کے لیے قریب ترین پناہ گاہ بھی کم از کم دو میل دور تھی اور اس تک پہنچنے کے لیے تیندوے کو مزروعہ زمینوں سے گذرنا پڑتا۔
دوپہر کے وقت میں واپس لوٹا اور جہاں تیندوے نے بکرے کو ہلاک کیا تھا، اس سے سو گز دور بکرے کی باقیات ملیں۔ تیندوے نے کھروں، سینگوں اور اوجھڑی کے ٹکڑے کے علاوہ سب کچھ کھا لیا تھا۔ چونکہ اس وقت تیندوے کے لیے اس جنگل کو چھوڑ کر دو میل دور جانا ممکن نہیں تھا اس لیے میں نے کئی گھنٹوں تک مختلف پرندوں کی مدد سے تیندوے کا پیچھا جاری رکھا۔ یہ پرندے مجھے تیندوے کی ہر حرکت کی خبر دیتے رہے۔ اگر آپ میں سے کوئی یہ جاننا چاہے کہ میں نے ان تینوں دیہاتوں کے افراد کو جمع کر کے ہانکا کیوں نہپں کرایا کہ تیندوا جونہی اس جنگل سے باہر نکلتا، میں اس پر گولی چلا سکتا تھا۔ میرا جواب یہ ہے کہ اگر ہم ایسا کرتے تو ہانکا کرنے والوں کے لیے انتہائی زیادہ خطرہ ہوتا۔ تیندوا جونہی یہ محسوس کرتا کہ اسے کھلے میدان کی طرف نکلنے کو مجبور کیا جا رہا ہے تو وہ الٹا ہانکے والوں پر الٹ پڑتا۔
ناکام ہو کر جب میں گاؤں لوٹا تو ملیریا کا حملہ ہو گیا۔ اگلے چوبیس گھنٹے میں نے بخار میں گذارے۔ اگلے روز شام کو جب بخار اترا تو میں اپنی مہم جاری رکھنے کے قابل ہوا۔ اس دوران میرے ساتھیوں نے دوسرا بکرا اسی شام وہیں باندھ دیا جہاں پہلا بکرا مارا گیا تھا لیکن تیندوے نے اسے چھوا تک نہیں۔ تاہم چونکہ اب تیندوا بھوکا ہوگا، اس لیے تیسری شام میری امیدیں کافی بلند تھیں۔
ان جھاڑیوں کے قطعے میں ہماری جانب اس جگہ سے سو گز دور، جہاں پہلا بکرا مارا گیا تھا، برگد کا ایک درخت تھا۔ یہ درخت دو کھیتوں کے درمیان چھ فٹ اونچی منڈیر پر اگا ہوا تھا۔ تاہم یہ درخت پہاڑی کی جانب اس طرح جھکا ہوا تھا کہ اس پر چڑھنا انتہائی آسان تھا۔ نچلی جانب کھیت سے پندرہ فٹ کی بلندی پر ایک شاخ اگی ہوئی تھی۔ یہ شاخ ایک فٹ موٹی ہوگی اور کھوکھلے ہونے کی بنا پر انتہائی نامناسب نشست تھی۔ چونکہ کئی سو گز تک دوسرا کوئی درخت یہاں موجود نہیں تھا اس لیے میں نے اس شاخ پر بیٹھنے کا خطرہ مول لے ہی لیا۔
چونکہ جنگل میں موجود پگوں کو دیکھ کر میں نے پہچان لیا تھا کہ یہ وہی پانار کا آدم خور تیندوا ہے جس کے پگ میں نے اپریل میں اس اکلوتے گھر کے پاس دیکھے تھے جہاں بے چاری لڑکی ماری گئی تھی، اس لیے میں نے اپنے ساتھیوں کو ہدایت کی کہ کانٹے دار جھاڑیاں کاٹیں۔ جب میں نے درخت کے تنے سے ٹیک لگا کر اپنی جگہ سنبھال لی تو میں نے انہیں ہدایت کی کہ ان جھاڑیوں کو گھٹڑیوں کی شکل میں باندھ کر درخت کے تنے سے لگا کر موٹی رسی سے خوب اچھی طرح باندھ دیں۔ انہی چھوٹی چھوٹی باتوں پر توجہ دینے سے میں سمجھتا ہوں کہ میری جان بچ گئی۔
یہ جھاڑیاں دس سے بیس فٹ لمبی تھیں اور درخت کے دونوں جانب سے نکلی ہوئی تھیں۔ چونکہ توازن برقرار رکھنے کے لیے میرے پاس کچھ نہیں تھا اس لیے میں نے انہیں پکڑ کر اپنی بغلوں میں دبا لیا۔ پانچ بجے تک میں تیار ہو چکا تھا۔ اپنی جگہ مضبوطی سے بیٹھ کر میں نے اپنے کوٹ کا کالر کھڑا کر لیا تاکہ پیچھے سے بچاؤ ہو سکے۔ بکرا میرے سامنے تیس گز دور لکڑی کے کھونٹے سے بندھا ہوا تھا اور میرے ساتھی کھیت میں بیٹھے سیگرٹ پی اور زور زور سے باتیں کر رہے تھے۔
اس دوران جھاڑیوں میں مکمل خاموشی رہی تھی لیکن پھر اچانک ایک پرندے نے خطرے کا اعلان کیا۔ ایک یا دو منٹ بعد دوسرے پرندوں نے اس کا جواب دیا۔ پہاڑی علاقے میں یہ دونوں پرندے بہت اہم مخبر ہوتے ہیں۔ ان کی آوازیں سنتے ہی میں نے اپنے ساتھیوں کو واپس لوٹ جانے کا اشارہ کیا۔ اجازت ملتے ہی وہ بخوشی گاؤں کو زور زور سے باتیں کرتے روانہ ہو گئے۔ بکرے نے بھی ممیانا شروع کر دیا۔ اگلے نصف گھنٹے تک خاموشی رہی اور پھر جونہی سورج گاؤں کے اوپر والی پہاڑی کے پیچھے غروب ہونے لگا تو میرے اوپر درخت پر بیٹھے دو ابابیل اڑے اور میرے اور جھاڑیوں کے درمیان کسی جانور کی موجودگی کی خبر دینے لگے۔ بکرا جو اب تک گاؤں کی جانب رخ کیے ممیا رہا تھا، نے اب اپنا رخ اسی جانب کر لیا جہاں ابابیل تھے اور چپ ہو گیا۔ بکرے کی حرکات کو دیکھ کر مجھے اس جانور کی حرکات کا درست اندازہ ہو رہا تھا جس پر ابابیل شور کر رہے تھے۔ یہ جانور محض تیندوا ہی ہو سکتا تھا۔
چاند کی آخری تاریخیں تھیں اور ابھی کئی گھنٹے تاریکی رہتی۔ چونکہ مجھے اندازہ تھا کہ تیندوا اس وقت آئے گا جب حالات اس کے حق میں ہوں گے۔ اس لیے میں بارہ بور کی دونالی بندوق لایا تھا۔ اس میں میں نے چھرے کے کارتوس بھرے تھے کیونکہ ایک گولی کی نسبت آٹھ چھروں کے تیندوے کو لگنا آسان تھا۔ رات کو شکار کے لیے برقی ٹارچیں اور روشنیاں وغیرہ ہندوستان میں اس وقت نہیں ہوتی تھیں جس وقت کے بارے میں لکھ رہا ہوں۔ نشانے کی درستگی کے لیے ہتھیار کی نالی کے گرد سفید کپڑا باندھ دیا جاتا تھا۔
کافی دیر تک خاموشی چھائی رہی اور پھر اچانک مجھے اپنی بغل میں دبی جھاڑی پر ہلکا سا جھٹکا محسوس ہوا۔ مجھے اپنی دور اندیشی پر انتہائی خوشی ہوئی کہ درخت کے جھکے ہوئے تنے پر میں نے کانٹے دار جھاڑیاں بندھوا دی تھیں۔ بصورت دیگر میں اپنے عقب میں دفاع کرنے سے معذور ہوتا اور کوٹ کا کالر اور ہیٹ مجھے تیندوے کے دانتوں سے نہ بچا پاتے۔ یہ بات اب یقینی تھی کہ میرا سامنا پانار کے آدم خور تیندوے سے تھا جو مجھے لقمہ بنانے کے لیے بے چین تھا۔ جب ہلکے جھٹکے سے تیندوے نے جھاڑی کو جانچا تو پھر اس نے ان کے نچلے سرے دانتوں میں دبائے اور پوری قوت سے جھٹکے لگانے لگا۔ اس دوران دن کی روشنی پوری طرح ختم ہو گئی اور اب حالات تیندوے کے حق میں تھے۔ تیندوے نے تمام تر انسانی ہلاکتیں رات کے اندھیرے میں کی تھیں جبکہ رات کے اندھیرے میں انسان واحد جانور ہے جو دیکھنے سے بالکل معذور ہو جاتا ہے۔ اگر میں اپنی بات کروں تو اندھیرے میں حوصلہ بالکل جواب دے جاتا ہے۔ رات کے اندھیرے میں چار سو انسانی شکار کے بعد تیندوا اب مجھ سے بالکل بھی خوفزدہ نہیں تھا کیونکہ اب وہ جھاڑیوں کو اکھاڑنے کی کوشش کر رہا تھا۔ اب اس کی غراہٹ اتنی بلند ہو گئی تھی کہ گاؤں میں بیٹھے افراد بھی اسے سن سکتے ہوں گے۔ اگرچہ میرے آدمیوں نے مجھے بعد میں بتایا کہ تیندوے کی غراہٹ سے ان کے حوصلے ہوا ہو رہے تھے جبکہ مجھ پر اس کا الٹا اثر ہو رہا تھا۔ اس کی غراہٹ سے مجھے اندازہ ہو رہا تھا کہ تیندوا اب کہاں ہے اور کیا کر رہا ہے۔ جب تیندوا خاموش ہوتا تو مجھ پر دہشت طاری ہوتی کہ اب تیندوا کہاں ہوگا اور کیا کرنے والا ہوگا۔ کئی بار تیندوے نے شاخیں کھینچ کر اچانک چھوڑیں تو میں نیچے گرتے گرتے بچا۔ اندھیرے میں اور بغیر کسی سہارے کے بیٹھا ہونے کی وجہ سے مجھے پورا یقین تھا کہ اگر تیندوا جست لگا کر مجھے محض چھو بھی لیتا تو میں نیچے گر جاتا۔
کئی بار خاموشی کے وقفوں کے بعد تیندوا جست لگا کر منڈیر پر چڑھا اور بکرے کی جانب بھاگا۔ روشنی کو مدنظر رکھتے ہوئے میں نے یہ سوچا تھا کہ تیندوے کو آتا دیکھ سکوں گا۔ اسی وجہ سے میں نے بکرا تیس گز دور بندھوایا تھا تاکہ تیندوے کو بکرے تک پہنچنے سے پہلے مار سکوں۔ تاہم اب تاریکی کی وجہ سے بکرے کو بچانا ممکن نہیں تھا۔ تاہم سفید رنگ کی وجہ سے بکرا مجھے محض دھندلے سے دھبے کی شکل کا دکھائی دے رہا تھا۔ جب بکرے کی جدوجہد ختم ہو گئی تو میں نے احتیاط سے اس جگہ کا نشانہ لیا جہاں میرے اندازے کے مطابق تیندوا تھا اور بندوق چلا دی۔ بندوق چلتے ہی تیندوے کی غصیلی غراہٹ سنائی دی اور میں نے سفید رنگ کے جسم کو الٹی قلابازی کھا کر اوپری کنارے والے کھیت کے پیچھے گم ہوتے دیکھا۔
دس پندرہ منٹ تک میں نے انتہائی پریشانی سے تیندوے کی آوازیں سننے کی کوشش کی اور پھر اپنے ساتھیوں سے پوچھا کہ کیا وہ آ سکتے ہیں؟ اگر وہ بلند زمین سے ہوتے ہوئے آتے تو ان کے لیے کوئی خطرہ نہیں تھا۔ میں نے انہیں کہا کہ وہ صنوبر کی مشعلیں جلا کر اور میری ہدایات پر سختی سے عمل کرتے آئیں۔ صنوبر کے زندہ درخت سے ایک سے ڈیڑھ فٹ لمبے یہ ٹکڑے کاٹے جاتے ہیں۔ چونکہ ان میں کافی گوند اور تیل موجود ہوتا ہے، اس لیے جلانے پر خوب روشنی ہوتی ہے۔ کماؤں کے دور دراز علاقوں میں رات کو روشنی کا یہ واحد ذریعہ ہے۔
کافی شور و غل کے بعد بیس بندے مشعلیں اٹھائے میری ہدایات پر عمل کرتے گاؤں سے نکلے۔ کھیتوں کے اوپر سے چکر کاٹ کر یہ لوگ میرے درخت کے عقب سے پہنچے۔ تیندوے کی ناکام کوششوں سے ان رسیوں کی گرہیں بہت سخت ہو گئی تھیں جنہیں کاٹنا پڑا۔ جب جھاڑیاں ہٹ گئیں تو میرے ساتھی اوپر چڑھے اور مجھے نیچے اترنے میں مدد دی۔ اس شاخ پر بیٹھے بیٹھے میرا نچلا دھڑ سن ہو گیا تھا۔
بیس مشعلوں کی روشنی سے مردہ بکرے والا پورا کھیت روشن تھا لیکن اس سے آگے تاریکی تھی۔ ان لوگوں کو سیگرٹ دے کر میں نے انہیں بتایا کہ تیندوا زخمی ہوا ہے لیکن مجھے زخم کی شدت کا اندازہ نہیں۔ ابھی ہم گاؤں واپس جاتے ہیں اور صبح کو واپس لوٹ کر دیکھیں گے۔ اس پر یہ سب انتہائی مایوس ہوئے اور بولے کہ ‘اتنی دیر میں تیندوا مر چکا ہوگا۔ ہم اتنے سارے بندے ہیں اور آپ کے پاس تو بندوق بھی ہے۔ پھر خطرہ کاہے کا؟ کم از کم اس کھیت کے کنارے تک جا کر تو ہم دیکھ ہی سکتے ہیں کہ کیا تیندوے کے زخۢم بہنے والے خون کے نشانات ہیں؟’ اس بات کے حق اور مخالفت میں اچھی طرح بحث کرنے کے بعد طے ہوا کہ میری مرضی کے برخلاف ہم سب اس کھیت کے کنارے تک جا کر نیچے والے کھیت میں جھانکیں۔
ان کی درخواست قبول کرتے ہوئے میں نے یہ شرط لگائی کہ وہ میرے پیچھے ایک قطار کی صورت میں چلیں گے اور ان کی مشعلیں بلند ہوں گی اور اگر تیندوے نے حملہ کیا تو وہ مجھے تاریکی میں چھوڑ کر نہیں بھاگیں گے۔ بخوشی انہوں نے وعدہ کیا اور مشعلوں کو تازہ کر کے ہم چل پڑے۔ میں سے سے آگے اور وہ لوگ میرے پیچھے پانچ گز کے فاصلے پر تھے۔
بکرے تک تیس گز کا فاصلہ اور اس سے پھر آگے بیس گز تک کھیت کا کنارہ، ہم خاموشی اور احتیاط سے بڑھے۔ جب ہم بکرے تک پہنچے تو نیچے خون کے نشانات دیکھنے کی فرصت نہیں تھی۔ جوں جوں ہم آگے بڑھتے گئے، دوسرے کھیت پر روشنی پھیلتی گئی۔ جب ایک چھوٹی سی پٹی اندھیرے کی رہ گئی تو اچانک غراتے ہوئے تیندوے نے جست لگائی اور منڈیر پر چڑھ کر سامنے آ گیا۔
تیندوے کی غصیلی غراہٹوں میں کوئی ایسی بات ہوتی ہے کہ میں نے ہاتھیوں کی قطار کو بھاگتے دیکھا ہے۔ حالانکہ یہی ہاتھی شیر کے سامنے سیسہ پلائی دیوار کی طرح کھڑے رہتے تھے۔ اس لیے تیندوے کی غراہٹیں سنتے ہی جب میرے ہمراہیوں نے مشعلیں پھینک کر جب دوڑ لگانے کی کوشش کی تو مجھے قطعی حیرت نہیں ہوئی۔ خوش قسمتی سے اس بھگدڑ میں وہ ایک دوسرے سے الجھ کر گرے اور چند مشعلیں نیچے گرنے کے بعد بھی جلتی رہیں اور مجھے تیندوے کے سینے میں چھرے اتارنے میں کوئی دقت نہیں پیش آئی۔
بندوق کی آواز سن کر سب رکے اور ایک کی آواز آئی، ‘ارے نہیں۔ صاحب بالکل بھی ناراض نہیں ہوں گے کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ اس شیطان نے ہمارا پتہ پانی کر دیا تھا۔’ واقعی، چند منٹ قبل درخت پر مجھے اچھی طرح اندازہ ہو گیا تھا کہ آدم خور کس طرح انسانی حوصلے کو پانی کر دیتا ہے۔ جہاں تک مجھے چھوڑ کر بھاگنے کی بات ہے تو اگر میں ان کی طرح کسی شکاری کے پیچھے مشعل اٹھائے ہوتا تو میں بھاگنے میں ان سے آگے ہوتا۔ اس لیے میری ناراضگی بے جا ہوتی۔ بظاہر جتنی دیر میں تیندوے کے معائینے میں مصروف رہا تاکہ ان کی شرمندگی ختم ہو، وہ دو دو اور تین تین کی ٹولیوں میں لوٹے۔ جب سب جمع ہو گئے تو نظریں اٹھائے بغیر میں نے ان سے پوچھا کہ ‘تیندوے کو گاؤں تک لے جانے کے لیے بانس اور رسیاں لائے ہو؟’ تو انہوں نے فوراً کہا ‘جی بالکل۔ لیکن وہ درخت کے پاس چھوڑ آئے ہیں۔’ میں نے کہا کہ ‘جا کر لے آؤ۔ میں جب تک گاؤں جا کر چائے پیتا ہوں۔’ شمالی یخ بستہ ہوا سے ملیریا کا حملہ ہو گیا تھا اور جب جوش ختم ہوا تو کھڑا ہونا بھی دشوار لگ رہا تھا۔
اس رات، کئی برسوں بعد سانولی کے لوگ آرام سے سوئے اور اس کے بعد سے ہمیشہ خطرے سے پاک نیند سوتے آ رہے ہیں۔
چکہ کا آدم خور
1
چکہ کے آدم خور کے نام سے مشہور ہونے والا یہ چھوٹا سا گاؤں لدھیا وادی میں دریائے سردا کے دائیں جانب واقع تھا۔ یہاں کل دس گھرانے آباد تھے اور اس کے قریب وہ جگہ تھی جہاں دریائے سردا لدھیا وادی سے ملتا ہے۔ اس گاؤں سے چوتھائی میل دور سے راستہ فائر ٹریک سے ہوتا ہوا تقسیم ہوتا ہے۔ ایک شاخ ٹھاک کو اور دوسری سیدھی اوپر جا کر پہاڑی عبور کرتے ہوئے کوٹ کندری کو جاتی ہے جو چکہ کے لوگوں کی ملکیت ہے۔
اس دوسری شاخ پر ایک بندہ 1936 کے موسم سرما میں اپنے دو بیلوں کے ساتھ جا رہا تھا۔ جب وہ چکہ پہنچا تو اچانک ایک شیر راستے پر نکل آیا۔ اس بندے نے انتہائی بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے خود کو بیلوں اور شیر کے درمیان لا کر شور مچانا اور لاٹھی ہلانا شروع کر دیا تاکہ شیر بھاگ جائے۔ موقعے سے فائدہ اٹھا کر بیل مڑ کر گاؤں کی جانب بھاگ پڑے۔ بیلوں کو ہاتھ سے جاتا دیکھ کر شیر نے بندے پر توجہ مرکوز کی۔ شیر کے اس برتاؤ سے خبردار ہو کر یہ بندہ مڑا تاکہ وہ بھی بھاگ سکے۔ تاہم اس کے مڑتے ہی شیر اس پر تھا۔ اس بندے نے شانوں پر بھاری ہل رکھا ہوا تھا اور کمر پر تھیلا لٹکا ہوا تھا جس میں اس نے چکہ میں قیام کے لیے راشن وغیرہ اٹھایا ہوا تھا۔ جتنی دیر شیر نے ہل اور سامان پر دانت تیز کیے، بندے نے سارا کچھ اتار پھینکا اور سیدھا گاؤں کو شور مچاتا بھاگا۔ اس کے دوست احباب اس کی چیخوں کو سن کر اس کی مدد کو پہنچے اور یہ بندہ لشٹم پشٹم گاؤں پہنچ گیا۔ شیر کے ایک پنجے سے اس کا دائیاں بازو کندھے سے کلائی تک زخمی ہو گیا تھا جہاں گہرا زخم تھا۔
کئی ہفتے بعد دو بندے تنک پور کے بازار سے واپس لوٹ رہے تھے۔ جب وہ کوٹ کنڈری کے راستے پر چڑھے تو انہوں نے پچاس گز دور ایک شیر کو اپنے آگے بیٹھا ہوا پایا۔ چند منٹ کا توقف کرکے کہ شیر ہٹ جائے، یہ بندے شورمچاتے آگے بڑھے۔ تاہم شیر اسی جگہ موجود تھا اور جب وہ اس کے سامنے سے گذرے تو شیر نے آگے والے بندے پر جست لگائی۔ اس بندے نے گڑ کا تھیلا اٹھایا ہوا تھا۔تھیلا نصف اس کے سر اور نصف اس کی پشت پر تھا۔ شیر کے دانت اسی تھیلے میں گڑ گئے جسے وہ اٹھائے پہاڑی سے نیچے اترا۔ خوش قسمتی سے بندہ زخمی نہیں ہوا۔ اس بارے تو کوئی معلومات نہیں ہیں کہ شیر نے اپنے مال غنیمت یعنی ہل اور گڑ کے تھیلے کے ساتھ کیا سلوک کیا تھا لیکن ظاہر ہے کہ اسے پسند نہیں آیا ہوگا اس لیے اس نے اب صرف ان افراد پر حملہ کرنا شروع کر دیا جن پر ہل یا تھیلے نہ لدے ہوں۔
چکہ سے تین ہزار فٹ اونچی جگہ پر واقع ٹھاک کی آبادی کافی ہے۔ گورکھوں سے قبل کماؤں پر چند راجا حکمران تھے جنہوں نے ٹھاک کی زمین موجودہ لوگوں کے آباؤ اجداد کو تحفتاً دی تھی جو نسل در نسل پرناگری کے مندروں کی دیکھ بھال کرتے آ رہے تھے۔ زرخیز زمین اور مندروں سے ہونے والی معقول آمدنی کے باعث ٹھاک کے لوگوں نے اچھے خاصے گھر بنائے ہوئے تھے اور مویشیوں کے بڑے بڑے ریوڑ ان کی ملکیت تھے۔
1937 میں جون کے اوائل میں سات مرد اور دو لڑکے ٹھاک کے مغرب میں دو سو گز کے فاصلے پر گاؤں کے مویشی چرا رہے تھے۔ دس بجے انہوں نے دیکھا کہ میدان کے کنارے پر جنگل کی طرف کچھ مویشی چلے گئے ہیں۔ چودہ سال کے ایک لڑکے کو انہوں نے مویشی لانے بھیجا۔ دن کی گرمی کے باعث یہ افراد سو رہے تھے۔ چھ گھنٹے بعد جب میدان کے کنارے جنگل میں کاکڑ بولا تو ان کی آنکھ کھلی۔ اس دوران تقریباً سارے ہی مویشی ادھر ادھر پھیل گئے تھے۔ انہوں نے دوسرے لڑکے کو اتفاق سے چودہ سال کا ہوگا، کو بھیجا تاکہ مویشی واپس لے آئے۔ اس کے جنگل میں داخل ہونے کی کچھ دیر بعد مویشیوں میں بھگدڑ مچ گئی اور جب وہ ایک چوڑی کھائی عبور کر رہے تھے تو انہوں نے دیکھا کہ ایک شیر نے ایک گائے پر حملہ کر کے ان کے سامنے اسے ہلاک کر دیا۔ مویشیوں کے شور اور ان افراد کی چیخ و پکار کے سبب گاؤں والے لوگ متوجہ ہوئے اور کھائی کے کنارے اونچی جگہ پر چڑھ کر دیکھنے لگے۔ دوسرے لڑکے کی بیوہ ماں ابھی ان لوگوں میں شامل تھی۔ جب اس نے چرواہوں کو اپنے بیٹے کو آوازیں دیتے سنا تو وہ بھاگ کر نیچے اتری تاکہ پوچھ سکے کہ کیا ہوا ہے۔ اسی وقت پہلے لڑکے کے والدین بھی آن پہنچے اور ان کے پوچھنے پر چرواہوں کو یاد آیا کہ صبح دس بجے سے پہلا لڑکا غائب ہے۔
مجمع سارا جمع ہو کر کھائی میں مردہ گائے تک پہنچا۔ پھر دوسرے لڑکے کی ماں جنگل میں گھسی تو اسے اپنے بیٹے کی لاش اسی جگہ دکھائی دی جہاں شیر نے اسے ہلاک کیا تھا۔ اس کے پاس ہی دوسرے لڑکے کی ادھ کھائی لاش بھی پڑی تھی۔ ان کے پاس ہی ایک مردہ بچھڑا بھی پڑا تھا۔ بعد میں جب مجھے ان لوگوں نے اس روز کے واقعات بتائے تو میں نے اندازہ لگایا کہ شیر اس جگہ جنگل میں لیٹا میدان میں چرنے والے مویشیوں کو دیکھ رہا تھا۔ جب چرواہوں کی لاعلمی میں بچھڑا جنگل میں گھسا تو شیر نے اسے ہلاک کر دیا۔ تاہم قبل اس کے شیر بچھڑے کو کہیں اور لے جاتا، پہلا لڑکا یا تو تجسس یا پھر اتفاق سے اسی جگہ آن پہنچا۔ شیر نے اسے ہلاک کیا اور جھاڑی کے نیچے گھسیٹ کر آدھا کھا لیا۔ اس کے بعد شیر چار بجے تک اسی جگہ لیٹا رہا۔ پھر نزدیک والے چھوٹے تالاب سے پانی پینے انے والے کاکڑ نے شیر کو دیکھ کر یا اس کی بو پا کر خطرے کی آواز نکالی۔ اسی آواز کو سن کر چرواہے نیند سے بیدار ہوئے۔ جب انہوں نے دیکھا کہ مویشی جنگل میں گھس گئے ہیں تو انہوں نے دوسرے لڑکے کو بھیجا۔ یہ دوسرا لڑکا بدقسمتی سے سیدھا اسی جگہ آن پہنچا جہاں شیر اپنے شکاروں کے ساتھ لیٹا تھا۔
بظاہر دوسرے لڑکے کی ہلاکت کو مویشیوں نے دیکھا اور اس کی مدد کو لپکے۔ میں نے گائے اور بھینسوں کو حملہ کر کے شیروں کو بھگاتے دیکھا ہے۔ جب شیر بھاگ گیا تو مویشی بھی بھاگ نکلے۔ اپنے شکاروں سے محروم ہونے پر اور مویشیوں سے زخمی ہونے کے بعد شیر غصے کے عالم میں دیگر جانوروں پر لپکا اور جو بھی جانور اس کے ہتھے چڑھا، اسے ہلاک کر دیا۔ اگر یہ جانور سارے گاؤں تک نہ پہنچ جاتے تو شیر کسی کو بھی زندہ نہ چھوڑتا۔ اسی طرح ایک بار جب 5 بھینسوں نے شیر کو بھگانے کی کوشش کی تو شیر نے پانچوں کی پانچوں بھینسوں کو شدید جد و جہد کے بعد ہلاک کر دیا۔ شیر نے دراصل ایک بھینس کو ہلاک کیا تو دیگر چار نڈر بھینسیں اس کی مدد کو لپکیں۔ انتہائی خونخوار لڑائی کے بعد شیر نے ان سب کو ہلاک کر دیا۔ ظاہر ہے کہ شیر خود بھی کافی زخمی ہوگا کیونکہ جب لڑائی کے اختتام پر شیر ایک طرف گیا تو خون کی لکیر بنتی گئی۔
دن دیہاڑے دو مویشیوں اور دو انسانی جانوں کا اتلاف میرے نزدیک اس وجہ سے ہوا کہ شیر کو اس کے پہلے شکار پر تنگ کیا گیا۔ تاہم اس کے نتیجے میں الموڑہ اور نینی تال میں بہت شور و غوغا ہوا اور اس شیر کو مارنے کی ہر ممکن کوشش کی گئی۔ بہت مواقع پر سرکاری افسران مچانیں باندھ کر شیر کے شکاروں پر بیٹھے۔ دو بار شیر زخمی تو ہوا لیکن مارا نہ جا سکا۔ دونوں ہی بار اسے گولی کی بجائے چھرے لگے تھے۔ شیر نے انسان ہڑپ کرنے کا سلسلہ جاری رکھا اور ٹھاک سے بھی ایک شکار کیا۔
ٹھاک سے دو سو گز اوپر گندم کا کھیت ہے۔ اس کھیت سے فصل تو کٹ چکی تھی اور دو لڑکے اپنے چند جانور اسی کھیت میں چرا رہے تھے۔ حفاظت کے خیال سے یہ دونوں بھائی جو دس اور بارہ سال کے تھے، کھیت کے عین درمیان میں بیٹھے تھے۔ کھیت کی دوسری جانب چند ہلکی سی جھاڑیاں تھیں۔ اس کے بعد ہزار فٹ تک پہاڑی تقریباً عمودی بلند ہوتی جاتی تھی۔ اس پوری پہاڑی پر کہیں سے بھی دیکھا جاتا تو دونوں لڑکے صاف دکھائی دیتے۔ سہہ پہر کے قریب ایک گائے انہی جھاڑیوں کے پاس پہنچی تو دونوں بھائی ساتھ ساتھ چلتے ہوئے گائے کو واپس لانے کے لیے روانہ ہوئے۔ آگے چلتے ہوئے جونہی بڑا بھائی ایک جھاڑی کے قریب سے گذرا تو اس میں لیٹے ہوئے شیر نے جست لگا کر اسے دبوچ لیا۔ چھوٹا بھائی سیدھا گاؤں کو بھاگا اور وہاں موجود بندوں کے قدموں میں گر کر سسکیاں لینے لگا۔ جب لڑکا بولنے کے قابل ہوا تو بس یہی بتا سکا کہ اس کے بھائی کو لال رنگ کا بڑا سارا جانور لے گیا ہے۔ بے چارے لڑکے نے اس سے قبل کبھی بھی شیر نہیں دیکھا تھا۔ اسی وقت تلاش کے لیے جمعیت روانہ ہوئی اور انہوں نے بہت بہادری کے ساتھ ایک میل سے بھی زیادہ فاصلے تک انتہائی گھنے جنگل میں خون کے نشانات کا پیچھا کیا۔ یہ جنگل سوار گڑھ نامی کھائی میں ٹھاک کے مشرق کو واقع تھا۔ جب رات ہونے لگی تو یہ بندے واپس ٹھاک کو لوٹ آئے۔ اگلی صبح وہ لوگ دیگر دیہاتوں کے لوگوں کو ساتھ لے کر تلاش کو نکلے اور اس بار انہوں نے لڑکے کی محض لال ٹوپی اور خون سے رنگی کپڑوں کی دھجیاں پائیں۔ چکہ کے آدم خور کا یہ آخری انسانی شکار تھا۔
جب تک خطرہ سامنے نہ ہو، کسی کے حوصلے کا اندازہ لگانا مشکل کام ہے۔ ایسے افراد جو آدم خور کی سلطنت میں نہ رہ رہے ہوں، وہ شاید سمجھیں کہ ایک لڑکے کی ماں کا اکیلے جنگل میں اپنے بیٹے کی تلاش میں نکلنا معمولی بات ہے یا پھر دو لڑکے مل کر اپنے مویشی چرا رہے ہوں یا پھر گمشدہ لڑکے کی تلاش میں ایک جماعت نکلے۔ تاہم جو بندے آدم خور کی سلطنت میں رہے ہوں، وہ بہتر جانتے ہیں کہ اکیلی عورت کا گھنے میں جنگل میں یہ جانتے ہوئے بھی گھسنا کہ وہاں ناراض شیر موجود ہے یا پھر دو بچوں کا ایک ساتھ مل کر بیٹھا تاکہ اپنی حفاظت کر سکیں یا پھر آدم خور کے شکار سے نکلے ہوئے خون کے نشانات کا پیچھا کرنا بہادری کے ایسے کام ہیں جن کے لیے خصوصی حوصلہ درکار ہے۔
2
چکہ کے آدم خور نے وادی لدھیا میں نظام زندگی درہم برہم کیا ہوا تھا۔ جب ایبٹسن کو نینی تال، الموڑہ اور گڑھوال کا مشترکہ ڈپٹی کمشنر بنایا گیا تو ہم نے مل کر اس آدم خور کے شکار کی ٹھانی۔
اپریل 1937 کی جھلساتی ہوئی سہہ پہر کو ابیٹسن، ان کی بیگم اور میں برامدیو کے اوپر بوم پر اپنی بس سے اترے۔ ہم لوگ علی الصبح نینی تال سے نکلے تھے اور ہلدوانی اور تنک پور سے ہوتے ہوئے ہم بوم پہنچے تو دن کا گرم ترین وقت تھا اور سر سے پاؤں تک ہم گرد میں اٹے ہوئے تھے اور جسم درد سے ٹوٹ رہا تھا۔ گرم چائے کا کپ پی کر کچھ جان میں جان آئی اور ہمت بحال ہوئی۔ دریا کے کنارے سے مختصر راستہ اپناتے ہوئے ہم تھلی گڑھ روانہ ہوئے جہاں ہمارے خیمے پہلے سے بھجوا دیئے گئے تھے۔
اگلے دن ناشتے کے بعد ہم کالا ڈھنگا سے نکلے۔ تھلی گڑھ اور کالا ڈھنگا کا درمیانی فاصلہ اگر سردا کی کھائی سے دیکھا جائے تو آٹھ میل جبکہ براستہ پرناگری چودہ میل بنتا ہے۔ دونوں ایبٹسن اور میں نے سردا کی کھائی سے جانا کا فیصلہ کیا اور ملازمین کو سامان سمیت پرناگری والے راستے سے بھیج دیا۔ سردا کی کھائی چار میل لمبی ہے اور اس پر کسی زمانے میں جے وی کولئیر نے ٹرام کی پٹڑی بچھائی تھی تاکہ نیپال سے دس لاکھ مکعب فٹ لکڑی کو ہندوستان لایا جا سکے۔ یہ لکڑی نیپال نے پہلی جنگ عظیم کے بعد اظہار تشکر کے لیے تحفہ دی تھی۔ بعد کے عرصے میں پٹڑی ختم ہو گئی تھی کیونکہ یہاں سیلاب اور لینڈ سلائیڈز عام ہیں۔ اس لیے یہ چار میل کا فاصلہ ہمیں چٹانوں پر چڑھتے ہوئے گذارنا تھاجہاں اگر ہاتھ یا پاؤں پھسل جاتا تو کئی سو فٹ نیچے یخ بستہ دریا میں جا گرتے۔ تاہم ہم لوگ کھائی سے بحفاظت نکل آئے اور جہاں یہ پٹڑی جنگل میں داخل ہوتی تھی، وہاں ہم نے دریا سے دو مچھلیاں پکڑیں۔ اس جگہ پانی میں عام مکان کے برابر حجم کی چٹانیں نکلی ہوئی تھیں۔
پٹواری اور فارسٹ گارڈوں کو پہلے سے پیغام بھجوا دیا گیا تھا جنہوں نے کالا ڈھنگا آ کر ہم سے ملنا اور آدم خور کے بارے معلومات مہیا کرنی تھیں۔ جب ہم بنگلے پر پہنچے تو چار افراد ہمارا انتظار کر رہے تھے۔ ان سے ملنے والی اطلاعات کافی حوصلہ افزا تھیں۔ گذشتہ چند دنوں میں کوئی انسانی ہلاکت نہیں ہوئی تھی اور ٹھاک کے گاؤں کے قریب رہنے والے شیر نے تین دن قبل ایک بچھڑا مارا تھا۔
کالا ڈھنگا دراصل کون کی شکل کا آہستہ آہستہ بلند ہوتا ہوا علاقہ ہے جو چار میل لمبا اور ایک میل جتنا چوڑا ہے۔ اس کے تین اطراف میں دریائے سردا جبکہ چوتھی جانب 5000 فٹ اونچی چوٹی ہے۔ یہاں کے بنگلےکے تین کمرے اور ایک بڑا برآمدہ ہے جس کا رخ مشرق کی جانب ہے۔ یہ بنگلہ بذات خود کالا ڈھنگا کے اوپری یعنی شمالی سرے پر واقع ہے۔ برآمدے سے اگر صبح کو دریا سے اٹھتا کہرا دیکھا جائے تو بہت خوبصورت دکھائی دیتا ہے۔دریائے سردا کے پار وسیع و عریض وادی ہے جس جو سیدھی نیپال تک چلی جاتی ہے۔ دونوں اطراف کی پہاڑیوں پر گھنے جنگلات ہیں۔ وادی سے بل کھاتا ہوا دریا گذرتا ہےا ور اس کے کناروں پر اونچی گھاس اگی ہوئی ہے۔ تاحد نظر کوئی انسانی آبادی دکھائی نہیں دیتی۔ یہاں سے سنائی دینے والی شیر اور دیگر جانوروں کی آوازیں بتاتی ہیں کہ یہ جنگل شکار کے قابل جانوروں سے اٹا ہوا ہے۔ اسی وادی سے کولئیر نے دس لاکھ مکعب فٹ لکڑی ہندوستان بھجوائی تھی۔
ہم نے بقیہ سارا دن کالا ڈھنگا میں ہی گذارا جبکہ ہمارے ساتھی چکہ پہنچ کر ہمارے خیمے گاڑنے میں مصروف ہو گئے۔ جتنی دیر میں وہ لوگ ہمارا کیمپ لگاتے، ہم نے مچھلیاں پکڑنا شروع کر دیں۔ ہم سے مراد ایبٹسن اور ان کی بیوی ہیں کیونکہ میں نے پچھلی رات ملیریا کے حملے کے بعد سوتے جاگتے گذاری تھی۔ اس لیے میں کنارے پر بیٹھ کر ان کو دیکھنے لگا۔ بنگلے کے نیچے جہاں سے دریا کی تہہ کٹی پھٹی ہے، سے لے کر پانچ سو گز تک ان میاں بیوی نے اپنی اپنی بنسیوں سے دریا کو کنگھالنا شروع کر دیا۔ دونوں ہی ماہر شکاری ہیں۔ تاہم کوئی مچھلی نہ دکھائی دی۔ نیپال کی وادی سے آنے والا ایک چھوٹا دریا جب دریائے سردا سے ملتا ہے تو اس جگہ دریا سردا کا پاٹ پھیل جاتا ہے اور پانی اتھلا ہے۔ دو سو گز دور جا کر یہ پانی ایک بڑے تالاب میں گرتا ہے۔ اسی جگہ دریا کے تقریباً درمیان سے ایبٹسن نے پہلی مچھلی پکڑی۔ یہ آٹھ پاؤنڈ وزنی تھی اور انتہائی احتیاط سے اسے کنارے پر لائے کیونکہ ان کی بنسی ہلکی تھی۔
مچھلی کے شکار کے شوقین افراد دوسروں کو شکار کرتا دیکھ کر بھی لطف اندوز ہوتے ہیں۔ اسی طرح میں دوسروں کو شکار کرتے دیکھ کر اتنا ہی محظوظ ہوتا ہوں۔ خصوصاً جب مچھلی مشکل سے ملے، پاؤں رکھنے کی جگہ بہت مشکل ہو اور دریا تیز بہہ رہا ہو۔ ایبٹسن کے تھوڑی دیر بعد ان کی بیوی نے بھی ایک چھ پاؤنڈ کی مچھلی کنارے سے تیس گز دور پکڑی۔ ان کی بنسی میں محض سو گز جتنی ڈور تھی اور انہیں یہ خطرہ ہوا کہ کہیں یہ مچھلی تالاب میں جا کر ہاتھ سے نکل نہ جائے، اس لیے انہوں نے چرخی گھماتے ہوئے الٹے قدموں چلنا شروع کر دیا۔ فوراً ہی ان کا پیر پھسلا اور ایک منٹ تک محض ان کی بنسی اور ان کا ایک پیر ہی پانی کی سطح پر دکھائی دیتا رہا۔ شاید آپ یہ سوچ رہے ہوں کہ اپنا بخار بھول بھال کر میں نے ان کی مدد کے لیے پانی میں چھلانگ لگا دی ہو۔ تاہم میں اپنی جگہ بیٹھا قہقہے لگاتا رہا کیونکہ دونوں میاں بیوی ماہر تیراک ہیں اور ان کو ڈوبنے سے بچانے کی کوشش ایسے ہی ہے جیسے اود بلاؤ کو ڈوبنے سے بچانا۔ کافی لمبی کشمکش کے بعد جین سیدھی ہوئیں اور پھر مچھلی کو باہر کنارے پر لا کر ہلاک کیا۔ فوراً ہی ایبٹسن کا پیر پھسلا اور وہ، ان کی بنسی اور سب کچھ پانی کے نیچے۔
نیچے جہاں تالاب ختم ہوتا ہے، دریا کا رخ دائیں جانب مڑتا ہے۔ اسی موڑ کے نیپال کی جانب ایک بڑا سیمل کا درخت تھا جس کی اوپری شاخوں پر بہت سالوں سے بازوں کا ایک جوڑا اپنے گھونسلے میں رہتا تھا۔ یہ درخت پرندوں کی پسندیدہ آماج گاہ تھی کیونکہ یہاں سے وہ نہ صرف دریا کا بخوبی مشاہدہ کر سکتے تھے بلکہ اس کی شاخوں پر لا کر مچھلی بھی کھا سکتے تھے۔ تاہم پچھلے سال کی برسات میں دریا نے کنارے کو اتنا کاٹ دیا کہ یہ درخت بہہ گیا۔ اب بازوں کا یہ جوڑا دریا سے سو گز دور شیشم کے اونچے درخت پر گھونسلے میں رہتا تھا۔
دریا کے اس جگہ بہاؤ کو شاید ان بازوں نے اپنی پسندیدہ شکار گاہ کا درجہ دے رکھا تھا۔ جتنی دیر نر باز مچھلی کے چکر میں ایبٹسن کے سر پر چکر لگاتا رہا، مادہ گھونسلے میں آرام سے بیٹھی رہی۔ تنگ آ کر نر باز نے دریا کے بہاؤ کی سمت رخ کیا اور جہاں کئی چٹانیں پانی سے باہر نکلی ہوئی تھیں۔ اس جگہ کافی مچھلیاں ہوں گی کیونکہ باز نے کئی بار بلند ہو کر پر سمیٹ کر انتہائی تیز رفتاری سے غوطہ لگایا لیکن ہر بار پانی کی سطح سے ذرا اوپر پر پھیلا کر دوبارہ اٹھ جاتا۔ آخر کار اسے صبر کا پھل مل ہی گیا۔ جونہی اس کے عین نیچے ایک مچھلی بے خبری میں سطح کے قریب پہنچی، باز نے سیدھا حملہ کیا۔ پلک جھپکتے ہی سو فٹ کی بلندی پر اڑنے والا باز پانی کے نیچے پہنچ گیا۔ سوئی کی طرح تیز اور فولاد کی طرح مضبوط پنجوں نے مچھلی کو پکڑ لیا تھا۔ تاہم یہ مچھلی کی طاقت سے زیادہ بڑی تھی۔بار بار اس نے اوپر اٹھنے کی کوشش کی لیکن پھر سینے تک پانی میں ڈوب جاتا۔ میرا خیال ہے کہ اگر عین وقت پر اس کی مدد کو ہوا کا جھونکا نہ پہنچتا تو باز کو مچھلی چھوڑنی پڑتی۔ جونہی جھونکا پہنچا، اس نے بہاؤ کی سمت رخ کیا اور آخرکار مچھلی سمیت پانی سے نکل آیا۔ چونکہ اس کا گھونسلہ اس کی اڑان کے عین مخالف سمت تھا، اس لیے باز نے مچھلی کو اٹھائے سیدھا ایک بڑے پتھر کا رخ کیا۔
تاہم باز کی اس کشمکش کو میں اکیلا ہی نہیں دیکھ رہا تھا کیونکہ باز جونہی پتھر پر پہنچا، دوسرے کنارے پر کپڑے دھوتی عورت نے چلا کر کچھ کہا اور ایک لڑکا فوراً ہی اس کے اوپر چٹان سے نمودار ہوا۔ انتہائی ڈھلوان پتھریلے راستے پر بھاگتے ہوئے لڑکا عورت تک پہنچا اور اس سے ہدایات لے کر سیدھا کنارے کنارے ہوتا ہوا بھاگا۔ اس جگہ اتنے پتھر تھے کہ ہر قدم پر پاؤں یا گردن ٹوٹنے کا خطرہ تھا۔ لڑکے کو دیکھتے ہی باز نے مچھلی کو چھوڑ کر ہوا کا رخ کیا۔ جب لڑکے نے مچھلی سر سے اوپر اٹھا کر عورت کو دکھائی تو باز اس کے سر پر چکر کاٹ رہا تھا۔ میرا اندازہ ہے کہ یہ مچھلی چار پاؤنڈ وزنی ہوگی۔
پھر کچھ دیر کے لیے باز ہماری نظروں سے دور ہو گئے۔ تاہم جونہی ہم نے دوپہر کا کھانا ختم کیا، مجھے ہوا میں چکر کھاتا باز اسی جگہ دکھائی دیا جہاں لڑکے نے اس کا شکار چھینا تھا۔ ایک ہی بلندی پر آگے پیچھے اڑتے اڑتے اس نے کئی منٹ گذارے اور پھر اچانک اس نے پچاس فٹ کا غوطہ لگایا اور پھر سیدھا ہوا اور پھر غڑاپ سے پانی میں۔ اس بار اس نے نسبتاً ہلکی مچھلی پکڑی تھی جو دو پاؤنڈ کی ہوگی۔ اس بار وہ آسانی سے پانی سے نکلا اور تارپیڈو کی مانند مچھلی کو اٹھائے ہوئے کہ ہوا کا دباؤ نہ پڑے، اس نے اپنے گھونسلے کا رخ کیا۔ اس دن اس کی قسمت روٹھی ہوئی تھی کیونکہ ابھی وہ پچاس گز ہی گیا ہوگا کہ اس کے عقب سے ایک عقاب نکلا اور سیدھا باز کی جانب لپکا۔ عقاب باز کی نسبت کم از کم دو گنا بڑا اور دو گنا وزنی ہوگا۔ باز نے جونہی اسے آتے دیکھا تو سیدھا دائیں جانب مڑا تاکہ جنگل میں عقاب سے پیچھا چھڑا سکے۔ عقاب نے بھی اس کی ہی حرکت دیکھی تو غصے سے چیخ ماری اور رفتار بڑھا دی۔ جنگل ابھی بیس گز مزید دور رہا ہوگا لیکن خطرہ بہت بڑھ گیا تھا۔ اس لیے باز نے مچھلی کو چھوڑا اور سیدھا اوپر کا رخ کیا۔ ابھی مچھلی ایک گز بھی نیچے نہ گری ہوگی کہ عقاب نے اپنے فولادی پنجے اس میں گاڑ دیئے اور پروقار انداز سے مڑ کر اسی جانب اڑنے لگا جہاں سے آیا تھا۔ تاہم مفت کا یہ مال اسے اتنی آسانی سے ہضم نہیں ہونا تھا کیونکہ تھوڑے فاصلے پر دو کوے اس کے پیچھے لگ گئے۔ یہ کوے عموماً باز کے شکار کے بچے کھچے سے اپنا پیٹ بھرتے تھے۔ ان سے پیچھا چھڑانے کے لیے بھی عقاب کو جنگل کا رخ کرنا پڑا۔ جنگل کے کنارے پہنچتے ہی کوؤں نے رخ بدلا اور اسی وقت آسمان سے دو بڑے عقابوں نے سیدھا اسی جگہ غوطہ لگایا جہاں پہلا عقاب مچھلی لے کر گھسا تھا۔ مجھے انتہائی افسوس ہے کہ میں اس پورے واقعے کے اختتام کو نہیں دیکھ سکا۔ چونکہ کافی دیر تک کوئی بھی عقاب جنگل سے باہر نہیں نکلا، مجھے یقین ہے کہ پہلے عقاب نے مچھلی کو نہیں چھوڑا ہوگا اور اپنی جان گنوائی ہوگی۔ ایک بر پہلے بھی میں نے اس سے کہیں زیادہ دلچسپ واقعہ دیکھا تھا۔ اُس بار میں اٹھارہ ہاتھیوں، دس شکاریوں اور پانچ تماشائیوں کے ساتھ لمبی گھاس کے قطعے سے گذر رہا تھا۔ شکاری اڑنے والے کالے تیتروں کا شکار کر رہے تھے کہ اچانک سامنے ایک چھوٹی چڑیا کو چڑی مار نے مارا۔ اس سے فوراً ہی شکرے نے چڑیا چھینی۔ شکرے سے فوراً ہی چڑیا باز نے اور باز سے شاہین نے چھینا اور اسے فوراً ہی ہڑپ کر گیا۔ اس دوران چڑیا ایک بار بھی زمین پر نہیں گری۔ فروری کی اس صبح اگر میرے ساتھ موجود کوئی شکاری یا تماشائی اسے پڑھ رہا ہو تو اسے فوراً ہی یہ واقعہ یاد آ جائے گا۔
اگلی صبح جلدی جلدی ناشتہ کر کے ہم لوگ کالا ڈھنگا سے چکہ کو نکلے جو پانچ میل کے آسان سفر پر مشتمل تھا۔ یہ دن ان دنوں میں سے ایک تھا مچھلی کے شکاریوں کے ذہن میں ہمیشہ تازہ رہتے ہیں۔ سورج کی تماذت بہت اچھی لگ رہی تھی اور شمال سے سرد ہوا چل رہی تھی۔ دریا میں بڑی مچھلیوں کی بہتات تھی جو فوراً ہی چارہ نگلنے کو بے تاب ہو رہی تھیں۔ ہلکی بنسیوں کی مدد سے ہم نے شکار جاری رکھا اور کئی بار مچھلیاں کانٹا نگلنے کے بعد بھی ہمارے ہاتھوں سے نکل گئیں۔ تاہم شام کو ہمارے پاس اتنی مچھلیاں تھیں کہ آسانی سے 30 بندوں کا کیمپ بخوبی اپنا پیٹ بھر سکتا تھا۔
3
آدم خور کے شکار اور انسانی جانوں کو بچانے کی نیت سے ہم نے چھ بھینسے خریدے ہوئے تھے جو تنک پور سے ہماری آمد سے قبل ہی بھجوا دیئے گئے تھے۔ چکہ پہنچے پر پتہ چلا کہ تین راتوں سے یہ بھینسے باندھے جا رہے ہیں اور اگرچہ شیر نے کئی بار ان کے گرد چکر لگائے تھے لیکن ابھی تک سارے بھینسے زندہ سلامت تھے۔ اگلے چار دن ہم لوگ علی الصبح ان بھینسوں کا چکر لگاتے، دن کو جنگل میں پھرتے مبادا کہ شیر سے مڈبھیڑ ہو جائے اور شام کو ان بندوں کے ساتھ جاتے جو بھینسوں کو واپس باندھنے جاتے۔ پانچویں دن وہ بھینسا جو جنگل کے کنارے اس جگہ باندھا گیا تھا جہاں دو لڑکے مارے گئے تھے، کو شیر نے ہلاک کر کے ہٹا لیا تھا۔ تاہم ہماری توقع کے برعکس بھینسے کو اٹھا کر شیر براہ راست جنگل میں گھسنے کی بجائے الٹا کھلے قطعے سے ہو کر پتھریلے راستے سے گذرا۔ چونکہ دو بار قبل اس پر مچان سے گولی چلا کر شاید زخمی بھی کیا گیا تھا اس لیے شیر نے اس درخت کے نیچے سے گذرنے سے گریز کیا تھا۔ کچھ آگے جا کر بھینسے کے سینگ دو چٹانوں میں پھنس گئے۔ جب شیر اسے چھڑا نہ سکا تو اس نے پچھلی رانوں سے تھوڑا سا گوشت کھایا اور پھر چلا گیا۔ پگوں کو تلاش کی کوشش کی تو جنگل اور لاش کے درمیان اس جگہ جہاں بھینسیں لوٹنیاں لگاتی تھیں، پر شیر کے پگ دکھائی دیئے۔ یہ پگ ایک بڑے نر شیر کے تھے۔
سرکاری افسران نہ معلوم کس وجہ سے یہ خیال رکھتے تھے کہ آدم خور شیرنی ہے۔ جب میں نے شیر کے پگ دیہاتیوں کو دکھائے تو انہوں نے معذرت ظاہر کی کہ انہیں مختلف شیروں کے پگوں کا فرق نہیں معلوم اور نہ ہی وہ یہ جانتے ہیں کہ آدم خور نر ہے یا مادہ۔ تاہم انہیں یہ بات معلوم تھی کہ آدم خور کا ایک دانت ٹوٹا ہوا ہے۔ آدم خور کے تمام شکار چاہے وہ انسان ہوں یا جانور، دیہاتیوں نے یہ بات محسوس کی تھی کہ ہر بار شیر کا ایک دانت کھال پر محض خراشیں ہی ڈالتا تھا اور کھال کے اندر نہیں گھس پاتا تھا۔ اس سے انہوں نے نتیجہ اخذ کیا کہ آدم خور کا ایک بڑا دانت ٹوٹا ہوا ہے۔
لاش سے بیس گز دور جامن کا درخت تھا۔ جب ہم نے لاش کو چٹانوں سے گھسیٹ کر باہر نکالا تو ہم نے ایک بندے کو کہا کہ وہ اوپر چڑھ کر دو تین ٹہنیاں توڑ دے جو راستے میں آ رہی تھیں۔ اتفاق سے اس درخت پر ایک ہی شاخ تھی جہاں بیٹھنا ممکن تھا۔ بلندی پر واقع ایک ہی درخت ہر طرف سے صاف دکھائی دیتا تھا۔ مجھے افسوس ہے کہ اگرچہ اس بندے نے درخت پر چڑھنے اور ٹہنیاں توڑنے میں ہر ممکن احتیاط کی تھی لیکن پھر بھی اسے شیر نے دیکھ لیا تھا۔
اس وقت گیارہ بج رہے تھے۔ اپنے ساتھیوں کو گاؤں بھیجا کہ وہ جا کر ہمارے لیے کھانا لے آئیں۔ ایبی اور میں نے ایک گھنی جھاڑی منتخب کی اور اس کے نیچے چلچلاتی دھوپ سے چھپ کر بیٹھے اور باتیں کرتے اور اونگھتے رہے۔ اڑھائی بجے جب ہم کھانا کھا رہے تھے تو اس جگہ جہاں بھینسا مارا گیا تھا، سے کئی مرغ زریں چہچہانے لگے۔ یہ آواز سنتے ہی ہم نے اپنے ساتھیوں کو واپس بھیج دیا۔ ایبی اور ان کا نڈر ملازم شام سنگھ اس جگہ کو چل دیئے جہاں مرغ زریں بول رہے تھے تاکہ آدم خور کی توجہ ہٹا سکیں۔ میں خاموشی سے جامن کے درخت پر چڑھ گیا۔ مجھے آرام سے بیٹھنے کے لیے چند منٹ کا وقفہ دے کر ایبی اور ان کا ملازم جنگل سے واپس آئے اور پھر ٹھاک میں کیمپ کو چل دیئے۔
ایبی کے جانے کے کچھ دیر بعد مرغ زریں پھر سے بولنے لگے اور کاکڑ نے بھی بھونکنا شروع کر دیا۔ ظاہر ہے کہ شیر اب چل پڑا ہے۔ تاہم جب تک گاؤں والے سو نہ جاتے اور دن کی روشنی ختم نہ ہو جاتی، شیر کی واپسی کے امکانات کم تھے۔ پندرہ منٹ کے لگ بھگ بولنے کے بعد کاکڑ چپ ہو گیا اور پھر سورج غروب ہونے تک عام جنگلی پرندوں کی آوازیں آتی رہیں تاہم شیر کی کوئی خبر نہ ملی۔
شفق مدھم ہوتے ہوتے دریا کے دوسرے کنارے پر نیپال کی پہاڑیوں پر غائب ہو گئی۔ اچانک بھینسوں والی جگہ سے کاکڑ بولا۔ بظاہر شیر اسی راستے سے واپس آ رہا تھا جس سے گیا تھا۔ میرے سامنے ایک ٹہنی پر رائفل رکھنے کی بہترین جگہ تھی اور شیر کی آمد پر مجھے صرف اپنا سر جھکا کر رائفل کے دستے پر رکھنا ہوتا۔ منٹوں پر منٹ گذرتے گئے۔ اندازاً ڈیڑھ گھنٹہ گذر گیا ہوگا کہ میں نے پہاڑی کے اوپر سو گز دور سے کاکڑ کے بھونکنے کی آواز سنی۔ اس آواز کے سننے سے قبل شیر پر میرے گولی چلانے کے مواقع ایک کی نسبت دس تھے۔ آواز سنتے ہی یہ امکانات ہزار میں سے ایک رہ گئے۔ صاف ظاہر تھا کہ شیر نے میرے ساتھی کو اس درخت کی ٹہنیاں توڑتے دیکھ لیا تھا اور سورج ڈوبنے اور دوسرے کاکڑ کی آواز کے دوران وہ چھپ کر درخت کی جانب آیا اور مجھے اس پر بیٹھا دیکھ کر واپس لوٹ گیا۔ تاہم اتنی خاموشی سے اس نے حرکت کی کہ مجھے اس کی موجودگی کا علم نہیں ہو سکا۔ اس کے بعد سے کاکڑ اور سانبھر کے بولنے کی آوازیں وقفے وقفے سے آتی رہیں۔ ہر بار یہ آواز دور ہوتی گئی۔ نصف شب کے قریب یہ آوازیں بالکل خاموش ہو گئیں اور جنگل میں نصف شب کا سناٹا طاری ہو گیا۔ یہ وقفہ قدرت نے شاید اس لیے رکھا ہے کہ اس دوران سارے جانور سکون کی نیند سو سکیں۔ وہ افراد جنہوں نے ہندوستانی جنگلوں میں رات گذاری ہے، وہ بخوبی اس وقفے کو پہچانتے ہیں۔ موسم اور چاند کے حساب یہ وقفہ کچھ فرق ہو سکتا ہے لیکن بالعموم رات بارہ سے صبح چار بجے تک یہ وقفہ رہتا ہے۔ اس دوران سارے درندے سوئے رہتے ہیں۔ دیگر جانور جو ان درندوں سے خوفزدہ رہتے ہیں، سکون کا مزہ لے سکتے ہیں۔
ابھی سورج نکلے چند ہی منٹ ہوئے ہوں گے کہ دکھتے جسم کے ساتھ میں درخت سے نیچے اترا۔ درخت کے نیچے ایبٹسن نے گرم چائے کا تھرمس دفن کیا تھا۔ اسے نکال کر میں نے چائے کا کپ پیا۔ تھوڑی دیر بعد میرے دو ساتھی پہنچ گئے۔ ابھی ہم مل کر لاش پر گدھوں سے بچاؤ کے لیے جھاڑ جھنکار ڈال ہی رہے تھے کہ نصف میل دور سے شیر کی آواز سنائی دی۔ واپسی پر جب میں ٹھاک سے گذرا تو سارے عمر رسیدہ افراد نے میری منت کی کہ میں نا امید نہ ہوں۔ انہوں نے بتایا کہ انہوں نے زائچہ بنایا ہے اور دعائیں مانگی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر شیر آج نہیں مارا جا سکتا تو کیا ہوا، کل یا پرسوں یا کسی اور دن وہ لازمی مارا جائے گا۔
گرم پانی کے غسل اور مناسب کھانے نے مجھے پھر سے تازہ دم کر دیا۔ ایک بجے میں ٹھاک والی پہاڑی پر چڑھا۔ ٹھاک پہنچا تو پتہ چلا کہ گاؤں کے اوپر والی پہاڑی پر سانبھر کئی بار بولا ہے۔ اس بار میرا ارادہ تھا کہ میں زندہ گارے پر بیٹھوں گا۔ اس امر کو یقینی بنانے کے لیے کہ اگر میں زندہ گارے پر ہوں تو شیر دوسرے گارے کی لاش پر نہ چلا جائے، میں نے اس کے پاس اخبار کے کئی ورق رکھ دیئے۔ دیہاتیوں نے جس جنگل میں سانبھر کی بولی سنی تھی، وہاں سے گذرنے کے لیے باقاعدہ مویشیوں کی گذرگاہ تھی۔ اسی گذرگاہ کے ایک کنارے پر میں نے رسیوں سے جھولا سا باندھا اور تین بجے اس پر چڑھ کر بیٹھ گیا۔ اسی درخت کی جڑ میں بھینسا بندھا ہوا تھا۔ ایک گھنٹے بعد کاکڑ نے بھونک کر اطلاع دی کہ وادی کے دوسرے کنارے پر ہزار گز دور شیر پہنچ گیا ہے۔ بھینسے کے سامنے بہت سارا تازہ چارہ پڑ اتھا اور اس کی گردن سے گھنٹی بندھی ہوئی تھی۔ تاہم رات بھر گھنٹی بجتے رہنے کے باوجود بھی بھینسا شیر کو اپنی طرف متوجہ کرنے میں ناکام رہا۔ دن کی روشنی ہونے پر میرے ساتھی آئے اور انہوں نے کہا کہ جس کھائی میں لڑکے کی سرخ ٹوپی اور کپڑوں کی دھجیاں ملی تھیں، سے کاکڑ اور سانبھر کی آواز رات کو سنائی دیتی رہی تھیں۔ اسی کھائی کے نچلے سرے پر گاؤں والوں کے کہنے پر ایک بھینسا باندھا گیا تھا۔
جب میں چکہ پہنچا تو پتہ چلا کہ ایبٹسن سورج نکلنے سے قبل کیمپ سے روانہ ہو گئے تھے۔ پچھلی رات خبر ملی تھی کہ ایک شیر نے آٹھ میل دور وادی لدھیا میں ایک بیل ہلاک کیا تھا۔ ساری رات انہوں نے لاش پر بیٹھ کر انتطار کیا لیکن شیر نہ آیا۔ اگلی شام ڈھلے وہ واپس لوٹے۔
4
رات درخت پر گذارنے کے بعد صبح کو جین اور میں ناشتہ کر رہے تھے کہ میرے ساتھی جو بھینسوں کی دیکھ بھال پر معمور تھے، نے آ کر بتایا کہ کھائی کے نچلے سرے پر باندھا گیا بھینسا غائب ہے۔ یہ وہی کھائی تھی جہاں میرے ساتھیوں نے رات کو سانبھر اور کاکڑ کی آوازیں سنی تھیں۔ ابھی یہ خبر سن ہی رہے تھے کہ ڈویژنل فارسٹ آفیسر میک ڈونلڈآن پہنچے۔ وہ اپنا کیمپ کالا ڈھنگا سے چکا منتقل کر رہے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ کھائی کے نچلے سرے پر انہوں نے شیر کے پگ دیکھے تھے۔ یہ پگ بالکل ویسے ہی تھے جیسے انہوں نے اپنے پچھلے دورے پر ٹھاک میں دیکھے تھے اور آدم خور کو ہلاک کرنے کی کوشش کی تھی۔
ناشتے کے بعد جین اور میک تو دریا پر مچھلیاں پکڑنے چلے گئے جبکہ میں نے شام سنگھ کو ساتھ لیا اور غائب شدہ بھینسے کو تلاش کرنے روانہ ہوئے۔ ٹوٹی رسی اور شیر کے پگوں کے علاوہ ہمیں کوئی نشان نہ ملا کہ بھینسا ہلاک ہو گیا ہے۔ تاہم دائرے کی شکل میں چکر کاٹنے پر ایک جگہ بھینسے کے سینگ کی رگڑ دکھائی دی۔ اس جگہ سے آگے خون کے متواتر نشانات دکھائی دینے لگے۔ عین ممکن ہے بھینسے کو مارنے کے بعد شیر کی یاداشت عارضی طور پر جواب دے گئی ہو یا پھر وہ اپنے تعاقب کرنے والوں کو دھوکہ دینا چاہتا ہو، شیر کئی میل انتہائی دشوار گذار جنگل سے گذر کر بھینسے کو واپس اسی جگہ سے دو سو گزد ور لایا جہاں سے اس نے سفر شروع کیا تھا۔ اس جگہ کھائی انتہائی تنگ ہو کر محض دس فٹ چوڑی رہ جاتی تھی۔ عین ممکن ہے کہ اسی تنگ جگہ سے تھوڑا آگے شیر موجود ہو۔ چونکہ میرا ارادہ تھا کہ میں پوری رات یہیں بیٹھ کر گذاروں گا۔ اس لیےمیں نے سوچا کہ جین اور میک کے پاس جا کر دوپہر کا کھانا کھا کر واپس آ جاؤں۔
اپنی بھوک مٹا کر میں شام سنگھ اور ایبٹسن کے تین ملازمین کے ہمراہ واپس لوٹا۔ میرا خیال تھا کہ اگر مجھے لاش مل جاتی اور میں اس پر بیٹھتا تو شام سنگھ کو اکیلا بھیجنا نادانی ہوتی۔ ان چاروں افراد سے کافی آگے چلتے ہوئے میں کھائی میں اس تنگ جگہ تک دوبارہ پہنچا۔ تاہم فوراً ہی شیر نے غرانا شروع کر دیا۔ اس جگہ کھائی انتاہئی تنگ تھی اور ہر جگہ چٹانیں بکھری ہوئی تھیں۔ میرے عین سامنے بیس گز دور شیر گھنی جھاڑیوں کے پیچھے سے غرا رہا تھا۔ جنگل میں قریب موجود چھپے ہوئے شیر کی غراہٹ سے زیادہ اور کوئی چیز دہشت ناک نہیں اور مداخلت کاروں کے لیے کھلی دھمکی ہوتی ہے کہ وہ نزدیک ہونے کی کوشش نہ کریں۔ اس مختصر سی جگہ پر شیر انتہائی محفوظ مقام پر تھا۔ اس لیے مزید آگے جانا حماقت ہوتی۔ اپنے ساتھیوں کو واپسی کا اشارہ کر کے میں نے الٹے قدموں واپس چلنا شروع کر دیا۔ اس طرح کی صورتحال میں پسپائی کا یہ واحد محفوظ طریقہ ہے۔ جونہی اس تنگ جگہ سے نکلا، میں نے سیٹی بجا کر اپنے ساتھیوں کو اشارہ کیا کہ وہ رک جائیں۔ سو گز مزید واپس لوٹ کر میں ان کے پاس پہنچا۔ مجھے شیر کے مقام کا بالکل درست اندازہ ہو چکا تھا اس لیے میں مطمئن تھا کہ اب شیر کا سامنا آسانی سے کر سکوں گا۔ میں نے انہیں کہا کہ وہ واپس لوٹ جائیں۔ تاہم وہ بہت ڈرے ہوئے تھے۔ انہیں اندازہ تھا کہ ابھی جو شیر غرا رہا تھا وہ آدم خور تھا اس لیے وہ واپسی کے سفر پر میرے ساتھ جانا چاہتے تھے۔ اگر میں انہیں واپس لے جاتا تو واپسی تک کم از کم دو گھنٹے ضائع ہو جاتے۔ چونکہ ہم سال کے جنگل میں تھے اس لیے یہاں ایسا درخت دور دور تک نہیں تھا جہاں یہ لوگ چڑھ سکتے۔ اس لیے مجبوراً انہیں ساتھ رکھنا پڑا۔
کھائی کے بائیں جانب والے نرم کنارے پر چڑھ کر ہم لوگ دو سو گز کھائی سے دور چلے اور پھر کھائی کے متوازی چلتے ہوئے دو سو گز آگے جا کر ہم دوبارہ کھائی کی جانب مڑے۔ اب ہم کھائی کے کنارے اس جگہ سے سو گز آگے تھے جہاں سے شیر غرا رہا تھا۔ اب بازی الٹ چکی تھی اور میرا پلڑا بھاری ہو چکا تھا۔ مجھے علم تھا کہ چند ہی منٹ قبل شیر نے کھائی کے نیچے کی طرف انسانوں کو جاتے دیکھا ہے اس لیے وہ اس سمت جانے کا کبھی نہیں سوچے گا اور اگر وہ اوپر کی طرف جاتا تو ہم یہاں موجود تھے۔ ہماری جانب کنارہ تیس فٹ اونچا تھا اور یہاں گھاس پھونس بالکل نہیں تھی۔ اگر ہم شیر کو اس کی کمین گاہ سے بھگانے میں کامیاب ہو جاتے تو اس کے لیے واحد راستہ مخالف کنارے پر چڑھنا ہوتا۔ دس منٹ کے لیے کنارے پر بیٹھ کر ہم نے انتہائی احتیاط سے شیر کو تلاش کرنے کی کوشش کی۔ پھر چند قدم پیچھے جا کر ہم تیس گز بائیں جانب گئے اور پھر کنارے کے قریب پہنچ کر احتیاط سے اوپر جھانکا۔ فوراً ہی میرے ساتھ بیٹھا بندہ بولا ‘شیر’ اور اس نے کھائی کے دوسرے کنارے کی طرف اشارہ کیا۔ مجھے شیر دکھائی نہ دیا تو میں نے اس سے پوچھا کہ اسے شیر کا کتنا جسم دکھائی دے رہا ہے تو اس نے جواب دیا کہ اس نے خشک پتوں کے قریب شیر کے کان ہلتے دیکھے تھے۔ اب پچاس گز کے فاصلے سے شیر کے کان کوئی غیر معمولی چیز نہیں کہ دکھائی دے جائیں اور چونکہ کھائی خشک پتوں سے بھری ہوئی تھی اس لیے شیر کو لاش کرنا مزید مشکل ہو گیا۔ میرے پیچھے بیٹھے بندوں کے ہانپنے سے پتہ چل رہا تھا کہ وہ کتنے پر جوش ہو رہے ہیں۔ ان میں سے ایک بندہ کھڑا ہوا تاکہ بہتر دیکھ سکے کہ شیر نے اسے دیکھ لیا۔ شیر کا رخ ہماری ہی جانب تھا اور اٹھ کر اس نے سیدھا پہاڑی پر چڑھنا شروع کر دیا۔ جب اس کا سر ایک جھاڑی کے عقب سے نکلا ہی تھا کہ میں نے اس پر گولی چلائی۔ بعد میں مجھے پتہ چلا کہ میری چلائی ہوئی گولی اس کی گردن کے بالوں کو کاٹتی ہوئی پتھر سے ٹکرائی تھی اور اسی پتھر کے ریزوں کے لگنے سے شیر اچھلااور ایک بڑی بیل میں جا گرا۔ اسے بیل سے نکلنے میں کچھ مشکل پیش آئی۔ جب وہ بیل سے الجھا ہوا تھا تو ہم سمجھے کہ شیر کا کام تمام ہو گیا ہے۔ تاہم بیل سے نکلنے پر جس رفتار سے شیر بھاگا، شام سنگھ اور میرا یہی خیال تھا کہ شیر زخمی نہیں ہوا۔ پھر اپنے ساتھیوں کو وہیں چھوڑ کر میں نیچے اترا تاکہ جا کر جائزہ لوں۔ وہاں پتھر پر گولی کا نشان، شیر کی گردن کے لمبے بال اور کٹی پھٹی بیل تو دکھائی دیئے لیکن خون کا قطرہ بھی نہیں ملا۔
جب کسی جانور کو گولی لگتی ہے تو عموماً اس سے فوراً ہی خون نہیں بہتا۔ اس لیے ہو سکتا ہے کہ میرا اندازہ غلط ہو کہ میری گولی خطا گئی ہے، اس لیے ضروری تھا کہ میں جا کر لاش کا جائزہ لیتا تاکہ اگلے دن پتہ چلے کہ شیر زخمی ہوا ہے یا نہیں۔ یہ کام کافی مشکل تھا اور ہم نے اس جگہ کا دو بار چکر لگایا پھر جا کر ہمیں لاش دکھائی دی۔ شیر نے لاش کو چار فٹ گہرے تالاب میں چھپایا تھا تاکہ مکھیوں وغیرہ سے محفوظ رہے۔ اپنے تین ساتھیوں کو میں نے واپس راونہ کیا کیونکہ ان کی واپسی اب بخیریت ہوتی۔ شام سنگھ اور میں ایک گھنٹہ وہیں رکے رہے تاکہ جنگل کی سن گن لے سکیں۔ تاہم کچح خاص نہیں سنائی دیا اور پھر ہم کیمپ واپس لوٹ آئے۔ اگلی صبح میک اور میں کھائی میں گئے تو پتہ چلا کہ شیر نے لاش کو تالاب سے نکال کر تھوڑی دور جا رکھا اور کھروں کے سوا باقی سب کچھ کھا چکا تھا۔ لاش کو ہڑپ کرنا اور خون کے نشانات کی عدم موجودگی سے صاف ظاہر تھا کہ شیر زخمی نہیں ہوا اور اپنے خوف پر قابو پا چکا ہے۔
جب ہم کیمپ واپس لوٹے تو ہمیں پتہ چلا کہ دریائے لدھیا کے دوسرے کنارے پر شیر نے ایک گائے کو ہلاک کیا تھا۔ ہمارے آدمیوں نے جب لاش کو دیکھا تو اسے ٹہنیوں وغیرہ سے اچھی طرح ڈھانپ دیا۔ ایبٹسن ابھی تک لدھیا سے آٹھ میل دور گاؤں میں تھے اس لیے دوپہر کا کھانا کھا کر میک اور میں گائے کو دیکھنے نکلے۔ گائے کی لاش کو دوپہر کےو قت ڈھانپا گیا تھا اور شیر اس کے کچھ ہی دیر بعد لوٹ کر آیا اور لاش کو نکال کر لے گیا۔ لاش کو لے جانے کا کوئی نشان بھی اس نے نہیں چھوڑا۔ یہاں جنگل سال کے بہت بڑے درختوں پر مشتمل تھا اور جھاڑ جھنکار سے بالکل پاک تھا۔ شیر نے لاش کو خشک پتوں کے بہت بڑے ڈھیر کے نیچے اس طرح چھپایا تھا کہ ہمیں اسے تلاش کرنے میں ایک گھنٹہ لگ گیا۔ جتنی دیر میں میک نزدیکی درخت پر جھولا نما مچان باندھتے میں نے سگریٹ پی اور ان کی پانی کی بوتل خالی کر دی۔ سائے میں بھی درجہ حرارت 110 ڈگری تھا۔ جب میں مچان پر بیٹھ گیا تو میک واپس کیمپ کو لوٹ گئے۔ ایک گھنٹے بعد کھائی کے دوسرے سرے سے ایک پتھر لڑھکتا ہوا آیا۔ اس کے فوراً بعد ایک شیرنی اور اس کے دو بچے دکھائی دیئے۔ صاف لگ رہا تھا کہ شیرنی اپنے بچوں کو پہلی بار شکار پر لائی ہے۔ یہ دیکھنا کہ شیرنی کس طرح پوری توجہ سے اپنے بچوں کو شکار کردہ جانور پر آتے وقت خطرے سے بچنے کا طریقہ سکھا رہی ہے، انتہائی دلچسپ تھا۔ بچوں کا رویہ بھی ان کی ماں کی طرح ہی تھا۔ قدم بقدم ماں کے پیچھے چلتے آئے اور کبھی اس سے آگے یا اس کے برابر آنے کی کوشش نہیں کی۔قدم بقدم انہوں نے اپنی ماں کی طرح ہر چھوٹی بڑی رکاوٹ سے بچ کر بڑھنا جاری رکھا۔ ہر چند گز پر جونہی ان کی ماں رک کر سن گن لیتی تو وہ بھی پتھر کی طرح اسی جگہ رک جاتے۔ ساری جگہ سال کے بڑے خشک بڑے پتوں سے بھری ہوئی تھی اور خاموشی سے چلنا ناممکن تھا۔ تاہم انہوں نے ہر قدم انتہائی احتیاط سے رکھا اور اٹھایا اور ہر ممکن طور پر کم سے کم آواز پدا کی۔
کھائی کو عبور کر کے بچوں کے ساتھ چلتے ہوئے میرے درخت کے پیچھے آ کر لیٹ گئی۔ یہاں سے لاش تیس گزاور دکھائی دے رہی تھی۔ شاید اس طرح لیٹنا کوئی اشارہ تھا کہ بچے ناک کی سیدھ میں اپنا سفر جاری رکھیں۔ ماں نے کس طرح بچوں کو یہ بات سمجھائی ہوگی کہ آگے تھوڑے فاصلے پر خوراک موجود ہے، میں نہیں جانتا تاہم یہ بات سو فیصد یقینی تھی کہ اس نے بچوں کو کسی نہ کسی طرح بتایا ہے۔ جونہی ماں لیٹی تو بچے اس سے آگے بڑھ گئے۔ کئی بار میں نے اس بات پر زور دیا ہے کہ شیروں میں قوت شامہ یعنی سونگھنے کی حس بالکل نہیں ہوتی۔ اب میرے سامنے شیرنی کے بچے اس کا ثبوت دے رہے تھے۔ اگرچہ شیرنی نے گائے کو گذشتہ روز مارا تھا اور اسے خشک پتوں سے ڈھانپنے سے قبل اس کا کچھ حصہ کھایا بھی تھا۔ جیسا کہ میں نے پہلے بتایا، موسم انتہائی گرم تھا اور میک اور میں نے گائے کی لاش کو آخر کار اس سے نکلنے والی بو سے تلاش کیا تھا۔ اب شیرنی کے دو بھوکے بچے بار بار شیرنی کی لاش کے پاس سے گذر رہے تھے۔ درحقیقت کم از کم درجن بھر مرتبہ تو وہ لاش سے ایک گز سے بھی قریب سے گذرے لیکن اسے تلاش نہیں کر سکے۔ آخر کار مکھیوں کی موجودگی سے انہیں شکار کا درست مقام مولوم ہوا۔ خشک پتوں سے لاش کو باہر گھسیٹ کر انہوں نے کھانا شروع کیا۔ شیرنی جو سارا وقت خاموشی سے بچوں کو دیکھ رہی تھی، نے صرف ایک بار انہیں تنبیہ کی جب وہ کافی دور نکل گئے تھے۔ تاہم جیسے ہی بچوں نے لاش کو تلاش کیا، شیرنی کمر کے بل لیٹ کر پیر ہوا میں پھیلا کر سو گئی۔
ان بچوں کو پیٹ بھرتا دیکھ کر مجھے کئی سال قبل تری سول کے دامن میں اس سے ملتا جلتا ایک اور واقعہ یاد آ گیا۔ اس بار میں پہاڑی بکری کی تلاش میں مخالف سمت کے پہاڑ کا معائینہ دور بین سے کر رہا تھا۔ یہ بکری ناقابل یقین جگہوں پر بھی بحفاظت چلتی ہے۔ نصف چڑھائی پر ایک بکری اپنے بچے کے ساتھ سو رہی تھی۔ تھوڑی دیر بعد وہ بیدار ہوئی اور انگڑائی لینے کے بعد بچے کو دودھ پلانے لگی۔ منٹ بھر کے بعد اس نے اپنے تھن چھڑائے اور چند قدم آگے بڑھ کر اس نے لحظہ بھر توقف کیا اور پھر بارہ یا پندرہ فٹ نیچے ایک اور تنگ سی دراڑ پر چھلانگ لگا دی۔ جونہی بچہ اکیلا ہوا اس نے آگے پیچھے بھاگنا شروع کر دیا۔ بار بار وہ نیچے جھک کر اپنی ماں کو دیکھتا لیکن ہمت جواب دے جاتی اور واپس ہٹ جاتا کیونکہ جہاں اس کی ماں تھی، وہ ددراڑ چند انچ چوڑی تھی اور اس کے نیچے ہزار فٹ کی عمودی گہرائی۔میں چونکہ بہت دور تھا اس لیے میں یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ آیا ماں بچے کی حوٖصلہ افزائی کر رہی تھی کہ نہیں لیکن جس طرح اس نے سر پیچھے کو موڑا ہوا تھا، اس سے مجھے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ بچے کو بلا رہی تھی۔ بچے کی گھبراہٹ بڑھتی جا رہی تھی اور شاید ماں کو کوئی خطرہ محسوس ہوا ہو کہ بچہ غلطی نہ کر دے، اس نے چٹان میں محض ایک جھری پر پیر رکھا اور چھلانگ لگا کر اوپر اپنے بچے کے پاس پہنچ گئی۔ اوپر پہنچ کر وہ فوراً نیچے لیٹ گئی تاکہ بچہ دودھ نہ پی سکے۔ تھوڑی دیر بعد وہ کھڑی ہوئی اور بچے کو تھوڑا سا دودھ پلایا اور پھر دوبارہ اسی جگہ نیچے پہنچ گئی۔ بچہ پھر سے گھبرا گیا اور اس نے آگے پیچھے دوڑنا شروع کر دیا۔ اگلے نصف گھنٹے میں سات بار ایسے ہوا۔ آخر بچے نے خود کو قسمت کے حوالے کرتے ہوئے چھلانگ لگائی اور نیچے ماں کے پاس بحفاظت پہنچ گئی۔ اس بار ماں نے اسے انعام کے طور پر دودھ سے پیٹ بھرنے دیا۔ اس دن کا سبق کہ ماں کے پیچھے پیچھے جہاں وہ جائے، جانا محفوظ ہوتا ہے، پورا ہو چکا تھا۔ فطرت مدد کرتی ہے لیکن ماں کے بے انتہا صبر اور بچوں کی فرمانبرداری ہی ایسی خصوصیات ہیں جن سے جنگل میں جانور بالغ عمر تک پہنچے ہیں۔ بدقسمتی سے جب مختلف جانوروں کو بچوں کو تربیت دیتے دیکھے تو میرے پاس انہیں وڈیو میں محفوظ کرنے کا کوئی ذریعہ نہیں تھا ورنہ جنگل میں اس سے زیادہ دلچسپ چیز اور کوئی نہیں۔
جب بچوں کا پیٹ بھر گیا تو وہ واپس اپنی ماں کے پاس لوٹے۔ شیرنی نے انہیں نیچے لٹا کر صفائی کرنا شروع کر دی اور ان کے جسم پر لگا ہوا سارا خون چاٹ کر صاف کر دیا۔ جب اس نے اچھی طرح بچوں کو صاف کر دیا تو تینوں واپس اس جگہ کو لوٹے جہاں دریائے لدھیا کم گہرا تھا اور اسے آسانی سے عبور کیا جا سکتا تھا۔ اب دریا کے اس کنارے شیرنی اور اس کے بچوں کے لیے لاش پر کچھ باقی نہیں رہا تھا۔
مجھے علم نہیں تھا اور اگر ہوتا بھی تو کوئی فرق نہ پڑتا کہ یہ شیرنی جسے میں اتنی دلچسپی سے دیکھ رہا تھا، چند سال بعد بندوق سے زخمی ہو کر آدم خور بن جائے گی اور وادئ لدھیا اور آس پاس کے دیہاتوں پر دہشت طاری کر دے گی۔
5
ٹھاک میں جس گارے پر میں پہلی رات بیٹھا تھا، اس کو ہم نے اب گدھوں کے کھانے کے لیے کھلا چھوڑ دیا تھ ااور اس سے دو سو گز دور وادی کے سرے پر گاؤں کی مغربی جانب ایک اور بھینسے کو باندھ دیا تھا۔ چار روز بعد ٹھاک کے نمبردار نے پیغام بھجوایا کہ شیر بھینسے کو مارنے کے بعد اٹھا کر لے گیا ہے۔
ہماری تیاریاں جلد ہی مکمل ہو گئیں اور انتہائی گرمی میں چڑھائی کے بعد ایبٹسن اور میں دوپہر کےو قت جائے وقوعہ پر پہنچے۔ شیر نے بھینسے کو ہلاک کرنے کے بعد مضبوط رسی توڑی اور اسے اٹھا کر نیچے وادی میں لے گیا۔اپنے دو ساتھیوں کو دوپہر کا کھانا لانے بھیج کر ایبٹسن اور میں گھسیٹنے کے نشانات پر روانہ ہو گئے۔ جلد ہی ہمیں اندازہ ہو گیا کہ شیر کے ذہن میں کوئی خاص جگہ ہے جہاں وہ بھینسے کی لاش کو لے جا رہا ہے کیونکہ دو میل تک اس نے انتہائی گھنے جنگلات، گہری نالیوں، گرے درختوں اور پتھروں سے اٹے علاقوں سے گذرتے ہوئے لاش کو ایک چھتری نما درخت کے نیچے ایک گڑھے میں لا کر رکھ دیا۔ شیر نے بھینسے کو گذشتہ رات مارا تھا اور چونکہ ابھی تک اس نے بھینسے کی لاش کو چکھا تک نہیں تھا، ہمارے لیے کافی حوصلہ شکن تھا۔ تاہم جتنی مشکل سے وہ لاش کو یہاں تک لایا تھا، ہمیں پورا یقین تھا کہ شیر جلد یا بدیر لازماً لوٹے گا۔ بھینسے کے گلے پر لگے دانتوں کے نشانات سے واضح تھا کہ ہمارا مقابلہ آدم خور سے ہے۔
ٹھاک تک چڑھائی اور پھر گھنی وادی میں اترنے کی وجہ سے ہم پسینے میں نہائے ہوئے تھے۔ جب تک ہم درخت کے نیچے بیٹھ کر کھانا کھاتے اور چائے پیتے رہے، میں نے مسلسل کسی مناسب درخت کی تلاش جاری رکھی جہاں میں بیٹھ سکتا اور اگر ضرورت پڑتی تو رات بھی وہیں گذارتا۔ اس گڑھے کے سرے پر انجیر کا ایک درخت اگا ہوا تھا۔ یہ درخت پہاڑی سے 45 ڈگری کے زاویے پر جھکا ہوا تھا۔ یہ درخت درحقیقت کسی بڑے اور قد آور درخت کے تنے سے نکلا تھا۔ اصل درخت کے گرد انجیر نےا پنی شاخیں اس طرح پھیلائی ہوئی تھیں کہ اصل درخت کچھ عرصے بعد مر گیا تھا اور انجیر کی شاخیں اوپر جا کر آپس میں مل گئی تھیں۔ زمین سے دس فٹ کی بلندی پر جہاں اصل درخت کا تنا خشک ہو کر ٹوٹ گیا تھا، انجیر کی شاخیں مل رہی تھیں، میں نے محسوس کیا کہ وہاں بیٹھنا کافی آرام دہ ہوگا۔
کھانا کھانے اور سگریٹ پینے کے بعد ایبٹسن نے دونوں افراد کو ساتھ لیا اور ساٹھ گز دور جا کر ایک درخت پر شاخیں ہلانے لگے جیسے مچان بنا رہے ہوں۔ اسی دوران میں انتہائی خاموشی سے انجیر کے درخت پر چڑھ گیا۔ میری مطلوبہ جگہ پر کافی خشک پتے اور گلی سڑی لکڑی موجود تھی۔ ان پر بیٹھتے وقت میری دعا تھی کہ ان میں بچھو یا سانپ نہ چھپے ہوں۔ اگر میں اس جگہ کو صاف کرنے کی کوشش کرتا تو ظاہر ہے کہ شیر اسے دیکھ سکتا تھا۔ خود کو پھسلنے سے بچانے کے لیے میں نے اپنی ایک ٹانگ شاخوں میں پھنسا دی اور ہر ممکن طریقے سے اپنی نشست کو آرام دہ بنا لیا۔ جب میں اپنی جگہ جم گیا تو ایبٹسن نے دونوں ساتھیوں کو نیچے اتارا اور بلند آواز میں بات کرتے ہوئے وہاں چل دیئے۔
جس درخت پر میں بیٹھا تھا، آگے کو 45 ڈگری کے زاویے پر جھکا ہوا تھا۔ میرے عین نیچے دس فٹ چوڑی اور بیس فٹ لمبی مسطح زمین تھی۔ اس کے فوراً بعد پہاڑی گہری ڈھلوان کی صورت میں نیچے ہونے لگ جاتی تھی جہاں اونچی گھاس اور دیگر جھاڑ جھنکار کی کثرت تھی۔ اس کے بالکل پیچھے ندی بہہ رہی تھی۔ یہ جگہ شیروں کے آرام کے لیے مناسب ترین ہوتی ہے۔
ایبٹسن اور ان کے ساتھیوں کو گئے پندرہ منٹ ہوئے ہوں گے کہ وادی کے دوسرے سرے سے لال منہ والے بندر نےپورے جنگل کو بتانا شروع کر دیا کہ شیر آ رہا ہے۔ چونکہ یہ بندر ہماری آمد سے لے کر اب تک خاموش تھا، اس کا یہی مطلب تھا کہ شیر ہماری آمد سے لے کر اب تک اپنی جگہ سے نہیں ہلا تھا اور اب وہ تفتیش کی نیت سے آ رہا ہے۔ عموماً جب شیروں کے شکار کردہ جانور کے پاس سے کوئی شور سنائی دی تو شیرتجسس کی وجہ سے دیکھنے آتے ہیں۔ چونکہ ان لال منہ والے بندروں کی نگاہ بہت تیز ہوتی ہے، اس لیے اگرچہ یہ بندرچوتھائی میل دور تھا، لیکن عین ممکن ہے کہ شیر میرے آس پاس ہی کہیں موجود ہو۔
میرے سامنے پہاڑی تھی اور تھوڑا سا بائیں جانب بھینسے کی لاش پڑی تھی۔ ابھی بندر آٹھ مرتبہ بولا ہوگا کہ میرے پیچھےکافی ڈھلوان پہاڑی سے خشک شاخ ٹوٹنے کی آواز آئی۔سر کو دائیں موڑ کر میں نے شاخوں کے درمیان سے دیکھا کہ شیر میرے درخت کو چالیس گز دور کھڑا دیکھ رہا ہے۔میرے عقب میں شاخیں میرے سر سے کچھ زیادہ اونچی تھیں۔ کئی منٹ تک وہ وہیں کھڑا میرے درخت اور پھر اس درخت کو دیکھتا رہا جہاں دو بندے چڑھے تھے۔ آخر کار اس نے آگے بڑھنے کا فیصلہ کیا۔ یہ جگہ اتنی ڈھلوان تھی کہ اگر کسی آدمی کو اترنا ہوتا تو اسےچاروں ہاتھوں اور پیروں کی مدد سے اور خاصے شور کرتے ہوئے اترنا پڑتا لیکن وہی ڈھلوان شیر نے بغیر کسی دقت یا شور کے عبور کی۔ جوں جوں وہ قریب ہوتا گیا، اس کی احتیاط بڑھتی گئی اور اس کا پیٹ زمین کے قریب تر ہوتا گیا۔ کنارے پر پہنچ کر اس نے انتہائی احتیاط سے دوسرے درخت کو دیکھ کر تسلی کی کہ وہاں کوئی انسان موجود نہیں۔ پھر اٹھ کر وہ سیدھا میرے درخت کے نیچے پہنچا۔ جب وہ میرے نیچے پہنچ کر نظروں سے اوجھل ہوا تو مجھے توقع تھی کہ وہ فوراً دوسری جانب سے نکل آئے گا لیکن اسی وقت میرے نیچے خشک پتوں کے مسلے جانے کی آواز آئی۔ شیرعین میرے نیچے لیٹ گیا تھا۔
اگلے پندرہ منٹ تک میں بالکل ساکت بیٹھا رہا اور نہ ہی شیر کی طرف سے مزید کوئی آواز آئی۔ اب میں نے دائیں جانب اپنی گردن بڑھائی اور شاخوں کے درمیان سے نیجے جھانکا تو شیر کا سر دکھائی دیا۔ اگر میری آنکھ سے آنسو نکلتا تو وہ سیدھا شیر کی ناک پر جا گرتا۔ شیر کی تھوڑی زمین پر تھی اور آنکھیں بند کیے سو رہا تھا۔ جب اسے مکھیاں تنگ کرتیں تو چند لمحوں کے لیے آنکھیں کھول کر پلکیں جھپکاتا اور پھر سو جاتا۔ اپنی جگہ لوٹ کر میں نے بائیں جانب گردن بڑھائی۔ اس طرف نہ تو شاخیں تھیں کہ جنہیں میں پکڑتا اور نہ ہی کچھ اور۔ اس لیے توازن برقرار رکھتے ہوئے جب میں جھکا تو دیکھا کہ شیر کی ساری دم اور پچھلی ٹانگ کا کچھ حصہ دکھائی دے رہا تھا۔
اب صورتحال کچھ پیچیدہ ہو گئی تھی۔ میرے پیچھے موجود تنا تین فٹ موٹا تھا اس لیے شیر نے مجھے بالکل بھی نہیں دیکھا ہوگا۔ اس لیے ظاہر ہے کہ شیرجب تک خبردار نہ کیا جاتا، وہ سیدھا لاش پر ہی جاتا۔ پر سوال یہ تھا کہ کب جائے گا۔ دوپہر کافی گرم تھی اور جہاں شیر لیٹا تھا، وہاں کافی عمدہ سایہ تھا اور ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی۔ اس طرح کی صورتحال میں ہو سکتا ہے کہ شیر کئی گھنٹے سوتا رہتا اور سورج ڈوبنے کے بعد ہی بیدار ہوتا اور اس پر گولی چلانے کے امکانات ختم ہو جاتے۔ اس کے علاوہ ہمارے پاس وقت اب ختم ہو رہا تھا اور عین ممکن تھا کہ مجھے اس شیر کے شکار کا موقع دوبارہ نہ مل پاتا۔ اس کے علاوہ کئی انسانی جانیں بھی مفت میں ضائع ہو جاتیں۔ واحد امکان یہی تھا کہ میں اپنی موجودہ جگہ سے ہی شیر پر گولی چلاتا ۔ میری دائیں جانب بہت ساری خالی جگہیں تھیں جہاں سے میں رائفل کی نالی نکال کر گولی چلا سکتا تھا لیکن موجودہ مقام سے اگر میں گولی چلانے کی کوشش کرتا تو دیدبان دکھائی نہ دیتے۔ اگر میں اپنی جگہ پر کھڑا ہو کر نشانہ لیتا تو کھڑے ہوتے وقت اتنا شور ہوتا کہ شیر کہیں سے کہیں پہنچ جاتا کیونکہ شیر کی قوت سماعت جنگل میں سب سے زیادہ تیز ہوتی ہے۔ اب چونکہ شیر کے سر پر گولی چلانا ممکن نہیں تھا اس لیے باقی بچی اس کی دم۔
رائفل کو دونوں ہاتھوں سے تھام کر میں بائیں جانب جھکا تو مجھے شیر کی دم اور پچھلی ٹانگ کا کچھ حصہ دکھائی دیا۔ دائیں ہاتھ کو رائفل سے ہٹا کر میں نے ایک شاخ کو پکڑا اور مزید جھکنے پر مجھے ایک تہائی شیر دکھائی دیا۔ اگر اس جگہ میں شاخ کو چھوڑ کر رائفل تھام لیتا تو شیر کو اسی جگہ معذور کر سکتا تھا۔ میرے خٰال میں سوئے ہوئے جانور کو اس وجہ سے معذور کرنا کہ اس نے اپنی خوراک کے لیے بعض اوقات انسانی گوشت کو ترجیح دی تھی، قابل نفرت تھا۔ تاہم آدم خور کے مقابلے میں انسانی جذبات کا کوئی عمل دخل نہیں ہوتا۔ بہت دنوں میں اس شیر کے شکار کی کوشش کر رہا تھا تاکہ انسانی جانوں کو بچایا جا سکے۔ اب جب میرے پاس یہ موقع تھا کہ میں شیر کو ہلاک کرنے سے قبل اس کی کمر توڑ دیتا تو یہ خیال اتنا برا نہیں تھا۔ یہ بات تو صاف تھی کہ آدم خور کی ہلاکت ہی اولین مقصد تھا چاہے وہ جس طرح بھی ہو۔ اسی طرح آدم خور کی ہلاکت جتنی جلد ہوتی، اتنا ہی بہتر ہوتا کیونکہ بھینسے کی لاش کو یہاں لانے کے دوران شیر نے بو کی دو میل لمبی لکیر چھوڑی تھی اور کسی بھی وقت کوئی بھوکا ریچھ آن پہنچتا تو آدم خور پر گولی چلانے کا امکان میرے ہاتھ سے نکل جاتا۔ اپنے جسم کو اکڑا کر میں نے شاخ چھوڑی اور رائفل کو دونوں ہاتھوں سے تھام کر میں اپنے پیچھے کی جانب اور نیچے کی طرف گولی چلائی۔ میری خواہش ہے کہ مجھے دوبارہ کبھی اس طرح گولی نہ چلانا پڑے۔ جب میں نے گولی چلائی تو میری 450/400 بور کی رائفل کا کندہ آسمان کی طرف تھا اور میں نے دیدبان کو اوپر کی بجائے نیچے سے دیکھا تھا۔ گولی کے دھکے سے میری کلائی اور انگلیوں کو چوٹ تو پہنچی لیکن شکر ہے کہ ٹوٹ پھوٹ سے بچ گئیں۔ جب میں نے دوسری جانب سے دیکھا تو شیر نے اپنا اوپری جسم موڑا تھا اور ڈھلوان پر پھسل رہا تھا۔ میری دوسری گولی اس کے سینے میں لگی۔ پہلی گولی لگتے ہی اگر شیر خوب شور مچاتا اور غصہ اتارنے کی کوشش کرتا تو مجھے اتنا افسوس نہ ہوتا لیکن شیر واقعی شیر دل جانور ہوتا ہے۔ دوسری گولی کھا کر مرنے تک اس نے ایک بار بھی اپنا منہ نہیں کھولا اور نہ ہی کوئی آواز نکالی۔
ایبٹسن جب روانہ ہوئے تو ان کا ارادہ تھا کہ وہ جامن کے درخت پر چار روز قبل مارے جانے والے بھینسے پر بیٹھیں گے۔ اس بھینسے کو ہم نے گدھوں وغیرہ کے لیے کھلا چھوڑ دیا تھا تاہم نامعلوم کیوں، گدھوں یا دوسرے مردار خوروں نے اسے چکھا تک نہیں۔ ایبٹسن کا خیال تھا کہ اگر آدم خور نے مجھے انجیر کے درخت پر چڑھتے دیکھ لیا ہو تو شاید وہ پرانے شکار پر واپس لوٹے اور اس پر گولی چلا سکیں۔ جب انہوں نے میری چلائی ہوئی دو گولیوں کی آواز سنی تو فوراً اپنے ساتھیوں سمیت میری جانب بھاگے مبادا کہ مجھے ان کی مدد کی ضرورت ہو۔ میں انہیں اپنے درخت سے نصف میل دوری پر ملا۔ دوبارہ ہم اکٹھے شیر کی لاش پر لوٹے اور اس کا معائینہ کیا۔ بظاہر یہ شیر بہترین حالت میں ہٹا کٹا تھا۔ اگر ہمارے پاس پیمائش کے لیے فیتہ ہوتا تو میرا اندازہ ہے کہ یہ شیر کھونٹوں کے درمیان نو فٹ چھ انچ جبکہ دس نو فٹ دس انچ نشیب و فراز کو شامل کر کے ہوتا۔ تاہم اس کا دائیں نچلا بڑا دانت ٹوٹا ہوا تھا۔ بعد میں کھال اتارتے ہوئے میں نے اس کی کھال میں کئی جگہ بندوق کے چھرے پائے۔
ہم چار افراد کے لیے شیر کو اٹھانا ناممکن تھا اس لیے شیر کی لاش کو وہیں چھوڑ کر ہم نے اسے اچھی طرح گھاس، جھاڑ جھنکار اور شاخوں سے ڈھانپ کر اس پر پتھر وغیرہ رکھ دیئے تاکہ ریچھوں سے محفوظ رکھیں اور واپس کیمپ کو لوٹے۔اس رات ہر طرف خبر پھیل گئی کہ آدم خور ہلاک ہو گیا ہے۔ اگلی صبح جب ہم اسے اٹھا کر انجیر کے درخت کے نیچے لائے تاکہ کھال اتار سکیں تو سو سے زیادہ مرد اور لڑکے اسے دیکھنے کے لیے جمع ہو چکے تھے۔ ان میں چکہ کے آدم خور کے آخری شکار کا چھوٹا بھائی بھی شامل تھا۔
تلہ دیس کا آدم خور
1
سارے کوہ ہمالیہ کے دامن میں موسم بہار میں بندو کھیڑا سے زیادہ بہتر اور خوبصورت جگہ کیمپ لگانے کے لیے نہیں۔ اب ذرا اندازہ کریں کہ سفید خیموں کے اوپر درختوں سے مالٹائی رنگ کے پھولوں سے لدے درخت چھائے ہوں جن پر انواع و اقسام کے پرندے چہچہا رہے ہوں اور ایک درخت سے دوسرے درخت پر پھدک رہے ہوں جس سے پھول گر رہے ہوں اور خیموں کے نیچے مالٹائی رنگ کے پھولوں کا قالین بچھا ہوا ہو۔ پیچھے گھنے جنگلوں سے بھری پہاڑیاں ہوں اور ہمالیہ کے تہہ در تہہ سلسلے بلند ہوتے جا رہے ہوں حتیٰ کہ ان پر مستقل برف کی تہہ نظر آنے لگ جائے، تب جا کر آپ کو اندازہ ہوگا کہ فروری 1929 میں ہمارا کیمپ کیسا ہوگا۔
بندو کھیڑا ہمارے کیمپ والی جگہ کا نام ہے۔ یہ جگہ دراصل بارہ میل لمبے اور دس میل چوڑے گھاس کے میدان کے ایک سرے پر ہے۔ جب سر ہنری ریمسے کماؤں پر راج کرتے تھے تو یہ سارا علاقہ کاشتکاری کے لیے استعمال ہوتا تھا۔ تاہم میری کہانی کے وقت اس جگہ محض تین دیہات تھے اور ہر دیہات والوں کے پاس محض چند ایکڑ جتنی زرعی زمین تھی۔ ان دیہاتوں کے کھیت چھوٹی چھوٹی گدلی ندیوں کے کنارے تھے۔ ہماری آمد سے چند ہفتے قبل اس میدان کی گھاس کو جلا دیا گیا تھا لیکن جگہ جگہ سبز گھاس کے قطعے دکھائی دے رہے تھے جہاں زمین نم تھی۔ انہی قطعوں میں شکار کی تلاش ہمیں بندو کھیڑا لے کر آئی تھی۔ میں اس جگہ دس سال سے شکار کھیل رہا تھا اور چپے چپے سے واقف تھا۔ اس لیے شکار کے لیے ہانکے کی ذمہ داری میری تھی۔
تربیت یافتہ ہاتھی پر سوار ہو کر ترائی میں گھاس کے میدانوں میں شکار کرنا میرے نزدیک شکار کی بہترین اقسام میں سےا یک ہے۔ چاہے دن کتنا ہی لمبا کیوں نہ ہو، ہر لمحہ تجسس سے بھرا ہوتا ہے اور بے شمار اقسام کے پرندے اور جانور شکار کے لیے دکھائی دیتے ہیں۔ میں نے خود ایک بار اٹھارہ مختلف انواع کے پرندے اورجانور شکار ہوتے دیکھے ہیں جن میں بٹیر اور سنائپ سے لے کر تیندوا اور پاڑہ تک شامل ہیں۔ گھاس پر چلتے ہوئے ان کے علاوہ بھی بے شمار اقسام کے پرندے دکھائی دے جاتے ہیں۔
فروری کے مہینے میں شکار کے پہلے دن ہمارے ساتھ 9 شکاری اور 5 تماشائی تھے۔ ناشتہ کر کے ہم لوگ ہاتھیوں پر سوار ہوئے اور قطار کی صورت میں آگے بڑھنے لگے۔ ہر دو شکاریوں کے درمیان ایک اضافی ہاتھی تھا۔ میں نے اپنے ہاتھی کو اس قطار کے عین درمیان میں رکھا تھا۔ اس طرح میرے دونوں جانب چار شکاری تھے۔ ہمارے دائیں جانب کنارے والا شکاری ہم سے پچاس گز آگے چل رہا تھا تاکہ اگر کوئی پرندہ ہم سے دور اڑان بھرے اور جنگل کا رخ کرے تو وہ شکاری سے مار سکے۔ ہمارا رخ جنوب کی سمت اور جنگل ہمارے دائیں طرف تھا۔ اگر پرندوں اور جانوروں کے شکار میں آپ کو ہاتھی پر بیٹھ کر اپنی مرضی کی جگہ چننے کا اختیار ہو اور آپ بندوق اور رائفل دونوں پر اچھا نشانہ لگا سکتے ہوں تو ہمیشہ کنارے پر اپنی جگہ چنیئے۔ عام طور پر اس طرح کی صورتحال میں جو بھی جانور یا پرندہ بھاگنے کی کوشش کرتا ہے وہ ہمیشہ کنارے کو بھاگتا ہے۔ ویسے بھی کسی ایسے پرندے یا جانور کو مار گرانا جس پر دوسروں کا نشانہ خطا گیا ہو، کافی مشکل کام ہے۔
جب باد صبا طرح طرح کے پھولوں کی خوشبوؤں سے بھری ہو، ایسی خوشبوئیں جو ہندوستانی جنگل میں علی الصبح ہوتی ہیں تو خمار سا طاری ہونے لگتا ہے۔ تاہم یہ خمار محض انسانوں پر ہی نہیں بلکہ پرندوں پر بھی طاری ہوتا ہے۔ نتیجتاً شکاری اور پرندے، دونوں ہی عجلت کرتے ہیں۔ جب شکاری اور پرندے دونوں ہی عجلت کا شکار ہوں تو نتیجہ اچھا نہیں رہتا۔ اسی طرح دن کے اختتام کے چند منٹ بھی ایسے ہوتے ہیں جب پٹھے اور آنکھیں تھک چکے ہوتے ہیں۔ تاہم جب شکاریوں کا ہاتھ جم گیا اور نشانے بہتر ہو گئے تو ہم نے اچھا شکار شروع کیا۔ پہلے ہانکے پر ہم نے 5 مور، 3 سرخ جنگلی مرغ، 10 کالے تیتر، 4 بھورے تیتر، 2 بٹیر اور 3 خرگوش مارے۔ ایک اچھا سانبھر بھی نکلا لیکن جب تک رائفلیں اٹھائی جاتیں، سانبھر جنگل میں پہنچ گیا تھا۔
اس میدان میں ایک جگہ جنگل کئی سو گز تک بڑھ آیا تھا، پر پہنچ کر میں نے قطار کو روک دیا۔ اس جگہ کئی گہری کھائیاں تھیں اور سیدھی قطار برقرار رکھنا ممکن نہیں تھا۔ اس کے علاوہ ہمارا ایک شکاری ناتجربہ کار تھا اور پہلی بار ہاتھی کی پشت سے شکار کر رہا تھا۔ اس جگہ مور اور جنگلی مرغیاں بہت زیادہ پائی جاتی ہیں۔ کئی سال قبل اس جنگل میں ونڈھم کے ساتھ شیر کی تلاش کے دوران میں نے Cardinal قسم کی چمگادڑ دیکھی تھی۔ یہ چمگادڑیں تتلی کی طرح ایک جگہ سے دوسری جگہ اڑتی ہیں۔ میرے علم کے مطابق یہ چمگادڑیں محض Elephant گھاس میں ہی پائی جاتی ہیں۔
قطار کو روک کر میں نے مشرق کا رخ کیا۔ جب آخری ہاتھی بھی اس قطعے سے نکل آیا جہاں ہم نے ہانکا کیا تھا تو میں نے پھر سب کو روک کر شمال کا رخ کیا۔ اب ہمالیہ ہمارے سامنے تھا۔ ہمارے سامنے اور اوپر چمکدار سفید رنگ کے انتہائی گھنے بادل تھے اور ایسا لگ رہا تھا کہ فرشتے ان پر ناچ رہے ہوں۔
سترہ ہاتھیوں کی قطار کی لمبائی علاقے کی مناسبت سے کم یا زیادہ ہوتی رہتی ہے۔ جہاں گھاس بہت زیادہ گھنی تھی، میں نے قطار کو سو گز پر رکھا اور جہاں گھاس ہلکی تھی تو میں نے قطار کو دو سو گز تک لمبا کر دیا۔ شمال کو ہم نے ایک میل جتنا فاصلہ طے کیا اور 30 پرندے اور ایک تیندوا شکار کیا۔ اچانک ہمارے سامنے زمین سے الو اڑا۔ پہلے پہل تو سارے شکاریوں کی بندوقیں اٹھیں لیکن پھر جب انہوں نے الو کا پہچانا تو سب نے بندوقیں نیچے کر لیں۔ یہ الو عام طور پر زمین میں پیگولن اور سیہی کی بلوں میں رہتے ہیں۔ یہ الو تیتر سے دو گنا بڑے ہوتے ہیں۔ ان کے پروں کے کنارے سفید ہوتے ہیں اور ٹانگیں عام الوؤں کی نسبت زیادہ لمبی ہوتی ہیں۔جب ہاتھیوں کی قطار کے سامنے سے یہ اڑیں تو پچاس یا سو گز تک نیچا اڑنے کے بعد بلند ہوتے ہیں۔ میرے خیال میں وہ اپنے بل کو بچانے کے لیے ایسا کرتے ہیں۔ جب انہیں دوسری بار اڑایا جائے تو یہ سیدھا ہاتھیوں کے اوپر سے ہوتے ہوئے اپنے بل کو چلے جاتے ہیں۔ تاہم اس بار اس الو نے پچاس یا ساٹھ گز کے بعد اچانک ہی اوپر کا رخ کیا اور چھوٹے چھوٹے چکر کاٹتا بلند ہونے لگا۔ اگلے ہی لمحے ہمیں اس کی وجہ بھی معلوم ہو گئی کہ ہمارے بائیں جانب کے جنگل سے ایک شاہین اس کے پیچھے لپکا۔ چونکہ الو اپنے بل تک نہیں جا سکتا تھا اس لیے اس نے بلندی پر جا کر شاہین سے پیچھا چھڑانے کا سوچا۔ پر پھڑپھڑاتے ہوئے الو بلند تر ہوتا جا رہا تھا لیکن شاہین بھی پیچھے نہیں رہا۔ سارے شکاری شکار کو بھول کر اس منظر سے لطف اندوز ہونے لگے۔ میں نے قطار کو روک دیا۔
اگر پس منظر میں تقابل کے لیے کوئی چیز موجود نہ ہو تو بلندی کا اندازہ لگانا کافی مشکل ہو جاتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق دونوں پرندے ہزار فٹ بلندی پر پہنچ گئے تھے کہ اچانک الو نے اوپر جاتے ہوئے بائیں جانب کا رخ کیا جہاں وہ بڑا سفید بادل تھا۔ ظاہر ہے کہ فرشتوں نے بادل پر ناچنا چھوڑ کر الو کو دیکھنا شروع کر دیا ہوگا۔ شاہین نے فوراً الو کے ارادے کو بھانپ لیا اور اپنی رفتار بڑھا دی۔ اب سوال یہ تھا کہ کیا الو بادل تک پہنچ پائے گا؟ شاہین اتنا ندیک پہنچ گیا تھا کہ شاید الو واپس زمین کا رخ کرے۔ کچھ لوگوں نے دوربینیں نکال لیں۔ دو مختلف آراء سنائی دینے لگیں۔
‘اوہ۔ مشکل ہے کہ الو بادل تک پہنچے۔’
‘ارے نہیں۔ بس پہنچنے والا ہے۔’
‘تھوڑا سا اور فاصلہ رہ گیا ہے۔’
‘دیکھو دیکھو، شاہین کتنا نزدیک پہنچ گیا ہے۔’اچانک ہماری نظروں سے الو اوجھل ہو گیا۔ ‘شاباش۔ شاباش۔’ جتنی دیر میرے ساتھی تالیاں بجاتے اور الو کو شاباش دیتے رہے، شاہین پھر سے سیمل کے اسی درخت پر آن بیٹھا جہاں سے اس نے اڑان بھری تھی۔
کسی خاص واقعے پر انسانی رد عمل کی پیشین گوئی نہیں کی جا سکتی۔ آج ہم نے کل 54 پرندے اور 4 جانور مارے تھے اور اس سے کہیں زیادہ ہمارے ہاتھ سے نکل بھی گئے لیکن کسی نے ایک لفظ بھی نہیں کہا۔ اب شاہین سے الو کے بچنے پر سارے خوش ہو رہے تھے۔
اس میدان کے شمالی سرے پر پہنچ کر میں نے ہاتھیوں کی قطار کو جنوب کی طرف موڑا اور تین دیہاتوں کی آبپاشی کی ندی کے دائیں کنارے پر آگے بڑھنا شروع کر دیا۔ اس جگہ زمین نم اور گھاس بہت گھنی تھی۔ اس بار شکاریوں نے رائفلیں اٹھا لیں کیونکہ یہاں پاڑے اور ہرن کے امکانات بہت تھے۔ اس کے علاوہ ایک اور تیندوا بھی ممکن ہے مارا جاتا۔
ہم ایک میل آگے گئے ہوں گے اور اس دوران 5 مور، 4 نر تلور کہ مادائیں چھوڑ دی گئی تھیں، تین سنائپ اور ایک انتہائی عمدہ سینگوں والا ہرن شکار ہوا۔ اس موقع پر ‘اتفاقاً’ میرے پیچھے بیٹھے تماشائی نے میرےکان کے عین پیچھے بھاری رائفل چلائی جس سے میرے کان کا پردہ پھٹ گیا۔ باقی کا پورا دن میرے لیے عذاب بن گیا تھا۔ ساری رات تکلیف سے کروٹیں بدلنے کے بعد علی الصبح میں نے ضروری کام کا بہانا بنایا اور پو پھٹنے پر کالا ڈھنگی اپنے گھر کو چل دیا جو 25 میل دور تھا۔
کالا ڈھنگی کا ڈاکٹر نوجوان اور تازہ فارغ التحصیل تھا۔ اس نے بتایا کہ میرے کان کا پردہ واقعی پھٹ چکا ہے۔ ایک ماہ بعد جب ہم اپنے گرمائی گھر نینی تال منتقل ہوئے تو ریمزے ہسپتال سے میں نے کرنل باربر سے مشورہ کیا جو سول سرجن تھے۔ انہوں نے بھی یہی کہا۔ دن گذرتے گئے اور یہ بات واضح ہو گئی کہ میرے سر کے اندر پھوڑے بننا شروع ہو گئے ہیں۔ میری حالت میرے اور میری دو بہنوں کے لیے بہت تشویش کا باعث تھی۔ چونکہ ہسپتال والے کچھ نہیں کر سکتے تھے اس لیے میں نے کرنل باربر اور اپنی بہنوں کے مشورے کے برعکس ہسپتال سے رخصت ہونے کا فیصلہ کیا۔
مندرجہ بالا ‘حادثہ’ کے بارے میں نے آپ کو اس لیے نہیں بتایا کہ آپ کی ہمدردیاں بٹورنا چاہتا ہوں بلکہ اس لیے کہا کہ تلہ دیس کے آدم خور کی کہانی جو اب شروع ہو رہی ہے، میں اس حادثے کی بہت اہمیت ہے۔
2
1929 میں بل بینز الموڑا اور ہیم ویوان نینی تال کے ڈپٹی کمشنر تھے۔ دونوں کے زیر انتظام علاقوں میں آدم خوروں نے تباہی مچائی ہوئی تھی۔ بینز کے علاقے میں تلہ دیس کا آدم خور جبکہ ویوان کے علاقے میں چوگڑھ کی آدم خور سرگرم عمل تھی۔
میں نے ویوان سے وعدہ کیا تھا کہ پہلے میں ان کے علاقے کے آدم خور سے نپٹوں گا تاہم سردیوں میں چونکہ یہ آدم خور اتنا سرگرم نہیں رہا، اس لیے ویوان کی اجازت سے میں نے تلہ دیس کے آدم خور کے پیچھے جانے کا فیصلہ کیا۔ اس آدم خور کے شکار میں مجھے امید تھی کہ میری صحت بہتر ہونے لگ جائے گی۔ اس لیے میں نے تلہ دیس کا رخ کیا۔
میری یہ کہانی تلہ دیس کے آدم خور سے متعلق ہے اور میں نے اس کے بارے جنگل لور کے لکھے جانے سے قبل کچھ کہنے سے جان بوجھ کر گریز کیا ہے۔اس کی وجہ یہ تھی کہ جب تک آپ جنگل لور نہ پڑھ لیں، آپ کو پتہ نہیں چلے گا کہ میں نے لڑکپن اور اس کے بعد کیا کیا کچھ سیکھا ہوا ہے اور جنگل میں کیسے چلنا ہے اور رائفل کیسے استعمال کرنی ہے اور جو افراد کماؤں میں نہیں رہے، ان کے لیے اس پر یقین کرنا مشکل ہوتا اور چونکہ میری سابقہ کہانیاں ہاتھوں ہاتھ لی گئی تھیں اس لیے میں ایسی غلطی نہیں کرنےو الا تھا۔
جلد ہی میری تیاریاں مکمل ہو گئیں اور 4 اپریل کو میں نینی تال سے چھ گڑھوالیوں کے ہمراہ نکلا۔ ان میں مادھو سنگھ اور رام سنگھ بھی شامل تھے۔ الٰہی نام کا باورچی بھی تھا اور ایک برہمن گنگا رام جو چھوٹے موٹے کام کرتا تھا اور اسے میرے ساتھ جانے کا بہت شوق تھا۔ 14میل چل کر ہم نیچے کاٹھ گودام پہنچے اور شام کی ٹرین پکڑی۔ بریلی اور پلی بھٹ سے ہوتے ہوئے اگلی دن دوپہر کو ہم تنک پور پہنچے۔ اس جگہ میری ملاقات پیشکار سے ہوئی جس نے مجھے بتایا کہ ایک دن قبل تلہ دیس کے آدم خور نے ایک لڑکا ہلاک کیا تھا۔ اس نے یہ بھی بتایا کہ بینز کے احکامات کے مطابق اس نے دو بھینسے خرید کر چمپاوت کےر استے تلہ دیس بھجوا دیئے ہیں۔ جتنی دیر میں میرے ساتھی کھانا پکا کر کھاتے، میں نے ڈاک بنگلے میں ناشتہ کیا اور خوشگوار ماحول میں ہم نے شام کو سفر شروع کیا۔ ہمارا ارادہ تھا کہ 24 میل کا سفر ہم طے کر کے رات ہی میں کالا ڈھنگاپہنچیں گے۔ کالا ڈھنگا اور کالا ڈھنگی دو الگ مقامات ہیں۔
پہلے 12 میل برامدیو سے ہوتے ہوئے پرناگری پہاڑی کے دامن تک زیادہ تر جنگل سے گذرتے ہیں۔ پہاڑ کے دامن میں سڑک ختم ہوتی ہے اور اس جگہ سے دو مختلف راستے کالاڈھنگا کو جاتے ہیں۔ لمبا راستہ پہاڑ کے بائیں جانب ڈھلوان سے ہوتا ہوا پرناگری کے مندروں سے گذر کر کالا ڈھنگا کو جاتا ہے جبکہ دوسرا راستہ کولیئر کی ٹرام وے والے راستے سے جاتا ہے۔ تاہم اس راستے پرچار میل کا راستہ جو دریائے سردا کی کھائی سے گذرتا ہے، سیلاب سے بہہ چکا ہے۔ اس دوسرے راستے سے میرے ساتھیوں کا گذرنا کافی مشکل ہوتا کیونکہ انہوں نے کافی بھاری سامان اٹھایا ہوا تھا۔ ابھی ہم کھائی کے درمیان میں تھے کہ رات ہو گئی اور ہمیں مجبوراً رکنا پڑا۔ کیمپ لگانے کے لیے مناسب جگہ کا انتخاب اتنا آسان نہ تھا اور کئی جگہیں محض اس وجہ سے چھوڑنی پڑیں کہ اوپر سے پتھر گرنے کا اندیشہ تھا۔ آخر کار ایک ایسی جگہ مل گئی جہاں اوپر ایک چٹان جھکی ہوئی تھی۔ یہاں ہم نے رات بسر کرنے کا فیصلہ کیا۔ میں نے رات کا کھانا کھایا اور جب میرے ساتھی دریا میں بہہ کر آنے والی لکڑی جمع کر کے اپنا کھانا تیار کر رہے تھے کہ میں نے کپڑے بدلے اور اپنے کیمپ کے بستر پر لیٹ گیا۔ میرے پاس کیمپ کے سامان میں یہ بستر، 45 پاؤنڈ وزنی خیمہ اور ایک چلمچی تھی۔
دن کافی گرم تھا اور تنک پور سے یہاں تک ہم نے 16 میل کا سفر طے کیا تھا۔ میں کافی تھکا ہوا تھا اور سگریٹ سے لطف اندوز ہو رہا تھا کہ اچانک دریا کے دوسری جانب پہاڑی پر تین روشنیاں نمودار ہوئیں۔نیپال کے جنگلات کو ہر سال آگ لگائی جاتی ہے اور عام طور پر اپریل میں آگ لگاتے ہیں۔ جب یہ روشنیاں نمودار ہوئیں تو میں نے سوچا کہ پہاڑ سے وادی کو چلنے والی ہوا نے کسی آگ کے کوئلے یہاں خشک لکڑی پر ڈال دیئے ہیں۔ ابھی میں بے خیالی میں انہیں دیکھ ہی رہا تھا کہ ان کے اوپر دو مزید روشنیاں نمودار ہوئیں۔ ان نئی روشنیوں میں بائیں جانب والی روشنی آہستہ آہستہ نیچے اترتے ہوئے نچلی تین روشنیوں میں سے درمیان والی میں ضم ہو گئی۔ اب مجھے واضح ہوا کہ یہ آگ نہیں بلکہ روشنیاں ہیں جو دو فٹ قطر کی ہیں اور بغیر بھڑکے اور بغیر دھوئیں کے جل رہی ہیں۔ پھر اوپر کی جانب مزید روشنیاں نمودار ہوئیں تو مجھے ان کی وجہ سمجھ آ گئی۔ اس پہاڑ پر شکار کے لیے نکلے ہوئے کسی شکاری کی کوئی قیمتی چیز گم ہو گئی ہوگی جسے تلاش کرنے کے لیے اس نے اپنے بندے لالٹینیں دے کر بھیجے ہیں۔ بظاہر یہ بات عجیب تو لگ رہی تھی لیکن دریا کے دوسرے جانب اس طرح کےو اقعات ہوتے رہتے ہیں۔
میری طرح میرے ساتھی بھی ان روشنیوں کی طرف متوجہ تھے۔ چونکہ دریا بالکل خاموشی سے بہہ رہا تھا اس لیے میں نے ان سے پوچھا کہ انہیں کوئی آواز تو سنائی نہیں دے رہی؟ روشنیوں سے ہمارا فاصلہ ڈیڑھ سو گز ہوگا۔ تاہم انہیں کچھ بھی سنائی نہیں دیا۔ اب یہ اندازے لگانا کہ وہاں کیا ہو رہا ہوگا، فضول تھا۔ چونکہ ہم تھکے ہوئے تھے اس لیے ہم نے سونے کو ترجیح دی۔ رات کو ہمارے اوپر کی چٹان سے گڑھل کی چھینک سنائی دی اور کچھ دیر بعد تیندوا بولا۔
لمبا سفر اور بہت دشوار چڑھائی ہمارے سامنے تھی۔ میں نے اپنے ساتھیوں کو پہلے سے خبردار کر دیا تھا کہ صبح ہم نے جلدی روانہ ہونا ہے اس لیے پو پھٹتے ہی جب میں بیدار ہوا تو چائے کا گرم کپ میرے سامنے تھا۔ چونکہ ہمارا کیمپ مختصر تھا اس لیے سامان اکٹھا کرنے میں زیادہ وقت نہیں لگا۔ جب میرا باورچی اور میرے ساتھی بکریوں کی پگڈنڈی پر کھائی میں اترنا شروع ہوئے تو میں نے پہاڑ پر اس جگہ نظر دوڑائی جہاں کل رات روشنیاں تھیں۔ پہلے ایسے ہی اور پھر دوربین کی مدد سے میں نے چوٹی سے دریا اور پھر دریا سے چوٹی تک سارا پہاڑ چھان مارا۔ انسان کی موجودگی کا اور نہ ہی آگ کا کوئی نشان ملا۔ پہاڑ پر نظر ڈالتے ہی پتہ چل جاتا تھا کہ یہاںسال بھر سے آگ نہیں لگی۔ اوپر سے نیچے تک سارا پہاڑ سنگلاخ تھا اور اکا دکا درخت اور کہیں کہیں جھاڑیاں موجود تھیں۔ جہاں سے روشنیاں نمودار ہوئی تھیں وہ جگہ عمودی چٹان تھی۔ جب تک رسیوں کی مدد سے کوئی انسان نہ نیچے اترتا، اور کوئی راستہ نہیں تھا۔
نو روز بعد جب میرا مشن پورا ہوا گیا تو میں کالا ڈھنگا میں ایک رات رکا۔ قدرتی مناظر کی با ت ہو یا مچھلی کے شکار کی، کماؤں میں کالا ڈھنگا سے بہتر جگہ ملنا مشکل ہے۔ ---
اگلی صبح پو پھٹتے ہی ہم لوگ کالا ڈھنگا سے نکلے۔ گنگا رام نے پرناگری سے ہوتے ہوئے جبکہ ہم نے دریائے سردا کی کھائی کے راستے واپس جانا تھا۔ گنگا رام پرناگری کے مقدس مندروں پر چڑھاوا چڑھانا تھا۔ اس طرح اس کا سفر دس میل لمبا ہو گیا تھا۔ روانگی کے وقت میں نے گنگا رام کو ہدایت کی کہ وہ پنڈتوں سے ان روشنیوں کے بارے ضرور پوچھے جو ہم نے تلہ دیس جاتے دیکھی تھیں۔ شام کو جب وہ تنک پور پہنچا تو اس نے پنڈتوں سے ملی ہوئی اور اپنی اخذ کی ہوئی معلومات مجھے دیں۔
پرناگری بھاگ بھتی نامی دیوی کی پوجا کے مندروں کی وجہ سے مشہور ہے اور ہر سال ہزاروں کی تعداد میں لوگ عبادت کرنے آتے ہیں۔ اس کے دو راستے ہیں۔ پہلا راستہ برام دیو سے جبکہ دوسرا کالاڈھنگا سے ہوتا ہوا آتا ہے۔ یہ دونوں راستے پہاڑ کے شمالی سرے پر چوٹی سے ذرا نیچے ملتے ہیں۔ اس جگہ دو چھوٹے مندر بھی موجود ہیں۔ زیادہ اہم مندر دراصل پہاڑ کی چوٹی پر بائیں جانب واقع ہے جہاں جانے کے لیے ایک انتہائی تنگ سا راستہ یا دراڑ سی ہے جو تقریباً عمودی چٹان سے ہوتے ہوئے گذرتی ہے۔ کم ہمت لوگ، بچے اور بوڑھے افراد کو پہاڑی لوگ اپنی پشت پر ٹوکری میں لاد کر لے جاتے ہیں۔ تاہم بڑے مندر تک صرف وہی لوگ پہنچ سکتے ہیں جن کو دیوی کی آشیرباد حاصل ہو۔ دیگر افراد نیچے والے مندروں پر ہی چڑھاوا چڑھا کر واپس لوٹ جاتے ہیں۔ اوپری مندر پر پوجا سورج طلوع ہونے سے لے کر سورج کے نصف النہار آنے تک ہوتی ہے جس کے بعد کسی کو اوپر آنے کی اجازت نہیں رہتی۔ اوپری مندر کے قریب ایک چھجہ نما چٹان ہے جو سو فٹ بلند ہے اور اس پر کسی کو چڑھنے کی اجازت نہیں۔ بہت برس قبل ایک سادھو کے من میں یہ بات سمائی کہ وہ اس چٹان پر جا کر دیوی کے رتبے پر آ جائے۔ اس پر دیوی نے ناراض ہو کر سادھو کو اچھال کر نیچے یخ بستہ دریا میں اچھال دیا۔ اس دن کے بعد سے سادھو اس مندر سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے غائب ہو گیا۔ اب سادھو وہیں نیچے رہ کر ہی دیئے جلا کر دیوی کی پوجا کیا کرتا ہے۔ یہ دیئے صرف مخصوص ایام میں ہی دکھائی دیتے ہیں اور انتہائی خاص لوگ ہی اسے دیکھ پاتے ہیں۔ ہم نے یہ روشنیاں 5 اپریل کو دیکھی تھیں۔ شاید مجھے اس وجہ سے دکھائی دی ہوں کہ میں دیوی کے علاقے کے لوگوں کو آدم خور سے نجات دلانے آیا تھا۔
یہ معلومات گنگا رام نے پرناگری سے حاصل کیں اور مجھے بتائیں۔ ہم اس وقت تنک پور کے ریلوے سٹیشن پر ٹرین کے منتظر تھے۔ چند ہفتے بعد مجھے پرناگری کا راول یعنی مہا پجاری ملا۔ اس کی ملاقات کا سبب مقامی اخبار میں ان روشنیوں کے بارے چھپنے والا میرا مضمون تھا۔ اس کے علاوہ وہ مجھے مبارکباد دینے آیا تھا کہ میں واحد یورپی ہوں جسے یہ روشنیاں دکھائی دی ہیں۔ اس مضمون میں میں نے ان روشنیوں اور ان کی مندرجہ بالا توجیہہ پیش کی تھی۔ مزید برآں میں نے اپنے قارئین سے کہا تھا کہ اگر وہ اس بات پر یقین نہیں کرتے تو براہ کرم درج ذیل باتیں ذہن میں رکھیں:
یہ روشنیاں بیک وقت ظاہر نہیں ہوئیں
ان کا حجم یکساں تھا (تقریباً دو فٹ قطر)
ہوا سے ان پر کوئی فرق نہیں پڑا
ایک جگہ سے دوسری جگہ حرکت کر رہی تھیں
مہا پجاری نے بتایا کہ یہ روشنیاں ناقابل تردید سچائی ہیں اور ہم دونوں کے خیال میں مندرجہ بالا توجیہہ کے علاوہ اور کچھ ممکن نہیں۔
اگلے سال میں سردا پر سر میلکم (اب لارڈ) ہیلی کے ساتھ مچھلی کا شکار کر رہا تھا جو ان دنوں صوبجات متحدہ کے گورنر تھے۔ سر میلکم نے اخبار میں چھپنے والا میرا مضمون دیکھا تھا اور جب ہم کھائی پر پہنچے تو انہوں نے مجھے کہا کہ انہیں وہ جگہ دکھاؤں جہاں روشنیاں نمودار ہوئی تھیں۔ ہمارے ساتھ چار مچھیرے تھے جو ہوا کشتی چلا رہے تھے اور ہمیں ایک جگہ سے دوسری تک لے جاتے تھے۔ یہ چاروں افراد ان 20 افراد کے گروہ کا حصہ تھے جو ٹھیکیدار نے اوپری جنگلات سے لکڑی کاٹ کر دریا کی مدد سے نیچے تک لانے کے لیے بھرتی کیے تھے۔یہ کام بہت مشکل تھا اور اس کے لیے نہ صرف ہمت، حوصلہ بلکہ دریا کے بارے مکمل معلومات اور اس کے خطرات کے بارے بھی جاننا ضروری تھا۔
جب ہم اس جگہ پہنچے جہاں پچھلے سال میں اور میرے ساتھیوں نے رات گذاری تھی تو میں نے مچھیروں سے کہا کہ وہ کشتیوں کو کنارے پر لگا دیں۔ جب میں نے روشنیوں کے مقام اور ان کی حرکات کے بارے تفصیل سے بتایا تو سر میلکم نے کہا کہ شاید یہ مقامی مچھیرے ان روشنیوں کے بارے کچھ بتا سکیں۔ انہوں نے مچھیروں سے یہی سوال کیا۔ چونکہ سر میلکم مقامی زبان بخوبی جانتے تھے اور انہیں مقامی لوگوں سے ان کے دل کی بات نکالنا بھی آتی تھی، اس لیے انہوں نے جو جواب پایا، وہ یہ ہے۔ یہ لوگ کنگرا وادی میں رہتے ہیں اور تھوڑی سی کاشتکاری بھی کرتے ہیں جو ان کی ضروریات کے لیے ناکافی ہے۔ اس لیے وہ ٹھاکر دن سنگھ بست کے پاس نوکری کرتے ہیں اور بالائی جنگلات سے لکڑی کو کاٹ کر نیچے دریا کے بہاؤ کی مدد سے لے کر آتے ہیں۔ یہاں سے برمدیو تک کا سارا دریا ان کا اچھی طرح دیکھا بھالا ہے کیونکہ وہ ان گنت مرتبہ یہاں سے گذر چکے ہیں۔ اس کھائی کے بارے ان کی معلومات سب سے زیادہ ہیں کیونکہ یہاں اکثر لکڑی پھنس جاتی ہے اور انہیں کافی دقت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ تاہم انہیں کبھی بھی یہ روشنیاں یا اسی طرح کی کوئی دوسری غیر معمولی بات دکھائی نہیں دی۔
جب سر میلکم میری طرف مڑے تو میں نے انہیں کہا کہ ایک سوال میری جانب سے بھی ہے۔ وہ یہ کہ کیا انہوں نے کبھی رات بھی یہاں بتائی ہے؟ فوراً ہی جواب آیا، نہیں۔ ان کے مطابق آج تک کسی نے یہاں رات نہیں گذاری تھی۔ رات کے وقت یہ جگہ بدروحوں کا مسکن ہے۔
ہمارے اوپر دو ہزار فٹ کی بلندی پر پتلی سی دراڑ ہے جو نسل در نسل یاتریوں کے ننگے پیروں سے گھس گھسا کر ہموار ہو چکی ہے اور چوٹی سے پچاس گز دور سے متوازی گذرتی ہے اور یہاں سہارا لینے کے لیے کوئی جگہ نہیں۔ہر ممکن احتیاط کے باوجود یہاں شرح اموات بہت بلند تھی۔ چند سال قبل میسور کے مہاراجہ نے نچلے مندر سے اوپری مندر تک سٹیل کی تار لگوا دی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ یہاں روحیں رہتی ہوں لیکن میرے خیال میں بدروحیں نہین ہو سکتیں۔
اب میری کہانی کی طرف واپس آتے ہیں۔ گنگا رام جو کماؤں کے تیز ترین افراد میں سےا یک تھا، میرے ساتھ ہی رک گیا تھا تاکہ میرا کیمرہ اٹھا سکے۔ ہم لوگ اپنے ساتھیوں سے دو میل دوری پر جا ملے۔ اگلے چھ گھنٹے ہم بغیر رکے مسلسل چلتے رہے۔ بعض اوقات ہمارا راستہ گھنے جنگلات سے اور بعض اوقات سردا دریا کے ساتھ ساتھ گذرا۔ ہمارا سفر کالا ڈھنگا اور چکہ سے ہوتے ہوئے پہاڑ کے دامن تک گیا۔ اس کے دوسری جانب ہماری منزل یعنی تلہ دیس کے آدم خور کی سلطنت تھی۔ یہاں ہم دو گھنٹوں کے لیے رکے تاکہ دوپہر کا کھانا پکا کر کھائیں اور پھر 4000 فٹ کی چڑھائی شروع کردیں۔
سہہ پہر کے وقت جب اپریل کا گرم سورج ہماری پشتیں جلا رہا تھا اور ہمارے سامنے ایک بھی سایہ دار درخت نہیں تھا، ہم نے اپنا سفر شروع کیا۔ میں اور میرے ساتھیوں نے اتنا مشکل سفر شاید ہی کبھی طے کیا ہو۔ سڑک محض ایک چھوٹی سی پگڈنڈی تھی جو سیدھا پہاڑ پر اوپر کو جا رہی تھی۔ راستے پر کوئی موڑ بھی نہیں تھا کہ چڑھائی آسان ہو جاتی۔کئی جگہوں پر رکتے ہوئے ہم بالآخر چوٹی سے 1000 فٹ نیچے ایک وادی میں پہنچے۔ چکہ سے روانہ ہوتے ہوئے ہمیں بطور خاص اس وادی سے گریز کرنے کی ہدایت کی گئی تھی کیونکہ پہاڑ کے جنوبی سرے پر یہ واحد انسانی آبادی تھی اور آدم خور باقاعدگی سے ادھر کا چکر لگاتا رہتا تھا۔ تاہم آدم خور ہو یا کچھ اور، ہم سفر جاری رکھنے کی حالت میں بالکل بھی نہیں تھے۔ اس لیے ہم نے راستے سے چند سو گز دور وادی کا رخ کیا۔ وادی میں آباد دو خاندان ہمیں دیکھ کر بہت خوش ہوئے۔ جب ہم نے کھانا بنا کر کھا لیا تو میرے ساتھیوں کو مقامی لوگوں نے گھروں کے اندر پناہ دے دی جبکہ میں درخت کے نیچے اپنے خیمے میں بیٹھ گیا۔ یہاں سے چشمہ بھی گذرتا تھا جہاں سے یہ لوگ اپنا پانی بھرتے تھے۔ میرے پاس بھری ہوئی رائفل اور جلتا ہوا لالٹین تھا۔ بستر پر لیٹے ہوئے میرے پاس صورتحال کا بخوبی جائزہ لینے کا وقت تھا۔ بل بینز نے یہاں کے نمبرداروں کو حکم دیا تھا کہ آدم خور کا انسانی شکار ہو یا کوئی جانور، اسے ہرگز نہ چھیڑا جائے جب تک کہ میں نہ پہنچ جاؤں۔ تنک پور کے پیشکار نے جس لڑکے کی ہلاکت کے بارے بتایا تھا وہ چار تاریخ کو مارا گیا تھا اور اب چھ کی رات تھی۔
تنک پورسے روانہ ہوتے ہوئے ہم نے ہر ممکن کوشش کی کہ جلد از جلد جائے واردات تک پہنچ جائیں۔ میرا اندازہ تھا کہ ہماری آمد سے قبل آدم خور اس لڑکے کو پوری طرح ختم کر جائے گا اور اگر اسےچھیڑا نہ گیا تو ایک دو روز مزید بھی یہاں گذارے گا۔ صبح جب ہم نکلے تو میری کوشش تھی کہ ہم دن کے وقت ہی منزل پر پہنچ کر ایک یا دو بھینسے باندھ دیں تاہم چڑھائی بہت مشکل تھی۔ ایک دن تو ضائع ہو گیا تھا لیکن کر بھی کیا سکتے تھے۔ اب میری دعا تھی کہ اگر شیر جائے واردات سے ہٹ بھی گیا ہو تو زیادہ دور نہ گیا ہو۔ یہ بات بھی میرے لیے باعث تشویش تھی کہ کماؤں کے اس علاقے سے میں بالکل بھی واقف نہیں تھا۔ شیر اس علاقے میں آٹھ سال سے سرگرم تھا اور اس دوران ڈیڑھ سو انسان اس کی بھینٹ چڑھ چکے تھے۔ یہ بات کہنا درست ہوگا کہ آدم خور بہت وسیع علاقے پر سرگرم تھا۔ اگر ایک بار بھی آدم خور دور نکل جاتا تو پھر ہفتے گذر جاتے اور ہمیں اس کی کوئی اطلاع نہ ملتی۔ تاہم قبل از وقت شیر کے افعال کے بارے پریشان ہونا بے کار تھا اس لیے میں سو گیا۔
اگلی صبح ہم نے جلدی روانہ ہونا تھا اس لیے ابھی تاریکی کافی گہری تھی کہ گنگا رام نے آکر لالٹین جلایا تو میں جاگ گیا۔ رات کو کسی وقت شاید لالٹین بجھ گیا تھا۔ جتنی دیر ناشتہ تیار ہوتا، میں نے چشمے پر نہا لیا۔ سورج نیپال والے پہاڑوں کے اوپر سے بلند ہو رہا تھا کہ اپنی 275 بور کی رگبی ماؤزر رائفل کی صفائی کر کے میں نے پانچ کارتوس بھرے اور روانگی کے لیے تیار ہو گیا۔
آدم خور کی وجہ سے دیہاتوں کا آپس میں رابطہ منقطع تھا اور یہ دونوں بندے آدم خور کی سابقہ واردات سے قطعی بے خبر تھے اور انہیں یہ بھی علم نہیں تھا کہ ہم کس جانب کا رخ کریں اور کتنی دور ہماری منزل ہوگی۔چونکہ مجھے قطعی اندازہ نہیں تھا کہ میرے ساتھی دوبارہ کس وقت کھانا کھائیں گے، میں نے انہیں ہدایت کی کہ اچھی طرح پیٹ بھر کر روانہ ہو جائیں اور ایک دوسرے سے دور نہ جائیں۔ اگر انہیں آرام کرنا ہو تو کسی کھلی جگہ پر بیٹھیں۔
دوبارہ پگڈنڈی پر پہنچ کر میں چند لمحے رک کر منظر سے لطف اندوز ہوتا رہا۔ میرے نیچے سردا کی وادی تھی جو ابھی تک کہرے سے ڈھکی ہوئی تھی۔ اس سے آگے بل کھاتا ہوا دریائے سردا تنک پور تک جاتا تھا۔ تنک پور سے آگے دریا سفید لکیر کی صورت میں افق تک جاتا دکھائی دے رہا تھا۔ چکہ سائے میں تھا اور کہر کی وجہ سے دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ تاہم ٹھاک کو جانے والا راستہ اور ٹھاک میرے سامنے تھا۔ دس سال بعد ٹھاک کے آدم خور کے شکار کے سلسلے میں اس سارے راستے کے چپے چپے سے میں بخوبی واقف ہو گیا تھا۔ پرناگری کے مندروں کی دیکھ بھال کے معاوضے کے طور پر چند راجاؤں نے ٹھاک کا گاؤں پجاریوں کو بطور تحفہ دیا تھا۔ پھر میں تلہ دیس کے راستے پر جانے کو مڑا۔ تب سے اب تک پچیس برس گذر چکے ہیں اور بہت کچھ بدل گیا ہے۔ تاہم ذہن پر جو نقش ہو، وقت اسے مٹانے سے قاصر رہتا ہے۔ تلہ دیس کے آدم خور کے پیچھے جو پانچ دن میں نے گذارے ہیں، وہ آج بھی میرے ذہن پر نقش ہیں۔
پہاڑی کی دوسری جانب شرقاً غرباً راستہ دکھائی دیا جو چھ فٹ چوڑا تھا۔ اس جگہ پہنچ کر مجھے الجھن ہوئی کہ کس سمت جاؤں کیونکہ دونوں طرف ہی کوئی انسانی آبادی دکھائی نہیں دے رہی تھی۔ آخرکار میں نے مشرق کا رخ کیا کیونکہ میں نے سوچا کہ زیادہ سے زیادہ سردا تک ہی جائے گا۔
اگر مجھے دنیا میں کہیں بھی پیدل چلنے کے لیے جگہ کے انتخاب کا موقع دیا جائے تو بلا جھجھک میں ہمالیہ میں کسی بھی گھنے جنگلات سے بھری پہاڑی کے شمالی سرے پر اپریل کے اوائل میں چلنا پسند کروں گا۔
اپریل میں فطرت اپنے عروج پر ہوتی ہے۔ درختوں پر نئے پتے آ رہے ہوتے ہیں جن کے رنگ سبز، پیلے، عنابی ہوتے ہیں اور بے شمار پودے بھی اگ رہے ہوتے ہیں۔ بے شمار اقسام کے پرندے جو سردیاں گذارنے نیچے چلے گئے ہوتے ہیں،و اپس لوٹ آتے ہیں اور خوشی سے چہچہا رہے ہوتے ہیں۔ جب ان جنگلوں میں کوئی خطرہ نہ ہو تو چلنا آسان ہوتا ہے اور توجہ صرف انہی آوازوں اور نظاروں کو دیکھنے میں مصروف ہوتی ہے جو ہمیں پسند ہوں۔ باقی ہر آواز اور ہر نظارہ چھپ جاتا ہے۔ تاہم جب آدم خور شیر سے خطرہ ہو تو ساری بے فکری ہوا ہو جاتی ہے اور بندہ انتہائی محتاط ہو جاتا ہے۔
شکار میں جب خطرہ ساتھ شامل ہو تو لطف دوبالا ہو جاتا ہے۔ ہر طرح کی صلاحیتیں ابھر کر سامنے آتی ہیں اور قوت بصارت اور قوت سماعت کی کارکردگی بڑھ جاتی ہے۔ جب خطرے کے بارے آپ کو بخوبی علم ہو اور آپ اس کا سامنا کرنے کو تیار بھی ہوں تو پھر خطرہ کسی قسم کی رکاوٹ نہیں رہتا۔ پھولوں کے رنگ اس وجہ سے ہلکے نہیں پڑتے کہ ان کے پیچھے عین ممکن ہے کہ کوئی بھوکا شیر چھپا ہوا ہو اور نہ ہی درخت پر پرندوں کے چہچہانے کی آواز بری لگتی ہے کہ اسی درخت کے نیچے موجود ایک اور پرندہ خطرے سے دیگر جانوروں کو آگاہ کر رہا ہوتا ہے۔
چند ہی ایسے خوش نصیب ہوں گے جنہیں خطرہ نہیں محسوس ہوتا۔ میں اتنا خوش نصیب نہیں۔ آج بھی مجھے شیر کے دانتوں اور پنجوں سے اتنا ہی ڈر لگتا ہے جتنا بہت سال قبل محسوس ہوا تھا جب شیر نے مجھے اور میگگ کو ڈرایا تھا تاکہ ہم اس کے سونے کی جگہ سے دور ہٹ جائیں۔ تاہم اس ڈر اور خوف پر قابو پانے کے لیے میرے پاس اب تجربہ ہے جو پہلے نہیں تھا۔ پہلے مجھے اپنے ہر طرف خطرہ محسوس ہوتا تھا لیکن اب مجھے علم تھا کہ کہاں سے خطرہ ہو سکتا ہے اور کون سی آواز اہم ہے اور کون سی غیر اہم۔
مزید برآں پہلے مجھے یہ بے یقینی ہوتی تھی کہ جب گولی چلاؤں گا تو گولی کہاں جائے گی۔ اب مجھے پورا یقین تھا کہ گولی وہیں جائے گی جہاں میں اسے بھیجنا چاہوں گا۔خطرہ اور اعتماد دو ایسی خصوصیات ہیں جن کے بغیر اکیلے پیدل آدم خور کے شکار پر نکلنا ایسا ہے جیسے بندہ خودکشی کرنے نکلا ہو۔
اس اپریل کی صبح میں جس راستے پر چل رہا تھا، طویل عرصے سے آدم خور شیر کے استعمال میں بھی تھا۔ جگہ جگہ کھرچنے کے نشانات سے ظاہر تھا کہ آدم خور یہاں سے بکثرت گذرتا ہے۔ تاہم یہ نشانات اتنے پرانے تھے کہ شیر کے پگ دکھائی نہیں دے رہے تھے۔ ان کے علاوہ تیندوے، سانبھر، ریچھ، کاکڑ اور سور کے پگ بھی عام تھے۔ پرندوں کی کثرت تھی اور پھولوں کا یہ عالم تھا کہ ہر دوسرا درخت جیسے پھولوں کے گچھوں سے نکلا ہوا ہو۔ اسی جگہ میں نے ہمالیائی ریچھ کا ایک گھونسلہ دیکھا جس سے زیادہ خوبصورت میں نے کبھی نہیں دیکھا۔ زمین سے چالیس فٹ کی بلندی پر بلوط کا ایک درخت برف کے بوجھ یا کسی دوسری وجہ سے ٹوٹ گیا تھا اور اس جگہ سے کافی ساری نئی شاخیں اگ آئی تھیں جو بازو کے برابر موٹی ہوں گی۔ اس جگہ کائی اگی تھی جس پر پھولوں کے غنچے اگ آئے تھے۔ انہی غنچوں میں ریچھ کا گھونسلہ تھا۔ ریچھ نے ٹوٹے ہوئے تنے پر شاخیں موڑ کر اپنا گھونسلہ بنایا تھا۔ ریچھ کا گھونسلہ عموماً لچکدار شاخوں والے درخت پر ہوتا ہے جو موڑنے سے ٹوٹتی نہیں۔ ان گھونسلوں کا افزائش نسل سے کوئی تعلق نہیں ہوتا اور 2000 سے 8000 فٹ کی بلندی تک ملتے ہیں۔ کم بلندی پر یہ گھونسلے ریچھ اس وقت استعمال کرتے ہیں جب وہ سردیوں میں جنگلی آلو بخارے اور شہد کی تلاش میں آتے ہیں اور ان گھونسلوں میں ہونے کی وجہ سے چیونٹیوں اور مکھیوں سے بچے رہتے ہیں۔ زیادہ بلندی پر گھونسلے کا یہ فائدہ ہوتا ہے کہ ریچھ دیگر جانوروں کی مداخلت سے دور رہ کر سورج سینکتا ہے۔
جب راستہ انتہائی خوبصورت ہو تو اس کی طوالت کا کوئی اندازہ نہیں ہوتا۔ میں ایک گھنٹہ چلا ہوں گا کہ جنگل ختم ہو گیا اور گھاس کے قطعے پر میں جب پہنچا تو ایک گاؤں دکھائی دیا۔ لوگوں نے شاید مجھے آتے دیکھ لیا تھا۔ جب میں گاؤں میں پہنچا تو ساری آبادی مجھے خوش آمدید کہنے نکل آئی تھی۔ مجھے اکثر یہ سوچ کر حیرت ہوتی ہے کہ کیا دنیا کے کسی دوسرے علاقے میں کسی اجنبی کا اتنی والہانہ شدت سے استقبال کیا جاتا ہوگا جتنا کہ میں نے کماؤں کے طول و عرض میں پھیلے دیہاتوں میں محسوس کیا۔ مجھے پورا یقین ہے کہ اس گاؤں میں میں پہلا گورا ہوں گا جو اکیلے پیدل پہنچا۔ پھر بھی میرے پہنچے پہنچے قالین بچھا کر اس پر موڑھا رکھ دیا گیا تھا۔ ابھی میں اس پر بیٹھا ہی تھا کہ میرے سامنے دودھ سے بھرا جگ لا کر رکھ دیا گیا۔ساری زندگی میں انہی علاقوں میں رہا تھا اور ہر جگہ کی بولی سے بخوبی واقف تھا۔ اس کے علاوہ مجھے ان کی سوچ کا بھی اندازہ تھا۔ میرے ہاتھ میں موجود رائفل سے انہیں اندازہ ہو گیا تھا کہ میں آدم خور کے شکار پر نکلا ہوں۔ تاہم انہیں حیرت اس بات پر ہو رہی تھی کہ میں اتنی صبح صبح کیسے پہنچا جبکہ نزدیک ترین ڈاک بنگلہ بھی تیس میل دور تھا۔
جتنی دیر تک میں دودھ پیتا، میں نے ان میں سیگرٹ بانٹے اور انہوں نے سوال کرنا شروع کیے۔ جب وہ فارغ ہوئے تو میں نے چند سوالات اپنی طرف سے بھی کیے۔ اس گاؤں کا نام تملی تھا۔ کئی سالوں سے آدم خور کی نظر کرم اس گاؤں پر تھی۔ بعض نے آٹھ جبکہ بعض نے دس سال یہ مدت بتائی۔ تاہم سب اس بات پر متفق تھے کہ اسی سال بچی سنگھ نے اپنے پیر پر کلہاڑی ماری تھی اور دن سنگھ کا بیل جس کی قیمت 30 روپے تھی، پہاڑی سے گر کر مر گیا تھا۔ تملی میں آدم خور کا آخری شکار کندن کی ماں تھی جو پچھلے ماہ کی 20 تاریخ کو ماری گئی تھی۔ اس وقت وہ دوسری عورتوں کے ساتھ گاؤں کے نیچے کھیت میں کام کر رہی تھی۔ کوئی نہیں جانتا تھا کہ آیا آدم خور نر ہے یا مادہ۔ تاہم سب اس بات پر متفق تھے کہ آدم خور بہت بڑا جانور ہے اور اس کے خطرے کے سبب دور والے کھیت اب غیر آباد رہتے تھے اور کوئی بھی تنک پور جا کر کھانے پینے کا سامان لانے کی ہمت نہیں رکھتا تھا۔ آدم خور تملی سے زیادہ عرصہ غیر حاضر نہیں رہتا تھا اور انہوں نے درخواست کی کہ اگر میں ان کے پاس رک جاتا تو مجھے پورے تلہ دیس میں اس سے بہتر موقع نہ مل سکتا تھا۔
جو لوگ آپ پر اندھا اعتبار کرتے ہوں، کو آدم خور کے رحم و کرم پر چھوڑ کر جانا آسان نہیں تاہم اردگرد موجود افراد سے وعدہ کر کے کہ جلد از جلد تملی آنے کی کوشش کروں گا، میں نے اجازت لی اور اس جانب چل پڑا جہاں آدم خور کا آخری شکار ہوا تھا۔
جب میں دوبارہ اس جگہ پہنچا جہاں سے میں نے مشرق کا رخ کیا تھا تو میں نے راستے سے اپنی نشانی ہٹا کر مغرب والے راستے پر لگا دی۔ یہ نشان میں نے اس لیے لگایا تھا کہ جب میرے ساتھی یہاں پہنچیں تو انہیں پتہ چل جائے کہ میں مشرق کو گیا ہوں۔ اس کے علاوہ میں نے احتیاطاً مشرق والے راستے پر راستہ بند کا نشان بھی لگا دیا۔ یہ دونوں نشانات پہاڑی علاقے میں عام استعمال ہوتے ہیں اور اگرچہ میں نے اپنے ساتھیوں کو پہلے سے ان نشانات کے استعمال کے بارے نہیں بتایا تھا لیکن مجھے علم تھا کہ وہ اس سے میرا مدعا بخوبی سمجھ جائیں گے۔پہلا نشان ایک ٹہنی ہوتی ہے جس کو پتھر کے نیچے دبا دیا جاتا ہے۔ جس طرف جانا ہو، ٹہنی کی شاخیں اسی طرف رکھی جاتی ہیں۔ دوسرا نشان کانٹے کی شکل میں دو شاخیں رکھنا ہوتا ہے۔
مغرب کو جانے والا راستہ تقریباً مسطح تھا اور بلوط کے اونچے درختوں سے ہو کر گذرتا تھا۔ جہاں درخت کم گھنے ہوتے، دور موجود برفپوش چوٹیوں کا نظارہ دیکھنے کو ملتا تھا۔ چار میل جا کر راستہ شمال کر مڑا اور وادی کے سرے سے گذرا۔ وادی میں شفاف پانی کی ایک چھوٹی سی ندی بہہ رہی تھی جو بائیں جانب پہاڑی سے نکل رہی تھی۔ پتھروں پر چلتے ہوئے میں نے ندی عبور کی اور چھوٹی سی چڑھائی چڑھا جس کے دوسرے کنارے پر گاؤں تھا۔ ندی کو آنے والی چند لڑکیوں نے مجھے دیکھ لیا۔ جب میں نزدیک پہنچا تو انہوں نے نعرہ لگایا ‘صاحب آ گئے۔ صاحب آ گئے۔’ جتنی دیر میں میں گاؤں پہنچا تو سارا گاوں میرے گرد جمع ہو چکا تھا۔
نمبردار نے بتایا کہ اس گاؤں کا نام تلہ کوٹ ہے۔ دو دن قبل پٹواری چمپاوت سے آیا تھا تاکہ مجھے مل سکے اور سارے ضلع کے لوگوں کو بتا سکے کہ میں نینی تال سے آدم خور کے شکار پر نکلا ہوا ہوں۔
پٹواری کی آمد کے کچھ دیر بعد ہی آدم خور نے یہاں ایک عورت کو ہلاک کر دیا۔ الموڑا کے ڈپٹی کمشنر کے احکامات کی روشنی میں لاش کو نہیں چھیڑا گیا تھا۔ اس کے علاوہ احتیاطاً ایک پارٹی بھیجی گئی تھی جو جا کر لاش کو تلاش کرتی اور اگر اس میں کچھ گوشت باقی ہوتا تو مچان بھی باندھ دیتے۔ابھی نمبردار یہ بتا ہی رہا تھا کہ تیس افراد کی یہ جماعت واپس لوٹ آئی۔
انہوں نے بتایا کہ انہوں نے ہر جگہ لاش کو تلاش کرنے کی کوشش کی ہے لیکن انہیں عورت کے دانت ہی مل سکے ہیں۔ حتٰی کہ اس کے کپڑے بھی غائب تھے۔
جب میں نے پوچھا کہ یہ واردات کس جگہ ہوئی تھی تو سترہ سال کا ایک لڑکا جو ابھی اسی کھوجی جماعت کے ساتھ واپس آیا تھا، بولا کہ اگر میں اس کے ساتھ گاؤں سے باہر چلوں تو وہ مجھے بتائے گا کہ اس کی ماں کو آدم خور نے کہاں ہلاک کیا تھا۔
آگے آگے لڑکا، اس کے پیچھے میں اور میرے پیچھے پورا گاؤں، اسی طرح ہم چلے ہوئے گاؤں کےو سط سے ہو کر دوسری جانب گئے۔ اس جگہ دو پہاڑیوں کو ملانے والی ایک تنگ سی پٹی تھی۔ اس کی کل لمبائی پچاس گز ہوگی۔ دراصل یہ جگہ دو بہت بڑی وادیوں کے درمیان تھی۔ بائیں جانب والی یعنی مغربی وادی سیدھی دریائے لدھیا تک چلی جاتی تھی۔ دائیں جانب والی وادی دس یا پندرہ میل دور جا کر کالی دریا سے ملتی تھی۔
اس جگہ رک کر لڑکے نے اپنا رخ دائیں جانب والی وادی کی طرف کیا۔ اس وادی کے بائیں جانب یعنی شمالی جانب ڈھلوان پر چھدری گھاس اگی ہوئی تھی اور اکا دکا جھاڑیاں بھی دکھائی دیتی تھیں۔ آٹھ سو سے ایک ہزار گز دور موجود گھاس کی طرف اس نے اشارہ کیا کہ اس جگہ شیرنی نے اس کی ماں کو اس وقت ہلاک کیا جب وہ دیگر عورتوں کے ساتھ گھاس کاٹ رہی تھی۔ یہ جگہ ہمارے موجودہ مقام سے ایک ہزار سے پندرہ سو فٹ نیچے تھی۔ پھر اس نے وادی میں برگد کے ایک درخت کی جانب اشارہ کر کے بولا کہ اس درخت کے نیچے انہیں متوفیہ کی باقیات ملی تھیں۔ اس درخت کی نچلی شاخیں لنگوروں نے توڑ دی تھیں۔ انہوں نے بتایا کہ شیرنی کی انہیں کوئی خبر نہیں ملی تاہم جب وہ نیچے اتر رہے تھے تو پہلے گڑھل اور کچھ دیر بعد لنگور کی آواز سنائی دی تھی۔
گڑھل اور لنگور کی آوازیں۔ گڑھل بعض اوقات انسانوں کو دیکھ کر بولتے ہیں تاہم لنگور نہیں بولتے۔ تاہم چاہے گڑھل ہو یا لنگور، دونوں شیر کو دیکھ کر لازمی بولتے ہیں۔ کیا یہ ممکن ہے کہ ان آدمیوں کو آتا دیکھ کر کہیں پاس موجود آدم خور اپنی جگہ سے ہٹا ہو تو اسے گڑھل اور پھر لنگور نے دیکھ لیا ہو؟ ابھی میں اس نکتے پر غور کرتے ہوئے اس علاقے کا نقشہ اپنے دماغ میں بنا رہا تھا کہ پٹواری آن پہنچا۔ پٹواری کھانا کھا رہا تھا جس کی وجہ سے دیر سے پہنچا۔ جب میں نے اس سے پوچھا کہ بینز والے بچھڑے کہاں ہیں تو اس نے بتایا کہ چمپاوت سے وہ انہیں لے کر نکلا تو کئی میل دور چار تاریخ کو ایک گاؤں کے بالکل قریب ہی ایک لڑکا مارا گیا تھا جس کی وجہ سے وہ بچھڑے وہیں چھوڑ آیا تھا۔ پٹواری نے اس لڑکے کی باقیات کو تلاش کیا اور چونکہ اس وقت کوئی شکاری نزدیک نہیں تھا اس لیے اس نے تنک پور سے مجھے تار بجھوایا اور باقیات کو جلانے کا حکم دے دیا۔
میرے ساتھی ابھی تک نہیں پہنچے تھے اس لیے نمبردار کو یہ بتا کر کہ میرا خیمہ ندی کے پاس کھلی جگہ لگوائے، میں نے نیچے جا کر جائے واردات کا معائینہ کرنے کا سوچا تاکہ پتہ چل سکے کہ آدم خور شیر یا شیرنی۔ اگر شیرنی ہے تو آیا اس کے ساتھ بچے بھی ہیں یا نہیں؟ چونکہ کماؤں کا یہ علاقہ میرے لیے بالکل نیا تھاا س لیے میں نے نمبردار سے پوچھا کہ اس جگہ جانے کے لیے کون سا راستہ پکڑوں تو وہی لڑکا سامنے آیا اور کہنے لگا، ‘میرے ساتھ چلیں صاحب۔ میں آپ کو راستہ دکھاتا ہوں۔’جو لوگ آدم خور کے علاقے میں رہتے ہوں، ان کا کسی اجنبی پر اتنا اعتماد مجھے بہت عجیب لگتا ہے۔ اس لڑکے کا نام بعد میں پتہ چلا کہ ڈنگر سنگھ تھا۔ اس لڑکے نے اسی حوصلے کی ایک نئی مثال پیش کی۔ سالہا سال سے ڈنگر سنگھ آدم خور کی دہشت کے سائے میں رہنے پر مجبور تھا۔ محض ایک گھنٹہ قبل وہ اپنی ماں کی باقیات دیکھ کر آ رہا تھا۔ پھر بھی نہتا ہونے کے باوجود وہ میرے ساتھ اس جگہ جانے پر تیار ہو گیا جہاں آدم خور کی موجودگی کا یقین تھا کیونکہ گڑھل اور لنگور کی آوازوں سے یہ بات واضح تھی۔
بے شک وہ کچھ دیر قبل اسی علاقے سے ہو کر آیا تھا تاہم اس وقت اس کے ساتھ کم از کم تیس بندے تھے جو اس کے جاننے والے تھے۔ تیس بندے کافی محفوظ تھے۔
چونکہ اس جگہ سے براہ راستے نیچے اترنا ممکن نہیں تھا اس لیے ڈنگر سنگھ مجھے دوبارہ گاؤں کے درمیان سے لے کر دوسری جانب پہنچا جہاں سے بکریوں کی ایک پگڈنڈی سی نیچے اترتی تھی۔ جب ہم جھاڑیوں کے درمیان سے گذرنے لگے تو میں نے ڈنگر سنگھ کو بتایا کہ میری قوت سماعت متائثر ہے۔ اگر میری توجہ وہ کسی جانب مبذول کرانا چاہے تو رک کر اس جانب اشارہ کرے۔ اگر بات کرنا چاہے تو میرے قریب آ کر میرے دائیں کان میں سرگوشی کرے۔ ابھی ہم چار سو گز ہی چلے ہوں گے کہ ڈنگر سنگھ رکا اور پیچھے مڑ کر دیکھنے لگا۔ میں نے بھی پیچھے مڑ کر دیکھا تو ہمارے پیچھے پٹواری اور ایک بندہ بندوق اٹھائے پہاڑی سے اتر رہے تھے۔ میرا خیال تھا کہ وہ کوئی اہم بات بتانے آ رہے ہیں اس لیے ہم رک گئے۔ تاہم جب پٹواری نے بتایا کہ وہ اپنے مسلح ساتھی کے ہمراہ ہمارے ساتھ جانا چاہتے ہیں تو مجھے بہت مایوسی ہوئی۔ انہیں اجازت دینے میں مجھے کافی ہچکچاہٹ ہوئی کیونکہ انہوں نے بھاری بوٹ پہنے تھے اور صاف لگ رہا تھا کہ جنگل میں خاموشی سے نہیں چل سکیں گے۔
مزید چار سو گز گھنے جھاڑ جھنکار سے گذرنے کے بعد چند مربع گز چوڑا خالی قطعہ آیا۔ یہاں سے راستہ دو حصوں میں تقسیم ہو گیا۔ ایک شاخ بائیں جانب گہری کھائی میں جا رہی تھی اور دوسری شاخ چکر کاٹ کر دائیں جانب کی پہاڑی سے ہو کر گذرتا تھا۔ یہاں ڈنگر سنگھ رکا اور کھائی کی جانب اشارہ کر کے سرگوشی میں مجھے بتایا کہ اس کھائی میں اس کی ماں کو آدم خرو نے کھایا تھا۔ چونکہ ہمراہیوں کے بوٹوں کی وجہ سے زمین پر موجود پگ مٹ جاتے، میں نے ڈنگر سنگھ، پٹواری اور اس کے ساتھی کو وہیں رکنے کو کہا اور بتایا کہ میں خود اکیلا نیچے اتروں گا۔ جونہی میری بات پوری ہوئی، ڈنگر سنگھ مڑا اور پہاڑی کے اوپر کی جانب دیکھنے لگا۔
جب میں نے بھی جانب مڑ کر دیکھا تو وہاں کافی سارے افراد جمع تھے۔ ایک ہاتھ سے ہمیں خاموش رہنے کا اشارہ کرتے ہوئے ڈنگر سنگھ نے دوسرا ہاتھ کان پر رکھا ہوا تھا جیسے کچھ سن رہا ہو۔ وقفے وقفے سے وہ سر بھی ہلاتا جا رہا تھا۔ جب بات ختم ہوئی تو اس نے سرگوشی کی، ‘میرے بھائی نے آپ کو یہ بات بتانے کو کہا ہے کہ نیچے ویران کھیت میں سرخ رنگ کی کوئی چیز دھوپ میں لیٹی ہوئی ہے۔
ویران کھیت سے مراد وہ کھیت تھا جس پر کاشتکاری نہیں کی جاتی۔ ہمارے نیچے ایسا ہی کھیت تھا جس پر کوئی سرخ رنگ کی چیز لیٹی ہوئی ہے۔ یہ سرخ رنگ کی چیز کوئی پودا، کاکڑ، سانبھر یا شیر بھی ہو سکتا تھا۔ تاہم میں اس امکان سے پوری طرح فائدہ اٹھانا چاہ رہا تھا۔ اس لیے ڈنگر سنگھ کو اپنی رائفل پکڑا کر میں نے پٹواری اور اس کے ساتھی کو بازو سے پکڑ کر پاس موجود درخت تک لے گیا۔ بندوق کو خالی کر کے میں نیچے جھاڑی میں رکھا اور انہیں درخت پر چڑھنے کا حکم دیا۔ میں نے یہ بات واضح کر دی کہ چاہے کچھ بھی ہو جائے، میری واپسی تک وہ نیچے نہ اتریں۔
میں نے پھر کبھی کسی انسان کو اتنی خوشی خوشی درخت پر چڑھتے نہیں دیکھا۔ انتہائی بلندی پر جا کر وہ شاخوں سے چمٹ کر بیٹھ گئے۔ صاف لگ رہا تھا کہ آدم خور کے شکار کے متعلق ان کے خیالات یکسر بدل گئے ہیں۔
دائیں جانب والا راستہ چھجے دار کھیت کو جاتا تھا جو اب ویران کھیت کہلاتا تھا۔ اس پر گھاس پھونس اگی ہوئی تھی۔ سو گز لمبا یہ کھیت ہماری جانب دس فٹ جبکہ دوسرے سرے پر تیس فٹ چوڑا تھا۔ پچاس گز تک سیدھا جانے کے بعد کھیت بائیں جانب مڑ جاتا تھا۔ جب ڈنگر سنگھ نے مجھے اس کھیت کو دیکھتے ہوا پایا تو بولا کہ اگر ہم دوسرے سرے سے جا کر دیکھیں تو ہمیں کھیت کا وہ حصہ صاف دکھائی دے گا جہاں اس کے بھائی نے وہ لال رنگ کی چیز دیکھی ہے۔ جھک کر چلتے ہوئے ہم دوسرے سرے تک پہنچ گئے۔
یہاں پہنچ کر ہم زمین پر لیٹ گئے اور کہنیوں اور گھٹنوں کے بل چلتے ہوئے ہم کھیت کے کنارے تک پہنچے، گھاس کو ہاتھوں سے ہٹایا اور سامنے دیکھا۔ ہمارے سامنے ایک چھوٹی سی وادی تھی جس کے دوسرے سرے پر گھاس سے بھری ڈھلوان تھی۔ اس وادی کے دوسرے سرے پر برگد کے نوجوان درخت اگے ہوئے تھے۔ ان درختوں کے پیچھے والی کھائی میں ڈنگر سنگھ کی ماں کو آدم خور نے کھایا تھا۔ گھاس والی ڈھلوان تیس گز چوڑی تھی اور اس کے نیچے پتھریلا چھجا تھا۔ درختوں کی بلندی کو مد نظر رکھتے ہوئے میں نے اندازہ لگایا کہ یہ چھجہ اسی سے سو فٹ بلند ہے۔ ڈھلوان کے ہمارے نزدیک والی جانب ایک کھیت تھا جو سو گز لمبا اور دس گز چوڑا تھا۔ اس کھیت کا رخ ہماری جانب تھا۔ ہماری جانب اس پر سبز گھاس کا ایک چھوٹا سا قطعہ اگا ہوا تھا۔ بقیہ حصے پر ایک خوشبو دار گھاس اگی ہوئی تھی جس کی اونچائی چار سے پانچ فٹ تھی۔ دھوپ میں ایک دوسرے سے دس فٹ کی دوری پر دو شیر لیٹے ہوئے تھے۔ پاس والے شیر کی کمر ہماری جانب تھی اور اس کا سر پہاڑی کی جانب تھا۔ دوسرے شیر کا پیٹ ہماری جانب جبکہ دم پہاڑی کی جانب تھی۔ دونوں ہی گہری نیند سو رہے تھے۔ اگرچہ نزدیکی شیر پر گولی چلانا زیادہ آسان ہوتا لیکن مجھے خطرہ تھا کہ دوسرا شیر سیدھا چھلانگ لگا کر پہاڑی پر چڑھتا جہاں گھنے جھاڑ جھنکار کے باعث گم ہو جاتا کیونکہ اس کا سر اسی جانب تھا۔ اگر میں دوسرے شیر پر پہلے گولی چلاتا تو گولی کے دھکے (گولی کا دھماکہ نہیں) کو سن کر پہلا شیر یا تو سیدھا پہاڑی پر اس جانب جاتا جہاں کم جھاڑیاں تھیں یا میری جانب آتا۔ میں نے دوسرے شیر پر گولی چلانے کا فیصلہ کیا۔ فاصلہ اندازاً ایک سو بیس گز تھا اور گولی کا زاویہ اتنا نہیں تھا کہ مجھے نشانے میں ترمیم کرنی پڑتی (ہمالیہ میں جب اوپر سے نیچے گولی چلائی جائے تو اس بات کا خیال رکھنا پڑتا ہے)۔ میں نے کھیت کی منڈیر پر ایک ہاتھ کی پشت کو رکھ کر رائفل سے شیر کے دل کا نشانہ لیا اور آرام سے لبلبی دبا دی۔ گولی کھانے کے بعد شیر نے رواں تک نہ ہلایا لیکن دوسرا شیر پلک جھپکتے ہی اٹھا اور کھیت کے پانچ فٹ اونچے کنارے پر چڑھا جو برساتی نالے کو کھیت سے جدا کرتا تھا۔ یہاں رک کر اس شیر نے اپنے دائیں کندھے کے اوپر سے سر کو موڑ کر اپنے ساتھی کو دیکھا۔ گولی کھاتے ہی شیر الٹا ہوا اور اسی نالے میں گر کر میری نظروں سے اوجھل ہو گیا۔ دوسری گولی کے بعد مجھے خوشبودار گھاس میں حرکت محسوس ہوئی تھی۔ یہ حرکت پہلے مردہ شیر کے پاس کی جگہ میں ہوئی تھی۔ صاف لگ رہا تھا کہ کوئی بڑا جانور کھیت میں پوری رفتار سے بھاگتا جا رہا ہے۔ دو شیروں کے اتنے قریب سے بھاگنے والا یہ جانور محض ایک تیسرا شیر ہی ہو سکتا تھا۔ اگرچہ میں اس شیر کو دیکھ تو نہیں سک رہا تھا لیکن اس کی حرکات و سکنات پوری طرح میری نظر میں تھیں۔ دو سو گز کی پتی چڑھا کر میں نےا نتظار کیا کہ یہ جانور گھاس سے نکلے۔ اچانک گھاس سے ایک شیر نکلا۔ اس جگہ کھیت دائیں جانب مڑ رہا تھا جبکہ میری موجودہ جگہ پر یہ کھیت بائیں مڑتا تھا۔ اس طرح شیر تقریباً میرے سامنے متوازی آ گیا۔
گولی کھا کر میں نے جانوروں کو گرتے دیکھا ہے۔ بعض اوقات وہ گول گیند سی بن جاتے ہیں لیکن جس طرح یہ شیر گرا، میں نے کسی اور جانور کو اس سے زیادہ یقینی انداز میں مرتا نہیں دیکھا۔ چند لمحے تک تو شیر اسی جگہ پڑا رہا اور پھر نیچے کو پھسلنے لگا۔ اس کا سر نیچے کی جانب تھا اور اس کی رفتار تیز ہوتی گئی۔ چند فٹ دوری پر ہی ایک آٹھ سے دس انچ موٹے تنے والا درخت تھا۔ شیر کا پیٹ اس تنے سے جا ٹکرایا۔ اب شیر کا سر اور اگلی ٹانگیں درخت کے ایک طرف جبکہ پچھلی ٹانگیں اور دم دوسری جانب تھے۔ رائفل کو کندھے سے ٹکائے اور لبلبی پر انگلی رکھے میں منتظر رہا۔ تاہم شیر میں کوئی حرکت دکھائی نہ دی۔ پھر میں اٹھا اور پٹواری کی جانب گیا۔ اپنی اونچی نشست سے پٹواری نے سارا منظر پوری طرح دیکھا تھا۔ ڈنگر سنگھ کے چہرے کے تائثرات سے صاف ظاہر ہو رہا تھا کہ لوگوں کو سنانے کے لیے اس کے پاس ایک عظیم داستان ہے۔جب میں نے شیروں کو سوتے دیکھا تو میں سمجھا تھا کہ آدم خور نے جوڑا تلاش کر لیا ہے تاہم جب میں نے تیسرے شیر پر گولی چلائی تو یہ بات عیاں ہو چکی تھی کہ میرا سامنا شیرنی اور اس کے دو بچوں سے ہے۔اب ان میں سے ماں کون سی ہے اور بچے کون سے، یہ کہنا ذرا مشکل تھا کہ گولی چلاتے وقت تینوں ایک جسامت کے دکھائی دے رہے تھے۔ تاہم اس بات میں کوئی شبہ نہیں تھا کہ ان میں سے ایک تلہ دیس کا آدم خور تھا کیونکہ ان پہاڑوں میں شیر خال خال ہی دکھائی دیتے تھے اور یہ تین شیر اس جگہ کے قریب مارے گئے تھے جہاں ذرا قبل ہی ایک انسان کو مارا اور کھایا گیا تھا۔ بچوں کو اپنی ماں کی وجہ سے مرنا پڑا تھا۔
ان بچوں نے دودھ چھڑائے جانے کے بعد سے لے کر اب تک انسانی گوشت ہی کھایا تھا تاہم بچے وہی کھاتے ہیں جو ان کی ماں انہیں لا کر دیتی ہے۔ ماں کو چھوڑنے کے بعد آدم خور کے بچے خود بخود آدم خور نہیں بن جاتے۔ ‘کماؤں کے آدم خور’ لکھے جانے کے بعد سے اس موضوع پر بہت گفتگو ہو چکی ہے تاہم میں ابھی تک یہی سمجھتا ہوں کہ ہندوستان کے جس حصے کے بارے میں میں بات کر رہا ہوں، یہاں آدم خوروں کے بچے اپنی ماں سے الگ ہونے کے بعد آدم خور اس وجہ سے نہیں بن جاتے کہ بچپن میں انہوں نے انسانی گوشت کھایا تھا۔
کھیت کے کنارے بیٹھے اور رائفل کو گھٹنوں پر ٹکائے میں نے اپنے ہمراہیوں میں سگریٹ بانٹے اور بتایا کہ کہ سگریٹ پینے کے بعد میں نالے میں گرے شیر کو دیکھنے جاؤں گا۔ مجھے اس بات میں ہرگز کوئی شبہ نہیں تھا کہ وہ شیر مر چکا ہے لیکن میں اپنی اس اچانک اور غیر متوقع کامیابی پر خوش ہونا چاہ رہا تھا۔ تلہ دیس میں آمد کے ایک گھنٹے کے اندر اندر اتفاقی طور پر میرا سامنا آدم خور سے ہو گیا تھا جس نے آٹھ سال سے کئی سو مربع میل پر اپنی دہشت پھیلائی ہوئی تھی اور چند سیکنڈ کے وقفے سے نہ صرف آدم خور بلکہ اس کے دو بچوں کو بھی میں نے ہلاک کر دیا تھا۔اس وقت مجھے وہی خوشی محسوس ہو رہی تھی جو ہر شکاری اس وقت محسوس کرتا ہے جب جوش کے باعث اس کی رگوں میں دوڑتا خون پارہ بن چکا ہوتا ہے پھر بھی گولی چلاتے وقت اس کی رائفل نہیں ہلتی۔ اس کے علاوہ میری خوشی کو دوبالا کرنے کو یہ امر بھی کافی تھا کہ کسی زخمی آدم خور شیر کا پیچھا اب مجھے پیدل نہیں کرنا ہوگا۔
میرے ساتھی میری کامیابی کو میری خوش قسمتی ماننے کو تیار نہیں تھے۔ کسی بھی ناکامی سے بچنے کے لیے انہوں نے نینی تال کے بوڑھے پجاری سے مشورہ کر کے ہمارا سفر مجوزہ دن کو شروع ہوا تھا۔ ہماری روانگی سے یہاں تک کسی بھی قسم کا برا شگون نہیں دکھائی دیا۔ جیسے میری کامیابی کا تعلق خوش قسمتی سے نہیں تھا اسی طرح اگر میں ناکام رہتا تو بھی اس میں میری بدقسمتی نہیں تھی کیونکہ نشانہ چاہے کتنا ہی عمدہ کیوں نہ ہو، جس جانور کی موت کا وقت نہیں آیا، وہ اسے ہلاک نہیں کر سکتی۔اپنے ہمراہیوں کے شکار سے متعلق توہمات میرے لیے ہمیشہ دلچسپی کا سبب ہوتے ہیں۔
چونکہ میں خود جمعہ کے روز سفر کا آغاز کرنا مناسب نہیں سمجھتا، اسی طرح مجھے ان پہاڑی لوگوں کے عقائد پر بھی ہنسنے کا کوئی حق نہیں جو شمال کی جانب سفر کے لیے منگل یا بدھ کا دن، جنوب کو جمعرات، مشرق کی طرف پیر اور ہفتہ جبکہ مغرب کو جانے کے لیے اتوار یا جمعہ کا دن برا سمجھتے ہیں۔کسی بھی خطرناک مہم پر نکلنے کے لیے دن کا انتخاب اپنے ہمراہیوں پر چھوڑنا اگرچہ کوئی بڑی بات نہیں دکھائی دیتی لیکن ایک خوشگوار اور پرامید ہمسفر دوسری صورت میں محض ایک ڈرا ہوا بندہ بن جاتا ہے جو کسی ان دیکھے خطرے سے کترا رہا ہو۔جب ہم چاروں وہاں بیٹھے سگریٹ ختم کرنے ہی لگے تھے کہ میں نے دیکھا کہ درخت کے تنے سے ٹکا ہوا شیر پھسلنے لگا ہے۔ صاف ظاہر ہے کہ خون کا بہاؤ اس کے سر کی جانب ہو گیا تھا جس کی وجہ سے اس کا اگلا حصہ پچھلے کی نسبت زیادہ بھاری ہو گیا تھا اور شیر پھسلنے لگا تھا۔تنے سے آزاد ہو کر شیر کے پھسلنے کی رفتار تیز ہوتی گئی حتٰی کہ کنارے پر پہنچ کر شیر دوسری جانب گرا۔ جونہی شیر ہوا میں معلق ہوا، میں نے رائفل اٹھائی اور گولی چلا دی۔ شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ میں بہت خوش تھا کہ اتنی جلدی آدم خور کو ہلاک کرنے میں کامیاب ہو گیا تھا یا پھر شاید اس وجہ سے میں اپنے ساتھیوں کو یہ دکھانا چاہ رہا تھا کہ اتنے خوش قسمت دن میں چاہے میں ہوا میں معلق شیر پر ہی گولی کیوں نہ چلاؤں، میرا نشانہ خطا نہیں ہو سکتا۔ اگلے ہی لمحے شیر نظروں سے غائب ہو گیا تاہم شاخیں ٹوٹی رہیں اور پھر دھم کی آواز آئی۔ اگرچہ میری آخری گولی شیر کو لگی ہو یا نہ، پھر بھی اب گاؤں والوں کو زیادہ دور سے شیر کی لاش لانی پڑتی۔
جب سگریٹ ختم ہو گئے تو میں نے اپنے ساتھیوں کو کہا کہ وہ وہیں بیٹھیں جب تک میں برساتی نالے والے شیر کو جا کر دیکھتا ہوں۔ پہاڑی بہت ڈھلوان تھی اور ابھی میں پچاس فٹ نیچے اترا ہوں گا کہ ڈنگر سنگھ کی پرجوش آواز آئی، ‘دیکھیں صاحب، وہ رہا شیر’۔ چونکہ میری توجہ نالے والے شیر پر تھی اس لیے میں فوراً نیچے بیٹھا اور رائفل تانی تاکہ سامنے سے آتے شیر کا سامنا کر سکوں۔ تاہم مجھے بیٹھتے دیکھ کر ڈنگر سنگھ پھر چلایا، ‘صاحب اُدھر نہیں، ادھر’۔ فوری خطرہ ٹلا تو میں نے پیچھے مڑ کر ڈنگر سنگھ کی طرف دیکھا تو وہ ان ڈھلوانوں کی طرف اشارہ کر رہا تھا جہاں آدم خور نے اس کی ماں کو کھایا تھا۔ پہلے پہل تو کچھ بھی دکھائی نہیں دیا۔ پھر میں نے دیکھا میرے متوازی ایک شیر اس راستے پر جا رہا تھا جو تھوڑی دور جا کر پہاڑی کے دوسری جانب اترتا تھا۔ شیر بری طرح لنگڑا رہا تھا اور ہر تین یا چار قدموں کے بعد رک جاتا۔ اس کے دائیں کندھے پر خون کا ایک بڑا دھبہ صاف دکھائی دے رہا تھا۔ اس دھبے سے واضح تھا کہ یہ وہی شیر ہے جو درختوں سے نیچے گرا تھا کیونکہ برساتی نالے والے شیر کو میں نے بائیں کندھے پر گولی ماری تھی۔
جہاں میں بیٹھا تھا اس کے قریب ہی صنوبر کا ایک پتلا سا درخت اگا ہوا تھا۔ تین سو گز والی پتی اٹھا کر میں بائیں ہاتھ سے درخت کو پکڑا اور اس پر رائفل رکھ کر پوری توجہ اور آرام سے گولی چلائی۔ فاصلہ چار سو گز کے قریب ہوگا اور شیر میری نسبت قدرے بلندی پر تھا۔ اس لیے میں نشانی کچھ اوپر کر کے لیا اور جونہی شیر رکا، میں نے گولی چلا دی۔
درمیانی فاصلے کو طے کرنے میں گولی کو ناقابل یقین وقت لگا۔ آخر کار میں نے مٹی اڑتی دیکھی اور اسی وقت شیر نے بھی حرکت کی۔ میں نے نشانہ بہت اوپر لیا تھا اور گولی معمولی سی زیادہ اوپر گئی تھی۔ اب میرے پاس ساری ضروری معلومات تھیں کہ گولی کس طرح چلاؤں اور اب مجھے صرف ایک گولی کی ضرورت تھی۔ وہی گولی میں نے اپنی حماقت کے سبب ہوا میں معلق شیر پر چلائی تھی۔ خالی رائفل اٹھائے میں نے شیر انتہائی تکلیف بھرے انداز میں بلندی پر جاتے اور پھر چند لمحے رک کرپھر دوسری طرف نیچے اترتے دیکھا۔
جن شکاریوں نے کبھی ہمالیہ میں شکار نہیں کیا، وہ اعشاریہ 275 کی رائفل اور محض پانچ گولیاں لے کر شکار پر نکلنے کو میری حماقت سمجھیں گے۔ تاہم میری رائے کچھ اس طرح ہے:
1۔ اس رائفل کو میں 20 برس سے استعمال کرتا چلا آ رہا تھا اور اس سے بخوبی واقف تھا
2۔ کم وزن، بہترین نشانے اور تین سو گز تک گولی چلانے کے لیے بہترین انتخاب تھا
3۔ کرنل باربر نے مجھے ہدایت کی تھی کہ بھاری رائفل اٹھانے سے گریز کروں اور ہلکی رائفل سے بھی محض انتہائی ضروری حالات میں گولی چلاؤں
جہاں تک گولیوں کی بات ہے تو میں صبح صبح شیر کا شکار کرنے نہیں بلکہ محض وہ گاؤں تلاش کرنے نکلا تھا جہاں آدم خور نے آخری شکار کیا ہو اور اگر وقت ملتا تو وہاں گارا باندھتا۔اس کے علاوہ اگر میں نے ایک گولی انتہائی حماقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ضائع نہ کرتا تو میرا مقصد پورا ہوچکا ہوتا۔
میرے آدمی بھی گاؤں پہنچ چکے تھے اور انہوں نے دیگر افراد کے ساتھ مل کر یہ سارا واقعہ دیکھا تھا۔ انہیں معلوم تھا کہ میرے پاس محض پانچ گولیاں ہی تھیں۔ جونہی پانچویں گولی چلنے کے بعد بھی انہوں نے شیر کو آگے بڑھ کر پہاڑی کے دوسری جانب غائب ہوتے دیکھا تو مادھو سنگھ جیسے اڑتا ہوا مجھ تک مزید گولیاں لے کر پہنچا۔ گھاس کے قطعے والا اور برساتی نالے والا، دونوں ہی شیر مر چکے تھے۔ یہ دونوں تقریباً بالغ اور ایک ہی جسامت کے تھے۔ اس کا یہ مطلب تھا کہ جو شیر ابھی بچ نکلا ہے، وہ ان کی ماں تھی جو تلہ دیس کی اصل آدم خور تھی۔ ڈنگر سنگھ اور مادھو سنگھ کو میں نے ان شیروں کو لے جانے کے انتظامات کرنے کے لیے چھوڑا اور خود اکیلا زخمی شیرنی کے پیچھے چل پڑا۔ درخت سے نیچے جب شیرنی جھاڑیوں پر گری تو اس جگہ سے خون کی پتلی سی دھار شروع ہو رہی تھی جو اس جگہ جا کر ختم ہوتی تھی جہاں پہاڑ کے کنارے پر میں نے شیرنی پر آخری گولی چلائی تھی۔ اس جگہ شیرنی کی کمر سے گولی سے کٹ کر گرنے والے چند بال دکھائی دیئے۔ گولی جب شیرنی کے اوپر زمین پر جا کر لگی تو اس کے دھکے سے جب شیرنی آگے بڑھی تو اس جگہ بھی خون کے کچھ نشانات موجود تھے۔ اس جگہ سے آگے خون کے اکا دکا قطرے ہی موجود تھے اور یہاں سے آگے اگی ہوئی چھدری اور سخت گھاس پر شیرنی کے نشانات غائب ہو گئے۔ پاس ہی گھنی جھاڑیوں کا 300 مربع گز جتنا قطعہ تھا جو پہاڑی کی ڈھلوان تک پھیلا ہوا تھا۔ مجھے شک تھا کہ شیرنی اسی قطعے میں گھسی ہوگی۔ تاہم رات ہو رہی تھی اس لیے میں نے شیرنی کا پیچھا اگلی صبح تک کے لیے ملتوی کر دیا۔
اگلی صبح دونوں شیروں کی کھال اتارنے، صاف کرنے اور پھر کیلوں کی مدد سے گاڑنے میں صرف ہوئی۔ چھ انچ لمبے یہ کیل میں نینی تال سے اپنے ساتھ لایا تھا۔ جب تک میں یہ سارا کام کرتا رہا، کم از کم سو گدھ آس پاس کے درختوں پر آ کر بیٹھ گئے۔ یہ اس کھلے قطعے کے کنارے پر تھے جس پر میرا خیمہ لگا ہوا تھا۔ انہی گدھوں کی وجہ سے ہی متوفیہ کے کپڑوں کی گمشدگی کا راز کھل گیا ۔ ان شیروں نے خون آلودہ کپڑوں کو پھاڑ کر نگل لیا تھا۔
گاؤں کے سارے مرد اس دوران میرے آس پاس بیٹھے رہے اور جب میں نے انہیں بتایا کہ مجھے شک ہے کہ زخمی شیرنی جھاڑیوں کے اس قطعے میں چھپی ہوئی ہے اور اگر میں اس کا ہانکا کراؤں تو کیا وہ میرے ملازمین کا ساتھ دیں گے؟ بخوشی وہ تیار ہو گئے۔ دوپہر کے وقت ہم لوگ نکلے۔ گاؤں کے درمیان سے ہوتے ہوئے یہ لوگ اس کوہان نما جگہ پہنچے جو دو وادیوں کے درمیان واقع تھی اور پھر یہاں سے آگے اس قطعے کے اوپر والی پہاڑی پر چڑھے جبکہ میں نے گذشتہ رات والے راستے کا رخ کیا۔ اس قطعے کے نیچے ایک بہت بڑی چٹان تھی جہاں سے اوپر موجود افراد مجھے دیکھ سکتے تھے۔ یہاں چڑھ کر میں نے اپنا ہیٹ بطور نشانی ہلایا اور ہانکا شروع ہو گیا۔ چونکہ میں چاہتا تھا کہ یہ لوگ شیرنی کے ہاتھوں زخمی نہ ہوں، اس لیے میں نے انہیں ہدایت کی کہ وہ چوٹی پر ہی رہ کر تالیاں بجائیں اور خوب شور کرتے ہوئے ان جھاڑیوں میں پتھر پھینکیں۔ ایک کاکڑ اور چند چکور تو نکلے لیکن شیرنی کا کوئی پتہ نہیں چلا۔
جب ہانکے والوں کے پتھروں نے ان جھاڑیوں کا چپہ چپہ چھان مارا تو میں نے دوبارہ ہیٹ لہرایا اور ہانکا بند ہو گیا۔
جب یہ سارے لوگ واپس چلے گئے تو میں ان جھاڑیوں میں گھسا۔ تاہم مجھے معلوم تھا کہ شیرنی یہاں نہیں ہوگی۔ گذشتہ شام کو جب میں نے شیرنی کو چلتے دیکھا تو مجھے یقین تھا کہ شیرنی کا زخم بہت تکلیف دہ ہے۔ لیکن جب آخری گولی چلانے کے بعد شیرنی نے حرکت کی تو وہاں موجود خون کو دیکھ کر مجھے محسوس ہوا کہ یہ زخم گہرا نہیں۔ پھر گولی لگتے ہی شیرنی اس طرح کیوں گر ی اور دس یا پندرہ منٹ تک درخت کے تنے سے بے حس و حرکت اٹکی رہی جیسے مر چکی ہو؟ ان سوالات کا جواب نہ تو اس وقت میرے پاس تھا اور نہ ہی اب میں کچھ یقین سے کہہ سکتا ہوں۔ تاہم بعد میں میں نے دیکھا کہ نکل کے خول والی نرم سیسے کی گولی شیرنی کے دائیں کندھے کے جوڑ میں پھنس گئی تھی۔ جب ہائی ولاسٹی گولی جانور کی کسی ہڈی سے ٹکرا کر رکے تو جانور کو بہت شدید دھکا لگتا ہے۔ لیکن شیر بہت بھاری جانور ہوتا ہے اور اعشاریہ 275 کی ہلکی گولی سے شیر نہ صرف گرے بلکہ 10 یا 15 منٹ تک بےہوش بھی رہے، اس کا جواب میرے پاس نہیں۔
واپس کنارے پر پہنچ کر میں نے اپنے سارے علاقے کا جائزہ لیا۔ یہ کنارہ کئی میل لمبا اور دو حصوں میں تقسیم تھا۔ بائیں جانب والی وادی جس کے اوپری کنارے پر گھا س کا یہ قطعہ تھا، چھوٹی گھاس پر مشتمل تھی جبکہ دائیں جانب والی وادی کے اوپری سرے پر جہاں آدم خور نے متوفیہ کو کھایا تھا پر گھنے درخت اور جھاڑ جھنکار سے بھرا جنگل تھا جو وادی کے دائیں جانب والے حصے پر تھا اور بائیں جانب والا حصہ بہت پتھریلا اور عمودی ڈھلوان تھا۔
ایک پتھر پر بیٹھ کر میں نے سگریٹ پیا اور پچھلی شام کے واقعات کا جائزہ لیا تو درج ذیل نتائج اخذ کیے:
1) گولی لگنے سے نیچے جھاڑیوں پر گرنے تک شیرنی بے ہوش تھی
ب) جب شیرنی نیچے جھاڑیوں پر گری تو اسے ہوش آ گیا لیکن پھر بھی پوری طرح ہوش میں نہیں آئی تھی
ج) اسی نیم بے غشی کی حالت میں شیرنی محض ناک کی سیدھ میں چلتی رہی اور انجانے میں پہاڑ کی چوٹی تک آن پہنچی
اب سوال یہ پیدا ہوتا تھا کہ شیرنی کا رخ کس جانب تھا اور کتنی دور گئی ہوگی؟ زخمی ٹانگ کے ساتھ پہاڑی کے اوپر کے سفر کی نسبت نیچے کا سفر زیادہ تکلیف دہ ہوتا ہے۔ جونہی شیرنی پوری طرح ہوش میں آئی ہوگی تو اس نے نیچے جانے کا ارادہ چھوڑ کر کہیں چھپ کر اپنے زخم کی دیکھ بھال کا سوچا ہوگا۔
چھپنے کے لیے اسے لازمی کنارے پر ہی چلنا ہوتا۔ اب اگر میں کنارے پر پگ تلا ش کرتا تو کام آسان ہو جاتا۔ تاہم پتھریلے کنارے پر نرم پنجوں والے جانور کے پگ تلاش کرنا کارے دارد ہوتا اگر کنارہ انتہائی باریک نہ ہوتا۔ کنارے کے ساتھ ساتھ جنگلی جانوروں کی ایک پگڈنڈی جا رہی تھی جس سے گذرنے والے تمام تر جانوروں کےپگ تلاش کرنا انتہائی آسان کام تھا۔
پگڈنڈی کے بائیں جانب گھاس سے بھری ڈھلوان تھی اور دائیں جانب ڈھلوان گہری ہوتے ہوتے کھائی میں ختم ہوتی تھی۔ سگریٹ ختم کر کے میں اٹھا اور اس پگڈنڈی پر چل پڑا۔ راستے پر میں نے گڑھل، سراؤ، سانبھر، لنگور، سیہی اور ایک نر تیندوے کے پگ دیکھے۔ جوں جوں میں آگے بڑھتا گیا، میری امیدیں کم ہوتی گئیں۔ اگر اس راستے پر شیرنی کے پگ دکھائی نہ دیتے تو پھر شیرنی کا سامنا شاید ہی کبھی ہوتا۔ اسی طرح چلتے چلتے میں ایک میل دور جا پہنچا۔ راستے میں دو گڑھل خبردار ہو کر بھاگے۔ پھر مجھے شیرنی کے پگ اور خشک خون کا ایک دھبہ دکھائی دیا۔ بظاہر شیرنی نیم غشی کی حالت میں چلتے ہوئے اس گھاس کے قطعے پر پہنچی اور جب اسے پوری طرح ہوش آیا تو واپس اوپر کی جانب مڑی اور پگڈنڈی تک پہنچ گئی۔ نصف میل تک میں اسی طرح شیرنی کے پگوں کا پیچھا کرتا رہا۔ ایک جگہ ایسی بھی آئی کہ ڈھلوان تنگ ہو کر محض پندرہ گز جتنی چوڑی رہ گئی۔ اس جگہ شیرنی نے نیچے جانے کی کوشش کی تاکہ کھائی کے دوسری جانب والے جنگل میں چھپ سکے۔ زخمی ٹانگ جواب دے گئی یا پھر شیرنی پر دوبارہ غشی طاری ہونے لگی، کہنا دشوار ہے۔ تاہم یہاں شیرنی نیچے کو چند گز تک پھسلتے ہوئے گئی۔ پھر چاروں ٹانگیں پھیلا کر اس نے اپنے آپ کو روکنے کی ناکام کوشش کی۔ میرے لیے ڈھلوان پر چلنا انتہائی آسان ہے لیکن پھر بھی یہ ڈھلوان میرے بس سے باہر تھی۔ چند سو گز مزید آگے جا کر میں نے اترنے کی مناسب جگہ دیکھی۔
یہاں سے میں نیچے وادی میں اترا۔ یہاں کھائی 30 گز چوڑی تھی اور میں نے دیکھا کہ اگر کوئی جانور گرتا تو وہاں سے زمین کم از کم 60 سے 80 فٹ دور ہوتی۔ کوئی بھی جانور اتنی بلندی سے گر کر زندہ نہیں بچ سکتا۔ جس جگہ میرے اندازے میں شیرنی نے گرنا تھا، پر پہنچ کر میری خوشی دوبالا ہو گئی کہ مجھے کسی بڑے جانور کا سفید پیٹ دکھائی دیا۔ تاہم میری خوشی فوراً ہی کافور ہو گئی کیونکہ یہ جانور شیرنی نہیں بلکہ سراؤ تھا۔ میرا خیال ہے کہ سراؤ سو رہا تھا کہ شیرنی ادھر سے گذری۔ شیرنی کی آواز یا شاید اس کی بو سونگھ کر سراؤ نے گھبرا کر نیچے چھلانگ لگا دی اور اپنی گردن تڑوا بیٹھا۔ جہاں سراؤ کی لاش تھی، اس جگہ تھوڑی سی ریت بھی موجود تھی۔
شیرنی سیدھا اسی ریت پر گری اور اس کا زخم پھر سے کھل گیا۔ تاہم شیرنی کو چوٹ نہیں لگی۔ محض ایک قدم دور موجود سراؤ کو نظر انداز کرتے ہوئے شیرنی نے کھائی عبور کی اور خون کی لکیر چھوڑتی گئی۔ کھائی کے دائیں جانب والا کنارہ محض چند فٹ بلند تھا لیکن کئی بار کی کوشش کے باوجود شیرنی اس پر نہ چڑھ سکی۔ مجھے علم تھا کہ شیرنی کسی بھی نزدیک ترین جھاڑی وغیرہ میں چھپی ہوگی۔ تاہم میری قسمت نے ساتھ چھوڑ دیا۔ کافی دیر سے گہرے بادل جمع ہو رہے تھے اور قبل اس کے کہ میں شیرنی کو تلاش کر پاتا، بارش شروع ہو گئی اور خون کے نشانات دھل گئے۔ شام گہری ہو رہی تھی اور واپسی کا مشکل سفر ابھی باقی تھا اس لیے میں نے کیمپ کا رخ کیا۔
ہر قسم کے شکار میں قسمت کا بہت عمل دخل ہوتا ہے۔ ابھی تک شیرنی کی قسمت عروج پر تھی۔ پہلی بات تو یہ کہ شیرنی اپنے بچوں کے ساتھ کھلی زمین پر سونے کی بجائے الگ سے چھپ کر سوئی ہوئی تھی۔ دوسری بات یہ کہ گولی شیرنی کی اس ہڈی سے ٹکرا کر رک گئی جو اس طرح کی گولی کو روکنے کے قابل ہوتی ہے۔ اس طرح شیرنی کو لگنے والا زخم مہلک نہ ثابت ہوا۔ مزید یہ کہ شیرنی دو بار اتنی بلندی سے نیچے گری تھی کہ اگر پہلے موقع پر جھاڑیاں اور دوسرے موقع پر ریت نہ ہوتی تو شیرنی زندہ نہ بچ سکتی تھی۔ آخری بات یہ کہ جب میں شیرنی سے محض سو گز دور رہ گیا تھا کہ بارش نے اس کے خون کے نشانات کو صاف کر دیا۔ تاہم میری قسمت بھی اتنی بری نہیں رہی تھی۔ میرا یہ اندیشہ کہ شیرنی گھاس والی ڈھلوان سے اتر کر غائب ہو جائے گی، درست نہ نکلا۔ اس کے علاوہ مجھے اب پوری طرح اندازہ تھا کہ شیرنی کہاں ملے گی۔
اگلی صبح میں اپنے چھ گڑھوالی ساتھیوں کے ہمراہ لوٹا۔ پورے کماؤں میں سراؤ کا گوشت بہت پسند کیا جاتا ہے اور یہ جانور جس کی گردن ٹوٹی ہوئی تھی، بہترین حالت میں تھا۔ میرے ساتھیوں کو سراؤ کا گوشت پا کر بہت خوشی ہوئی۔ میں نے انہیں کہا کہ وہ سراؤ کی کھال اتار کر گوشت کے ٹکڑے کریں اور میں خود اس جگہ پہنچا جہاں گذشتہ روز میں نے شیرنی کا تعاقت ختم کیا تھا۔اس جگہ دائیں طرف دو گہری کھائیاں تھیں۔ چونکہ شیرنی ان میں سے کسی کھائی میں بھی جا سکتی تھی اس لیے میں نے پہلے قریب والی کو دیکھنے کا سوچا۔ تاہم چند سو گز آگے جا کر میں نے دیکھا کہ کھائی اتنی عمودی ہو گئی ہے کہ شیرنی اس پر نہ چڑھ سکتی کیونکہ برسات میں اس جگہ کم از کم 30 فٹ اونچی آبشار ہوتی ہوگی۔ واپس لوٹ کر میں نے اپنے ساتھیوں کو پکار کر چائے بنانے کو کہا۔ میرے ساتھی یہاں سے پچاس گز ہی دور تھے۔ پھر واپس لوٹ کر میں نے دوسری کھائی کا رخ کیا۔ اس کھائی میں بائیں کنارے سے ایک جانوروں کی گذرگاہ شروع ہوتی تھی۔ اس راستے پر مجھے شیرنی کے ادھورے پگ دکھائی دیئے جو گذشتہ رات کی بارش سے مٹے مٹے سے تھے۔ جہاں میں کھڑا تھا اس کے نزدیک ایک بڑی چٹان تھی۔ اس چٹان کے دوسری جانب ایک گڑھا تھا جہاں خشک پتے جمع تھے اور ان پر خون کے بڑے بڑے دھبے بھی۔ جب شیرنی پہاڑی سے نیچے گری تو اس کے بعد یہاں پہنچ کر لیٹ گئی۔ چالیس گھنٹے بعد اب شیرنی میری آواز سن کر جو میں نے اپنے ساتھیوں کو چائے بنانے کے لیے ہدایت کی تھی، یہاں سے آگے گئی تھی۔
چونکہ ہر شیر کا مزاج دوسرے سے الگ ہوتا ہے اس لیے یہ کہنا ممکن نہیں کہ جب زخمی شیر کا پیچھا پیدل رہتے ہوئے کیا جائے تو وہ کس رد عمل کا اظہار کریں گے۔ اسی طرح یہ بھی کہنا ممکن نہیں کہ زخمی ہونے کے بعد کتنا عرصہ تک یہ شیر خطرناک شمار ہوگا۔ یعنی اگر اس کو تنگ کیا جائے تو حملہ کر دے گا۔ ایک بار بھاگتے ہوئے ایک شیر کے پچھلے پنچے پر ایک انچ لمبا زخم لگا تو پانچ منٹ بعد ہی اسی شیر نے سو گز کے فاصلے سے حملہ کر دیا تھا۔ اسی طرح ایک ایسا شیر بھی میں نے دیکھا کہ جس کا جبڑا بری طرح زخمی ہو گیا تھا لیکن پھر بھی اس نے شکاری کو چند فٹ قریب تک آنے دیا اور اس پر حملہ نہیں کیا۔ تاہم جب زخمی شیر آدم خور ہو تو صورتحال مزید پیچیدہ ہو جاتی ہے۔ ایک تو آپ ویسے بھی یقین سے نہیں کہہ سکتے کہ زخمی ہونے کے بعد جب اس کا پیچھا کیا جائے تو کیا شیر حملہ کرے گا یا نہیں اور یہ بھی کہ اگر شیر کوئی کوئی مہلک زخم نہیں لگا تو عین ممکن ہے کہ شیر اپنا پیٹ بھرنے کے لیے حملہ کرے گا۔ جب تک شیر زخمی یا آدم خور نہ ہو، بہت دھیمے مزاج کے ہوتے ہیں۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو ہر روز ہزاروں افراد جنگل میں کام کاج کے لیے جا کر زندہ سلامت واپس نہ آتے۔ ایسے ہی میری طرح کے شکاری جو جنگلوں میں برسوں سے پیدل شکار کرتے آ رہے ہیں، زندہ بچتے۔ بعض اوقات اپنے شکار یا بچوں کے بہت قریب آنے پر شیر غصہ دکھا سکتے ہیں تاہم یہ بھی محض دھاڑنے اور غرانے تک ہی محدود رہتا ہے۔ اگر مداخلت کار پھر بھی باز نہ آئے تو چند قدم دوڑ کر اور گرج کر شیر ڈرانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اگر اس پر بھی مداخلت کار باز نہ آئے تو پھر جو بھی نتیجہ نکلے گا وہ مداخلت کار کی اپنی حماقت ہوگی۔ چند سال قبل کا میرا ایک تجربہ اس بات کی وضاحت کرے گا کہ شیر کتنے دھیمے مزاج کے ہوتے ہیں۔ میں اپنی بہن میگی کے ساتھ دریائے بور پر مچھلی پکڑنے گیا ہوا تھا۔ یہ دریا کالا ڈھنگی میں ہمارے گھر سے تین میل دور تھا۔ میں نے دو چھوٹی مہاشیر مچھلیاں پکڑی تھیں اور ایک پتھر پر بیٹھا سگریٹ پی رہا تھا کہ جیف ہاپکنز اپنے ہاتھی پر آن پہنچے۔ جیف بعد ازاں اتر پردیش کے جنگلات کے کنزرویٹر بنے۔ چونکہ ان کے ہاں مہمان آنے والے تھے تو وہ اعشاریہ 240 کی چھوٹی رائفل لے کر مور یا کاکڑ مارنے نکلے تھے تاکہ مہمانوں کے لیے گوشت مہیا ہو سکے۔ میں نےا پنے کھانے کے لیے مچھلی پکڑ لی تھی اس لیے میں ان کی مدد کے واسطے ان کے ساتھ چلنے کو تیار ہو گیا۔ ہاتھی پر بیٹھ کر ہم لوگوں نے دریا عبور کیا اور میں نے مہاوت کو جنگل میں اس جگہ جانے کا کہا جہاں مجھے علم تھا کہ کاکڑ اور مور بکثرت ہیں۔ ابھی ہم چھدری گھاس اور جنگل میں داخل ہو رہے تھے کہ میری نظر ایک درخت کے نیچے پڑے مردہ چیتل پر پڑی۔ ہاتھی کو رکوا کر میں نیچے اترا تاکہ جا کر دیکھوں کہ چیتل کیسے مرا۔ یہ مادہ چیتل کافی بوڑھی تھی اور چونکہ اس کے جسم پر کوئی زخم نہیں تھا اس لیے میں نے سوچا کہ سانپ کے کاٹنے سے مری ہوگی۔ اسے مرے 24 گھنٹے ہو گئے تھے۔ ابھی میں ہاتھی کی طرف مڑا ہی تھا کہ میری نظر خون کے ایک تازہ دھبے پر پڑی۔ دھبے کو دیکھا تو پتہ چلا کہ جس جانور سے یہ خون بہا ہے، اس کا رخ مردہ چیتل سے دوسری جانب تھا۔ اسی جانب تھوڑا اور آگے بڑھ کر میں نے خون کا ایک اور قطرہ دیکھا۔ ان قطروں سے مجھے کچھ الجھن ہوئی۔ ہاتھی کو اپنے پیچھے آنے کا اشارہ کرتے ہوئے میں اس جانب چل پڑا۔ 60 یا 70 گز آگے جا کر سامنے پانچ فٹ اونچی گھنی جھاڑیاں آ گئیں۔ جھاڑیوں کے پاس جا کر میں نے اپنے دونوں ہاتھوں سے جھاڑیاں ہٹائیں (مچھلی پکڑے کا کانٹا میں ہودے پر چھوڑ آیا تھا) تو میرے بازوؤں کے عین نیچے مخملی سینگوں والا ایک نر چیتل مردہ پڑا تھا جسے ایک شیر کھا رہا تھا۔ جونہی جھاڑیاں ہٹیں تو شیر نے سیدھا میرے چہرے کی طرف دیکھا۔ اس کے چہرے پر جو تائثرات تھے وہ بغیر الفاظ کے بھی صاف سمجھے جا سکتے تھے جیسے شیر کہہ رہا ہو’یہ کیا؟’ اسی وقت بالکل یہی الفاظ میرے بھی تھے۔ خوش قسمتی سے میں اتنا حیران ہوا کہ بالکل ساکت کھڑا رہ گیا۔ میرا دل بھی جیسے ایک لمحے کو تھم سا گیا ہو۔ لحظہ بھر مجھے دیکھنے کے بعد شیر اٹھا اور مڑ کرجست لگا کر جھاڑیوں میں گم ہو گیا۔ اس وقت شیر اتنے قریب تھا کہ اگر چاہتا تو اپنا پنجہ بڑھا کر میرے سر پر چپت لگا سکتا تھا۔ ہماری آمد سے ذرا قبل ہی شیر نے چیتل مارا تھا اور جب وہ اسے اٹھائے مردہ چیتل کے قریب سے گذرا تو خون کے چند قطرے گرے جن کی وجہ سے میں متجسس ہوا۔ میرے عقب میں ہاتھی پر سوار کسی کو بھی شیر دکھائی نہ دیا۔ جب شیر نے جست لگائی تب ان لوگوں کی نظر پڑی۔ مہاوت نے اسی وقت مجھے چلا کر خبردار کیا ‘خبردار صاحب۔ شیر ہے۔’ بے چارہ مجھے شیر کی موجودگی کا بتا کر خبردار کر رہا تھا۔
واپس لوٹ کر میں اپنے ساتھیوں کے پاس پہنچا اور جتنی دیر چائے پیتا، انہوں نے سراؤ کے حصے بخرے کر کے اٹھا لیا۔ جب ہم واپس شیرنی کے خون کے نشانات پر لوٹے تو میرے ساتھی جو میرے ساتھ اکثر شکار پر رہتے ہیں، نے خون کی مقدار دیکھ کر کہا کہ شیرنی کو گہرا زخم لگا ہے اور چند ہی گھنٹوں میں مر جائے گی۔ تاہم مجھے معلوم تھا کہ شیرنی کا زخم گہرا نہیں اور جلد ہی بھر جائے گا۔ جتنا شیرنی بچتی رہے گی، اتنی ہی چالاک ہوتی جائے گی اور اس کا شکار دشوار تر ہوتا جائے گا۔
اگر آپ فرض کریں کہ ایک ایسی گہری کھائی جو بہت ڈھلوان پہاڑی سے سیدھا نیچے اترتی ہواور اس کے دائیں جانب گھنا جنگل ہو جس میں جھاڑ جھنکار بالکل ہی نہ ہو اور بائیں جانب ہر طرح کا جھاڑ جھنکار اور پہاڑی بانس وغیرہ کے جھنڈ موجود ہوں تو آپ کو کسی حد تک اندازہ ہوگا کہ اس روز میں اور میرے ساتھی کس طرح کے علاقے میں شیرنی کا پیچھا کرتے رہے تھے۔میرا منصوبہ یہ تھا کہ میرے ساتھی کھائی کےدائیں جانب اونچے اونچے درختوں پر چڑھ جاتے اور اگر میری توجہ کسی طرف مبذول کرانی ہو تو سیٹی بجاتے۔ چونکہ اس جانب جھاڑ جھنکار قطعاً نہیں تھا اس لیے شیرنی کا خطرہ بھی نہیں تھا اور وہ لوگ اونچے درختوں پر بھی بیٹھے ہوتے۔ چٹان کے پیچھے سے جب شیرنی نکلی تو کھائی کے بائیں کنارے سے ہوتی ہوئی پہاڑ پر چڑھی۔ اسی پہاڑ پر میں نےشیرنی کا پیچھا شروع کیا۔ جیسا کہ میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ جنگل کی زبان آپ کو کسی کتاب میں نہیں ملے گی۔ جنگل کی زبان سمجھنے کا عمل ساری عمر جاری رہتا ہے اور انسان مسلسل لیکن تھوڑا تھوڑا سیکھتا رہتا ہے۔ کھوجی یعنی جانوروں کے پگوں سے ان کا پیچھا کرنا بھی ایک ایسا ہی فن ہے۔ چونکہ کھوج لگانے کے فن میں اتنی بے شمار مختلف صورتیں ہوتی ہیں کہ میں اسے شکار کے بہترین طریقوں میں سے ایک شمار کرتا ہوں۔ تاہم بعض اوقات یہ کام کافی خطرناک بھی ہوتا ہے۔ عام طور پر اس کے دو طریقے ہوتے ہیں۔ پہلا طریقہ وہ جس میں کسی زخمی جانور کا پیچھا اس کے خون کے نشانات کی مدد سے کیا جاتا ہے اور دوسرا طریقہ وہ جس میں خون کے نشانات کے بغیر پیچھا کیا جاتا ہے۔ ان دو طریقوں کے علاوہ بھی میں نے مکھیوں اور گوشت خور پرندوں کا پیچھا کر کے زخمی جانوروں کا بہت بار کھوج لگایا ہے۔ مندرجہ بالا دونوں طریقوں میں سے خون کے نشانات کا پیچھا کرنے سے زخمی جانور کو پانے کے امکانات بہت زیادہ ہوتے ہیں۔ تاہم خون مسلسل نہیں بہتا اس لیے زخمی جانوروں کا پیچھا کرتے ہوئے بعض اوقات پگوں اور دیگر نشانات کی مدد بھی لینی پڑتی ہے۔ کھوج کا کام زمین کی نوعیت کے مطابق سہل یا دشوار بھی ہو سکتی ہے اور اسی طرح یہ بھی کہ جانور کھر دار ہے یا نرم پنجوں والا۔ جب شیرنی میری آواز سن کر آگے بڑھی تو اس وقت تک اس کے زخم سے خون کا بہاؤ تھم چکا تھا اور چونکہ زخم خراب ہو رہا تھا اس لیے جو کچھ تھوڑا بہت مواد بہتا، اس سے مجھے کوئی مدد نہیں مل رہی تھی۔ اب مجھے شیرنی کا پیچھا اس کے پگوں اور اس کے گذرنے سے متائثر ہونے والے گھاس پھونس سے کرنا تھا۔
جس طرح کی زمین پر میں چل رہا تھا، اس پر یہ کام اتنا مشکل نہیں تھا تاہم اس پر کافی وقت لگتا۔ تاہم جتنی دیر ہوتی، شیرنی کو اتنا ہی فائدہ ملتا۔ تعاقب جتنا لمبا ہوتا جاتا، شیرنی کے زخم مندمل ہونے اور بچ نکلنے کے امکانات بڑھتے جاتے۔ گذشتہ دنوں کا اعصابی دباؤ اب بہت بڑھ گیا تھا۔ سو گز تک تو راستے گٹھنے گٹھنے تک گھاس پھونس سے ہو کرتقریباً خط مستقیم میں گذرا۔ اس کے بعد پہاڑی بانسوں کا جھنڈ آیا اور مجھے پورا یقین تھا کہ شیرنی اسی میں چھپی ہوئی ہے۔ تاہم جب تک شیرنی حملہ نہ کرتی، اس پر گولی چلانے کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہی تھے کیونکہ اس جگہ بغیر آواز پیدا کیے حرکت کرنا ممکن نہیں تھا۔ تاہم شیرنی اب سیدھا آگے جانے کی بجائے بائیں جانب مڑی تھی جہاں شاید اسے کھلے میں دیکھ کر کاکڑ مسلسل بول رہا تھا۔ واپس مڑ کر میں بائیں جانب اس سمت گیا لیکن نہ تو مجھے کھلی زمین دکھائی دی اور نہ ہی کاکڑ کی آواز قریب محسوس ہوئی۔ کاکڑ اب خاموش ہو گیا تھا اور چکور بولنے لگ گئے تھے۔ شیرنی ابھی تک چل رہی تھی۔ تاہم مجھے اس کی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی۔
ہر آواز کو سن کر اس کے ماخذ کی سمت اور فاصلے کا درست اندازہ لگانا میری ایسی کامیابی تھی جس پر مجھے بہت فخر تھا۔ تاہم اب یہ انکشاف ہوا کہ سابقہ حادثے کی وجہ سے میں اس کامیابی سے محروم ہو چکا ہوں۔ مجھے اس بات سے دھکا سا لگا کیونکہ میں نے برسوں یہ فن سیکھنے میں لگائے تھے کہ اپنی قوت سماعت کی مدد سے جنگلی جانوروں اور پرندوں کی آواز سن کر اپنا دفاع بھی کر سکتا تھا اور ان سے لطف اندوز بھی ہو سکتا تھا۔ اگر میرا دوسرا کان ٹھیک ہوتا تو بھی کوئی مسئلہ نہیں تھا لیکن میرا دوسرا کان کئی سال قبل اسی طرح کے حادثے کا شکار ہوچکا تھا۔ تاہم میں یہ ماننے کو ہرگز تیار نہیں تھا کہ میری اس معذوری کے سبب شیرنی کو کوئی فائدہ ملے گا کیونکہ ہم دونوں ایک دوسرے کی جان کے دشمن تھے اور کسی کو برتری حاصل نہیں تھی۔
واپس اسی گھاس پھونس پر لوٹ کر میں نے شیرنی کو اپنی بصارت کی مدد سے تلاش کرنا شروع کیا۔ جنگل ہر طرح کے جانوروں اور پرندوں سے بھرا ہوا تھا اور مجھے بار بار سانبھر، کاکڑ اور لنگوروں کی آوازیں آتی رہیں اور کئی بار میں نے مرغ زریں اور دیگر پرندوں کی آوازیں سنیں جو شیرنی کو دیکھ کر بول رہے تھے۔ اس بار میں نے ان آوازوں پر کوئی توجہ نہیں دی حالانکہ اگر میری سماعت ٹھیک کام کر رہی ہوتی تو میں انہیں پوری توجہ سے سنتا۔میں نے شیرنی کا تعاقب جاری رکھا اور قدم بقدم آگے بڑھتا رہا۔ شیرنی بار بار رک کر پھر آگے بڑھ رہی تھی۔ اس کا رخ پہاڑ کے اوپر کی جانب تھا۔ کئی بار شیرنی کی حرکت سیدھی لکیر اور کئی بار آڑی ترچھی تھی۔ پہاڑ کی چوٹی کے پاس سو گز چوڑا گھاس کا ایک قطعہ تھا۔ اس کے بعد کھلی زمین تھی جس پر دو جگہ جھاڑیاں اگی ہوئی تھیں اور پہاڑ کی چوٹی کو جانے والا راستہ ان کے بیچ سے گذرتا تھا۔ چھدری گھاس پر میں شیرنی کے پگ گنوا بیٹھا۔ شیرنی کو بخوبی علم تھا کہ اس کا تعاقب کیا جا رہا ہے اور وہ پوری طرح چھپ چھپا کر آگے بڑھ رہی تھی۔ دائیں جانب والی جھاڑیاں بائیں طرف والی کی نسبت 30 گز قریب تھیں۔ اس لیے میں نے پہلے اسے دیکھنے کا ارادہ کیا۔ ابھی میں ان سے ایک یا دو گز دور تھا کہ میں نے کسی بھاری جانور کے پیر تلے آ کر خشک ٹہنی ٹوٹنے کی آواز سنی۔ اس بارے مجھے پورا یقین تھا کہ یہ آواز بائیں جانب سے آئی ہے۔ بائیں جانب مڑ کر میں اسی طرف گیا۔ یہ اس دن میری دوسری غلطی تھی۔ پہلی غلطی جب میں نے اپنے آدمیوں کو آواز دے کر چائے بنانے کو کہا تھا۔ تاہم اس بارے مجھے میرے ساتھیوں نے بعد میں بتایا کہ کھلے قطعے سے نکل کر میں شیرنی کے عین پیچھے تھا اور جب میں بائیں جانب مڑا تو شیرنی جھاڑیوں کے چند گز اندر کھلی زمین پر لیٹی میری منتظر تھی۔
جب جھاڑیوں میں مجھے شیرنی کا کوئی سراغ نہ ملا تو میں واپس اسی کھلی زمین کو لوٹا۔ اسی وقت مجھےا پنے ساتھیوں کی سیٹی سنائی دی۔ میں نے مڑ کر ان کی جانب دیکھا اور ہاتھ اٹھا کر انہیں بتایا کہ میں انہیں دیکھ رہا ہوں۔ یہ لوگ میرے دائیں جانب کئی سو گز دور درخت پر بیٹھے تھے۔ انہوں نے پہلے اوپر اور پھر نیچے کی طرف ہاتھ ہلایا۔ وہ بتا رہے تھے کہ شیرنی پہاڑ کی چوٹی پر چڑھ کر دوسری جانب اتر گئی ہے۔
ہر ممکن تیزی سے میں نے آگے بڑھ کر دیکھا کہ دوسری جانب کھلی زمین ہے اور اس پر موجود گھاس کو کچھ عرصہ قبل آگ لگائی گئی تھی اور یہاں ہر طرف راکھ بکھری ہوئی تھی۔ حالیہ بارشوں سے یہ راکھ نم تھی۔ یہاں راکھ پر میں نے شیرنی کے پگ دیکھے۔ پہاڑ اب نیچے ہوتا ہوا اسی ندی کی جانب جا رہا تھا جسے تلہ کوٹ آتے وقت میں نے کئی میل اوپر سے عبور کیا تھا۔ یہاں لیٹ کر پانی پینے کے بعد شیرنی نے ندی عبور کی اور دوسری جانب کے گھنے جنگل میں گھس گئی تھی۔ چونکہ اب کافی دیر ہو رہی تھی اس لیے میں نے واپس لوٹ کر اپنے ساتھیوں کو اشارہ کیا کہ وہ بھی آ جائیں۔
جہاں سے میں نےشیرنی کے پگوں کا پیچھا شروع کیا تھا یہاں سے چار میل دور تھے لیکن مجھے سات گھنٹے لگے۔ اگرچہ دن کا اختتام ناکامی پر ہوا لیکن پھر بھی وقت بہت اچھے طریقے سے گذرا۔ مجھے نہ صرف شیرنی کا پیچھا کرنا تھا بلکہ اس کے حملے سے بھی بچنا تھا جبکہ میرے ساتھی درخت پر ہونے کی وجہ سے زیادہ تر وقت مجھے اور شیرنی کو بھی دیکھتے رہے تھے۔ بحیثیت مجموعی ہم سب اس سے پوری طرح لطف اندوز ہوئے۔ نور کے تڑکے ہم نکلے تھے اور رات کو آٹھ بجے کیمپ واپس پہنچے۔
اگلی صبح جب میرے ساتھی کھانا کھا رہے تھے تو میں نے شیروں کی کھالوں کی دیکھ بھال کی۔ میں نے انہیں نئی جگہ پھیلا کر نم جگہوں پر راکھ وغیرہ لگائی۔ شیروں کی کھال کی دیکھ بھال بہت احتیاط سے کرنی ہوتی ہے۔ چربی پوری طرح سے ہٹانی ہوتی ہے اور ہونٹوں، کانوں اور پیروں کے تلوں پر پوری توجہ دینی ہوتی ہے۔ ورنہ بال جھڑنے لگ جاتے ہیں اور کھال تباہ ہو جاتی ہے۔ دوپہر سے ذرا قبل میں چار ساتھیوں کے ہمراہ نکلا۔ دو ساتھی میں نے کیمپ اس نیت سے چھوڑ دیئے کہ وہ سراؤ کی کھال کی دیکھ بھال کریں گے۔ میرا رخ اسی جانب تھا جہاں گذشتہ شام شیرنی کا تعاقب چھوڑا تھا۔
یہ وادی جس سے ندی گذرتی تھی، کافی چوڑی اور نسبتاً ہموار تھی۔ اس کا رخ مغرب سے مشرق کی جانب تھا۔ وادی کے بائیں جانب میں نے گذشتہ روز شیرنی کا تعاقب کیا تھا اور بائیں جانب وہ پہاڑی تھی جس سے تنک پور والی سڑک گذرتی تھی۔ آدم خور کے ظہور سے قبل اس وادی میں تلہ کوٹ کے پالتو جانوروں کو چرنے کے لیے بھیجا جاتا تھا۔ نتیجتاً پوری وادی میں جگہ جگہ جانوروں کی پگڈنڈیاں سے بنی ہوئی تھیں اور جگہ جگہ چھوٹے چھوٹے ندی نالے بہہ رہے تھے۔ جگہ جگہ گھاس کے قطعے بھی موجود تھے جو گھنے جنگلوں سے گھرے تھے۔ سانبھر، کاکڑ اور ریچھ کے شکار کے لیے بہترین جگہ تھی اور ان کے پگ بکثرت تھے۔ لیکن آدم خور شیر کے شکار کے لیے انتہائی ناموزوں۔ بائیں جانب کی پہاڑی سے پوری وادی بخوبی دکھائی دیتی تھی اس لیے میں نے اپنے ساتھیوں کو دو دو سو گز کے فاصلوں پر چوٹی کے درختوں پر بٹھایا تاکہ وہ ساری صورتحال دیکھتے رہیں اور اگر مجھے ان کی مدد کی ضرورت ہو تو فوراً پہنچ سکیں۔ اب میں اس جگہ کو روانہ ہوا جہاں گذشتہ روز میں نے شیرنی کا تعاقب چھوڑا تھا۔
شیرنی کو میں نے 7 اپریل کو زخمی کیا تھا اور اب 10 اپریل تھی۔ عام طور پر زخمی شیر چوبیس گھنٹے بعد خطرناک نہیں رہتا کہ شکاری کو دیکھتے ہی حملہ کر دے۔ تاہم زخم کی نوعیت اور شیر کے مزاج سے بھی فرق پڑ سکتا ہے۔ ہلکے زخم والے شیر کے قریب اگر جایا جائے تو وہ خود اس جگہ سے ہٹ جاتا ہے تاہم گہرے زخم والا شیر کئی دن تک خطرناک ہو سکتا ہے۔ چونکہ مجھے اس شیرنی کے زخم کی نوعیت کا اندازہ نہیں تھا اور گذشتہ روز میرے تعاقب پر اس نے حملہ نہیں کیا تھا اس لیے میں نے اسے زخمی کی بجائے محض عام آدم خور شیرنی کے لینے کا سوچا۔ تاہم یہ آدم خور شیرنی بہت بھوکی تھی۔ جب اس نے عورت کو ہلاک کر کے اپنے بچوں کے ساتھ کھایا تھا تو اس وقت سے اب تک شیرنی بھوکی تھی۔
جہاں سے شیرنی نے ندی عبور کی وہاں تین فٹ چوڑا اور دو فٹ گہرا نالہ تھا جو بارش کے پانی کے کٹاؤ سے بنا تھا۔ شیرنی کا رخ اسی نالے کے اوپر کی طرف تھا۔ اس نالے کے کنارے گھنا جنگل تھا۔ پگوں کا پیچھا کرتے ہوئے میں ایک پگڈنڈی پر پہنچا۔ اس جگہ شیرنی نالے سے نکل کر پگڈنڈی پر دائیں جانب گئی تھی۔ 300 گز دور ایک گھنا درخت تھا جس کے نیچے شیرنی نے رات بسر کی تھی۔ شاید زخم کی تکلیف کی وجہ سے رات بھر وہ کروٹیں بدلتی رہی تھی لیکن جن پتوں پر وہ لیٹی تھی پر کسی قسم کا مواد یا خون نہیں تھا۔ اس جگہ سے میں نے شیرنی کے تازہ پگوں کا تعاقب جاری رکھا اور اس کی گھات سے بھی خبردار رہا۔ شام تک میں نے کئی میل تک اسی طرح شیرنی کا تعاقب جاری رکھا جو پگڈنڈیوں، نالوں، جنگلی جانوروں کی گذرگاہوں وغیرہ سے تھا۔ تاہم مجھے شیرنی کبھی بھی دکھائی نہیں دی۔ سورج ڈوبتے وقت میں نےا پنے ساتھی جمع کیے اور ہم کیمپ کو لوٹے۔ انہوں نے بتایا کہ جنگلی جانوروں اور پرندوں کی آوازوں سے انہیں شیرنی کی حرکت کا تو اندازہ ہوتا رہا لیکن شیرنی انہیں بھی دکھائی نہیں دی۔
جب آپ کسی آدم خور شیر کا پیچھا کر رہے ہوں جو زخمی نہ ہو تو ہوا کے رخ چلتے ہوئے سب سے زیادہ خطرہ عقب سے اور کسی حد تک دونوں اطراف سے بھی ہوتا ہے۔ تاہم جب ہوا پیچھے سے چل رہی ہو تو یہ خطرہ دائیں یا بائیں جانب سے ہوتا ہے۔ اسی طرح اگر ہوا دائیں طرف سے چل رہی ہو تو خطرہ بائیں جانب اور عقب جبکہ اگر ہوا بائیں سے چل رہی ہو تو خطرہ دائیں جانب اور عقب سے ہوتا ہے۔ تاہم کسی بھی صورت میں شیر کا سامنے سے حملہ کرنا خال خال ہی ہوتا ہے۔ میرے تجربے میں اگر شیر زخمی نہ ہو، چاہے آدم خور یا عام شیر، کبھی سامنے سے حملہ نہیں کرتا۔ عام حالات میں آدم خور شیر اتنے فاصلے سے حملہ کرتے ہیں جو ان کی ایک جست کے برابر ہوتا ہے۔ اسی وجہ سے ان کا سامنا کرنا زیادہ مشکل ہوتا ہے۔ زخمی شیر دس، بیس یا سو گز دور سے بھی حملہ کر سکتا ہے۔ پہلی صورت میں حملے کا سامنا کرنے کے لیے چشم زدن سے بھی کم وقت جبکہ دوسری صورت میں شکاری کو آرام سے رائفل اٹھا کر نشانہ لینے کا وقت مل جاتا ہے۔ تاہم دونوں ہی صورتوں میں شکاری کو فوراً گولی چلانی ہوتی ہے اور یہ دعا بھی کہ ایک یا دو چھٹانک سیسہ چند سو پاؤنڈ وزنی جانور کو روک لینے میں کامیاب ہو جائے گا۔ اس شیرنی کے بارے مجھے علم تھا کہ وہ جست نہیں لگا سکتی اس لیے اگر میں مناسب فاصلہ رکھوں تو قطعی محفوظ رہوں گا۔ تاہم چار دن پرانے زخم کے صدمے سے شیرنی کے نکل آنے کو بھی مدنظر رکھنا تھا۔
11 تاریخ کی صبح کو جب میں نے پگوں کا پیچھا شروع کیا تو میں نے فیصلہ کر لیا تھا کہ پتھر، جھاڑی، درخت یا کوئی بھی ایسی رکاوٹ کہ جس کے پیچھے شیرنی کے موجود ہونے کا امکان ہو، سے بچ کر چلوں گا۔ گذشتہ شام شیرنی کا رخ تنک پور والی سڑک کی طرف تھا۔ جب میں نے اس کی شب بسری کی جگہ دیکھی تو اس کے بعد سے اس کے تازہ پگوں کا تعاقب شروع کیا تھا۔ گھنی جھاڑیوں سے بچتے ہوئے کہ جن سے وہ خاموشی سے نہ گذر سکتی تھی، شیرنی آبی گذرگاہوں کے آس پاس منڈلا رہی تھی۔ صاف ظاہر تھا کہ شیرنی کی مٹرگشت بیکار نہیں تھی کیونکہ اس کا ارادہ پیٹ پوجا کا تھا۔ ایک جگہ اس نے چند ہفتے عمر کا کاکڑ کا ایک بچہ مار کر کھایا تھا۔ شاید یہ بچہ سو رہا تھا کہ شیرنی آن پہنچی اور اس کے ننھے کھروں کے سوا کچھ باقی نہیں بچا تھا۔ میرا شیرنی سے فاصلہ محض ایک دو منٹ جتنا تھا اور مجھے علم تھا کہ شیرنی کی بھوک کاکڑ کے بچے کو کھا کر مزید چمک اٹھی ہوگی۔ میں نے اپنی احتیاط مزید بڑھا دی۔ شیرنی کا راستہ بل کھاتا ہوا اور گھنی جھاڑیوں اور پتھروں سے ہو کر گذر رہا تھا۔ اگر میں بالکل تندرست ہوتا تو اس کا پیچھا کرتے ہوئے اب تک شاید میں شیرنی کو پا بھی چکا ہوتا لیکن میری صحت کافی بری تھی۔
میرے سر، گردن اور چہرے کی سوجن اب اتنی بڑھ گئی تھی کہ سر کو دائیں بائیں یا اوپر نیچے حرکت دینا ممکن نہیں رہا تھا اور بائیں آنکھ بند ہو چکی تھی۔ تاہم ابھی بھی میری دائیں آنکھ کام کر رہی تھی اور تھوڑا بہت سنائی بھی دیتا تھا۔
سارا دن میں نے شیرنی کا پیچھا جاری رکھا لیکن دکھائی نہیں دی۔ تاہم مجھے یقین ہے کہ شیرنی بھی مجھے نہیں دیکھ سکی۔ جہاں شیرنی گھنی جھاڑیوں سے گذرتی تو میں چکر کاٹ کر دوسری جانب سے پگوں کا پیچھا شروع کر دیتا۔ اس علاقے سے ناواقفیت بھی بہت بڑی معذوری تھی اور نہ صرف مجھے کئی میل کا اضافی سفر کرنا پڑا بلکہ مجھے شیرنی کی حرکات کا جائزہ لے کر اس پر گھات لگانے کی کوشش بھی ترک کرنی پڑی۔ شام کو جب میں نے واپسی کا رخ کیا تو شیرنی کا رخ اوپر گاؤں کی جانب تھا۔
کیمپ لوٹا تو مجھے پتہ چلا گیا کہ جس برے وقت کی مجھے توقع تھی اور جس سے میں ڈر رہا تھا، وہ آن پہنچا ہے۔ پھوڑوں میں بجلی کی لہریں گذرتی محسوس ہو رہی تھیں اور ایسے لگتا تھا کہ جیسے سر پر ہتھوڑے چل رہے ہوں۔ مسلسل شب بیداری اور کھانے کے نام پر محض چائے کی وجہ سے میرا حوصلہ پست ہو چکا تھا اور ایک اور رات اپنے بستر پر بیٹھ کر درد اور تکلیف کے مارے رت جگا کرنے کی ہمت میرے میں نہیں رہی تھی۔ یہ بھی علم نہیں تھا کہ اب کیا ہوگا۔ میں تلہ دیس اس نیت سے آیا تھا کہ لوگوں کو آدم خور سے نجات دلاؤں اور اپنا مشکل وقت بھی گذاروں۔ ابھی تک میں نے جو کچھ بھی کیا تھا اس سے یہاں کے لوگوں کی مشکلات ہی بڑھی تھیں۔ اب شیرنی اپنے قدرتی شکارسے محروم ہو چکی تھی اور جہاں آٹھ سالوں میں اس نے ڈیڑھ سو بندے ہلاک کیے تھے، اب زخم مندمل ہوتے ہی اس نے کہیں زیادہ انسان ہلاک کرنے تھے۔ اب میرے اور شیرنی کے بیچ ایک حساب تھا جو چکتا کرنا تھا۔ یہ رات بھی اتنی ہی مناسب تھی جتنا کوئی اور وقت۔ رات کے کھانے کی خاطر میں نے چائے کا کپ منگوایا جو عام پہاڑی انداز میں دودھ سے بنا تھا۔ چاندنی رات میں کھڑے ہو کر میں نے چائے پی۔ پھر میں نے اپنے سارے ساتھیوں کو جمع کیا اور کہا کہ گاؤں جا کر اگلے روز شام تک وہ میرا انتظار کریں۔ اگر میں واپس نہ لوٹوں تو سامان باندھ کر نینی تال چلے جائیں۔ پھر میں نے بستر کے پاس سے اپنی رائفل اٹھائی اور وادی میں اتر گیا۔ میرے ساتھی جو برسہا برس سے میرے ساتھ تھے، نے ایک لفظ بھی نہیں کہا۔ وہ بس وہیں کھڑے مجھے دیکھتے رہے۔ان کے گالوں پر چمکدار لکیریں شاید میرا تخیل ہوں یا پھر چاند کا عکس۔ تاہم جب میں نے مڑ کر دیکھا تو سارے اسی طرح کھڑے تھے جیسے میں نے چھوڑا تاھ۔ میرے بچپن کی بہترین یادیں وہ ہیں جب سردیوں کی چاندنی راتوں میں ہم دس بارہ بچے جنگل میں سیر کرنے نکلتے تھے اور واپس لوٹ کر ڈھیروں چائے پیتے تھے۔ ان سیروں سے میرے اندر سے جنگل کا خوف نکلا اور انہی کی وجہ سے مجھے رات کے وقت جنگل کی آوازوں سے واقفیت ہوئی۔ بعد کے سالوں نے مجھے اعتماد اور علم دیا۔ اس لیے 11 اپریل کی رات کو جب میں کیمپ سے نکلا تو خوب چاندنی پھیلی ہوئی تھی۔ میرا ارادہ تلہ دیس کی آدم خور کا خاتمہ کرنے کا تھا۔ تاہم نکلتے ہوئے میرا ارادہ نہ تو خودکشی کا تھا اور نہ ہی مجھے کسی قسم کا احساس کمتری تھا۔
مجھے شیروں سے بچپن سے ہی دلچسپی ہے اور میری زندگی کا زیادہ تر حصہ انہی علاقوں میں گذرا ہے جہاں شیر بکثرت دکھائی دیتے ہیں اس لیے میں نے بغور شیروں کا مشاہدہ کیا ہوا ہے۔ بچپن میں میری سب سے بڑی خواہش یہ تھی کہ شیر کو دیکھوں۔ جب کچھ بڑا ہوا تو یہ خواہش شیر کا شکار کرنے کی ہوگئی۔ جب پیدل شیر کا پیچھا کرتے ہوئے پرانی مزل لوڈنگ فوجی رائفل جو میں نے انگلستان جانےو الے ایک بندے سے پچاس روپے کے عوض لی تھی (میرا خیال ہے کہ اس نے یہ رائفل چوری کر کے شکار کے لیے استعمال کرنا شروع کر دی تھی)، سے شیر کا شکار بھی کر لیا تو پھر میری سب سے بڑی خواہش شیر کی تصویر لینا ہو گیا۔ وقت کے ساتھ ساتھ میری یہ تینوں خواہشیں پوری ہو گئی تھیں۔ درحقیقت شیروں کی تصاویر لیتے وقت مجھے شیروں کے بارے کچھ جاننے کا موقع ملا۔ حکومت کی طرف سے مجھے جنگلوں میں ہتھیار کے ہمراہ جانے کی آزادی تھی جو پورے ہندوستا ن میں محض ایک اور انسان کو دی گئی تھی۔ اس طرح پورے ہندوستان کے جنگل میرے لیے کھل گئے تھے۔ بہت بار دنوں، ہفتوں حتٰی کہ ایک بار ساڑھے چار ماہ تک میں شیروں کی فلم بناتا رہا تھا۔ اس طرح مجھے شیروں کے بارے کچھ معلومات ملیں مثلاً وہ کیسے اپنے شکار پر گھات لگاتے ہیں اور اسے کیسے ہلاک کرتے ہیں۔ شیر اپنے شکار کے پیچھے دوڑ کر اسے ہلاک نہیں کرتا۔ شیر یا تو مطلوبہ جانور کے راستے میں لیٹ کر یا پھر چوری چھپے اس کی جانب بڑھ کر حملہ کرتا ہے۔ دونوں صورتوں میں شیر کا حملہ محض ایک جست جتنے فاصلے سے ہوتا ہے یا پھر چند گز بھاگ کر شیر جست لگاتا ہے اور شکار پر جا گرتا ہے۔ اس لیے اگر جانور کسی بھی ایسی جگہ کے قریب سے نہ گذرے کہ جہاں سے شیر اس پر جست لگا سکتا ہو اور شیر کو چھپ کر حملہ کرنے کا موقع نہ دے اور جب اسے خطرہ دکھائی، سنائی یا سونگھ کر محسوس ہو تو فوراً بھاگ کھڑا ہو تو ایسا جانور بالعموم فطری موت ہی مرتا ہے۔
جانوروں کے برعکس تہذیب نے انسان سے اس کی قوت سماعت اور سونگھنے کی حس لے لی ہے۔جب انسانوں کو آدم خور سے خطرہ لاحق ہو تو انہیں اپنی حفاظت کے لیے محض اپنی بصارت پر ہی بھروسہ کرنا پڑتا ہے۔ اس لیے درد اور تکلیف سے بے تاب ہو کر جب اس رات کو میں شیرنی کے پیچھے نکلا تو میری ایک آنکھ بند تھی اور محض ایک آنکھ کام کر رہی تھی۔ تاہم مجھے یہ بھی علم تھا کہ اگر میں جھاڑیوں وغیرہ سے بچ کر چلوں تو شیرنی مجھے کچھ نہیں کہہ سکتی جبکہ میں شیرنی کو دور سے اپنی رائفل کی مدد سے ہلاک کر سکتا ہوں۔ اس لیے جب میں نے اپنے ساتھیوں کو اگلے روز شام کو نینی تال لوٹ جانے کا کہا تو اس سے میرا یہ مقصد نہیں تھا کہ آیا میں شیرنی کا مقابلہ کر بھی سکوں گا یا نہیں بلکہ میرا مقصد یہ تھا کہ اگر میں کہیں بے ہوش ہو جاؤں اور اپنا دفاع کرنے سے معذور نہ ہو جاؤں۔
جب آپ اپنے ذہن میں کسی جگہ کا تفصیلی نقشہ بنا لیتے ہیں تو اس کا یہ فائدہ بھی ہوتا ہے کہ کسی بھی مطلوبہ جگہ جانے کے لیے کوئی دشواری نہیں ہوتی۔ جہاں میں نے شیرنی کے پگوں کو چھوڑا تھا، پہنچ کر میں نے پھر سے کھوجی کا کام شروع کر دیا۔ تاہم اس وقت یہ تعاقب محض جنگلی اور پالتو جانوروں کی گذرگاہوں پر ہی کامیاب ہو سکتا تھا اور خوش قسمتی سے شیرنی بھی انہی راستوں پر چل رہی تھی۔ سانبھر اور کاکڑ اب کھلے میں نکل آئے تھے۔ کچھ کا مقصد پیٹ پوجا جبکہ کچھ اپنے تحفظ کے لیے آئے تھے۔ ان کی آوازوں سے مجھے شیرنی کی حرکات اور ممکنہ سمت کاکسی حد تک اندازہ ہوتا رہا۔
ایک تنگ اور بل کھاتی پگڈنڈی پر میں نے شیرنی کے پگ گھنے جھاڑ جھنکار سے گذرتے دیکھے اور چکر کاٹ کر دوسری طرف پہنچا تاکہ شیرنی کا پیچھا جاری رکھ سکوں۔ تاہم یہ چکر میری توقع سے زیادہ لمبا ہو گیا۔ جب دوسری طرف پہنچا تو کھلا میدان تھا جس میں اکا دکا درخت اگے ہوئے تھے۔ یہاں ایک بڑے درخت کے سائے میں میں رک گیا۔ اچانک سائے میں حرکت ہوئی تو مجھے اندازہ ہوا کہ لنگوروں کا غول اوپر موجود ہے۔ اس روز کے اٹھارہ گھنٹوں میں میں نے کافی فاصلہ طے کیا تھا اور اب یہاں میں کچھ دیر آرام کر سکتا تھا کہ لنگور مجھے شیرنی کی آمد سے خبردار کر دیتے۔
درخت کے تنے سے ٹیک لگا کر بیٹھے مجھے نصف گھنٹہ ہوا تھا کہ ایک بوڑھے لنگور کی آواز آئی۔ میرا رخ اسی جانب تھا جہاں سے شیرنی کی آمد متوقع تھی اس لیے میں نے بھی شیرنی کو لیٹتے دیکھ لیا۔ شیرنی میرے دائیں جانب سو گز دور تھی جبکہ گھنے جھاڑ جھنکار سے اس کا فاصلہ دس گز رہا ہوگا۔ رات کو گولی چلانے کی میری کافی مشق تھی کیونکہ سردیوں میں میں اپنے مزارعوں کی فصلوں کو سور اور ہرنوں وغیرہ سے بچانے کے لیے رات کو ان جانوروں کا شکار کیا کرتا تھا۔ چاندنی رات کو جب مطلع صاف ہو تو میں تقریباً ایک سو گز تک درست نشانہ لگا سکتا تھا۔ اکثر لوگوں کی مانند میں بھی نشانہ لگاتے ہوئے دونوں آنکھیں کھلی رکھتا ہوں۔ اس طرح نہ صرف مجھے اپنا نشانہ بلکہ جانور بھی دکھائی دیتا رہتا ہے۔ عام حالات میں میں نے شیرنی کے اٹھنے کا انتظار کیا ہوتا اور پھر گولی چلا دی ہوتی۔ تاہم چونکہ میری بائیں آنکھ بند تھی اس لیے سو گز پر گولی چلانا بہت مشکل کام تھا۔ سابقہ دو مواقع پر شیرنی نے رات ایک ہی جگہ گذاری تھی اور عین ممکن ہے کہ شیرنی اس بار بھی رات یہیں گذارتی۔ ابھی شیرنی کا سر ہوا میں بلند تھا اور وہ پیٹ کے بل لیٹی ہوئی تھی۔ اگر شیرنی پہلو کے بل لیٹ کر سو جاتی تو میں یا تو جھاڑیوں میں گھس کر اس کے عقب سے آتا اور جھاڑیوں کے کنارے پر رہ کر دس گز کے فاصلے سے اس پر گولی چلاتا۔ دوسری صورت یہ بھی تھی کہ میں یہاں سے براہ راست رینگتا ہوا اس کے اتنے قریب پہنچ جاتا کہ اس پرگولی چلا سکتا۔ تاہم جب تک شیرنی سونے یا کہیں اور جانے کا ارادہ نہ کر لیتی، میرے پاس یہاں بالکل خاموش اور بغیر حرکت کے ہی بیٹھنا تھا۔
کافی دیر تک، شاید نصف گھنٹہ یا اس سے بھی زیادہ وقت شیرنی اسی جگہ رہی۔ کبھی کبھار وہ سر کو دائیں یا بائیں گھما کر دیکھ لیتی تھی۔ لنگور بھی نیم بیدار حالت میں بول رہا تھا۔ آخرکار شیرنی اٹھی اور آہستگی اور تکلیف دہ انداز میں میرے دائیں جانب کو بڑھی۔ اس کا رخ جس طرف تھا، اس جانب دس پندرہ فٹ گہری اور پچیس گز چوڑی کھائی تھی جسے آتے ہوئے میں کافی نیچے سے عبور کیا تھا۔ جب شیرنی ڈیڑھ سو گز دور پہنچ گئی تو میں یہ سوچ کر اس کے پیچھے بڑھا کہ اب شیرنی مجھے شاید نہ دیکھ سکے۔ ایک درخت سے دوسرے کو بڑھتے ہوئے میں نے اپنی رفتار شیرنی سے کچھ زیادہ رکھی۔ جب شیرنی کھائی کے کنارے پہنچی تو ہمارا فاصلہ پچاس گز رہ گیا تھا۔ اب اس پر گولی چلانے کے لیے فاصلہ مناسب تھا لیکن شیرنی اس وقت سائے میں تھی اور محض اس کی دم روشنی میں دکھائی دے رہی تھی۔ کچھ دیر اسی طرح رکے رہنے کے بعد شیرنی نے نیچے اترنے کا فیصلہ کیا اور اتر گئی۔
جونہی شیرنی نظروں سے اوجھل ہوئی تو میں جھک کر آہستگی سے آگے کو بھاگا۔ تاہم سر جھکا کر بھاگنا انتہائی حماقت تھی کیونکہ چند قدم کے بعد ہی مجھے چکر آ گیا۔ میرے پاس ہی بلوط کے دو نوجوان درخت اگے ہوئے تھے جن کا درمیانی فاصلہ چند فٹ ہی تھا اور ان کی شاخیں ایک دوسرے سے الجھی ہوئی تھیں۔
اپنی رائفل کو ان درختوں کی جڑ میں رکھتے ہوئے میں دس یا بارہ فٹ کی بلندی پر چڑھا۔ اس جگہ میرے بیٹھنے کے لیے ایک شاخ اور پیر رکھنے کو دوسری جبکہ تیسری شاخ ایسی مناسب جگہ پر تھی کہ میں اس پر اپنا سر رکھ سکتا تھا۔ اپنے سامنے والی شاخ پر اپنے بازو رکھ کر میں نے اپنا سر اس پر ٹکایا اور اسی لمحے میرے سر میں موجود پھوڑا پھٹ گیا۔ تاہم خدا کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ اس کا رخ میرے دماغ کی جانب نہیں بلکہ باہر کی جانب تھا اور ناک اور بائیں کان سے مواد بہنے لگا۔
‘شدید درد سے اچانک نجات سے بڑی خوشی انسان کو کبھی نہیں مل سکتی’۔ جس بندے نے بھی یہ بات کہی ، شاید انتہائی تکلیف کا سامنا کر چکا ہوگا اور اسے اس تکلیف سے ملنے والی اچانک راحت کا پورا احساس ہوگا۔ نصف شب ہوگی جب مجھے تکلیف سے راحت ملی ۔پو پھٹ رہی تھی جب مجھے دوبارہ ہوش آیا۔ شاید میری ٹانگ میں شدید کھچاؤ پیدا ہوا تھا جس سے میری آنکھ کھلی۔ پتلی سی شاخ پر کئی گھنٹے بیٹھنے سے نچلا دھڑ سن سا ہو گیا تھا۔ کچھ دیر تک تو مجھے سمجھ ہی نہ آئی کہ میں کہاں ہو اور کیا ہو رہا ہے۔ جلد ہی شعور بیدار ہوا۔ چہرے، سر اور گردن کی سوج ختم ہو گئی تھی اور درد بھی نہیں تھا۔ بائیں آنکھ کھل چکی تھی اور تکلیف کے بغیر سر کو ہلانا بھی ممکن ہو گیا تھا اور نگلنے میں بھی تکلیف نہیں ہوتی تھی۔ شیرنی کو مارنے کا ایک موقع ہاتھ سے نکل گیا تھا لیکن اس سے کیا فرق پڑتا۔ میرا برا وقت ختم ہو چکا تھا اور اب میں شیرنی کا پیچھا دنیا کے دوسرے سرے تک بھی کر سکتا تھا اور جلد یا بدیر مجھے دوسرا موقع مل جاتا۔ جب میں نے شیرنی کو آخری بار دیکھا تھا تو اس کا رخ گاؤں کی جانب تھا۔ درخت پر چڑھتے ہوئے مجھے کافی تکلیف ہوئی تھی لیکن اب نیچے اترتے ہوئے مجھے بالکل بھی تکلیف نہیں ہوئی۔ رائفل اٹھا کر میں بھی گاؤں کی سمت بڑھا۔ راستے میں ندی پر رک کر میں نے اپنے کپڑے اور خود کو اچھی طرح دھویا۔ میری ہدایات کے برعکس میرے ساتھیوں نے رات گاؤں میں گذارنے کی بجائے کیمپ میں ہی رہنے کو ترجیح دی تھی لیکن رات بھر وہ آگ کے گرد جمع رہے تھے اور چائے کے لیے پانی کی کیتلی مسلسل آگ پر رکھی ہوئی تھی۔ پانی میں شرابور میں جب میں ان کے پاس پہنچا تو خوشی کے مارے انہوں نے نعرہ لگایا ‘صاحب آپ آ گئے اور اب آپ ٹھیک بھی ہو گئے’۔ میں نے جواب دیا ‘ہاں میں لوٹ آیا ہوں اور اب ٹھیک بھی ہو گیا ہوں’۔ جب کوئی ہندوستانی کسی سے وفاداری کا اظہار کرتا ہے تو وہ کسی لالچ یا دباؤ کے بغیر ہوتی ہے۔ جب ہم تلہ کوٹ پہنچے تو نمبردار نے دو کمرے ہمارے استعمال کے لیے مختص کر دیئے تھے کیونکہ کھلے میں سونا ان دنوں انتہائی خطرناک تھا۔ اس کے باوجود میرے ساتھی اس رات کو کھلے میں بیٹھے رہے تھے اور انہیں اگرچہ خطرے کا پوری طرح احساس تھا لیکن انہوں نے چائے کے لیے کیتلی تیار رکھی تھی مبادا کہ میں جلدی لوٹ آؤں۔ مجھے یہ تو یاد نہیں کہ میں نے چائے پی کہ نہیں لیکن یہ یاد ہے کہ جب میں لیٹا تو میرے جوتے اتارے جا رہے تھے اور کسی نے میرے اوپر کمبل ڈال دیا تھا۔ پرسکون نیند، گھنٹوں پر گھنٹے گذرتے گئے۔ کوئی مجھے عجلت میں بلا رہا تھا اور دوسرا بندہ اسے روک رہا تھا کہ مجھے جگانا مناسب نہیں۔ بار بار یہی خواب دہرایا جاتا رہا اور ہر بار تھوڑی بہت تفصیل فرق ہو جاتی۔ حتٰی کہ میں نیند سے بیدار ہوا اور مجھے یہ الفاظ صاف سنائی دینے لگے کہ صاحب کو فوراً جگاؤ ورنہ وہ بہت ناراض ہوں گے۔ گنگا رام کا جواب تھا کہ صاحب بہت تھکے ہوئے ہیں اس لیے ہم انہیں نہیں جگائیں گے۔ میں نے گنگا رام کو آواز دی کہ اس بندے کو اندر لے آئے۔ فورا ہی میرے خیمہ میں لڑکوں اور مردوں کا مجمع لگ گیا۔ انہوں نے بتایا کہ گاؤں کی دوسری جانب آدم خور نے چھ بکریاں مار ڈالی ہیں۔ جوتے پہنتے ہوئے میں نے اس مجمع پر نگاہ ڈالی تو ڈنگر سنگھ دکھائی دیا جو اس وقت بھی میرے ساتھ تھا جب میں نے شیرنی کے بچے مارے تھے۔ میں نے ڈنگر سنگھ سے پوچھا کہ کیا اسے اس جگہ کا علم ہے جہاں بکریاں ماری گئی تھیں اور کیا وہ مجھے وہاں تک لے جائے گا؟ ‘ہاں صاحب۔ بالکل لے جاؤں۔ مجھے علم ہے کہ بکریاں کہاں ماری گئی ہیں۔’ اس نے فورا ہی جواب دیا۔ نمبردار سے کہہ کر کہ وہ ہجوم کو وہیں رکھے، میں نے اعشاریہ 275 کی رائفل اٹھائی اور ڈنگر سنگھ کے ساتھ گاؤں کے راستے چل پڑا۔
میری نیند نے ساری تھکن اتار دی تھی اور چونکہ اب مجھے آرام سے قدم رکھنے کی ضرورت نہیں کہ سر کو جھٹکے نہ لگیں، میں کئی ہفتوں بعد پہلی بار بغیر دقت یا تکلیف کے چلنے کے قابل ہوا۔
9
جس روز میں تلہ کوٹ پہنچا تو یہی لڑکا ڈنگر سنگھ مجھے گاؤں سے گذار کر اس جگہ لے گیا تھا جہاں ایک بلند جگہ تھی اور جہاں سے دو وادیوں کا پورا منظر دکھائی دیتا تھا۔ دائیں جانب والی وادی بہت گہری اور ڈھلوان تھی اور دریائے کالی کی سمت جاتی تھی۔ اسی وادی کے بالائی سرے پر میں نے شیرنی کے دو بچے ہلاک کیے تھے اور شیرنی کو بھی زخمی کیا تھا۔ دوسری وادی میرے بائیں جانب تھی اور نسبتا کم ڈھلوان تھی۔ اس پر سے بکریوں کی ایک گذرگاہ تھی۔ اسی وادی میں بکریاں ماری گئی تھیں۔ اس راستے پر ڈنگر سنگھ اب بھاگنے لگا اور میں اس کے پیچھے پیچھے تھا۔ پانچ یا چھ سو گز تک کٹی پھٹی زمین پر بھاگنے کے بعد راستے سے ندی گذرتی تھی اور پھر وادی اس ندی کے بائیں کنارے پر چلی جاتی تھی۔ جس جگہ راستہ ندی سے گذرتا تھا، وہاں نسبتا مسطح زمین کا کھلا قطعہ تھا۔ اس پر دائیں بائیں چٹانیں سی تھیں اور ان کی دوسری جانب ایک کھڈ سا تھا۔ اسی کھڈ میں بکریاں ماری گئی تھیں۔
راستے میں ڈنگر سنگھ نے مجھے بتایا تھا کہ اسی وادی میں نیچے دوپہر کے وقت دس پندرہ لڑکے بہت سی بکریوں کو چرا رہے تھے کہ اچانک شیرنی نمودار ہوئی۔ ان کا خیال تھا کہ یہ آدم خور شیرنی ہے۔ شیرنی نے اچانک ہی حملہ کر کے چھ بکریاں گرا لیں۔ شیرنی کو دیکھتے ہی لڑکوں نے شور مچا دیا اور ساتھ ہی لکڑیاں جمع کرتے کچھ بندے بھی شور میں شامل ہو گئے۔ شور اور بکریوں کی بھگڈر کی وجہ سے شیرنی واپس چلی گئی لیکن کسی نے توجہ نہ کی کہ شیرنی کس سمت گئی ہے۔ تین بکریوں کی کمر ٹوٹ گئی تھی۔ باقی تین بکریوں کو اٹھائے یہ افراد سیدھا میرے پاس اطلاع دینے پہنچ گئے۔ تینوں زخمی بکریاں اسی جگہ موجود تھی۔
اس میں کوئی شک نہیں تھا کہ آدم خور ہی بکریوں کی قاتل تھی ۔ گذشتہ رات میں نے شیرنی کو گاؤں کی سمت جاتے دیکھا تھا۔ اس کے علاوہ مجھے میرے ساتھیوں نے بتایا تھا کہ میری آمد سے ایک گھنٹہ قبل کاکڑ ندی کے قریب سے بولا تھا جو ان سے سو گز دور تھی۔ وہ یہ سمجھے کہ کاکڑ مجھے دیکھ کر بھونک رہا ہے اس لیے انہوں نے آگ جلا لی۔ ان کی قسمت کہ انہوں نے آگ جلا لی کیونکہ بعد میں میں نے شیرنی کے پگ دیکھے جو آگ سے کترا کر گاؤں کی سمت چلے گئے تھے۔ ظاہر ہے کہ شیرنی کسی انسان کو شکار کرنے کے ارادے سے گئی تھی۔ چونکہ اسے کوئی انسان نہ مل سکا تو وہ گاؤں کے نزدیک ہی کہیں چھپ گئی۔ جب اسے موقع ملا تو اس نے چند لمحوں میں چھ بکریاں مار لیں۔ لیکن وہ اپنے زخم کی وجہ سے بری طرح لنگڑا رہی تھی۔
میں اس جگہ سے اچھی طرح واقف نہیں تھا اس لیے میں نے ڈنگر سنگھ سے پوچھا کہ اس کے خیال میں شیرنی کس سمت گئی ہوگی۔ اس نے وادی کے نیچے کی جانب اشارہ کر کے بتایا کہ شیرنی شاید اس طرف گئی ہو کیونکہ اس طرف گھنا جنگل تھا۔ ابھی میں شیرنی کے تعاقب کی نیت سے جنگل کے متعلق سوال کر رہا تھا کہ اچانک مرغ زریں بولنے لگے۔ ان کی آواز سنتے ہی ڈنگر سنگھ مڑا اور پہاڑی کے اوپر کی جانب دیکھنے لگا۔ میں نے اندازہ لگا یا کہ شاید یہ پرندے اس طرف سے بول رہے ہوں گے۔ ہمارے بائیں جانب کی پہاڑی بہت ڈھلوان تھی اور اس پر چند جھاڑیاں اور چند ٹنڈ منڈ سے درخت اگے ہوئے تھے۔ مجھے علم تھا کہ شیرنی کبھی بھی اس طرح کی چڑھائی کو پسند نہیں کرے گی۔ جب ڈنگر سنگھ نے مجھے پہاڑی کے اوپر کی جانب دیکھتے پایا تو اس نے مجھے بتایا کہ یہ پرندے پہاڑی کی کنارے ایک کھائی سے بول رہے ہیں۔ چونکہ پرندے ہماری نظروں سے اوجھل تھے اس لیے وہ صرف اور صرف شیرنی کو دیکھ کر ہی بول رہے تھے۔ ڈنگر سنگھ سے میں نے کہا کہ وہ فورا گاؤں کی سمت بھاگ کھڑا ہو۔ پھر میں نے رائفل سے اسے کور کیے رکھا حتٰی کہ وہ خطرے سے دور ہو گیا۔ پھر میں نے اپنے چھپنے کے لے جگہ تلاش کرنا شروع کی۔
وادی میں صرف صنوبر کے دیو قامت درخت موجود تھے جن پر تیس سے چالیس فٹ کی بلندی تک کوئی شاخیں نہیں تھیں۔ اس لیے ان پر چڑھنے کی کوشش کرنا کارِ دارد تھا۔ اب مجھے زمین پر ہی کہیں بیٹھنے کی جگہ تلاش کرنی تھی۔ دن کی روشنی میں تو میں کہیں بھی بیٹھ سکتا تھا لیکن اگر شیرنی رات تک واپس نہ آئی اور اسے بکری کی بجائے انسان کے گوشت کی تلاش ہوئی تو مجھے ابتدائی ایک یا دو گھنٹے قسمت پر بھروسہ کرنا ہوگا کیونکہ سورج غروب ہونے کے ایک یا دو گھنٹے بعد چاند نکلتا۔
کھائی کے ہماری جانب پر ایک کم بلند چٹانی سلسلہ سا تھا جس کے اختتام پر ایک بڑی مسطح چٹان تھی۔ اس کے پاس ایک اور نسبتا چھوٹی چٹان اور اس کے ساتھ ایک اور۔ چھوٹی چٹان پر بیٹھ کر میں نے دیکھا کہ میں بڑی چٹان کے پیچھے اس طرح چھپ گیا تھا کہ میرا سر دکھائی دے رہا تھا۔ شیرنی کے اسی جانب سے آنے کے امکانات تھے۔ میں نے یہیں بیٹھنے کا فیصلہ کیا۔ میرے سامنے چالیس گز چوڑی کھائی اور اس کا بیس فٹ بلند کنارہ دوسری جانب تھا۔ اس کنارے پر دس سے بیس گز تک مسطح زمین تھی جو دائیں جانب ڈھلوان کی شکل میں تھی۔ اس کے بعد پہاڑی اوپر کو اٹھتی ہوئی بہت ڈھلوان ہو گئی تھی۔ جب یہ لوگ بھاگے تو کھائی میں پڑی تینوں بکریاں زندہ تھیں جو اب مر چکی تھیں۔ شیرنی نے جب ان پر حملہ کیا تو ان کی کمر پر سے کھال نوچ لی تھی۔
مرغ زریں اب خاموش ہو گئے تھے۔ میں یہ اندازہ لگا رہا تھا کہ جب میں یہاں پہنچا تو مرغ زریں شیرنی کو آتے دیکھ کر بولے تھے یا جاتے دیکھ کر۔ پہلی صورت میں انتظار کافی مختصر اور دوسری صورت میں بہت لمبا ہوتا۔ میں اس جگہ دو بجے بیٹھا تھا اور نصف گھنٹے بعد دو ہمالیائی کوے اڑتے ہوئے آئے۔ یہ خوبصورت پرندے افزائش نسل کے موسم میں دیگر چھوٹے پرندوں کے گھونسلوں اور انڈوں کو تباہ کر دیتے ہیں۔ لیکن یہ جنگل میں موجود کسی بھی مردہ جانور کو تلاش کرنے میں مہارت رکھتے ہیں۔ مجھے ان کی آمد کا بہت پہلے علم ہو گیا تھا کیونکہ یہ بہت شور کرتے ہیں۔ جونہی ان کی نگاہ بکریوں پر پڑی تو وہ اچانک چپ ہو گئے اور آہستگی سے بکریوں کی جانب بڑھے۔ کافی دیر تک شش و پنج کے بعد آخر کار وہ اس بکری کی لاش پر اترے جس کی پشت سے کھال اتر گئی تھی اور کھانا شروع کر دیا۔ کافی دیر سے ایک بڑا گدھ اس مقام کے چکر لگا رہا تھا اور اب اس نے کوؤں کو دیکھا تو فورا ہی نیچے آ کر صنوبر کے درخت کی ایک خشک شاخ پر بیٹھ گیا۔ یہ گدھ شاہی گدھ کہلاتا ہے اور اس کے سینے پر سفید پر ہوتے ہیں جبکہ باقی کھال سیاہ اور سر اور ٹانگیں سرخ ہوتی ہیں۔ تمام گدھوں سے پہلے یہ گدھ مردہ جانور پر پہنچتے ہیں۔ چونکہ ان کی جسامت مختصر ہوتی ہے اس لیے جب دیگر نسلوں کے گدھ آ جائیں تو انہیں ہٹنا پڑتا ہے۔
گدھ کی آمد پر مجھے بہت خوشی ہوئی کیونکہ گدھ سے مجھے کافی اہم معلومات مل سکتی تھیں کیونکہ وہ کافی اونچی شاخ پر بیٹھا تھا۔ اگر گدھ نیچے اتر کر کھانا شروع کر دیتا تو اس کا مطلب تھا کہ شیرنی جا چکی ہے لیکن اگر وہ اپنی جگہ پر ہی رہتا تو اس کا مطلب تھا کہ شیرنی کہیں نزدیک ہی موجود ہے۔ اگلے نصف گھنٹے تک کوے لاش کھاتے رہے جبکہ گدھ اسی شاخ پر براجمان رہا۔ پھر اچانک سورج کے سامنے گہرے بادل چھا گئے۔ کچھ دیر بعد مرغ زریں پھر بولنے لگے اور کوے بھی شور مچاتے نیچے وادی کو اڑ گئے۔ شیرنی آ رہی تھی اور اس کی آمد میری توقع سے زیادہ جلدی ہوئی تھی۔ اب مجھے اس سے اپنا کل رات والا حساب برابر کرنے کا موقع ملنا تھا۔ پچھلی رات جب مجھے چکر آئے تو میں پیچھا جاری نہ رکھ سکا تھا۔
پہاڑی کے کنارے پر چند چھدری جھاڑیاں کھائی کے سامنے اگی ہوئی تھیں اور صاف دکھائی نہیں دیتا تھا۔ اب ان جھاڑیوں کے پیچھے میں نے شیرنی کا ہیولہ دیکھا۔ انتہائی آہستگی سے چلتی ہوئی شیرنی کھائی کے دوسرے بلند کنارے تک پہنچی اور اس دوران اس کا رخ مسلسل میری جانب تھا۔ چونکہ میرا صرف سر دکھائی دے رہا تھا اور ہیٹ میری آنکھوں تک جھکا ہوا تھا اس لیے جب تک میں کوئی حرکت نہ کرتا، شیرنی مجھے نہ دیکھ پاتی۔ اس لیے رائفل کو اس چٹان پر رکھے میں بے حس و حرکت بیٹھا رہا۔ میرے عین سامنے آ کر شیرنی اس طرح بیٹھی کہ ایک بڑے صنوبر کا تنا ہمارے درمیان تھا۔ مجھے درخت کے ایک جانب شیرنی کا سر اور دوسری جانب اس کی دم اور پچھلی ٹانگیں دکھائی دے رہی تھیں۔ اس جگہ وہ کئی منٹ تک بیٹھی اپنے زخموں پر بھنبھنانے والی مکھیوں کو اڑاتی رہی۔
10
آٹھ سال قبل جب شیرنی نوجوان تھی تو سیہہ کے شکار میں اسے کافی زخم لگے۔ جب وہ زخمی ہوئی تو شاید اس وقت اس کے بچے بھی تھے۔ جب وہ اپنا قدرتی شکار کرنے کے قابل نہ رہی تو اس نے انسان کو شکار کرنا شروع کیا۔ اس طرح اگرچہ اس نے قانون فطرت کی کوئی خلاف ورزی نہیں کی کیونکہ وہ گوشت خور درندہ تھی اور گوشت چاہے انسانی ہو یا حیوانی، اس کی بھوک مٹانے کا واحد ذریعہ تھا۔ حالات سے مجبور ہو کر انسان ہو یا حیوان، ایسی خوراک کھانے پر تیار ہو جاتا ہے جسے وہ عام حالات میں پسند نہیں کرتا۔ آٹھ سال کے دوران شیرنی نے کل ڈیڑھ سو انسان ہلاک کیے تھے۔ یعنی ایک سال میں بیس افراد۔ میں یہ سوچنے پر مجبور ہوں کہ جب شیرنی کے ساتھ بچے ہوتے تھے اور وہ اپنی قدرتی خوراک حاصل نہ کر پاتی تو انسانوں کو خوراک بناتی تھی تاکہ خود کو اور اپنے بچوں کو پال سکے۔
تلہ دیس کے لوگ شیرنی کے ہاتھوں عاجز تھے تاہم شیرنی کو اب اپنے کیے کی سزا بھگتنی تھی۔ اس کی تکلیف کو ختم کرنے کے لیے میں نے کئی بار رائفل سے اس کے سر کا نشانہ لیا لیکن چونکہ گہرے بادلوں کی وجہ سے ساٹھ گز دور شیرنی کے سر کا نشانہ اتنا یقینی نہیں تھا، اس لیے میں رک گیا۔
بالاخر شیرنی اپنی جگہ سے اٹھی اور تین قدم چل کر میرے سامنے آڑی ہو کر رکی۔ اس کا رخ بکریوں کی جانب تھا۔ اپنی کہنیاں چٹان پر رکھ کر میں نے آرام سے اس جگہ کا نشانہ لیا جہاں میرے خیال میں شیرنی کا دل تھا، اور لبلبی دبا دی۔ گولی چلتے ہی میں نے شیرنی کی دوسری جانب پہاڑی سے مٹی اڑتے دیکھی۔ مٹی اڑتے دیکھتے ہی مجھے خیال آیا کہ شاید میری گولی خطا گئی ہے۔ تاہم اتنی احتیاط سے نشانہ لینے کے بعد غلطی کا امکان نہیں تھا۔ شاید میری گولی شیرنی کے جسم سے آر پار ہو گئی تھی۔ گولی کھاتے ہی ڈری ہوئی شیرنی نے تیزی سے دوڑ لگائی اور قبل اس کے کہ میں دوسری گولی چلاؤں، نظروں سے غائب ہو گئی۔
شیرنی نے مجھے گولی چلانے کا اتنا عمدہ موقع دیا تھا جو میں نے گنوا دیا۔ مجھے خود پر بے انتہا غصہ آ رہا تھا۔ لیکن میں نے فیصلہ کیا کہ شیرنی بچ کر نہیں جائے گی۔ چٹان سے کود کر اترا اور اس طرف کو بھاگا جہاں شیرنی غائب ہوئی تھی۔ اس جگہ چالیس فٹ گہری ڈھلوان تھی جس پر سے شیرنی چھلانگیں لگاتی اتری تھی۔ موچ کے خطرے کے پیش نظر میں بیٹھ کر پھسلتے ہوئے اس سے نیچے اترا۔ نیچے ایک اچھی خاصی پگڈنڈی تھی اور مجھے یقین تھا کہ شیرنی اسی پر گئی ہوگی۔ لیکن زمین کافی سخت تھی اور شیرنی کے پگ دکھائی نہیں دیے۔ راستے کے دائیں جانب پتھروں سے بھری ہوئی ایک ندی تھی۔ یہ وہی ندی تھی جو ڈنگر سنگھ اور میں نے کافی اوپر کی سمت عبور کی تھی۔ بائیں جانب پہاڑی تھی جس پر صنوبر کے اکا دکا درخت اگے ہوئے تھے۔ کچھ فاصلے تک یہ راستہ بالکل سیدھا تھا اور جب میں پچاس گز دور پہنچا ہوں گا کہ میں نے گڑھل کی چھینک سنی۔ گڑھل کی موجودگی صرف دائیں جانب کی پہاڑی پر ہو سکتی تھی اور میں نے سوچا کہ شاید شیرنی ندی عبور کر کے پہاڑی پر چڑھی ہو۔ میں رکا تاکہ شیرنی کو دیکھ سکوں تو مجھے محسوس ہوا کہ جیسے کئی بندے چلا رہے ہوں۔ مڑ کر دیکھا تو گاؤں کے کنارے پر بہت سارے بندے کھڑے تھے۔ جب انہوں نے مجھے متوجہ پایا تو ہاتھ ہلا کر مجھے سیدھا آگے بڑھنے کو کہا۔ اگلے لمحے میں پھر دوڑ رہا تھا۔ ایک موڑ مڑتے ہی میں نے راستے پر تازہ تازہ خون کے نشان دیکھے۔
جانوروں کی کھال کافی ڈھیلی ہوتی ہے۔ جب جانور کھڑا ہو اور اسے گولی لگے تو وہ پوری رفتار سے بھاگتا ہے۔ کھال پر بنا سوراخ گوشت پر موجود سوراخ کی سیدھ میں نہیں آتا۔ اس لیے جتنی دیر تک جانور بھاگتا رہے، یا تو خون بالکل ہی نہیں بہتا یا پھر بہت کم بہتا ہے۔ تاہم جب جانور کی رفتار سست پڑتی ہے تو کھال اور جسم کے سوراخ قریب آنے لگتے ہیں اور خون زیادہ تیزی سے بہنے لگتا ہے۔ جانور کی رفتار جتنی کم ہوتی جائے گی خون اتنا تیزی سے بہے گا۔ جب آپ کو گولی لگنے کا یقین نہ ہو تو عین اسی جگہ پر جائیں جہاں گولی چلاتے وقت جانور موجود تھا اور دیکھیں کہ وہاں کھال سے کٹے ہوئے کچھ بال تو نہیں پڑے۔ اگر بال موجود ہوں تو گولی لگی ہے اور اگر بال موجود نہیں تو گولی نہیں لگی۔
موڑ مڑنے کے بعد شیرنی کی رفتار سست ہو گئی تھی لیکن وہ ابھی بھی بھاگ رہی تھی۔ تاہم خون کے نشانات بڑھتے جا رہے تھے۔ اسے جا لینے کے خیال سے میں نے رفتار تیز کر دی۔ تاہم تھوڑی ہی دور اچانک بائیں جانب ایک ابھار سا آیا۔ اس ابھار کے بعد راستہ انتہائی تنگ موڑ مڑتا تھا۔ چونکہ میری رفتار بہت تیز تھی اور میں خود کو روک نہ سکا، اس لیے سیدھا نیچے گرا۔ دس یا پندرہ فٹ بعد خوش قسمتی سے ایک جنگلی جھاڑی اگی ہوئی تھی جو میں نے آسانی سے دائیں بغل میں دبا لی۔ مزید خوش قسمتی یہ کہ یہ جھاڑی مڑی تو سہی لیکن اپنی جگہ سے نہ اکھڑی۔ اس سے نیچے کافی گہری کھائی تھی جس میں تیز رفتار ندی گذرتی تھی۔ اس جگہ ندی مڑتی تھی جس کی وجہ سے ندی نے پہاڑی کو بری طرح کاٹ دیا تھا۔ پھر میں نے انتہائی احتیاط سے پیروں کے لیے پہاڑ پر جگہ بنانا شروع کر دی جہاں فرن بکثرت اگے ہوئے تھے۔
شیرنی کو جا لینے کا موقع تو ہاتھ سے نکل گیا تھا لیکن میرے سامنے اب خون کے نشانات تھے جن کا پیچھا کرنا بہت آسان تھا۔ اس لیے اب مجھے جلدی کرنے کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ یہ راستے پہلے شمال کے رخ جاتا تھا پھر مڑ کر پہاڑی کی شمالی جانب سے مغرب کو جانے لگا۔ پہاڑ کا یہ شمالی سرا کافی ڈھلوان اور گھنے جنگل سے بھرا تھا۔ مزید دو سو گز جانے کے بعد مسطح جگہ آئی۔ جسم میں گولی لگنے کے بعد میرے خیال میں شیرنی اس سے زیادہ دور نہ جا پاتی۔ اس لیے اس جگہ جہاں فرن وغیرہ اور جھاڑیاں بکثرت تھیں، میں بہت احتیاط سے پہنچا۔
جب زخمی شیر اپنے زخم کا بدلہ لینے پر تیار ہو تو ہندوستانی جنگل میں اس سے زیادہ خطرناک کوئی اور جانور نہیں ہوتا۔ شیرنی کچھ دیر قبل زخمی ہوئی تھی اور بکریوں کی ہلاکت اور پھر اب گولی لگنے کے بعد اس کی جست اور دوڑ سے ظاہر ہوتا تھا کہ پانچ دن قبل والا گولی کا زخم اس کے لیے کوئی مسئلہ نہیں رہا۔ مجھے علم تھا کہ جونہی شیرنی کو اپنے تعاقب کا پتہ چلا، وہ فوراً چھپ کر انتظار کرے گی اور موقع ملتے ہی جست لگا کر بدلہ لے گی جس کا سامنا کرنے کے لیے شاید میرے پاس ایک ہی گولی ہو۔ رائفل کی نالی سے گولی کو نکال کر میں نے اچھی طرح دیکھا۔ یہ گولیاں کلکتہ سے مینٹن نے مجھے تازہ تازہ بھجوائی تھیں۔ گولی کو میں نے پھر چیمبر میں ڈال کر بولٹ چڑھایا اور سیفٹی کیچ اتار دیا۔
راستہ فرن سے بھرا ہوا تھا جو کمر تک بلند تھے اور فرن راستے کے اوپر ملے ہوئے تھے۔ خون کے نشانات اسی راستے سے گذرتے تھے۔ شیرنی راستے پر ہی یا دائیں یا بائیں جانب لیٹی میری منتظر ہوتی۔ اس لیے میں انتہائی آہستگی سے اور پوری احتیاط سے چلتے ہوئے فرنوں تک پہنچا۔ میں نے پوری توجہ سامنے رکھی کیونکہ ایسے مواقع پر دائیں بائیں دیکھنا خطرناک ہوتا ہے۔ ابھی میں تین گز دور ہوں گا کہ میں راستے کے دائیں جانب ایک گز کے فاصلے پر کوئی حرکت دیکھی۔ شیرنی جست لگانے کے لیے تیار ہو رہی تھی۔ بھوکی اور زخمی ہونے کے باوجود شیرنی مقابلے کے لیے پوری طرح تیار تھی۔ تاہم وہ جست نہ لگا سکی۔ اس سے پہلے ہی میری ایک گولی اس کے آر پار ہوئی اور دوسری گولی سے اس کی گردن ٹوٹ گئی۔
بہت دنوں تک تکلیف اور پریشانی کے ساتھ ساتھ خالی پیٹ کی وجہ سے اب میں بری طرح کانپ رہا تھا اور اس مقام تک پہنچنے میں مجھے بہت مشکل ہوئی جہاں میں نیچے گرا تھا۔ اگر اس جگہ اس جھاڑی کا ایک بیج ہوا کے ساتھ اڑ کر نہ پہنچا ہوتا تو میں نیچے گر کر اپنی جان گنوا چکا ہوتا۔
پورا گاؤں پہاڑ کے سرے پر جمع تھا اور جب میں نے ہیٹ کو ہلانے کی نیت سے اتارا تو وہ سارے کے سارے خوشی سے چلاتے ہوئے نیچے بھاگے۔ میرے چھ ساتھی سب سے آگے تھے۔ مبارکبادوں کے بعد شیرنی کو ایک درخت سے باندھ کر پورے کماؤں میں سب سے زیادہ مغرور چھ گڑھوالی تلہ دیس کی آدم خور شیرنی کو لے کر گاؤں روانہ ہوئے۔ گاؤں میں انہوں نے شیرنی کو بھوسے کے ڈھیر پر رکھا تاکہ عورتیں اور بچے اسے دیکھ سکیں۔ میں اپنے خیمے کی طرف روانہ ہوا تاکہ کئی ہفتے بعد پہلی بار کوئی ٹھوس غذا کھا سکوں۔ ایک گھنٹے بعد ہجوم کے درمیان بیٹھ کر میں نے شیرنی کی کھال اتاری۔
اعشاریہ 275 کی نرم سرے والی گولی کا خول نکل کا تھا، سات اپریل کو اسے لگی اور شانے کے جوڑ میں گڑ گئی تھی۔ جب وہ ہوا میں گر رہی تھی اور جب پہاڑ پر چڑھتے ہوئے اس پر میں نے دوسری اور تیسری گولی چلائیں تو وہ خالی گئی تھیں۔ چوتھی گولی 12 اپریل کو چلائی گئی تھی اور اس کے جسم سے ہڈیوں سے ٹکرائے بغیر گذر گئی تھی۔ پانچویں اور چھٹی گولی سے شیرنی ہلاک ہوئی تھی۔ شیرنی کی اگلی دائیں ٹانگ اور شانے سے میں نے سیہہ کے دو انچ سے چھ انچ لمبے 20 کانٹے نکالے جو اس کے پٹھوں میں بری طرح پیوست تھے۔ انہی کانٹوں کی وجہ سے شیرنی آدم خور بنی تھی۔
اگلا دن میں شیرنی کی کھال خشک کرتے گذارا اور تین دن بعد میں اپنے گھر بحفاظت واپس لوٹ آیا تھا اور میرا برا وقت بھی ہمیشہ کے لیے رخصت ہو گیا تھا۔ بینس نے کمال مہربانی سے ڈنگر سنگھ اور اس کے بھائی کو الموڑا میں ایک عوامی اجتماع میں بلا کر ان کا شکریہ ادا کیا کہ انہوں نے آدم خور کی ہلاکت کے سلسلے میں میری مدد کی تھی اور انہیں انعام بھی دیا۔
نینی تال واپسی کے ایک ہفتے بعد سر میلکم ہیلی نے کانوں کے ماہر ڈاکٹر کرنل ڈک کے نام ایک تعارفی رقعہ دیا جنہوں نے مجھے لاہور میں تین ماہ اپنے ہسپتال میں داخل رکھا اور جب میں وہاں سے فارغ ہوا تو اس قابل ہو چکا تھا کہ دیگر افراد کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے کوئی جھجھک محسوس نہ کرتا اور جنگلی پرندوں کی آوازوں سے لطف اندوز ہونے کے قابل ہو چکا تھا۔