عبداللہ امانت محمدی
محفلین
آزاد امیدوار ’’ چوہدری محمد صادق آرائیں ‘‘ ، کی فتح کے موقع پر ، پرُ جوش ہجوم دیکھ کر چیئر مین صاحب اپنے مرکزی دفتر کی چھت پر چڑھ کر عوام الناس سے مخاطب ہوئے ۔ انہوں نے کہا : ’’ میرے مقابلے میں بڑے بڑے شیر اور بڑے بڑے جاگیردار آئے اور جنہوں نے میری مخالفت کی ، آج سے نہیں کی بلکہ آج سے اٹھارہ سال پہلے جب میں اس فیلڈ میں آیا تھا اس وقت سے کر رہے ہیں جبکہ غریب عوام میرے ساتھ رہی ہے یعنی آپ لوگ اور جو چوہدری تھے وہ میرے مخالف رہے ہیں ۔ میں نے اپنی کوشش جاری رکھی ، آج سے پندرہ سال پہلے میں شروع ہوا تھا اس منزل کے لئے ، اس عوام کی خاطر کہ ہماری آبادی تیرہ ہزار ہے اور دوسرے قصبوں کی آبادی کم ہے مگر ہمیں بھی اتنا ہی حصہ دیتے تھے جتنا دوسروں کو دیتے تھے ۔ جب بھی گئے ہیں کسی نے کہا فلاں چوہدری ہے اسے مانو فلاں کو مانو فلاں کو مانو ، مگر میں نے اپنی کوشش جاری رکھی اور تمہارا ساتھ میرے ساتھ رہا ہے اور اللہ کی مہربانی کے ساتھ جس طرح آپ لوگ ہو میں بھی اسی طرح کا ہی ہوں میں کوئی جاگیر دار نہیں اور نہ ہی میں کوئی وڈیرہ ہوں ۔ آپ لوگوں نے میرا ساتھ دیا ہے اور میں تمہارا ساتھ دیتا رہوں گا جب تک میری زندگی ہے ۔ باقی یہ جو چیئر مینی ہے یہ جو عزت ہے جو ۱۷ چک کی پگ ( یعنی سہرا ) ہے وہ تمہاری عزت ہے میری نہیں ۔ میں نے وہ سیاست نہیں کرنی کہ ایک گھر میں گیا دو بھائی ہیں ان کو لڑایا اور ایک ساتھ لیا اور دوسرے کو مشکل میں ڈال دیا ۔ ان شاء اللہ میں گاؤں میں اگر کوئی چھوٹا موٹا جگڑا یا کوئی معاملہ بنتا ہے تو میں ان شاء اللہ بیٹھ کے منت کر کے پاؤں پکڑ کے ان کی صلح کروانگا ان کا جگڑا نہیں کروانگا ۔ باقی میرا آپ کے ساتھ وعدہ ہے ان شاء اللہ کوئی گنڈہ گردی کوئی بد معاشی یا کوئی میرے ووٹر یا سپوٹر کو پریشان کرئے گا تو وہ اللہ کی مہربانی سے خود پریشان رہے گا ۔ اللہ کی مہربانی کے ساتھ جو کہتے تھے اس کے ہاتھ میں چیئرمینی یا ناظمی کی لکیر ہی نہیں ہے (عوام کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ) یہ دیکھو ! کتنی ساری لکیریں ہیں ۔ مجھے اللہ کی مہربانی کے ساتھ آپ لوگوں نے عزت دی ہے ۔ مجھے ۱۸ چک والوں نے عزت دی ہے مجھے ۱۵ چک والوں نے عزت دی ہے ۔ ۱۵ چک والوں نے ہمیں ۱۷ چک والوں کو عزت دی ہے جو ۱۵۰ ووٹ سے ادھر سے بھی جتوا کے بھیجا ہے ۔ جو میرے ساتھ نہیں بھی چلے میں ان شاء اللہ ان سے انتقام یا ایسی سیاست نہیں کرونگا ، میں تم میں سے ہوں اور میرے ۲۴ گھنٹے ، دن یا رات جب بھی کسی کو کام ہو میری ضرورت ہو میں ان شاء اللہ ۲۴ گھنٹے اس گاؤں میں تمہارے لئے حاضر ہوں ۔ باقی جو میرے دوست ، میری برادری کے یا جو بھی بھٹکے ہوئے تھے جو مجھ سے علیحدہ ہوئے تھے ان سب کو دعوت دونگا سارے گاؤں کو ساری یونین کونسل کو ساتھ لیکر چلونگا ان شاء اللہ ۔ اللہ کی مہربانی کے ساتھ میں بتاؤں گا کہ اپنا حق کس طرح لے کے آتے ہیں میں بتاؤں گا کہ اس گاؤں کے ساتھ کس طرح لوگ زیادتیاں کرتے رہے ہیں ۔ آ پ کا حق جو بنتا ہے میں ان شاء اللہ لے کر دیکھاؤں گا ان شاء اللہ ۔ جو ہمارا حق نہیں دے گا میں تمہیں سارے بھائیوں کو ساتھ لے کر جاؤنگا اور کہوں گا کہ ہمارا حق دو کیوں نہیں دیتے تم ؟ باقی ان شاء اللہ تھانے ، کچہری والی سیاست نہیں ہو گی میرا مطلب ہے کسی کو میری طرف سے کوئی پریشانی نہیں ہو گی ۔ اور نہ ہی میں نے ذہن میں بغض رکھا ہے اور نہ ہی میں زیادتی کرنے کے لئے تیار ہوں میرے لئے سارے برابر ہیں ۔ ان شاء اللہ میں تمہیں ساتھ لیکر چلونگا اور تمہارے جو بھی مسائل ہیں سب مل کر حل کریں گے ان شاء اللہ ۔ ‘‘
اللہ تعالیٰ سورۃ ال عمران کی آیت نمبر ۲۶ میں فرماتے ہیں کہ : ’’ آپ کہہ دیجئے اے اللہ ! اے تمام جہان کے مالک ! تو جسے چاہے بادشاہی دے اور جس سے چاہے سلطنت چھین لے اور تو جسے چاہے عزت دے اور جسے چاہے ذلت دے ، تیرے ہی ہاتھ میں سب بھلائیاں ہیں ، بے شک تو ہر چیز پر قادر ہے ‘‘ ۔ پوری دنیا میں ہر صاحب اقتدار پر لازم ہے کہ اللہ پاک کے احکامات کے مطابق فیصلے کرے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ’’ اور جب تم بات کرو تو انصاف کرو ، گو وہ شخص قرابت دار ہی ہو ‘‘ ، (الانعام : ۱۵۲ ) ۔ اور فرمایا : ’’ اور اگر تم فیصلہ کرو تو ان میں عدل و انصاف کے ساتھ فیصلہ کرو ، یقیناًعدل والوں کے ساتھ اﷲ محبت رکھتا ہے ‘‘ ، ( المائدہ : ۴۲ ) ۔آپ ﷺ نے فرمایا : ’’ قاضی (یعنی فیصلہ کرنے والے ) کے ساتھ اﷲ کی مدد اور تائید اس وقت تک رہتی ہے جب تک وہ ظلم نہیں کرتا ۔ لہٰذا جب وہ ظلم کرتا ہے تو اﷲ کی مدد کنارہ کشی اختیار کر لیتی ہے اور شیطان اس کے ساتھ ہو جاتا ہے ‘‘ ، ( ترمذی : ۱۱۹۴ ) ۔ سیدنا بریدہؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا : ’’ قاضی تین طرح کے ہوتے ہیں ، ایک جنتی اور دو جہنمی ، رہا جنتی تو وہ ایسا شخص ہو گا جس نے حق کو جانا اور اسی کے موافق فیصلہ کیا ، اور وہ شخص جس نے حق کو جانا اور اپنے فیصلے میں ظلم کیا تو وہ جہنمی ہے ۔ اور وہ شخص جس نے نا دانی سے ( یعنی بغیر جانے پہچانے ) لوگوں کا فیصلہ کیا وہ بھی جہنمی ہے ‘‘ ، ( ابو داود : ۳۵۷۳ ) ۔ اگر حکمران قرآن و حدیث کے مطابق فیصلے کریں تو ملک سے بدامنی ، افراتفری اور بے چینی جڑ سے ختم ہو جائے ۔
اللہ تعالیٰ سورۃ ال عمران کی آیت نمبر ۲۶ میں فرماتے ہیں کہ : ’’ آپ کہہ دیجئے اے اللہ ! اے تمام جہان کے مالک ! تو جسے چاہے بادشاہی دے اور جس سے چاہے سلطنت چھین لے اور تو جسے چاہے عزت دے اور جسے چاہے ذلت دے ، تیرے ہی ہاتھ میں سب بھلائیاں ہیں ، بے شک تو ہر چیز پر قادر ہے ‘‘ ۔ پوری دنیا میں ہر صاحب اقتدار پر لازم ہے کہ اللہ پاک کے احکامات کے مطابق فیصلے کرے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ’’ اور جب تم بات کرو تو انصاف کرو ، گو وہ شخص قرابت دار ہی ہو ‘‘ ، (الانعام : ۱۵۲ ) ۔ اور فرمایا : ’’ اور اگر تم فیصلہ کرو تو ان میں عدل و انصاف کے ساتھ فیصلہ کرو ، یقیناًعدل والوں کے ساتھ اﷲ محبت رکھتا ہے ‘‘ ، ( المائدہ : ۴۲ ) ۔آپ ﷺ نے فرمایا : ’’ قاضی (یعنی فیصلہ کرنے والے ) کے ساتھ اﷲ کی مدد اور تائید اس وقت تک رہتی ہے جب تک وہ ظلم نہیں کرتا ۔ لہٰذا جب وہ ظلم کرتا ہے تو اﷲ کی مدد کنارہ کشی اختیار کر لیتی ہے اور شیطان اس کے ساتھ ہو جاتا ہے ‘‘ ، ( ترمذی : ۱۱۹۴ ) ۔ سیدنا بریدہؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا : ’’ قاضی تین طرح کے ہوتے ہیں ، ایک جنتی اور دو جہنمی ، رہا جنتی تو وہ ایسا شخص ہو گا جس نے حق کو جانا اور اسی کے موافق فیصلہ کیا ، اور وہ شخص جس نے حق کو جانا اور اپنے فیصلے میں ظلم کیا تو وہ جہنمی ہے ۔ اور وہ شخص جس نے نا دانی سے ( یعنی بغیر جانے پہچانے ) لوگوں کا فیصلہ کیا وہ بھی جہنمی ہے ‘‘ ، ( ابو داود : ۳۵۷۳ ) ۔ اگر حکمران قرآن و حدیث کے مطابق فیصلے کریں تو ملک سے بدامنی ، افراتفری اور بے چینی جڑ سے ختم ہو جائے ۔